جمعرات، 14 فروری، 2019

علم و فضل کے ساتھ تواضع و للہیت

”سربکف “مجلہ۶(مئی، جون ۲۰۱۶)
مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

اگر صرف وسعت مطالعہ، قوتِ استعداد اور کثرتِ معلومات کا نام علم ہو تو یہ صفت آج بھی ایسی کمیاب نہیں لیکن اکابر دیوبند کی خصوصیت یہ ہے کہ علم و فضل کے سمندر سینے میں جذب کر لینے کے باوجود اُن کی تواضع، فنائیت اور للہیت انتہا کو پہنچی ہوئی تھی۔ یہ محاورہ زبان زدِ عام ہے کہ ’’پھلوں سے لدی ہوئی شاخ ہمیشہ جھکتی ہے‘‘ لیکن ہمارے زمانے میں اس محاورے کا عملی مظاہرہ جتنا اکابر دیوبند کی زندگی میں نظر آتا ہے اور کہیں نہیں ملتا۔ چند واقعات ملاحظہ فرمائیے:
٭۱- بانیِ دارالعلوم دیوبند حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کے علوم بحر نا پیدا کنار تھے۔ اُن کی تصانیف آبِ حیات، تقریر دلپذیر، قاسم العلوم اور مباحثہ شاہجہاں پور وغیرہ سے اُن کے مقامِ بلند کا کچھ اندازہ ہوتا ہے اور ان میں سے بعض تصانیف تو ایسی ہیں کہ اچھے اچھے علماء کی سمجھ میں نہیں آتیں ۔ حد یہ ہے کہ ان کے ہم عصر بزرگ حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ جملہ دارالعلوم میں معروف تھا کہ ’’میں نے آبِ حیات کا چھ مرتبہ مطالعہ کیا ہے، اب وہ کچھ کچھ سمجھ میں آئی ہے۔‘‘
اور حکیم الامت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:
’’اب بھی مولانا (نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ) کی تحریریں میری سمجھ میں نہیں آتیں اور زیادہ غور و خوض کی مشقت مجھ سے برداشت ہوتی نہیں، اس لیے مستفید ہونے سے محروم رہتا ہوں اور اپنے دل کو یوں سمجھالیتاہوں کہ ضروریات کا علم حاصل کرنے کے لیے اور سہل سہل کتابیں موجود ہیں پھر کیوں مشقت اٹھائی جائے‘‘۔
ایسے وسیع و عمیق علم کے بعد، بالخصوص جب کہ اس پر عقلیات کا غلبہ ہو، عموماً علم و فضل کا زبردست پندار پیدا ہو جایا کرتا ہے لیکن حضرت نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کا حال یہ تھا کہ خود فرماتے ہیں :
’’جس طرح صوفیوں میں بدنام ہوں اسی طرح مولویت کا دھبہ بھی مجھ پر لگا ہوا ہے، اس لیے پھونک پھونک کر قدم رکھنا پڑتا ہے، اگر یہ مولویت کی قید نہ ہوتی تو قاسم کی خاک کا بھی پتہ نہ چلتا۔‘‘
چنانچہ اُن کی بے نفسی کا عالم یہ تھا کہ بقول مولانا احمد حسن صاحب امروہوی رحمۃ اللہ علیہ:
’’حضرت مولانا محمد قاسم صاحب رحمۃ اللہ علیہ جس طالب علم کے اندر تکبر دیکھتے تھے اُس سے کبھی کبھی جوتے اُٹھوایا کرتے تھے اور جس کے اندر تواضع دیکھتے تھے اُس کے جوتے خود اُٹھا لیا کرتے تھے‘‘۔
٭۲- یہی حال حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کا تھا۔ انھیں اُنکے تفقّہ کے مقامِ بلند کی بناء پر حضرت مولانا نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’ابوحنیفۂ عصر‘‘ کا لقب دیا تھا اور وہ اپنے عہد میں اسی لقب سے معروف تھے۔ حضرت علامہ انور شاہ صاحب کشمیری رحمۃ اللہ علیہ جیسے بلند پایہ محقق جو علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ کو ’’فقیہ النفس‘‘ کا مرتبہ دینے کے لیے تیار نہ تھے، حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کو ’’فقیہ النفس‘‘ فرمایا کرتے تھے۔ ان کے بارے میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ واقعہ سناتے ہیں کہ:
’’حضرت مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ ایک مرتبہ حدیث کا سبق پڑھا رہے تھے کہ بارش آ گئی۔ سب طلبہ کتابیں لے لے کر اندر کو بھاگے مگر مولانا رحمۃ اللہ علیہ سب طلباء کی جوتیاں جمع کر رہے تھے کہ اُٹھا کر لے چلیں ۔ لوگوں نے یہ حالت دیکھی تو کٹ گئے‘‘
٭۳- شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن صاحب قدس سرہ کے علم و فضل کا کیا ٹھکانا؟ لیکن حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ راوی ہیں کہ ’’ایک مرتبہ مراد آباد تشریف لے گئے تو وہا ں کے لوگوں نے وعظ کہنے کے لیے اصرار کیا۔ مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے عذر فرمایا کہ مجھے عادت نہیں ہے مگر لوگ نہ مانے تو اصرار پر وعظ کے لیے کھڑے ہو گئے اور حدیث ’’فقیہ واحد أشدّ علی الشیطٰن من ألف عابد‘‘ پڑھی اور اس کا ترجمہ یہ کیا کہ:
’’ایک عالم شیطان پر ہزار عابد سے زیادہ بھاری ہے۔‘‘
مجمع میں ایک مشہور عالم موجود تھے۔ انھوں نے کھڑے ہو کر کہا کہ: ’’یہ ترجمہ غلط ہے اور جس کو ترجمہ بھی صحیح کرنا نہ آوے اس کو وعظ کہنا جائز نہیں ۔‘‘
حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کا جوابی ردِّ عمل معلوم کرنے سے پہلے ہمیں چاہیے کہ ذرا دیر گریبان میں منہ ڈال کر سوچیں کہ اگر اُن کی جگہ ہم ہوتے تو کیا کرتے؟ ترجمہ صحیح تھا اور اُن صاحب کا اندازِ بیان توہین آمیز ہی نہیں، اشتعال انگیز بھی تھا۔ لیکن اس شیخ وقت کا طرزِ عمل سنیے، حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ سن کر:
’’مولانا فوراً بیٹھ گئے اور فرمایا کہ میں تو پہلے ہی کہتا تھا کہ مجھے وعظ کی لیاقت نہیں ہے مگر ان لوگوں نے نہیں مانا۔ خیر اب میرے پاس عذر کی دلیل بھی ہو گئی، یعنی آپ کی شہادت۔‘‘
چنانچہ وعظ تو پہلے ہی مرحلے پر ختم فرما دیا، اس کے بعد اُن عالم صاحب سے بطرزِ استفادہ پوچھا کہ ’’غلطی کیا ہے؟ تاکہ آئندہ بچوں ‘‘ انھوں نے فرمایا کہ أشدّ کا ترجمہ أثقل (زیادہ بھاری) نہیں بلکہ أضرّ (زیادہ نقصان دہ) کا آتا ہے۔‘‘ مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے برجستہ فرمایا کہ ’’حدیث وحی میں ہے ، یاتینی مثل صلصلۃ الجرس وہو أشدّ علیّ‘‘ (کبھی مجھ پر وحی گھنٹیوں کی آواز کی طرح آتی ہے اور وہ مجھ پر سب سے زیادہ بھاری ہوتی ہے) کیا یہاں بھی أضرّ (زیادہ نقصان دہ) کے معنی ہیں ؟ اس پر وہ صاحب دم بخود رہ گئے۔
٭۴- حکیم الامّت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ جب کانپور میں مدرس تھے، انھوں نے مدرسہ کے جلسہ کے موقع پر اپنے استاذ حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کو بھی مدعو کیا، کانپور میں بعض اہل علم معقولات کی مہارت میں معروف تھے اور کچھ بدعات کی طرف بھی مائل تھے۔ادھر علمائے دیوبند کی زیادہ توجہ چونکہ خالص دینی علوم کی طرف رہتی تھی٭ اس لیے یہ حضرات یوں سمجھتے تھے کہ علمائے دیوبند کو معقولات میں کوئی درک نہیں ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اُس وقت نوجوان تھے اور اُن کے دل میں حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کو مدعو کرنے کا ایک داعیہ یہ بھی تھا کہ یہاں حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی تقریر ہو گی تو کانپور کے ان علماء کو پتہ چلے گا کہ علمائے دیوبند کا علمی مقام کیا ہے؟ اور وہ منقولات و معقولات دونوں میں کیسی کامل دستگاہ رکھتے ہیں ۔ چنانچہ جلسہ منعقد ہوا اور حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کی تقریر شروع ہوئی، حسن اتفاق سے تقریر کے دوران کوئی معقولی مسئلہ زیر بحث آ گیا۔ اس وقت تک وہ علماء جن کو حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کی تقریر سنانا چاہتے تھے، جلسہ میں نہیں آ ئے تھے۔ جب حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی تقریر شباب پر پہنچی اور اُس معقولی مسئلہ کا انتہائی فاضلانہ بیان ہونے لگا تو وہ علماء تشریف لے آئے جن کا حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو انتظار تھا۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اس موقع پر بہت مسرور ہوئے کہ اب ان حضرات کو شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کے علمی مقام کا اندازہ ہو گا۔ لیکن ہوا یہ کہ جونہی حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ نے اُن علماء کو دیکھا۔ تقریر کو مختصر کر کے فوراً ختم کر دیا اور بیٹھ گئے۔ حضرت مولانا فخرالحسن صاحب گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ موجود تھے، انھوں نے یہ دیکھا تو تعجب سے پوچھا کہ:
’’حضرت! اب تو تقریر کا اصل وقت آیا تھا، آپ بیٹھ کیوں گئے؟‘‘
شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا: ’’ہاں ! دراصل یہی خیال مجھے بھی آ گیا تھا۔‘‘٭
(جاری ہے۔۔۔)
٭٭٭


     

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں