”سربکف “مجلہ۶(مئی، جون ۲۰۱۶)
مدیر
۴۔ احسان والی زندگی
ان لوگوں کے لیے نیکیاں کرنا آسان ہو جاتا ہے، گناہ سے بچنا آسان ہو جاتا ہے، کیسا ہی مخالف ماحول ہو جہاں صرف غیروں کی تہذیب کا سکہ چلتا ہو، یہ بطور ”مسلمان“ جاتے ہیں۔ کوئی بزم ہو، یہ سنتِ نبویﷺ پر عمل کرتے ہوئے شرماتے نہیں۔ نبی پاک ﷺ کی لائی ہوئی تہذیب کے سوا ہر تہذیب کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں۔ سنتِ نبوی ﷺ کے علاوہ ہر طریقے کو حماقت گردانتے ہیں۔
آپ حیران ہوں گے کہ یہ کس عمل کی برکت ہے؟ کون سے تعویذ کا اثر ہے؟ یا کس بزرگ کی دعاؤں کا ثمرہ ہے کہ ان کے لیے وصول الی اللہ کی راہ اس قدر سہل ہو جاتی ہے؟
یہ ساری آشفتہ سری ہے ”عشق“ کی! عشق و محبت وہ تعویذ ہے جس کے اثر کو دنیا کی کوئی قوت چیلنج نہیں کر سکتی۔ عشق وہ لازوال جذبہ ہے جس کے سامنے باطل سر نگوں ہونے پر مجبور ہے۔ پھر لاکھ گناہوں کے پھندے تیار کر دیے جائیں اور کتنی ہی للچانے والی لذات سامنے کر دی جائیں...عاشق کی نظر صرف پیارے اللہ پر ہوتی ہے... اس کا ٹکٹکی باندھے دیکھنا ختم ہو تو کسی اور جانب توجہ دے۔
محبت کے ان پروں سے جب انسان وصول الی اللہ کی راہوں پر چل پڑتا ہے تو اس کے لیے تہجد میں اٹھنا بھی آسان، اللہ کا ذکر کرنا بھی آسان، قرآن کی تلاوت بھی آسان، ہر موقع پر بلا خوف و خطر، سر بکف ہو کر حق کی بات کرنا بھی آسان!
ایک ہماری نماز ہے، ڈیلی روٹین(Daily Routine) والی...ریا والی...بے سوز...بے لذت...
جو میں سر بسجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا
ترا دل تو ہے صنم آشنا، تجھے کیا ملے گا نماز میں
اور ایک ان عاشقوں کی نماز ہے جو نماز سے پہلے نماز کے منتظر ہیں... شدّت سے رب دو جہاں کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہونے کے منتظرہیں۔ پھر نماز بھی ایسی... جس میں یہ رب کو دیکھتے ہیں... اور رب... ان کو دیکھتا ہے...
أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ کَأَنَّکَ تَرَاهُ
تم اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو کہ گویا تم اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہے ہو ۔
] صحیح مسلم،جلد اول: حدیث نمبر ۹۶[
کتنا پیارا جواب ہے پیارے آقا ﷺ کا ! جبرئیل علیہ السلام کا سوال تھا، ”احسان کیا ہے؟“
آپ نے معیار متعین کر دیا
”کَاَنَّکَ تَرَاہُ“
گویا تم اسے دیکھ رہے ہو۔
ان لوگوں کی نماز احسان کے درجہ کی ہوتی ہے۔ ان کے دل اللہ کی محبت میں دھڑکتے ہیں۔ ان کی سانسیں اللہ اللہ پکارتی ہیں۔ ان کے اعمال و افعال سے...حتیٰ کہ فقط دیدار سے...اللہ یاد آتا ہے۔ ان کی پیشانی کا نور چھپائے نہیں چھپتا۔ چھپے بھی کیسے؟ یہ مردِ حق کی پیشانی کا نور ہوتا ہے۔
مردِ حقانی کی پیشانی کا نور
کب چھپا رہتا ہے پیشِ ذی شعور
ان کا رونا بڑا عجیب ہوتا ہے۔ کم از کم ہم گناہگاروں کے لیے تو بے حد عجیب۔
ایک اللہ والے سے کسی نے کہا کہ جنت اعمال کے بدلے کی جگہ ہے، وہاں اعمال نہیں کرنے ہوں گے... سن کر رونے لگے کہ جنت میں نماز نہ ہوگی۔
ہاں! یہ جنت میں نماز پڑھنے کے لیے روتے ہیں...یہ تکبیرِ اولیٰ فوت ہونے پر روتے ہیں...یہ تہجد چھوٹ جانے پر روتے ہیں... اور ایسا روتے ہیں کہ شیطان نما ز کے لیے اٹھا دیتا ہے۔
اس مقام پر پہنچنا بھی چنداں مشکل نہیں۔ پیارے آقا مدنی ﷺ نے دین کو آسان بتایا ہے، اور مقامِ احسان کوئی دین سے باہر کی چیز تو ہے نہیں کہ اس تک رسائی مشکل ہو۔
ایک بزرگ فرمایا کرتے تھے کہ جنت دو قدم ہے۔ کسی نے پوچھا اس کا کیا مطلب ہے؟ فرمایا ”اے دوست! تو اپنا پہلا قدم نفس پر رکھ لے، تیرا دوسرا قدم جنت میں پہنچ جائے گا۔“
یہ کوئی نیا اور خود سے گھڑا ہوا ضابطہ نہیں، اللہ کا بنایا ہوا ضابطہ ہے۔
وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰى 40ۙفَاِنَّ الْجَنَّةَ ھِيَ الْمَاْوٰى 41ۭ
لیکن وہ جو اپنے پروردگار کے سامنے کھڑا ہونے کا خوف رکھتا تھا اور اپنے نفس کو بری خواہشات سے روکتا تھا۔تو جنت ہی اس کا ٹھکانا ہوگی۔
] سورہ ۷۹، النازعات: ۴۰-۴۱[
وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِ 46ۚ
اور جو شخص (دنیا میں) اپنے پروردگار کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرتا تھا، اس کے لیے دو جنتیں/ باغ ہوں گے۔
] سورہ ۵۵، الرحمٰن: ۴۶[
احسان والی زندگی تک پہنچنے کے لیے بھی صرف نفس پر ایک قدم درکار ہے۔ نفسِ امارہ کو مار دیں، حتیٰ کہ آپ کی پسندیدہ چیزیں وہی بن جائیں جنہیں شریعت نے پسند کیا ہے۔
اس کا حصول کثرتِ ذکرِ الٰہی۱ اور صحبتِ اولیاء اللہ۲ سے ہوگا۔
پہلی۱چیز ذکرِ الٰہی کی کثرت ہے جو نفس کو کچلنا آسان بناتی ہے۔ ظاہر ہے، آپ جس کا ذکر کریں، وہ چیز اچھی لگنے لگتی ہے۔ تجربہ کر کے دیکھ لیں! تکرار اچھی چیز کی ہو یا بری چیز کی، اپنا اثر ضرور چھوڑتی ہے۔ ایک پانی کا قطرہ تسلسل سے پتھر پر گرتا رہے تو پتھر میں سوراخ ہو جاتا ہے۔ اسی لیے حدیث شریف میں آقا ﷺ نے فرمایا کہ گناہ کرنے سے انسان کے قلب پر ایک سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے...اگر توبہ کر لے تو وہ نقطہ مٹ جاتا ہے ورنہ پھر گناہ کرنے سے پھر ایک نقطہ لگ جاتا ہے...حتیٰ کہ اس تکرار کے سبب اس کا پورا دل سیاہ ہو جاتا ہے...پھر بھلی بات اس کے دل پر اثر نہیں کرتی۔ یہ تکرار ہی کا تو اثر ہے۔
جس طرح کثرت سے گناہ کرنے سے آدمی گناہ کو گناہ نہیں سمجھتا، درست و نادرست کی تمیز کھو بیٹھتا ہے، بالکل اسی طرح اگر تکرار اللہ کے پاک نام کی ہو تو دل اجلا ہونے لگتا ہے...نیکی کی سمت دل راغب ہوتا ہے اور نفس کا کچلنا آسان معلوم ہوتا ہے۔
دوسری۲ چیز، جو نفس کو کچلنے اور مقامِ احسان پر پہنچنے میں معاون ہے وہ اللہ والوں کی صحبت ہے۔ پیر ذوالفقار احمد نقشبندی دامت برکاتہم فرماتے ہیں۔
”میرے پیر و مرشد فرمایا کرتے تھے کہ سبزی ملتی ہے سبزی والوں کے پاس، کپڑا ملتا ہے کپڑے والوں کے پاس، لوہا ملتا ہے لوہے والوں کے پاس، اسی طرح اللہ ملتا ہے اللہ والوں کے پاس۔“
صحبتِ اولیاء سے ہی محبتِ الٰہی نصیب ہوتی ہے اور جھوٹی، دکھاوے اور نمود کی عبادتوں میں اخلاص کی چاشنی گھلتی ہے، دو رنگی اترتی ہے اور ایک خالص رنگ چڑھتا ہے۔ وہ رنگ جسے اللہ نے سب سے بہتر رنگ بتایا ہے...
صِبْغَةَ اللّٰهِ ۚ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ صِبْغَةً
(کہہ دو کہ ہم نے) اللہ کا رنگ (اختیار کرلیا ہے) اور اللہ سے بہتر رنگ کس کا ہوسکتا ہے؟
] سورہ ۲، البقرہ: ۱۳۸[
فقیر ہی کا ایک شعر ہے...
سب سے بڑھ کر رنگ ہے اللہ کا
اور اس میں رنگنا آسان ہے
صبغۃ اللہ میں رنگے ہوئے ان عاشقوں کی دیوانگی کے کیا کہنے! ان کا رونا ہنسنا عجیب... چال ڈھال عجیب... اور دعائیں...سبحان اللہ! عجیب و غریب دعائیں...اللہ ہمیں بھی توفیق دے کہ ہم بھی دعا کو ہاتھ اٹھائیں...اشکِ محبت سے آنکھیں تر ہوں...عشقِ حقیقی سے دل پگھل رہا ہو...دنیا و ما فیہا کو بھول کر... یوں محبت میں ڈوبی دعائیں مانگیں...
ربا!
ترے عشق کی انتہاء چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
ذرا سا تو دل ہوں مگر شوخ اتنا
وہی ”لَنْ تَرَانِی“ سنا چاہتا ہوں
بلا شبہ یہ وہ ہیں جو عاشق ہیں... اور ... یہ وہ ہیں جو کامیاب ہیں...اللہ ہمیں بھی اپنے عشاق میں شامل فرمائے۔
فقیر شکیبؔ احمد عفی عنہٗ
بروز پیر، ۱۱:۱۰ بجے صبح
٭٭٭
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں