منگل، 12 فروری، 2019

اہل حدیث یا منکر حدیث

”سربکف “مجلہ۴  (جنوری ، فروری ۲۰۱۶)
 حافظ محمود احمد(عرف عبد الباری محمود)

*غیر مقلدین کے مشہور عالم اورخطیب عبدالسلام بُھٹوی کااحناف دشمنی میں سجدوں والی رفع یدین کی احادیث کا کھلم کھلا انکار*
قارئین کرام! فرقہ غیر مقلدین کے معروف عالم اور مسجد طیبہ اہلحدیث وحدت کالونی کے خطیب عبدالسلام صاحب بُھٹوی (گوجرانوالہ) "ایک دین اور چار مذاہب" کےصفحہ 42 ، 43  پر قاضی حمید اللہ صاحب دیوبندی کو جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں: 
"باقی رہی یہ بات کہ ہم سجدوں میں رفع یدین کیوں نہیں کرتے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ سجدوں میں رفع یدین کرنے کی ایک بھی روایت ثابت نہیں۔ پھر دو سطر بعد مزید لکھتے ہیں: "میں نے تو یہ جواب دے دیا ہےکہ سجدوں والی رفع یدین ثابت نہیں۔ کیا آپ کا جواب بھی یہی ہے کہ رکوع جاتے اور اٹھتے وقت کی رفع یدین ثابت نہیں؟ صاف طور پر لکھئے۔"
 تبصرہ: قارئین کرام! یہ عبدالسلام صاحب غیر مقلد کا سفید جھوٹ، احناف سے عداوت، بد ظنی بلکہ ترک تقلید کا ثمرہ یعنی "انکار حدیث" کا نتیجہ ہے، اس لیےکہ امام نسائی رحمہ اللہ نے اپنی سنن نسائی میں سجدوں میں رفع یدین کرنے کی نہ صرف حدیث لائے ہیں بلکہ اس پر باب بھی باندھا ہے۔ چنانچہ نسائی شریف جلد 1 میں امام نسائؒی نے یوں باب قائم کیا ہے: 
بَابُ رَفْعِ الْيَدَيْنِ عِنْدَ الرَّفْعِ مِنَ السَّجْدَةِ الْأُولَى بعدہ 
اور یہ حدیث لائے ہیں:
 أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنِی أَبِی، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ نَصْرِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ، «أَنَّ نَبِیَّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا دَخَلَ فِی الصَّلَاةِ رَفَعَ يَدَيْهِ، وَإِذَا رَكَعَ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ السُّجُودِ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ كُلَّهُ» يَعْنِی: رَفْعَ يَدَيْهِ۔ 
[سنن النسائی: حدیث 1143، كِتَابُ التَّطْبِيقِ، بَابُ رَفْعِ الْيَدَيْنِ عِنْدَ الرَّفْعِ مِنَ السَّجْدَةِ الْأُولَى] 
ترجمہ: محمد بن مثنی، معاذ بن ہشام، قتادہ، نصربن عاصم، مالک بن حویرث سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول کریم ﷺ کو دیکھا کہ جس وقت نماز میں جاتے پھر روایت اسی طریقہ سے بیان فرمائی البتہ اس روایت میں یہ اضافہ ہے کہ جس وقت رکوع فرماتے تو اس طریقہ سے عمل فرماتے اور جس وقت سجدہ سے سر اٹھاتے اس طریقہ سے عمل فرماتے (دونوں ہاتھ) اٹھاتے تھے۔
اس حدیث میں رکوع کرتے وقت اور سجدہ سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین کرنے کا ذکر ہے۔
اسی طرح ایک باب اور قائم کیا ہے:
 بَابُ رَفْعِ الْيَدَيْنِ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ تِلْقَاءَ الْوَجْه 
اور پھر یہ حدیث ذکر کی ہے:
 أَخْبَرَنَا مُوسَى بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُوسَى الْبَصْرِیُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ كَثِيرٍ أَبُو سَهْلٍ الْأَزْدِیُّ، قَالَ: صَلَّى إِلَى جَنْبِی عَبْدُ اللَّهِ بْنُ طَاوُسٍ بِمِنًى فِی مَسْجِدِ الْخَيْفِ، فَكَانَ «إِذَا سَجَدَ السَّجْدَةَ الْأُولَى فَرَفَعَ رَأْسَهُ مِنْهَا، رَفَعَ يَدَيْهِ تِلْقَاءَ وَجْهِهِ» فَأَنْكَرْتُ أَنَا ذَلِكَ، فَقُلْتُ لِوُهَيْبِ بْنِ خَالِدٍ: إِنَّ هَذَا يَصْنَعُ شَيْئًا لَمْ أَرَ أَحَدًا يَصْنَعُهُ، فَقَالَ لَهُ وَهَيْبٌ: تَصْنَعُ شَيْئًا لَمْ نَرَ أَحَدًا يَصْنَعُهُ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ طَاوُسٍ: رَأَيْتُ أَبِی يَصْنَعُهُ، وَقَالَ أَبِی: رَأَيْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ يَصْنَعُهُ، وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُهُ.
 [سنن النسائی:1146، كِتَابُ التَّطْبِيقِ، بَابُ رَفْعِ الْيَدَيْنِ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ تِلْقَاءَ الْوَجْهِ]
 ترجمہ: موسی بن عبداللہ بن موسیٰ بصری، نضربن کثیر، ابوسہل ازدی نے فرمایا کہ میرے نزدیک حضرت عبداللہ بن طاؤس نے مقام منیٰ میں مسجد خفیف کے اندر نماز ادا کی تو جس وقت انہوں نے پہلے سجدہ سے سر اٹھایا تو دونوں ہاتھ چہرہ کے سامنے کئے میں نے اس کا انکار کیا اور حضرت وہیب بن خالد سے کہا کہ یہ شخص وہ کام کرتا ہے کہ ہم نے جو کام کسی شخص کو کرتے نہیں دیکھا ہے حضرت عبداللہ بن طاؤس نے فرمایا کہ میں نے اپنے والد کو اس طرح کرتے دیکھا ہے اور وہ کہتے تھے کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عباس کو اس طرح سے کرتے دیکھا ہے اور حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے تھے کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ عمل کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
 اس حدیث میں دونوں سجدوں کے درمیان رفع یدین کرنے کا ذکر ہے۔ اور شارح بخاری علامہ ابن حجر عسقلانیؒ اپنی فتح الباری میں یہ حدیث نقل کرتے ہیں:
 عن مالك بن الحويرث رأى النبی صلى الله عليه وسلم رفع يديه فی صلاته إذا ركع ، وإذا رفع رأسه من ركوعه وإذا سجد ، وإذا رفع رأسه من سجوده حتى يحاذی بهما فروع أذنيه
 ترجمہ: حضرت مالک بن حویرثؓ فرماتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی نماز میں رکوع کے وقت دونوں ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھا اور اسی طرح رکوع سے سر اٹھاتے وقت اور اسی طرح سجدہ کرتے وقت اور سجدہ سے سر اٹھاتے وقت آپ اپنا دونوں ہاتھ اٹھا کر کانوں تک لے جاتے"
] فتح الباری: جلد 2، صفحہ223 [

غیر مقلدین کے محدث اور رہبر اعظم کی گواہی:
قارئین کرام! سجدوں میں جاتے وقت کا رفع یدین حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور 10 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے صحیح سند کے ساتھ مروی ہے۔ چنانچہ جماعت غیر مقلدین کے رہبر اعظم اور مستند شدہ محقق و محدث علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
 ْْ''کبھی کبھار آپ سجدہ میں جاتے وقت بھی رفع الیدین بھی کرتے۔"
اور اس کے حاشیہ میں لکھتے ہیں:

یہ رفع یدین دس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم سے مروی ہے اور سلف کی ایک جماعت اس کے مسنون ہونے کی قائل ہے جن میں سے ابن عمر، ابن عباس، حسن بصری، طاووس، عبداللہ ابن طاووس، نافع مولی ابن عمر، سالم ابن عبداللہ بن عمر، قاسم بن محمد، عبداللہ بن دینار، اور عطاء ہیں۔ عبدالرحمٰن بن مہدی رحمہ اللہ نے اسے مسنون بتایا ہے۔ 
اور امام مالک اور شافعی کا ایک قول بھی یہی ہے۔ رحمہم اللہ تعالیٰ جمیعا''
] صفۃ صلاۃ النبی (مترجم) علامہ ناصر الدین البانی، صفحہ 204[
جب سجدوں کا رفع یدین آپ صلی اللہ علیہ وسلم و حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھ ساتھ دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سےصحیح سند کے ساتھ غیر مقلدین کے تصدیق شدہ محقق کی تصریح کے ساتھ ثابت ہے تو پھر غیر مقلد عبدالسلام صاحب کا یہ کہنا کہ "سجدوں میں رفع یدین کرنے کی ایک بھی روایت ثابت نہیں" ، کھلم کھلا انکار حدیث نہیں تو اور کیا ہے؟
نوٹ: واضح رہے یہ وہی عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ ہیں جن سے غیر مقلدین اپنی رفع یدین کی حدیث روایت کرتے ہیں۔
اب سجدوں سے سر اٹھاتے وقت کے رفع یدین کا ثبوت بھی علامہ البانیؒ سے ملاحظہ ہو:
 قارئین! غیر مقلدین کے رہبر اعظم علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سجدوں سے سر اٹھاتے وقت والے رفع یدین کو نہ صرف ثابت مانتے ہیں بلکہ اسے صحیح بھی کہتے ہیں، چنانچہ لکھتے ہیں:
" آپ اس جگہ کبھی کبھار "اللہ اکبر" کہتے وقت رفع یدین بھی کرتے۔"
اس کے حاشیہ میں رقم طراز ہیں: ّ''امام احمد رحمہ اللہ تعالیٰ اس مقام پر اور اسی طرح نماز میں ہر اس مقام پر رفع یدین کے قائل ہیں جہاں "اللہ اکبر" کہا جائے، چنانچہ امام ابن قیم "البدائع ج 4 / 89" میں فرماتے ہیں کہ:
 امام اثرم امام احمد سے روایت کرتے ہیں کہ ان سے رفع یدین کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا ” نماز میں ہر حرکت پر رفع یدین کرنا چاہئے“۔ امام اثرم فرماتے ہیں کہ میں نے امام احمد کو نماز کے اندر ہرحرکت پر رفع یدین کرتے دیکھا۔ نیز ایک سطر کے بعد دوسری سطر میں لکھا ہے: اور اس مقام پر رفع یدین کرنا انس ابن مالک، ابن عمر، نافع، طاؤوس، حسن بصری، ابن سیرین اور ایوب سختیانی رضی اللہ عنہم و رحمہم اللہ سے صحیح اسانید سے مصنف ابن ابی شیبہ (106/1) میں مروی ہے''۔ 
] صفۃ صلاۃ النبی (مترجم) علامہ ناصر الدین البانی، صفحہ215 [
یہاں علامہ البانیؒ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت انس ابن مالک وحضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سجدوں سے سر اٹھاتے وقت کا رفع یدین صحیح سند سے ثابت کیا ہے۔ لہٰذا غیر مقلد عبدالسلام صاحب بُھٹوی کا سجدوں میں جاتے وقت اور سر اٹھاتے وقت رفع یدین کا انکار کرنا انکے جاہل اور منکر حدیث ہونے کا واضح ثبوت ہے۔ اللہ پاک جہالت اور کذب بیانی سے ہماری حفاظت فرمائے۔ (آمین)
خاکپائے علمائے دیوبند
حافظ محمود احمد عرف عبدالباری محمود
٭٭٭

     

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں