جمعرات، 14 فروری، 2019

کیا فقہ حنفی میں متعہ جائز ہے؟ ـــ غیر مقلدین کا دھوکہـــ

”سربکف “مجلہ۶(مئی، جون ۲۰۱۶)
محسن اقبال ﷾

غیر مقلدین کا فقہ حنفی پہ ایک اعتراض یہ ہے کہ فقہ حنفی میں معین مدت تک نکاح یعنی کہ متعہ جائز ہے لیکن غیر مقلدین ہمیشہ کی طرح یہاں بھی دھوکہ دیتے ہیں۔ اصل مسئلہ طلاق کی نیت سے نکاح کرنے کا ہے جس میں فقہا کا اختلاف ہے اور اسی بات کو فتاوی عالمگیری میں ذکر کیا گیا ہے جس کو غیر مقلد دھوکہ سے متعہ بنا کر پیش کر رہے ہیں۔
سب سے پہلی بات کہ یہ فتوی ان غیر مقلدین نے شیعہ سے چوری کیا ہے۔
شیعہ یہ الزام اہلسنت پہ لگاتے ہیں کہ اہلسنت کے نزدیک متعہ جائز ہے جس کو غیر مقلدین احناف اور فقہ حنفی کے بغض اور حسد میں آگے پھیلا رہے ہیں۔
غیر مقلدین کی اطلاع کے لئے سعودیہ کے مشہور محدث علامہ ابن بازؒ کے نزدیک بھی طلاق کی نیت سے نکاح کرنا جائز ہے اور یہ متعہ نہیں کہلاتا۔
علامہ ابن بازؒ کا یہ فتوی ان کی کتاب مقالات و فتاوی ابن باز،ج4 صفحہ 30 اور مسائل امام ابن باز، ج1 صفحہ 185 پر واضح طور پہ دیکھا جا سکتا ہے۔
علامہ ابن بازؒ کے علاوہ کئی اکابرین کے نزدیک طلاق کی نیت سے نکاح جائز ہے۔
امام نووی الشافعی کہتے ہیں:
وبه قال القاضي أبو بكر الباقلاني قال القاضي وأجمعوا على أن من نكح نكاحا مطلقا ونيته أن لا يمكث معها الا مدة نواها فنكاحه صحيح حلال وليس نكاح متعة وإنما نكاح المتعة ما وقع بالشرط المذكور
اور یہ وہ ہے جو قاضی ابو بکر الباقلانی نے کہا ہے۔ قاضی کہتے ہیں:'اس بات پر اجماع" ہے کہ جو بھی مطلق نکاح(نکاح دائمی) کرتا ہے لیکن نیت یہ ہوتی ہے کہ عورت کے ساتھ صرف کچھ مدت کے لیے ہی رہے گا، تو بلاشبہ ایسا نکاح صحیح اور حلال ہے اور یہ نکاح المتعہ (کی طرح حرام) نہیں ہے کیونکہ نکاح المتعہ میں پہلے سے ہی یہ شرط مذکور ہوتی ہے (کہ ایک مدت کے بعد خود بخود طلاق ہو جائے گی)۔اور امام مالک ؒکے نزدیک یہ اخلاق میں سے نہیں ہے اور امام اوزاعیؒ کے نزدیک یہ متعہ ہی ہے۔
( کتاب المنہاج شرح مسلم، جلد 9 صفحہ 182)
امام اہلسنت ابن قدامہ الحنبلی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:
إن تزوجها بغير شرط، إلا أن في نيته طلاقها بعد شهر، أو إذا انقضت حاجته في هذا البلد، فالنكاح صحيح في قول عامة أهل العلم إلا الأوزاعي، قال: هو نكاح متعة. والصحيح أنه لا بأس به
اگر وہ عورت سے (مدت) کی کوئی شرط کیے بغیر نکاح کرتا ہے لیکن دل میں نیت ہے کہ اُسے ایک ماہ کے بعد طلاق دے دے گا یا پھر اُس علاقے یا ملک میں اپنی ضرورت پوری ہونے کے بعد طلاق دے دے گا (اور پھر آگے روانہ ہو جائے گا) تو پھر اہل علم کے مطابق بلاشبہ ایسا نکاح بالکل صحیح ہے ، سوائے الاوزاعی کے جنہوں نے اسے عقد المتعہ ہی جانا ہے لیکن صحیح یہی رائے ہے(جو اہل علم کی ہے) کہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔
( المغنی، جلد 7، صفحہ 573)
سعودی ِعرب کے سابق مفتی ِاعظم شیخ ابن باز فرماتے ہیں:
] شیخ ابن باز صاحب سے سوال]: آپ نے ایک فتوی جاری کیا ہے کہ اس بات کی اجازت ہے کہ ویسٹرن [مغربی] ممالک میں اس نیت سے شادی کر لی جائے کہ کچھ عرصے کے بعد عورت کو طلاق دے دی جائے۔۔۔۔۔ تو پھر آپکے اس فتوے اور عقد متعہ میں کیا فرق ہوا؟
]شیخ ابن باز کا جواب]: جی ہاں، یہ فتوی سعودیہ کی مفتی حضرات کی مستقل کونسل کی جانب سے جاری ہوا ہے اور میں اس کونسل کا سربراہ ہوں اور یہ ہمارا مشترکہ فتوی ہے کہ اس بات کی اجازت ہے کہ شادی کی جائے اور دل میں نیت ہو کہ کچھ عرصے کے بعد طلاق دینی ہے [ہمارا تبصرہ: یعنی لڑکی کو دھوکے میں رکھنا جائز ہے اور اسے بتانے کی ضرورت نہیں کہ دل میں نیت تو کچھ عرصے بعد طلاق کی کر رکھی ہے]۔ اور یہ (طلاق کی نیت) معاملہ ہے اللہ اور اسکے بندے کے درمیان۔
اگر کوئی شخص (سٹوڈنٹ) مغربی ملک میں اس نیت سے شادی کرتا ہے کہ اپنی تعلیم مکمل ہونے کے بعد یا نوکری ملنے کے بعد لڑکی کو طلاق دے دے گا تو اس میں تمام علماء کی رائے کے مطابق ہرگز کوئی حرج نہیں ہے۔ نیت کا یہ معاملہ اللہ اور اسکے بندے کے درمیان ہے اور یہ نیت نکاح کی شرائط میں سے نہیں ہے۔
عقد متعہ اور مسیار میں فرق یہ ہے کہ عقد متعہ میں باقاعدہ ایک مقررہ وقت کے بعد طلاق کی شرط موجود ہے جیسے مہینے ، دو مہینے یا سال یا دو سال وغیرہ۔ عقد متعہ میں جب یہ مدت ختم ہو جاتی ہے تو خود بخود طلاق ہو جاتی ہے اور نکاح منسوخ ہو جاتا ہے، چنانچہ یہ شرط عقد متعہ کو حرام بناتی ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص اللہ اور اسکے رسول ﷺ کی سنت کے مطابق نکاح کرتا ہے، چاہے وہ دل میں طلاق کی نیت ہی کیوں نہ رکھتا ہو کہ جب وہ مغربی ملک کو تعلیم کے بعد چھوڑے گا تو لڑکی کو طلاق دے دے گا، تو اس چیز میں کوئی مضائقہ نہیں، اور یہ ایک طریقہ ہے جس سے انسان اپنے آپ کو برائیوں سے محفوظ رکھ سکتا ہے اور زناکاری سے بچ سکتا ہے، اور یہ اہل علم کی رائے ہے۔ 
(مقالات و فتاوی ابن باز،ج4 صفحہ 30 اور مسائل امام ابن باز، ج1 صفحہ 185، فتاوی اسلامیہ، جلد 3 صفحہ 264)
غیر مقلدین کے مکتبہ دار السلام سے غیر مقلدین کی تصدیق شدہ کتاب ''کتاب النکاح'' میں بھی سید سابقؒ کے حوالے سے طلاق کی نیت سے نکاح کو صحیح مانا گیا ہے۔
اس کتاب کو عمران ایوب لاہوری نے لکھا ہے اور اس میں علامہ البانیؒ کی تحقیق سے استفادہ کیا گیا ہے اور غیر مقلدین کے مکتبہ دارالسلام نے اس کتاب کو چھاپا ہے۔
کیا غیر مقلدین علامہ ابن بازؒ، علامہ البانیؒ اور عمران ایوب لاہوری پہ یہ فتوی لگائیں گے کہ ان علماء کے نزدیک بھی احناف کی طرح متعہ جائز ہے؟
یہ تھی غیرمقلدین کے جاہلانہ الزام کی حقیقت اور اب غیر مقلدین سے گزارش ہے کہ اگر وہ قرآن و حدیث کے ماننے والے ہیں تو احناف کے ساتھ ساتھ ان اکابرین پہ بھی متعہ کے جائز کہنے کا فتوی لگائیں ۔
شکریہ
غلامِ خاتم النبیینﷺ
محسن اقبال
٭٭٭
ایک چیلنج
عبد الرشید قاسمی سدھارتھ نگری ﷾
مشہور اہل حدیث عالم اور مصنف مولانا محمد ابو الحسن سیالکوٹی مرحوم اپنی کتاب "الظفر المبین فی رد مغالطات المقلدین" کے صفحہ 40 پر مغالطہ نمبر 3 کے تحت قیاس کی حرمت اور عدم مشروعیت کا فتوی دینے کے بعد صفحہ 43 پر مغالطہ نمبر 4 کے جواب میں لکھتے ہیں کہ:
”اگر کوئی شخص غور سے از راہ تحقیق قرآن اور حدیث کی طرف نظر کرے اور دیکھے تو ہر ایک مسئلہ قرآن اور حدیث سے معلوم ہوسکتا ہے ـ کسی مسئلہ کے لئے بھی کسی کو مسائل فقہیہ کی حاجت (ضرورت) نہیں رہے گی۔ “
(الظفرالمبین حصہ اول)
یہاں ہمیں اس سے بحث نہیں ہے کہ قیاس حجت اور دلیل ہے یا نہیں؟
اگر حجت ہے تو اس کے دلائل کیا ہیں؟
اور اگر حجت نہیں ہے تو اکثر علماء غیر مقلدین کیوں اپنی کتابوں میں قیاس کو چوتھی دلیل اور حجت تسلیم کرتے ہیں؟
نہ اس سے بحث ہے کہ جو علماء غیر مقلدین قیاس کو اپنی کتب میں حجت مانتے ہیں، ان کی بات صحیح ہے یا آپ کی؟
نہ یہ وضاحت کرنی ہے کہ اکثر علماء غیر مقلدین قیاس کو بوجہ مجبوری حجت مانتے ہیں، یا لوگوں کو فریب میں مبتلاء کرنے کے لئے؟
اور...
 نہ آپ سے یہ پوچھنا ہے کہ جب قرآن و حدیث کی طرف از راہ تحقیق دیکھ لینے سے مسائل فقہیہ کی حاجت نہیں رہتی تو بقول آپ کے محدث گوندلوی (رحمہ اللہ)، شیخ الکل فی الکل میاں نذیر حسین محدث دہلوی کے فتاوی کا اکثر حصہ کیوں فقہ حنفی سے ماخوذ ہے؟
کیا شیخ الکل فی الکل کی نظر از راہ تحقیق قرآن و حدیث کی طرف نہیں تھی؟
اگر تھی تو فقہ حنفی کا سہارا لینے کی کیا ضرورت تھی؟ اور اگر نہیں تھی تو
پھر..... 
صرف یہ عرض کرنا ہے کہ جب بقول شما فقہی مسائل میں قیاس حجت اور دلیل نہیں، بلکہ حرام ہے، اور سارے پیش آمدہ مسائل قرآن و حدیث میں از راہ تحقیق نظر کرنے سے مل جائیں گے، تو زیادہ نہیں، ایک بھینس اور اس کے دودھ کی حلت ہی قرآن کریم کی کسی آیت یا کسی ایسی حدیث سے ثابت کر دیں جس میں قیاس کا قطعاً دخل نہ ہو ـ 
ہے کوئی مردِ مجاہد!!!
٭٭٭

     

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں