جمعرات، 14 فروری، 2019

رمضان المبارک کی قدر دانی

”سربکف “مجلہ۶(مئی، جون ۲۰۱۶)
حضرت مولانا کلیم صدیقی دامت برکاتہم

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَيِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَالْفُرْقَانِ ۚ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ۭ
رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لئے سراپا ہدایت، اور ایسی روشن نشانیوں کا حامل ہے جو صحیح راستہ دکھاتی اور حق و باطل کے درمیان دو ٹوک فیصلہ کردیتی ہیں، لہذا تم میں سے جو شخص بھی یہ مہینہ پائے وہ اس میں ضرور روزہ رکھے ۔
(آسان ترجمہ قرآن- سورہ ۲،البقرہ: ۱۸۵)
ہر انسان کی یہ فطری خواہش ہوتی ہے کہ اللہ کی جو نعمتیں اس کو میسر ہیں ان میں برکت اور اضافہ ہوتا رہے اور وہ نعمت اس سے چھین نہ لی جائے۔ نعمت میں اضافہ اور برکت کے لئے اور نعمت کو ضائع ہونے سے بچانے کے لئے منعم حقیقی اور رب کائنات نے یہ ضابطہ ارشاد فرمایا ہے :
اور جب تمہارے رب نے اعلان کر دیا کہ اگر تم شکرو گے تومیں اور بڑھا دوں گا اور اگر ناشکری کرو گے تو بے شک ہیں ا عذاب سخت ہے۔
شکر نعمت پر نعمت میں اضافہ اور کفران نعمت پر اللہ کی پکڑ سخت ہونے کا اعلان بالکل فطری اور ضابطہ کے مطابق ہے، ناشکری پر اللہ کے غصہ اور پکڑ کے تین درجے ہیں :
پہلا درجہ یہ ہے کہ کفران نعمت کے وبال میں نعمت چھین لی جائے۔
 دوسرا درجہ نعمت کے چھین لینے سے زیادہ ہے کہ نعمت موجود ہے مگر نعمت کا فائدہ اٹھانے کی توفیق نہیں رہتی۔
 اور تیسرا سب سے زیادہ سخت ہے کہ نعمت کا فائدہ ہونے کے بجائے ناقدری کی وجہ سے نعمت کا نقصان ہو جاتا ہے اور گویا نعمت، زحمت بن جاتی ہے۔
 نعمت کے شکر کا ایک درجہ یہ ہے کہ بندہ زبان سے اللہ کا شکر اور حمد کرے۔ ہر نعمت کے ملنے کے احسان میں الحمدللہ کہے۔ اس کے آگے دوسرا درجہ یہ ہے کہ منعم کی احسان مندی اور آخری درجہ میں شکر کی کیفیت اس قدر پیدا ہو جائے جو بندے کو نافرمانی سے روک دے۔ اور شکر کا سب سے اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ دی ہوئی نعمت کو اللہ کی مرضی کے مطابق قدردانی کے ساتھ استعمال کرے۔ بنانے والے اور دینے والے کی مرضی کے مطابق نعمت کا استعمال اس کی حقیقی قدردانی ہے، اللہ تعالیٰ اس کائنات کے خالق ہیں اور بندوں کی ہر چیز ان کی عطا ہے۔ دنیا کی تمام مخلوقات اور نعمتوں کو اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لئے بنایا ہے لیکن ان چیزوں کے نفع اور نقصان کا دار و مدار انسان کے اپنے استعمال کے انداز پر ہے۔
 یہ عام ضابطہ ہے کہ ہر بنانے والا کسی چیز کو جس مقصد کے لئے بناتا ہے وہ مقصد اور نفع حاصل کرنے کے لئے اس کے استعمال کا قاعدہ اور ضابطہ بھی متعین کرتا ہے اور اسی ضابطہ پر اس کے نفع کا انحصار ہوتا ہے، اس ضابطہ کی خلاف ورزی کرنے سے فائدہ کے بجائے نقصان ہونے لگتا ہے۔ مثال کے طور پر مختلف فیکٹریاں گاڑیاں اور کاریں بناتی ہیں، جن کے ذریعہ انسان بڑی عافیت کے ساتھ لمبے سفر کی مسافت جلدی طے کر لیتا ہے۔ اللہ کی اس نعمت میں بنانے والوں نے ایک ضابطہ مقرر کر دیا ہے کہ یہاں ڈرائیور بیٹھے گا یہاں سواریاں بیٹھیں گی، یہاں پٹرول اور یہاں پانی ڈالا جائے گا، اگر سامنے راستہ صاف ہو تو ایکسی لیٹر دبا کر گاڑی کی رفتار بڑھائی جائے گی اور اگر سامنے سے کوئی دوسری گاڑی آ رہی ہو یا کوئی اور رکاوٹ ہو تو بریک لگائے جائیں گے اور ضرورت کے مطابق گاڑی کو روکا یا سست رفتار کیا جائے گا، ان ضوابط کی جب بھی خلاف ورزی کی جائے گی نقصان یقینی ہو گا، مثال کے طور پر کہیں بھیڑ ہے اور ٹریفک زیادہ ہے اور ضابطہ کے اعتبار سے آپ کو گاڑی روکنی ہے، لیکن آپ نے ایکسی لیٹر پر پاؤں دبا کر ریس مزید بڑھا دی تو ایسا خطرناک ایکسیڈنٹ ہونے کا اندیشہ ہے جس سے آپ کا زندگی کا سفر ختم ہو جائے گا۔ لہٰذا وہی گاڑی جو ایک نعمت تھی، ضابطہ کی خلاف ورزی کی وجہ سے ذریعہ ہلاکت بن گئی۔
 اسی طرح ساری بندوقیں اس لئے بنائی جاتی ہیں کہ آدمی اپنی جان کے دشمنوں سے اپنی حفاظت کرے، بنانے والوں نے اس کے لئے یہ ضابطہ بنایا ہے کہ آپ کو دشمن سے خطرہ ہو تو بندوق میں گولی ڈالئے اور نال کو دشمن کی طرف کر کے فائر کیجئے، آپ کا دشمن وہیں ڈھیر ہو جائے گا اور آپ کی جان محفوظ رہے گی۔ لیکن اگر کوئی شخص اس ضابطہ کی خلاف ورزی کر کے فائر کر دے۔ تو وہی بندوق جو جان کی حفاظت کے لئے خریدی گئی تھی خود اسی کی ہلاکت کا ذریعہ بن جائے گی۔ اس لئے کہ اس میں اس کے ضابطہ استعمال کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔
 جس طرح دنیا کی چیزوں میں ضابطہ اور قاعدہ جاری ہے اسی طرح خالق کائنات اور منعم حقیقی نے دنیا کی تمام مخلوق اور اشیاء میں جو انسانوں کو بطور نعمت عطا کی گئی ہیں ان کے استعمال کا ایک قاعدہ مقرر کیا ہے۔ اگر ان ضوابط کی رعایت رکھی جائے گی تو اس نعمت کا فائدہ ہو گا اور اس میں برکت ہو گی اور یہ نعمت کا شکر بھی ہو گا اور اگر ضابطوں کے مطابق انسان نعمتوں کو استعمال نہیں کرے گا تو یہ کفران نعمت بھی ہو گا اور یہ نعمت انسان کے لئے زحمت بھی بن جائے گی۔
آنکھ اللہ کی ایک نعمت ہے ایک معمولی درجہ کے غریب انسان سے اگر کہا جائے کہ آپ کے پاس دو آنکھیں ہیں آپ کا کام ایک آنکھ سے بھی چل سکتا ہے اس لئے آپ دو کرو ڑ روپئے لے کر ایک آنکھ مجھے دیدیں تو کوئی صاحب عقل انسان اس کے لئے تیار نہ ہو گا۔ اتنی قیمتی آنکھ اللہ نے بلا طلب ہمیں عطا فرمائی ہے، اس کے لئے بھی اللہ تعالیٰ نے ایک ضابطہ اور قاعدہ مقرر کر دیا ہے اسی کے مطابق آنکھ کا استعمال کیا جانا چاہئے۔ مثال کے طور پر حدیث میں آیا ہے کہ ایک مطیع بیٹے کی اپنے والد کی طرف محبت کی ایک نگاہ مقبول حج کا ثواب رکھتی ہے کسی صحابی نے عرض کیا، یا رسول اللہ !اگر کوئی روزانہ سو بار دیکھے ؟آپ نے فرمایا: اللہ کے خزانے میں کوئی کمی نہیں سو مقبول حج کا ثواب ملے گا۔ اس کے برخلاف نامحرم کو یا کسی کا ستر دیکھنے سے منع فرمایا ہے، اور اس کے لئے آنکھ کو گرم سلاخوں سے داغ دئیے جانے کی وعید ارشاد فرمائی گئی ہے۔ باپ کو دیکھنے پر مقبول حج کا ثواب اس لئے ہے کہ آنکھ کا استعمال بنانے والے کے ضابطہ کے مطابق کیا گیا ہے اور نامحرم کو دیکھنے پر سزا اس لئے ہے کہ اس کا استعمال بنائے گئے ضابطے کے خلاف کیا گیا ہے، اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نعمت کے نفع اور برکت کا دار و مدار یا اس نعمت کے نقصان کا دار و مدار اس نعمت کو اللہ کی مرضی کے مطابق یا اس کے خلاف استعمال کرنے پر ہے۔ ایمان بھی درحقیقت اس عہد کا نام ہے کہ کلمہ پڑھ کر آدمی اس کا عہد کرے کہ ہر نعمت کا استعمال اللہ کی مرضی کے مطابق اس طرح کرو ں گا جس طرح اللہ نے اپنے رسول کے واسطے سے اس کے استعمال کا طریقہ بتایا ہے۔ اللہ کی طرف سے بندوں پر جو انعامات مسلسل بارش کی طرح برستے ہیں اور جن کے بارے میں قرآن کریم میں ارشاد ہے: و ان تعدوا نعمۃ اللہ لا تحصوھا(اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنے لگو تو ان کو شمار نہیں کر سکتے )
ان تمام انعامات میں سب سے بڑی نعمت قرآن کریم ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ جہاں اللہ نے سورۂ رحمٰن میں اپنی خاص نعمتوں کا تذکرہ فرمایا ہے وہاں ہر نعمت کے ذکر کے ساتھ فبای آلاء ربکما تکذبان (تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے )فرمایا گیا ہے، یعنی ہم نے تم کو یہ ساری نعمتیں جو عطا فرمائی ہیں ان میں سے کون کون سی نعمت کا انکا ر کرو گے ؟اس ضمن میں اپنی صفتِ رحمٰن کی دلیل اور ثبوت کے طور پر جو نعمتیں شمار کرائی گئی ہیں ان میں سب سے پہلے اور بطور عنوان جس نعمت کا تذکرہ ہے وہ علم قرآن کی نعمت ہے۔ ارشاد ہے : 
الرحمٰن علم القرآن(سورہ ۵۵، الرحمٰن: ۱-۲)(وہ رحمٰن ہے، اس نے قرآن سکھایا)
اس نعمتِ قرآن کی شان دیکھئے کہ جس رات میں قرآن نازل ہوا، اس رات کو لیلۃ الجائزہ (انعام کی رات ) قرار دیا اور اس رات کے ایک ہزار ماہ سے افضل ہونے کا شاہی اعلان کر دیا گیا۔ اور جس مہینے میں قرآن نازل ہوا اس پورے مہینے کو عطائے شاہی کے جشن کا مہینہ قرار دیا اور پوری دنیا کی سردار امت کو اسے احکم الحاکمین کے دستور کے شاہی جشن کے طور پر منانے کا حکم دیا، کسی بھی ملک کے دستور اور آئین کے نفاذ کے دن کو وہاں کا قومی دن شمار کیا جاتا ہے کیونکہ ضابطہ اور آئین و اصول انسان کے لئے ذریعہ عافیت و سکون ہوتے ہیں، حضرت مولانا محمد احمد پر تاب گڈھی کے بقول :
اگر آزاد ہم ہوتے نہ جانے ہم کہاں ہوتے
 مبارک عاشقوں کے واسطے دستور ہو جانا
قرآن حکیم کی نعمت عظمیٰ کے اعزاز میں اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کے لئے پورے ماہ مبارک کو اپنی رحمت کا عظیم ان جشن اور اپنی عطا و بخشش کا مہینہ قرار دے کر، امت کے گنہ گاروں اور ہر خاص و عام کے لئے اپنی رحمت کے دہانے کھول دئیے ہیں، اللہ تعالیٰ نے اپنی اس نعمت کا کس شان کے ساتھ ذکر فرمایا ہے :
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَيِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَالْفُرْقَانِ ۚ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ۭ
(گویا اللہ تعالیٰ یوں فرما رہے ہیں، واہ واہ !ہمارا رمضان کا مہینہ بھی کیا مہینہ ہے، جس میں ہم نے اپنی سب سے بڑی نعمت قرآن نازل فرمائی جو انسان کے لئے ہدایت ہے )
ایک سچے مسلمان اور اللہ کے فرماں بردار غلام پر فرض ہے کہ وہ بندگی کا حق ادا کرے اور بندگی کے حق کے طور پر اس ماہِ مبارک کی قدردانی کا حق یہ ہے کہ اس ماہ مبارک کو رب کریم کی عظیم نعمت سمجھ کر دل سے احسان مند ہو، اور اس کی مرضی کے مطابق اس نعمت کا استعمال کرے اور پورے ماہ مبارک کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے انداز میں گذار کر قدردانی کا ثبوت پیش کرے، ایسا نہ ہو کہ اس عظیم ان نعمت کی ناقدری سے ہم فائدہ اٹھانے اور اللہ کی رحمت کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے بجائے، اپنے لئے حرمان اور کم نصیبی کا سامان پیدا کر لیں۔
 ماہ مبارک ہمارے اوپر اپنی تمام تر رحمتوں اور برکتوں کے ساتھ سایہ فگن ہونے والا ہے، ضروری ہے کہ اس کے اہتمام کے لئے چھوٹے چھوٹے چند امور پر توجہ کر لی جائے :
اول :ہر مسلمان اپنے کو غلام سمجھ کر ایک ضرورت مند اور محتاج غلام کی طرح اس جشن شاہی کا انتظار کرے، اور اپنے گھر، اپنے محلّہ اور اپنے دوستوں کی مجلسوں میں خوشی خوشی اس کا ذکر شروع کر دے۔ یہ ذکر اس طرح ہو کہ اس سے ماہ مبارک کی آمد پر خوشی کا اظہار ہوتا ہو، مثلاً ماشاءاللہ رمضان آ رہا ہے، ان شاء اللہ وہ بہت سے خیر کے حاصل ہونے کا ذریعہ بن جائے گا۔ رمضان سے پہلے اس کی آمد کا ذکر اور اس کے فضائل و اعمال کا ذکر کرنا خود جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا معمول تھا تاکہ پہلے ہی دن سے اس مبارک ماہ کی قد رکی جا سکے۔
 دوم :رمضان کے اعمال، تلاوت اور اذکار وغیرہ کے لئے وقت کو فارغ کرنے کی سعی کرے بہت سے ایسے کام جو ماہ مبارک سے پہلے پورے کئے جا سکتے ہیں ان کو مکمل کر لے، تاکہ کچھ وقت نوافل ذکرو تلاوت کے لئے فارغ کیا جا سکے۔
 سوم :بہت احتیاط کے ساتھ کم از کم ماہ مبارک کے لیے حلال روزی کا انتظام کرے، اگر خدانخواستہ ہم کسی ایسے روزگار سے متعلق ہیں جو شرعی اعتبار سے غلط یا مشتبہ ہے اور کوئی دوسرا روزگار نہیں مل رہا ہے تو ماہ مبارک کے لئے کم از کم حلال قرض لے لیں۔
 چہارم :ماہ مبارک کے لئے ہم اپنی سہولت کے لئے پہلے سے نظام الاوقات طے کر لیں مثلاً تلاوت کے لئے ایک مقدار طے کر لیں کہ مجھے اتنی تلاوت ضرور کرنی ہے، اتنا کلمہ طیبہ ضرور پڑھنا ہے، اتنا استغفار روزانہ کرنا ہے، اتنا وقت دعا کے لئے خاص کرنا ہے، یہ مہینہ اللہ کے یہاں قبولیت کا ہے، جب ہمارے سارے کا م بننے کا فیصلہ اللہ کے ہاتھ ہے تو پھر منظوری کے جشن کا یہ زمانہ ہاتھ سے جانے دینا بڑی محرومی کی بات ہے۔ دعا میں دل لگنے اور باب دعا کے کھلنے کے لئے وقت متعین کر کے بہ تکلف کچھ دیر تک دعا کا معمول بنانا بہت مفید ہے، اس طرح جب آدمی تکلف کے ساتھ دعا کرتا رہتا ہے تو کریم آقا اسے مانگنا بھی سکھا دیتے ہیں خصوصاً تہجد اور سحر گاہی کو تو مزے کی چیز سمجھنا چاہئے۔ 
پنجم :اس کا ارادہ کریں کہ اس مبارک مہینہ میں مجھے اپنی زندگی میں کچھ تبدیلی لانے کی کوشش کرنی ہے، کچھ خاص برائیاں اور منکرات جو زندگی میں داخل ہیں ان کو چھوڑنے کی، اور کچھ اچھائیاں جو چھوٹ رہی ہیں ان کی پابندی کی کوشش کرنی چاہئے۔
 اس کی کوشش کریں کہ جن لوگوں کے حقوق العباد معاف کرو ا سکتے ہیں تو ان کے حقوق معاف کرو ا لیں اور جن کے حقوق ادا کرنے ضروری ہیں ماہ مبارک سے ان کی شروعات کریں، اگر صاحب نصاب ہیں تو باقاعدہ حساب لگا کر زکوٰۃ ادا کریں۔ اگر آپ صاحب نصاب نہیں ہیں، تو بھی راہ خدا میں جو کچھ خرچ کرنا ممکن ہو اس کو خرچ کرنے کی نیت کریں۔ اور اگر بالفرض آپ کسی کی مالی خدمت سے معذور ہیں تو کچھ جانی خدمت کا ہی ارادہ کریں، اگر ممکن ہو تو عشرۂ آخر میں اعتکاف کوبڑی خیر اور نعمت سمجھیں، کم از کم آخری عشرہ کی راتوں میں اعتکاف کا اہتمام کر لیں۔ اگر اس مبارک ماہ میں کسی اللہ والے کے پاس کچھ وقت گذارنا نصیب ہو جائے، یا جماعت میں جانے کا موقع مل جائے تو یہ ماہ مبارک کی قدردانی کا بہترین طریقہ ہے، جن خوش قسمت لوگوں کو والدین کا سایہ میسر ہے وہ لوگ اس موقع پر ان کو خوش کرنے اور ان کی خدمت کو خاص وظیفہ سمجھ کراس نعمت کی قدر دانی کریں۔ غرض ابھی سے ہمارے اندرون اور ہمارے حال سے یہ واضح ہو کہ ہم جشن شاہی کی اس نعمت پر شاداں و فرحاں ہیں اور اس کی سچی قدردانی کرنے والے ہیں۔ یہ ماہ مبارک اور لیلۃ القدر جس نعمت کے نازل ہونے کے اعزاز میں قیامت تک کے لئے رحمت اور برکت کا ذریعہ بنی وہ قرآن حکیم ہے، اس سے اپنے کو وابستہ کرنا اس ماہ کی اصل قدردانی ہے، خوب تلاوت ہو، قرآن میں غور و فکر ہو، تفسیر کے حلقے ہوں، حق تو یہ ہے کہ قرآن کریم کی قدردانی کے بغیر اس مبارک ماہ کا شکر اور اس کی قدر ممکن نہیں۔ اس لئے اس ماہ میں قرآن حکیم کی قدردانی کا بہت اہتمام کرنا چاہئے، قرآن حکیم کی قدردانی، اس پر ایمان، اس کی شکر گذاری اور رب کریم کی ہدایت کے مطابق اس کا استعمال اس مقصد کی تکمیل کی کوشش پر منحصر ہے، جس کے لیے اسے نازل کیا گیا ہے، وہ مقصد پوری دنیا کی ہدایت، اور پوری انسانیت کو کفر و شرک کی ظلمات سے نکال کر ایمان کے نور میں لانے کی کوشش کرنا ہے اس لئے کہ لوگوں کی ہدایت کی فکر اور ان کی ایمانی دعوت کے لئے قرآن کریم میں چھ ہزار آیات نازل ہوئیں اور انسانوں کی اصلاح و تزکیہ کے لئے احکام کے بارے میں باقی پانچ سو سے زائد آیات ہیں۔
 خود قرآن کریم میں جا بجا اس کے مقصد نزول کے بارے میں وضاحت کی گئی ہے، مثلاً یہ آیات :
نَزَّلَ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَاَنْزَلَ التَّوْرٰىةَ وَالْاِنْجِيْلَ Ǽ۝ۙ مِنْ قَبْلُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَاَنْزَلَ الْفُرْقَانَ ڛ (سورۃ ۳، آل عمران: ۳۔ ۴ )
اے نبی !اس نے تم پر یہ کتاب نازل کی جو حق لے کر آئی ہے اور ان کتابوں کی تصدیق کر رہی ہے جو پہلے سے آئی ہوئی تھیں، اس سے پہلے وہ انسانوں کی ہدایت کے لئے تورات اور انجیل نازل کر چکا ہے اور اس نے وہ کسوٹی اتاری ہے جو حق و باطل کا فرق دکھانے والی ہے۔
الۗرٰ  ۣ تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ الْحَكِيْمِ  Ǻ۝ اَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا اَنْ اَوْحَيْنَآ اِلٰى رَجُلٍ مِّنْھُمْ اَنْ اَنْذِرِ النَّاسَ وَبَشِّرِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا (سورۃ ۱۰، یونس :۱۔ ۲ )
الر، یہ اس کتاب کی آیات ہیں جو حکمت و دانش سے لبریز ہیں۔ کیا لوگوں کے لئے یہ عجیب بات ہو گی کہ ہم نے خود انہیں میں سے ایک آدمی پر وحی بھیجی کہ غفلت میں پڑے ہوئے لوگوں کو چونکا دے، اور جو مان لیں ان کو خوش خبری دے۔
الۗرٰ  ۣ كِتٰبٌ اُحْكِمَتْ اٰيٰتُهٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَكِيْمٍ خَبِيْرٍ     Ǻ۝ۙ (سورہ ۱۱، ہود :۱۔ ۳ )
یہ ایک ایسی کتاب ہے کہ جس کی آیتیں محکم کی گئی ہیں، صاف صاف بیان کی گئی ہیں ایک حکیم باخبر کی طرف سے، یہ کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو ۔ میں تم کو اللہ کی طرف سے ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں۔
الۗرٰ ۣ كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَي النُّوْرِ ڏ بِاِذْنِ رَبِّھِمْ اِلٰي صِرَاطِ الْعَزِيْزِ الْحَمِيْدِ   Ǻ۝ۙ (سورہ ۱۴، ابراہیم :۱ )
یہ ایک کتاب ہے جس کو ہم نے آپ پر نازل فرمایا تاکہ آپ ان لوگوں کو ان کے پرورد گار کے حکم سے تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف یعنی خدائے غالب و حمید کی راہ کی طرف لاویں ۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ عَلٰي عَبْدِهِ الْكِتٰبَ وَلَمْ يَجْعَلْ لَّهٗ عِوَجًا  Ǻ۝ڸ قَـيِّمًا لِّيُنْذِرَ بَاْسًا شَدِيْدًا مِّنْ لَّدُنْهُ وَيُبَشِّرَ الْمُؤْمِنِيْنَ الَّذِيْنَ يَعْمَلُوْنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمْ اَجْرًا حَسَـنًا Ą۝ۙ (سورہ ۱۸، کہف :۱۔ ۲ )
تمام خوبیاں اللہ کے لئے ثابت ہیں جس نے اپنے بندے پر کتاب نازل فرمائی اور اس میں ذرا بھی کجی نہیں رکھی، بالکل استقامت کے ساتھ موصوف بنایا تاکہ وہ ایک عذاب سے جو کہ منجانب اللہ ہو ڈرائے، اور ان اہل ایمان کو جو نیک کا م کرتے ہیں یہ خوش خبری دے کہ ان کے لئے بہترین اجر ہے۔
طٰهٰ Ǻ۝ۚ مَآ اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰٓي Ą۝ۙاِلَّا تَذْكِرَةً لِّمَنْ يَّخْشٰى Ǽ۝ۙ (سورہ ۲۰، طہ :۱۔ ۳ )
طہ، ہم نے آپ پر قرآن اس لئے نہیں اتارا کہ آپ تکلیف اٹھائیں بلکہ ایسے شخص کی نصیحت کے لئے ہے جوا للہ سے ڈرتا ہو۔
تَبٰرَكَ الَّذِيْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰي عَبْدِهٖ لِيَكُوْنَ لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرَۨا Ǻ۝ۙ (سورہ ۲۵، الفرقان :۱ )
بڑی عالی شان ذات ہے جس نے یہ فیصلہ کی کتاب اپنے بندۂ خاص (محمدﷺ)پر نازل فرمائی، تاکہ وہ تمام دنیا جہاں والوں کے لئے ڈرانے والا ہو۔
الۗمّۗ Ǻ۝ۚ تَنْزِيْلُ الْكِتٰبِ لَا رَيْبَ فِيْهِ مِنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنَ Ą۝ۭ اَمْ يَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُ ۚ بَلْ هُوَ الْحَـقُّ مِنْ رَّبِّكَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اَتٰىهُمْ مِّنْ نَّذِيْرٍ مِّنْ قَبْلِكَ لَعَلَّهُمْ يَهْتَدُوْنَ Ǽ۝ (سورہ ۳۲، السجدہ :۱۔ ۳ )
یہ نازل کی ہوئی کتاب ہے، اس میں کچھ شبہ نہیں، یہ رب العالمین کی طرف سے ہے، کیا یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ پیغمبر نے یہ اپنے دل سے بنا لیا ہے بلکہ یہ سچی کتاب ہے آپ کے رب کی طرف سے، تاکہ آپ ایسے لوگوں کو ڈرائیں جن کے پاس آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں آیا تاکہ وہ لوگ راہ پر آ جائیں۔
يٰسۗ Ǻ۝ۚوَالْقُرْاٰنِ الْحَكِيْمِ Ą۝ۙاِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِيْنَ Ǽ۝ۙعَلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَــقِيْمٍ Ć۝ۭتَنْزِيْلَ الْعَزِيْزِ الرَّحِيْمĈ۝ۙ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اُنْذِرَ اٰبَاۗؤُهُمْ فَهُمْ غٰفِلُوْنَ Č ۝ (سورہ۳۶، یٰسین :۱۔ ۶ )
قسم ہے اس قرآن با حکمت کی، بے شک آپ پیغمبروں میں سے ہیں، سیدھے راستہ پر ہیں، یہ قرآن خدائے زبردست مہربان کی طرف سے نازل کیا گیا ہے کہ آپ ایسے لوگوں کو ڈرائیں جن کے باپ دادا ڈرائے نہیں گئے تھے، سویہ اس سے بے خبر ہیں۔
اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٌ وَّقُرْاٰنٌ مُّبِيْنٌ  69؀ۙلِّيُنْذِرَ مَنْ كَانَ حَيًّا وَّيَحِقَّ الْقَوْلُ عَلَي الْكٰفِرِيْنَ 70 ؀
 (سورہ۳۶، یٰسین:۶۹۔ ۷۰ )
وہ تو صرف ذکر ہے اور قرآن مبین ہے، تاکہ وہ زندوں کو ڈرائے اور کافروں پر اپنی بات ثابت کرے۔
صۗ وَالْقُرْاٰنِ ذِي الذِّكْرِ Ǻ۝ۭ (سورہ۳۸، ص :۱ )
ص، قسم ہے نصیحت والے قرآن کی۔ 
حٰـمۗ  Ǻ۝ۚ تَنْزِيْلٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ  Ą۝ۚ كِتٰبٌ فُصِّلَتْ اٰيٰتُهٗ قُرْاٰنًا عَرَبِيًّا لِّــقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ  Ǽ۝ۙ بَشِيْرًا وَّنَذِيْرًا ۚ (سورہ۴۱، حم سجدہ/فصلت :۱۔ ۴ )
یہ کتاب ہے جس کی آیات صاف صاف بیان کی گئی ہیں۔ یہ ایسا قرآن ہے جو عربی میں ہے، ایسے لوگوں کے لئے نافع ہے جو دانش مند ہیں۔ بشارت دینے والا ہے اور ڈرانے والا ہے۔
 غرض قرآن حکیم میں جا بجا اس کے نزول کا مقصد، انسانیت کی ہدایت، انسانوں کو ایمان و اعمال اختیار کرنے پر جنت کی بشارت اور کفر و شرک اور گناہوں پر دوزخ سے ڈرانا یعنی دعوت الی اللہ کا مبارک کا م قرار دیا گیا ہے۔
 حامل قرآن یہ امت اور کوئی مرد مومن، تمام نعمتوں میں افضل نعمت قرآن حکیم کی قدردانی اور اس پر ایمان کا حق اس وقت تک ادا نہیں کر سکتا جب تک وہ خود کو مجسم قرآن نہ بنا لے اور مجسم قرآن صرف وہی مسلمان کہلائے جانے کا ہے جو مجسم دعوت بن جائے، جس کی زندگی کا مقصد اللہ کے بندوں کو دوزخ سے بچانے کی فکر میں قرآن کریم کے مقصد نزول سے ہم آہنگ ہو جائے، علامہ اقبال نے کہا ہے :
یہ بات کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
 قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
 ماہ مبارک کی قدردانی اور اس کی برکا ت کے حصول کا انحصار قرآن حکیم کی قدردانی پر ، اور اپنے آپ کو قرآن حکیم سے وابستہ کر دینے بلکہ مجسم قرآن بن جانے پر ہے اور یہ بات دعوت دین کے غم اور سوز کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی، اس لئے ہر مسلمان کو اس ماہ مبارک میں اپنے کو مجسم قرآن یعنی مجسم دعوت بننے کو، اس کا ر دعوت کے لئے قبولیت، اس کا حوصلہ اور اہلیت کی عطا کو، اور نشانہ بنا کر لوگوں کے لئے ہدایت کی دعا، اور پوری دنیا کے لئے ہدایت کی دعوت کو اس ماہ مبارک کا مبارک ترین وظیفہ سمجھنا چاہئے، اور اس مبارک کا م کے لیے، کچھ نشانے متعین کر کے کچھ عزم بھی کرنا چاہئے، اس طرح یہ ایک سچے مسلمان کی حیثیت سے حقیقی معنوں میں قرآن حکیم کی قدردانی ہو گی۔٭
٭ بشکریہ ماہنامہ ارمغان، جولائی ۲۰۱۴ ص ۸-۱۳
     

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں