جمعرات، 28 اکتوبر، 2021

کیااللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتااورگمراہ کرتا ہے؟ - وقار اکبر چیمہ

Does Allah leaves to stray and guides whoever He wills?

ہدایت کا مطلب

ہدایت کا مطلب ہوتا ہے رہنمائی، رہبری، راہ دکھانا، سیدھا راستہ، بتانا۔ قرآن مجید ہدایت کو تین درجات میں تقسیم کرتا ہے اور مخصوص قسم کی ہدایت کو مخصوص درجہ(Level) کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔
پہلے درجہ کی ہدایت عالمگیری ہے اور یہ ہر شے کے لیے ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
قَالَ رَبُّـنَا الَّذِیۡۤ اَعْطٰی کُلَّ شَیۡءٍ خَلْقَہٗ ثُمَّ ہَدٰی
کہا کہ ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر شے کو اس کی خلقت عطا کی ‘ پھر ہدایت دی۔(سورہ طہ 50)
اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے ہر شہ کو ایک مخصوص شکل بخشی اور پھر ان چیزوں کو ان کے کردار کے مطابق ہدایت بخشی گئی۔ ہدایت کی یہ قسم انسان، جِن، جانور، پودوں اور باقی سب تخلیقات کے لیے ہے۔

دوسرے درجہ کی ہدایت انسانوں اور جنات کے لیے مخصوص ہے۔ اس قسم کی مدد سے لیے گئے کاموں کے وہ دونوں بروز قیامت جوابدہ ہوں گے۔ یہ ہدایت ہمیشہ سے موجود ہے اور جن و انس میں سے ہر کوئی آزاد ہے چاہے اسکو پہچان کر اس سے کام لے یا اس کو مسترد کر دے۔ ارشاد ربانی ہے:

وَ نَفْسٍ وَّ مَا سَوّٰىہَا(7)فَاَلْہَمَہَا فُجُوۡرَہَا وَ تَقْوٰىہَا(8) قَدْ اَفْلَحَ مَنۡ زَکّٰىہَا(9) وَ قَدْ خَابَ مَنۡ دَسّٰىہَا(10)

قسم ہے نفس کی اور اسے درست کرنے کی، پھر اللہ تعالیٰ نے اس نفس کو برائی سے بچنے اور پرہیز گاری اختیار کرنے کی سمجھ عطا فرمائی۔ پھر اس پر اس کی بدی اور اس کی پرہیز گاری واضح کر دی۔ بے شک وہ کامیاب ہو گیا جس نے نفس کو پاکیزہ بنا لیا۔ اور نا مراد ہوا وہ جس نے اس کو آلودہ کیا۔(سورہ الشمس7-10)

تیسری قسم کی ہدایت جن و انس میں سے ان کے لیے ہے جنہوں نے سچائی کے پیغام کو بغور سنا۔ یہ ہدایت انھیں سچائی کو پہچاننے میں مزید مدد کرتی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے :

والذین اھتدوا زادھم ھدی واتاھم تقوھم

وہ لوگ جنھوں نے ہدایت قبول کی اس نے انھیں ہدایت میں بڑھا دیا اور انھیں ان کا تقویٰ عطا کر دیا (سورہ محمد:17)

تو جب اللہ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ وہ لوگوں کو ہدایت نہیں بخشتا تو اس سے مراد صرف یہ تیسری قسم کی ہدایت ہوتی ہے اور یہ اللہ صرف اس وجہ سے کرتا ہے کہ وہ لوگ ان شرائط پر عمل پیرا نہیں ہوتے یا اس کی خواہش نہیں رکھتے جو اس ہدایت کو پا لینے کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔

جس کو اللہ چاہتا ہے اس کو اللہ ہدایت دیتا ہے کا مطلب

ایک چیز کو سمجھ لیا جائے کہ کوئی بھی قرآنی آیت قرآن کی باقی آیات اور احادیث کی روشنی میں ہی سمجھی جا سکتی ہے ۔ قرآن مجید میں کچھ آیات ہیں جن میں خدا کا فرمان ہے اللہ جس کو چاہتا ہے اس کو ہدایت بخشتا ہے اور جسے چاہتا ہے گمراہ چھوڑ دیتا ہے، مثلاً

…فَیُضِلُّ اللہُ مَنۡ یَّشَآءُ وَیَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَہُوَ الْعَزِیۡزُ الْحَکِیۡمُ

پھر خدا جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ اور وہ غالب اور حکمت والا ہے۔(سورہ ابراہیم:4)

بندے کے پاس اختیار ہے

قرآن مجید کی دوسری مختلف آیات اس بات کی تشریح کرتی ہیں کہ اللہ نے حق اور باطل میں ایک تفریق کر دی ہے اور حق و باطل کو بالکل نمایاں اور واضح کر دیا ہے۔ اب یہ بندے کی اپنی خواہش ہے وہ حق کو پسند کرتا ہے یا اس کو چھوڑ دیتا ہے ۔ جیسے پہلے بھی بیان ہوا:

وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا*فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا*قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا*وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاهَا(10)”

قسم ہے نفس کی اور اسے درست کرنے کی، پھر اللہ تعالیٰ نے اس نفس کو برائی سے بچنے اور پرہیز گاری اختیار کرنے کی سمجھ عطا فرمائی۔ پھر اس پر اس کی بدی اور اس کی پرہیز گاری واضح کر دی۔ بے شک وہ کامیاب ہو گیا جس نے نفس کو پاکیزہ بنا لیا۔ اور نامراد ہوا وہ جس نے اس کو آلودہ کیا(الشمس7-10)

وَقُلِ الْحَقُّ مِنۡ رَّبِّکُمْ ۟ فَمَنۡ شَآءَ فَلْیُؤْمِنۡ وَّ مَنۡ شَآءَ فَلْیَکْفُرْ ۙ اِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلظّٰلِمِیۡنَ نَارًا ۙ اَحَاطَ بِہِمْ سُرَادِقُہَا …(29)

اور ان سے کہہ دو کہ حق تمہارے رب ہی کی طرف سے(آ چکا) ہے، سو جس کا جی چاہے ایمان لے آئے اور جس کا جی چاہے کفر کرے ہم نے یقیناً تیار کر رکھی ہے ظالموں کے لئے ایک ایسی ہولناک آگ، جس کی لپیٹوں نے ان کو اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے۔(الکھف18)

وہ جنہیں اللہ ہدایت دیتا ہے

یھدی الیہ من اناب
(27)اور وہ جو اس کی طرف رجوع کریں انھیں(اللہ) ہدایت دہ دیتا ہے(الرعد:27)۔
وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللهَ لَمَعَ المُحْسِنِينَ

اور جنہوں نے ہماری راہ میں کوشش کی ضرور ہم انھیں اپنے راستے دکھا دیں گے اور بیشک اللہ نیکوں کے ساتھ ہے(العنکبوت:69)

اللَّهُ يَجْتَبي إِلَيْهِ مَنْ يَشاءُ وَ يَهْدي إِلَيْهِ مَنْ يُنيبُ

للہ جسے چاہتا ہے اپنے لئے چن لیتا ہے اور جو اس کی طرف رجوع کرے اسے اپنی طرف راستہ دکھا دیتا ہے(ہدایت دے دیتا ہے)(الشورٰی:13)

وہ جنہیں خدا گمراہ کرتا ہے

اسی طرح اللہ ہمیں بتاتا ہے کہ وہ کس کو گمراہ چھوڑتا ہے۔

وَمَا یُضِلُّ بِہٖۤ اِلَّا الْفٰسِقِیۡنَ

اور اس(سیدھے راستے سے اللہ) گمراہ نہیں کرتا سوائے نافرمانوں کے(البقرہ 26)
وَ یُضِلُّ اللہُ الظّٰلِمِیۡنَ ۟ۙ وَ یَفْعَلُ اللہُ مَا یَشَآءُ(27)اور اللہ نافرمانوں (ظالموں)پر راہ گم کر دیتا ہے اور وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے(ابراہیم:27)

اللہ گمراہ کیسے کرتا ہے؟

اب سوال پیدا ہوتا ہے اللہ گمراہ کیسے کرتا ہے؟ اس کا جواب اللہ بہت کھول کر اور واضح طور پر بتاتا ہے:

وَمَنۡ یُّشَاقِقِ الرَّسُوۡلَ مِنۡۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْہُدٰی وَیَتَّبِعْ غَیۡرَ سَبِیۡلِ الْمُؤْمِنِیۡنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَنُصْلِہٖ جَہَنَّمَ ؕ وَسَآءَتْ مَصِیۡرًا(115)

اور جو شخص سیدھا راستہ معلوم ہونے کے بعد پیغمبر کی مخالفت کرے اور مومنوں کے راستے کے سوا اور(کسی دوسرے) راستے پر چلے تو جدھر وہ چلتا ہے ہم اسے ادھر ہی چلنے دیں گے اور قیامت کے دن جہنم میں داخل کریں گے اور وہ بری جگہ ہے(النساء:115)
اللہ نے اپنے نشانوں سے یہ بات بالکل واضح کر دی ہے وہ لوگ جو حق کے ظاہر ہو جانے کے بعد حق کی طرف رجوع کریں گے ان کو اللہ ہدایت دے گا(تیسری قسم کی ہدایت) اور جو حق کے ظاہر ہو جانے کے باوجود باطل اور برائی کی طرف رجوع کریں گے اللہ ان کو ان کے پسندیدہ راستے کی طرف چھوڑ دیتا ہے(جو گمراہی کے راستے ہیں) تو ایسے لوگوں کو اللہ سزا دینے میں بھی حق بجانب ہے کیونکہ انہوں نے حق کے ان پر ظاہر ہو جانے کے بعد اس کو تسلیم نہ کیا۔

اللہ گمراہ کرتا ہے والی آیت کا مطلب(یُّغْوِیَکُمْ) 

عیسائی مشنری اور ملحدین بعض اوقات سورہ ھود کو آیت نمبر 34 بھی پیش کرتے ہیں۔ یہ امت نوح علیہ السلام کے لوگوں کے متعلق ہے۔نوح ؑ اپنی قوم سے کہتے ہیں :

وَلَا یَنۡفَعُکُمْ نُصْحِیۡۤ اِنْ اَرَدۡتُّ اَنْ اَنۡصَحَ لَکُمْ اِنۡ کَانَ اللہُ یُرِیۡدُ اَنۡ یُّغْوِیَکُمْ ؕ ہُوَ رَبُّکُمْ ۟ وَ اِلَیۡہِ تُرْجَعُوۡنَ

اور تمہیں میری نصیحت نفع نہ دے گی اگر میں تمہارا بھلا چاہوں جبکہ اللہ تمہاری گمراہی چاہے، وہ تمہارا رب ہے، اور اسی کی طرف پھرو گے(ھود34)
یہاں اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ نوح علیہ السلام یہ بات اس وقت کہہ رہے ہیں جب ان کی قوم ساری حدیں پار کر چکی تھی بلکہ اس عذاب کا مطالبہ کر رہی تھی جس سے ان کو پہلے ہی ڈرایا جا چکا تھا تو یہاں اللہ اپنا طریقہ اختیار کرتا ہے اور ایسے ظالموں کو ان کے ہی پسندیدہ راستوں پر مقرر کر دیتا ہے جو انہوں نے حق کو چھوڑ کر پسند کیے جیسا کہ پہلے بھی بیان ہوا۔ اور عین ممکن ہے یہ بات اس وقت کہی جا رہی ہے جب قوم نوح سزا دیے جانے کے قریب تھی کیونکہ یہی لفظ سزا اور تباہی کے معانی میں استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً قرآن میں ہم پڑھتے ہیں

فَخَلَفَ مِنۡۢ بَعْدِہِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوۃَ وَاتَّبَعُوا الشَّہَوٰتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّا

پھر ان کے بعد ایسے لوگ ان کی جگہ آئے جنہوں نے نمازوں کو برباد کیا، اور اپنی نفسانی خواہشات کے پیچھے چلے سو عنقریب ان کو گمراہی (کی سزا) ملے گی۔(مریم59)
کچھ لوگ الاعراف16 اور الحجر39 کو بھی اس سلسلہ میں پیش کرتے ہیں

قَالَ فَبِمَاۤ اَغْوَیۡتَنِیۡ لَاَقْعُدَنَّ لَہُمْ صِرٰطَکَ الْمُسْتَقِیۡمَ
(شیطان نے )کہا جیسا تو نے مجھے گمراہ کیا ہے میں بھی ضرور ان کی تاک میں تیری سیدھی راہ پر بیٹھوں گا(الاعراف 16)۔
قَالَ رَبِّ بِمَاۤ اَغْوَیۡتَنِیۡ لَاُزَیِّنَنَّ لَہُمْ فِی الۡاَرْضِ وَلَاُغْوِیَنَّہُمْ اَجْمَعِیۡنَ

اس(شیطان) نے کہا کہ پروردگار جس طرح تو نے مجھے گمراہ کیا ہے میں ان بندوں کے لئے زمین میں ساز و سامان آراستہ کروں گا اور سب کو اکٹھا گمراہ کروں گا۔(الحجر39)
مگر ہر عاقل شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ الفاظ شیطان کے ہیں جو اپنے شیطانی عزائم کا اظہار کر رہا ہے ان آیات کو اپنے معنوں میں صرف شیطانی روحیں ہی استعمال کرنے کی کوشش کر سکتیں ہیں!

دلوں پر مہر کرنے کا مطلب

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جب اللہ خود کہتا ہے کہ وہ خود کافروں کے دلوں پر مہر لگادیتا ہے تو ان کافروں کو ان کے اعمال کا ذمہ دار کیوں کر قرار دیا جا سکتا ہے؟
یہ کہنے کی اصلی وجہ پورے معاملے کو نہ سمجھنا ہے۔ اللہ صرف ان کافروں کے دل مہر کرتا ہے جو انتہائی ضد و کینہ کے ساتھ حق کے پیغام کو مسترد کر دیتے ہیں اور ان کے جو ہدایت کی دوسری قسم (جو کہ ہر ایک کے لیے ہے اور جسے پانے کے لیے صرف اپنی خواہش درکار ہوتی ہے) کو مسترد کر دیتے ہیں۔ ہم قرآن میں جب دیکھتے کہ اللہ کسی کہ دلوں کو مہر کرنے کا کہتا ہے تو اس سے مراد صرف وہ کافر ہوتے ہیں جو انتہائی بیہودگی سے حق کو مسترد کیے دیتے ہیں اور بجانب حق کوئی رجوع، خواہش نہیں رکھتے۔ البقرہ آیت نمبر 7، النساء آیت نمبر 168 اور سورہ نحل آیت نمبر 106 و 109 اس کی واضح مثالیں ہیں۔

خلاصہ

اس ساری بحث کا خلاصہ یہ کہ اللہ تعالی اپنی نشانیوں سے سب کو ہدایت دکھاتا ہے۔ وہ اپنے پیغمبر بھیجتا ہے جو خدا کا پیغام لے کر آتے ہیں اور وہ اس کے ذریعہ سے حق اور باطل کو بالکل واضح کر وا دیتا ہے۔ اس کے بعد جو شخص حق کو پہچاننے کی خواہش رکھتا ہے( ظاہر کرتا/ کوشش کرتا ہے) تو اللہ اس پر ہدایت کھول دیتا ہے۔ اور جو اس کے برخلاف بالکل گمراہ کیے جاتے ہیں وہ وہ لوگ ہیں جو باطل کی طرف رجوع کرتے ہوے حق کو چھوڑ دیتے ہیں اور جو اس گمراہی پر بضد ہو جاتے ہیں اللہ ان کے دلوں کو مہر کر دیتا ہے۔

     

خدا اور بھاری پتھر - راحیل فاروق

God and the heavy rock | Omnipotence paradox

 میں نے ایک گزشتہ مضمون میں اس طرف اشارہ کیا تھا کہ حقیقت کی جستجو میں جوابات ہی سے نہیں بلکہ خود سوالات سے بھی محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ مذہبی معاملات میں جس رویے کو ادب سے تعبیر کیا جاتا ہے اس کی بنیاد میں شاید یہی ادراک کارفرما ہے کہ جوابات کی طرح کچھ سوالات بھی بالکل غلط ہو سکتے ہیں۔ رومیؒ فرماتے ہیں:

بےادب تنہا نہ خود را داشت بد
بلکہ آتش در ہمہ آفاق زد

یعنی بےادب نے محض اپنی جان ہی کو نقصان نہ پہنچایا بلکہ گویا تمام عالم میں آگ لگا دی۔ ظاہر ہے کہ یہ بےادبی کوئی ذاتی اور محدود چیز نہیں ہو سکتی بلکہ کسی ایسے عمومی رویے یا دعویٰ پر مشتمل ہونی چاہیے جو نہ صرف غلط بلکہ گمراہ کن بھی ہو۔ گو جاہ پرست اور دین فروش اکابرینِ مذہب اس کو بھی اپنے نفس کی تسکین کے لیے استعمال کرنے کی بھرپور کوشش کرتے رہے ہیں تاہم ادب اپنی حقیقت میں غالباً محض اس خبرداری، احتیاط اور عجز کا نام ہے کہ بشر ہونے کے ناتے خود آپ کا سوال بھی کسی اور کے جواب کی طرح غلط ہو سکتا ہے۔

اب ذرا مدعا کی طرف آ جائیے۔ پرانے وقتوں سے ایک بحث دہریوں اور ایمان والوں کے درمیان چلی آتی ہے جو ذاتِ باری تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ سے متعلق ہے۔ اغلب ہے کہ یہ سوال آپ کی نظروں سے بھی کبھی نہ کبھی گزرا ہو گا۔ اگر نہیں تو اب ملاحظہ فرما لیجیے۔ دہریے اور متشککین عموماً اسے اس صورت میں پیش کرتے ہیں کہ کیا خدا ایک ایسا بھاری پتھر تخلیق کر سکتا ہے جسے وہ خود بھی نہ اٹھا سکے۔

پیچیدگی یہ ہے کہ یہ سوال خطرناک حد تک سادہ بھی ہے اور فتنہ انگیز بھی۔ یعنی غور کیجیے۔ اگر خدا قادرِ مطلق ہے تو یقیناً اس میں اتنی قوت ہونی چاہیے کہ وہ ایسا بڑا پتھر تخلیق فرما دے جسے وہ خود بھی نہ اٹھا سکتا ہو۔ لیکن پھر اگر خدا اپنا بنایا ہوا پتھر ہی نہ اٹھا سکے تو اس کی خدائی طاقت کے اس سے زیادہ منافی کچھ نہیں ہو سکتا۔ اور اگر وہ ایسا پتھر بنا ہی نہیں سکتا تو یہ بھی ایک طرح سے اس کی قدرت کا نقص ہے۔ یعنی خدا میں ہر کام کرنے کی طاقت تو نہ ہوئی نہ پھر۔ آگے کنواں پیچھے کھائی!

یہاں ایک لمحہ ٹھہر کر یہ سمجھ لیجیے کہ اگر آپ یہ سوال کرتے ہیں تو یہ ہرگز ہرگز کوئی بےادبی نہیں ہے۔ ملا کی ذاتِ پاک کو اس سے کوئی ٹھیس پہنچے تو پہنچے، خدا کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اور ملا کی انانیت کا لحاظ کرنے کی آپ کو کوئی ضرورت بھی نہیں ہے۔ ہاں، بےادبی یہ تب ہے کہ آپ اس سوال کی نسبت بالکل پریقین ہو جائیں کہ یہ ٹھیک ہے، اس کی بنیاد پرخود خدا بن کر فیصلے جاری کرنا شروع کریں اور تمام عالم میں وہ آگ لگا دیں جو ابھی تک محض آپ کے اندر لگی ہوئی ہے۔ کیونکہ اس سوال میں ایک بنیادی نقص موجود ہے۔

جی ہاں، اس سوال کے اندر ایک سوال موجود ہے جس کا فیصلہ کیے بغیر آپ اس کا جواب معلوم کرنا چاہ رہے ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے آپ مثلاً کچھ چیزوں کی خریداری پر آنے والے اخراجات کا حساب کر رہے ہوں اور ان میں سے ایک چیز کی قیمت آپ کو سرے سے معلوم ہی نہ ہو۔ فرض کیجیے کہ وہ چیز بھی ایسی ہو جس کی قیمت کا آپ تصور بھی نہ کر سکتے ہوں۔ اب آپ جتنا زور مار لیں یہ امکان نہ ہونے کے برابر ہے کہ آپ کل اخراجات کا ٹھیک ٹھیک اندازہ کر سکیں گے۔ ہے نا؟

یہی معاملہ اس سوال کے ساتھ ہے۔ کرنے والے نے اس میں ایک جھول ایسا چھوڑا ہے کہ جب تک اس سے نہ نمٹا جائے حل نکالنے کی کوشش ہی بےسود ہے۔ اور جب اس سے دو دو ہاتھ کر لیے جائیں تو سوال کا پھن بھی خودبخود گر جاتا ہے۔ مغالطہ اسی کو کہتے ہیں۔ اور میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ مغالطے (Fallacy) اور قولِ محال (Paradox) کا فرق مذہب فلسفے سے بہتر جانتا ہے۔

تو جھول یہ ہے کہ سوال کرنے والے نے قدرتِ کاملہ کو فرض تو کر لیا مگر یہ بات معلق رہنے دی کہ قدرتِ کاملہ کسے کہتے ہیں۔ اس سے بڑی گڑبڑ پیدا ہوئی۔ تاثر یہ قائم ہوا کہ قدرتِ کاملہ شاید اتنا بڑا پتھر بنا لینے کا نام ہے جو قادرِ مطلق خود بھی نہ اٹھا سکے۔ بلکہ نہیں۔ شاید اتنا بڑا پتھر نہ بنا سکنے کا نام ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان دونوں ممکنہ جوابات کو خود اس سوال نے قائم کیا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ دونوں کو عقل تسلیم نہیں کرتی۔ گویا یہ سوال درحقیقت کوئی سوال نہیں ہے بلکہ ایک اسی قسم کی پھلجڑی ہے جیسے میں، گستاخی معاف، آپ سے پوچھوں کہ آپ بندر ہیں یا گدھے۔ ظاہر ہے کہ آپ دونوں نہیں ہیں لیکن اگر آپ کو انھی دونوں جوابات میں سے کوئی منتخب کرنے پر مجبور کر دیا جائے تو؟

یہی کھیل اس سوال میں کھیلا گیا ہے۔ بڑی چابکدستی اور ہوشیاری سے سوال کرنے والا آپ کو قدرتِ کاملہ کی نوعیت آزادانہ طور پر سمجھنے کی اجازت دینے کی بجائے خود دو راہیں دکھا کر ان میں سے کوئی ایک اختیار کرنے کا پابند کر دیتا ہے۔ بھاری پتھر بنانا یا نہ بنانا؟ بندر یا گدھا؟ اب آپ ان میں سے جو بھی راہ چلیں گے خفت ہی اٹھائیں گے نا۔

رہ گیا یہ سوال کہ قدرتِ کاملہ کیا ہے تو اس کا جواب ہر عاقل شخص کے فہم کی بنیاد میں موجود ہے۔ قدرتِ کاملہ کا جوہر یہی ہے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہو۔ یعنی ہم انسان جس چیز کا تصور بھی نہ کر سکیں وہ وہ بھی کر سکے۔ اجتماعِ ضدین یعنی دو متضاد چیزوں کا ایک جگہ جمع ہو جانا تو بہت چھوٹی چیز ہے۔ اگر آپ خود منطق کا سہارا لے کر بھی قدرتِ کاملہ کی تعریف کریں تو وہ یہ تسلیم کرتی ہے کہ اسے منطق کا پابند ہونے کی ضرورت نہیں۔ اور زیرِ بحث نقیضین یعنی اتنا بڑا پتھر بنا سکنا یا نہ بنا سکنا محض منطقی لحاظ سے ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ قادرِ مطلق تو خود منطقی اعتبار سے بھی ہونا ہی وہی چاہیے جس کے لیے ان دونوں کو اکٹھا کرنا ۱ چنداں دشوار نہ ہو۔ ورنہ قادرِ مطلق کہاں کا؟ کیا خیال ہے؟۲


۱ اجتماعِ نقیضین محال ہونے کا ضابطہ اہلِ علم کی مجالس میں اکثر زیر بحث آتا ہے، البتہ علماء کا موقف بھی اس سلسلے میں یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کو ضابطوں کا پابند ماننا درست نہیں۔ نیز وہ اجتماعِ نقیضین پر بھی قادر ہے۔ یہ جواب کافی اور تسلی بخش ہے۔ (مدیر)
۲بشکریہ اردو گاہ، 14 اکتوبر 2018
     

کیامسلمان ملحدین سےاپنی نبیؐ کےاحترام کامطالبہ کرتےہیں؟ - ذیشان وڑائچ

Do Muslims force atheists to respect their prophet?

 توہین رسالت کے ضمن میں کچھ ملحدوں اور غیر مسلموں کا سٹیٹس نظر آیا جن کا خلاصہ یہ تھا کہ عزت زبردستی نہیں کروائی جاسکتی اور یہ کہ ان سے نبیؐ کے عزت کروانے کی کوشش عبث ہے۔

یہ پیغام خود ایک عبث پیغام ہے۔ ہم مسلمان ملحدوں اور غیر مسلموں سے قطعاً یہ مطالبہ نہیں کر رہے ہیں کہ وہ نبی اکرمؐ کی عزت کریں۔ اگر وہ عزت کریں تو یہ یقینا ان کی خود قسمتی ہوتی، لیکن ہمارا مطالبہ یہ ہے ہی نہیں۔ ہم اتنی سمجھ ضرور رکھتے ہیں کہ جو محمدؐ کے بارے میں یہ گمان رکھتا ہو انہوں نے اللہ سے منسوب کر کے جھوٹا پیغام دیا وہ ان کی عزت نہیں کرسکتا۔

چونکہ بحث کا تناظر توہین رسالت ہے اس لئے اس پیغام سے جو چیز واضح ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ملحدوں اور ان گستاخ پرستوں کے نزدیک دو میں سے کسی ایک چیز کا ہی اختیار ہے۔ یا تو نبیؐ کی عزت و احترام کریں جیسا کہ عام طور پر مسلمان کرتے ہیں یا ان کے اندر سے کوئی شدید قسم کا دماغی داعیہ پیدا ہوتا ہے جس کے تتیجے میں یہ نبیؐ پر ققرے یا بھپتی کستے ہیں یا طعنے دیتے ہیں۔ حالانکہ جس کی دماغی کیفیت صحیح ہوتی ہے اس کے لئے ایک بہت ہی سادہ سا آپشن یہ بھی ہوتا ہے کہ خاموش رہے، یا پھر منطقی اور مہذب انداز میں اپنا نکتہ نظر پیش کرے۔ ہجو گوئی اور وہ بھی اس ذات کے بارے میں جن کا احترام دیڑھ ارب انسان کرتے ہیں ذہنی پستی کے علاوہ اور کس چیز کی علامت ہے؟

جو لوگ نبیؐ کو نبی نہیں مانتے منطقی اور علمی اعتبار سے ہمارا ان سے یہ مطالبہ ہے کہ۔۔

نبی یا اسلام کے کسی بھی شعائر سے متعلق بات کرتے ہوئے منطقی انداز میں توجیہات کے ساتھ بات کریں۔ توجیہات بتانے سے پہلے آپ پہلے ہی سے اپنا نتیجہ اخذ کرکے گالی سے بات کریں گے تو پھر یہاں پر آپ کی عقل شروع ہونے سے پہلے منطقی بحث کا امکان ختم ہوچکا ہوتا ہے۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کے پاس محمدؐ کی مخالفت کرنے کے لئے کوئی ٹھوس گراؤنڈ موجود ہے تو پھر آپ کو اپنا نتیجہ بیان کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ آپ کی توجیہات خود نتیجہ بیان کردے گی۔ ہاں اگر آپ خود اپنی توجیہات کے بارے میں متشکک ہیں تو پھر آپ کو اپنی بات میں زور پیدا کرنے کے لئے طعنے بازی، نیم کالنگ(Name calling)، بھپتیاں، فقرے بازی، ہجو گوئی جیسی گھٹیا اور غیر علمی حرکات کا اضافہ کرنا پڑے گا۔ ایسا کر کے آپ صرف اپنا مقدمہ کمزور کر رہے ہوتے ہیں۔ اور اگر نبیؐ کے بارے میں ہی اپنی اس ذپنی پستی کا اظہار کرنے پر آپ کا اصرار ہے تو پھر آپ خود اپنے آپ کو انسانیت کے مقام سے نیچے گرا دیتے ہیں۔ جب آپ عقل کے بجائے اپنی ذہنی پستی یا گھٹیا پن کا اظہار کرنے پر ہی مصر ہیں تو پھر انسانی بنیاد پر مسلمان اجتماعیت سے اپنے کسی حق کا مطالبہ کرنے پر اصرار نری حماقت ہے۔

جب آپ بحث میں کسی مذہبی علامت یا شخصیت کے بارے میں توہین آمیز رویہ اختیار کرتے ہیں تو دراصل یہ اس بات کا اعلان ہوتا ہے کہ اس خاص معاملے میں آپ عقل اور Reasoning نام کی چیز سے کوسوں دور ہیں۔ آپ کے دماغ نے عقل کوreasoning کے لئے نہیں بلکہ بدزبانی اور مغلظات کے لئے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ایک دوسرے انسان کے ساتھ معاملہ کرتے ہوئے جذبات نام کی کسی چیز کو بھی کوئی قدر نہیں دیتے۔

بحث کے دوران گالی اور توہین آمیز انداز اختیار کرنا اپنی حقیقت کے اعتبار سے بحث کو عقل کے دائرے سے نکال سفلی جذبات، طعنے مارنا، شناعت بازی، کمینگی اور ذہنی پستی کے مقابلے میں میدان میں لے آتا ہے۔ جب آپ یہ رویہ اختیار کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ انسانی رفعت کو چھوڑ کر شعوری پستی میں مبتلا ہیں۔ یہاں پراگر ہم یا کوئی مسلمان آپ سے مقابلہ کرتا ہے تو پھر ہمیں اسی میدان کا کھلاڑی ہونا چاہئے۔ آپ کو سمجھنا چاہئے کہ یہ ہمارا میدان نہیں بلکہ شیاطین کا میدان ہے۔ یہاں پر ہماری مجبوری یہ ہے کہ ہم دلیل کا مقابلہ دلیل سے کرسکتے ہیں اور تلوار کا مقابلہ تلوار سے۔ لیکن اس ذہنی پستی اور کمینگی کا مقابلہ کرنے کے معاملے میں ہم تہی دامن ہیں اس لئے مشتعل ہوجانا ایک فطری مجبوری ہے۔

دوسری طرف انسانی شعور کی رفعت کا ایک اور مظہر عقل کے ساتھ ساتھ تعلقات، رشتوں کا احترام اورمحبت کے مراکز ہیں ۔ انسان اپنی معاشرت میں چاہے وہ قومیت ہو، مذہب ہو، خاندان ہو، اپنے کچھ تعلقات اور محبت کے مراکز رکھتا ہے اور اس کے بارے میں حساس ہوتا ہے۔ ایک فرد اپنے محبت کے مراکز کے بارے میں کوئی غلط بات یا گالی سننے کا روادار نہیں ہوتا۔ کسی کے مرکز محبت کی توہین کرنا یا اس کو گالی دینا اس فرد کے لئے ذہنی اذیت کا باعث بنتا ہے۔

اگر آپ کو لگتا ہے کہ مسلمانوں نے اپنے لئے محبت کے غلط مراکز قائم کر لئے ہیں اور نبیؐ کے بارے میں ان کا یہ رویہ غیر عقلی ہے تو ایسے میں ایک عقل مند فرد کا طرز عمل یہ ہونا چاہئے کہ وہ توہین آمیز رویہ اختیار کرنے کے بجائے اپنے مؤقف میں عقلی دلائل فراہم کرے اور واضح کرے کہ ہم نے اپنے لئے ایک غلط محبت کا مرکز چن لیا ہے۔ چونکہ یہ چیزیں انسانی شعور، نفسیات اور رویوں سے متعلق ہوتی ہیں اس لئے پوری طرح منطقی دائرے میں نہیں آتی۔ اس لئے یہاں اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کے صحیح ہونے کے باوجود مسلمان آپ کی بات نہیں مان رہے ہیں تو اس بات کا پورا امکان موجود ہوتا ہے کہ آپ خود غلط ہوں۔ اگر آپ اس کو مسلمانوں کا نفسیاتی مسئلہ سمجھ رہے ہیں تو پھر اس بات کا پورا امکان موجود ہے کہ یہ خود آپ کا نفسیاتی مسئلہ ہو۔ اس لئے بدزبانی اور مغلظات کسی بھی صورت میں اس کا حل نہیں ہیں۔

مسلمان نبیؐ سے بے انتہا محبت اور احترام کا تعلق رکھتے ہیں۔ اگر آپ مسلمانوں کے نبیؐ کے معاملے میں منطقی انداز اور باہمی انسانی مفاہمت کا معاملہ نہیں کرتے، اگر آپ کو لگتا ہے کہ نبیﷺ کے بارے میں بات کرنے کے لئے آپ کے پاس طعنے، بھپتاں، فقرے بازی، بدزبانی اور مغلظات ہی ہیں تو پھر آپ مسلمانوں سے کیا توقع رکھتے ہیں؟ منطق اور جذبات تو انسانی شعور کی رفعت کی ہم ترین علامت ہیں اور جب آپ بار بار اسی انسانی رفعت پر حملہ آور ہیں تو ہم آپ کو انسان تسلیم ہی کیوں کریں؟


بشکریہ الحاد ڈاٹ کام
     

منگل، 26 اکتوبر، 2021

"سربکف" میگزین 10


اس شمارے کے مضامین نیچے لسٹ کی شکل میں موجود ہیں۔ مزید مضامین شائع ہوتے ہی نیچے فہرست میں خودکار طور پر شامل ہو جائیں گے۔
شائع شدہ مضامین نیچے فہرست میں کلک کر کے پڑھے جا سکتے ہیں۔ یہ ویب سائٹ مکمل طور پر آپٹیمائزڈ ہے اور تمام ڈیوائسز کے لیے کمپیٹبل ہے۔ نستعلیق اور عربی فانٹ کی سپورٹ کا خیال رکھا گیا ہے۔

کچھ یاد دہانیاں

(مجلے کی کافی عرصے غیر حاضری کے سبب یاد دہانی کے طور پر یہ چند باتیں درج ہیں۔ مکمل تفصیلات "تعارف" کے ذیل میں دیکھی جا سکتی ہیں)
دو ماہی ”سر بکف“ مجلہ، ایک آن لائن میگزین ہے جو سر بکف گروپ کے تحت جاری کئی پروجیکٹس میں سے ایک ہے۔ ابتدائی طور پر میگزین ہی واحد چیز تھی، جو بعد میں ایک فری لانس پلیٹ فارم کے طور پر "سر بکف گروپ" کے نام سے سامنے آئی۔ بعد ازاں کتب کی اشاعت سے لیکر ترجمے، ویب سائٹ ڈیزائننگ اور ایپس تک، سبھی مرحلہ وار شامل ہوتے گئے۔
موضوعات کے تنوع کے اعتبار سے مجلۂ ھذا آن لائن دنیا میں اپنی نظیر کی پہلی میگزین ہے۔ موضوعات کےتنوع کے باوجود، سر بکف میگزین کا مرکزی موضوع مذہب ہے ۔
سر بکف ہمیشہ پی ڈی ایف کی شکل میں شائع ہوتا رہا، البتہ اس کا متن محفوظ کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی رہی۔ چنانچہ آئندہ شمارے پہلے ویب سائٹ پر یونیکوڈ میں پیش کیے جائیں گے، اور پھر انہیں حسبِ روایت خوبصورت پرنٹ ایبل پی ڈی ایف کی شکل دی جائے گی، ان شاء اللہ!
اللہ حامی و ناصر ہو۔
فقیر شکیبؔ احمد
مدیر سربکف مجلہ

فہرستِ مضامین

     

پیر، 25 مارچ، 2019

ردِّقادیانیت کورس (قسط۔۸)

Qadianiat Rebuttal Course- Part 8

خلاصۂ کلام :

کلام سابق سے یہ بات روز روشن سے زیادہ واضح ہوگئی کہ اصل بحث رفع و نزل کی ہے نہ کہ موت وحیات کی جس کو مرزائیوں نے اپنی چالاکی اور عیاری سے موضوع بحث بنا رکھا ہے ۔
٭وجہ اول
اس لئے کہ موت حیات رفع و نزول کو لازم ہے نہ کہ رفع و نزول موت وحیات کو ، لہذا اگر بحث کی جائے تو اس وقت تک تمام نہیں ہوگی جب تک حیاۃ کے بعد رفع کو ثابت نہ کیا جائے اور موت کے بعد عدم رفع ثابت نہ کیاجائے تو معلوم ہوا کہ اصل بحث رفع و نزول کی ہے ۔
٭وجہ دوم
اس لئے کہ رفع ونزول عیسائیوں کا عقیدہ ہے اگر یہ بھی مثل دوسرے عقائد کے غلط ہے تو قرآن و حدیث کو اس کی تردید کرنی چاہیے تھی حالانکہ قرآن وحدیث نے اس کی تردید نہیں کہ بلکہ ان کے اس عقیدہ کی تائیداو رتصدیق کی ہے جسے ہم بعون اﷲ قرآن وحدیث واجماع امت اور اقوال مراز سے ثابت کریں گے اگر قرآن وحدیث اس عقیدے کی تائید میں کچھ بھی نہ کہے تو بھی مرزا کے مسلمہ اصول کے مطابق یہ عقیدہ صحیح ثابت ہوجا تا ہے ۔

اثبات رفع و نزول باقوال مرزا از روئے قرآن مجید


  • حوالہ نمبر ۱

’’ اب اس تحقیق سے ثابت ہے کہ مسیح ابن مریم کی آخری زمانے میں آنے کی قرآن شریف میں پیشین گوئی موجود ہے ۔‘‘
(ازالہ اوہام حصہ دوم ص۶۷۵ روحانی خزائن ص۴۶۴ ج۳ )

  • حوالہ نمبر ۲

’’ ھوالذی ارسل رسولہ بالھدیٰ ودین الحق ‘‘
(اﷲ تعالیٰ وہ ذات ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت او ردین حق دے کر بھیجا)
﴿پارہ ۱۰ توبہ ع ۵ آیت ۳۲ ،پارہ ۲۶فتح ع۴ آیت ۲۸،پارہ ۲۸ صف ع۱ آیت ۹﴾
یہ آیت جسمانی اور سیاست ملکی کے طورپرحضرت مسیح کے حق میں پیشین گوئی ہے اور جس غلبہ کاملہ دین اسلام کا وعدہ دیا گیا ہے وہ غلبہ مسیح کے ذریعہ سے ظہور میں آئے گا اورجب حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے تو ان کے ہاتھ سے دین اسلام جمیع آفاق واقطار میں پھیل جائے گا……حضرت مسیح کی پیش گوئی متذکرہ بالا کا ظاہری اور جسمانی طور پر مصداق ہے اور یہ عاجز روحانی اور معقولی طور پر اس کا محل اور مورد ہے ۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ چہارم برحاشیہ طبع اول ص۴۹۸،۴۹۹ قدیم ، ص
۴۵۸ جدید ، روحانی خزائن ج۱ص ۵۹۳)

  • حوالہ نمبر۳

’’ عسی ربکم ان یرحمکم وان عدتم عدنا‘‘
﴿پ ۱۵ ع۱ آیت ۸﴾
یہ آیت اس مقام میں حضرت مسیح علیہ السلام کے جلالی طور پر ظاہر ہونے کا اشارہ ہے یعنی اگر طریق رفق اور نرمی اور لطف اوراحسان کو قبول نہیں کریں گے اور حق محض جو دلائل واضحہ اور آیات بینہ سے کھل گیا ہے اس سے سرکش رہیں گے تو وہ زمانہ بھی آنے والا ہے جب خدا تعالیٰ مجرمین کے لئے شدت اور عنف اور قہر اور سختی کو استعمال میں لائے گا اور حضرت مسیح نہایت جلالیت کے ساتھ دنیا میں اتریں گے اور تمام راہوں اورسڑکوں کو خس وخاشاک سے صاف کردیں گے۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ ۴ ص۴۶۵ حاشیہ ص۴۵۹ روحانی خزائن ص۶۰۱،۶۰۲ ج۱)

مرزائی عذر

ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ مرزا نے براہین احمدیہ کے ان حوالوں میں عیسیٰ علیہ السلام کی آمد ثانی کے عقید ہ کو صراحتاً تسلیم کیا ہے لیکن یہ محض رسمی طورپر لکھ دیا گیا ہے جیسا کہ مرزا نے اعجاز احمدی ص۷ ج ۱۹ ،پر اعتراف کیا ہے (روحانی خزائن ص۱۱۳ ج۹ )
جواب نمبر ۱
یہ عقیدہ رسمی نہیں بن سکتا اس لئے کہ مرز ا نے اس کے ثابت کرنے میں آیات قرآنیہ پیش کی ہیں جن سے ثابت ہوتاہے کہ انہوں نے یہ عقیدہ رسمی طور پر نہیں لکھا بلکہ یہ قرآنی طور پر لکھا ہے ۔
جواب نمبر ۲
مرزا قادیانی نے جس کتاب میں یہ عقیدہ لکھا ہے وہ بغرض اصلاح و تجدید دین تالیف کی گئی ہے مؤلف اس وقت خدائے تعالیٰ کی طرف سے ملہم اور مامور تھا اور اس کتاب پر دس ہزار کا اشتہار بھی دیا گیا ہے ۔(تبلیغ رسالت مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۱۸ روحانی خزائن ص۲۴ تا ۵۲ ج۱،ملحقہ براہین احمدیہ وملحقہ آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن ص۶۵۷ج۵ وسرمہ چشم آریہ جدید ص۳۱۹ ج۲ )
مجدد کی تعریف :
’’ جولوگ خدا کی طرف سے مجددیت کی قوت پاتے ہیں وہ نرے استخواں فروش نہیں ہوتے بلکہ وہ واقعی طور پر نائب رسول ﷺ اور روحانی طور پر آنجناب کے خلیفہ ہوتے ہیں خدا تعالیٰ انہیں ان تمام نعمتوں کا وارث بناتا ہے جونبیوں اور رسولوں کو دی جاتی ہیں اور ان کی باتیں از قبیل جوشیدن ہوتی ہیں نہ محض از قبیل
کوشیدن اور وہ حال سے بولتے ہیں نہ مجرد قال سے اور خداتعالیٰ کے الہام کی تجلی ان کے دلوں پر ہوتی ہے اور وہ ہر ایک مشکل کیوقت روح القدس سے سکھلائے جاتے ہیں اور ان کی گفتار وکردار میں دنیا پرستی کی ملونی نہیں ہوتی کیونکہ وہ کلی مصفی کیے گئے اور باتمام وکمال کھینچے گئے ہیں ۔‘‘
(فتح اسلام حاشیہ روحانی خزائن ص۷ ج۳)
’’وہ مجدد خدا تعالیٰ کی طرف سے آئے گا یعنی علوم لدنیہ اور آیات سماویہ کے ساتھ ‘‘
(ازالہ اوہام ص۱۵۴ روحانی خزائن ج۳ص۱۷۹)
جواب نمبر ۳
یہ رسمی عقیدہ یا اجتہادی غلطی اس لئے بھی نہیں ہو سکتی کہ یہ کتاب بقول مرزا صاحب نبی اکرم ﷺ کے ہاتھوں میں پہنچ چکی ہے اور اس کانام ’’ قطبی ‘‘ بتایا گیا ہے یعنی قطب ستارہ کی طرح غیر متزلزل اور مستحکم ہے ۔ (براہین احمدیہ قدیم ایڈیشن ص۲۴۸ ، ۲۴۹ روحانی خزائن ج۱ص۲۷۵) تو اگر اس کے اس عقیدہ کو رسمی عقیدہ یا اجتہادی غلطی کہہ کر غلط قرار دیا گیا تو یہ قطبی نہیں رہے گی اور اس کے دلائل مستحکم اور غیر متزلزل نہیں ہوں گے خصوصاً جب کہ نبی اکرم ﷺ کے مبارک ہاتھوں میں آچکی او رآپ کی مبارک نظر سے گذرچکی تو آپ نے ایسی فاش غلطی جو مرزا صاحب کے نزدیک شرک عظیم ہے اس کو آپ نے کس طرح نظر انداز کر دیا۔
دیکھو مرزا کے نزدیک عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ ماننا شرک عظیم ہے :
’’ فمن سوء الا دب ان یقال ان عیسی مامات وان ھو الا شرک عظیم یاکل الحسنات ویخالف الحصات بل ھو توفی کمثل اخوانہ ومات کمثل اھل زمانہ وان عقیدۃ حیاتہ قد جاء ت فی المسلمین من الملۃ النصرانیہ۔‘‘
(الاستفتاء ضمیمہ حقیقت الوحی ص۳۹ ، روحانی خزائن ص۶۶۰ ج ۲۲)
جواب نمبر ۴
یہ اجتہادی غلطی اس لیے بھی نہیں بن سکتی کہ مرزا صاحب خود تسلیم کرتے ہیں کہ ہم نے اس کتاب میں کوئی دعویٰ اور کوئی دلیل اپنے قیاس سے نہیں لکھی ۔
(براہین احمدیہ حصہ دوم ص۵۰،۵۱ ،روحانی خزائن ج۱ ص۸۸ حاشیہ والا۹۹)

اثبات رفع ونزول از روئے احادیث باقوال مرز ا


  • حوالہ نمبر ۱

’’ مسیح ابن مریم کے آنے کی پیش گوئی ایک اول درجہ کی پیش گوئی ہے جس کو سب نے باتفاق قبول کیا ہے جس قدر صحاح میں پیش گوئیاں لکھی گئی ہیں کوئی پیش گوئی اس کے ہم پہلو اور ہم وزن ثابت نہیں ہوتی تواتر کا اول درجہ اس کو حاصل ہے ……الخ۔‘‘
(ازالہ اوھام ۵۵۷ روحانی خزائن ج ۳ ص۴۰۰)
تواتر کی تعریف بھی مرزا صاحب کے زبانی سن لیجئے : ’’ تواتر ایسی چیز ہے کہ اگر غیر قوموں کی تواریخ کی رو سے بھی پایا جائے تو تب بھی ہمیں قبول کرنا ہی پڑتا ہے ۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۵۵۶ روحانی خزائن ج۳ص۳۹۹)

  • حوالہ نمبر ۲:

’’ اب پہلے ہم صفائی بیان کیلئے یہ لکھناچاہتے ہیں کہ بائبل اور ہماری احادیث اور اخبار کی کتابوں کی رو سے جن نبیوں کا اس وجود عنصری کیساتھ آسمان پر جانا تصور کیا گیا وہ دو نبی ہیں ایک یوحنا جس کا نام ایلیا اور ادریس بھی ہے دوسرا مسیح ابن مریم جن کو عیسیٰ اور یسوع بھی کہتے ہیں ان دونوں نبیوں کی نسبت عہد قدیم اور جدید کے بعض صحیفے بیان کر رہے ہیں کہ وہ دونوں آسمان کی طرف اٹھائے گئے ہیں اور پھر کسی زمانہ میں زمین پراتریں گے اور تم ان کو آسمان سے آتے دیکھو گے انہی کتابوں سے کسی قدر ملتے جلتے الفاظ احادیث نبویہ میں بھی پائے جاتے ہیں ۔‘‘
(توضیح المرام ص۴ ،روحانی خزائن ج۳ ص۵۲ )

  • حوالہ نمبر ۳:

’’ صحیح مسلم کی حدیث میں جویہ لفظ موجود ہے کہ حضرت مسیح جب آسمان سے اتریں گے تو ان کا لباس زرد رنگ کا ہوگا۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۶ روحانی خزائن ص۱۴۲ ج۳)
نوٹ﴾ یہ حدیث صحیح مسلم میں نہیں بلکہ سنن ابی داؤد ج ۲ کتاب الملاحم باب خروج الدجال میں مذکور ہے۔ قادیانیوں کیلئے چونکہ مرزا قادیانی کی تحریرات حجت ہیں اس لئے الزامی طور پر مذکورہ حوالہ لکھا جاتا ہے ۔

اثبات رفع و نزول مسیح از روئے اجماع امت

(۱) حیاۃ المسیح بجسمہ الی الیوم ونزولہ من السماء بجسمہ العنصری مما اجمع علیہ الامۃ وتواتر بہ الا حادیث۔
(تفیسرالبحر المحیط ج۲ ص۲۷۳)
(۲) والاجماع علی انہ حی فی السماء ینزل ویقتل الدجال ویؤید الدین (تفیسر جامع البیان تحت آیت انی متوفیک)
(۳) الاجماع علی انہ رفع ببدنہ حیا قالہ الحافظ ابن حجر فی تلخیص الجبیر
(۴) فتح الباری میں بھی ذکر ادریس میں حضرت مسیح کے نزول پر اجماع منقول ہے ۔
(۵) تفسیر ابن کثیر میں تواتر نزول کی صراحت کی گئی ہے ۔
مرزائیوں کی شہادت کہ رفع و نزول عیسیٰ پر تمام مفسرین کا اجماع ہے حافظ ابن حجر عسقلانی نے اپنی کتاب تلخیص الجبیر کے صفحہ ۳۱۹ ،۳۲۰ پر عام مفسرین کا اجماع نقل کیا ہے ۔ (عسل مصفیٰ ص ۱۶۴)
مرزائیوں کے نزدیک بھی حافظ ابن حجر عسقلانی آٹھویں صدی کے مجدد ہیں ، یہ مجددین کی اس فہرست میں داخل ہیں جوکہ عسل مصفی کے صفحہ ۱۶۲ ق،۱۱۷ سے شروع ہوتی ہے اور کتاب ہذا مرزا کی مصدقہ ہے ۔

٭ایک اہم اصول

مرزائیوں کے ساتھ بحث کرنے سے پہلے یہ طے کرلیناچاہیے کہ فریقین اگر آیات قرآنی کی تفسیر وتشریح اپنی مرضی ورائے سے کریں گے توبحث کا کوئی فائد ہ نہ ہوگا، تم اپنے معنی بیان کرو گے اور ہم اپنا حلفی بیان کریں گے اور بحث کا حاصل کچھ نہ نکلے گا ،اسلئے مناسب ہے کہ تیرہ صدیوں میں سے چند ایسے مفسرین ومجددین کا انتخاب کرلیں جن کی بات ہر دو فریق تسلیم کریں ۔
چودھویں صدی کے مفسرین ومجددین کی بات بے شک نہ مانو، تیرہ صدیوں میں سے ایک مفسر ومجدد کا انتخاب کرلو جس کا بیان کیاہوا معنی اور تفسیر معتبر اور قول آخر مانی جائے گی اور مجددین میں سے ان مجددین کا انتخاب کرتے ہیں جو فریقین کے نزدیک مسلم ہیں اور مرزائیوں کے مسلم مجددین کی فہرست کتاب’’ عسل مصفی‘‘ میں موجود ہے. واضح ہو کہ یہ کتاب عسل مصفی وہ کتاب ہے جومرزا صاحب کے ایک مرید مرزا خدا بخش نے لکھی او رہر روز جو لکھی جاتی وہ باقاعدہ مرز اصاحب کو سنائی جاتی اگر کبھی وہ اتفاقاً مرزا صاحب کو نہ سناتا تو مرزا صاحب بڑے اہتمام کے ساتھ اس کے متعلق استفسار کرتے کہ آج تم نے مجھے اس کتاب کا مسودہ کیوں نہیں سنایا غرضیکہ یہ پوری کتاب مرز اغلام احمد قادیانی نے پورے اہتمام کے ساتھ سنی گویا یہ مرزا صاحب کی مصدقہ کتاب ہے اور اس کے اندر جو مجددین کی فہرست ہے وہ مرزا غلام احمد کے نزدیک بھی مسلم مجددین ہیں اب ہم کتاب عسل مصفی سے وہ فہرست نقل کرتے ہیں ۔
( عسل مصفی مصنفہ مرزاخدا بخش ص۱۱۷ ج۱)
پہلی صدی میں اصحاب ذیل مجدد تسلیم کئے گئے ہیں
(۱) عمر بن عبدالعزیز (۲) سالم (۳) قاسم (۴) مکحول
علاوہ ان کے اور بھی اس صدی کے مجدد مانے گئے ہیں چونکہ جو مجدد جامع صفات حسنی ہوتا ہے وہ سب کا سردار اور فی الحقیقت وہی مجدد فی نفسہ ماناجاتا ہے اور باقی اس کی ذیل سمجھے جاتے ہیں جیسے انبیاء بنی اسرائیل میں ایک نبی بڑا ہوتا تھاتو دوسرے اس کے تابع ہو کر کاروائی کرتے تھے چنانچہ صدی اول کے مجدد متصف بجمیع صفات حسنی حضرت عمر بن عبدالعزیز تھے ۔(نجم الثاقب ج۲ ص۹ ،وقرۃ العیون ومجالس الابرار)
دوسری صدی کے مجدد اصحاب ذیل ہیں
(۱) امام محمد ادریس ابو عبداﷲ شافعی (۲) احمد بن محمد بن حنبل شیبانی (۳) یحیٰ بن عون غطفانی (۴) اشہب بن عبدالعزیز بن داؤد قیس (۵) ابو عمرو مالکی مصری (۶) خلیفہ مامون رشید بن ہارون (۷) قاضی حسن بن زیاد حنفی (۸) جنیدبن محمد بغدادی صوفی (۹) سہل بن ابی سہل بن ریحلہ الشافعی (۱۰) بقول امام شعرانی حارث بن اسعد محاسبی ابو عبداﷲ صوفی بغدادی (۱۱) او ربقول قاضی القضاۃ علامہ عینی احمد بن خالد الخلال ابو جعفر حنبلی بغدادی ۔ (نجم الثاقب ج۲ ص۱۴ ،قرۃ العیون ومجالس الابرار)
تیسری صدی کے مجددین
(۱) قاضی احمد بن شریح بغدادی شافعی (۲) ابو الحسن اشعری متکلم شافعی (۳) ابو جعفر طحاوی ازدی حنفی (۴) احمد بن شعیب(۵) ابو عبدالرحمن نسائی (۶)خلیفہ مقتدر باﷲ عباسی (۷) حضرت شبلی صوفی(۸) عبیداﷲ بن حسین (۹) ابو الحسن کرخی وصوفی حنفی
(۱۰) امام بقی بن مخلد قرطبی مجدد اندلس اہل حدیث ۔
چوتھی صدی کے مجددین
(۱) اما م ابوبکر باقلانی (۲) خلیفہ قادر باﷲ عباسی (۳) ابوحامداسفرانی (۴) حافظ ابو نعیم (۵) ابو بکر خوارزمی حنفی (۶) بقول شاہ ولی اﷲ ابو عبداﷲ محمد بن عبداﷲ المعروف بالحاکم نیشاپوری (۷) اما م بیہقی (۸) حضرت ابو طالب ولی اﷲ صاحب قوت القلوب جوطبقہ صوفیاء سے ہیں (۹) حافظ احمد بن علی بن ثابت خطیب بغداد (۱۰) ابو اسحاق شیرازی (۱۱) ابراہیم بن علی بن یوسف فقیہ المحدث
پانچویں صدی کے مجدد اصحاب
(۱) محمد بن محمد ابو حامد امام غزالی (۲) بقول عینی و کرمانی حضرت راعونی حنفی (۳) خلیفہ مستظہر بالدین مقتدی باﷲ عباسی (۴) عبداﷲ محمد بن محمد انصاری ابو اسماعیل ہروی (۵) ابو طاہر سلفی (۶) محمدبن احمد ابوبکر شمس الدین سرخسی فقیہ حنفی
چھٹی صدی کے مجددین
(۱) محمد بن عبداﷲ فخرالدین رازی (۲) علی بن محمد (۳) عزالدین بن کثیر (۴) امام رافعی شافعی صاحب زبدہ شرح شفا(۵) یحیٰ بن حبش بن میرک حضرت شہاب الدین سہروردی شہید امام طریقت (۶) یحیٰ بن اشرف بن حسن محی الدین لوذی (۷) حافظ عبدالرحمن ابن جوزی
ساتویں صدی کے مجدد اصحاب
(۱) احمد بن عبدالحلیم نقی الدین ابن تیمیہ حنبلی (۲) تقی الدین ابن دقیق العید (۳) شاہ شرف الدین مخدوم بہائی سندی (۴) حضرت معین الدین چشتی (۵) حافظ ابن القیم جوزی شمس الدین محمد بن ابی بکر بن ایوب بن سعد بن القیم الجوزی ورعی دمشقی حنبلی (۶) عبداﷲ بن اسعد بن علی بن سلیمان بن خلاج ابو محمد عفیف الدین یافعی شافعی (۷) قاضی بدرالدین محمد بن عبداﷲ الشبلی حنفی دمشقی
آٹھویں صدی کے مجددین
(۱) حافظ علی بن حجر عسقلانی شافعی (۲) حافظ زین الدین عراقی شافعی (۳) صالح بن عمر بن ارسلان قاضی بلقینی (۴) علامہ ناصر الدین شازلی بن سنت میلی
نویں صدی کے مجدد اصحاب
(۱) عبدالرحمن کمال الدین شافعی معروف بہ امام جلال الدین سیوطی (۲) محمد بن عبدالرحمن سخاوی شافعی (۳) سید محمد جونپوری مہدی اور بقول بعض دسویں صدی کے مجدد ہیں ۔
دسویں صدی کے مجدد اصحاب یہ ہیں
(۱) ملا علی قاری (۲) محمد طاہر فتنی گجراتی ، محی الدین محی السنہ (۳) حضرت علی بن حسام الدین معروف بہ علی متقی ہندی مکی
گیارہویں صدی کے مجددین
(۱) عالم گیر بادشاہ غازی اورنگ زیب (۲) حضرت آدم بنوی صوفی (۳) شیخ احمد بن عبدالاحد بن زین العابدین فاروقی سرہندی معروف بامام ربانی مجدد الف ثانی
بارہویں صدی کے مجدد اصحاب ذیل ہیں
(۱) محمد بن عبدالوہاب بن سلیمان نجدی (۲) مرز امظہر جان جاناں دہلوی (۳) سید عبدالقادر بن احمد بن عبدالقادر حسنی کوکیانی (۴) حضرت احمد شاہ ولی اﷲ صاحب محدث دہلوی (۵) اما م شوکانی (۶) علامہ سیدمحمد بن اسما عیل امیر یمن (۷) محمد حیات بن ملازیہ سندھی مدنی
تیرھویں صدی کے مجددین
(۱) سید احمد بریلوی (۲) شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی (۳) مولوی محمد اسماعیل شہید دہلوی (۴) بعض کے نزدیک شاہ رفیع الدین صاحب بھی مجدد ہیں (۵) بعض نے شاہ عبدالقادر کو مجدد تسلیم کیا ہے ، ہم اس کا انکا ر نہیں کرسکتے کہ بعض ممالک میں بعض بزرگ ایسے بھی ہوں گے جن کو مجدد مانا گیا ہو اور ہمیں اطلاع نہ ملی ہو۔
نوٹ﴾مرز اخدا بخش کی اس دی گئی فہرست میں تیرہ صدیوں کے مجددین کی تعداد اکیاسی بنتی ہے۔

مرزائی سوال

مرزائی عموماً سوال کرتے ہیں کہ چودہویں صدی کامجدد کون ہے واضح ہو کہ ان کے نزدیک آنجہانی مرزا غلام احمد قادیانی ہی چودہویں صدی کا مجدد ہے ۔
جواب:
ہم جواب میں چودھویں صدی کے مجددین کے ضمن میں یہ نام پیش کرتے ہیں :
(۱) حضرت مولا نا محمد قاسم نانوتوی بانی دارالعلوم دیوبند(۲) حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (۳) مفسر قرآن حضرت مولانا حسین علی (۴) شیخ العرب والعجم حضرت مولانا حسین احمد مدنی (۵) حضرت مولا نا محمد الیاس کاندھلوی بانی تبلیغ جماعت (۶) سید المحدثین حضرت مولانا سید علامہ انور شاہ کشمیری (۷) شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری (۸) حضرت شاہ عبدالقادر رائپوری (۹) حضرت خلیفہ غلام محمد، دین پورشریف
(جاری ہے...) 
٭٭٭
     

منگل، 19 مارچ، 2019

بے اعتبار مرزا قادیانی - احتشام انجم شامی

Unreliability of Mirza Qadiani 

قارئین کرام ! مرزا قادیانی اور قادیانی جماعت کی حقیقت کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ تاہم پھر بھی ہم کچھ عرض کرتے ہیں کہ مرزا قادیانی کی حیثیت ان کی اپنی تحریروں کی رو سے کیا ہے۔ٍ

جھوٹے شخص پر مرزا قادیانی کے فتوے

مرزا صاحب لکھتے ہیں
۱:جھوٹ بولنا مرتد ہونے سے کم نہیں۔
[روحانی خزائن جلد ۱۷ ص ۵۷]
۲:وہ کنجر اور ولد الزنا کہلاتے ہیں جوبھی جھوٹ بولتے ہوئے شرماتے ہیں۔
[روحانی خزائن جلد ۲ ص ۳۸۶]
۳:جھوٹ بولنا اور گوہ کھانا ایک برابر ہے۔
[روحانی خزائن جلد۲۲ ص ۲۱۵]

جھوٹے کی بات کی حیثیت

مزید لکھتے ہیں:
جب ایک بات میں کوئی جھوٹاثابت ہو جائے تو پھر دوسری بات میں اس پر اعتبار نہیں رہتا۔
[روحانی خزائن جلد ۲۳ ص ۲۳۱]
اب آتے ہیں ان کے دجل کی طرف۔

مرزا قادیانی کا دعوی:

۱: وہ مسیح موعود جس کے آنے کا قران کریم میں وعدہ کیا گیا ہے وہ عاجز ہی ہے۔
[روحانی خزائن جلد ۳ ص ۴۶۸]

۲:اس عاجز کو حضرت مسیح سے مشابہت تامہ ہے
[خزائن جلد ۱ ص ۵۹۴]

۳: اس مسیح کو ابن مریم سے ہر ایک پہلو سے تشبیہ دی گئی ہے۔
[خزائن جلد ۱۹ ص ۳]

تبصرہ:

 مرزا قادیانی کا یہ دعوی کر نا کہ ان کو حضرت عیسی ابن مریم علیہ السلام سے معاذ اللہ ہر پہلو میں مشابہت حا صل ہے کو انہی کی تحریروں کی روشنی میں دیکھتے ہیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔
بغیر والد کے پیدا ہونا
۱: حضرت عیسی ابن مریم بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے۔
[خزائن جلد ۳ ص ۶۱]
جبکہ مرزا صاحب، جنہیں ہر لحاظ سے ابن مریم سے مشابہت کا دعوی تھا وہ لکھتے ہیں
میں جس کا نام غلام احمداور باپ کا نام غلام مرتضی۔
[کشف الغطا ص ۲]

اولاد میں مشابہت کی نفی
۱: حضرت عیسی علیہ السلام کی کوئی آل نہیں تھی۔
[خزائن جلد ۱۵ ص۳۶۳ حاشیہ]
جبکہ مرزا صاحب کی اولاد تھی جو بالکل واضح بات ہے۔

مسمریزم اور مرزا قادیانی 
خزائن میں ایک جگہ درج ہے:
یہ جو میں نے مسمزیزی طریق کا عمل الترب نام رکھا جس میں حضرت مسیح بھی کسی درجہ تک مشق رکھتے تھے۔[خزائن جلد ۳ ص ۲۵۹]
جبکہ مرزا صاحب اس عمل کو مکروہ  اور قابل نفرت سمجھتے تھے۔
[بحوالہ خزائن جلد ۳ ص ۲۵۸]

جب قابل نفرت سمجھتے تھے تو ظاہر ہے خود کیوں اس پر عمل کیا جائے گا؟

مذہب کے پھیلنے میں مماثلت کی نفی
ایک جگہ لکھتے ہیں:
ناکامی اور نا مرادی جو مذہب کے پھیلانے میں کسی کو ہو سکتی ہے۔عیسی علیہ السلام سب سے اول نمبر پر ہیں ۔ [خزائن جلد ۲۱ ص ۵۸]
جبکہ اپنے بارے میں خود لکھتے ہیں
لاکوں انسانوں نے مجھے قبول کر لیااور یہ ملک ہماری جماعت سے بھر گیا۔
[خزائن جلد۲۱ ص ۹۵،۹۶]

ان سب حوالوں سے یہ بات بالکل روز روشن کی طرح واضح ہو گئی کہ مرزا صاحب کا یہ کہنا پرلے درجے کا جھوٹ ہے کہ انہیں حضرت عیسی علیہ السلام سے معاذاللہ کلی مشابہت حاصل تھی کیونکہ ہم نے چند حوالے انہی کی تحریروں سے دے دیے ہیں۔ 
چونکہ مرزا قادیانی کا جھوٹا ہونا ثابت ہوا لہذا انہی کے فتوے کے مطابق ان کی کسی بات کا اعتبار نہیں ہے ۔ اپنی ہی تحریروں کے آئینے میں:

  • ان کے نسب میں شک ہے
  • یہ ولد الزنا بھی ہوئے
  • گوہ کھانے والے بھی ثابت ہوئے
  •  بلکہ مرتد بھی اپنے ہی تحریروں سے ثابت ہوئے۔

قادیانی جماعت کو پیغام:

ہم یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ جو بندہ اپنے تحریروں کی رو سے ایسا مرتد ولد الزنا جھوٹا ثابت ہو اسے نبی مان کر اپنی آخرت برباد کرنے سے اچھا ہے کہ کلمہ پڑھیں اور حضور ﷺ کو آخری نبی مان کر مرزا قادیانی پر چار حرف بھیج کر دائرۂ اسلام میں داخل ہو جائیں!
٭٭٭
     

ملحد کی سائنس اور انسانیت سے بغاوت - سید عکاشہ

When atheism goes against science and morality
الحاد کے ساتھ ٹریجڈی یہ ہے کہ وہ کئی معاملات میں ایسی گلیوں میں جا نکلتا ہے جس کے آخر میں دیوار راستہ روکے کھڑی ہوتی ہے۔ ایک مختصر اور جامع تحریر جو ملحدین کی اس عادت کا منصفانہ جائزہ لیتی ہے۔
(مدیر)
الحاد دو ۲ امور کو اپنا بنیادی ہتھیار بناتا ہے اور ان دونوں کے سبب مذہب کی تنقیح کرتا ہے اور حامیانِ مذہب پر جرح کرتا ہے۔ ایک چیز تو سائنس ہے جبکہ دوسری چیز انسانیت ہے۔ اس تحریر میں یہ واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ان دونوں سے الحاد کا کوئی تعلق نہیں۔

 سائنس سے بغاوت

ابتداء سائنس سے کرتے ہیں۔ ایک اصولی بات سمجھ لینا لازم ہے کہ ہر ترکیب اپنی ابتداء میں دو چیزوں کے مربوط ہوجانے کی محتاج ہے:
    ۱۔ ایک سبب کا وجود رکھنا
    ۲۔ اس سبب کا اپنی ترکیب سے تعلق بنانا
اس کے بعد ہی ترکیب وجود میں آتی ہے۔ قدرت کا یہ بنیادی دستور ہے اور یہ ایک (self-evident)  سچ ہے جس کے انکار کی استطاعت کی جرأت وہ نہیں کرسکتا۔
میں کمپیوٹر کے کی بورڈ کا استعمال کر رہا ہوں تب ہی وہ الفاظ میں منتقل ہو کر ٹائپ ہورہے ہیں، اس معاملہ میں بھی دو چیزیں ہیں:
    ۱۔ ایک میرے ہاتھ کی فعلیت کا کی بورڈ پر وجود رکھنا
    ۲۔ اس وجود کا اپنی ترکیب سے تعلق بنانا
یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی چیز اس کے بغیر وجود رکھ لے۔
ریاضی میں کہا جاتا ہے کہ ایک سیب میں لوں اور کچھ دیر بعد اس میں ایک سیب کا اضافہ کردوں تو دو سیب بن جاتے ہیں۔ اس میں بھی اس قانون کی پاسداری ہے۔ ایک سیب میں ایک سیب جوڑ دینے سے چار یا پانچ سیب نہیں بنتے بلکہ دو ہی بنتے ہیں کیونکہ وہ ایک سیب کی انفرادیت (distinction) دوسرے سیب کی انفرادیت سے جب ربط بناتی ہے تو جو ترکیب وجود میں آتی ہے وہ دو سیب ہی بناتی ہے۔
سائنس بھی اسی دستور کا پابند ہے۔ کسی دوائی سے بیمار کو شفا ملتی ہے۔ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ شاید یہ سب خود بخود ہوجاتا ہو۔ بلکہ دوائی کے اجزاء کا انسانی جسم سے ربط بنانا لازم سمجھا جاتا ہے اور اس کی بنیاد یہی (self-evident) سچّائی ہے جو اشیاء کی ترکیب کو زیرِ بحث اس کے سبب سے ربط کی بنیاد پر تسلیم کرتی ہے۔
کسی کے ذہن میں یہ خیال نہیں آتا کہ شاید دوائی اور شفاء کا کوئی تعلق نہ ہو کیونکہ وہ اس سچائی میں یقین رکھتے ہیں۔ 
خدا کا وجود ایک حقیقت ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہ از خود (self-evident) سچّائی ہے اور ایک وجہ یہ کہ یہ قانونِ ربط اس کے وجود کو لازم کرتا ہے۔ جب ہر چیز کا ترکیب پانا، اس کے سبب کے وجود اور ربط کا پابند ہے، تو یہ کائنات جو اپنی تمام صفات کے لحاظ سے محدود ہے کیونکر اس اصول سے بغاوت کریگی؟ 
سائنس، ریاضی، فلسفہ، طب وغیرہ کی بنیاد جس اصول پر ہے، وہ اصول یہ لازم کرتا ہے کہ وجودِ خدا بھی ہونا چاہیئے۔ مگر یہاں آکر ملحد کی فکر متغیر ہوجاتی ہے اور وہ کہتا ہے کہ نہیں! ایسا نہیں ہے، اس معاملہ میں ایسا نہیں ہوا۔ لارنس کراس جیسے کہتے ہیں کہ شاید یہ کائنات بغیر کسی شے کے یعنی nothing سے وجود میں آگئی ہو۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ ہمیشہ سے ہے۔ بعض کائنات اور خدا میں فرق سمجھے بغیر یہ منطق لڑاتے ہیں کہ جب خدا بغیر کسی کے بنائے بن سکتا ہے تو یہ کائنات کیوں نہیں؟ الغرض جس سائنس کا رونا وہ روتے ہیں، اسی سے بغاوت کرجاتے ہیں۔

 انسانیت سے بغاوت

اب انسانیت کے متعلق الحاد کے نظریہ کی وضاحت بھی ہم ضروری سمجھتے ہیں۔ ہم اکثر کہتے ہیں:
اگر خدا نہیں ہے، تو ہمارے پاس بھلائی اور اچھائی کے جانب راغب ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
یہ دلیل بہت سے لوگوں نے دی ہے اور اس پر ملحد یہ اعتراض کیا کرتے ہیں:
"تم لوگ کتنے خود غرض ہو؟ صرف جزا و سزا کے لیے اچھے بنتے ہو؟ تم لوگوں میں انسانیت ہی نہیں ہے"
در اصل یہ سب انہوں نے اپنے بڑے مولوی صاحب رچارڈ ڈاکنز سے طریقہ اخذ کیا ہے اور وہی ہر مذہبی پر تھوپ دیتے ہیں۔ 
ہم کب کہتے ہیں کہ جزا و سزا کے لیے ہی انسان اچھا بنتا ہے؟ بلکہ ہم کہتے ہیں کہ اگر خدا کا وجود نہیں تو بھلائی اور برائی جیسے نظریات کا کوئی حقیقی وجود بھی ثابت نہیں ہوسکتا۔
کیسے؟
کوئی بھی چیز کیوں بری ہے یا کیوں بھلی ہے؟
ایک جواب تو یہ ہوسکتا ہے کہ اس لیے بری ہے کہ انسانیت کے خلاف ہے وغیرہ وغیرہ؟
مگر سوال پھر پیدا ہوتا ہے:
ہمیں انسانیت پر کیوں چلنا ہے؟ 
وہ کہے گا کہ قومیں ایسے ہی بن سکتی ہیں ورنہ انسان دنیا سے ختم ہوجائیں گے۔ پھر سوال پیدا ہوتا ہے:
انسانوں کے دنیا سے ختم ہوجانے کی ہم کیوں فکر کریں؟
وہ اس مقام پر اگر ملحد ہے تو آ کر عام طور پر یہی کہہ دے گا کہ تم لوگ کتنے بیشرم بے حیاء ہو تم انسانوں کی فکر نہیں کرتے، انسانیت نہیں تم میں وغیرہ وغیرہ مگر منطقی لحاظ سے مزید کچھ ثابت نہیں کر پائے گا۔ سوالات کا سلسلہ تو کسی طور ختم نہیں ہوگا۔ 
اس کا حل کیسے نکلے؟ ہم پر فرض ہے یعنی ہماری ڈیوٹی ہے کہ ہم اچھے بنیں (اس بات کو اخلاقیات کے حوالے سے کانٹ نے بھی ذکر کیا ہے)، مگر کیوں؟ ایک مذہبی کے پاس سادہ اور بہت ہی آسانی سے سمجھ میں آنے والا جواب ہے کہ خدا نے ہمیں اسی لیے پیدا کیا ہے۔ خدا کی خلقت اسی لیے ہوئی ہے اور ہمارا مقصد یہی ہے مگر اس موقع پر ایک ملحد کے پاس کوئی جواب نہیں ہوگا۔
بعض ملحد فلسفیوں نے الجھا کر اس مسئلہ کو بھی ثابت کرنے کی کوشش کی مگر کئی فلسفی ملحدین مثلاََ جے-ایل میکی ( .L Mackie) نے تو اعتراف بھی کرلیا ہے کہ اخلاقیات کا کوئی فی نفسہ (objective) وجود نہیں۔ ایسے میں دنیا والوں کو کیسے قائل کیا جائے گا اور کیا مستقبل میں اخلاقی زوال پیدا ہونے کا امکان نہیں ہوگا؟ نہلسٹ (nihilists یعنی وہ جو اخلاقیات اور مذہب سب کے منکر ہیں) کو ہی دیکھ لیں۔ وہ اخلاقیات کو نہیں مانتے، جبکہ absurdists اپنی مرضی کے اخلاقیات بنانے کے قائل ہیں۔ اب کیا کیا جائے گا؟
٭٭٭