منگل، 12 فروری، 2019

پیرس حملوں نے شامی صدر پر مغرب کا نظریہ تبدیل کردیا، پیوٹن

مدیر کے قلم سے

منیلا/ماسکو(جنگ نیوز)روس صدر ولادی میر پیوٹن نے کہا ہے کہ پیرس حملوں نے شامی صدر کے معاملے پر مغرب کا نظریہ تبدیل کردیاجبکہ امریکی صدر بارک اوباما کا کہنا ہے کہ شام میں امن کے قیام کے لیے داعش اور اسد کا خاتمہ ضروری ہے۔روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف کا کہنا ہے کہ ماسکو اب بھی اپنے موقف پر قائم ہے۔

 شامی صدر بشارالاسدکے بناء شام میں ا من ممکن نہیں اور اس کے علاوہ تنازع کے حل کا کوئی دوسرا راستہ نہیں، دوسری جانب امریکی صدر بارک اوباما نے منیلا میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایران اور روس داعش کے ایک بڑاخطرہ تسلیم کرچکے ہیں لیکن شام میں روسی سرگرمیاں اسد کو مزید مضبوط بنانے کے مترادف ہیں، شا م میں باغیوں اور فوج کے مابین روزہ جنگ بندی کے لیے دمشق کے نزدیک مذاکرات کیے گئے ہیں،تفصیلات کے مطابق روس صدر ولادی میر پیوٹن نے کہا ہے کہ پیرس حملوں نے شامی صدر کے معاملے پر مغرب کا نظریہ تبدیل کردیا،روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف کا کہنا ہے کہ ماسکو اب بھی اپنے موقف پر قائم ہے ، شامی صدر بشارالاسدکے بناء شام میں ا من ممکن نہیں اور اس کے علاوہ تنازع کے حل کا کوئی دوسرا راستہ نہیں۔

 دوسری جانب امریکی صدر بارک اوباما نے منیلا میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایران اور روس داعش کے ایک بڑاخطرہ تسلیم کرچکے ہیں لیکن شام میں روسی سرگرمیاں اسد کو مزید مضبوط بنانے کے مترادف ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ پیرس حملوں کے بعد گونتامابے کو بند کرنے کے حوالے سے پارلیمنٹ کے دبائو کا سامنا ہے ، انہوں نے یہ اپنے دورہ ملائیشیا کے دوران کولالمپور میں جمہوریت کے فروغ پر زور دیا۔

 ادھرشا م میں باغیوں اور فوج کے مابین روزہ جنگ بندی کے لیے دمشق کے نزدیک مذاکرات کیے گئے ہیں۔علاوہ ازیں کینیڈا کے نئے وزیراعظم جسٹن ٹرُوڈو نے کہا ہے کہ ہم عراق اور شام میں داعش کے خلاف جاری مہم کا اہم حصہ ہیں۔

تبصرہ نگار: فرانس کے حملوں کے بعد ساری دنیا کے مسلمانوں کو ایک نئی دشواری کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ 

صحافت کے میدان میں باقاعدہ سروے شروع ہیں کہ آیا یہ حملوں کو مسلمانوں کے لیے ایک اور نائن ایلیون  ثابت ہوسکتے ہیں یا نہیں۔ جنگ رپورٹر سید شہزاد عالم کا کہنا ہے پیرس حملوں کا ملبہ جلد یا بدیر مشرق وسطیٰ اور یورپ کے مسلمانوں پر ہی گرے گا جو یورپ اور امریکہ میں مسلمان ہونے کے باعث پہلے ہی مختلف مسائل کا شکار ہیں اور اب ان حملوں کے بہانے مزید پابندیوں کا شکار ہوسکتے ہیں۔
     

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں