بدھ، 13 فروری، 2019

آخری نبی کا پہلاخلیفہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ

 ”سربکف “مجلہ۵(مارچ، اپریل ۲۰۱۶)
مولانا محمد الیاس گھمن﷾

جب سے دنیا بنی ہے کائنات میں اتنی بڑی آزمائش نہیں آئی جتنی نبی الانبیاء، امام الانبیاء ، فخر الانبیاء ، سید الانبیاء ، خاتم الانبیاء کی وفات کے دن پیش آئی ۔ ارض و فلک دم بخود ، آفتاب و ماہتاب اشکبار، حجر و شجر ساکت ، جن و انس مضطرب ، مدینہ طیبہ کے درو دیوار سے حزن و ملال کی آہیں ، اہل اسلام کا وہ کون سا فرد ہے جو حسرت و یاس کے عالم میں معطل حواس کے ساتھ رنجیدہ خاطر نہ ہو کہ کائنات کے ہادی اعظم اورمحسن اعظم نے پردہ فرما لیا، یعنی اللہ کے آخری نبی ، رسول اور پیغامبررفاقت اعلی کے عہد کی پاسداری کے لیے لبیک کہہ کراس جہان سےکوچ فرما گئے ۔ اللہ کے آخری نمائندے نے اپنے پہلے نمائندے کو اپنا اثاثہ ،اپنا سرمایہ اور اپنی امت سپرد کر دی ۔ 
بیت اللہ کو بسانے والے نبی کے اہل بیت جاں بلب ہیں ،صحابہ کرام رنج و گریہ کے عالم میں جدائی محبوب سے زمین میں گڑے جا رہے ہیں ،سوگوار فضاء میں اسلام ، اہل اسلام ، اسلامی ریاست اور حالات کو سنبھالتے ہوئے افضل البشر بعد الانبیاء کی ایمان افروز ، تسلی بخش اور مبنی بر حقیقت صدا گونجی:
لا یذیقک اللہ الموتتین ابدا 
آپ پر جو ایک موت  آنی تھی سو وہ آگئی۔ اب دوبارہ (قبر میں) آپ کو کبھی موت نہیں آئے گی ۔ بلکہ حیات ہی حیات حاصل رہے گی ۔گویا ان الفاظ سے امت کو یہ تسلی دی کہ ہمارا اور نبوت کا رشتہ بالکلیہ ختم نہیں ہوا بلکہ آپ کی رحمت اور گناہگاروں کے لیے استغفاراور دعاوالاسلسلہ جوں کا توں قیامت تک باقی رہے گا ۔
 اور اس کےبعدمحبوب کل جہاں کے رخ حسین تر ؛کی پیشانی مبارک سےحق و صداقت کے اعلان و اظہار کے لیے اپنے لبوں سے خیرات حاصل کی۔ پرنم بوجھل پلکوں اورفراق یار سے معموربوجھل سینے سے امت کی رہنمائی کے بوجھ کو اٹھانے کا عہد کیا ۔یہ عہد کرنے والے رسول اللہ کے پہلے خلیفہ ، امیر المومنین سیدنا ابو بکر صدیق ہیں ۔
 آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو جس مقام پر چھوڑ کر گئے تھے اس مقام سے آپ نے آگے کا سفر شروع کیا ۔ آپ کی زندگی حیات نبوت کی پرتو تھی ،علم و عمل ، تقویٰ وللہیت ،طور طریقے ، عادات و اخلاق، سلوک و احسان ، ماہ وسال ، سفر و حضر،نشیب وفراز ، مدو جزر ،مصائب وآسائش، جنگ و امن ،الغرض ہر شعبہ زندگی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرصع نگاری کے انمول شاہکار اور کمالات نبوت کے آئینہ دارتھے ۔
ولادت :
آپ کی ولادت واقعہ فیل سے تین سال بعد 573ء میں ہوئی ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ دو سال چند ماہ چھوٹے ہیں ۔
نام مبارک اورنسب:
امام زرقانی نے شرح المواہب میں لکھا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا نام عبد رب الکعبہ تھا ۔ امام قرطبی کے بقول حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کا نام عبداللہ تجویز فرمایا۔
تاریخ کی کتب میں مذکور ہے کہ آپ کے والد ماجد ابوقحافہ کانام "عثمان" تھا ،جن کا تعلق بنوتیم قبیلہ سے تھا اور نسب مبارک اس طرح ہے۔ 
ابوقحافہ عثمان بن عامر بن عمر بن کعب بن سعد بن مره بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر القرشی التيمی۔
جبکہ آپ کی والدہٴ ماجدہ کا نام "ام الخیر سلمی" تھا ، ان کا نسب مبار ک اس طرح ہے ۔
 سلمیٰ بنت صخر بن عمر وبن کعب بن سعد بن تيم ۔
کنیت:
کنیت ابوبکر ہے ۔ جس کے معنی سبقت کرنے ،پہل کرنے والے کے ہوتے ہیں۔  چنانچہ آپ ہر خیر کے کام میں سبقت فرمایا کرتے۔ مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول فرمایا ، دین اسلام کی اشاعت میں سب سے پہلے اپنا مال خرچ کرنے کی سعادت حاصل کی۔
عتیق و صدیق:
یہ دو آپ کے القاب ہیں۔ امام ترمذی نے اپنی سنن میں ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ کی ایک روایت ذکر کی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقد س میں حاضر ہوئے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 
”تم من جانب اللہ جہنم کی آگ سے آزاد (محفوظ) ہو۔“  اسی دن سے آپ کو عتیق کہا جانے لگا ۔
امام حاکم مستدرک علی الصحیحین میں ایک روایت نقل فرماتے ہیں کہ شب معراج کے اگلے دن مشرکین مکہ حضرت ابوبکر کے پاس آئے اور کہا ، اپنے صاحب کی اب بھی تصدیق کروگے ؟ انہوں نے دعوٰی کیا ہے"راتوں رات بیت المقدس کی سیر کرآتے ہیں"
ابوبکر صدیق نے کہا:"بیشک آپ نے سچ فرمایا ہے ، میں تو صبح وشام اس سے بھی اہم امور کی تصدیق کرتا ہوں"۔ اس واقعہ سے آپ کا لقب صدیق مشہور ہوگیا۔
حلیہ مبارک :
تاریخ کی کتب میں آپ رضی اللہ عنہ کے حلیہ مبارک کچھ اس طرح منظر کشی کی گئی ہے کہ آپ کا رنگ سفید ، رخسار ہلکے ہلکے ، چہرہ باریک اور پتلا ، پیشانی بلند ۔
بچپن :
ارشاد الساری اور مرقاۃمیں ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مہاجرین و انصار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تشریف فرماتھے تو سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے بچپن کا واقعہ سناتے ہوئے فرمانے لگے کہ یارسول اللہ ! میرےوالدزمانہ جاہلیت میں مجھےصنم کدےلے گئے اور بتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مجھ سے کہا یہ تمہارے خدا ہیں انہیں سجدہ کر۔ وہ تو یہ کہہ کر باہر چلے گئے۔ تو میں نے نے بتوں کو عاجز ثابت کرنے کےلیے کہا میں بھوکا ہوں مجھے کھانا دے ۔وہ کچھ نہ بولا ۔فرمایا :میں ننگا ہوں مجھے کپڑا پہنا ۔وہ کچھ نہ بولا ۔صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے پتھر ہاتھ میں لیکر فرمایا میں تجھ پر پتھر مارتا ہوں اگر تو خدا ہے تو اپنے آپ کو بچا ۔وہ پھر بھی کچھ نہ بولا تو آخر کار میں پوری قوت سے اس کو پتھر مارا تو وہ منہ کے بل گر پڑا ۔ عین اسی وقت میرے والد واپس آئے۔یہ ماجرا دیکھ کر فرمایا کہ یہ کیا کیا؟ میں نے کہا وہی جو آپ نے دیکھا ۔ وہ مجھے میری والدہ کے پاس لیکر آئے اور سارا واقعہ ان سے بیان کیا ۔انہوں نے فرمایا اس بچے سے کچھ نہ کہو کہ جس رات یہ پیدا ہوئے میرے پاس کوئی نہ تھا میں نے ایک آواز سنی کوئی کہنے والا کہہ رہا تھا: اے اللہ کی بندی! تجھے خوشخبری ہو اس آزاد بچے کی جس کا نام آسمانوں میں صدیق ہے اور جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دوست ہے ۔
آپ کے بچپن سے متعلق تاریخ الخلفاء میں ہے کہ ایک بار صحابہ کرام میں سے کسی نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ کیا آپ نے جاہلیت میں شراب پی ہے ۔آپ نے فرمایا خدا کی پناہ میں نے کبھی شراب نہیں پی ۔لوگوں نے کہا کیوں؟فرمایا میں اپنی عزت و آبرو کو بچاتا تھا اور مروت کی حفاظت کرتا تھا ۔اس لئے کہ جو شخص شراب پیتا ہے اس کی عزت و ناموس اور مروت جاتی رہتی ہے ۔جب اس بات کی خبر حضوررحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے دوبار فرمایا سچ کہا ابو بکر نے سچ کہا ۔
مبارک خواب :
سیرت حلبیہ میں ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ بغرض تجارت شام تشریف لے گئے وہاں آپ کی ملاقات بحیرا راہب سے بھی ہوئی وہ خوابوں کی تعبیر بتلایا کرتے تھے ۔ ان سے اپنا خواب ذکر کیا کہ میں نے خواب دیکھا کہ مکہ میں کعبۃ اللہ کی چھت پر چاند اترا ہے اور اس کی روشنی سارے گھروں میں پھیل گئی ہے پھر وہ روشنی میری گود میں آگئی ہے ۔ تو بحیرا راہب نے تعبیر دیتے ہوئے کہا کہ تو اس نبی کی تابعداری کرے گا جس کی اس زمانے میں انتظار کی جا رہی ہے اور اس کے ظہور کا زمانہ بہت قریب آچکا ہے تو اس نبی کے قرب کی وجہ سے لوگوں میں سب سے زیادہ سعادت مند ہوگا ۔
نوٹ : امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سیدنا صدیق اکبررضی اللہ عنہ خود بھی خواب کی تعبیر دینے میں اپنی مثال نہیں رکھتے تھے اور اسی طرح علم الانساب میں بھی آپ کا کوئی ثانی نہیں تھا ۔
ایمان :
خصائص الکبریٰ اور ریاض النضرہ میں ہے کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے شام میں خواب دیکھا ۔اس کی تعبیر بحیرا راہب سے پوچھی تو اس نے کہا کہ تیری قوم میں ایک نبی مبعوث ہوگا تو اس کی زندگی میں اس کا وزیر ہوگا اور اس کی وفات کےبعد اس کا خلیفہ ہوگا ۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اس بات کو اپنے دل میں چھپائے رکھا پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان نبوت فرمایا تو سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اللہ کے نبی سے اس پر دلیل مانگی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ اس کی دلیل وہ خواب ہے جو تو نے شام میں دیکھا تھا ۔چنانچہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی مبارک پر بوسہ دیا۔
مقام نگاہ نبوت میں :
آپ کا مقام نگاہ نبوت میں بہت بلند تھاحضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کوئی چیز ایسی اللہ تعالی نے میرے سینہ میں نہیں ڈالی جس کو میں نے ابو بکر کے سینہ میں نہ ڈال دیا ہو۔
صحیح مسلم میں ہےآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا ”وہ کون شخص ہے جس نے آج روزہ رکھ کر صبح کی ہو ؟“
ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا ”میں نے “
 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا ”وہ کون ہے جو آج جنازہ کے ساتھ گیا ہو ؟ “
حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا”میں ! “
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا !”وہ کون ہے جس نے آج مسکین کو کھا نا کھلا کر تسکین دی ہو ؟“
 ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ ”میں نے !“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا ،” وہ کون آدمی ہے جس نے آج کسی بیمار کی خبر گیری کی ہو ؟ “
ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا ،” میں نے !“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا ، ”یہ کام اُسی آدمی میں جمع ہوتے ہیں جو جنت میں جائے گا۔“
نوٹ : آپ کے مقام و مرتبہ پر کافی آیات و احادیث موجود ہیں ۔
صحبت و معیت:
قبول اسلام سے پہلے بھی سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بہت عمدہ تعلقات تھے اور قبول اسلام کے بعد تو ساری زندگی آپ سے لمحہ بھر کے لیے جدا نہ ہوئے ۔ یہاں تک کہ آج تک روضہ مبارکہ میں آپ کے پہلو میں ساتھ نبھا رہے ہیں ۔
ہجرت :
سیرت کی تمام معتبر کتابوں میں ہجرت کا واقعہ تفصیل کے ساتھ موجود ہے مختصرا یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں اللہ کے دین کی دعوت دیتے رہے بعض خوش نصیب افراد نے آپ کی دعوت پر لبیک کہا اور اسلام قبول کر لیا لیکن اکثر اپنی سرکشیوں کی وجہ سے آپ کو اور آپ کے رفقاء کار کو طرح طرح کی تکالیف دیتے چنانچہ اللہ کی طرف سے ہجرت کا حکم نازل ہوا ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر خطر سفر میں اپنے رفیق سفر کا جب انتخاب فرماتے ہیں تو آپ کی نگاہ سیدنا صدیق اکبر پر جا کر ٹھہرتی ہے ۔ اسی سفر میں وہ واقعہ بھی پیش آیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے کندھوں پر سوار ہو گئے اور چنانچہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اٹھا کر غار ثور تک پہنچے ۔ غار کی صفائی کی، آپ تین دن تک وہاں رہے ۔ آپ کی بیٹی روزانہ لوگوں کی نظروں سے بچ بچا کر آپ کےلیے کھاناپہنچاتیں۔ دشمن آپ کی تلاش میں پیچھے پیچھے غار تک پہنچ گیا ۔ یہاں تک کے اس کے قدم بھی دکھائے دینے لگے ۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو نبی کریم کے بارے میں خوف ہوا تو تسلی کے لیے قرآن کی آیات نازل ہوئیں مزید سیدنا صدیق اکبر کی صحابیت کا اعزاز بھی اپنے سینے پر تاقیامت نقش کردیا ۔اس غار میں وہ سانپ کے ڈسنے والا واقعہ بھی پیش آیا۔ جس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا لعاب دہن سیدنا صدیق اکبر کی ایڑھی پر لگایا ۔
خلافت :
سیرت حلبیہ اور دیگر کتب سیرت میں موجود ہے کہ امام محمد بن ادریس شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
” تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر اس لیے اتفاق کر لیا تھا کہ اس آسمان کے نیچے ابو بکر سے بہتر اور کوئی شخص نہیں تھا۔“
امام شاہ ولی اللہ محد ث دہلوی رحمہ اللہ نے اپنی معروف کتا ب ”ازالۃ الخفاء “ میں خلافت کے مفہوم پرنہایت ہی عمدہ اور لطیف بحث کی ہے۔جس کا خلاصہ یہ ہے:
” حضرت سرور ِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت عام تھی اور آپ تمام بنی نوع انسان کی ہدایت کے واسطے مبعوث ہوئے  تھے بعد بعثت آپ نے جن امور کا اہتمام کوشش بلیغ کے ساتھ فرمایا…تمام کوششوں کا مرجع اقامت دین تھی … علوم دین کا احیاء (قائم رکھنا اور رائج کرنا ) علوم ِ دین سے مراد ہے قرآن و سنت کی تعلیم اور وعظ و نصیحت ، ارکانِ اسلام نماز ، روزہ ، حج وغیرہ کا قیام و استحکام ، لشکر کا تقرر غزوات کا اہتمام ، مقد مات کا انفصال ، قاضیوں کا تقرر ، امر با لمعروف ( عمدہ افعال و اوصاف کا حکم دینا اور ان کو رائج کر نا ) و نہی عن المنکر ( بری باتوں کو روکنا اور ان کا انسداد کر نا ) جو حکام ِ نائب مقرر ہوں ان کی نگرانی کہ پا بند ِ حکم رہیں اور خلاف ورزی احکام نہ کریں ان جملہ امور کا اہتمام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہ نفس ِ نفیس فر ما یا اور ان کے انصرام کے واسطے نا ئب بھی مقرر ہوئے وعظ و نصیحت فر مائی ، صحابہ کو ممالک میں وعظ و نصیحت کے واسطے بھیجا ،جمعہ و عیدین و پنج وقتہ نماز کی امامت خود فر مائی ، دوسرے مقامات کے واسطے امام مقرر کیے ، وصول زکوٰة کے واسطے عامل ما مور کیے، وصول شدہ اموال کو مصارف مقررہ میں صرف کیا ،رویت ہلال کی شہادت آپ کے حضور میں پیش ہوئی اور بعد ثبوت روزہ رکھنے یا عید کرنے کا حکم صادر ہو تا ، حج کا اہتمام بعض اوقات خود فر مایا بعض اوقات نائب مقرر کیے جس طرح 9ہجری میں حضرت ابو بکر صدیق کو امیر حج مقرر کر کے بھیجا ، غزوات کی سپہ سا لاری خود کی نیز اُمراء نائب سے یہ کام لیا گیا مقد مات و معاملات کے فیصلے کیے گئے قاضیوں کا تقرر عمل میں آیا۔وغیرہ گویا خدائی احکامات کو نبوی منہج کے مطابق نافذ کرنے کا نام خلافت ہے ۔“
خاندان نبی کا خیال :
خلیفہ منتخب ہونے کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کا بہت زیادہ خیال فرمایا ۔ ان کی تمام معاشی و معاشرتی ضروریات کو پورا کیا ۔یہ ایسی عظیم الشان حقیقت ہے کہ تاریخ اسلام پر لکھی جانے والی تمام معتبر کتب اس بات پر گواہ ہیں ۔
خلافت کے بعد ابتدائی خطبہ:
امام ابن سعد نے طبقات اور امام ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں لکھا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تجہیز و تکفین و تدفین سے فارغ ہونے کے بعد دوسرے دن سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت عام ہوئی ۔ اس موقع پر آپ رضی اللہ عنہ نے ایک شاندار فقید المثال خطبہ دیا :
”حمد وثنا کے بعد فرمایا: لوگو!میں آپ لوگوں پر ولی منتخب کیا گیا ہوں حالانکہ میں تم سے بہترین نہیں ہوں ۔ اگر میں اچھی بات کروں تو تم میرا ساتھ دینا اگر میں خطا کروں تو میری غلطی درست کرا دینا۔ سچائی ایک امانت ہے اور جھوٹ خیانت۔ تم میں جو کمزور ہے وہ میرے نزدیک قوی ہے میں اس کا حق ضرور دلوائوں گا۔ اور جو تم میں سے قوی ہے میرے ہاں کمزور ہے میں اس سے پورا حق وصول کر وں گا۔ جو قوم بھی اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ترک کر دیتی ہے اس پر اللہ تعالیٰ ذلت و رسوائی ڈال دیتے ہیں اور جو قوم علانیہ برائیوں میں مبتلا ہو جاتی ہے اللہ تعالی ان پر مصائب و تکالیف مسلط کر دیتے ہیں ۔ جب تک میں اللہ اور اس کے رسول کی تابعداری کروں تم میری بات ماننا اور جب میں خدا اور رسول کی نافرمانی کروں تو تم پر میری اطاعت واجب نہیں اللہ تم پر رحم فرمائے اب نماز کا وقت ہو گیا ہے ۔“
ریاستی ذمہ داریاں:
تمام تاریخ نویسوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حضر ت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے خلیفہ منتخب ہونے کے بعد ریاستی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھایا ۔امن و آشتی ، عدل و انصاف ،خوشحالی و ترقی گھر گھر تک پہنچائیں،معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے اقدامات کیے اور مدینہ منورہ کے ریاستی انتظامات جیسے عہد نبوی میں چلے آ رہے تھے ان کو بحال رکھا۔
نمایاں کارنامے :
سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے بے شمار کارنامے ایسے ہیں جن پر دنیا رہتی دنیا تک ناز کرے گی ۔ حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مختلف ایسے فتنے رونما ہوئے جو اسلام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے اپنی توانیاں صرف کر رہے تھے ۔ ان میں مدعیان نبوت کا فتنہ سر فہرست ہے ۔یمن میں اسود عنسی ، یمامہ میں مسیلمہ کذاب ، جزیرہ میں سجاح دختر حارث ، بنو اسد و بنو طی میں طُلیحہ اسدی نے نبوت کے دعویٰ داغ دیے ۔ختم نبوت کوئی معمولی مسئلہ نہ تھا کہ جس کے لیے مصلحت اختیار کر لی جاتی ۔ بلکہ یہ تو اسلام کے اساسی و بنیادی عقائد میں شامل ہے ۔ اس لیے اس فتنے کے خلاف سیدنا صدیق اکبر نے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لائیں اور لشکر اسلامی کو بھیج کر ان کا قلعہ قمع کیا۔
فتنہ مانعین زکوٰۃ نے سر اٹھایا اور کہا کہ ہم سے زکوٰۃ وصول کرنے کا اختیار صرف رسول پاک تو تھا آپ کو نہیں ۔ آپ نے اس فتنے کا پوری قوت اور جوانمردی سے مقابلہ کیا اور برملا فرمایا کہ جو عہد نبوی میں زکوٰۃ دیتا تھا اور اب اگر اس کے حصے میں اونٹ کی ایک رسی بھی زکوٰۃ کی بنتی ہے وہ نہیں دیتا تو میں اس سے قتال کروں گا۔
اس کے بعد ہر سو کفار کی طرف سے جنگوں کی ابتداء ہوئی ۔ عراق میں آپ نے سیدنا خالد بن ولید کےتحت لشکر روانہ کیا ۔ عراق کے بہت سے مضافات آپ نے فتح کیے ۔ خورنق ، سدیر اور نجف کے لوگوں سے مقابلہ ہوا ۔ بوازیج ، کلواذی کے باشندوں نے مغلوبانہ صلح کی ۔ اہل انبار سےکامیاب معرکہ لڑا گیا ، عین التمر میں اسلام کو غلبہ ملا ، دومۃ الجندل میں اہل اسلام کامیاب ہوئے ، اس کے بعد حمید، فضیع اور فراض پر اسلامی لشکر فتح و نصرت کے پھریرے لہراتے گئے ۔لشکر صدیقی نے شام میں رومیوں کو ناکوں چنے چبوائے۔
جمع قرآن کی خدمت بھی آپ کے مبارک دور کی یادگار ہے ۔ قیامت کی صبح تک آنے والے ہرشخص پر آپ رضی اللہ عنہ کا احسان موجود ہے جتنے بھی لوگ قرآن پڑھتے رہے پڑھ رہے ہیں یا آئندہ پڑھیں گے ان کے ثواب میں سیدنا صدیق اکبر برابر کے شریک ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ تصوف یعنی سلوک و احسان کے سلسلہ نقشبندیہ میں آپ کی حیثیت بہت قابل قدر ہے ۔آپ کی علمی خدمات بھی موجود ہیں چنانچہ ایک قول کے مطابق ایک سوبیا لیس حدیثیں بہ روایت حضرت ابو بکر صدیق مر وی ہیں۔ جن کو امام جلال الدین سیو طی نے ”تاریخ الخلفاء “ میں ایک جگہ جمع کر دیا ہے ،اُمت کو فقہی معاملات میں جو مشکلات در پیش تھیں آپ نے اُ ن کا حل تجویز کیا مثلاََمیراث جدہ، میراث جد ، تفسیر ِ کلالہ ، حد شرب خمر۔وغیرہ ۔
وفات :
بالآخر وہ وعدہ وفا ہونے کا وقت آ پہنچا کہ ہر ذی روح موت کا پیالہ ضرور پیے گا چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ پہلا جانثار و فادار صحابی اور پہلا خلیفہ۱۳ ہجری جمادی الثانی کے ساتویں دن بیمار ہوئے اور ۱۵ دن علیل رہ کر ۲۲ جمادی الثانی مغرب اور عشاء کی درمیان فراق یار کو خیر باد کہہ کر وصال یار کے لیے عازم سفر ہوئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون .
وصیت اور تدفین:
الشریعہ میں امام آجری رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے کہ حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے وصیت کی تھی کہ جب میں فوت ہوجاؤں تو مجھے روضہ رسول کے سامنے رکھ دینا اور عرض کرنا کہ آپ کا غلام آیا ہے اگر اجازت مل جائے تو وہاں دفن کرنا ورنہ مجھے عام مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کردینا ۔ تفسیر کبیر میں امام رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وصیت کے مطابق آپ کی میت کو روضہ رسول کے سامنے رکھا گیا اور یوں عرض کی گئی :
” یارسول اللہ آپ کاغلام ابو بکر سامنے حاضر ہے ۔“
قبر مبارک سے آواز آئی
” محب کو محبوب تک پہنچا دو ۔“
 چنانچہ آپ کو روضہ رسول میں ہی دفن کیا گیا ۔٭


     

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں