”سربکف “مجلہ۶(مئی، جون ۲۰۱۶)
منظور احمد چنیوٹی
اب ہم مرزا کے چند ایک جھوٹ پیش کرتے ہیں اس کے کذبات کا کما حقہ احاطہ کرنا کارے دارد ہے ۔ ہم نمونے کے طور پر چند اکاذیب مرزا بیان کریں گے۔
٭جھوٹ نمبر ۱
’’ اولیا ء گزشتہ کے کشوف نے اس بات پر قطعی مہر لگا دی ہے کہ وہ (مسیح موعود۔ ناقل) چودہویں صدی کے سر پر پیدا ہوگا اور نیز یہ کہ پنجاب میں ہوگا۔‘‘
(اربعین نمبر ۲ص۲۳ طبع چناب نگر(ربوہ) ، روحانی خزائن ج۱۷ ص۳۷۱)
﴿مطبع قادیان میں انبیاء کا لفظ ہے بعد کے ایک ایڈیشن میں یہ وضاحت کی گئی کہ یہ لفظ غلطی سے لکھا گیا اور اب نئے ایڈیشن میں یہ وضاحت بھی حذف کر دی گئی ہے ﴾
اولیا ء جمع کثرت ہے او ر جمع کثرت دس سے اوپر ہوتی ہے اس لئے کم از کم دس معتمد اولیاء کے نام پیش کرو جنہوں نے بذریعہ کشف مہر لگائی ہو اور ولی ایسا ہو جس کو دونوں فریق صحیح ولی مانیں ۔ ہم کہتے ہیں کہ مرزا کا یہ سفید جھوٹ ہے کسی مسلمہ ولی نے اس بات کی تصریح نہیں کی کہ مہدی چودہویں صدی میں ہوگا اور نیز یہ کہ پنجاب میں ہوگا ۔ یہ تمام اولیاء کرام پر جھوٹ ہے ۔
٭جھوٹ نمبر ۲
’’ اے عزیزو تم نے وہ وقت پا یا ہے جس کی بشارت تمام نبیوں نے دی ہے اور اس شخص کو یعنی مسیح موعود کو تم نے دیکھ لیا جس کے دیکھنے کیلئے بہت سے پیغمبروں نے بھی خواہش کی تھی ۔‘‘
(اربعین نمبر ۴ ص ۱۳،روحانی خزائن ص۴۴۲ ج۱۷)
یہ بھی بالکل صاف جھوٹ ہے کسی ایک پیغمبر سے یہ خواہش کرنا ثابت نہیں ہے ۔
ھاتوا برھانکم ان کنتم صدقین ۔
٭جھوٹ نمبر ۳
’’ یہ بھی یاد رہے کہ قرآن شریف میں بلکہ توراۃ کے بعض صحیفوں میں بھی یہ خبر موجود ہے کہ مسیح موعود کے وقت میں طاعون پڑے گی بلکہ مسیح علیہ السلام نے بھی انجیل میں یہ خبر دی ہے ۔‘‘
(کشتی نوح ص ۵، روحانی خزائن ص۵ ج۱۹)
اسی عبارت کے متعلق اسی صفحہ پر حاشیہ لکھا :
’’ مسیح موعود کے وقت میں طاعون کا پڑنا بائبل کی ذیل کی کتابوں میں موجود ہے :زکریا باب ۱۴ آیت ۱۲بائبل ۸۹۱، انجیل متی باب ۲۴ آیت ۸، مکاشفات باب ۲۲ آیت ۸،عہد نامہ جدید ص۲۵۹۔‘‘
اس عبارت میں ایک جھوٹ نہیں بلکہ خدا تعالی کی چار آسمانی کتابوں پر چار عدد جھوٹ ہیں ۔ مذکورہ کتب کے مذکورہ صفحات پر ہر گز مسیح موعود کے وقت طاعون کے پڑنے کا ذکر نہیں ہے ۔
مرزا ئی عذر:
جب مرزائیوں سے سوا ل کیا جا تا ہے کہ قرآن مجید میں مسیح موعود کے وقت طاعون پڑنے کا ذکر کہاں ہے تو مرزا ئی جواب دیتے ہیں کہ قرآن مجید کی اس آیت میں مسیح موعود کے وقت میں طاعون پڑنے کا ذکر ہے اور یہ آیت پڑھتے ہیں :
’’ وَاِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ اَخْرَجْنَا لَهُمْ دَاۗبَّةً مِّنَ الْاَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ……الخ‘‘ (پ۲۰ ، سورۃ النمل آیت ۸۲)
اور کہتے ہیں کہ مرزا صاحب نے اپنی کتاب نزول مسیح ص۳۸،۳۹،۴۰ ، روحانی خزائن ص۴۱۶تا ۴۱۸ ج ۱۸ میں اس ’’دابۃ الارض ‘‘ سے مراد طاعون لیا ہے اور مرزائی اس آیت کو طاعون پر اس طرح چسپاں کرتے ہیں کہ دابۃ الارض سے مراد چوہا ہے جو زمین سے نکلے گا اور تُكَلِّمُهُمْ کا مطلب ہے کہ ان کو کاٹے گا۔
• جواب اول:
کسی مفسر ، کسی محدث،کسی مجدد نے یہاں دابۃ سے مراد طاعون اور طاعون کا چوہا نہیں لیا ، یہ مرزا کا اپنا افترا ء ہے ہم بلا خوف تردید قادیانی امت کو چیلنج کرتے ہیں کہ وہ تیرہ صدیوں کے کسی مجدد کا نام پیش کریں جس نے اس آیت میں دابۃ الارض سے مراد طاعون لیا ہو ۔
• جواب ثانی :
اگر بالفرض تمہاری یہ من گھڑت تفسیر مان بھی لی جائے تو اس میں یہ کہاں لکھا ہے کہ یہ طاعون مسیح موعود کے وقت میں پڑے گا؟ تقریب تام نہیں ہے ۔
• جواب ثالث:
خود مرزا غلام احمد قادیانی نے اس آیت کی متعدد تفسیریں بیان کی ہیں۔ اپنی کتاب ازالہ اوہام ج۲ ص۲۰۹ ، روحانی خزائن ص۳۷۰ ج۳ پر لکھتا ہے :
’’ وَاِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ اَخْرَجْنَا لَهُمْ دَاۗبَّةً مِّنَ الْاَرْضِ ……الخ‘‘
﴿ سورہ ۲۷ ، اَلنمل: ۸۲﴾
یعنی جب ایسے دن آئیں گے جب کفار پر عذاب نازل ہو اور ان کا وقت مقرر قریب آ جائے تو ایک گروہ دابۃ الارض کا زمین سے نکالیں گے وہ گروہ متکلمین کا ہوگا جو اسلام کی حمایت میں تمام ادیان باطلہ پر حملہ کرے گا یعنی وہ علما ء ظاہر ہوں گے جن کو علم کلام اور فلسفہ میں ید طولیٰ ہوگا۔‘‘
اس عبارت میں خود مرزا نے دابۃ الارض سے مراد متکلمین و علماء ظاہر لئے ہیں ۔ معلوم ہوا دابۃ الارض سے مراد طاعون و طاعون کا چوہا نہیں ہے ۔
اسی طرح اپنی کتاب’ حمامۃ البشریٰ ‘ میں دابۃ الارض سے مراد علماء سوء لیا ہے :
’’ ان المراد من دابۃ الارض علماء سوء الذین یشھدون باقوالھم ان الرسول حق والقرآن حق ثم یعملون الخبائث ویخدمون الدجال کان وجودھم من الجزئین جزء مع الاسلام وجزء مع الکفر اقوالھم کاقوال المومنین وافعالھم کافعال الکافرین فاخبر رسول اﷲ ﷺ عن ان ھم یکثرون فی آخر الزمان وسموا دابۃ الارض لانہم اخلدو الی الارص وما ارادوان یرفعوا الی السماء ……الخ ‘‘
(حمامۃ البشریٰ ص۸۶، روحانی خزائن ص۳۰۸ج۷ )
یہاں مرز ا صاحب نے دابۃ الارض سے مراد علماء سوء یعنی منافقین کو لیا ہے پھر اس سے مراد طاعون کا چوہا کیسے ہو گیا ، کہاں علماء سوء کہاں علماء متکلمین اور کہاں طاعون کا چوہا، اور یہ تین اقوال آپس میں متضاد ہیں ۔ ایک ہی آیت کی تین تفسیریں مرز ا صاحب کے کذاب اور منافق ہونے کی واضح دلیل ہیں اور مرزا خود تسلیم کرتا ہے کہ جاہل ، پاگل ، مجنون منافق کے کلام میں تضاد ہوتا ہے ۔( ست بچن ص۳۱، روحانی خزائن ص ۱۴۳ج۱۰) معلوم ہوا کہ خود مرزا صاحب جاہل ، پاگل ، مجنون اور منافق ہیں۔
مذکورۃ الصدر حمامۃ البشریٰ کی عبارت میں ایک او ر جھوٹ بھی ہے کہ یہ ’’فاخبر رسول اﷲ ﷺ ‘‘ سے شروع ہوتا ہے ہم پوچھتے ہیں کہ حضور ﷺ نے یہ کس حدیث میں خبر دی ہے وہ حدیث پیش کریں ۔ یہ حضور ﷺ پر صریح افتراء اور بہتان ہے اور آپ ﷺ نے فرمایا :
’’ من کذب علی متعمدا فلیتبوا مقعد ہ من النار ‘‘
’’ یعنی جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولا پس وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے ‘‘
لہذا یہ جھوٹ بول کر بھی مرزا جہنمی ہوا۔
٭جھوٹ نمبر ۴:
’’ ہمارے نبی اکرم ﷺ نے اور نبیوں کی طرح ظاہری علم کسی استاد سے نہیں پڑھا مگر عیسی علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام مکتبوں میں بیٹھے تھے اور حضرت عیسیٰ نے ایک یہودی استاد سے تمام توراۃ پڑھی تھی ……۔ سو آنے والے کا نام جو مہدی رکھا گیا سو اس میں یہ اشارہ ہے کہ وہ آنے والا علم دین خدا سے ہی حاصل کرے گا اور قرآن و حدیث میں کسی استاد کا شاگرد نہیں ہو گا سو میں یہ حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ میرا حال یہی حال ہے کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ میں نے کسی انسان سے قرآن و حدیث یا تفسیر کا ایک سبق بھی پڑھا ہویا کسی مفسر یا محدث کی شاگردی اختیار کی ہو۔‘‘
(ایام صلح ص۱۴۷، روحانی خزائن ص۳۹۴ ج ۱۴)
یہ صریح جھوٹ ہے ۔ حضرت موسیٰ و عیسیٰ علیہما السلام نے کون سے مکتبوں میں بیٹھ کر تعلیم حاصل کی ؟ یہ ان انبیا ء پر صریح الزام ہے ، قرآن و احادیث صحیحہ سے ثابت کرو کہ حضرت عیسیٰ نے کون سے یہودی عالم سے توراۃ پڑھی تھی ۔ حالانکہ قرآن پاک میں ہے ’’ ویعلمہم الکتاب والحکمۃ والتوراۃ والانجیل ‘‘ یعنی میں خود ان کو تعلیم دوں گا اسی طرح قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ فرمائیں گے:
’’ واذاعلمتک الکتاب والحکمۃ والتوراۃ والانجیل ‘‘
اور جب میں نے کتاب اور حکمت توراۃ و انجیل سکھائی۔ (پ۷ سورۃ المائدۃ آیت ۱۱۰ رکوع ۱۰)
اس میں بھی تعلیم کی نسبت خدا تعالیٰ نے اپنی طرف کی ہے آگے جو اپنے بارے میں لکھا ہے کہ میرا یہی حال ہے ……الخ ۔یہ بھی صاف جھوٹ ہے ہم ثابت کرتے ہیں کہ مرزا کے متعدد اساتذہ تھے۔ کتاب البریۃ ص۱۶۱ تا ۱۶۳،روحانی خزائن ص۱۸۰ ۔ ۱۸۱ ج۱۳ کے حاشیہ پر اس کے اپنے ہاتھوں سے اس کی تعلیم کا حال موجود ہے جیسا کہ شروع میں گذر چکا ہے۔٭
• مرزائی عذر :
مرزائی ان ہر دو حوالوں میں تاویل کر کے تطبیق کرتے ہیں کہ یہ سفید جھوٹ نہیں ہے جو پڑھا ہے اس سے مراد قرآن کے ظاہری الفاظ ہیں اور جہاں لکھا کہ نہیں پڑھا اس سے مراد معارف و معانی ہیں۔
• جواب
یہ تاویل درج ذیل متعدد وجوہ سے غلط ہے :
وجہ اول:
مرزا غلام احمد نے اپنے حال کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حال سے تشبیہ دی ہے کیا حضور ﷺ نے بھی ظاہری الفاظ کسی استاد سے پڑھے تھے؟ یہ اس کا تشبیہ دینا بتا رہا ہے کہ وہ خود یہاں ظاہری الفاظ و معانی وغیرہ کا فرق مراد نہیں لے رہا ۔
وجہ ثانی :
اس سے معارف و معانی مراد لینا غلط ہے کیونکہ اس نے خود تین چیزیں بیان کیں :
۱) قرآن ۲) حدیث ۳) تفیسر
معارف و معانی تو تفسیر میں ہوتے ہیں یہ اس کا علیحدہ علیحدہ بیان کرنا یعنی ایک جگہ قرآن بولنا اور آگے تفسیر بولنا اس پر دال ہے کہ وہ ظاہری الفاظ و معارف دونوں کی نفی کر رہا ہے کہ دونوں میں میرا استاد کوئی نہیں ۔
وجہ ثالث:
اس عبارت میں یہ تاویل کرنا کہ اس سے مراد معارف و معانی ہیں ٹھیک نہیں ہے کیونکہ اس میں اس نے قسم اٹھائی ہے ’’ سو میں یہ حلفاً کہہ سکتا ہوں ……الخ‘‘ او ر قسم میں ظاہر معنی مراد ہوتا ہے وہاں تاویل استثناء وغیرہ نہیں چل سکتے مرزا صاحب نے خود قسم کے متعلق اصول بیان کیا ہے ،یہ بڑا اہم اصول ہے جو ہمیں نزول مسیح کی احادیث میں بھی کام دے گا ۔ جہاں نبی کریم ﷺ نے قسم اٹھا کر ایک مضمون بیان فرما یا ہے اسی طرح یہاں بھی یہ اصول کام دے گا اور ایک جگہ مرزا کا ایک مرید مرزا کی صفت میں یہ شعر کہتا ہے :
خدا سے تو خدا تجھ سے ہے واﷲ
ترا رتبہ نہیں آتا بیاں میں
مرزائی اس کی تاویل کرتے ہیں مگر چونکہ یہاں اس نے واﷲ کے لفظ سے قسم اٹھا دی اس لے تاویل نہیں چل سکے گی اس طرح یہ اصول بیشمار مواقع میں کام دے گا اصول یہ ہے :
’’ والقسم یدل علی ان الخبر محمول علی الظاھر لاتاویل فیہ ولا استثناء والا فای فائدۃ کانت فی ذکر القسم ‘‘
(حمامۃ البشریٰ ص۲۶ حاشیہ روحانی خزائن ص۱۹۲ج۷)
علاوہ ازیں خود مرزا صاحب نے تسلیم کیا ہے کہ تمام انبیا ء کا کوئی استاد اور اتالیق نہیں ہوتا :
’’اور تمام نفوس قدسیہ انبیاء کو بغیر کسی استاد اور اتالیق کے آپ ہی تعلیم اور تادیب فرما کر اپنے فیوض قدیمہ کا نشان ظاہر فرمایا۔‘‘
( دیباچہ براہین احمدیہ ص ۷ روحانی خزائن ج۱ ص۱۶)٭
(جاری ہے...)
٭٭٭
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں