بدھ، 13 فروری، 2019

احمد رضا خان کی تعریف میں علمائے دیوبند کی طرف منسوب جعلی حوالوں کی تحقیق (قسط ۲).

”سربکف “مجلہ۵(مارچ، اپریل ۲۰۱۶)
 مولانا ساجد خان نقشبندی ﷾


شبلی نعمانی صاحب کی طرف منسوب جعلی حوالہ:
کوکب نورانی صاحب لکھتے ہیں :
’’سیرۃ النبی نام کی مشہور کتاب لکھنے والے جناب شبلی نعمانی فرماتے ہیں :
مولوی احمد رضاخان صاحب بریلوی جو اپنے عقائد میں سخت متشدد ہیں مگر اس کے باوجود مولانا صاحب کا علمی شجرہ اس قدر بلند درجہ کا ہے کہ اس دور کے تمام عالم دین اس (مولانا احمد رضاخان صاحب ) کے سامنے پرکاہ کی بھی حیثیت نہیں رکھتے اس احقر نے بھی آپ ( فاضل بریلوی ) کی متعدد کتابیں جس میں احکام شریعت اور دیگر کتابیں بھی شامل ہیں اور نیز یہ کہ مولانا کے زیر سرپرستی ایک ماہ وار رسالہ الرضا بریلوی سے نکلتا ہے جس کی چند قسطیں بغور و حوض دیکھی ہیں جس میں بلند پایا مضامین ہوتے ہیں‘‘۔
 ( رسالہ ندوہ ،اکتوبر 1964،ص17،بحوالہ سفید و سیاہ ،ص113)
معارف رضا ،ص254پر ندوہ کا سن اشاعت 1964کی جگہ 1914ہے اور یہی صحیح ہے یہی حوالہ طمانچہ ،ص34و صاعقۃ الرضا،ص159پر بھی دیا گیا ہے ۔
شبلی نعمانی صاحب کی طرف منسوب اس جعلی روایت کے من گھرٹ ہونے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ اس میں جس کتاب ’’احکام شریعت ‘‘ کا تذکرہ ہے اس میں 1337 ؁ھ،1338 ؁ھ،1339 ؁ھ، تک کے سوالات موجود ہیں بلکہ اس کتاب میں موجود ایک رسالہ کا تاریخی نام الرمز المرصف علی سوال مولانا السید اصف 1339 ؁ھ ہے ( احکام شریعت ،ص210) یعنی احمد رضا خان کی وفات 1920 ؁ء سے ایک سال قبل 1919 ؁ء کے سوالات بھی موجود ہیں تو جو کتاب 1919 ؁ء تک چھپی ہی نہیں اسے شبلی نعمانی نے 1914میں کیسے پڑھ لیا ؟ خدا کے بندوں جھوٹ بولنے کا بھی کوئی سلیقہ ہوتا ہے ۔پھر اگر شبلی نعمانی واقعی ہی احمد رضا خان صاحب کو اتنا بڑا طرم خان سمجھتے تو اپنے شاگردوں سے ضرور ان کا تذکرہ کرتے مگر ماقبل میں بریلویوں ہی کا حوالہ گزر چکا ہے کہ سید سلیمان ندوی ؒ احمد رضا خان کو نہیں جانتے تھے ۔پھر شبلی صاحب کی طرف منسوب اس جملے:’’ مولانا صاحب کا علمی شجرہ اس قدر بلند درجہ کا ہے کہ اس دور کے تمام عالم دین اس (مولانا احمد رضا خان صاحب ) کے سامنے پرکاہ کی بھی حیثیت نہیں رکھتے‘‘ اس کے جھوٹا ہونے کیلئے کافی ہے کیونکہ احمد رضا خان نے جس نقی علی خان صاحب سے علم حاصل کیا اس کا ہندوستان کی علمی دنیا میں کوئی تعارف نہیں ۔مگر بریلوی حضرات کی ذہنیت کا اندازہ لگائیں کہ ان جھوٹے اقوال پر کس طرح رائی کا پہاڑ کھڑا کر دیا چنانچہ عبد الوہاب خان قادری خلیفہ مجاز مصطفی رضا خان لکھتا ہے :
ڈاکٹر صاحب ! بار بار اس عبارت کو غور سے پڑھیں شاید ’’پرکاہ ‘‘ کا مطلب آپ نہ سمجھ سکیں پرکاہ تنکے کو کہتے ہیں یہ آپ کے مسلمہ سند یافتہ شمس العلماء شبلی نعمانی میں جو متعدد کتب کے مصنف ہیں ( مگر کسی ایک کتاب میں احمد رضا جیسے نام نہاد محقق سے اس اعتراف کے باوجود استفادہ نہیں کیا ۔از ناقل)سیرۃ النبی (ﷺ) بھی ان کی لکھی ہوئی ہے یہ فرما رہے ہیں اس دور کے تمام عالم دین اس مولوی احمد رضاخان صاحب کے سامنے پرکاہ کی بھی حیثیت نہیں رکھتے اس دور کے عالم دین کہلانے والوں میں آپ کے اکابر و اصاغر سب داخل  ہیں ‘‘۔ ( صاعقۃ الرضا علی اعداء المصطفی ،ص159,160)
اندازہ لگائیں جو حضرات آج اس جدید میڈیا دور میں بھی ایسے جھوٹے بناوٹی حوالے تیار کر کے اس پر اتنی بڑی عمارت پروپگینڈے کی تعمیر کر سکتے ہیں وہ اگر حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف جعلی فتوی یا علمائے دیوبند پر جعلی الزامات منسوب کر دیں تو کیا بعید ہے ؟
علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منسوب جعلی حوالہ:
مولانا کوکب نورانی صاحب لکھتے ہیں :
’’جناب محمد انور شاہ کشمیری ( صدر مدرس دارالعلوم دیوبند ) فرماتے ہیں جب بندہ ترمذی شریف اور دیگر کتب احادیث کی شروح لکھ رہا تھا تو حسب ضرورت احادیث کی جزئیات دیکھنے کی ضرورت پیش آئی تو میں نے شیعہ حضرات و اہل حدیث و دیوبندی حضرات کی کتابیں دیکھیں مگر ذہن مطمئن نہ ہوا بالآخر ایک دوست کے مشورے سے مولانا احمد رضاخان بریلوی کی کتابیں دیکھیں تو میرا دل مطمئن ہوگیا کہ میں اب بخوبی احادیث کی شرح بلا جھجھک لکھ سکتا ہوں واقعی بریلوی حضرات کے سرکردہ عالم مولانا احمد رضاخان صاحب کی تحریریں شستہ اور مضبوط ہیں جسے دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مولوی احمد رضاخان صاحب ایک زبردست عالم دین اور فقیہ ہیں ‘‘۔ ( ماہنامہ ہادی دیوبند،جمادی الاولی ،1330 ؁ھ ،ص21بحوالہ سفید و سیاہ ،ص114)
معارف رضا ،ص252,253،طمانچہ ،ص39،صاعقۃ الرضا ،ص162,163۔
حضرت علامہ انورشاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ جیسے جلیل القدر محدث کا حدیث کی جزئیات کیلئے شیعہ و غیر مقلدین کی شروحات کی طرف مراجعت کرنا ہی اس روایت کے جھوٹے و جعلی ہونے کی دلیل ہے ۔اس روایت کو گھڑنے والا اتنا جاہل ہے کہ وہ شروحات لکھنے کی نسبت بار بار حضرت کشمیری رحمۃ اللہ علیہ کی طرف کررہا ہے حالانکہ حضرت کشمیری رحمۃ اللہ علیہ نے کبھی کوئی حدیث کی شرح نہیں لکھی بلکہ ان کے شاگردوں نے ان کی تقاریر کو جمع کرکے شائع کیا یعنی حضرت کشمیری کی تصانیف نہیں بلکہ امالی ہیں۔نیز ہم پوری رضاخانیت کو چیلنج کرتے ہیں کہ احمد رضاخان نے جو شروحات احادیث لکھی ہیں جن کی طرف علامہ کشمیری جیسا آدمی مراجعت کرتا تھا وہ کہاں ہیںِ کس نے طبع کی ہیں کہاں سے دستیاب ہوں گی؟علامہ کشمیری ؒ نے ترمذی کی شرح لکھنے کی بات کی ہے کہ اس کیلئے احمد رضاخان کی طرف مراجعت کرنا پڑی حالانکہ احمد رضاخان کی ترمذی کی نام نہاد شرح تو ان کے بیٹوں سے لیکر آج تک کے رضاخانیوں نے حقیقت میں کیا خواب میں بھی نہیں دیکھی ہوگی تو علامہ کشمیری ؒ نے کہاں سے دیکھ لی ؟سچ کہا
درووغ گو را حافظہ نہ باشد
ویسے ان جعلی حوالوں سے علمائے دیوبند کا صاحب کشف ہونا تو کم سے کم ثابت ہورہا ہے کہ جن کتابوں کو دنیا پر وجود ہی نہیں اور جو آگے چل کر کئی سال بعد طبع ہوکر معرض وجود میں آنی تھیں انہیں یہ اکابر پہلے ہی سے دیکھ لیتے تھے۔
مولانا اعزاز علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منسوب جھوٹا حوالہ:
دارالعلوم دیوبند کے شیخ الادب جناب اعزاز علی فرماتے ہیں یہ احقریہ بات تسلیم کر پر مجبور ہیں کہ اس دور کے اندر اگر کوئی محقق اور عالم دین ہے تو و ہ احمد رضاخان بریلوی ہے کیونکہ میں نے مولانا احمد رضاخان کو جسے ہم آج تک کافر بدعتی مشرک کہتے رہے ہیں بہت وسیع النظر اور بلند خیال علو ہمت عالم دین صاحب فکر و نظر پایا آپ ( فاضل بریلوی ) کے دلائل قرآن و سنت سے متصادم نہیں بلکہ ہم آہنگ ہیں لہذا میں آپ کو مشورہ دوں گا اگر آپ کو کسی مشکل مسئلہ میں کسی قسم کی الجھن درپیش ہو تو آپ بریلی میں جاکر مولایا احمد رضاخان صاحب بریلوی سے تحقیق کریں۔( رسالہ النور تھانہ بھون شوال المکرم 1342 ؁ھ ،ص40)
بحوالہ سفید و سیاہ ،ص114،معارف رضا ،ص252،طمانچہ ،ص40،صاعقۃ الرضا ،ص163,164
یہ رسالہ النور کس کا ہے ؟ کس نے لکھا ؟ اس کی کیا حیثیت ہے ؟ ان رضاخانیوں نے کبھی خود بھی یہ حوالہ دیکھا ہے ؟ اس جعلی روایت کو گھڑنے والے کو اتنا بھی علم نہیں کہ ان کا امام احمد رضا 1340میں وفات پا گیا تھا تو دو سال بعد 1342میں کیا مولانا اعزاز علی احمد رضاخان صاحب کی قبر میں بوسیدہ ہڈیوں سے علمی استفادہ کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں ؟
 شرم تم کو مگر نہیں آتی
اس کے جھوٹا ہونے کا ایک اور ثبوت یہ ہے کہ مولانا اعزاز علی کی طرف منسوب یہ قول : 
’’آپ ( فاضل بریلوی ) کے دلائل قرآن و سنت سے متصادم نہیں بلکہ ہم آہنگ ہیں‘‘
 حالانکہ مولانا اعزاز علی نے فتاوی دارالعلوم دیوبند میں جگہ جگہ علم غیب حاضر ناظر مختار کل اور بدعات پر احمد رضاخان کے دلائل کا رد کیا ہے ۔
علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ کی طرف منسوب جعلی حوالہ:
جناب شبیر احمد عثمانی فرماتے ہیں مولانا احمد رضاخان کو تکفیر کے جرم میں برا کہنا بہت ہی برا ہے کیونکہ وہ بہت بڑے عالم دین اور بلند پایہ محقق تھے مولانا احمد رضاخان کی رحلت عالم اسلام کا بہت بڑا سانحہ ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ‘‘۔
(ماہنامہ ہادی دیوبند،ذو الحجہ ،1369 ؁ھ ،ص21،بحوالہ سفید و سیاہ ،ص116،صاعقۃ الرضا ،ص164
مولانا احمد رضاخان کی وفات 1340 ؁ھ میں ہوئی تو وفات کے 29سال بعد 1369 ؁ھ میں ان کے سانحہ ارتحال پر افسوس کرنا پکار پکار کہہ رہا ہے کہ میں کسی بریلوی کذاب کے دماغ کا شاخسانہ ہوں۔
علامہ بنوری ؒ کے والد کی طرف منسوب حوالہ:
کوکب اوکاڑوی لکھتا ہے :
’’جناب محمد یوسف بنوری کے والد جناب زکریا شاہ بنوری فرماتے ہیں اگر اللہ تعالی ہندوستان میں (مولانا ) احمد رضا بریلوی کو پیدا نہ فرماتا تو ہندوستان میں حنفیت ختم ہوجاتی ‘‘۔ ( سفید و سیاہ ،ص116)
مولنا اوکاڑوی نے اس جھوٹ کا کوئی حوالہ نہیں دیا ایسے موقع پر حسن علی رضوی یوں گوہر افشانی کرتے ہیں :
’’اس الزام بد انجام کے ساتھ کوئی حوالہ نہیں نہ دارالعلوم منظر اسلام بریلی شریف کی روئیداد کا حوالہ ہے نہ بریلی شریف کے کسی روزنامہ اخبار یا ماہنامہ رسالہ کا حوالہ نہ کسی عام اخبارات میں ہندو پاکستان کے کسی اخبار کا سن اور تاریخ تعین کے ساتھ حوالہ لہذا یہ حوالہ حرامی ہے کسی دیوبندی ملاں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے اور جنم لیا ہے پھر اس مضمون کی ترتیب بھی بتارہی ہے کہ یہ حوالہ ولد الحرام ہے ‘‘۔
( محاسبہ دیوبندیت ،ج2،ص44،انجمن انوار القادریہ کراچی )
خلاصہ کلام کہ یہ تمام حوالہ جات من گھرٹ اور وضع کردہ ہیں یہ اصل حوالے خود ان لوگوں نے بھی کبھی نہ دیکھے ہوں گے ہم ان پر کوئی تبصرہ اپنی طرف سے کریں تو شائد اوکاڑوی صاحب کہیں کہ تمہیں تہذیب و شائستگی سے تمہیں کوئی سروکار نہیں اس لئے ہم انہیں کے فرقے کے اجمل العلماء کی کوثر و تسنیم سے دھلی ہوئی ،تہذیب و شائستگی سے بھرپور ،متانت و سنجیدگی سے مرقوم عبارت ان کی بارگاہ میں بطور تبصرہ پیش کرتے ہیں :
’’انہوں نے ہی بہتان طرازی کا بازار گرم کیا کتب دینیہ میں تحریفیں کرنا ان کی مخصوص عادت ہے عبارات میں کتر و بیونت کرنا ان کی مشہور خصلت ہے یہ فرقہ جب اپنی مکاری پر اتر آئے تو اپنے خصم ( مخالف ) کا قول اپنے دل سے بنا کر لے آئے یہ جماعت جب اپنی افتراء پردازی پر اتر آ جائے تو خصم ( مخالف ) کے آباؤ اجداد اور مشائخ کی طرف سے جو عبارات چاہے گڑھ کر لے آئے ان تصانیف کے نام تراش لے پھر ان کے مطبع تک بنا ڈالے ۔۔۔مسلمانو ذرا انصاف سے کہنا کیا ایسا جیتا افترا و بہتان کیا ایسی گندی اور گھنونی تحریر تم نے کوئی اور بھی دیکھی ؟ کیا ایسا صریح کذب اور جھوٹ کیا ایسی بے حیائیوں اور ڈھٹائیوں کی نظیر تم نے کوئی اور بھی سنی ؟ کیا ایسی بے شرمی کا مظاہرہ تم نے کہیں اور بھی کیا ؟ کیا ایسی بے ایمانی اور مکر و کید کا مجموعہ تم نے کبھی اور بھی دیکھا؟ قابل توجہ یہ چیز ہے کہ یہ سارا افترا و بہتان دجل و فریب مکر و کید تحریف و کذب محض اس لئے عمل میں کہ ۔۔۔( اے دیوبندیو! از ناقل ) تم یہ کہتے ہو ۔۔۔اور تمہارے مشائخ کرام فلاں فلاں کتاب میں یوں فرماتے ہیں ‘‘۔
(رد شہاب ثاقب ،ص12تا14،ادارہ غوثیہ رضویہ لاہور )
انہی کی مطلب کی کہہ رہا ہوں زبان میری ہے بات ان کی
انہی کی محفل سنوار تا ہوں چراغ میرا ہے رات ان کی
٭٭٭

     

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں