”سربکف “مجلہ۵(مارچ، اپریل ۲۰۱۶)
سرونٹ آف صحابہ
حصہ دوم
ابن سبا یہودی شیعہ کتب میں ایسی حقیقت جس کا بہت سے شیعوں کو علم نہیں
ابولحسن محمد بن موسی النوبختی (متوفی 310 ھجری) یہ تیسری صدی میں شیعوں کے مایہ ناز علماء میں سے ہیں اس نے شیعوں کے فرقہ اور ان کے عقائد کے بارے مین لکہا ہے کتاب فرق الشیعہ ص 31 میں یہ الفاظ درج ہیں
”اور فرقہ جو کہتا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ قتل نہیں ہوئے اور نہ ہی ان کی وفات ہوئی ہے وہ تب تک نہیں مر سکتے جب تک وہ عربوں کو اپنی چھڑی سے نہ چلائیں اور جب تک زمین انصاف و برابری سے بھر نہ جائے جیسا کہ اب وہ جبر و طاغوت سے بھری ہے ۔“
یہ امت کا پہلا فرقہ ہے جس نے وقف پہ بات کی بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور پہلا جس نے غلو کیا اس فرقہ کو سبائیہ کہتے ہیں۔ یہ عبداللہ بن سبا کے ساتھی تھے یہ ابو بکر ، عمر و عثمان اور صحابہ رضی اللہ عنہم پر الزام بازی و تبرا کرتا تھا وہ کہتا تھا کہ علی رضی اللہ عنہ نے اسے ایسا کرنے کو کہا ہے ، علی رضی اللہ عنہ نے اسے گرفتار کروایا اور اس کے بارے میں پوچھا تو اس نے اقرار کیا۔ تب علی رضی اللہ عنہ نے اسے قتل کرنے کا حکم دیا لیکن لوگوں نے احتجاج کیا اور کہا اے امیر المومنین کیا آپ ایسے آدمی کو قتل کرتے ہیں جو کہتا ہے کہ وہ اہل بیت سے محبت کرتا ہے اور ان کے دشمنوں سے بیزاری کرتا ہے تب علی رضی اللہ عنہ نے اسے مدین کی طرف جلا وطن کردیا علی رضی اللہ عنہ اصحاب میں اہل علم کا کہنا ہے کہ عبداللہ بن سبا پہلے یہودی تھا پھر مسلمان ہوا علی رضی اللہ عنہ کا طرف دار ہوگیا جب یہودی تھا تو یہ وہی چیز یوشع بن نون کے بارے میں کہتاتھا موسی علیہ السلام کے بعد ، جب مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہی کہتا تھا یہ پہلا شخص تھا جس نے کہا کہ امامت علی کا ماننا فرض ہے اس نے کھلے عام علی رضی اللہ عنہ کے دشمنوں کے خلاف بات کی اور ان کو کافر قرار دیا۔یہی بات ہے جس کی وجہ سے مخالفین کہتے ہیں کہ رفض کی بنیاد یہودیوں سے لی گئی ہے۔
اب یہ بلکل ہی صاف اقرار ہے شیعوں کے علماء کی طرف سے نوبختی کا تنہا یہ قول ہی شیعوں کی پول کہول دیتا ہے جو وہ کہتے ہیں اموی ہی ابن سبا کے موجد ہیں صرف شیعوں کا پروپیگینڈہ ہے
الکشی اپنی رجال کی کتاب میں (ابن سبا شیعوں کی رجال کی کتب مین بھی ہے اب بھی یہ اس کا انکار کرسکتے ہیں) وہی اقرار کرتا ہے
بعض اہل علم نے ذکر کیا ہے کہ عبداللہ ابن سبا یہودی تھا اسلام لے آیا اور پھر حضرت علی کی ولایت کا قائل ہوا۔ اس پہلے جب یہ یہودی تھا تو حضرت یوشع کے بارے میں غلو کرتا تھا کہ وہ موسی کے وصی ہیں۔ اسلام لانے کے بعد اس قسم کی بات حضرت علی کے بارے میں کی۔ یہ سب سے پہلا شخص ہے جس نے حضرت علی کی امامت کا قائل ہونا فرض ہے اور ان کی دشمنوں پر اعلانیہ تبرا کیا۔اور مخالفوں کو کافر کہا یہی بات ہے جس کی وجہ سے مخالفین کہتے ہیں کہ رفض کی بنیاد یہودیوں سے لی گئی ہے۔
اب ہم بلکل سادہ الفاظ میں الکشی اور نوبختی نے جو کہا ہے بیان کرتے ہیں
1۔پہلا فرقہ جس نے غلو کیا اہل بیت کے بارے میں وہ سبائی ہیں ۔علی رضی اللہ عنہ ابن سبا کو جلادینا چاہتے تھے لیکن پھر اس کو انہوں نے جلاوطن کردیا اس کے بعد جب اس کے کچھ ساتھیوں نے کفر (علی خود خدا ہیں وغیرہ) کو بار بار زکر کیا تو انہوں ان کو جلا دیا (یہ جلادینے کی روایت سنی و شیعہ کتب مین ملتی ہیں)
2۔ یہ پہلا ہے جس نے سیدنا ابی بکر ، عمر و عثمان اور دوسرے صحابہ پر تبرا کیا اور ان سے بیزاری کا اعلان کیا (جیسے آج کے رافضی کرتے ہیں) اور کہا کہ اس کو ایسا کرنے کے لئے علی رضی اللہ عنہ نے کہا ہے (جیسے آج کے رافضی کہتے ہیں) علی رضی اللہ عنہ اسے قتل کرنا چاہتے تھے پر صرف لوگوں کے احتجاج کے بنا پر آپ نے اسے جلاوطن کردیا۔
3۔ نوبختی کہتے ہیں کہ علی علیہ السلام کے اصحاب میں سے اہل علم سمجھتے ہیں کہ عبداللہ بن سبا یہودی تھا (اصحاب علی کے الفاظ بعد کے شیعہ علماء نے نکال دئے)
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کچھ رافضیوں کی طرح شیعہ علماء سنی روایات شیعوں کے لئے نقل نہیں کرتے بلکہ وہ اقرار کرتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ کی پیروی کرنے والوں میں سے ایک گروہ یہ اقرار کرتا تھا کہ عبداللہ بن سبا کا وجود ہے اور وہ یہودی تھا جو کہ ہم نے نوبختی کی قول سے ثابت کیا ۔ ہم نے آپ سے پہلے وعدہ کیا تھا نہ ہم شیعوں کا پول کھول دیں گے جب وہ ابن سبا کا انکار کریں گے
بعد کے رافضی جانتے تھے کہ یہ قول
من أهل العلم من أصحاب علي عليه السلام أن عبد الله بن سبأ كان يهودي
ان کے لئے ایک بم کی طرح ہے اس لئے انہوں نے اس میں ترمیم کردی اور اس کا ضروری حصہ غائب کردیا تاکہ لوگ سمجھیں کہ اہل بیت یا اصحاب علی میں سے کسی نے نہیں کہا کہ ابن سبا کا وجود ہے
رافضیوں کے اس فراڈ کی مثال یہاں ہرہے جو ان کے علماء نے سچ کو چھپانے کے لئے کیا۔
نوبختی متوفی 310 ہجری لکھتا ہے
حکی جماعۃ من اہل العلم من اصحاب علی علیہ السلام ان عبداللہ بن سبا کان یہودیا فاسلم و والی علیا علیہ السلام و کان یقول و ہو علی یہودیتہ فی یوشع بن نون بعد موسی علیہ السلام بھذہ المقالۃ فقال فی اسلام
علی رضی اللہ عنہ اصحاب میں اہل علم کا کہنا ہے کہ عبداللہ بن سبا پہلے یہودی تھا پھر مسلمان ہوا علی رضی اللہ عنہ کا طرف دار ہوگیا جب یہودی تھا تو یہ وہی چیز یوشع بن نون کے بارے میں کہتاتھا موسی علیہ السلام کے بعد ، جب مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہی کہتا تھا
الکشی متوفی 340 نے اس میں ترمیم کرتے ہوئے من اصحاب علی علیہ السلام کے الفاظ نکال دئے اور لکھا کہ
حکی جماعۃ من اہل العلم ان عبداللہ بن سبا کان یہودیا
الخوئی نے پھر اور ترمیم کرتے ہوئے اہل علم کے الفاظ بھی نکال دئے اور لکھا کہ
معجم رجال الحديث – السيد الخوئي – ج 11 – ص 206 – 207
وقال الكشي : ” ذكر بعض أن عبد الله بن سبأ كان يهوديا
الخوئی نے الکشی کی عبارت نقل کی ہے کہ کچھ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن سبا یہودی تھا
اس فراڈ کی ایک اور مثال ملاحظہ کریں
یہاں الخوئی نے خیانت کرتے ہوئے الکشی کے الفاظ حذف کردئے جو یہ تھے
و ذکر بعض اہل العلم
ان الفاظ کو الخوئی نے بعض سے تبدیل کردیا ۔
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح کا اختلاف پیدا کیا گیا ہے بعد والا (الخوئی ) کہتا ہے کہ یہ انجان لوگوں کا خیال ہے کہ ابن سبا یہودی تھا پہلے والا (الکشی) کہتا ہے کہ یہ اہل علم تھے جو کہتے ہیں ابن سبا کا وجود ہے جو یہودی تھا حقیقیت میں پہلے والوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ وہ پہلا تھا جو ابوبکر عمر و عثمان پر تبرا کرتا تھا یہ پہلا تھا جس نے امیر المومینین کی امامت کے بارے میں بات کی یہ پہلا تھا جس نے کہا کہ علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی ہیں اس نے یہ بھی کہاکہ وہ یہ صرف اس لئے کہتا ہےکہ وہ اہل بیت سے محبت کرتا ہے (جیسے آج کے رافضی کہتے ہیں) وہ ان کی تابعداری اور ان کی دشمنوں سے بیزاری کی بات کرتا ہے اور دشمن سے اس کی مراد صحابہ ہے۔
تو ہم نے دو شیعہ علماء نوبختی اور کشی کا اقرار دیکہ لیا اس میں اور بھی ہیں
المامقانی ( یہ وہی کافر شیعہ عالم ہے جس نے اقرار کیا کہ شیعہ مذہب میں سواء تین سب صحابہ مرتد ہوگئے ) اپنی کتاب تنقیح المقال فی علم الرجال 2-183-184 پر کہتا ہے
عبد الله بن سبأ الذي رجع إلى الكفر وأظهر الغلو … غال ملعون، حرقه أمير المؤمنين عليه السلام بالنار، وكان يزعم أن علياً إله، وأنه نبي
عبداللہ بن سبا جو کہ کفر کی طرف پلٹ گیا اور مشہور غلوباز تھا اور لعنتیوں میں سے تھا امیر المومنین نے اسے آگ میں جلا دیا تھا وہ کہتا تھا کہ علی رضی اللہ عنہ خدا ہیں وہ یعنی عبداللہ بن سبا پیغمبر ہے
سعد بن عبداللہ العشری القمی المقالات الفراق ص ۲۰ پر کہتا ہے
السبئية أصحاب عبد الله بن سبأ، وهو عبد الله بن وهب الراسبي الهمداني، وساعده على ذلك عبد الله بن خرسي وابن اسود وهما من أجل أصحابه، وكان أول من أظهر الطعن على أبي بكر وعمر وعثمان والصحابة وتبرأ منهم
السبائیہ جو کہ عبداللہ بن سبا کے اصحاب تھے اور وہ عبداللہ بن وہب الھمدانی ہے اور جو کہ عبداللہ بن خرسی اور ابن اسود اس کی امداد کرتے تھے وہ اس کے ساتھیوں میں سے شاندار تھے یہ پہلا تھا جس نے اعلانیہ ابو بکر عمر و عثمان اور صحابہ پر تبرا کیا اور ان سے بیزاری کا اعلان کیا
کیکڑے کی طرح دکھنے والا نعمت اللہ الجزائری لکہتا ہے
قال عبد الله بن سبأ لعلي عليه السلام: أنت الإله حقاً، فنفاه علي عليه السلام إلى المدائن، وقيل أنه كان يهودياً فأسلم، وكان في اليهودية يقول في يوشع بن نون وفي موسى مثل ما قال في علي
عبداللہ بن سبا نے علی علیہ السلام کو کہا کہ آپ رب ہیں تب علی رضی اللہ عنہ نے اس کو مدین کی طرف جلا وطن کردیا کہا جاتا ہے کہ وہ یہودی تھا اسلام لے آیا جب یہودی تھا تو یوشع بن نون کے بارے میں وہی کہتا تھا جو علی رض کے بارے میں کہتا تھا
سب شیعہ علماء نے ابن سبا اس کے عقائد اور اس کے ساتھیوںکے بارے میں زکر کیا ہے سید قومی جو کہ 301 ہجری میں وفات پاگئے ، شیخ طائفہ الطوسی ، تستری نے قاموس رجال مین ، عباس قمی نے تحفہ الاحباب ، انصاری نے روضات الجنات ، ناسخ تاریخ اور روضات الصفا کے مصنفین نے بھی اس کا زکر کیا اس ساری بحث سے ہم نے یہ ثابت کردیا کہ عبداللہ بن سبا کا وجود ہے جو کہ یہودی تھا اور اس کی جس نے مدد کی یا اس کے عقائد اپنائے ان کو سبائی کہا جاتا ہے علماء شیعہ اس حقیقت سے بلکل واقف ہیں کہ وہ ہر ثبوت کو رد نہیں کر سکتے جو کہ ہم نے یہاں نقل کی ہیں اس کی وجہ یہ ہےکہ الکاشی مین امام ابن سبا کو لعنت کرتے دکہائی دیتے ہیں کیا امام ایک فرضی شخص لعنت کر سکتے ہیں ۔ اور وہ لوگ جو ابن سبا کے وجود کا انکار کرتے ہیں جن میں یاسر الخبیس ، العسکری ،الوائلی اور دوسرے رافضی ہین لیکن آپ نے دیکہا کہ ہم نے ان کے خیال کا رد پیش کیا اب ان کے پاس اس پر کہڑے رہنے کے لئے ٹانگ نہین ہے کیوں وہ ان کے اماموں نے ابن سبا کو لعنت کر کہ کھنچ لی ہے۔٭
(جاری۔۔۔)
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں