جمعرات، 14 فروری، 2019

مومن کا روزہ

”سربکف “مجلہ۶(مئی، جون ۲۰۱۶)
حضرت مولانا سید مفتی مختار الدین کربوغہ شریف٭

مومن کا روزہ اس کی صفات شکر، صبر، رحم اور تقویٰ کو ترقی دیتا ہے اور تقویٰ یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی حدود اور احکامات اور جن چیزوں سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے اس معاملہ میں انتہائی محتاط رہے اور اس کی پوری نگہداشت کرے کہ کسی طرح اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا مرتکب نہ ہو جائے۔ پس متقی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور ناپسندیدہ چیز سے بچنے کی انتہائی کوشش کرتا ہے۔
 روزہ میں انسان بھوک، پیاس کو برداشت کرتا ہے۔ یہی چیزیں ایک طرف تو بھوکوں پیاسوں کا احساس دلاتی ہیں تو دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی قدردانی اور شکر میں اضافے کا سبب بنتی ہیں۔ کیونکہ جب شدت پیاس نہ ہو تو پانی کی اہمیت کا کیسے اندازہ ہو سکتا ہے؟ اسی طرح جب جائز چیزیں موجود ہوں اور اس کا جی بھی چاہتا ہے کہ اسے کھائے پئے یا استعمال کرے لیکن وہ اللہ تعالیٰ کے خوف سے کھاتا ہے نہ پیتا ہے تو یہ اس کے اندر ضبط اور حق پر جمنے یعنی صبر کی قوت کو بڑھاتا ہے اور خوب پیاسا ہے بھوکا ہے کھانا موجود ہے لیکن پھر بھی ہاتھ نہیں لگاتا۔ تو یہ اللہ تعالیٰ کی حضوری (کہ اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے )کو ترقی دیتا ہے اور جب پاک حلال چیزوں سے روکنے کی مشق ہوتی ہے۔ تو اس کی وجہ سے جو چیزیں حرام ہیں۔ ان سے بچنے کے بارے میں سخت محتاط ہو جاتا ہے۔ سال میں ایک ماہ، ماہ رمضان اسی اصلاح و تربیت کے لئے مقرر کیا گیا ہے۔ تاکہ انسان کی پوری زندگی ایک روزہ دار کی زندگی ثابت ہو جائے اور وہ ہر آن اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی چیزوں اور حدود کے متعلق محتاط رہے لیکن یہ اس وقت حاصل ہو گا۔ جب روزہ قانون اور رسمی انداز سے نہ رکھا جائے۔ بلکہ بندگی اور احتیاط کی روح سے بھری ہوئی مشق کے ساتھ ہو۔ ورنہ اگر روزہ میں حلال چیزوں کوتو وقتی طور پر چھوڑ دیا جائے۔ لیکن غیبت، دھوکہ دہی، جھوٹ، افتراء اور کمزوروں پر ظلم اور ان کے خلاف غصہ، گالی گلوچ، تجارت، معاملات میں سود، حرام اور نا جائز کا ارتکاب ہو رہا ہے۔ علماء سے مسئلہ معلوم کر کے نشہ اور دوائیں انجکشن کے ذریعے جسم میں اتار کر مزہ لیتا رہے۔ تو آخر اس روزہ سے صبر و استقامت، شکر، مہربانی اور تقویٰ کیسے پیدا ہو گا؟
چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ  ١٨٣؁ۙ
 ’’اے ایمان والوں تم پر روزہ فرض کیا گیا جس طرح پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ‘‘ 
(بقرہ۔ آیت:۸۵ )٭
اور نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
 ’’الصوم لی و انا اجزی بہ‘‘ یعنی روزہ (خاص )میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دیتا ہوں۔ ‘‘(بخاری و مسلم )
یعنی روزے سے اللہ تعالیٰ، اس کی محبت، اس کا صحیح تعلق اور اس کی خوشنودی ملتی ہے اور یہ اسی لئے ہوتا ہے کہ روزہ کی وجہ سے انسان خالص اللہ تعالیٰ کاہو کر رہ جاتا ہے اور اس حالت میں ترقی کرتا جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ جب یہ اللہ تعالیٰ کاہو کر رہے گا تو اللہ تعالیٰ بھی اس کاہو جائے گا۔ جیسا کہ نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے کہ
”من کان للہ کان اللہ لہٗ“
 ’’جو شخص اللہ تعالیٰ کاہو کر رہ گیا، اللہ تعالیٰ اس کاہو گیا۔ ‘‘ 
باقی رہے وہ روزے جن کو صرف رسمی طور پر رکھا جائے۔ تو ان سے قطعاً مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوں گے۔ چنانچہ ایسے روزہ داروں کے متعلق جو صرف قانوناً بھوکے پیاسے رہ کر حرام چیزوں سے بچنے کا اہتمام نہیں کرتے۔ نبی کریمﷺ فرماتے ہیں کہ
”من لم یدع قول الزور و العمل بہ فلیس للہ حاجۃ، ان یدع طعامہ و شرابہ“
 ’’جو شخص روزہ رکھتے ہوئے باطل کلام اور باطل کام نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کے بھوکے پیاسے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ‘‘(بخاری و مشکوٰۃ)
اور ایک دوسری حدیث میں ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: 
”رب صائم لیس لہ من صیامہ الا الجوع“ ” و رب قائم لیس لہ من قیامہ الا السھر“
مطلب یہ کہ ’’بہت سے روزہ رکھنے والے ایسے ہیں کہ ان کو روزہ (کے ثمرات )میں سے بجز بھوکا رہنے کے کچھ حاصل نہیں ہوتا اور بہت سے راتوں کو قیام کرنے والے ایسے ہیں کہ جن کو(تہجد کے اور راتوں کے )قیام کے ثمرات میں سے صرف جاگنے (کی مشقت )کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا‘‘(الترغیب والترہیب و مشکوٰۃ کتاب الصیام)
مگر افسوس یہ ہے کہ بعض بے رحم لوگ امت کو صرف قانونی اور رسمی چیزوں میں الجھائے رکھتے ہیں اور لوگوں کے سامنے اختلافی مسائل چھیڑتے ہیں اور انہی مسائل میں لوگوں کو ایسے الجھاتے ہیں کہ اصل مقاصد عوام کے ذہنوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں وہ غیر ضروری چیزوں کو مقصد بنا کر دین کے مقاصد سے دور ہٹ جاتے ہیں۔ نماز میں قنوت اور خشوع پرنہ زور دیا جاتا ہے، نہ ٹوکا جاتا ہے۔ بلکہ خود دین کے علمبردار ہو کر نماز میں وہ کام کرتے ہیں جو صرف قنوت، خشوع کے خلاف نہیں بلکہ صراحتاً سنت کے خلاف ہیں۔ مثلاً داڑھی سے اور کپڑوں سے اس طرح کھیلتے ہیں کہ گویا اللہ تعالیٰ کے سامنے نہیں بلکہ آئینہ کے سامنے کھڑے ہیں اور نماز میں وہ کرتوت کرتے ہیں کہ اس طرح وہ اپنے سے زیادہ منصب والے کے سامنے تو کیا اپنے برابر کے منصب والوں کے سامنے بھی نہیں کر سکیں گے۔ لیکن پھر بھی آمین بالجہر اور بالسِر، ہاتھ کو سینے پریا اس کے نیچے رکھنا وغیرہ جیسی چیزوں پر لڑتے ہیں اور ان چیزوں پر اپنے لوگوں کو اس طرح پکا کرتے ہیں کہ دوسروں کو کافر، مشرک، بدعتی یا تارک سنت وغیرہ قرار دیتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ بہت سے علماء ایسے بھی ہیں کہ وہ عوام کو یہی بتاتے ہیں کہ کیا تمہاری نماز نے تمہارے اندر رحم کی صفت پیدا کی ہے یا نہیں ؟تمہیں فحش، منکرات سے بچایا ہے یا نہیں ؟اور انھیں یہ بھی بتاتے ہیں کہ تم جب اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہوتے ہو تو عاجزی کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ اور عاجزی سے کھڑا ہونا تو ہر کوئی جانتا ہے کہ جس کی ہیبت اور عظمت تمہارے دل پر ہو تو پھر اس کے سامنے تم کیسے کھڑے ہوتے ہو۔ یہی عاجزی کے ساتھ کھڑا ہونا ہے۔ لیکن ایسے علماء امت کی اصلاح کے لئے ناکافی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو حقیقی نماز، روزہ کی توفیق عنایت فرمائے۔٭
٭٭٭

     

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں