tag:blogger.com,1999:blog-38549139047892873392024-02-01T22:36:03.950-08:00سربکف مجلہSarbakafhttp://www.blogger.com/profile/14532797594298636576noreply@blogger.comBlogger212125tag:blogger.com,1999:blog-3854913904789287339.post-76206166128915978842021-10-28T23:29:00.004-07:002021-10-29T02:23:06.597-07:00کیااللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتااورگمراہ کرتا ہے؟ - وقار اکبر چیمہ<p style="direction: ltr; text-align: left;"><span style="font-family: times;">Does Allah leaves to stray and guides whoever He wills?</span></p>
<div class="postmeta" style="margin-bottom: 10px; text-align: justify;">
<span class="author">
وقار اکبر چیمہ
</span>
</div>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">ہدایت کا مطلب</h2><div dir="rtl" style="text-align: right;">
ہدایت کا مطلب ہوتا ہے رہنمائی، رہبری، راہ دکھانا، سیدھا راستہ، بتانا۔ قرآن مجید ہدایت کو تین درجات میں تقسیم کرتا ہے اور مخصوص قسم کی ہدایت کو مخصوص درجہ(Level) کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔<br />
پہلے درجہ کی ہدایت عالمگیری ہے اور یہ ہر شے کے لیے ہے۔ ارشاد ربانی ہے:<br /></div>
<div class="arabic" dir="rtl" style="text-align: right;">قَالَ رَبُّـنَا الَّذِیۡۤ اَعْطٰی کُلَّ شَیۡءٍ خَلْقَہٗ ثُمَّ ہَدٰی</div><div dir="rtl" style="text-align: right;">
کہا کہ ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر شے کو اس کی خلقت عطا کی ‘ پھر ہدایت دی۔(سورہ طہ 50)<br />
اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے ہر شہ کو ایک مخصوص شکل بخشی اور پھر ان چیزوں کو ان کے کردار کے مطابق ہدایت بخشی گئی۔ ہدایت کی یہ قسم انسان، جِن، جانور، پودوں اور باقی سب تخلیقات کے لیے ہے۔
</div><p dir="rtl" style="text-align: right;">دوسرے درجہ کی ہدایت انسانوں اور جنات کے لیے مخصوص ہے۔ اس قسم کی مدد سے لیے گئے کاموں کے وہ دونوں بروز قیامت جوابدہ ہوں گے۔ یہ ہدایت ہمیشہ سے موجود ہے اور جن و انس میں سے ہر کوئی آزاد ہے چاہے اسکو پہچان کر اس سے کام لے یا اس کو مسترد کر دے۔ ارشاد ربانی ہے:</p>
<div class="arabic" dir="rtl" style="text-align: right;">
وَ نَفْسٍ وَّ مَا سَوّٰىہَا(7)فَاَلْہَمَہَا فُجُوۡرَہَا وَ تَقْوٰىہَا(8) قَدْ اَفْلَحَ مَنۡ زَکّٰىہَا(9) وَ قَدْ خَابَ مَنۡ دَسّٰىہَا(10)
</div>
<p dir="rtl" style="text-align: right;">قسم ہے نفس کی اور اسے درست کرنے کی، پھر اللہ تعالیٰ نے اس نفس کو برائی سے بچنے اور پرہیز گاری اختیار کرنے کی سمجھ عطا فرمائی۔ پھر اس پر اس کی بدی اور اس کی پرہیز گاری واضح کر دی۔ بے شک وہ کامیاب ہو گیا جس نے نفس کو پاکیزہ بنا لیا۔ اور نا مراد ہوا وہ جس نے اس کو آلودہ کیا۔(سورہ الشمس7-10)</p>
<p dir="rtl" style="text-align: right;">تیسری قسم کی ہدایت جن و انس میں سے ان کے لیے ہے جنہوں نے سچائی کے پیغام کو بغور سنا۔ یہ ہدایت انھیں سچائی کو پہچاننے میں مزید مدد کرتی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے :</p>
<div class="arabic" dir="rtl" style="text-align: right;">
والذین اھتدوا زادھم ھدی واتاھم تقوھم
</div>
<p dir="rtl" style="text-align: right;">وہ لوگ جنھوں نے ہدایت قبول کی اس نے انھیں ہدایت میں بڑھا دیا اور انھیں ان کا تقویٰ عطا کر دیا (سورہ محمد:17)</p>
<p dir="rtl" style="text-align: right;">تو جب اللہ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ وہ لوگوں کو ہدایت نہیں بخشتا تو اس سے مراد صرف یہ تیسری قسم کی ہدایت ہوتی ہے اور یہ اللہ صرف اس وجہ سے کرتا ہے کہ وہ لوگ ان شرائط پر عمل پیرا نہیں ہوتے یا اس کی خواہش نہیں رکھتے جو اس ہدایت کو پا لینے کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔</p>
<p dir="rtl" style="text-align: right;"></p><h2 style="text-align: right;"><strong>جس کو اللہ چاہتا ہے اس کو اللہ ہدایت دیتا ہے کا مطلب</strong></h2>
ایک چیز کو سمجھ لیا جائے کہ کوئی بھی قرآنی آیت قرآن کی باقی آیات اور احادیث کی روشنی میں ہی سمجھی جا سکتی ہے ۔ قرآن مجید میں کچھ آیات ہیں جن میں خدا کا فرمان ہے اللہ جس کو چاہتا ہے اس کو ہدایت بخشتا ہے اور جسے چاہتا ہے گمراہ چھوڑ دیتا ہے، مثلاً<p></p>
<div class="arabic" dir="rtl" style="text-align: right;">
…فَیُضِلُّ اللہُ مَنۡ یَّشَآءُ وَیَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَہُوَ الْعَزِیۡزُ الْحَکِیۡمُ
</div>
<p dir="rtl" style="text-align: right;">پھر خدا جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ اور وہ غالب اور حکمت والا ہے۔(سورہ ابراہیم:4)</p>
<p dir="rtl" style="text-align: right;"></p><h2 style="text-align: right;"><strong>بندے کے پاس اختیار ہے</strong></h2>
قرآن مجید کی دوسری مختلف آیات اس بات کی تشریح کرتی ہیں کہ اللہ نے حق اور باطل میں ایک تفریق کر دی ہے اور حق و باطل کو بالکل نمایاں اور واضح کر دیا ہے۔ اب یہ بندے کی اپنی خواہش ہے وہ حق کو پسند کرتا ہے یا اس کو چھوڑ دیتا ہے ۔ جیسے پہلے بھی بیان ہوا:<p></p>
<div class="arabic" dir="rtl" style="text-align: right;">
وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا*فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا*<em>قَدْ أَفْلَحَ</em> مَنْ <em>زَكَّاهَا</em>*وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاهَا(10)”
</div>
<p dir="rtl" style="text-align: right;">قسم ہے نفس کی اور اسے درست کرنے کی، پھر اللہ تعالیٰ نے اس نفس کو برائی سے بچنے اور پرہیز گاری اختیار کرنے کی سمجھ عطا فرمائی۔ پھر اس پر اس کی بدی اور اس کی پرہیز گاری واضح کر دی۔ بے شک وہ کامیاب ہو گیا جس نے نفس کو پاکیزہ بنا لیا۔ اور نامراد ہوا وہ جس نے اس کو آلودہ کیا(الشمس7-10)
</p><div class="arabic" dir="rtl" style="text-align: right;">
وَقُلِ الْحَقُّ مِنۡ رَّبِّکُمْ ۟ فَمَنۡ شَآءَ فَلْیُؤْمِنۡ وَّ مَنۡ شَآءَ فَلْیَکْفُرْ ۙ اِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلظّٰلِمِیۡنَ نَارًا ۙ اَحَاطَ بِہِمْ سُرَادِقُہَا …(29)
</div>
<p dir="rtl" style="text-align: right;"> اور ان سے کہہ دو کہ حق تمہارے رب ہی کی طرف سے(آ چکا) ہے، سو جس کا جی چاہے ایمان لے آئے اور جس کا جی چاہے کفر کرے ہم نے یقیناً تیار کر رکھی ہے ظالموں کے لئے ایک ایسی ہولناک آگ، جس کی لپیٹوں نے ان کو اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے۔(الکھف18)</p>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><strong>وہ جنہیں اللہ ہدایت دیتا ہے</strong></h2>
<div class="arabic" dir="rtl" style="text-align: right;">
<em>یھدی الیہ من اناب</em>
</div><div dir="rtl" style="text-align: right;">
(27)اور وہ جو اس کی طرف رجوع کریں انھیں(اللہ) ہدایت دہ دیتا ہے(الرعد:27)۔<br /></div>
<div class="arabic" dir="rtl" style="text-align: right;"><em>وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا</em> لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللهَ لَمَعَ المُحْسِنِينَ
</div>
<p dir="rtl" style="text-align: right;"> اور جنہوں نے ہماری راہ میں کوشش کی ضرور ہم انھیں اپنے راستے دکھا دیں گے اور بیشک اللہ نیکوں کے ساتھ ہے(العنکبوت:69)<br />
</p><div class="arabic" dir="rtl" style="text-align: right;">
<em>اللَّهُ يَجْتَبي</em> إِلَيْهِ مَنْ يَشاءُ وَ يَهْدي إِلَيْهِ مَنْ يُنيبُ
</div>
<p dir="rtl" style="text-align: right;">للہ جسے چاہتا ہے اپنے لئے چن لیتا ہے اور جو اس کی طرف رجوع کرے اسے اپنی طرف راستہ دکھا دیتا ہے(ہدایت دے دیتا ہے)(الشورٰی:13)</p>
<p dir="rtl" style="text-align: right;"></p><h2 style="text-align: right;"><strong>وہ جنہیں خدا گمراہ کرتا ہے</strong></h2>
اسی طرح اللہ ہمیں بتاتا ہے کہ وہ کس کو گمراہ چھوڑتا ہے۔<br />
<p></p><div class="arabic" dir="rtl" style="text-align: right;">
وَمَا یُضِلُّ بِہٖۤ اِلَّا الْفٰسِقِیۡنَ
</div>
<p dir="rtl" style="text-align: right;">اور اس(سیدھے راستے سے اللہ) گمراہ نہیں کرتا سوائے نافرمانوں کے(البقرہ 26)<br />
وَ یُضِلُّ اللہُ الظّٰلِمِیۡنَ ۟ۙ وَ یَفْعَلُ اللہُ مَا یَشَآءُ(27)اور اللہ نافرمانوں (ظالموں)پر راہ گم کر دیتا ہے اور وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے(ابراہیم:27)</p>
<p dir="rtl" style="text-align: right;"></p><h2 style="text-align: right;"><strong>اللہ گمراہ کیسے کرتا ہے؟</strong></h2>
اب سوال پیدا ہوتا ہے اللہ گمراہ کیسے کرتا ہے؟ اس کا جواب اللہ بہت کھول کر اور واضح طور پر بتاتا ہے:<br />
<p></p><div class="arabic" dir="rtl" style="text-align: right;">
وَمَنۡ یُّشَاقِقِ الرَّسُوۡلَ مِنۡۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْہُدٰی وَیَتَّبِعْ غَیۡرَ سَبِیۡلِ الْمُؤْمِنِیۡنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَنُصْلِہٖ جَہَنَّمَ ؕ وَسَآءَتْ مَصِیۡرًا(115)</div>
<p dir="rtl" style="text-align: right;">
اور جو شخص سیدھا راستہ معلوم ہونے کے بعد پیغمبر کی مخالفت کرے اور مومنوں کے راستے کے سوا اور(کسی دوسرے) راستے پر چلے تو جدھر وہ چلتا ہے ہم اسے ادھر ہی چلنے دیں گے اور قیامت کے دن جہنم میں داخل کریں گے اور وہ بری جگہ ہے(النساء:115)<br />
اللہ نے اپنے نشانوں سے یہ بات بالکل واضح کر دی ہے وہ لوگ جو حق کے ظاہر ہو جانے کے بعد حق کی طرف رجوع کریں گے ان کو اللہ ہدایت دے گا(تیسری قسم کی ہدایت) اور جو حق کے ظاہر ہو جانے کے باوجود باطل اور برائی کی طرف رجوع کریں گے اللہ ان کو ان کے پسندیدہ راستے کی طرف چھوڑ دیتا ہے(جو گمراہی کے راستے ہیں) تو ایسے لوگوں کو اللہ سزا دینے میں بھی حق بجانب ہے کیونکہ انہوں نے حق کے ان پر ظاہر ہو جانے کے بعد اس کو تسلیم نہ کیا۔</p>
<p dir="rtl" style="text-align: right;"></p><h2 style="text-align: right;"><strong>اللہ گمراہ کرتا ہے والی آیت کا مطلب(یُّغْوِیَکُمْ) </strong></h2>
عیسائی مشنری اور ملحدین بعض اوقات سورہ ھود کو آیت نمبر 34 بھی پیش کرتے ہیں۔ یہ امت نوح علیہ السلام کے لوگوں کے متعلق ہے۔نوح ؑ اپنی قوم سے کہتے ہیں :<br />
<p></p><div class="arabic" dir="rtl" style="text-align: right;">
وَلَا یَنۡفَعُکُمْ نُصْحِیۡۤ اِنْ اَرَدۡتُّ اَنْ اَنۡصَحَ لَکُمْ اِنۡ کَانَ اللہُ یُرِیۡدُ اَنۡ یُّغْوِیَکُمْ ؕ ہُوَ رَبُّکُمْ ۟ وَ اِلَیۡہِ تُرْجَعُوۡنَ
</div>
<p dir="rtl" style="text-align: right;">اور تمہیں میری نصیحت نفع نہ دے گی اگر میں تمہارا بھلا چاہوں جبکہ اللہ تمہاری گمراہی چاہے، وہ تمہارا رب ہے، اور اسی کی طرف پھرو گے(ھود34)<br />
یہاں اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ نوح علیہ السلام یہ بات اس وقت کہہ رہے ہیں جب ان کی قوم ساری حدیں پار کر چکی تھی بلکہ اس عذاب کا مطالبہ کر رہی تھی جس سے ان کو پہلے ہی ڈرایا جا چکا تھا تو یہاں اللہ اپنا طریقہ اختیار کرتا ہے اور ایسے ظالموں کو ان کے ہی پسندیدہ راستوں پر مقرر کر دیتا ہے جو انہوں نے حق کو چھوڑ کر پسند کیے جیسا کہ پہلے بھی بیان ہوا۔ اور عین ممکن ہے یہ بات اس وقت کہی جا رہی ہے جب قوم نوح سزا دیے جانے کے قریب تھی کیونکہ یہی لفظ سزا اور تباہی کے معانی میں استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً قرآن میں ہم پڑھتے ہیں
</p><div class="arabic" dir="rtl" style="text-align: right;">
فَخَلَفَ مِنۡۢ بَعْدِہِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوۃَ وَاتَّبَعُوا الشَّہَوٰتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّا
</div><p dir="rtl" style="text-align: right;"> پھر ان کے بعد ایسے لوگ ان کی جگہ آئے جنہوں نے نمازوں کو برباد کیا، اور اپنی نفسانی خواہشات کے پیچھے چلے سو عنقریب ان کو گمراہی (کی سزا) ملے گی۔(مریم59)<br />
کچھ لوگ الاعراف16 اور الحجر39 کو بھی اس سلسلہ میں پیش کرتے ہیں</p>
<div class="arabic" dir="rtl" style="text-align: right;">
قَالَ فَبِمَاۤ اَغْوَیۡتَنِیۡ لَاَقْعُدَنَّ لَہُمْ صِرٰطَکَ الْمُسْتَقِیۡمَ
</div><div dir="rtl" style="text-align: right;">
(شیطان نے )کہا جیسا تو نے مجھے گمراہ کیا ہے میں بھی ضرور ان کی تاک میں تیری سیدھی راہ پر بیٹھوں گا(الاعراف 16)۔<br /></div>
<div class="arabic" dir="rtl" style="text-align: right;">
قَالَ رَبِّ بِمَاۤ اَغْوَیۡتَنِیۡ لَاُزَیِّنَنَّ لَہُمْ فِی الۡاَرْضِ وَلَاُغْوِیَنَّہُمْ اَجْمَعِیۡنَ
</div>
<p dir="rtl" style="text-align: right;">
اس(شیطان) نے کہا کہ پروردگار جس طرح تو نے مجھے گمراہ کیا ہے میں ان بندوں کے لئے زمین میں ساز و سامان آراستہ کروں گا اور سب کو اکٹھا گمراہ کروں گا۔(الحجر39)<br />
مگر ہر عاقل شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ الفاظ شیطان کے ہیں جو اپنے شیطانی عزائم کا اظہار کر رہا ہے ان آیات کو اپنے معنوں میں صرف شیطانی روحیں ہی استعمال کرنے کی کوشش کر سکتیں ہیں!</p>
<p dir="rtl" style="text-align: right;"></p><h2 style="text-align: right;"><strong>دلوں پر مہر کرنے کا مطلب</strong></h2>
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جب اللہ خود کہتا ہے کہ وہ خود کافروں کے دلوں پر مہر لگادیتا ہے تو ان کافروں کو ان کے اعمال کا ذمہ دار کیوں کر قرار دیا جا سکتا ہے؟<br />
یہ کہنے کی اصلی وجہ پورے معاملے کو نہ سمجھنا ہے۔ اللہ صرف ان کافروں کے دل مہر کرتا ہے جو انتہائی ضد و کینہ کے ساتھ حق کے پیغام کو مسترد کر دیتے ہیں اور ان کے جو ہدایت کی دوسری قسم (جو کہ ہر ایک کے لیے ہے اور جسے پانے کے لیے صرف اپنی خواہش درکار ہوتی ہے) کو مسترد کر دیتے ہیں۔ ہم قرآن میں جب دیکھتے کہ اللہ کسی کہ دلوں کو مہر کرنے کا کہتا ہے تو اس سے مراد صرف وہ کافر ہوتے ہیں جو انتہائی بیہودگی سے حق کو مسترد کیے دیتے ہیں اور بجانب حق کوئی رجوع، خواہش نہیں رکھتے۔ البقرہ آیت نمبر 7، النساء آیت نمبر 168 اور سورہ نحل آیت نمبر 106 و 109 اس کی واضح مثالیں ہیں۔<p></p>
<p dir="rtl" style="text-align: right;"></p><h2 style="text-align: right;"><strong>خلاصہ</strong></h2>
اس ساری بحث کا خلاصہ یہ کہ اللہ تعالی اپنی نشانیوں سے سب کو ہدایت دکھاتا ہے۔ وہ اپنے پیغمبر بھیجتا ہے جو خدا کا پیغام لے کر آتے ہیں اور وہ اس کے ذریعہ سے حق اور باطل کو بالکل واضح کر وا دیتا ہے۔ اس کے بعد جو شخص حق کو پہچاننے کی خواہش رکھتا ہے( ظاہر کرتا/ کوشش کرتا ہے) تو اللہ اس پر ہدایت کھول دیتا ہے۔ اور جو اس کے برخلاف بالکل گمراہ کیے جاتے ہیں وہ وہ لوگ ہیں جو باطل کی طرف رجوع کرتے ہوے حق کو چھوڑ دیتے ہیں اور جو اس گمراہی پر بضد ہو جاتے ہیں اللہ ان کے دلوں کو مہر کر دیتا ہے۔<p></p><p></p><p></p><p></p><p></p><p></p><p></p>Sarbakafhttp://www.blogger.com/profile/14532797594298636576noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3854913904789287339.post-21051492923010088132021-10-28T22:59:00.006-07:002021-10-28T23:15:56.407-07:00خدا اور بھاری پتھر - راحیل فاروق<p style="text-align: left;direction:ltr;"><span style="font-family: times;">God and the heavy rock | Omnipotence paradox </span></p>
<div class="postmeta" style="text-align: justify; margin-bottom:10px;">
<span class="author">
راحیلؔ فاروق</span>
</div>
<p> میں نے ایک گزشتہ مضمون میں اس طرف اشارہ کیا تھا کہ حقیقت کی جستجو میں جوابات ہی سے نہیں بلکہ خود سوالات سے بھی محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ مذہبی معاملات میں جس رویے کو ادب سے تعبیر کیا جاتا ہے اس کی بنیاد میں شاید یہی ادراک کارفرما ہے کہ جوابات کی طرح کچھ سوالات بھی بالکل غلط ہو سکتے ہیں۔ رومیؒ فرماتے ہیں:</p>
<table class='sher'>
<tr><td>بےادب تنہا نہ خود را داشت بد</td></tr>
<tr><td>بلکہ آتش در ہمہ آفاق زد</td></tr>
</table>
<p>یعنی بےادب نے محض اپنی جان ہی کو نقصان نہ پہنچایا بلکہ گویا تمام عالم میں آگ لگا دی۔ ظاہر ہے کہ یہ بےادبی کوئی ذاتی اور محدود چیز نہیں ہو سکتی بلکہ کسی ایسے عمومی رویے یا دعویٰ پر مشتمل ہونی چاہیے جو نہ صرف غلط بلکہ گمراہ کن بھی ہو۔ گو جاہ پرست اور دین فروش اکابرینِ مذہب اس کو بھی اپنے نفس کی تسکین کے لیے استعمال کرنے کی بھرپور کوشش کرتے رہے ہیں تاہم ادب اپنی حقیقت میں غالباً محض اس خبرداری، احتیاط اور عجز کا نام ہے کہ بشر ہونے کے ناتے خود آپ کا سوال بھی کسی اور کے جواب کی طرح غلط ہو سکتا ہے۔</p><p>اب ذرا مدعا کی طرف آ جائیے۔ پرانے وقتوں سے ایک بحث دہریوں اور ایمان والوں کے درمیان چلی آتی ہے جو ذاتِ باری تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ سے متعلق ہے۔ اغلب ہے کہ یہ سوال آپ کی نظروں سے بھی کبھی نہ کبھی گزرا ہو گا۔ اگر نہیں تو اب ملاحظہ فرما لیجیے۔ دہریے اور متشککین عموماً اسے اس صورت میں پیش کرتے ہیں کہ کیا خدا ایک ایسا بھاری پتھر تخلیق کر سکتا ہے جسے وہ خود بھی نہ اٹھا سکے۔</p><p>پیچیدگی یہ ہے کہ یہ سوال خطرناک حد تک سادہ بھی ہے اور فتنہ انگیز بھی۔ یعنی غور کیجیے۔ اگر خدا قادرِ مطلق ہے تو یقیناً اس میں اتنی قوت ہونی چاہیے کہ وہ ایسا بڑا پتھر تخلیق فرما دے جسے وہ خود بھی نہ اٹھا سکتا ہو۔ لیکن پھر اگر خدا اپنا بنایا ہوا پتھر ہی نہ اٹھا سکے تو اس کی خدائی طاقت کے اس سے زیادہ منافی کچھ نہیں ہو سکتا۔ اور اگر وہ ایسا پتھر بنا ہی نہیں سکتا تو یہ بھی ایک طرح سے اس کی قدرت کا نقص ہے۔ یعنی خدا میں ہر کام کرنے کی طاقت تو نہ ہوئی نہ پھر۔ آگے کنواں پیچھے کھائی!</p><p>یہاں ایک لمحہ ٹھہر کر یہ سمجھ لیجیے کہ اگر آپ یہ سوال کرتے ہیں تو یہ ہرگز ہرگز کوئی بےادبی نہیں ہے۔ ملا کی ذاتِ پاک کو اس سے کوئی ٹھیس پہنچے تو پہنچے، خدا کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اور ملا کی انانیت کا لحاظ کرنے کی آپ کو کوئی ضرورت بھی نہیں ہے۔ ہاں، بےادبی یہ تب ہے کہ آپ اس سوال کی نسبت بالکل پریقین ہو جائیں کہ یہ ٹھیک ہے، اس کی بنیاد پرخود خدا بن کر فیصلے جاری کرنا شروع کریں اور تمام عالم میں وہ آگ لگا دیں جو ابھی تک محض آپ کے اندر لگی ہوئی ہے۔ کیونکہ اس سوال میں ایک بنیادی نقص موجود ہے۔</p><p>جی ہاں، اس سوال کے اندر ایک سوال موجود ہے جس کا فیصلہ کیے بغیر آپ اس کا جواب معلوم کرنا چاہ رہے ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے آپ مثلاً کچھ چیزوں کی خریداری پر آنے والے اخراجات کا حساب کر رہے ہوں اور ان میں سے ایک چیز کی قیمت آپ کو سرے سے معلوم ہی نہ ہو۔ فرض کیجیے کہ وہ چیز بھی ایسی ہو جس کی قیمت کا آپ تصور بھی نہ کر سکتے ہوں۔ اب آپ جتنا زور مار لیں یہ امکان نہ ہونے کے برابر ہے کہ آپ کل اخراجات کا ٹھیک ٹھیک اندازہ کر سکیں گے۔ ہے نا؟</p><p>یہی معاملہ اس سوال کے ساتھ ہے۔ کرنے والے نے اس میں ایک جھول ایسا چھوڑا ہے کہ جب تک اس سے نہ نمٹا جائے حل نکالنے کی کوشش ہی بےسود ہے۔ اور جب اس سے دو دو ہاتھ کر لیے جائیں تو سوال کا پھن بھی خودبخود گر جاتا ہے۔ مغالطہ اسی کو کہتے ہیں۔ اور میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ مغالطے (Fallacy) اور قولِ محال (Paradox) کا فرق مذہب فلسفے سے بہتر جانتا ہے۔</p><p>تو جھول یہ ہے کہ سوال کرنے والے نے قدرتِ کاملہ کو فرض تو کر لیا مگر یہ بات معلق رہنے دی کہ قدرتِ کاملہ کسے کہتے ہیں۔ اس سے بڑی گڑبڑ پیدا ہوئی۔ تاثر یہ قائم ہوا کہ قدرتِ کاملہ شاید اتنا بڑا پتھر بنا لینے کا نام ہے جو قادرِ مطلق خود بھی نہ اٹھا سکے۔ بلکہ نہیں۔ شاید اتنا بڑا پتھر نہ بنا سکنے کا نام ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان دونوں ممکنہ جوابات کو خود اس سوال نے قائم کیا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ دونوں کو عقل تسلیم نہیں کرتی۔ گویا یہ سوال درحقیقت کوئی سوال نہیں ہے بلکہ ایک اسی قسم کی پھلجڑی ہے جیسے میں، گستاخی معاف، آپ سے پوچھوں کہ آپ بندر ہیں یا گدھے۔ ظاہر ہے کہ آپ دونوں نہیں ہیں لیکن اگر آپ کو انھی دونوں جوابات میں سے کوئی منتخب کرنے پر مجبور کر دیا جائے تو؟</p><p>یہی کھیل اس سوال میں کھیلا گیا ہے۔ بڑی چابکدستی اور ہوشیاری سے سوال کرنے والا آپ کو قدرتِ کاملہ کی نوعیت آزادانہ طور پر سمجھنے کی اجازت دینے کی بجائے خود دو راہیں دکھا کر ان میں سے کوئی ایک اختیار کرنے کا پابند کر دیتا ہے۔ بھاری پتھر بنانا یا نہ بنانا؟ بندر یا گدھا؟ اب آپ ان میں سے جو بھی راہ چلیں گے خفت ہی اٹھائیں گے نا۔</p><p>رہ گیا یہ سوال کہ قدرتِ کاملہ کیا ہے تو اس کا جواب ہر عاقل شخص کے فہم کی بنیاد میں موجود ہے۔ قدرتِ کاملہ کا جوہر یہی ہے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہو۔ یعنی ہم انسان جس چیز کا تصور بھی نہ کر سکیں وہ وہ بھی کر سکے۔ اجتماعِ ضدین یعنی دو متضاد چیزوں کا ایک جگہ جمع ہو جانا تو بہت چھوٹی چیز ہے۔ اگر آپ خود منطق کا سہارا لے کر بھی قدرتِ کاملہ کی تعریف کریں تو وہ یہ تسلیم کرتی ہے کہ اسے منطق کا پابند ہونے کی ضرورت نہیں۔ اور زیرِ بحث نقیضین یعنی اتنا بڑا پتھر بنا سکنا یا نہ بنا سکنا محض منطقی لحاظ سے ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ قادرِ مطلق تو خود منطقی اعتبار سے بھی ہونا ہی وہی چاہیے جس کے لیے ان دونوں کو اکٹھا کرنا <sup>۱</sup> چنداں دشوار نہ ہو۔ ورنہ قادرِ مطلق کہاں کا؟ کیا خیال ہے؟<sup>۲</sup></p>
<hr>
<sup>۱</sup> اجتماعِ نقیضین محال ہونے کا ضابطہ اہلِ علم کی مجالس میں اکثر زیر بحث آتا ہے، البتہ علماء کا موقف بھی اس سلسلے میں یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کو ضابطوں کا پابند ماننا درست نہیں۔ نیز وہ اجتماعِ نقیضین پر بھی قادر ہے۔ یہ جواب کافی اور تسلی بخش ہے۔ (مدیر)
<br>
<sup>۲</sup>بشکریہ اردو گاہ، 14 اکتوبر 2018Sarbakafhttp://www.blogger.com/profile/14532797594298636576noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3854913904789287339.post-76352827721785907752021-10-28T22:36:00.003-07:002021-10-28T22:40:45.749-07:00کیامسلمان ملحدین سےاپنی نبیؐ کےاحترام کامطالبہ کرتےہیں؟ - ذیشان وڑائچ<p style="text-align: left;direction:ltr;"><span style="font-family: times;">Do Muslims force atheists to respect their prophet?</span></p>
<div class="postmeta" style="text-align: justify; margin-bottom:10px;">
<span class="author">
ذیشان وڑائچ</span>
</div>
<p> توہین رسالت کے ضمن میں کچھ ملحدوں اور غیر مسلموں کا سٹیٹس نظر آیا جن کا خلاصہ یہ تھا کہ عزت زبردستی نہیں کروائی جاسکتی اور یہ کہ ان سے نبیؐ کے عزت کروانے کی کوشش عبث ہے۔</p><p>یہ پیغام خود ایک عبث پیغام ہے۔ ہم مسلمان ملحدوں اور غیر مسلموں سے قطعاً یہ مطالبہ نہیں کر رہے ہیں کہ وہ نبی اکرمؐ کی عزت کریں۔ اگر وہ عزت کریں تو یہ یقینا ان کی خود قسمتی ہوتی، لیکن ہمارا مطالبہ یہ ہے ہی نہیں۔ ہم اتنی سمجھ ضرور رکھتے ہیں کہ جو محمدؐ کے بارے میں یہ گمان رکھتا ہو انہوں نے اللہ سے منسوب کر کے جھوٹا پیغام دیا وہ ان کی عزت نہیں کرسکتا۔</p><p>چونکہ بحث کا تناظر توہین رسالت ہے اس لئے اس پیغام سے جو چیز واضح ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ملحدوں اور ان گستاخ پرستوں کے نزدیک دو میں سے کسی ایک چیز کا ہی اختیار ہے۔ یا تو نبیؐ کی عزت و احترام کریں جیسا کہ عام طور پر مسلمان کرتے ہیں یا ان کے اندر سے کوئی شدید قسم کا دماغی داعیہ پیدا ہوتا ہے جس کے تتیجے میں یہ نبیؐ پر ققرے یا بھپتی کستے ہیں یا طعنے دیتے ہیں۔ حالانکہ جس کی دماغی کیفیت صحیح ہوتی ہے اس کے لئے ایک بہت ہی سادہ سا آپشن یہ بھی ہوتا ہے کہ خاموش رہے، یا پھر منطقی اور مہذب انداز میں اپنا نکتہ نظر پیش کرے۔ ہجو گوئی اور وہ بھی اس ذات کے بارے میں جن کا احترام دیڑھ ارب انسان کرتے ہیں ذہنی پستی کے علاوہ اور کس چیز کی علامت ہے؟</p><p>جو لوگ نبیؐ کو نبی نہیں مانتے منطقی اور علمی اعتبار سے ہمارا ان سے یہ مطالبہ ہے کہ۔۔</p><p>نبی یا اسلام کے کسی بھی شعائر سے متعلق بات کرتے ہوئے منطقی انداز میں توجیہات کے ساتھ بات کریں۔ توجیہات بتانے سے پہلے آپ پہلے ہی سے اپنا نتیجہ اخذ کرکے گالی سے بات کریں گے تو پھر یہاں پر آپ کی عقل شروع ہونے سے پہلے منطقی بحث کا امکان ختم ہوچکا ہوتا ہے۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کے پاس محمدؐ کی مخالفت کرنے کے لئے کوئی ٹھوس گراؤنڈ موجود ہے تو پھر آپ کو اپنا نتیجہ بیان کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ آپ کی توجیہات خود نتیجہ بیان کردے گی۔ ہاں اگر آپ خود اپنی توجیہات کے بارے میں متشکک ہیں تو پھر آپ کو اپنی بات میں زور پیدا کرنے کے لئے طعنے بازی، نیم کالنگ(Name calling)، بھپتیاں، فقرے بازی، ہجو گوئی جیسی گھٹیا اور غیر علمی حرکات کا اضافہ کرنا پڑے گا۔ ایسا کر کے آپ صرف اپنا مقدمہ کمزور کر رہے ہوتے ہیں۔ اور اگر نبیؐ کے بارے میں ہی اپنی اس ذپنی پستی کا اظہار کرنے پر آپ کا اصرار ہے تو پھر آپ خود اپنے آپ کو انسانیت کے مقام سے نیچے گرا دیتے ہیں۔ جب آپ عقل کے بجائے اپنی ذہنی پستی یا گھٹیا پن کا اظہار کرنے پر ہی مصر ہیں تو پھر انسانی بنیاد پر مسلمان اجتماعیت سے اپنے کسی حق کا مطالبہ کرنے پر اصرار نری حماقت ہے۔</p><p>جب آپ بحث میں کسی مذہبی علامت یا شخصیت کے بارے میں توہین آمیز رویہ اختیار کرتے ہیں تو دراصل یہ اس بات کا اعلان ہوتا ہے کہ اس خاص معاملے میں آپ عقل اور Reasoning نام کی چیز سے کوسوں دور ہیں۔ آپ کے دماغ نے عقل کوreasoning کے لئے نہیں بلکہ بدزبانی اور مغلظات کے لئے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ایک دوسرے انسان کے ساتھ معاملہ کرتے ہوئے جذبات نام کی کسی چیز کو بھی کوئی قدر نہیں دیتے۔</p><p>بحث کے دوران گالی اور توہین آمیز انداز اختیار کرنا اپنی حقیقت کے اعتبار سے بحث کو عقل کے دائرے سے نکال سفلی جذبات، طعنے مارنا، شناعت بازی، کمینگی اور ذہنی پستی کے مقابلے میں میدان میں لے آتا ہے۔ جب آپ یہ رویہ اختیار کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ انسانی رفعت کو چھوڑ کر شعوری پستی میں مبتلا ہیں۔ یہاں پراگر ہم یا کوئی مسلمان آپ سے مقابلہ کرتا ہے تو پھر ہمیں اسی میدان کا کھلاڑی ہونا چاہئے۔ آپ کو سمجھنا چاہئے کہ یہ ہمارا میدان نہیں بلکہ شیاطین کا میدان ہے۔ یہاں پر ہماری مجبوری یہ ہے کہ ہم دلیل کا مقابلہ دلیل سے کرسکتے ہیں اور تلوار کا مقابلہ تلوار سے۔ لیکن اس ذہنی پستی اور کمینگی کا مقابلہ کرنے کے معاملے میں ہم تہی دامن ہیں اس لئے مشتعل ہوجانا ایک فطری مجبوری ہے۔</p><p>دوسری طرف انسانی شعور کی رفعت کا ایک اور مظہر عقل کے ساتھ ساتھ تعلقات، رشتوں کا احترام اورمحبت کے مراکز ہیں ۔ انسان اپنی معاشرت میں چاہے وہ قومیت ہو، مذہب ہو، خاندان ہو، اپنے کچھ تعلقات اور محبت کے مراکز رکھتا ہے اور اس کے بارے میں حساس ہوتا ہے۔ ایک فرد اپنے محبت کے مراکز کے بارے میں کوئی غلط بات یا گالی سننے کا روادار نہیں ہوتا۔ کسی کے مرکز محبت کی توہین کرنا یا اس کو گالی دینا اس فرد کے لئے ذہنی اذیت کا باعث بنتا ہے۔</p><p>اگر آپ کو لگتا ہے کہ مسلمانوں نے اپنے لئے محبت کے غلط مراکز قائم کر لئے ہیں اور نبیؐ کے بارے میں ان کا یہ رویہ غیر عقلی ہے تو ایسے میں ایک عقل مند فرد کا طرز عمل یہ ہونا چاہئے کہ وہ توہین آمیز رویہ اختیار کرنے کے بجائے اپنے مؤقف میں عقلی دلائل فراہم کرے اور واضح کرے کہ ہم نے اپنے لئے ایک غلط محبت کا مرکز چن لیا ہے۔ چونکہ یہ چیزیں انسانی شعور، نفسیات اور رویوں سے متعلق ہوتی ہیں اس لئے پوری طرح منطقی دائرے میں نہیں آتی۔ اس لئے یہاں اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کے صحیح ہونے کے باوجود مسلمان آپ کی بات نہیں مان رہے ہیں تو اس بات کا پورا امکان موجود ہوتا ہے کہ آپ خود غلط ہوں۔ اگر آپ اس کو مسلمانوں کا نفسیاتی مسئلہ سمجھ رہے ہیں تو پھر اس بات کا پورا امکان موجود ہے کہ یہ خود آپ کا نفسیاتی مسئلہ ہو۔ اس لئے بدزبانی اور مغلظات کسی بھی صورت میں اس کا حل نہیں ہیں۔</p><p>مسلمان نبیؐ سے بے انتہا محبت اور احترام کا تعلق رکھتے ہیں۔ اگر آپ مسلمانوں کے نبیؐ کے معاملے میں منطقی انداز اور باہمی انسانی مفاہمت کا معاملہ نہیں کرتے، اگر آپ کو لگتا ہے کہ نبیﷺ کے بارے میں بات کرنے کے لئے آپ کے پاس طعنے، بھپتاں، فقرے بازی، بدزبانی اور مغلظات ہی ہیں تو پھر آپ مسلمانوں سے کیا توقع رکھتے ہیں؟ منطق اور جذبات تو انسانی شعور کی رفعت کی ہم ترین علامت ہیں اور جب آپ بار بار اسی انسانی رفعت پر حملہ آور ہیں تو ہم آپ کو انسان تسلیم ہی کیوں کریں؟</p>
<hr />
بشکریہ الحاد ڈاٹ کامSarbakafhttp://www.blogger.com/profile/14532797594298636576noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3854913904789287339.post-14154969953579358262021-10-26T02:55:00.009-07:002021-10-26T03:12:59.601-07:00"سربکف" میگزین 10<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEj-eGHJfccYLOibhHREMLmbYV0qvIHVYABADOdcUgdF0ijfBFYd31uUb5AR7AtQEqUXgrWhzGNM235AYL7t2eqCTGXZTag4E3xDyF_tS-9AyXRaplYZDzlfS8JT_czPf41hqnkK9SD3Az8F/s2048/sarbakaf10.jpg" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="2048" data-original-width="1418" height="400" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEj-eGHJfccYLOibhHREMLmbYV0qvIHVYABADOdcUgdF0ijfBFYd31uUb5AR7AtQEqUXgrWhzGNM235AYL7t2eqCTGXZTag4E3xDyF_tS-9AyXRaplYZDzlfS8JT_czPf41hqnkK9SD3Az8F/w278-h400/sarbakaf10.jpg" width="278" /></a></div><br /><div><div>اس شمارے کے مضامین نیچے لسٹ کی شکل میں موجود ہیں۔ مزید مضامین شائع ہوتے ہی نیچے فہرست میں خودکار طور پر شامل ہو جائیں گے۔</div>شائع شدہ مضامین نیچے فہرست میں کلک کر کے پڑھے جا سکتے ہیں۔ یہ ویب سائٹ مکمل طور پر آپٹیمائزڈ ہے اور تمام ڈیوائسز کے لیے کمپیٹبل ہے۔ نستعلیق اور عربی فانٹ کی سپورٹ کا خیال رکھا گیا ہے۔</div><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">کچھ یاد دہانیاں</h2><div>(مجلے کی کافی عرصے غیر حاضری کے سبب یاد دہانی کے طور پر یہ چند باتیں درج ہیں۔ مکمل تفصیلات <a href="http://mag.sarbakaf.com/p/about.html">"تعارف"</a> کے ذیل میں دیکھی جا سکتی ہیں)</div><div>دو ماہی ”سر بکف“ مجلہ، ایک آن لائن میگزین ہے جو سر بکف گروپ کے تحت جاری کئی پروجیکٹس میں سے ایک ہے۔ ابتدائی طور پر میگزین ہی واحد چیز تھی، جو بعد میں ایک فری لانس پلیٹ فارم کے طور پر "سر بکف گروپ" کے نام سے سامنے آئی۔ بعد ازاں کتب کی اشاعت سے لیکر ترجمے، ویب سائٹ ڈیزائننگ اور ایپس تک، سبھی مرحلہ وار شامل ہوتے گئے۔</div><div>موضوعات کے تنوع کے اعتبار سے مجلۂ ھذا آن لائن دنیا میں اپنی نظیر کی پہلی میگزین ہے۔ موضوعات کےتنوع کے باوجود، سر بکف میگزین کا مرکزی موضوع مذہب ہے ۔</div><div>سر بکف ہمیشہ پی ڈی ایف کی شکل میں شائع ہوتا رہا، البتہ اس کا متن محفوظ کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی رہی۔ چنانچہ آئندہ شمارے پہلے ویب سائٹ پر یونیکوڈ میں پیش کیے جائیں گے، اور پھر انہیں حسبِ روایت خوبصورت پرنٹ ایبل پی ڈی ایف کی شکل دی جائے گی، ان شاء اللہ!</div><div>اللہ حامی و ناصر ہو۔</div><div>فقیر شکیبؔ احمد</div><div>مدیر سربکف مجلہ</div>
<h2 dir="rtl" style="text-align: right;">فہرستِ مضامین</h2>
<script type="text/javascript">
var standardstyling = true;
function showrecentposts(json) {
var numposts = json.feed.entry.length;
for (var i = (numposts - 1); i >=0 ; i--) {
var entry = json.feed.entry[i];
var posttitle = entry.title.$t;
var posturl;
if (i == json.feed.entry.length) break;
for (var k = 0; k < entry.link.length; k++) {
if (entry.link[k].rel == 'alternate') {
posturl = entry.link[k].href;
break;
}}
posttitle = posttitle.link(posturl);
if (standardstyling) document.write('<li>');
document.write(posttitle);}
if (standardstyling) document.write('</li>');
}
</script>
<ol>
<script src="https://mag.sarbakaf.com/feeds/posts/default/-/سربکف10?orderby=published&alt=json-in-script&callback=showrecentposts&max-results=999"></script>
</ol>Sarbakafhttp://www.blogger.com/profile/14532797594298636576noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3854913904789287339.post-11381568711087984752019-03-25T00:54:00.004-07:002019-03-25T01:04:09.772-07:00 ردِّقادیانیت کورس (قسط۔۸)<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div class="postmeta" dir="rtl" style="text-align: justify;">
<div dir="rtl">
<b>منظور احمد چنیوٹی </b></div>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
</div>
<table align="center" cellpadding="0" cellspacing="0" class="tr-caption-container" style="margin-left: auto; margin-right: auto; text-align: center;"><tbody>
<tr><td style="text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEj4mUnlTZCGpeeanQ673emvCLKoT9oSEqihyphenhyphenLwN9RK6kLMCiR3cHn4VHwfj18CVkgl6ddgZykGv-0U7wyRW-sHivNc96pQVy0_CbVfY3LdI-Qz4zxYLfjgt2w_vGnJUr__DBgtSfiM0zQuX/s1600/Excerpt+-+Sarbakaf+10+radde+qadianiat+course+8.png" imageanchor="1" style="margin-left: auto; margin-right: auto;"><img border="0" data-original-height="1200" data-original-width="1600" height="240" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEj4mUnlTZCGpeeanQ673emvCLKoT9oSEqihyphenhyphenLwN9RK6kLMCiR3cHn4VHwfj18CVkgl6ddgZykGv-0U7wyRW-sHivNc96pQVy0_CbVfY3LdI-Qz4zxYLfjgt2w_vGnJUr__DBgtSfiM0zQuX/s320/Excerpt+-+Sarbakaf+10+radde+qadianiat+course+8.png" width="320" /></a></td></tr>
<tr><td class="tr-caption" style="text-align: center;"><span style="font-family: Times, Times New Roman, serif;"><span style="font-size: 12.8px;">Qadianiat</span><span style="font-size: 12.8px;"> </span>Rebuttal Course- Part 8</span></td></tr>
</tbody></table>
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
</div>
<br />
<h3>
خلاصۂ کلام :</h3>
کلام سابق سے یہ بات روز روشن سے زیادہ واضح ہوگئی کہ اصل بحث رفع و نزل کی ہے نہ کہ موت وحیات کی جس کو مرزائیوں نے اپنی چالاکی اور عیاری سے موضوع بحث بنا رکھا ہے ۔<br />
٭وجہ اول<br />
اس لئے کہ موت حیات رفع و نزول کو لازم ہے نہ کہ رفع و نزول موت وحیات کو ، لہذا اگر بحث کی جائے تو اس وقت تک تمام نہیں ہوگی جب تک حیاۃ کے بعد رفع کو ثابت نہ کیا جائے اور موت کے بعد عدم رفع ثابت نہ کیاجائے تو معلوم ہوا کہ اصل بحث رفع و نزول کی ہے ۔<br />
٭وجہ دوم<br />
اس لئے کہ رفع ونزول عیسائیوں کا عقیدہ ہے اگر یہ بھی مثل دوسرے عقائد کے غلط ہے تو قرآن و حدیث کو اس کی تردید کرنی چاہیے تھی حالانکہ قرآن وحدیث نے اس کی تردید نہیں کہ بلکہ ان کے اس عقیدہ کی تائیداو رتصدیق کی ہے جسے ہم بعون اﷲ قرآن وحدیث واجماع امت اور اقوال مراز سے ثابت کریں گے اگر قرآن وحدیث اس عقیدے کی تائید میں کچھ بھی نہ کہے تو بھی مرزا کے مسلمہ اصول کے مطابق یہ عقیدہ صحیح ثابت ہوجا تا ہے ۔<br />
<h2>
اثبات رفع و نزول باقوال مرزا از روئے قرآن مجید</h2>
<br />
<ul>
<li>حوالہ نمبر ۱</li>
</ul>
<br />
’’ اب اس تحقیق سے ثابت ہے کہ مسیح ابن مریم کی آخری زمانے میں آنے کی قرآن شریف میں پیشین گوئی موجود ہے ۔‘‘<br />
(ازالہ اوہام حصہ دوم ص۶۷۵ روحانی خزائن ص۴۶۴ ج۳ )<br />
<br />
<ul>
<li>حوالہ نمبر ۲</li>
</ul>
<br />
’’ ھوالذی ارسل رسولہ بالھدیٰ ودین الحق ‘‘<br />
(اﷲ تعالیٰ وہ ذات ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت او ردین حق دے کر بھیجا)<br />
﴿پارہ ۱۰ توبہ ع ۵ آیت ۳۲ ،پارہ ۲۶فتح ع۴ آیت ۲۸،پارہ ۲۸ صف ع۱ آیت ۹﴾<br />
یہ آیت جسمانی اور سیاست ملکی کے طورپرحضرت مسیح کے حق میں پیشین گوئی ہے اور جس غلبہ کاملہ دین اسلام کا وعدہ دیا گیا ہے وہ غلبہ مسیح کے ذریعہ سے ظہور میں آئے گا اورجب حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے تو ان کے ہاتھ سے دین اسلام جمیع آفاق واقطار میں پھیل جائے گا……حضرت مسیح کی پیش گوئی متذکرہ بالا کا ظاہری اور جسمانی طور پر مصداق ہے اور یہ عاجز روحانی اور معقولی طور پر اس کا محل اور مورد ہے ۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ چہارم برحاشیہ طبع اول ص۴۹۸،۴۹۹ قدیم ، ص<br />
۴۵۸ جدید ، روحانی خزائن ج۱ص ۵۹۳)<br />
<br />
<ul>
<li>حوالہ نمبر۳</li>
</ul>
<br />
’’ عسی ربکم ان یرحمکم وان عدتم عدنا‘‘<br />
﴿پ ۱۵ ع۱ آیت ۸﴾<br />
یہ آیت اس مقام میں حضرت مسیح علیہ السلام کے جلالی طور پر ظاہر ہونے کا اشارہ ہے یعنی اگر طریق رفق اور نرمی اور لطف اوراحسان کو قبول نہیں کریں گے اور حق محض جو دلائل واضحہ اور آیات بینہ سے کھل گیا ہے اس سے سرکش رہیں گے تو وہ زمانہ بھی آنے والا ہے جب خدا تعالیٰ مجرمین کے لئے شدت اور عنف اور قہر اور سختی کو استعمال میں لائے گا اور حضرت مسیح نہایت جلالیت کے ساتھ دنیا میں اتریں گے اور تمام راہوں اورسڑکوں کو خس وخاشاک سے صاف کردیں گے۔‘‘<br />
(براہین احمدیہ حصہ ۴ ص۴۶۵ حاشیہ ص۴۵۹ روحانی خزائن ص۶۰۱،۶۰۲ ج۱)<br />
<h3>
مرزائی عذر</h3>
ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ مرزا نے براہین احمدیہ کے ان حوالوں میں عیسیٰ علیہ السلام کی آمد ثانی کے عقید ہ کو صراحتاً تسلیم کیا ہے لیکن یہ محض رسمی طورپر لکھ دیا گیا ہے جیسا کہ مرزا نے اعجاز احمدی ص۷ ج ۱۹ ،پر اعتراف کیا ہے (روحانی خزائن ص۱۱۳ ج۹ )<br />
<b>جواب نمبر ۱</b><br />
یہ عقیدہ رسمی نہیں بن سکتا اس لئے کہ مرز ا نے اس کے ثابت کرنے میں آیات قرآنیہ پیش کی ہیں جن سے ثابت ہوتاہے کہ انہوں نے یہ عقیدہ رسمی طور پر نہیں لکھا بلکہ یہ قرآنی طور پر لکھا ہے ۔<br />
<b>جواب نمبر ۲</b><br />
مرزا قادیانی نے جس کتاب میں یہ عقیدہ لکھا ہے وہ بغرض اصلاح و تجدید دین تالیف کی گئی ہے مؤلف اس وقت خدائے تعالیٰ کی طرف سے ملہم اور مامور تھا اور اس کتاب پر دس ہزار کا اشتہار بھی دیا گیا ہے ۔(تبلیغ رسالت مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۱۸ روحانی خزائن ص۲۴ تا ۵۲ ج۱،ملحقہ براہین احمدیہ وملحقہ آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن ص۶۵۷ج۵ وسرمہ چشم آریہ جدید ص۳۱۹ ج۲ )<br />
<b>مجدد کی تعریف :</b><br />
’’ جولوگ خدا کی طرف سے مجددیت کی قوت پاتے ہیں وہ نرے استخواں فروش نہیں ہوتے بلکہ وہ واقعی طور پر نائب رسول ﷺ اور روحانی طور پر آنجناب کے خلیفہ ہوتے ہیں خدا تعالیٰ انہیں ان تمام نعمتوں کا وارث بناتا ہے جونبیوں اور رسولوں کو دی جاتی ہیں اور ان کی باتیں از قبیل جوشیدن ہوتی ہیں نہ محض از قبیل<br />
کوشیدن اور وہ حال سے بولتے ہیں نہ مجرد قال سے اور خداتعالیٰ کے الہام کی تجلی ان کے دلوں پر ہوتی ہے اور وہ ہر ایک مشکل کیوقت روح القدس سے سکھلائے جاتے ہیں اور ان کی گفتار وکردار میں دنیا پرستی کی ملونی نہیں ہوتی کیونکہ وہ کلی مصفی کیے گئے اور باتمام وکمال کھینچے گئے ہیں ۔‘‘<br />
(فتح اسلام حاشیہ روحانی خزائن ص۷ ج۳)<br />
’’وہ مجدد خدا تعالیٰ کی طرف سے آئے گا یعنی علوم لدنیہ اور آیات سماویہ کے ساتھ ‘‘<br />
(ازالہ اوہام ص۱۵۴ روحانی خزائن ج۳ص۱۷۹)<br />
<b>جواب نمبر ۳</b><br />
یہ رسمی عقیدہ یا اجتہادی غلطی اس لئے بھی نہیں ہو سکتی کہ یہ کتاب بقول مرزا صاحب نبی اکرم ﷺ کے ہاتھوں میں پہنچ چکی ہے اور اس کانام ’’ قطبی ‘‘ بتایا گیا ہے یعنی قطب ستارہ کی طرح غیر متزلزل اور مستحکم ہے ۔ (براہین احمدیہ قدیم ایڈیشن ص۲۴۸ ، ۲۴۹ روحانی خزائن ج۱ص۲۷۵) تو اگر اس کے اس عقیدہ کو رسمی عقیدہ یا اجتہادی غلطی کہہ کر غلط قرار دیا گیا تو یہ قطبی نہیں رہے گی اور اس کے دلائل مستحکم اور غیر متزلزل نہیں ہوں گے خصوصاً جب کہ نبی اکرم ﷺ کے مبارک ہاتھوں میں آچکی او رآپ کی مبارک نظر سے گذرچکی تو آپ نے ایسی فاش غلطی جو مرزا صاحب کے نزدیک شرک عظیم ہے اس کو آپ نے کس طرح نظر انداز کر دیا۔<br />
دیکھو مرزا کے نزدیک عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ ماننا شرک عظیم ہے :<br />
’’ فمن سوء الا دب ان یقال ان عیسی مامات وان ھو الا شرک عظیم یاکل الحسنات ویخالف الحصات بل ھو توفی کمثل اخوانہ ومات کمثل اھل زمانہ وان عقیدۃ حیاتہ قد جاء ت فی المسلمین من الملۃ النصرانیہ۔‘‘<br />
(الاستفتاء ضمیمہ حقیقت الوحی ص۳۹ ، روحانی خزائن ص۶۶۰ ج ۲۲)<br />
<b>جواب نمبر ۴</b><br />
یہ اجتہادی غلطی اس لیے بھی نہیں بن سکتی کہ مرزا صاحب خود تسلیم کرتے ہیں کہ ہم نے اس کتاب میں کوئی دعویٰ اور کوئی دلیل اپنے قیاس سے نہیں لکھی ۔<br />
(براہین احمدیہ حصہ دوم ص۵۰،۵۱ ،روحانی خزائن ج۱ ص۸۸ حاشیہ والا۹۹)<br />
<h3>
اثبات رفع ونزول از روئے احادیث باقوال مرز ا</h3>
<br />
<ul>
<li>حوالہ نمبر ۱</li>
</ul>
<br />
’’ مسیح ابن مریم کے آنے کی پیش گوئی ایک اول درجہ کی پیش گوئی ہے جس کو سب نے باتفاق قبول کیا ہے جس قدر صحاح میں پیش گوئیاں لکھی گئی ہیں کوئی پیش گوئی اس کے ہم پہلو اور ہم وزن ثابت نہیں ہوتی تواتر کا اول درجہ اس کو حاصل ہے ……الخ۔‘‘<br />
(ازالہ اوھام ۵۵۷ روحانی خزائن ج ۳ ص۴۰۰)<br />
تواتر کی تعریف بھی مرزا صاحب کے زبانی سن لیجئے : ’’ تواتر ایسی چیز ہے کہ اگر غیر قوموں کی تواریخ کی رو سے بھی پایا جائے تو تب بھی ہمیں قبول کرنا ہی پڑتا ہے ۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۵۵۶ روحانی خزائن ج۳ص۳۹۹)<br />
<br />
<ul>
<li>حوالہ نمبر ۲:</li>
</ul>
<br />
’’ اب پہلے ہم صفائی بیان کیلئے یہ لکھناچاہتے ہیں کہ بائبل اور ہماری احادیث اور اخبار کی کتابوں کی رو سے جن نبیوں کا اس وجود عنصری کیساتھ آسمان پر جانا تصور کیا گیا وہ دو نبی ہیں ایک یوحنا جس کا نام ایلیا اور ادریس بھی ہے دوسرا مسیح ابن مریم جن کو عیسیٰ اور یسوع بھی کہتے ہیں ان دونوں نبیوں کی نسبت عہد قدیم اور جدید کے بعض صحیفے بیان کر رہے ہیں کہ وہ دونوں آسمان کی طرف اٹھائے گئے ہیں اور پھر کسی زمانہ میں زمین پراتریں گے اور تم ان کو آسمان سے آتے دیکھو گے انہی کتابوں سے کسی قدر ملتے جلتے الفاظ احادیث نبویہ میں بھی پائے جاتے ہیں ۔‘‘<br />
(توضیح المرام ص۴ ،روحانی خزائن ج۳ ص۵۲ )<br />
<br />
<ul>
<li>حوالہ نمبر ۳:</li>
</ul>
<br />
’’ صحیح مسلم کی حدیث میں جویہ لفظ موجود ہے کہ حضرت مسیح جب آسمان سے اتریں گے تو ان کا لباس زرد رنگ کا ہوگا۔‘‘<br />
(ازالہ اوہام ص۳۶ روحانی خزائن ص۱۴۲ ج۳)<br />
<b>نوٹ﴾</b> یہ حدیث صحیح مسلم میں نہیں بلکہ سنن ابی داؤد ج ۲ کتاب الملاحم باب خروج الدجال میں مذکور ہے۔ قادیانیوں کیلئے چونکہ مرزا قادیانی کی تحریرات حجت ہیں اس لئے الزامی طور پر مذکورہ حوالہ لکھا جاتا ہے ۔<br />
<h3>
اثبات رفع و نزول مسیح از روئے اجماع امت</h3>
(۱) حیاۃ المسیح بجسمہ الی الیوم ونزولہ من السماء بجسمہ العنصری مما اجمع علیہ الامۃ وتواتر بہ الا حادیث۔<br />
(تفیسرالبحر المحیط ج۲ ص۲۷۳)<br />
(۲) والاجماع علی انہ حی فی السماء ینزل ویقتل الدجال ویؤید الدین (تفیسر جامع البیان تحت آیت انی متوفیک)<br />
(۳) الاجماع علی انہ رفع ببدنہ حیا قالہ الحافظ ابن حجر فی تلخیص الجبیر<br />
(۴) فتح الباری میں بھی ذکر ادریس میں حضرت مسیح کے نزول پر اجماع منقول ہے ۔<br />
(۵) تفسیر ابن کثیر میں تواتر نزول کی صراحت کی گئی ہے ۔<br />
مرزائیوں کی شہادت کہ رفع و نزول عیسیٰ پر تمام مفسرین کا اجماع ہے حافظ ابن حجر عسقلانی نے اپنی کتاب تلخیص الجبیر کے صفحہ ۳۱۹ ،۳۲۰ پر عام مفسرین کا اجماع نقل کیا ہے ۔ (عسل مصفیٰ ص ۱۶۴)<br />
مرزائیوں کے نزدیک بھی حافظ ابن حجر عسقلانی آٹھویں صدی کے مجدد ہیں ، یہ مجددین کی اس فہرست میں داخل ہیں جوکہ عسل مصفی کے صفحہ ۱۶۲ ق،۱۱۷ سے شروع ہوتی ہے اور کتاب ہذا مرزا کی مصدقہ ہے ۔<br />
<h3>
٭ایک اہم اصول</h3>
مرزائیوں کے ساتھ بحث کرنے سے پہلے یہ طے کرلیناچاہیے کہ فریقین اگر آیات قرآنی کی تفسیر وتشریح اپنی مرضی ورائے سے کریں گے توبحث کا کوئی فائد ہ نہ ہوگا، تم اپنے معنی بیان کرو گے اور ہم اپنا حلفی بیان کریں گے اور بحث کا حاصل کچھ نہ نکلے گا ،<u>اسلئے مناسب ہے کہ تیرہ صدیوں میں سے چند ایسے مفسرین ومجددین کا انتخاب کرلیں جن کی بات ہر دو فریق تسلیم کریں ۔</u><br />
چودھویں صدی کے مفسرین ومجددین کی بات بے شک نہ مانو، تیرہ صدیوں میں سے ایک مفسر ومجدد کا انتخاب کرلو جس کا بیان کیاہوا معنی اور تفسیر معتبر اور قول آخر مانی جائے گی اور مجددین میں سے ان مجددین کا انتخاب کرتے ہیں جو فریقین کے نزدیک مسلم ہیں اور مرزائیوں کے مسلم مجددین کی فہرست کتاب’’ عسل مصفی‘‘ میں موجود ہے. واضح ہو کہ یہ کتاب عسل مصفی وہ کتاب ہے جومرزا صاحب کے ایک مرید مرزا خدا بخش نے لکھی او رہر روز جو لکھی جاتی وہ باقاعدہ مرز اصاحب کو سنائی جاتی اگر کبھی وہ اتفاقاً مرزا صاحب کو نہ سناتا تو مرزا صاحب بڑے اہتمام کے ساتھ اس کے متعلق استفسار کرتے کہ آج تم نے مجھے اس کتاب کا مسودہ کیوں نہیں سنایا غرضیکہ یہ پوری کتاب مرز اغلام احمد قادیانی نے پورے اہتمام کے ساتھ سنی گویا یہ مرزا صاحب کی مصدقہ کتاب ہے اور اس کے اندر جو مجددین کی فہرست ہے وہ مرزا غلام احمد کے نزدیک بھی مسلم مجددین ہیں اب ہم <b>کتاب عسل مصفی</b> سے وہ فہرست نقل کرتے ہیں ۔<br />
( عسل مصفی مصنفہ مرزاخدا بخش ص۱۱۷ ج۱)<br />
<b>پہلی صدی میں اصحاب ذیل مجدد تسلیم کئے گئے ہیں</b><br />
(۱) عمر بن عبدالعزیز (۲) سالم (۳) قاسم (۴) مکحول<br />
علاوہ ان کے اور بھی اس صدی کے مجدد مانے گئے ہیں چونکہ جو مجدد جامع صفات حسنی ہوتا ہے وہ سب کا سردار اور فی الحقیقت وہی مجدد فی نفسہ ماناجاتا ہے اور باقی اس کی ذیل سمجھے جاتے ہیں جیسے انبیاء بنی اسرائیل میں ایک نبی بڑا ہوتا تھاتو دوسرے اس کے تابع ہو کر کاروائی کرتے تھے چنانچہ صدی اول کے مجدد متصف بجمیع صفات حسنی حضرت عمر بن عبدالعزیز تھے ۔(نجم الثاقب ج۲ ص۹ ،وقرۃ العیون ومجالس الابرار)<br />
<b>دوسری صدی کے مجدد اصحاب ذیل ہیں</b><br />
(۱) امام محمد ادریس ابو عبداﷲ شافعی (۲) احمد بن محمد بن حنبل شیبانی (۳) یحیٰ بن عون غطفانی (۴) اشہب بن عبدالعزیز بن داؤد قیس (۵) ابو عمرو مالکی مصری (۶) خلیفہ مامون رشید بن ہارون (۷) قاضی حسن بن زیاد حنفی (۸) جنیدبن محمد بغدادی صوفی (۹) سہل بن ابی سہل بن ریحلہ الشافعی (۱۰) بقول امام شعرانی حارث بن اسعد محاسبی ابو عبداﷲ صوفی بغدادی (۱۱) او ربقول قاضی القضاۃ علامہ عینی احمد بن خالد الخلال ابو جعفر حنبلی بغدادی ۔ (نجم الثاقب ج۲ ص۱۴ ،قرۃ العیون ومجالس الابرار)<br />
<b>تیسری صدی کے مجددین</b><br />
(۱) قاضی احمد بن شریح بغدادی شافعی (۲) ابو الحسن اشعری متکلم شافعی (۳) ابو جعفر طحاوی ازدی حنفی (۴) احمد بن شعیب(۵) ابو عبدالرحمن نسائی (۶)خلیفہ مقتدر باﷲ عباسی (۷) حضرت شبلی صوفی(۸) عبیداﷲ بن حسین (۹) ابو الحسن کرخی وصوفی حنفی<br />
(۱۰) امام بقی بن مخلد قرطبی مجدد اندلس اہل حدیث ۔<br />
<b>چوتھی صدی کے مجددین</b><br />
(۱) اما م ابوبکر باقلانی (۲) خلیفہ قادر باﷲ عباسی (۳) ابوحامداسفرانی (۴) حافظ ابو نعیم (۵) ابو بکر خوارزمی حنفی (۶) بقول شاہ ولی اﷲ ابو عبداﷲ محمد بن عبداﷲ المعروف بالحاکم نیشاپوری (۷) اما م بیہقی (۸) حضرت ابو طالب ولی اﷲ صاحب قوت القلوب جوطبقہ صوفیاء سے ہیں (۹) حافظ احمد بن علی بن ثابت خطیب بغداد (۱۰) ابو اسحاق شیرازی (۱۱) ابراہیم بن علی بن یوسف فقیہ المحدث<br />
<b>پانچویں صدی کے مجدد اصحاب</b><br />
(۱) محمد بن محمد ابو حامد امام غزالی (۲) بقول عینی و کرمانی حضرت راعونی حنفی (۳) خلیفہ مستظہر بالدین مقتدی باﷲ عباسی (۴) عبداﷲ محمد بن محمد انصاری ابو اسماعیل ہروی (۵) ابو طاہر سلفی (۶) محمدبن احمد ابوبکر شمس الدین سرخسی فقیہ حنفی<br />
<b>چھٹی صدی کے مجددین</b><br />
(۱) محمد بن عبداﷲ فخرالدین رازی (۲) علی بن محمد (۳) عزالدین بن کثیر (۴) امام رافعی شافعی صاحب زبدہ شرح شفا(۵) یحیٰ بن حبش بن میرک حضرت شہاب الدین سہروردی شہید امام طریقت (۶) یحیٰ بن اشرف بن حسن محی الدین لوذی (۷) حافظ عبدالرحمن ابن جوزی<br />
<b>ساتویں صدی کے مجدد اصحاب</b><br />
(۱) احمد بن عبدالحلیم نقی الدین ابن تیمیہ حنبلی (۲) تقی الدین ابن دقیق العید (۳) شاہ شرف الدین مخدوم بہائی سندی (۴) حضرت معین الدین چشتی (۵) حافظ ابن القیم جوزی شمس الدین محمد بن ابی بکر بن ایوب بن سعد بن القیم الجوزی ورعی دمشقی حنبلی (۶) عبداﷲ بن اسعد بن علی بن سلیمان بن خلاج ابو محمد عفیف الدین یافعی شافعی (۷) قاضی بدرالدین محمد بن عبداﷲ الشبلی حنفی دمشقی<br />
<b>آٹھویں صدی کے مجددین</b><br />
(۱) حافظ علی بن حجر عسقلانی شافعی (۲) حافظ زین الدین عراقی شافعی (۳) صالح بن عمر بن ارسلان قاضی بلقینی (۴) علامہ ناصر الدین شازلی بن سنت میلی<br />
<b>نویں صدی کے مجدد اصحاب</b><br />
(۱) عبدالرحمن کمال الدین شافعی معروف بہ امام جلال الدین سیوطی (۲) محمد بن عبدالرحمن سخاوی شافعی (۳) سید محمد جونپوری مہدی اور بقول بعض دسویں صدی کے مجدد ہیں ۔<br />
<b>دسویں صدی کے مجدد اصحاب یہ ہیں</b><br />
(۱) ملا علی قاری (۲) محمد طاہر فتنی گجراتی ، محی الدین محی السنہ (۳) حضرت علی بن حسام الدین معروف بہ علی متقی ہندی مکی<br />
<b>گیارہویں صدی کے مجددین</b><br />
(۱) عالم گیر بادشاہ غازی اورنگ زیب (۲) حضرت آدم بنوی صوفی (۳) شیخ احمد بن عبدالاحد بن زین العابدین فاروقی سرہندی معروف بامام ربانی مجدد الف ثانی<br />
<b>بارہویں صدی کے مجدد اصحاب ذیل ہیں</b><br />
(۱) محمد بن عبدالوہاب بن سلیمان نجدی (۲) مرز امظہر جان جاناں دہلوی (۳) سید عبدالقادر بن احمد بن عبدالقادر حسنی کوکیانی (۴) حضرت احمد شاہ ولی اﷲ صاحب محدث دہلوی (۵) اما م شوکانی (۶) علامہ سیدمحمد بن اسما عیل امیر یمن (۷) محمد حیات بن ملازیہ سندھی مدنی<br />
<b>تیرھویں صدی کے مجددین</b><br />
(۱) سید احمد بریلوی (۲) شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی (۳) مولوی محمد اسماعیل شہید دہلوی (۴) بعض کے نزدیک شاہ رفیع الدین صاحب بھی مجدد ہیں (۵) بعض نے شاہ عبدالقادر کو مجدد تسلیم کیا ہے ، ہم اس کا انکا ر نہیں کرسکتے کہ بعض ممالک میں بعض بزرگ ایسے بھی ہوں گے جن کو مجدد مانا گیا ہو اور ہمیں اطلاع نہ ملی ہو۔<br />
نوٹ﴾مرز اخدا بخش کی اس دی گئی فہرست میں تیرہ صدیوں کے مجددین کی تعداد اکیاسی بنتی ہے۔<br />
<div>
<br /></div>
<h3>
مرزائی سوال</h3>
مرزائی عموماً سوال کرتے ہیں کہ چودہویں صدی کامجدد کون ہے واضح ہو کہ ان کے نزدیک آنجہانی مرزا غلام احمد قادیانی ہی چودہویں صدی کا مجدد ہے ۔<br />
<b>جواب:</b><br />
ہم جواب میں چودھویں صدی کے مجددین کے ضمن میں یہ نام پیش کرتے ہیں :<br />
(۱) حضرت مولا نا محمد قاسم نانوتوی بانی دارالعلوم دیوبند(۲) حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (۳) مفسر قرآن حضرت مولانا حسین علی (۴) شیخ العرب والعجم حضرت مولانا حسین احمد مدنی (۵) حضرت مولا نا محمد الیاس کاندھلوی بانی تبلیغ جماعت (۶) سید المحدثین حضرت مولانا سید علامہ انور شاہ کشمیری (۷) شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری (۸) حضرت شاہ عبدالقادر رائپوری (۹) حضرت خلیفہ غلام محمد، دین پورشریف<br />
<div style="text-align: center;">
(جاری ہے...) </div>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<div style="text-align: center;">
٭٭٭</div>
</div>
</div>
Sarbakafhttp://www.blogger.com/profile/14532797594298636576noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3854913904789287339.post-10570422967900388132019-03-19T10:18:00.003-07:002019-03-19T10:26:52.200-07:00بے اعتبار مرزا قادیانی - احتشام انجم شامی<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div class="postmeta" dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span class="author">
احتشام انجم شامی</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<table align="center" cellpadding="0" cellspacing="0" class="tr-caption-container" style="margin-left: auto; margin-right: auto; text-align: center;"><tbody>
<tr><td style="text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhlv_FCFsKCkBjY4XRtMjR1Af7wciTqEwiSbqc25tgn99PdFmGNJ23NkPe8hDx0_iskL6bzi_bg-occaPXzLC2L4f1YyUfaHZ_RI7a-VhO-lkChJSFSQFLsipg5As41V9_aC1OQt5KQ7Y_N/s1600/Excerpt+-+Sarbakaf+10+be+aetebar+mirza+qadiani+by+ehtisham+anjum.png" imageanchor="1" style="margin-left: auto; margin-right: auto;"><img border="0" data-original-height="1200" data-original-width="1600" height="240" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhlv_FCFsKCkBjY4XRtMjR1Af7wciTqEwiSbqc25tgn99PdFmGNJ23NkPe8hDx0_iskL6bzi_bg-occaPXzLC2L4f1YyUfaHZ_RI7a-VhO-lkChJSFSQFLsipg5As41V9_aC1OQt5KQ7Y_N/s320/Excerpt+-+Sarbakaf+10+be+aetebar+mirza+qadiani+by+ehtisham+anjum.png" width="320" /></a></td></tr>
<tr><td class="tr-caption" style="text-align: center;"><span style="font-family: "times" , "times new roman" , serif;">Unreliability of Mirza Qadiani </span></td></tr>
</tbody></table>
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
</div>
<br />
قارئین کرام ! مرزا قادیانی اور قادیانی جماعت کی حقیقت کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ تاہم پھر بھی ہم کچھ عرض کرتے ہیں کہ مرزا قادیانی کی حیثیت ان کی اپنی تحریروں کی رو سے کیا ہے۔ٍ</div>
<h3 dir="rtl" style="text-align: justify;">
جھوٹے شخص پر مرزا قادیانی کے فتوے</h3>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
مرزا صاحب لکھتے ہیں</div>
<blockquote class="tr_bq" dir="rtl" style="text-align: justify;">
۱:جھوٹ بولنا مرتد ہونے سے کم نہیں۔<br />
[روحانی خزائن جلد ۱۷ ص ۵۷]<br />
۲:وہ کنجر اور ولد الزنا کہلاتے ہیں جوبھی جھوٹ بولتے ہوئے شرماتے ہیں۔<br />
[روحانی خزائن جلد ۲ ص ۳۸۶]<br />
۳:جھوٹ بولنا اور گوہ کھانا ایک برابر ہے۔<br />
[روحانی خزائن جلد۲۲ ص ۲۱۵]</blockquote>
<h3 dir="rtl" style="text-align: justify;">
جھوٹے کی بات کی حیثیت</h3>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
مزید لکھتے ہیں:</div>
<blockquote class="tr_bq" dir="rtl" style="text-align: justify;">
جب ایک بات میں کوئی جھوٹاثابت ہو جائے تو پھر دوسری بات میں اس پر اعتبار نہیں رہتا۔<br />
[روحانی خزائن جلد ۲۳ ص ۲۳۱]</blockquote>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اب آتے ہیں ان کے دجل کی طرف۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<h3>
مرزا قادیانی کا دعوی:</h3>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<blockquote class="tr_bq" style="text-align: right;">
۱: وہ مسیح موعود جس کے آنے کا قران کریم میں وعدہ کیا گیا ہے وہ عاجز ہی ہے۔<br />
<div style="text-align: left;">
[روحانی خزائن جلد ۳ ص ۴۶۸]</div>
</blockquote>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<div style="text-align: left;">
<br /></div>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<blockquote class="tr_bq" style="text-align: right;">
۲:اس عاجز کو حضرت مسیح سے مشابہت تامہ ہے<span style="white-space: pre;"> </span><br />
<div style="text-align: left;">
<span style="white-space: pre;">[خزائن جلد ۱ ص ۵۹۴]</span></div>
<span style="white-space: pre;">
</span></blockquote>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<div style="text-align: left;">
<br /></div>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<blockquote class="tr_bq" style="text-align: right;">
۳: اس مسیح کو ابن مریم سے ہر ایک پہلو سے تشبیہ دی گئی ہے۔<br />
<div style="text-align: left;">
[خزائن جلد ۱۹ ص ۳]</div>
</blockquote>
</div>
<h3 dir="rtl" style="text-align: justify;">
تبصرہ:</h3>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
مرزا قادیانی کا یہ دعوی کر نا کہ ان کو حضرت عیسی ابن مریم علیہ السلام سے معاذ اللہ ہر پہلو میں مشابہت حا صل ہے کو انہی کی تحریروں کی روشنی میں دیکھتے ہیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<b>بغیر والد کے پیدا ہونا</b></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
۱: حضرت عیسی ابن مریم بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
[خزائن جلد ۳ ص ۶۱]</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جبکہ مرزا صاحب، جنہیں ہر لحاظ سے ابن مریم سے مشابہت کا دعوی تھا وہ لکھتے ہیں</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<blockquote class="tr_bq">
میں جس کا نام غلام احمداور باپ کا نام غلام مرتضی۔<br />
<div style="text-align: left;">
[کشف الغطا ص ۲]</div>
</blockquote>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<div style="text-align: left;">
<br /></div>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<b>اولاد میں مشابہت کی نفی</b></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
۱: حضرت عیسی علیہ السلام کی کوئی آل نہیں تھی۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
[خزائن جلد ۱۵ ص۳۶۳ حاشیہ]</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جبکہ مرزا صاحب کی اولاد تھی جو بالکل واضح بات ہے۔<br />
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<b>مسمریزم اور مرزا قادیانی </b></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
خزائن میں ایک جگہ درج ہے:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
یہ جو میں نے مسمزیزی طریق کا عمل الترب نام رکھا جس میں حضرت مسیح بھی کسی درجہ تک مشق رکھتے تھے۔[خزائن جلد ۳ ص ۲۵۹]<br />
<blockquote class="tr_bq">
جبکہ مرزا صاحب اس عمل کو مکروہ اور قابل نفرت سمجھتے تھے۔<br />
<div style="text-align: left;">
[بحوالہ خزائن جلد ۳ ص ۲۵۸]</div>
</blockquote>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<div style="text-align: left;">
<br /></div>
جب قابل نفرت سمجھتے تھے تو ظاہر ہے خود کیوں اس پر عمل کیا جائے گا؟<br />
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<b>مذہب کے پھیلنے میں مماثلت کی نفی</b></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
ایک جگہ لکھتے ہیں:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
ناکامی اور نا مرادی جو مذہب کے پھیلانے میں کسی کو ہو سکتی ہے۔عیسی علیہ السلام سب سے اول نمبر پر ہیں ۔
[خزائن جلد ۲۱ ص ۵۸]</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جبکہ اپنے بارے میں خود لکھتے ہیں</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<blockquote class="tr_bq">
لاکوں انسانوں نے مجھے قبول کر لیااور یہ ملک ہماری جماعت سے بھر گیا۔<br />
<div style="text-align: left;">
[خزائن جلد۲۱ ص ۹۵،۹۶]</div>
</blockquote>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<div style="text-align: left;">
<br /></div>
ان سب حوالوں سے یہ بات بالکل روز روشن کی طرح واضح ہو گئی کہ مرزا صاحب کا یہ کہنا پرلے درجے کا جھوٹ ہے کہ انہیں حضرت عیسی علیہ السلام سے معاذاللہ کلی مشابہت حاصل تھی کیونکہ ہم نے چند حوالے انہی کی تحریروں سے دے دیے ہیں۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>چونکہ مرزا قادیانی کا جھوٹا ہونا ثابت ہوا لہذا انہی کے فتوے کے مطابق ان کی کسی بات کا اعتبار نہیں ہے ۔ اپنی ہی تحریروں کے آئینے میں:<br />
<br />
<ul>
<li>ان کے نسب میں شک ہے</li>
<li>یہ ولد الزنا بھی ہوئے</li>
<li>گوہ کھانے والے بھی ثابت ہوئے</li>
<li> بلکہ مرتد بھی اپنے ہی تحریروں سے ثابت ہوئے۔</li>
</ul>
</div>
<h3 dir="rtl" style="text-align: justify;">
قادیانی جماعت کو پیغام:</h3>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
ہم یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ جو بندہ اپنے تحریروں کی رو سے ایسا مرتد ولد الزنا جھوٹا ثابت ہو اسے نبی مان کر اپنی آخرت برباد کرنے سے اچھا ہے کہ کلمہ پڑھیں اور حضور ﷺ کو آخری نبی مان کر مرزا قادیانی پر چار حرف بھیج کر دائرۂ اسلام میں داخل ہو جائیں!</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<div style="text-align: center;">
٭٭٭</div>
</div>
</div>
Sarbakafhttp://www.blogger.com/profile/14532797594298636576noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3854913904789287339.post-37019921677612067282019-03-19T03:52:00.001-07:002019-03-19T04:45:33.053-07:00ملحد کی سائنس اور انسانیت سے بغاوت - سید عکاشہ<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div class="postmeta" dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span class="author">
سید عکاشہ</span></div>
<table align="center" cellpadding="0" cellspacing="0" class="tr-caption-container" style="margin-left: auto; margin-right: auto; text-align: center;"><tbody>
<tr><td style="text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiGM6tT02qAyzvFDM2Dg_WdzfXER4FP_swNgiHq-jKMKgwFaTSDSIovGy_i6A-ixX1Zd1oJiBDj2tT4_Qm9awGUkO_GXbfO0feJ6tfrKKFZJxbcAMc3la-fmoHIYnjFJF0Gt4jxitJdhpvW/s1600/Excerpt+-+Sarbakaf+10+Mulhid+ki+science+se+baghawat+sayyid+ukasha.png" imageanchor="1" style="margin-left: auto; margin-right: auto;"><img border="0" data-original-height="1200" data-original-width="1600" height="240" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiGM6tT02qAyzvFDM2Dg_WdzfXER4FP_swNgiHq-jKMKgwFaTSDSIovGy_i6A-ixX1Zd1oJiBDj2tT4_Qm9awGUkO_GXbfO0feJ6tfrKKFZJxbcAMc3la-fmoHIYnjFJF0Gt4jxitJdhpvW/s320/Excerpt+-+Sarbakaf+10+Mulhid+ki+science+se+baghawat+sayyid+ukasha.png" width="320" /></a></td></tr>
<tr><td class="tr-caption" style="text-align: center;"><span style="font-family: "times" , "times new roman" , serif;">When atheism goes against science and morality</span></td></tr>
</tbody></table>
<div class="mudeer" dir="rtl" style="text-align: justify;">
الحاد کے ساتھ ٹریجڈی یہ ہے کہ وہ کئی معاملات میں ایسی گلیوں میں جا نکلتا ہے جس کے آخر میں دیوار راستہ روکے کھڑی ہوتی ہے۔ ایک مختصر اور جامع تحریر جو ملحدین کی اس عادت کا منصفانہ جائزہ لیتی ہے۔<br />
<span style="display: block; text-align: left;">
(مدیر)</span>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
الحاد دو
<sup>۲</sup>
امور کو اپنا بنیادی ہتھیار بناتا ہے اور ان دونوں کے سبب مذہب کی تنقیح کرتا ہے اور حامیانِ مذہب پر جرح کرتا ہے۔ ایک چیز تو سائنس ہے جبکہ دوسری چیز انسانیت ہے۔ اس تحریر میں یہ واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ان دونوں سے الحاد کا کوئی تعلق نہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<h3>
سائنس سے بغاوت</h3>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
ابتداء سائنس سے کرتے ہیں۔ ایک اصولی بات سمجھ لینا لازم ہے کہ ہر ترکیب اپنی ابتداء میں دو چیزوں کے مربوط ہوجانے کی محتاج ہے:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
۱۔ ایک سبب کا وجود رکھنا
<br />
۲۔ اس سبب کا اپنی ترکیب سے تعلق بنانا</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اس کے بعد ہی ترکیب وجود میں آتی ہے۔ قدرت کا یہ بنیادی دستور ہے اور یہ ایک (self-evident) سچ ہے جس کے انکار کی استطاعت کی جرأت وہ نہیں کرسکتا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
میں کمپیوٹر کے کی بورڈ کا استعمال کر رہا ہوں تب ہی وہ الفاظ میں منتقل ہو کر ٹائپ ہورہے ہیں، اس معاملہ میں بھی دو چیزیں ہیں:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
۱۔ ایک میرے ہاتھ کی فعلیت کا کی بورڈ پر وجود رکھنا
<br />
۲۔ اس وجود کا اپنی ترکیب سے تعلق بنانا</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی چیز اس کے بغیر وجود رکھ لے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
ریاضی میں کہا جاتا ہے کہ ایک سیب میں لوں اور کچھ دیر بعد اس میں ایک سیب کا اضافہ کردوں تو دو سیب بن جاتے ہیں۔ اس میں بھی اس قانون کی پاسداری ہے۔ ایک سیب میں ایک سیب جوڑ دینے سے چار یا پانچ سیب نہیں بنتے بلکہ دو ہی بنتے ہیں کیونکہ وہ ایک سیب کی انفرادیت (distinction) دوسرے سیب کی انفرادیت سے جب ربط بناتی ہے تو جو ترکیب وجود میں آتی ہے وہ دو سیب ہی بناتی ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
سائنس بھی اسی دستور کا پابند ہے۔ کسی دوائی سے بیمار کو شفا ملتی ہے۔ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ شاید یہ سب خود بخود ہوجاتا ہو۔ بلکہ دوائی کے اجزاء کا انسانی جسم سے ربط بنانا لازم سمجھا جاتا ہے اور اس کی بنیاد یہی (self-evident) سچّائی ہے جو اشیاء کی ترکیب کو زیرِ بحث اس کے سبب سے ربط کی بنیاد پر تسلیم کرتی ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
کسی کے ذہن میں یہ خیال نہیں آتا کہ شاید دوائی اور شفاء کا کوئی تعلق نہ ہو کیونکہ وہ اس سچائی میں یقین رکھتے ہیں۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
خدا کا وجود ایک حقیقت ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہ از خود (self-evident) سچّائی ہے اور ایک وجہ یہ کہ یہ قانونِ ربط اس کے وجود کو لازم کرتا ہے۔ جب ہر چیز کا ترکیب پانا، اس کے سبب کے وجود اور ربط کا پابند ہے، تو یہ کائنات جو اپنی تمام صفات کے لحاظ سے محدود ہے کیونکر اس اصول سے بغاوت کریگی؟ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
سائنس، ریاضی، فلسفہ، طب وغیرہ کی بنیاد جس اصول پر ہے، وہ اصول یہ لازم کرتا ہے کہ وجودِ خدا بھی ہونا چاہیئے۔ مگر یہاں آکر ملحد کی فکر متغیر ہوجاتی ہے اور وہ کہتا ہے کہ نہیں! ایسا نہیں ہے، اس معاملہ میں ایسا نہیں ہوا۔ لارنس کراس جیسے کہتے ہیں کہ شاید یہ کائنات بغیر کسی شے کے یعنی nothing سے وجود میں آگئی ہو۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ ہمیشہ سے ہے۔ بعض کائنات اور خدا میں فرق سمجھے بغیر یہ منطق لڑاتے ہیں کہ جب خدا بغیر کسی کے بنائے بن سکتا ہے تو یہ کائنات کیوں نہیں؟ الغرض جس سائنس کا رونا وہ روتے ہیں، اسی سے بغاوت کرجاتے ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<h3>
انسانیت سے بغاوت</h3>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اب انسانیت کے متعلق الحاد کے نظریہ کی وضاحت بھی ہم ضروری سمجھتے ہیں۔ ہم اکثر کہتے ہیں:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<blockquote class="tr_bq">
اگر خدا نہیں ہے، تو ہمارے پاس بھلائی اور اچھائی کے جانب راغب ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔</blockquote>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
یہ دلیل بہت سے لوگوں نے دی ہے اور اس پر ملحد یہ اعتراض کیا کرتے ہیں:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
"تم لوگ کتنے خود غرض ہو؟ صرف جزا و سزا کے لیے اچھے بنتے ہو؟ تم لوگوں میں انسانیت ہی نہیں ہے"</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
در اصل یہ سب انہوں نے اپنے بڑے مولوی صاحب رچارڈ ڈاکنز سے طریقہ اخذ کیا ہے اور وہی ہر مذہبی پر تھوپ دیتے ہیں۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
ہم کب کہتے ہیں کہ جزا و سزا کے لیے ہی انسان اچھا بنتا ہے؟ بلکہ ہم کہتے ہیں کہ اگر خدا کا وجود نہیں تو بھلائی اور برائی جیسے نظریات کا کوئی حقیقی وجود بھی ثابت نہیں ہوسکتا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
کیسے؟</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
کوئی بھی چیز کیوں بری ہے یا کیوں بھلی ہے؟</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
ایک جواب تو یہ ہوسکتا ہے کہ اس لیے بری ہے کہ انسانیت کے خلاف ہے وغیرہ وغیرہ؟</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
مگر سوال پھر پیدا ہوتا ہے:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
ہمیں انسانیت پر کیوں چلنا ہے؟ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
وہ کہے گا کہ قومیں ایسے ہی بن سکتی ہیں ورنہ انسان دنیا سے ختم ہوجائیں گے۔ پھر سوال پیدا ہوتا ہے:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
انسانوں کے دنیا سے ختم ہوجانے کی ہم کیوں فکر کریں؟</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
وہ اس مقام پر اگر ملحد ہے تو آ کر عام طور پر یہی کہہ دے گا کہ تم لوگ کتنے بیشرم بے حیاء ہو تم انسانوں کی فکر نہیں کرتے، انسانیت نہیں تم میں وغیرہ وغیرہ مگر منطقی لحاظ سے مزید کچھ ثابت نہیں کر پائے گا۔ سوالات کا سلسلہ تو کسی طور ختم نہیں ہوگا۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اس کا حل کیسے نکلے؟ ہم پر فرض ہے یعنی ہماری ڈیوٹی ہے کہ ہم اچھے بنیں (اس بات کو اخلاقیات کے حوالے سے کانٹ نے بھی ذکر کیا ہے)، مگر کیوں؟ ایک مذہبی کے پاس سادہ اور بہت ہی آسانی سے سمجھ میں آنے والا جواب ہے کہ خدا نے ہمیں اسی لیے پیدا کیا ہے۔ خدا کی خلقت اسی لیے ہوئی ہے اور ہمارا مقصد یہی ہے مگر اس موقع پر ایک ملحد کے پاس کوئی جواب نہیں ہوگا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
بعض ملحد فلسفیوں نے الجھا کر اس مسئلہ کو بھی ثابت کرنے کی کوشش کی مگر کئی فلسفی ملحدین مثلاََ جے-ایل میکی ( .L Mackie) نے تو اعتراف بھی کرلیا ہے کہ اخلاقیات کا کوئی فی نفسہ (objective) وجود نہیں۔ ایسے میں دنیا والوں کو کیسے قائل کیا جائے گا اور کیا مستقبل میں اخلاقی زوال پیدا ہونے کا امکان نہیں ہوگا؟ نہلسٹ (nihilists یعنی وہ جو اخلاقیات اور مذہب سب کے منکر ہیں) کو ہی دیکھ لیں۔ <u>وہ اخلاقیات کو نہیں مانتے</u>، جبکہ absurdists اپنی مرضی کے اخلاقیات بنانے کے قائل ہیں۔
اب کیا کیا جائے گا؟<br />
<div style="text-align: center;">
٭٭٭</div>
</div>
</div>
Sarbakafhttp://www.blogger.com/profile/14532797594298636576noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3854913904789287339.post-48057516495597400402019-03-19T00:30:00.003-07:002019-03-19T00:32:43.857-07:00ڈیڑھ لاکھ افراد کو مسلمان کرنے والے نو مسلم کولن چیک سے ایک گفتگو<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div class="postmeta" dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span class="author">
کولن چیک </span></div>
<table align="center" cellpadding="0" cellspacing="0" class="tr-caption-container" style="margin-left: auto; margin-right: auto; text-align: center;"><tbody>
<tr><td style="text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEib1kOqAbLKk-jmDa9zG0LZksaBZSEqdENZp5sxSx521hMGr4tcKmb8TndJnEWr3xjTtMDhQDpyqhHFQlOJHLLh3cYi2EUlWhmnnWul4l7xu0FkfskEEcq-CKApkToDBi9A7huV3761X8WG/s1600/Excerpt+-+Sarbakaf+10+Colin+Check+se+guftgu.png" imageanchor="1" style="margin-left: auto; margin-right: auto;"><img border="0" data-original-height="1200" data-original-width="1600" height="240" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEib1kOqAbLKk-jmDa9zG0LZksaBZSEqdENZp5sxSx521hMGr4tcKmb8TndJnEWr3xjTtMDhQDpyqhHFQlOJHLLh3cYi2EUlWhmnnWul4l7xu0FkfskEEcq-CKApkToDBi9A7huV3761X8WG/s320/Excerpt+-+Sarbakaf+10+Colin+Check+se+guftgu.png" width="320" /></a></td></tr>
<tr><td class="tr-caption" style="text-align: center;"><span style="font-family: "times" , "times new roman" , serif;">A conversation with the man behind 150000+ converts, Colin Check</span></td></tr>
</tbody></table>
<br />
<div class="mudeer" dir="rtl" style="text-align: justify;">
انٹرنیشنل چرچ کے جنرل سکریٹری کا عالم اسلام کے خلاف امریکہ و یورپ کی خوف ناک سازشوں کا انکشاف</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
سوال :افریقی ممالک میں خصوصاً اور اسلامی ممالک میں عموماً یوروپی این جی اوزکا کیا کر دار ہے ؟</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جواب :وہ سب این جی اوز حقیقت میں چرچ کے زیر انتظام چلتی ہیں اور چرچ کے مفاد میں انسانی خدمت کے موٹو سے کام کرتی ہیں اور ان کا اصل مقصد مسلمانوں کو عیسائی بنانا یا کم از کم ان کو دین سے دور کرنا ہوتا ہے اور ان مذموم مقاصد کے حصول کے لئے ان کے پاس لا محدود وسائل اور متعدد ذرائع ہوتے ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>انٹرنیشنل چرچ کی این جی اوز کا شمار کسی فرد واحد کے بس کی بات نہیں لیکن میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ عالمی سطح پر عیسائیت کے مفاد کے لئے کام کرنے والی ہزاروں این جی اوز ہیں، صرف سوڈان میں پانچ سو سے زائد ایسی این جی اوز فعال ہیں جو مسلمانوں کو مرتد بنانے میں سرگرم رہتی ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
سوال :مذکورہ عیسائی این جی اوز اپنے مقاصد کیسے حاصل کرتی ہیں ؟</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جواب :چرچ کے لئے کام کرنے والی یا عیسائیت کے نام پر مسلمانوں کو مرتد بنانے اور ان کے ایمان پر ڈاکہ ڈالنے والی یورپی این جی اوز بلا سوچے سمجھے اور بغیر منصوبہ بندی کے کوئی کام نہیں کر تیں، بلکہ وہ انتہائی باریک بینی سے پایۂ تکمیل تک پہونچی ہوئی سروے اور تحقیقی رپورٹوں کی روشنی میں پوری پلاننگ سے کام کرتی ہیں وہ جس ملک میں کام کرنا چاہتی ہیں اس کے متعلق ساری معلومات حاصل کرتی ہیں اس ملک کے اندرونی اور بیرونی نقشہ جات اور سیاسی، اقتصادی، مذہبی اور دیگر اہم جماعتوں کے بارے میں مکمل معلومات اور ان کی کمزوریوں اور دکھتی رگوں پر ماہرنبض شناس کی طرح ان کے ہاتھ ہوتے ہیں، وہ جب جہاں اور جیسے چاہیں، اپنے مقاصد حاصل کرتے ہیں انہیں یہ معلومات بھی دی جاتی ہیں کہ ہدف ملک کو، اموال، اغذیہ، تعلیم اور صحت و کھیل وغیرہ میں کن اشیاء اور کتنی مقدار کی ضرورت ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>ہر شخص کو مرتد بنانے کا طریقہ مختلف ہو سکتا ہے مثلاً ایک لادینی شخص کو عیسائیت کے نام پر حلقہ ارتداد میں انتہائی آسانی کے ساتھ داخل کیا جاتا ہے اس کی ترغیبات کے مطابق اسے شراب، شباب اور اموال مہیا کر دیئے جاتے ہیں جس سے وہ ان کے شکنجہ میں آتا جاتا ہے، بالآخر وہ اپنا شکنجۂ اسیری خوب کس دیتے ہیں، البتہ ایک دیندار شخص کے لئے عیسائی مبلغین کے سامنے دوآپشن ہوتے ہیں، وہ مرتد ہو جائے یا اس کا ایمان کمزور ہو جائے اور وہ زیادہ گناہوں میں مبتلا ہو جائے، نیز مسلمانوں کو گمراہ یا مرتد کرنے کے لئے عیسائی مبلغین بتدریج ترغیب و تحریص سے کام لیتے ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
سوال :ایک مسلمان شخص کو آپ اس کے دین سے کیسے دور کرتے تھے ؟</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جواب :اگر ہمارا ٹارگیٹ ایک دیندار شخص ہوتا تو ہم اس کی خواہشات کی طرف دیکھتے، مثلاً شہرت، تعلیمی منصب، صنف نازک وغیرہ تو ہم میں سے کوئی ایک مبلغ اس سے اچانک ملاقات کرتا ہے اور دوران گفتگو اس کے میلان کی طرف توجہ کرتا ہے، پھر اس کی حسب خواہش مطلوبہ اشیاء و افر مقدار میں فراہم کرتا ہے بلکہ ہمارا مبلغ اس پر حاوی ہو جاتا ہے اور وہ اس پر بھروسہ کرنے لگتا ہے پھر بتدریج اسے عیسائیت کی طرف مائل کر لیتا ہے یا اسلام سے اسے دور کر دیتا ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
سوال :اگر آپ اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوتے تھے تو پھر کیا کرتے تھے ؟</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جواب :جب ہمیں کسی ملک میں اپنے مقاصد کے حصول میں ناکامی ہوتی ہے تو ہم اپنے طریقے تبدیل کر لیتے ہیں مثلاً ہم وہاں کی حکومتوں پر اپنی حکومتوں کے ذریعہ دباؤڈلواتے ہیں کیونکہ ممالک یورپ اور چرچ کی تعلیمات کو رواج نہ دیتے تھے، یا ہم وہاں کی عوام کے لئے پیش کردہ خدمات سے ہاتھ کھینچ لیتے، چونکہ بیشتر مسلمان حکمراں ہماری امداد اور خدمات کے بغیر جینا محال سمجھتے ہیں، اس لئے یہ آخری طریقہ آزمایا جاتا ہے کہ مذکورہ ممالک پر سیاسی واقتصادی پابندی عائد کرواتے ہیں، اور وہاں داخلی طور پر فتنہ و فساد اور تخریبی کا روائیاں شروع کر دیتے ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
سوال :کیا آپ چرچ کے ذرائع آمدنی کے متعلق کچھ تفاصیل نذرقارئین کریں گے ؟</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جواب :یورپی ممالک میں ایک عام قانون ہے کہ ہر ملازم کی تنخواہ سے 5%فیصد چرچ فنڈ کے نام پر لازمی طور پر کاٹ لیا جائے گا۔نیز اکثر اسلامی اور افریقی ممالک میں یورپی سرمایہ کاری در اصل چرچ کی طرف سے ہوتی ہے اور ان سب کا منافع چرچ کے مقاصد پر ہی خرچ ہوتا ہے۔اسی کے بل بوتے پر چرچ عیسائیت کی تبلیغ سرانجام دیتا ہے، مثلاً مصری چرچ دس ہزار سے زائد جنوبی سوڈانی طلبہ کو اسکا لرشپ دیتا ہے اور ان کی تعلیم و تربیت کی بھر پور نگہداشت کی جاتی ہے تا کہ وہ تعلیم سے فارغ ہو کر عیسائیت کے مبلغ اور بائبل کے علماء و فقہاء بن سکیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
سوال :آپ چرچ کی طرف سے متعدد اہم عہدوں پر فائز رہے تو آپ ان عہدوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے تھے ؟</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جواب :یورپی چرچ کی تنظیمیں ان پر اموال کی بارش کرتیں اور بے حد و حساب اموال مہیا کرتیں بلکہ ہمارے عیش و آرام کا یہاں تک خیال رکھا جاتا کہ قیمتی گاڑیاں، خوبصورت عورتیں اور شراب وغیرہ بھی فراہم کی جاتی تا کہ ہم خود بھی مستفید ہوں اور ان لوگوں کو ان کے ذریعہ ان کے دین سے برگشتہ بھی کریں ہمیں عمدہ اور مہنگی رہائشیں ملتیں اور تمام ممالک میں سفر کی سہولت مہیا کی جاتی تا ہم ان سب اشیاء نے مجھے کبھی بھی ذہنی سکون نہ پہونچایا، میں محسوس کرتا کہ ہمارے کرتوت، میری فطرت اور مزاج کے بالکل خلاف ہیں جس کے نتیجہ میں میں نہایت رنج والم محسوس کرتا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
سوال :آپ نے عیش و عشرت کے سائبان کیسے ترک کرنا گوارا کئے اور اسلام کیوں کر قبول کیا اور کیا آپ اس سے مطمئن ہیں ؟</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جواب :الحمد للہ میں چرچ سے ملنے والی تمام مراعات چھوڑ چکا ہوں، میں ایسا محسوس کرتا ہوں گویا میں نئے سرے سے پیدا ہوا ہوں نفسیاتی طور پر میں نہایت پر سکون ہوں ۲۰۰۲ء میں میں نے اسلام قبول کیا، اگر چہ میں اب تنگ دستی کا شکار ہوں، میں نے ایم اے کے مرحلہ تعلیم میں تقابل ادیان کی تحقیق کر کے اسلام قبول کیا اور درج ذیل نتائج حاصل کئے :</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
۱)قرآن کے شروع میں مولف کا نام نہیں ہے، جیسا کہ انا جیل اربعہ کا حال ہے دلیل یہ ہے کہ قرآن انسانی کا وش نہیں بلکہ الہامی کتاب ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
۲) قرآن اللہ کا کلام اس لئے بھی ہے کہ آدم علیہ السلام سے لے کر محمد ﷺ تک متعدد انبیائے کرام کی سیرت و کر دار کو اس میں بیان کر دیا گیا ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
۳)سیرت محمد ﷺ سے تاکید اً یہ ثابت ہوتا ہے اسلام ہی دین واحد اور عند اللہ مقبول ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
۴)اسلامی تعلیمات کے عین مطابق تمام انبیاء کرام کی دعوت فقط اسلام تھی، ہر نبی اور رسول کی نبوت و رسالت محدود مدت اور محدود اقوام کے لئے ہوتی تھی جب کہ محمد ﷺ کی دعوت و رسالت قیامت تک آنے والے سب انسانوں اور جنوں کے لئے ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
۵)سابقہ الہامی کتب میں کلام اللہ اور کلام الناس کے درمیان کوئی حد فاصل نہیں، مثلاً اناجیل میں ہم سب یہی پڑھ سکتے ہیں کہ یوحنانے یوں کہا اور بترس نے یوں کہا، یا فلاں نے یوں کہا وغیرہ وغیرہ۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
۶)اسلام میں کلام اللہ نہایت واضح ہے اور رسول اللہ ﷺ کے اقوال و افعال سنن بھی واضح ہیں، بلکہ (قرآن میں )سیرت محمد ﷺ محدود مقدار میں ہے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ نے اس کی حفاظت کا ذمہ خود لیا ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
۷) اسلام عدل و انصاف اور سب لوگوں کے لئے مساوات کا دین ہے اور اس میں اپنے پیرو کا روں کے لئے تمام عقائد و نظریات نہایت واضح طور پر پیش کئے گئے ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
۸)اسلام کے بر عکس عیسائیت میں ایسی متعدد اشیاء ہیں میں جن کی وجہ سے وقتاً فو قتاً خجالت محسوس کرتا تھا کیوں کہ ان میں تعصب اور نسل پرستی نمایاں ہے چوں کہ میں سیاہ فام ہوں اس لئے مجھے اکثر شرمندہ ہونا پڑتا تھا، کالے عیسائیوں کی علیحدہ عبادت ہوتی ہے اور گورے عیسائی الگ عبادت کرتے ہیں، امریکی چر چوں میں کسی کا لے عیسائی کو جرات نہیں ہو سکتی کہ وہ گوروں کے چرچ میں پاؤں بھی دھر سکے مثلاً امریکی وزیر خارجہ کولن پاول بھی ہر گز ہرگز یہ جرات نہیں کر سکتا کہ وہ گوروں کے چرچ میں داخل ہو اور ان سے ہم کلام ہو۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>لیکن اسلام میں اس طرح کا کوئی امتیاز نہیں جب کوئی بھی مسلمان نماز کے لئے پہلی صف میں پہونچ جائے وہ وہیں نماز پڑھ سکتا ہے اور شاہ وگدا سب کے سب اللہ کے روبرو ہوتے ہیں اسلام میں یہ بھی عین ممکن ہے کہ سیاہ فام امام ہو اور گورے اس کے مقتدی ہوں یا گورا امام ہو اور دیگر سب لوگ اس کے مقتدی ہوں اس میں قطعا ًکوئی فرق نہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
سوال :آپ کے قبول اسلام کی خبر چرچ نے کیسے ہضم کی ؟</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جواب :چرچ میں بھونچال آ گیا انہوں نے مجھے مرتد کرنے کے لئے تمام ہتھکنڈے استعمال کئے میرے پاس کئی قسم کے وفود آئے اور سوڈان کے اندر اور باہر سے کبار مسیحی پادری میرے پاس آتے رہے اور ترغیب و تحریص سے لے کر مکمل بائیکاٹ کی دھمکیاں بھی مجھے دی جاتی رہیں اور بیحد و حساب لالچ، مکر و فریب دے کر آزمایا جاتا رہا، تا ہم اسلام کو میں نے پوری تحقیق کے بعد گلے لگایا تھا اور اللہ تعالیٰ نے جس کے لئے میرا سینہ منور کیا تھا میں اس اسلام پر مزید طاقت ور اور مضبوط ہوتا گیا اور مسیحی زعماء کی کوشش مجھے راہ حق سے ہٹا نے میں ناکام ہو گئی۔جب چرچ مجھ سے بالکل مایوس ہو گیا تو مجھے جسمانی طور پر نقصان پہونچا نے سے ڈرایا گیا اور اپنے بعض ایجنٹوں کے ذریعہ مجھے اغواکے بعد قتل کرنے کی کوشش کی گئی اگر چہ وہ کامیاب نہیں ہوئی تاہم میں اپنے ساتھیوں کے بغیر یورپی ممالک کا سفر نہیں کرتا علاوہ ازیں میرا چوں کہ ایک مقام ہے اس وجہ سے بھی میرے مخالفین اپنے ناپاک ارادوں میں ناکام رہتے ہیں ایک بار مجھ پر قاتلانہ حملہ ہو ا لیکن میں اللہ کے فضل سے محفوظ رہا تب بھی قبیلہ والوں نے میرا دفاع کیا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>جب سے میں نے اسلام قبول کیا میرا یقین ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں ہوں، نیز مجھے اسلام لانے کے بعد یقین ہو گیا کہ موت عین حق ہے لہٰذا اس سے ڈرنے کی قطعاً ضرورت نہیں، نیز مجھے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ جو اسلام کا دفاع کرتے ہوئے مرجاتے ہیں وہ شہید کہلاتے ہیں اور اللہ کے یہاں ان کے لئے اجر عظیم ہے، اس کے برعکس یہودی اور عیسائی جینے کے شدید آرزومند ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
سوال :اسلام لانے کے بعد آپ نے اپنے مستقبل کے بارے میں کیا لائحہ عمل تیار کیا ہے ؟</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جواب :میں نے کچھ کتابیں لکھی ہیں، مثلاً میں کیوں مسلمان ہوا؟(۲)اسلام کی وسعت (۳)موجودہ عیسائی خرافات، میں نے اپنے آپ کو غیر مسلموں تک اسلام کی دعوت پہونچانے کے لئے وقف کر دیا اور سوڈان میں جس تنظیم کا سربراہ ہوں یعنی سوڈان کی تعمیر و ترقی کے لئے اسلامی سرمایہ کاری کی تنظیم، اس میں پوری تند ہی و فعال کا رکن کی حیثیت سے مگن ہوں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
سوال :آپ کی تصنیف ’میں کیوں مسلمان ہو ا ‘کا مرکزی تصور کیا ہے ؟</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جواب :میں نے اس میں اسلام اور دیگر مذاہب کا موازنہ پیش کیا ہے اور اسلام کے علاوہ دیگر ادیان میں موجود نقائص و عیوب واضح کئے ہیں اور اسلام کے مضبوط ثبوت جمع کر دئیے ہیں در حقیقت اسلام میں تقسیم میراث کے سسٹم نے مجھے مبہوت کر دیا ہے چونکہ یہودیت میں بھی میراث کا تذکرہ ہے لیکن لوگ اس پر راضی نہیں کیونکہ یہ طریقہ عادلانہ نہیں بلکہ ظالمانہ ہے جبکہ عیسائیت میں نظام میراث کا وجود سرے سے ہی نہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>اسلام نے نظام میراث کو باریک بینی اور عدالت پر مبنی بنایا ہے جس کی کوئی پہلے نظیر نہیں ملتی، حتی کہ میں نے اپنے قبیلہ ’’دنکا‘‘میں اسلام کا نظام میراث نافذ کیا تو بیشتر جھگڑے خود بخود ختم ہو گئے، حالانکہ بنیادی طور پر یہ قبیلہ مسیحی ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>نیز میں نے اپنی اس کتاب میں زندگی کے تمام پہلووں پر اسلام کی مکمل رہنمائی کو بھی شامل کیا ہے۔میں نے یہ واضح کیا ہے کہ جو شخص اسلام قبول کر لیتا ہے اور قولاً و فعلاً وہ اسلام پر کاربند ہو جاتا ہے تو اسلام اسے کس قدر نفسیاتی اور روحانی بلندی عطا فرماتا ہے وہ اپنے اسلام پر فخر محسوس کرتا ہے۔لیکن دیگر ادیان کی تعلیمات رسوم و رواج میں تضادات بے شمار ہیں، یہ ادیان اس شخص کی ثقافت کو تبدیل نہیں کرتے جو انہیں قبول کر لیتا ہے پھر وہ یہ ادیان قبول کر کے بھی اپنی ہوس گیری کو اسی طرح پوراکرتا ہے۔جس طرح وہ چاہتا ہے ان لو گوں کے کسی شخص کے کر دار میں ناموں کے علاوہ ادیان کا کوئی کر دار نہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
سوال :آپ کے اسلام لانے کے بعد آپ کے ہاتھ پر کتنے لوگ مسلمان ہو چکے ہیں ؟</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جواب :اللہ کے فضل سے اب تک میرے ہاتھ ڈیڑھ لاکھ افراد مسلمان ہو چکے ہیں اور الحمد للہ جنوبی سوڈان کے چرچوں کے ڈھائی ہزار اہم عہدہ دار بھی نو مسلموں میں شامل ہیں یہ لوگ کو ہ نوبہ اور صوبہ انجمنا سے تعلق رکھتے ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
سوال :اتنی بڑی تعداد کو آ پ نے اسلام کی طرف کیسے مائل کیا ؟</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جواب :کسی غیر مسلم کو اسلام کا قائل کرنا نہایت آسان ہے کیونکہ یہ لوگ خالی الذہن ہوتے ہیں اسی حقیقت کو سامنے رکھ کر میں نے سب کے لئے واضح کر دیا کہ اسلام ہی ایک ایسا دین ہے جس میں کسی قسم کا کوئی شرک نہیں اور اللہ کا پسندیدہ دین یہی ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’بیشک اللہ کے یہاں دین صرف اسلام ہے ‘‘(سورہ آل عمران :۱۹)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اسلام سب انسانیت سے مخاطب ہوتا ہے یہی ایک ایسا دین ہے جو زندگی کے تمام شعبہ جات کی ہر مشکل دور کرتا ہے میں نے ہر بڑے نو مسلم مسیحی کی طرف خط بھی لکھا ہے ا س میں خاص طور پر یہ واضح کیا ہے کہ : (۱)بے شک اللہ تعالیٰ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور یہ کہ اللہ تعالیٰ تین کا ایک یا ایک میں تین نہیں۔ (۲) عیسیٰ ابن مریم دیگر انسانوں کی طرح انسان ہیں اور اللہ کے رسول ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے ان کی قوم کی طرف مبعوث فرمایا وہ نہ تو الہ ہیں اور نہ ہی اللہ کے بیٹے ہیں اور بے شک عیسیٰ بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہوئے اور آپ کی رسالت عام نہیں، اور عیسیٰ کو اللہ نے لوگوں کے کفارہ کے لئے نہیں بھیجا اور پھر عیسیٰ کو اس لئے اللہ نے نہیں بلایا کہ وہ اپنے باپ کے دائیں طرف بٹھائے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
سوال :کیا آپ کو مسلمانوں کی موجودہ حالت زار نے اسلام لانے سے روکا نہیں ؟ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جواب :جب میں نے اسلام قبول کر لیا تو مسلمانوں کی حالتِ زار دیکھ کر انتہائی رنج و الم میں مبتلا ہو گیا کہ مسلمانوں کے قبول و فعل میں تضاد ہے اور مسلمان اسلام کو اپنے اوپر لاگو نہیں کرتے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ذاتی و اجتماعی زندگی کے لئے دو رہنما اصول قرآن کریم اور حدیث نبوی مقرر کر دئے ہیں لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ مسلمان عملی طور پر دونوں رہنما ذرائع سے فیصلے نہیں کرپاتے جب کہ اسلامی ممالک کے حکمراں اسلامی نہج کو اہمیت نہیں دیتے، گویا مسلمانوں کی کمزوری کے دو بنیادی سبب ہیں، ذاتی طور پر اپنے دین سے دوری اور حکومتی سطح پر دین کے ساتھ بے رغبتی۔اگر اسلامی ممالک کے عوام اپنے دین کی تعلیمات پر عمل کریں اور عملی طور پر اسے اہمیت دیں اور حکمراں اپنی سیاست اور تمام شعبوں میں اسلام کو رہنمابنا لیں تو مسلمانوں کو ماضی کی کھو ئی عظمت اور شان و شوکت واپس مل سکتی ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: center;">
٭٭٭</div>
<hr />
<div style="text-align: center;">
<br /></div>
</div>
Sarbakafhttp://www.blogger.com/profile/14532797594298636576noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3854913904789287339.post-20072831560194494872019-03-17T06:20:00.000-07:002019-03-17T08:03:14.422-07:00مثبت تنقید اور امام ابو حنیفہؒ - شیخ سید احمد رضا بجنوری<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div class="postmeta" dir="rtl" style="text-align: justify;">
<table align="center" cellpadding="0" cellspacing="0" class="tr-caption-container" style="margin-left: auto; margin-right: auto; text-align: center;"><tbody>
<tr><td style="text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgaNdUT_5jHdum4lJMkvDGiYdK68gwYXnsxUBsryJZTC-IWsuKEf8qFLUd7rQ8nl63lGkhyphenhypheneYqnp-_CNKj7xdU9LrtQMLgZgkgda34OYwco_0GLbx1tSN13ZhnWaKnV8qevLf114QtySE7g/s1600/Excerpt+-+Sarbakaf+10+masbat+tanqeed+ahmad+raza+bijnori.png" imageanchor="1" style="margin-left: auto; margin-right: auto;"><img border="0" data-original-height="1200" data-original-width="1600" height="240" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgaNdUT_5jHdum4lJMkvDGiYdK68gwYXnsxUBsryJZTC-IWsuKEf8qFLUd7rQ8nl63lGkhyphenhypheneYqnp-_CNKj7xdU9LrtQMLgZgkgda34OYwco_0GLbx1tSN13ZhnWaKnV8qevLf114QtySE7g/s320/Excerpt+-+Sarbakaf+10+masbat+tanqeed+ahmad+raza+bijnori.png" width="320" /></a></td></tr>
<tr><td class="tr-caption" style="text-align: center;"><table align="center" cellpadding="0" cellspacing="0" class="tr-caption-container" style="margin-left: auto; margin-right: auto; text-align: center;"><tbody>
<tr><td class="tr-caption" style="font-size: 12.8px;"><span style="font-family: "times" , "times new roman" , serif;">Imam Abu Hanifa and Positive Criticism</span></td></tr>
</tbody></table>
</td></tr>
</tbody></table>
<span class="author">
شیخ سید احمد رضا بجنوری</span>
</div>
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
</div>
<br /><br />
<div class="mudeer" dir="rtl" style="text-align: justify;">
صحت مند مباحثوں کی بجائے دشنام طرازیوں اور ذاتی الزام تراشیوں کو علمی کارنامہ سمجھنے والوں کے لیے سر بکف کا نیا سلسلہ۔ امید ہے اس سے نتیجہ بخش مناظروں کو فروغ ملے گا۔ (مدیر)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<h3>
تنقید کے متعلق اسلاف کا رویہ</h3>
یہاں خاص طور سے یہ بات نوٹ کر کے آگے بڑھیے کہ حافظ ابن البر ، امت کے چند گنے چنے نہایت اونچے درجہ کے محققین میں سے ہیں اور ان کے قول کو اکثر حرفِ آخر کے طور پر پیش کیا جاتا ہے مگر جب ایک بات کا خالص تحقیقی زاویۂ نگاہ سے بے لاگ فیصلہ کرنا ہوا تو اتنی عظیم القدر شخصیت بھی اس سے مانع نہیں ہو سکی ۔ حافظ نے جانب مخالف کو قوی کہا تو حا فظ عینی نے اور بھی تر یاد و صراحت کے ساتھ ان کے قول کو مخدوش ہی فرما دیا۔ یہ تھا قد یم اور صحیح طرزِ تحقیق۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اور آج اگر کسی بڑے شخص کی کسی تحقیق کے بارے میں کوئی خامی بتلا دی جائے تو کہہ دیا جائے گا کہہ یہ ان کی عظمت کا قائل نہیں۔ حالانکہ انبیاء علیہ السلام کے سوا کسی کے لیے عصمت نہیں اور سب سے غلطی ہوتی ہے بڑے بڑوں سے ہوئی ہے۔ ان کے دنیوی فضائل اور اخروی مراتب عالیہ سے کوئی انکار نہیں کر سکتا مگر ان کی تحقیق کوقرآن و سنت کی کسوٹی پر ضرور کسا جائے گا۔ اور اپنا ہو یا کسی لحاظ سے غیر، اس کی رائے کو تنقید سے بالاتر نہیں کہا جائے گا ۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
حضرت امام ابو حنیفہ کو خادمان علوم نبوت وقوانین شریعت میں سب سے اول، اعلی اور اعظم مرتبہ مقام حاصل ہے۔ موجودہ حدیثی ذخیروں میں سب سے پہلا مدون مرتب احادیث احکام کا ذخیره ان ہی کی ذات اقدس سے منسوب ”مسانید الامامؒ“ کی صورت میں ہے جن کی اسانید تمام موجودہ کتب حد یث کی اسانید سے زیاده عالی مرتبت ہیں اور ان کی مجلس تدوین فقہ کی بارہ لاکھ سے زیاد و مسائل اسی وقت سے اب تک (کہ بار وسوسال زیادہ گذر چکے ہیں) دائروسائر ہیں۔ بعد کے بڑےبڑے محدثین وفقہاء نے ان پر دل کھول کر تنقید یں بھی کیں اور اس سلسلہ میں جتنا کام حق و انصاف ، تحقیق واعتدال سے ہوا اس سے امت کو بڑے فوائد حاصل ہوئے۔ محققین علما ء حنفیہ نے ہمیشہ تنقید پرٹھنڈے دل سے غور وفکر کیا اور آج بھی اسی فکر و ذہن سے سوچتےہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<h3>
اکابر دیوبند اور حضرت انور شاہ کشمیریؒ</h3>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
قریبی دور میں ہمارے اکابر دیوبند کا بھی یہی طریق رہا ہے اور خصوصیت سے ہمارے حضرت شاہ صاحب نے پورے تیسسال تک تمام فقہی و کلامی ذخیروں پر گہری نظر فرما کر ہی معلوم کرنے کی سعی فرمائی کہ حنفی مسلک میں واقعی خامیاں اور کمزوریاں کیا کیا ہیں؟ اور آخر میں یہ فیصلہ علی وجہ بصیرت فرما گئے کہ قرآن و حدیث اور آثارِ صحابہؓ و تابعینؒ کی روشنی میں بجز ایک دو مسائل کے فقہِ حنفی کے تمام مسائل نہایت مضبوط و عام ہیں اور آپ کا یہ قطعی فیصلہ تھا کہ استنباطِ مسائل کے وقت حدیث سے فقہ کی جانب آنا چاہیے، فقہ سے حدیث کی طرف نہیں۔ یعنی سب سے خالی الذہن ہوکر شارع علیہ السلام کی مراد تعین کی جائے اور اس کی رو سے فقہی احکام کی تشخیص عمل میں آ جائے ۔ یہ نہیں کہ پہلے اپنی فکر و ذہن کی قالب میں مسائل ڈھال کر ان ہی کو حدیث سے ثابت کرنے کی کوشش ہو، اسی زریں اصول کے تحت آپ تمام اجتهادی مسائل کا جائزہ لیتے تھے۔ رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ۔</div>
<hr />
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
ماخوذ از: انوار الباری، شیخ سید احمد رضا بجنوری، مجموعۂ افادات:انور شاہ کشمیریؒ۔ جلد ۵، ص ۲۶۳۔ تاریخ اشاعت ربیع الثانی ۱۴۲۵ھ</div>
<div style="text-align: justify;">
<br /></div>
</div>
Sarbakafhttp://www.blogger.com/profile/14532797594298636576noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3854913904789287339.post-18296152336747131062019-03-17T02:18:00.004-07:002019-03-17T02:21:25.646-07:00الاحادیث المنتخبہ - 10<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div class="postmeta" dir="rtl" style="text-align: right;">
<span class="author">
پیش کش: مدیر</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<div class="mudeer">
'سربکف' کے پہلے شمارے سے اس سلسلے کے تحت وہ احادیث لائی جارہی ہیں جو عموماً قارئین کو یاد ہوتی ہیں، نیز وہ احادیث بھی جو تبلیغی جماعت والے استعمال کرتے ہیں۔ اس کے ذریعے احادیث کی ترویج درست طریقے پر ہو گی، اور من گھڑت قصے کہانیوں کو بطور حدیث پیش کرنے کی فاش غلطی کا سدباب ہوگا انشاءاللہ۔ احادیث بمع حوالہ درج کی جاتی ہیں،تاکہ بوقتِ ضرورت کام آسکیں۔(مدیر)
</div>
<br />
<br />
<h2 style="text-align: right;">
فعلیکم بسنتی - فتنوں کے دور میں سنت رسول ﷺ سے چمٹے رہنے ہی میں سلامتی ہے </h2>
<br />
<div class="arabic">
فقال العرباض " صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم ثم اقبل علينا فوعظنا موعظة بليغة ذرفت منها العيون ووجلت منها القلوب فقال قائل: يا رسول الله كان هذه موعظة مودع فماذا تعهد إلينا؟ فقال:اوصيكم بتقوى الله والسمع والطاعة وإن عبدا حبشيا فإنه من يعش منكم بعدي فسيرى اختلافا كثيرا فعليكم بسنتي وسنة الخلفاء المهديين الراشدين تمسكوا بها وعضوا عليها بالنواجذ وإياكم ومحدثات الامور فإن كل محدثة بدعة وكل بدعة ضلالة ".</div>
<div style="text-align: left;">
(سنن ابی داود ،حدیث نمبر: ۴۶۰۷ )</div>
<div style="text-align: left;">
<br /></div>
جناب عرباض رضی اللہ عنہ نے کہا: ایک دن ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی، پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور ہمیں دل موہ لینے والی نصیحت کی جس سے آنکھیں اشک بار ہو گئیں، اور دل کانپ گئے، پھر ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ تو کسی رخصت کرنے والے کی سی نصیحت ہے، تو آپ ہمیں کیا وصیت فرما رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہیں اللہ سے ڈرنے، امیر کی بات سننے اور اس کی اطاعت کرنے کی وصیت کرتا ہوں، خواہ وہ کوئی حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو، اس لیے کہ جو میرے بعد تم میں سے زندہ رہے گا عنقریب وہ بہت سے اختلافات دیکھے گا، تو تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کے طریقہ کار کو لازم پکڑنا، تم اس سے چمٹ جانا، اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لینا، اور دین میں نکالی گئی نئی باتوں سے بچتے رہنا، اس لیے کہ ہر نئی بات بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے۔“<br />
<br />
<div style="text-align: center;">
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/العلم ۱۶ (۲۶۷۶)، سنن ابن ماجہ/المقدمة ۶ (۴۳، ۴۴)، (تحفة الأشراف: ۹۸۹۰)<br />
<br />
<h2 style="text-align: justify;">
تشبہ بالکفار</h2>
<div class="arabic" style="text-align: justify;">
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ ثَابِتٍ، حَدَّثَنَا حَسَّانُ بْنُ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي مُنِيبٍ الْجُرَشِيِّ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ " .</div>
<div style="text-align: justify;">
<br />
”جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ انہی میں سے ہوگا۔“</div>
<div style="text-align: justify;">
<br /></div>
<div style="text-align: center;">
(سنن ابو داوٴد، کتاب اللباس، رقم الحدیث: ۴۰۳۱)</div>
</div>
</div>
</div>
Sarbakafhttp://www.blogger.com/profile/14532797594298636576noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3854913904789287339.post-392926841596743842019-03-15T09:34:00.000-07:002019-03-17T02:26:55.423-07:00اعجازِ قرآن - مفتی شفیع عثمانیؒ<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div class="postmeta" dir="rtl" style="text-align: right;">
<span class="author">
مفتی شفیع عثمانیؒ</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<table align="center" cellpadding="0" cellspacing="0" class="tr-caption-container" style="margin-left: auto; margin-right: auto; text-align: center;"><tbody>
<tr><td style="text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEh6EaJts_drcWXYDj2-T14BFObXDw1DvmYEEKP4-GJF1-r-HZ28dV_IaenuZp3VQJvSYQa0j5Q5NvRhcMxbbTPMWSfvyAd7PraZWpBkLKGw4JEKXZKpCuXo8RH5feB2hQkOD_Y98JFQ5eNx/s1600/Excerpt+-+Sarbakaf+10+aijaz-e-quran+shafi+usmani.png" imageanchor="1" style="margin-left: auto; margin-right: auto;"><img border="0" data-original-height="1200" data-original-width="1600" height="240" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEh6EaJts_drcWXYDj2-T14BFObXDw1DvmYEEKP4-GJF1-r-HZ28dV_IaenuZp3VQJvSYQa0j5Q5NvRhcMxbbTPMWSfvyAd7PraZWpBkLKGw4JEKXZKpCuXo8RH5feB2hQkOD_Y98JFQ5eNx/s320/Excerpt+-+Sarbakaf+10+aijaz-e-quran+shafi+usmani.png" width="320" /></a></td></tr>
<tr><td class="tr-caption" style="text-align: center;"><span style="font-family: "times" , "times new roman" , serif;">Inimitability of the Qur'an</span><br />
<div dir="rtl" style="font-size: medium; text-align: justify;">
</div>
</td></tr>
</tbody></table>
<br /></div>
<div class="arabic" dir="rtl" style="text-align: center;">
وَاِنۡ کُنۡتُمۡ فِىۡ رَيۡبٍ مِّمَّا نَزَّلۡنَا عَلٰى عَبۡدِنَا فَاۡتُوۡا بِسُوۡرَةٍ مِّنۡ مِّثۡلِهٖ وَادۡعُوۡا شُهَدَآءَكُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ اِنۡ كُنۡتُمۡ صٰدِقِيۡنَ ﴿2:23﴾<br />
فَاِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلُوۡا وَلَنۡ تَفۡعَلُوۡا فَاتَّقُوۡا النَّارَ الَّتِىۡ وَقُوۡدُهَا النَّاسُ وَالۡحِجَارَةُ ۖۚ اُعِدَّتۡ لِلۡكٰفِرِيۡنَ ﴿2:24﴾</div>
<div dir="rtl" style="text-align: center;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: center;">
اور اگر تم شک میں ہو اس کلام سے جو اتارا ہم نے اپنے بندے پر تو لے آؤ ایک سورت اس جیسی اور بلاؤ ان کو جو تمہارا مددگار ہو اللہ کے سوا اگر تم سچے ہو۔ اگر تم اس کی مثال نہ لاسکے اور ہرگز نہ لاسکو گے تو پھر اس جہنم کی آگ سے ڈرو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں جو منکروں کے لئے تیار کی گئی ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<h2>
وجوہ اعجاز قرآنی :</h2>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
پہلی بات کہ قرآن کو معجزہ کیوں کہا گیا ؟ اور وہ کیا وجوہ ہیں جن کے سبب ساری دنیا اس کی مثال پیش کرنے سے عاجز ہے اس پر قدیم وجدید علماء نے مستقل کتابیں لکھی ہیں اور ہر مفسر نے اپنے اپنے طرز میں اس مضمون کو بیان کیا ہے میں اختصار کے ساتھ چند ضروری چیزیں عرض کرتا ہوں۔<br />
<h3>
پہلی وجہ:</h3>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اس جگہ سب سے پہلے غور کرنے کی چیز یہ ہے کہ یہ عجیب و غریب کل علوم کی جامع کتاب، کس جگہ، کس ماحول میں، اور کس پر نازل ہوئی اور کیا وہاں کچھ ایسے علمی سامان موجود تھے جن کے ذریعہ دائرہ اسباب میں ایسی جامع بےنظیر کتاب تیار ہوسکے، جو علوم اوّلین و آخرین کی جامع اور انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ہر پہلو کے متعلق بہترین ہدایت پیش کرسکے جس میں انسان کی جسمانی اور روحانی تربیت کا مکمل نظام ہو اور تدبیر منزل سے لے کر سیاست ممالک تک ہر نظام کے بہترین اصول ہوں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جس سرزمین اور جس ذات پر یہ کتاب مقدس نازل ہوئی اس کی جغرافیائی کیفیت اور تاریخی حالت معلوم کرنے کے لئے آپ کو ایک ریگستانی خشک اور گرم علاقہ سے سابقہ پڑے گا جس کو بطحاء مکہ کہتے ہیں اور جو نہ زرعی ملک ہے نہ صنعتی نہ اس ملک کی آب وہوا ہی کچھ خوشگوار ہے جس کے لئے باہر کے آدمی وہاں پہنچنے کی رغبت کریں نہ راستے ہی کچھ ہموار ہیں جن سے وہاں تک پہنچنا آسان ہو اکثر دنیا سے کٹا ہوا ایک جزیرہ نما ہے جہاں خشک پہاڑوں اور گرم ریگ کے سوا کچھ نظر نہیں آتا اور دور تک نہ کہیں بستی نظر آتی ہے نہ کوئی کھیت نہ درخت، اس پورے خطہ ملک میں کچھ بڑے شہر بھی نہیں چھوٹے چھوٹے گاؤں اور ان میں اونٹ بکریاں پال کر اپنی زندگی گذارنے والے انسان بستے ہیں اس کے چھوٹے دیہات کا تو دیکھنا کیا جو برائے نام چند شہر کہلاتے ہیں ان میں بھی کسی قسم کے علم وتعلیم کا کوئی چرچا نہیں نہ وہاں کوئی اسکول اور کالج ہے نہ کوئی بڑی یونیورسٹی یا دارالعلوم، وہاں کے باشندوں کو اللہ تعالیٰ نے محض قدرتی اور پیدائشی طور پر فصاحت و بلاغت کا ایک فن ضرور دے دیا ہے جس میں وہ ساری دنیا سے فائق اور ممتاز ہیں وہ نثر اور نظم میں ایسے قادر الکلام ہیں کہ جب بولتے ہیں تو رعد کی طرح کڑکتے اور بادل کی طرح برستے ہیں ان کی ادنٰی ادنٰی چھوکریاں ایسے فصیح وبلیغ شعر کہتی ہیں کہ دنیا کے ادیب حیران رہ جائیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
لیکن یہ سب کچھ ان کا فطری فن ہے جو کسی مکتب یا مدرسہ میں حاصل نہیں کیا جاتا، غرض نہ وہاں تعلیم و تعلم کا کوئی سامان ہے نہ وہاں کے رہنے والوں کو ان چیزوں سے کوئی لگاؤ یا دل بستگی ہے ان میں کچھ لوگ شہری زندگی بسر کرنے والے ہیں تو وہ تجارت پیشہ ہیں مختلف اجناس مال کی درآمد برآمد ان کا مشغلہ ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اس ملک کے قدیم شہر مکہ کے ایک شریف گھرانہ میں وہ ذات مقدّس پیدا ہوتی ہے جو مہبط وحی ہے جس پر قرآن اترا ہے اب اس ذات مقدّس کا حال سنئے :</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
ولادت سے پہلے ہی والد ماجد کا سایہ سر سے اٹھ گیا پیدا ہونے سے پہلے یتیم ہوگئے ابھی سات سال کی عمر بھی نہ تھی کہ والدہ کی بھی وفات ہوگئی آغوش مادر کا گہوارہ بھی نصیب نہ رہا شریف آباء و اجداد کی فیاضی اور بےمثل سخاوت نے اپنے گھر میں کوئی اندوختہ نہ چھوڑا تھا جس سے یتیم کی پرورش اور آئندہ زندگی کا سامان ہوسکے نہایت عسرت کی زندگی پھر ماں باپ کا سایہ سر پر نہیں، ان حالات میں آپ نے پرورش پائی اور عمر کا ابتدائی حصہ گذارا جو تعلیم و تعلم کا اصلی وقت ہے، اس وقت اگر مکہ میں کوئی دارالعلوم یا اسکول وکالج بھی ہوتا تو بھی آپ کے لئے اس سے استفادہ مشکل تھا مگر معلوم ہوچکا کہ وہاں سرے سے یہ علمی مشغلہ اور اس سے دلچسپی ہی کسی کو نہ تھی اسی لئے یہ پوری قوم عرب امیین کہلاتے تھے قرآن کریم نے بھی ان کے متعلق یہ لفظ استعمال کیا ہے اس کا لازمی نتیجہ یہی ہونا تھا کہ آپ ہر قسم کی تعلیم و تعلم سے بیخبر رہے وہاں کوئی بڑا عالم بھی ایسا نہ تھا جس کی صحبت میں رہ کر یہ علوم حاصل کئے جاسکیں جن کا قرآن حامل ہے پھر قدرت کو تو ایک فوق العادۃ معجزہ دکھلانا تھا، آپ کے لئے خصوصی طور پر ایسے سامان ہوئے معمولی نوشت وخواند جو ہر جگہ کے لوگ کسی نہ کسی طرح سیکھ ہی لیتے ہیں آپ نے وہ بھی نہ سیکھی بالکل امی محض رہے کہ اپنا نام تک بھی نہ لکھ سکتے تھے عرب کا مخصوص فن شعر و سخن تھا جس کے لئے خاص خاص اجتماعات کئے جاتے اور مشاعرے منعقد ہوتے اور اس میں ہر شخص مسابقت کی کوشش کرتا تھا آپ کو حق تعالیٰ نے ایسی فطرت عطا فرمائی تھی کہ ان چیزوں سے بھی دلچسپی نہ لی نہ کبھی کوئی شعر یا قصیدہ لکھا نہ کسی ایسی مجلس میں شریک ہوئے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
ہاں امی محض ہونے کہ ساتھ بچپن سے ہی آپ کی شرافت نفس، اخلاق فاضلہ، فہم، و فراست کے غیر معمولی آثار، دیانت و امانت کے اعلیٰ ترین شاہکار آپ کی ذات مقدس میں ہر وقت مشاہدہ کئے جاتے تھے جس کا نتیجہ یہ تھا کہ عرب کے بڑے بڑے مغرور ومتکبّر سردار آپ کی تعظیم کرتے تھے اور سارے مکہ میں آپ کو امین کے لقب سے پکارا جاتا تھا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
یہ امی محض چالیس سال تک مکہ میں اپنی برادری کے سامنے رہتے ہیں کسی دوسرے ملک کا سفر بھی نہیں کرتے جس سے یہ خیال پیدا ہوسکے کہ وہاں جاکر علوم حاصل کئے ہوں گے صرف ملک شام کے دو تجارتی سفر ہوئے وہ بھی گنے چنے چند کے لئے جس میں اس کا امکان نہیں۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اس امی محض ذات مقدس کی زندگی کے چالیس سال مکہ میں اپنی برادری میں اس طرح گذرے کہ نہ کبھی کسی کتاب یا قلم کو ہاتھ لگایا نہ کسی مکتب میں گئے نہ کسی مجلس میں کوئی نظم وقصیدہ ہی پڑھا ٹھیک چالیس سال کے بعد ان کی زبان مبارک پر وہ کلام آنے لگا جس کا نام قرآن ہے جو اپنی لفظی فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے اور معنوی علوم وفنون کے لحاظ سے محیّر العقول کلام ہے اگر صرف اتنا ہی ہوتا تو بھی اس کے معجزہ ہونے میں کسی انصاف پسند کو کیا شبہ رہ سکتا ہے مگر یہاں یہی نہیں بلکہ اس نے ساری دنیا کو تحدد کی (چیلنج) دیا کہ کسی کو اس کے کلام الہی ہونے میں شبہ ہو تو اس کا مثل بنا لائے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اب ایک طرف قرآن کی یہ تحدی اور چیلنج اور دوسری طرف ساری دنیا کی مخالف طاقتیں جو اسلام اور پیغمبر اسلام کو شکست دینے کے لئے اپنی مال، جان، اولاد، آبرو، سب گنوانے کو تیار ہیں مگر اتنا کام کرنے کے لئے کوئی جرأت نہیں کرتا کہ قرآن کی ایک چھوٹی سی سورت کی مثال بنا لائے فرض کرلیجئے کہ یہ کتاب بےمثال و بےنظیر بھی نہ ہوتی جب بھی ایک امیّ محض کی زبان سے اس کا ظہور اعجاز قرآن اور وجوہ اعجاز کی تفصیل میں جائے بغیر بھی قرآن کریم کے معجزہ ہونے کے لئے کم نہیں جس کو ہر عالم و جاہل سمجھ سکتا ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<h3>
اعجاز قرآن کی دوسری وجہ :</h3>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اب اعجاز قرآن کی دوسری وجہ دیکھئے یہ آپ کو معلوم ہے کہ قرآن اور اس کے احکام دنیا کے لئے آئے لیکن اس کے بلا واسطہ اور پہلے مخاطب عرب تھے جن کو اور کوئی علم وفن آتا تھا یا نہیں مگر فصاحت و بلاغت ان کا فطری ہنر اور پیدائشی وصف تھا جس میں وہ اقوام دنیا سے ممتاز سمجھے جاتے تھے قرآن ان کو مخاطب کرکے چیلنج کرتا ہے کہ اگر تمہیں میرے کلام الہی ہونے میں کوئی شبہ ہے تو میرے ایک سورت کی مثال بنا کر دکھلا دو اگر قرآن کی یہ تحدی (چیلنج) صرف اپنے حسن معنوی یعنی حکیمانہ اصول اور علمی معارف و اسرار ہی کی حد تک ہوتی جو قوم امیین کے لئے اس کی نظیر پیش کرنے سے عذر معقول ہوتا لیکن قرآن نے صرف حسن معنوی ہی کے متعلق تحدی نہیں کی بلکہ لفظی فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے بھی پوری دنیا کو چیلنج دیا ہے اس چیلنج کو قبول کرنے کے لئے اقوام عالم میں سب سے زیادہ مستحق عرب ہی تھے اگر فی الواقع یہ کلام قدرت بشر سے باہر کسی مافوق قدرت کا کلام نہیں تھا تو بلغاء عرب کے لئے کیا مشکل تھا کہ ایک امی شخص کے کلام کی مثال بلکہ اس سے بہتر کلام فوراً پیش کردیتے اور ایک دو آدمی یہ کام نہ کرسکتے تو قرآن نے ان کو یہ سہولت بھی دی تھی کہ ساری قوم مل کر بنا لائے مگر قرآن کے اس بلند بانگ دعوے اور پھر طرح طرح سے غیرت دلانے پر بھی عرب کی غیّورقوم پوری کی پوری خاموش ہے چند سطریں بھی مقابلہ پر نہیں پیش کرتی۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
عرب کے سرداروں نے قرآن اور اسلام کے مٹانے اور پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مغلوب کرنے میں جس طرح اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگایا وہ کسی لکھے پڑھے آدمی سے مخفی نہیں شروع میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے گنے چنے رفقاء کو طرح طرح کی ایذائیں دے کر چاہا کہ وہ کلمہ اسلام کو چھوڑ دیں مگر جب دیکھا کہ یہاں وہ نشہ نہیں جسے ترشی اتار دے تو خوشامد کا پہلو اختیار کیا عرب کا سردار عتبہ ابن ربیعہ قوم کا نمائندہ بن کر آپ کے پاس حاضر ہوا اور عرب کی پوری دولت و حکومت اور بہت حسن و جمال کی لڑکیوں کی پیشکش اس کام کے لئے کی کہ آپ اسلام کی تبلیغ چھوڑ دیں آپ نے اس کے جواب میں قرآن کی چند آیتیں سنا دینے پر اکتفا فرمایا جب یہ تدبیر بھی کارگر نہ ہوئی تو جنگ و مقابلہ کے لئے تیار ہو کر قبل از ہجرت اور بعد از ہجرت جو قریش عرب نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کے مقابلہ میں سر دھڑ کی بازی لگائی جان مال اولاد سب کچھ اس مقابلہ میں خرچ کرنے کے لئے تیار ہوئے یہ سب کچھ کیا مگر یہ کسی سے نہ ہوسکا کہ قرآن کے چیلنج کو قبول کرتا اور چند سطریں مقابلہ پر پیش کردیتا کیا ان حالات میں سارے عرب کے مقابلہ سے سکوت اور عجز اس کی کھلی ہوئی شہادت نہیں کہ یہ انسان کا کلام نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جس کے کام یا کلام کی نظیر انسان کیا ساری مخلوق کی قدرت سے باہر ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
پھر صرف اتنا ہی نہیں کہ عرب نے اس کے مقابلہ سے سکوت کیا بلکہ اپنی خاص مجلسوں میں سب نے اس کے بےمثال ہونے کا اعتراف کیا اور جو ان میں سے منصف مزاج تھے انہوں نے اس بنی عبد مناف کی ضد کی وجہ سے اسلام قبول کرنے سے باوجود اعتراف کے محروم رہے قریش عرب کی تاریخ ان واقعات پر شاہد ہے میں اس میں سے چند واقعات اس جگہ بیان کرتا ہوں جس سے اندازہ ہوسکے کہ پورے عرب نے اس کلام کے بےمثل، بےنظیر ہونے کو تسلیم کیا اور اس کی مثال پیش کرنے کو اپنی رسوائی کے خیال سے چھوڑ دیا جس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کا چرچا مکہ سے باہر حجاز کے دوسرے مقامات میں ہونے لگا اور حج کا موسم آیا تو قریش مکہ کو اس کی فکر ہوئی کہ اب اطراف عرب سے حجاج آئیں گے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ کلام سنیں گے تو فریفتہ ہوجائیں گے اور غالب خیال یہ ہے کہ مسلمان ہوجائیں گے اس کے انسداد کی تدبیر سوچنے کے لئے قریش نے ایک اجلاس منعقد کیا اس اجلاس میں عرب کے بڑے بڑے سردار موجود تھے ان میں ولید بن مغیرہ عمر میں سب سے بڑے اور عقل میں ممتاز سمجھے جاتے تھے سب نے ولید بن مغیرہ کو یہ مشکل پیش کی کہ اب اطراف ملک سے لوگ آئیں گے اور ہم سے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق پوچھیں گے تو ہم کیا کہیں ؟ ہمیں آپ کوئی ایسی بات بتلائیے کہ ہم سب وہ بات کہہ دیں ایسا نہ ہو کہ خود ہمارے بیانات میں اختلاف ہوجائے ولید بن مغیرہ نے کہا کہ تم ہی کہو کیا کہنا چاہئے؟</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
لوگوں نے کہا کہ ہمارے خیال میں ہم سب یہ کہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) معاذ اللہ مجنون ہیں، ان کا کلام مجونانہ بڑ ہے، ولید بن مغیرہ نے کہا کہ تم ایسا ہرگز نہ کہنا کیونکہ یہ لوگ جب ان کے پاس جائیں گے اور ان سے ملاقات و گفتگو کریں گے، اور ان کو فصیح وبلیغ عاقل انسان پائیں گے تو انھیں یقین ہوجائے گا کہ تم نے جھوٹ بولا ہے پھر کچھ لوگوں نے کہا کہ اچھا ہم ان کو یہ کہیں کہ وہ شاعر ہیں ولید نے اس سے بھی منع کیا اور کہا کہ جب لوگ ان کا کلام سنیں گے وہ تو شعر و شاعری کے ماہر ہیں انھیں پتا چل جائے گا کہ یہ شعر نہیں اور نہ آپ شاعر ہیں نتیجہ یہ ہوگا کہ یہ سب لوگ تمہیں جھوٹا سمجھیں گے پھر کچھ لوگوں نے کہا کہ تو پھر ہم ان کو کاہن قرار دیں، جو شیاطین وجنات سے سن کر غیب کی خبریں دیا کرتے ہیں ولید نے کہا یہ بھی غلط ہے کیونکہ جب لوگ ان کا کلام سنیں گے تو پتہ چل جائے گا کہ یہ کلام کسی کاہن کا نہیں ہے وہ پھر بھی تمہیں جھوٹا سمجھیں گے اس کے بعد قرآن کے بارے میں جو ولید بن مغیرہ کا اثرات تھے ان کو ان الفاظ میں بیان کیا:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
خدا کی قسم ! تم میں کوئی آدمی شعر و شاعری اور اشعار عرب سے میرے برابر واقف نہیں، خدا کی قسم ! اس کلام میں خاص حلاوت ہے، اور ایک خاص رونق ہے جو میں نے کسی شاعر یا فصیح وبلیغ کے کلام میں نہیں پاتا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
پھر ان کی قوم نے دریافت کیا کہ آپ ہی بتلائیے پھر ہم کیا کریں ؟ اور ان کے بارے میں لوگوں سے کیا کہیں ؟ ولید نے کہا میں غور کرنے کے بعد کچھ جواب دوں گا پھر بہت سوچنے کے بعد کہا کہ اگر کچھ کہنا ہی ہے تو تم ان کو ساحر کہو کہ اپنے جادو سے باپ بیٹے اور میاں بیوی میں تفرقہ ڈال دیتے ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
قوم اس پر مطمئن اور متفق ہوگئی اور سب سے یہی کہنا شروع کیا مگر خدا کا چراغ کہیں پھونکوں سے بجُھنے والا تھا ؟ اطراف عرب کے لوگ آئے قرآن سنا اور بہت سے مسلمان ہوگئے اور اطراف عرب میں اسلام پھیل گیا، (خصائص کبٰری)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اسی طرح ایک قرشی سردار نضر بن حارث نے ایک مرتبہ اپنی قوم کو خطاب کرکے کہا:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اے قوم قریش، آج تم ایک مصیبت میں گرفتار ہو کہ اس سے پہلے کبھی ایسی مصیبت سے سابقہ نہیں پڑا تھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہاری قوم کے ایک نوجوان تھے اور تم سب ان کے عادات و اخلاق کے گرویدہ اور اپنی قوم میں ان کو سب سے زیادہ سچا اور سب سے زیادہ امانت دار جانتے اور کہتے تھے اب جب کہ ان کے سر میں سفید بال آنے لگے اور انہوں نے ایک بےمثال کلام اللہ کی طرف سے پیش کیا تو تم ان کو جادوگر کہنے لگے خدا کی قسم وہ جادوگر نہیں ہم نے جادوگروں کو دیکھا اور برتا ہے ان کے کلام سنے ہیں اور طریقوں کو سمجھا ہے وہ بالکل اس سے مختلف ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اور کبھی تم ان کو کاہن کہنے لگے، خدا کی قسم ! وہ کاہن بھی نہیں ہم نے بہت سے کاہنوں کو دیکھا اور ان کے کلام سنے ہیں ان کو ان کے کلام سے کوئی مناسبت نہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اور کبھی تم ان کو شاعر کہنے لگے خدا کی قسم ! وہ شاعر بھی نہیں ہم نے خود شعر شاعری کے تمام فنون کو سیکھا سمجھا ہے اور بڑے بڑے شعراء کے کلام ہمیں یاد ہیں ان کے کلام سے اس کو کوئی مناسبت نہیں پھر کبھی تم ان کو مجنون بتاتے ہو خدا کی قسم ! وہ مجنون بھی نہیں، ہم نے بہت سے مجنونوں کو دیکھا بھالا ان کی بکواس سنی ہے ان کے مختلف اور مختلط کلام سنے ہیں یہاں یہ کچھ نہیں اے میری قوم تم انصاف کے ساتھ ان کے معاملہ میں غور کرو یہ سرسری ٹلا دینے کی چیز نہیں۔ (خصائص کبرٰی ص ١١٤: ج ١)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
حضرت ابوذر صحابی فرماتے ہیں کہ وہ اللہ کا رسول ہے، میں نے پوچھا کہ وہاں کے لوگ اس کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں ؟ بھائی نے کہا کہ کوئی ان کو شاعر کہتا ہے کوئی کاہن بتلاتا ہے کوئی جادوگر کہتا ہے، میرا بھائی انیس خود بڑا شاعر اور کہانت وغیرہ سے واقف آدمی تھا اس نے مجھ سے کہا کہ جہاں تک میں نے غور کیا لوگوں کی یہ سب باتیں غلط ہیں ان کا کلام نہ شعر ہے نہ کہانت ہے نہ مجنونانہ کلمات ہیں بلکہ مجھے وہ کلام صادق نظر آتا ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
ابوذر فرماتے ہیں کہ بھائی سے یہ کلمات سن کر میں نے مکہ کا سفر کیا اور مسجد حرام میں آکر پڑگیا تیس روز میں نے اس طرح گذارے کہ سوائے زمزم کے پانی کے میرے پیٹ میں کچھ نہیں گیا اس تمام عرصہ میں نہ مجھے بھوک کی تکلیف معلوم ہوئی نہ کوئی ضعف محسوس کیا۔ (خصائص کبرٰی ص ١١٦: ج ١)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
واپس گئے تو لوگوں سے کہا کہ میں نے روم اور فارس کے فصحاء وبلغاء کے کلام بہت سنے ہیں، اور کاہنوں کے کلمات اور حمیر کے مقالات بہت سنے ہیں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کلام کی مثال میں نے آج تک نہیں سنی تم سب میری بات مانو۔ اور آپ کا اتباع کرو، چناچہ فتح مکہ کے سال میں ان کی پوری قوم کے تقریباً ایک ہزار آدمی مکہ پہنچ کر مسلمان ہوگئے۔ (خصائص کبرٰی ص ١١٦: ج ١)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اسلام اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سب سے بڑے دشمن ابوجہل اور اخنس بن شریق وغیرہ بھی لوگوں سے چھپ کر قرآن سنا کرتے اور اس کے عجیب و غریب بےمثل وبے نظیر اثرات سے متاثر ہوتے تھے مگر جب قوم کے کچھ لوگوں نے ان کو کہا کہ جب تم اس کلام کو ایسا بےنظیر پاتے ہو تو اس کو قبول کیوں نہیں کرتے ؟ تو ابوجہل کا جواب یہ تھا کہ تمہیں معلوم ہے کہ بنی عبد مناف میں اور ہمارے قبیلہ میں ہمیشہ سے رقابت اور معاصرانہ مقابہ چلتا رہتا ہے وہ جس کام میں آگے بڑہنا چاہتے ہیں ہم بھی اس کا جواب دیتے ہیں اب جبکہ ہم اور وہ دونوں برابر حیثیت کے مالک ہیں تو اب وہ یہ کہنے لگے کہ ہم میں ایک نبی پیدا ہوا ہے جس پر آسمان سے وحی آتی ہے اب ہم اس میں کیسے ان کا مقابلہ کریں میں تو کبھی اس کا اقرار نہ کروں گا (خصائص)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
خلاصہ کلام یہ ہے کہ قرآن کے اس دعوے اور چیلنج پر صرف یہی نہیں کہ پورے عرب نے ہار مان لی اور سکوت کیا بلکہ اس کی مثل وبے نظیر ہونے اور اپنے عجز کا کھلے طور پر اعتراف بھی کیا ہے اگر یہ کسی انسان کا کلام ہوتا تو اس کی کوئی وجہ نہ تھی کہ سارا عرب بلکہ ساری دنیا اس کا مثل لانے سے عاجز ہوجاتی۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
قرآن اور پیغمبر قرآن کے مقابلہ میں جان، ومال، اولاد وآبرو سب کچھ قربان کرنے کے لئے تو وہ تیار ہوگئے مگر اس کے لئے کوئی آگے نہ بڑھا کہ قرآن کے چیلنج کو قبول کر کے دو سطریں اس کے مقابلہ میں پیش کردیتا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ لوگ اپنے جاہلانہ اعمال و افعال کے باوجود منصف مزاج تھے جھوٹ کے پاس نہ جاتے تھے جب انہوں نے قرآن کو سن کر یہ سمجھ لیا کہ جب در حقیقت اس کلام کی مثل ہم نہیں لا سکتے تو محض دھاندلی اور کٹھ حجتی کے طور پر کوئی کلام پیش کرنا اپنے لئے عار سمجھا کیونکہ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ ہم نے کوئی چیز پیش بھی کردی تو پورے عرب کے فصحاء وبلغاء اس امتحانی مقابلہ میں ہمیں فیل کردیں گے اور خواہ مخواہ رسوائی ہوگی اسی لئے پوری قوم نے سکونت اختیار کیا اور جو زیادہ منصف مزاج تھے انہوں نے صاف طور پر اقرار و تسلیم بھی کیا جاسکے کچھ وقائع پہلے بیان ہوچکے ہیں، اسی سلسلہ کا ایک واقعہ یہ ہے کہ عرب کے سردار اسعد بن زراہ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا حضرت عباس کے سامنے اقرار کیا کہ :</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
ہم نے خواہ مخواہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کرکے اپنے رشتے ناتے توڑے اور تعلقات خراب کئے میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ وہ بلاشبہ اللہ کے رسول ہیں ہرگز جھوٹے نہیں اور جو کلام وہ لائے ہیں بشر کا کلام نہیں ہوسکتا۔ (خصائص ص ١١٦ ج ١)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
قبیلہ بنی سلیم کا ایک شخص مسمّٰی بن نسیبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا آپ سے قرآن سنا اور چند سوالات کئے جن کا جواب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عطا فرمایا تو یہ اسی وقت مسلمان ہوگئے اور پھر اپنی قوم میں واپس گئے تو لوگوں سے کہا :</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
میں نے روم وفارس فصحاء وبلغاء کے کلام سنے ہیں بہت سے کاہنوں کے کلمات سننے کا تجربہ ہوا ہے حمیر کے مقالات سنتا رہا ہوں مگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کلام کی مثل میں نے آج تک کہیں نہیں سنا تم سب میری بات مانو اور ان کا اتباع کرو، انھیں کی تحریک و تلقین پر ان کی قوم کے ایک ہزار آدمی فتح مکہ کے موقع پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر مشرف با اسلام ہوگئے۔ (خصائص ص ١١٦ ج ١)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
یہ اقرار و تسلیم صرف ایسے ہی لوگوں سے منقول نہیں جو آپ کے معاملات سے یکسو اور غیرجانبدار تھے بلکہ وہ لوگ جو ہر وقت ہر طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت میں لگے ہوئے تھے قرآن کے متعلق ان کا بھی یہی حال تھا مگر اپنی ضد اور حسد کی وجہ سے اس کا اظہار لوگوں پر نہ کرتے تھے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
علامہ سیوطی نے خصائص کبرٰی میں بحوالہ بیہقی نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ ابوجہل اور ابوسفیان اور اخنس بن شریق رات کو اپنے اپنے گھروں سے نکلے کہ چھپ کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قرآن سنیں ان میں ہر ایک علیحدہ علیحدہ نکلا ایک کی دوسرے کو خبر نہ تھی اور علیحدہ علیحدہ گوشوں میں چھپ کر قرآن سننے لگے تو اس میں ایسے محو ہوئے کہ ساری رات گذر گئی جب صبح ہوئی تو سب واپس ہوئے اتفاقا راستہ میں مل گئے اور ہر ایک نے دوسرے کا قصّہ سنا تو سب آپس میں ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے کہ تم نے یہ بری حرکت کی اور کسی نے یہ بھی کہا کہ آئندہ کوئی ایسا نہ کرے کیونکہ اگر عرب کے عوام کو اس کی خبر ہوگی تو وہ سب مسلمان ہوجائیں گے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
یہ کہہ سن کر سب اپنے اپنے گھر چلے گئے اگلی رات آئی تو پھر ان میں سے ہر ایک کے دل میں یہی ٹیس اٹھی کہ قرآن سنیں اور پھر اسی طرح چھپ چھپ کر ہر ایک نے قرآن سنا یہاں تک کہ رات گذر گئی اور صبح ہوتے ہی یہ لوگ واپس ہوئے تو پھر آپس میں ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے اور اس کے ترک پر سب نے اتفاق کیا مگر تیسری رات آئی تو پھر قرآن کی لذت وحلاوت نے انھیں چلنے اور سننے پر مجبور کردیا پھر پہنچنے اور رات بھر قرآن سن کر لوٹنے لگے تو پھر راستہ میں اجتماع ہوگیا تو اب سب نے کہا کہ آؤ آپس میں معاہدہ کرلیں کہ آئندہ ہم ہرگز ایسا نہ کریں گے، چناچہ اس معاہدہ کی تکمیل کی گئی اور سب اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے صبح کو اخنس بن شریق نے اپنی لاٹھی اٹھائی اور پہلے ابوسفیان کے پاس پہنچا کہ بتلاؤ اس کلام کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے ؟ اس نے دبے دبے لفظوں میں قرآن کی حقانیت کا اعتراف کیا تو اخنس نے کہا کہ بخدا میری بھی یہی رائے ہے اس کے بعد وہ ابوجہل کے پاس پہنچا اور اس سے بھی یہی سوال کیا کہ تم نے محمد کے کلام کو کیسا پایا؟</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
ابوجہل نے کہا کہ صاف بات یہ ہے کہ ہمارے خاندان اور بنو عبد مناف کے خاندان میں ہمیشہ سے چشمک چلی آتی ہے قوم کی سیادت و قیادت میں وہ جس محاذ پر آگے بڑہنا چاہتے ہیں ہم ان کا مقابلہ کرتے ہیں انہوں نے سخاوت و بخشش کے ذریعہ قوم پر اپنا اثر جمانا چاہا تو ہم نے ان سے بڑھ کر یہ کام کر دکھایا انہوں نے لوگوں کی ذمہ داریاں اپنے سر لے لیں تو ہم اس میدان میں بھی ان سے پیچھے نہیں رہے یہاں تک کہ پورا عرب جانتا ہے کہ ہم دونوں خاندان برابر حیثیت کے مالک ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
ان حالات میں ان کے خاندان سے یہ آواز اٹھی کہ ہمارے میں ایک نبی پیدا ہوا ہے جس پر آسمان سے وحی آتی ہے اب ظاہر ہے کہ اس کا مقابلہ ہم کیسے کریں اس لئے ہم نے تو یہ طے کرلیا ہے کہ ہم زور اور طاقت سے ان کا مقابلہ کریں گے اور ہرگز ان پر ایمان نہ لائیں گے۔ (خصائص ص ١١٥ ج ١)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
یہ ہے قرآن کا وہ کھلا ہوا معجزہ جس کا دشمنوں کو بھی اعتراف کرنا پڑا ہے یہ تمام واقعات علامہ جلال الدین سیوطی نے (خصائص کبرٰی) میں نقل کئے ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<h3>
تیسری وجہ :</h3>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
تیسری وجہ اعجاز قرآنی کی یہ کہ اس میں غیب کی اور آئندہ پیش آنے والے واقعات کی بہت سی خبریں ہیں جو قرآن نے دیں اور ہوبہو اسی طرح واقعات پیش آئے جس طرح قرآن نے خبر دی تھی مثلا قرآن نے خبر دی کہ روم وفارس کے مقابلہ میں ابتداءً اہل فارس غالب آئیں گے اور رومی مغلوب ہوں گے لیکن ساتھ ہی یہ خبر دی کہ دس سال گذرنے نہ پائیں گے کہ پھر رومی اہل فارس پر غالب آجائیں گے۔ مکہ کے سرداروں نے قرآن کی اس خبر پر حضرت صدیق اکبر سے ہار جیت کی شرط کرلی اور پھر ٹھیک قرآن کی خبر کے مطابق رومی غالب آگئے تو سب کو اپنی ہار ماننا پڑی اور ہارنے والے پر جو مال دینے کی شرط کی تھی وہ مال ان کو دینا پڑا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس مال کو قبول نہیں فرمایا کیونکہ وہ ایک قسم کا جوا تھا اسی طرح اور بہت سے واقعات اور خبریں ہیں جو امور غیبیہ کے متعلق قرآن میں دی گئیں اور ان کی سچائی بالکل روز روشن کی طرح واضح ہوگئی۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<h3>
چوتھی وجہ :</h3>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
چوتھی وجہ اعجاز قرآنی کی یہ ہے کہ اس میں پچھلی امتوں اور ان کی شرائع اور تاریخی حالات کا ایسا صاف تذکرہ ہے کہ اس زمانہ کے بڑے بڑے علماء یہود ونصارٰی جو پچھلی کتابوں کے ماہر سمجھے جاتے تھے ان میں بھی اتنی معلومات نہ تھیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تو کبھی نہ کسی مکتب میں قدم رکھا نہ کسی عالم کی صحبت اٹھائی نہ کسی کتاب کو ہاتھی لگایا پھر یہ ابتداء دنیا سے آپ کے زمانہ تک تمام اقوام عالم کے تاریخی حالات اور نہایت صحیح اور سچے سوانح اور ان کی شریعتوں کی تفصیلات کا بیان ظاہر ہے کہ بجز اس کے نہیں ہوسکتا کہ یہ کلام اللہ تعالیٰ ہی کا ہو اور اللہ تعالیٰ نے ہی آپ کو یہ خبریں دی ہوں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<h3>
پانچویں وجہ : </h3>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
یہ ہے کہ اس کی متعدد آیات میں لوگوں کے دل کی چھپی ہوئی باتوں کی اطلاع دی گئی اور پھر ان کے اقرار سے ثابت ہوگیا کہ وہ بات صحیح اور سچی تھی یہ کام بھی عالم الغیب والشہادۃ ہی کرسکتا ہے کسی بشر سے عادۃً ممکن نہیں مثلا ارشاد قرآنی ہے :</div>
<div class="arabic" dir="rtl" style="text-align: justify;">
اِذْ ھَمَّتْ طَّاۗىِٕفَتٰنِ مِنْكُمْ اَنْ تَفْشَلَا </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<blockquote class="tr_bq">
جب تمہاری دو جماعتوں نے دل میں ارادہ کیا کہ پسپا ہوجائیں۔(١٢٢: ٣)</blockquote>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اور یہ ارشاد کہ :</div>
<div class="arabic" dir="rtl" style="text-align: justify;">
يَقُوْلُوْنَ فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ لَوْلَا يُعَذِّبُنَا اللّٰهُ بِمَا نَقُوْلُ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<blockquote class="tr_bq">
وہ لوگ اپنے دلوں میں کہتے ہیں کہ ہمارے انکار کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ہمیں عذاب کیوں نہیں دیتا۔(٥٨: ٨)</blockquote>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
یہ سب باتیں ایسی ہیں جن کو انہوں نے کسی سے ظاہر نہیں کیا قرآن کریم نے ہی ان کا انکشاف کیا ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<h3>
چھٹی وجہ : </h3>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
چھٹی وجہ اعجاز قرانی کی وہ آیات ہیں جن میں قرآن نے کسی قوم یا فرد کے متعلق یہ پیشنگوئی کی کہ وہ فلاں کام نہ کرسکیں گے اور پھر وہ لوگ باوجود ظاہری قدرت کے اس کام کو نہ کرسکے جیسے یہود کے متعلق قرآن نے اعلان کیا کہ اگر وہ فی الواقع اپنے آپ کو اللہ کے دوست اور ولی سمجھتے ہیں توا نھیں اللہ کے پاس جانے سے محبت ہونا چاہئے وہ ذرا موت کی تمنا کرکے دکھائیں اور پھر ارشاد فرمایا :</div>
<div class="arabic" dir="rtl" style="text-align: justify;">
وَلَنْ يَّتَمَنَّوْهُ اَبَدًۢا </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<blockquote class="tr_bq">
وہ ہرگز موت کی تمنا نہ کرسکیں گے۔(٩٥: ٢)</blockquote>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
موت کی تمنا کرنا کسی کے لئے مشکل نہ تھا خصوصا ان لوگوں کے لئے جو قرآن کو جھٹلاتے تھے، قرآن کے ارشاد کی وجہ سے ان کی تمنائے موت میں خوف وہراس کی کوئی وجہ نہ تھی یہود کے لئے تو مسلمانوں کو شکست دینے کا یہ موقع بڑا غنیمت تھا کہ فوراً تمنائے موت کا ہر مجلس ومحفل میں اعلان کرتے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
مگر یہود ہوں یا مشرکین زبان سے کتنا ہی قرآن کو جھٹلائیں ان کے دل جانتے تھے کہ قرآن سچا ہے اس کی کوئی بات غلط نہیں ہوسکتی اگر موت کی تمنا ہم اس وقت کریں گے تو فوراً مرجائیں گے، اس لئے قرآن کے اس کھلے ہوئے چیلنج کے باوجود کسی یہودی کی ہمت نہ ہوئی کہ ایک مرتبہ زبان سے تمنائے موت کا اظہار کردے،</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<h3>
ساتویں وجہ :</h3>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
وہ خاص کیفیت ہے جو قرآن کے سننے سے ہر خاص وعام اور مومن و کافر پر طاری ہوتی ہے جیسے حضرت جبیر بن مطعم (رض) کو اسلام لانے سے پہلے پیش آیا کہ اتفاقا انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز مغرب میں سورة طور پڑہتے ہوئے سنا جب آپ آخری آیات پر پہنچنے تو جبیر کہتے ہیں کہ میرا دل گویا اڑنے لگا اور یہ سب سے پہلا دن تھا کہ میرے دل میں اسلام نے اثر کیا وہ آیات یہ ہیں:<br />
<br /></div>
<div class="arabic" dir="rtl" style="text-align: justify;">
اَمْ خُلِقُوْا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ اَمْ هُمُ الْخٰلِقُوْنَ اَمْ خَلَقُوا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ۚ بَلْ لَّا يُوْقِنُوْنَ اَمْ عِنْدَهُمْ خَزَاۗىِٕنُ رَبِّكَ اَمْ هُمُ الْمُصَۜيْطِرُوْنَ</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<blockquote class="tr_bq">
کیا وہ بن گئے ہیں آپ ہی آپ یا وہی ہیں بنانے والے یا انہوں نے بنائے ہیں آسمان اور زمین کوئی نہیں پر یقین نہیں کرتے کیا ان کے پاس خزانے تیرے رب کے یا وہی داروغہ ہیں۔(٣٧: ٣٥: ٥٢:) </blockquote>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<h3>
آٹھویں وجہ : </h3>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
یہ ہے کہ اس کو بار بار پڑھنے اور سننے سے کوئی اُکتاتا نہیں بلکہ جتنا زیادہ پڑھا جاتا ہے اس کا شوق اور بڑہتا ہے دنیا کی کوئی بہتر سے بہتر اور مرغوب کتاب لے لیجئے اس کو دو چار مرتبہ پڑھا جائے تو انسان کی طیبعت اکتا جاتی ہے پھر نہ پڑھنے کو جی چاہتا ہے نہ سننے کو یہ صرف قرآن کا خاصہ ہے کہ جتنا کوئی اس کو زیادہ پڑہتا ہے اتنا ہی اس کو شوق ورغبت بڑہتا جاتا ہے یہ بھی قرآن کے کلام الہی ہونے کا ہی اثر ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<h3>
نویں وجہ :</h3>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
یہ ہے کہ قرآن نے اعلان کیا ہے کہ اس کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تعالیٰ نے لیا ہے وہ قیامت تک بغیر کسی ادنیٰ تغیر و ترمیم کے باقی رہے گا اللہ تعالیٰ نے اپنے اس وعدے کو اس طرح پورا فرمایا کہ جب سے قرآن کریم نازل ہوا ہے چودہ سو برس کے قریب ہونے کو آئے ہیں ہر قرن ہر زمانے میں لاکھوں انسان ایسے رہے ہیں اور رہیں گے جن کے سینوں میں پورا قرآن اس طرح محفوظ رہا کہ ایک زیر وزبر کی غلطی کا امکان نہیں ہر زمانے میں مرد، عورت، بچے، بوڑھے اس کے حافظ ملتے ہیں بڑے سے بڑا عالم اگر کہیں ایک زیر وزبر کی غلطی کرجائے تو ذرا ذرا سے بچے وہیں غلطی پکڑ لیں گے، دنیا کا کوئی مذہب اپنی کتاب کے متعلق اس کی مثال تو کیا اس کا دسواں حصہ بھی پیش نہیں کرسکتا بہت سے مذاہب کی کتابوں میں تو آج پتہ چلانا بھی مشکل ہوگیا ہے کہ اس کی اصل کس زبان میں آئی تھی اور اس کے کتنے اجزاء تھے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
کتاب کی صورت میں بھی ہر قرن ہر زمانے میں جتنی اشاعت قرآن کی ہوئی شاید دنیا کی کسی کتاب کو یہ بات نصیب نہیں حالانکہ تاریخ شاید ہے کہ ہر زمانے میں مسلمانوں کی تعداد دنیا میں بہ نسبت منکرین اور کافروں کے بہت کم رہی اور ذرائع نشر و اشاعت بھی جتنے غیر مسلموں کو حاصل رہے ہیں مسلمانوں کو اس کا کوئی معتدبہ نصیب نہ تھا مگر ان باتوں کے باوجود کسی قوم کسی مذہب کی کوئی کتاب دنیا میں اتنی شائع نہیں ہوئی جتنا قرآن شائع ہوا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
پھر قرآن کی حفاظت کو اللہ تعالیٰ نے صرف کتابوں اور صحیفوں پر موقوف نہیں رکھا جن کے جل جانے اور محو ہوجانے کا امکان ہو بلکہ اپنے بندوں کے سینوں میں بھی محفوظ کردیا اگر آج ساری دنیا کے قرآن (معاذ اللہ) نابود کردئیے جائیں تو اللہ کی یہ کتاب پھر بھی اسی طرح محفوظ رہے گی چند حافظ مل کر بیٹھ جائیں تو چند گھنٹوں میں پھر ساری کی ساری لکھی جاسکتی ہے یہ بےنظیر حفاظت بھی صرف قرآن ہی کا خاصہ اور اس کے کلام الہی ہونے کا نمایاں ثبوت ہے کہ جس طرح اللہ کی ذات ہمیشہ باقی رہنے والی ہے اس پر کسی مخلوق کا تصرف نہیں چل سکتا اسی طرح اس کا کلام بھی ہمیشہ تمام مخلوقات کی دستبردار اور تصرفات سے بالاتر ہو کر ہمیشہ ہمیشہ باقی رہے گا قرآن کی یہ پیشینگوئی چودہ سو برس تک مشاہدہ میں آچکی ہے اور تاقیامت انشاء اللہ تعالیٰ آتی رہے گی اس کھلے معجزے کے بعد قرآن کے کلام الہی ہونے میں کیا کسی کو شک وشبہ کی گنجائش رہ سکتی ہے،</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<h3>
دسویں وجہ :</h3>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
وہ علوم و معارف ہیں جن کا احاطہ نہ آج تک کسی کتاب نے کیا ہے نہ آئندہ امکان ہی کہ اتنے مختصر حجم اور محدود کلمات میں اتنے علوم وفنون جمع کئے جاسکیں جو تمام کائنات کی دائمی ضروریات کو حاوی اور انسان کی زندگی کے ہر شعبہ اور ہر حال سے متعلق پورا مرتب اور بہت رین نظام پیش کرسکے شخصی پھر عائلی زندگی سے لے کر قبائلی اور شہری زندگی تک اور پھر عمرانیات واجتماعیات اور سیاست ممالک کے ہر پہلو پر حاوی نظام پیش کردے.</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
پھر صرف نظری اور علمی طور پر نظام پیش کرنا ہی نہیں عملی طور پر اس کا رواج پانا اور تمام نظامہائے دنیا پر غالب آکر قوموں کے مزاج، اخلاق، اعمال، معاشرت اور تمدن میں وہ انقلاب عظیم پیدا کرنا جس کی نظیر نہ قرون اولیٰ میں مل سکتی ہے نہ قرون مابعد میں یہ حیرت انگیز انقلاب کیا کسی انسان کی قدرت اس کی حکمت عملی کا نتیجہ ہوسکتا ہے ؟ خصوصاً جبکہ وہ انسان بھی امی اور اس کی قوم بھی امی ہو۔<br />
<br /></div>
<div class="sher">
<table align="center;">
<tbody>
<tr><td>مخدرات سرا پر دہائے قرآنی </td></tr>
<tr><td>چہ دلبرند کہ دل می برند پنہانی</td></tr>
</tbody></table>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<br />
یہی وہ محیر العقول تاثیرات ہیں کہ جن کی وجہ سے قرآن کو کلام الہی ماننے پر ہر وہ شخص مجبور ہے جس کی عقل و بصیرت کو تعصب وعناد نے بالکل ہی برباد نہ کردیا ہو۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: center;">
٭٭٭</div>
<div style="text-align: center;">
<br /></div>
</div>
Sarbakafhttp://www.blogger.com/profile/14532797594298636576noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3854913904789287339.post-71519468968620737952019-03-14T09:47:00.003-07:002021-11-29T22:25:40.623-08:00اسلام پھیل رہا ہے - شکیبؔ احمد<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<table align="center" cellpadding="0" cellspacing="0" class="tr-caption-container" style="margin-left: auto; margin-right: auto; text-align: center;"><tbody>
<tr><td style="text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiIDKav0WoWJIhyTvRqmq_Eb2K0oRIR-5AF0pArBds6YxElFv80qOAKI9MFMwzO0vTPAB4WVWu9RPRMDwzvwSwR1XtRUKyTRVGexRJdcydVVCmK7SDwSXIAHu8wKTgbPLdxLQmQKTty4_kt/s1600/Excerpt+-+Sarbakaf+10+editorial.png" style="margin-left: auto; margin-right: auto;"><img border="0" data-original-height="1200" data-original-width="1600" height="240" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiIDKav0WoWJIhyTvRqmq_Eb2K0oRIR-5AF0pArBds6YxElFv80qOAKI9MFMwzO0vTPAB4WVWu9RPRMDwzvwSwR1XtRUKyTRVGexRJdcydVVCmK7SDwSXIAHu8wKTgbPLdxLQmQKTty4_kt/s320/Excerpt+-+Sarbakaf+10+editorial.png" width="320" /></a></td></tr>
<tr><td class="tr-caption" style="text-align: center;"><span style="font-family: Times, Times New Roman, serif;">Spread of Islam - A reality check for Muslims</span></td></tr>
</tbody></table>
کبھی آپ نے گوگل کیا ہے کہ سب سے تیز رفتاری سے کون سا مذہب پھیل رہا ہے؟</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اسلام! </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ عیسائی اپنے مذہب کی تبلیغ میں لالچ دینے کو کوئی برا نہیں سمجھتے، یہی وجہ ہے کہ عیسائیت بھی کافی تیزی سے پھیل رہی ہے۔ لا تعداد لٹریچرکی تقسیم، مشنریوں کے ذریعے انتھک محنتیں، جھوٹ، لالچ، پروپگینڈہ، کیا نہ کر ڈالا! بے چارے سروے کر کر کے تھک گئے، لیکن سب سے تیزی سے پھیلنے والا مذہب اسلام ہی رہا۔ پتہ ہے کیوں؟ کیونکہ اسلام محض لگے بندھے اصولوں کو آنکھ بند کر کے ماننے پر زور نہیں دیتا، بلکہ عقلی استدلال Reasoning کی بھی بات کرتا ہے۔ یونہی تو ساری دنیا اسلام کی آغوش میں نہیں آ رہی، ہماری کمزوریوں اور نالائقی کے باوجود!</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اب پوچھیے کہ نالائقی کیسی؟ ہم مسلمانوں کی ایک بڑی گندی عادت ہے کہ بات بے بات پدرم سلطان بود کہہ کر وجد میں آ جاتے ہیں۔ مجھے بتائیں، اگر چار مشینوں میں سے ایک مشین ٹھیک ٹھاک چل رہی ہو تو کیا آپ اس پر خوش ہوں گے یا بقیہ تین کی درستگی کی فکر کریں گے؟ ایک طرف دنیا اسلام کو جائے پناہ کے طور پر دیکھ رہی ہے، جس پر ہم فخر کرتے ہوئے مسکرائے جا رہے ہیں۔ لیکن دوسری طرف الحاد کی لہر نے نئی نسل کو لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ کالجوں میں پڑھنے والے لا مذہبیت سے کتنا قریب ہیں، ان کے ذہنوں میں دیکھیے تو پتہ چلے گا۔ کیا کالج پڑھنے والے اور مغربیت سے متاثر اکثر نوجوان ہم جنس پرستی Gay Sex کے حامی نہیں ہو چکے؟ کیا انہیں پردہ قید نہیں لگ رہا؟ کیا وہ بھی اسلام کے نظامِ وراثت کے متعلق شبہات کا شکار نہیں ہیں کہ لڑکی کو آدھا حصہ کیوں ملے گا؟</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
سب سے زیادہ تیزی سے بڑھنے والا مذہب کون سا ہے؟ ارے ابھی تو بتایا تھا – اسلام! درست۔ لیکن اس ”اسلام“ میں سب سے زیادہ تیزی سے بڑھنے والا فرقہ قادیانیت ہے۔ جو سروے ہم اخباروں میں پڑھتے ہیں اور دھڑادھڑ شیئر کرتے ہیں کہ اسلام پھیل رہا ہے، وہ اخبار والے قادیانیت کو اسلام ہی میں شامل کرتے ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
آپ کو وہ کارگزاری یاد ہوگی جس میں ہندو بھائی اسلام قبول کرنے کو کہتا ہے لیکن اسے کلمہ نہیں پڑھایا جاتا۔ ہم نے ”دعوتِ حق غیر مسلموں میں“ کا سلسلہ اسی وجہ سے شروع کیا تھا کہ کسی کے قبولِ اسلام پر ”الحمد للہ“ کہنے کے ساتھ ساتھ ہمیں کچھ اپنا چہرہ بھی نظر آئے۔ ملاحظہ ہو:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
</div>
<blockquote class="tr_bq" dir="rtl" style="text-align: justify;">
انھوں نے کہا پہلے آپ دونوں مسلمان ہو کرمسلمان ہو نے کا بیان حلفی سرکاری وکیل سے بنوا کر لاؤ، میرے شوہر نے کہا آپ ہمیں مسلمان بنا لو، انھوں نے مسلمان کرنے سے انکار کر دیا۔
<div style="text-align: left;">
(سر بکف ۹، ص ۱۸)</div>
</blockquote>
<div dir="rtl" style="text-align: left;">
</div>
<blockquote class="tr_bq" dir="rtl" style="text-align: justify;">
اتنے میں ایک ساتھی مجھ سے بولا، تم لوگ صرف پیسے کے لئے مسلمان ہونے کا ناٹک کرتے ہو، اب کسی کو مت بول کہ تو نو مسلم ہے، ورنہ دھکے مار کر نکلوا دوں گا۔
<div style="text-align: left;">
(سر بکف ۷، ص ۲۵)</div>
</blockquote>
<div dir="rtl" style="text-align: left;">
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
یہ کوئی ایک بار نہیں، سینکڑوں بار ہو چکا ہے اور اب بھی ہوتا ہے۔ مسلمان ہونا کیا ہے؟ دل سے چند الفاظ کہنے ہوتے ہیں، اس کی وجہ سے کوئی ہمیشہ کی آگ سے بچ جاتا ہے۔ ہمیشہ، اس لفظ پر ذرا غور کیجیے گا۔ ٹھیک ہے جہنم میں ایک سیکنڈ کا تصور بھی نہایت کربناک ہے، لیکن گناہگار کبھی تو باہر نکل آئیں گے۔ ان کا کیا جو کبھی باہر نہیں آئیں گے؟
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
امت کا درد ہم میں کب جاگے گا؟اپنی تعریف کی رو میں ہم ارتداد، بڑھتے ہوئے الحاد اور سوچوں کے بدلاؤ کو نظر انداز کیے کب تک بیٹھے رہیں گے؟ لیکن ہم تو فقط ”اسلام پھیل رہا ہے“ کا شور مچا کر پھول کر کپا ہوئے جاتے ہیں۔
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
چلیے ایک بار اور گوگل کیجیے: اگر اسلام سب سے زیادہ تیزی سے پھیل رہا ہے تو مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ نہیں کے برابر کیوں ہے؟</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
کیونکہ تقریباً اسی تیزی کے ساتھ مسلمان مرتد بھی ہو رہے ہیں۔ عجیب بات ہے کہ یہی بات جب داعیِ اسلام کلیم صدیقی دامت برکاتہم کے بیانات میں سنتا تھا تو یقین نہیں ہوتا تھا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اس ارتداد کی وجہ؟ کچھ چھوٹی موٹی غلط فہمیاں- اور وہ اسے رفع کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ یہ شبہات شاید میرے اور آپ کے ذہن میں بھی ہیں، آپ کے اسکول کالج جاتے بچے کے ذہن میں بھی ہیں، لیکن ان سے نمٹنے کی کوشش نہیں کی جا رہی۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
پچھلے کچھ سالوں میں انٹرنیٹ کی دنیا پر بے شمار ملحدوں سے واسطہ پڑا ہے اور ایک بات اکثریت میں دیکھی ہے، ضد اور ہٹ دھرمی۔ اس سے نمٹنے کا طریقہ ضد ہرگز نہیں ہے۔ اگر آپ نے بحث میں ضد پکڑ لی تو سمجھ لیں آپ انصاف نہیں کر رہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جائیے، فیس بک پر Atheism (الحاد/دہریت) کے کسی بھی گروپ میں شامل ہو جائیے اور ان کے اعتراضات کا جائزہ لیجیے: کافروں کو قتل کرنے کا حکم ہے، قرآن صرف مار کاٹ کا حکم دیتا ہے، غلام اور باندیوں کے کلچر کو فروغ دیا جاتا ہے، کوئی اسلام سے پھر جائے تو اسے قتل کردیا جاتا ہے، ہم جنس پرستی ممنوع کر رکھی ہے، عورتوں کو قید کر رکھا ہے وغیرہ۔ مرتد کی سزا تو آپ سے ہر دوسری پوسٹ میں پوچھی جائے گی۔ گنتی کے کچھ اعتراضات، جن کے جوابات پتہ نہیں کب سے دیے جا چکے ہیں جن سے عقل مطمئن ہو جاتی ہے۔ لیکن نہیں، وہ اعتراضات اب بھی ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ انہیں صرف تماشہ دیکھنا ہے۔ جسے جواب ڈھونڈنا ہوتا ہے وہ ”اپنے عقیدے“ یا ”اپنے نظریے“ کے خلاف بھی دلائل دیکھتا ہے، محض اپنا جھنجھنا نہیں بجایا کرتا۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اب آپ اپنا جائزہ لیں۔ کیا آپ بھی ایسے ہی ہیں؟</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
ایمانداری سے بتائیے گا، آپ نے اسلام کے خلاف کتب پڑھی ہیں؟ کبھی عیسائیت کے اسلام سے شکوے پڑھے؟ کبھی اسلام سے پھر جانے والوں کے واقعات کا مطالعہ کیا؟اگر اہلِ حدیث ہیں تو تقلید پر مقلدین کا نظریہ پڑھا ہے؟ مقلد ہیں تو تقلید کے رد پر کتب پڑھی ہیں؟بریلوی ہیں تو دیوبند کے نظریات جاننے کی کوشش کی ہے؟ دیوبندی ہیں تو بریلویت کا مطالعہ محض کیڑے نکالنے سے ہٹ کر سنجیدگی سے کیا ہے؟ کبھی ”اعلیٰ حضرت پر اعتراضات کے جوابات“ تلاش کیے ہیں؟ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
نہیں۔ کیونکہ یہاں سب کو اپنی دہی میٹھی بتانی ہوتی ہے۔ آپ جانتے ہیں اس کا نقصان؟ جی مطمئن نہیں ہوتا۔ ایک موضوع پر دونوں طرف کا مطالعہ کریں، آپ کا دل گواہی دے گا کہ حق کیا ہے۔ دل کے فتوے سچے ہوتے ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
بے شک آپ شروع ”اپنی“ کتب سے کریں۔ اپنے دلائل پڑھیں، فلاں کے اعتراضات کے جوابات، فلاں کی غلط فہمیوں کا ازالہ، پھر تعصب کا چشمہ اتاریں اور اپنے نظریات پر ”اعتراضات“ کی کتب پڑھیں۔ ہو گیا؟ اب دل سے پوچھیں کس کی بات دل کو لگتی ہے؟ آسان ترین کام۔ اب ذہن میں تجزیہ کریں ، ہم کتنی جگہ غلط تھے، وہ کتنی جگہ غلط تھے۔صدقِ دل سے غلطیوں کو تسلیم کریں۔ کچھ نہیں ہوتا بھائی کچھ نہیں ہوتا۔ غلطیوں کو سمجھنے اور تسلیم کرنے سے آسمان بھی وہیں قائم رہتا ہے اور زمین بھی پیروں کے نیچے ویسے ہی موجود ہوتی ہے۔ ہم خدا نہیں ہیں کہ غلطیوں سے معصوم ہوں۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اگر آپ نے یہ کیا ہے تو اب آپ متشدد نہیں، ایک معتدل انسان ہیں۔ مبارک باد کے مستحق ہیں، کیونکہ یہی اسلام چاہتا ہے۔ اور اب ایک خوش خبری بھی سنیے، آپ دنیا کی سب سے بڑی جماعت میں شامل ہوئے ہیں۔ وہ جماعت جو معتدل مزاج ہے۔ حیرت کی کوئی بات نہیں، یہ جو دھماچوکڑی آپ اخباروں، نیوز چینلز اور سوشل میڈیا پر دیکھتے ہیں اس کی وجہ سے لگتا یوں ہے کہ سارے متعصب، متشدد اور کٹر قسم کے لوگوں نے دنیا بھر رکھی ہے، لیکن در اصل یہ معقولیت پسند اور معتدل مزاج لوگ تعداد میں زیادہ ہیں۔ ان کی طرف دھیان اس لیے نہیں جاتا کیونکہ خاموشی سنائی نہیں دیتی۔ تجربے کے طور پر کوئی بھی دس عام لوگ پکڑ لیں، ان سے مسلکی تعصب اور منافرت کے متعلق ”باریکی“ میں اگلوائیں اور نتائج دیکھیں۔ نفرت کسی کو پسند نہیں، ایک دوسرے کے خلاف نعرے کسی کو پسند نہیں۔ سب محبت سے رہنا چاہتے ہیں۔ بس ایک ذہنیت آڑے آ جاتی ہے جو شر کی پرچارک ہے۔ جو اندھی تقلید کی داعی ہے۔ جو آنکھوں پر پٹی باندھ کر محض اعتراضات کے ڈونگرے برسانے کو نصب العین بنائے ہوئے ہے۔ اس ذہنیت کو بدلنے کی ضرورت ہے اور اگر آپ اس کام کے لیے پر عزم ہیں تو دیر مت کیجیے۔ تشدد اور تعصب سے پاک ذہنیت پیدا کرنے کی لڑائی میں کود پڑیے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
کچھ اسٹیپس کے ذریعے اسے آسان کرتا ہوں۔ مثال کے طور پر آپ کا واسطہ کسی لا مذہب سے پڑا۔ اس نے رٹائے ہوئے کچھ اعتراضات کیے۔ اب لائحۂ عمل دیکھیے:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
</div>
<ol>
<li>اس کے سوالات کی تعداد میں یا کہنے کے ڈھنگ میں خود کو بہنے مت دیجیے۔ آپ کے پاس وقت ہے، کہیں کہ” ہم یہ بحث سالوں جاری رکھ سکتے ہیں چنانچہ ایک ایک کر کے مسائل پر بات کرتے ہیں۔ “</li>
<li> اسے احساس دلائیے کہ نہ آپ متعصب ہیں اور نہ اسے تعصب سے کام لینے دیں گے۔</li>
<li>فرض کیجیے اس کا پہلا اعتراض ہے اسلام میںApostasy یعنی ارتداد(کی سزا قتل کیوں)</li>
<li>سوال کیجیے، ”کیا آپ نے اس ”اعتراض“ کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے؟“ زیادہ امکان ہے کہ وہ یہ جتلانے کے لیے کہ اس نے بہت کچھ پڑھ رکھا ہے، جواب اثبات میں دے گا۔ اب ایک آخری آسان مرحلہ آپ کو انجام دینا ہے۔</li>
<li>کہیے، ”فرض کریں کہ آپ کے اعتراض کا جواب مجھے نہیں معلوم تھا اور واقعی یہ بات مجھے بھی کچھ ٹھیک نہیں لگی، چنانچہ میں نے اسے تلاش کرنے کی کوشش کی تو اس کے نتیجے میں کئی جوابات مجھے ملے ہیں جنہوں نے مجھے مطمئن کر دیا ہے۔“ پھر وہ نکات اس سے شیئر کریں جنہوں نے آپ کو مطمئن کیا ہے (کیوں سارے مضمون میں کوئی ایک دو نکتہ ہی ایسا ہوتا ہے جو کلک کر جاتا ہے اور ہمارا شرحِ صدر ہو جاتا ہے)</li>
</ol>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اب قوی امکان ہے کہ وہ اس بات کو نہیں مانے گا، یا الزامی جواب دے گا یا بہانے تراشے گا۔۔۔ لیکن آپ نے اپنے حصے کا کام کر دیا ہے۔ وہ نہ سہی، دیکھنے والوں میں کوئی تو ہوگا جسے آپ کا جواب مطمئن کر پایا ہوگا، اور اوپر عرض کیا جا چکا ہے کہ اکثریت معتدل افراد کی ہوتی ہے۔ اگر آپ خود دیوتائی رویے کو سائڈ میں رکھ کر نرمی سے اور سمجھنے سمجھانے کی غرض سے بات کریں، اپنی غلطیوں کو تسلیم کرتے ہوئے ان کی غلط فہمیوں کا ازالہ کریں تو کچھ بعید نہیں کہ بات اثر کرے گی۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
یاد پڑتا ہے کچھ مہینے قبل ایک خاتون سے اس سلسلے میں کسی گروپ میں ٹاکرا ہوا۔ محترمہ کو اسلام میں خواتین کے حقوق پر اعتراض تھا کیونکہ ان کی بہن کے ساتھ ایک مسلمان نے بد سلوکی کی تھی جس سے اس کے بازو پر بہت سنگین نوعیت کا زخم ہو گیا تھا۔ میں نے نرمی سے تعزیت کی اور کہا :</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
</div>
<blockquote class="tr_bq" dir="rtl" style="text-align: justify;">
”یہ ضرور ہے کہ ایک انسان سے اسلام کی نمائندگی نہیں ہوتی، لیکن وہ شخص بھی مسلمانوں ہی کا حصہ ہے چنانچہ میں اس بات کے لیے معافی چاہتا ہوں اور ایسے رویے کی سخت مذمت کرتا ہوں۔“</blockquote>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اور واقعی دل سے افسوس کرنے کی بات بھی ہے۔ کون احمق ہے جو ایسی بات پر افسوس نہیں کرے گا۔ بس! اتنا کافی تھا۔ محترمہ کا لہجہ ہی بدل گیا۔ کیوں نہ بدلتا؟ جس گروپ میں سارے مل کر ثبوت اور دلائل کی بجائے ایک دوسرے کے مذاہب اور عقائد کا مذاق اڑانے میں مصروف ہوں، وہاں ایسی بات کرنے والا کوئی آئے گا تو فرق تو پڑے گا۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
آخر کچھ سوچ کر ہی سر بکف کے ہر شمارے میں زمرہ ” رد فرق باطلہ“ کی پیشانی پر یہ آیت لکھی جاتی رہی ہے:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
</div>
<div class="arabic" dir="rtl" style="text-align: justify;">
اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<blockquote class="tr_bq">
اپنے رب کے راستے کی طرف لوگوں کو حکمت کے ساتھ اور خوش اسلوبی سے نصیحت کر کے دعوت دو ۔
<div style="text-align: left;">
(سورہ ۱۶،النحل:۱۲۵)</div>
</blockquote>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<div style="text-align: left;">
</div>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اگر آپ کا دل اسلام کے کسی حکم پر، کسی کانسیپٹ پر مطمئن نہیں ہے تو سوال کرنے سے اسلام منع نہیں کرتا۔ خدارا، سوال کرنے کو گستاخی نہ سمجھیے۔ اگر اسلام کا کوئی بھی اصول، کوئی بھی حکم عقل کے خلاف لگ رہا ہے تو اس بے چینی کو خود میں دفن مت کیجیے۔ وہ آپ کے لاشعور میں موجود رہے گی، جو خدا نہ کرے آپ کو الحاد کی طرف گھسیٹ سکتی ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جوابات موجود ہیں، سوال کرنے والے لوگ موجود نہیں۔ انہیں منقول کے ٹھپوں کے ساتھ پوسٹس کو فارورڈ کرنے سے فرصت جو نہیں ملتی!</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
</div>
<div style="text-align: left;">
<table>
<tbody>
<tr><td><sub>فقیر </sub>شکیبؔ احمد</td></tr>
<tr><td>14 مارچ، 2019ءبروز جمعرات، 5:50 بجے شام</td></tr>
</tbody></table>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: left;">
</div>
</div>
Sarbakafhttp://www.blogger.com/profile/14532797594298636576noreply@blogger.com3tag:blogger.com,1999:blog-3854913904789287339.post-660301601534532112019-03-11T04:37:00.001-07:002019-03-11T04:38:43.142-07:00جنید جمشید اب ہم میں نہیں رہے<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(بی بی سی/ڈان نیوز)مشہور پاپ سنگر سے اسلامی مبلغ میں تبدیل ہونے والے جنید اختر جمشید اب ہم میں نہیں رہے۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
فلائٹ پی۔کے۔ ۶۶۱ جو چترال سے اسلام آباد کے لیے روانہ ہوئی تھی، اسلام آباد سے ۷۰ کلومیٹر(۴۳ میل) کی دوری پر حویلیاں کے علاقے میں کریش ہو گئی۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
رپورٹ کے مطابق بتایا جاتا ہے کہ جہاز میں ۴۲ مسافر، ۵ کریو ممبران اور ایک گراؤنڈ انجینئر موجود تھے۔جنید جمشید اپنی بیوی کے ساتھ جہاز پر موجود تھے۔ جنید کے تقریبا آدھا ملین ٹوئٹر کے فالوورز نے اپنے ہر دلعزیز گلوکار کو خراجِ عقیدت پیش کیا جن کا ۱۹۸۷ کا ہٹ ”دل دل پاکستان“ پاکستان کا ”Unofficial National Anthem“ بتایا جاتا ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
ستمبر ۱۱ کے سانحے کے بعد جنید میوزک سے دور ہوتے چلے گئے تھے اور تبلیغی جماعت سے وابستہ ہوگئے تھے، جوکہ عالمی سطح پر ایک تحریک ہے جو مسلمانوں کو اسلامی طرزِ زندگی پر ابھارتی ہے۔ تبلیغی جماعت سے وابستگی کے بعد ان کی پہچان ایک مشہور مبلغ اور داعی کے طور پر سامنے آئی۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: center;">
٭٭٭<br />
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhu1U2Y8E5RdHJtRSYAizync1YbH5V03YXqQsy2BV8W8TUikQsTK5bJlGTxL1fWaHn9rWP0-LmWXvqrX1YOm8K0gBB5yhaOCRHOfjpyxSSvWnTDw6ZFp4BTz9DxMR4ThUxXQxSuPagSGeoA/s1600/junaid+jamshed+ab+nahin+rahe.PNG" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="248" data-original-width="870" height="91" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhu1U2Y8E5RdHJtRSYAizync1YbH5V03YXqQsy2BV8W8TUikQsTK5bJlGTxL1fWaHn9rWP0-LmWXvqrX1YOm8K0gBB5yhaOCRHOfjpyxSSvWnTDw6ZFp4BTz9DxMR4ThUxXQxSuPagSGeoA/s320/junaid+jamshed+ab+nahin+rahe.PNG" width="320" /></a></div>
<br /></div>
<div style="text-align: center;">
<br /></div>
</div>
Sarbakafhttp://www.blogger.com/profile/14532797594298636576noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3854913904789287339.post-179067363694106332019-03-11T04:35:00.002-07:002019-03-11T04:35:59.652-07:00معروف برطانوی باکسر ٹائسن فری نے اسلام قبول کر لیا<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
لندن، ۱۵ نومبر(ایجنسیاں/ماہنامہ اللہ کی پکار): معروف برطانوی باکسر ٹائسن فری نے اسلام قبول کر لیا اور اپنا نام تبدیل کرکے ”ریاض ٹائسن محمد“ رکھ لیا۔ معروف برطانوی باکسر ٹائسن فری ہیوی ویٹ مقابلوں میں ناقابلِ شکست رہے ہیں اور اب تک ۲۵ مقابلوں میں مخالفین کو دھول چٹا چکے ہیں جس میں سے ۱۸ بار حریف کو ناک آؤٹ کیا ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
ٹائسن گزشتہ سال ورلڈ باکسنگ کے ہیوی ویٹ عالمی چیمپئن بنے لیکن اب مذہبی طور پر سخت گیر عیسائی کھلاڑی کا دل اسلام کے نور سے منور ہو گیا ہے۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ٹائسن فری کے قبولِ اسلام کی خبریں کئی ماہ سے گردش کر رہی تھیں لیکن گزشتہ دنوں باکسر نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنا نام تبدیل کرکے ”ریاض ٹائسن محمد“ لکھ کر ان خبروں کی تصدیق کر دی ہے۔جس کے بعد دنیا بھر سے معروف کھلاڑی کو قبولِ اسلام پر مبارک باد کا سلسلہ جاری ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
سوشل میڈیا پر ان کے ”رِنگ“ سے قبل دعا کرانے والی ویڈیو بھی تیزی سے وائرل ہو رہی ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: center;">
٭٭٭</div>
<div style="text-align: center;">
<br /></div>
</div>
Sarbakafhttp://www.blogger.com/profile/14532797594298636576noreply@blogger.com1tag:blogger.com,1999:blog-3854913904789287339.post-53877544110465950422019-03-11T04:29:00.002-07:002019-03-11T04:29:30.279-07:00ہم بھول بھی چکے - عاقب انجم عثمانی<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<b>عاقب انجم عثمانی﷾(جموں، الہند)</b></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: center;">
گنوادی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی</div>
<div dir="rtl" style="text-align: center;">
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اس شعر سے اپنی تحریر کی ابتداء کرنا ایک عجیب بات ہے۔ کچھ دن قبل کشمیر کے ایک انگریزی اخبار پہ ایک عجب تحریر دیکھی۔ عنوان تھا”ہمیں اپنی میراث بھلا دینی چاہیے کیونکہ غیروں نے ہم سے یہ چھین لی ہے“۔ من میں خیال آئے، دل میں سوال آئے کہ باری تعالی یہ کیسا بندہ ہے، کہہ رہا ہے کہ ہمیں اپنی میراث بھلا دینی چاہیے؟ کئی روز اسی کشمکش میں گزرے کہ اس عنوان سے کچھ لکھوں، خیالوں میں عنوانات بھی آئے، ہم کیسے بھول جائیں؟ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
دل بضد رہا تو آخرکار اس شعر کو اپنی تحریر کے عنوان کا مرکز بنایا</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: center;">
جس دور پہ نازاں تھی دنیا اب ہم وہ زمانہ بھول گئے</div>
<div dir="rtl" style="text-align: center;">
دنیا کی کہانی یاد رہی اور اپنا فسانہ بھول گئے</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
آپ حضرات کے دل و دماغ میں بھی اس طرح کی باتیں گھوم رہی ہونگی، پر ظاہر کیسے کریں؟ اللہ کو بھلایا ہوا، پیغمبر و اصحابِ پیغمبر کی تعلیمات سے دور، دورِحاضر کا مسلمان کلہاڑی لئے ہماری بات کا انتظار کررہا ہے، کہ کب یہ سوئی قوم کو جگانے کی کوشش کرے اور میں اسے کچل دوں! </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جی میرے بھائیو! وہ عظیم میراث جسکی وجہ سے ہم کل تک رہبر و رہنماتھے، ہم بھول چکے ہیں اور اسی بھول نے ہمیں Follower بنادیا۔<br />
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: center;">
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے</div>
<div dir="rtl" style="text-align: center;">
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
کون نہیں جانتا عظیم محدث و فقیہ علامہ سید محمد انور شاہ کشمیری کو؟ انہیں تو انگریز بھی چلتی ہوئی لائبریری کہتے تھے! میرا کشمیری بھائی، میری کشمیری بہن اپنے اس عظیم المرتبت بزرگ کو کیوں نہیں جانتے؟ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
کون فاتحِ قسطنطنیہ محمد الفاتح کو نہیں جانتا؟ انہوں نے جس طرح قسطنیہ کو فتح کیا تھا، دنیا حیران رہ گئی تھی، انگریزوں نے تو اسے معجزوں کا معجزہ کہہ دیا، لیکن میرے یارانِ سخن کیوں نہیں جانتے اسے؟ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
کہتے ہیں، جس وقت کوئی انسان اپنے ماضی کو بھلا بیٹھتا ہے تو اس پر مصیبتوں کا آنا لازم ہوجاتا ہے۔ کوئی پوچھے کیسے؟ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
ماں باپ اپنی اولاد کو کس طرح پالتے ہیں، اسے پڑھاتے ہیں، ایک تہذیب یافتہ اور باشعور انسان بناتے ہیں۔ لیکن جب یہی اولاد اپنے اس سنہرے ماضی کو بھول جاتی ہے، ماں باپ کا دامن تو چھوٹ گیا، رب کریم بھی ایسی اولاد سے رخ پھیر لیتا ہے ۔۔۔ اس سے بڑھ کر اور بڑی مصیبت کیا ہوگی؟ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
ہم نے اپنے اس سنہرے ماضی کو بھلا دیا، اسلاف کی اس میراث کو ہم نے خود غیروں کے حوالے کیا، وہ چھین کر نہیں لے گئے۔اندلس کی چابیاں ہمیں میں سے ابو عبد اللہ نے عیسائیوں کو دی تھی اور ہم نعرے لگا رہے ہیں کہ ہم پہ ظلم ہورہا ہے۔۔۔! میاں! ہم تو اسی کے لائق ہیں ۔ ہند و سندھ کی چابیاں انگریزوں کو کس نے دی؟ کس نے تحریک بالاکوٹ کو مردہ کردیا؟ کون ہے جس نے ۱۸۵۷ میں دلی کے دروازے کھول دیے؟ اس وقت بھی کون دشمنوں کی ہائے ہائے کررہا ہے؟ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
میرے اپنے لوگ Helping Nature٭ کے ذیل انگریزوں کی مثالیں دیتے ہیں، کیا دنیائے فانی نے محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم جیسا محسن کوئی دیکھا ہے؟<br />
<br />
<span style="color: #6aa84f;">٭ دوسروں کی مدد کرنے والا رویہ</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
دل نہیں جانتا میں کیا لکھ رہا ہوں! بس کوشش ہے کہ اپنی ملت کی کھوئی زباں بن سکوں۔ اپنی قوم کی آواز بن سکوں۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
کیوں ہم اسلاف سے بیزار ہوگئے؟ کیا انہوں نے ہمارے لئے Property نہ کمائی تھی؟ کیا وہ ہمیں یاد نہ کرتے تھے؟ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
میرے بھائیوں، وہ تو حاکم تھے، کیوں کر نہ اپنی اولاد کے لئے سپنے دیکھتے؟ ہم ہی وہ ہیں، جنہوں نے میدانِ جنگ میں بھی ابو عبد اللہ بن کر ،عیسائیوں کا ساتھ دے کر، اپنے ابا جان کو شہید کروایا۔ہماری ہی ہماری غلطیاں ہیں! </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
پھر بھی ہمارے نعرے، جرمنی و ہند و پاک و امریکہ، اللہ و رسول اللہ کی گستاخی کررہے ہیں، فوراً ایکشن لیا جائے!!</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
واہ واہ! کبھی خود کو آئینے میں دیکھا بھی ہم نے؟ ہم روزانہ کتنے فرائض و واجبات و سنن کو پامال کرتے ہیں؟</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
میرے یارو! ڈرنے کی بات نہیں، ایک پل بعد ہمارا تابناک مستقبل ہمارا انتظار کررہا ہے اور ہمیں یوں صدا دے رہا ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: center;">
غائب ہوجاؤگے افسانوں میں کھو جاؤگے، اپنے مرکز سے اگر دور نکل جاؤگے</div>
<div dir="rtl" style="text-align: center;">
اپنی مٹی پہ تو چلنے کا سلیقہ سیکھو، سنگِ مرمر پہ چلو گے تو پھسل جاؤگے</div>
<div dir="rtl" style="text-align: center;">
دے رہے ہیں تمہیں جو لوگ رفاقت کا فریب، ان کی تاریخ پڑھوگے تو دہل جاؤگے</div>
<div dir="rtl" style="text-align: center;">
تیز قدموں سے چلو اور تصادم سے بچو، بھیڑ میں سست چلوگے تو کچل جاؤگے</div>
<div dir="rtl" style="text-align: center;">
اپنے پرچم کا کہیں رنگ بھلا مت دینا، سرخ شعلوں کہ چلوگے تو جل جاؤگے</div>
<div dir="rtl" style="text-align: center;">
تم ہو اک زندہ اجالے کی طرح، تم کوئی شام کا سورج ہو کہ ڈھل جاؤگے٭</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<br />
<span style="color: #6aa84f;">٭ آخری شعر بحر سے خارج ہے۔ ہو سکتا ہے ناقل سے اشعار نقل کرنے میں چوک ہوئی ہو۔ (مدیر)</span><br />
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
تابناک مستقبل ہمارے بدلاؤ کا انتظار کررہا ہے کہ کب ہم اللہ تعالیٰ کے ہوجائیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
”صبغتہ اللہ“</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
ان اشعار پہ اپنے الفاظ کو مکمل کرتا ہوں؛ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: center;">
سکھایا تھا تم ہی نے قوم کو یہ شور و شر سارا</div>
<div dir="rtl" style="text-align: center;">
جو اس کی انتہاء وہ ہیں تو اس کہ ابتداء تم ہو</div>
<div dir="rtl" style="text-align: center;">
نہ وہ بدلا نہ تم بدلے، نہ یارانِ سخن بدلے</div>
<div dir="rtl" style="text-align: center;">
میں کیسے اعتبارِ انقلابِ آسماں کرلوں؟</div>
<div dir="rtl" style="text-align: center;">
٭٭٭</div>
ِ<br />
<hr />
<div style="text-align: center;">
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<br /></div>
</div>
</div>
Sarbakafhttp://www.blogger.com/profile/14532797594298636576noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3854913904789287339.post-8901724075523648432019-03-11T04:24:00.005-07:002019-03-11T04:24:52.013-07:00رزق کے لیے اسباب کا اختیار کرنا ضروری ہے (قرآن و حدیث کی روشنی میں)<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<b>حافظ محمود احمد﷾(ممبئی، الہند)</b></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
قارئین کرام!</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اللہ پاک نے دنیا کو دارالاسباب بنایا ہے اور حصول رزق کو اسباب کے دائرے میں رکھا ہے جیساکہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
وَّجَعَلْنَا النَّهَارَ مَعَاشًا </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
”یعنی ہم نے دن کو معاش کے لیے بنایا۔“</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(پارہ 30، سورہ نباء، آیت: 11) </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
"زمین" کے بارے میں ارشاد فرمایا:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
وَلَقَدْ مَكَّـنّٰكُمْ فِى الْاَرْضِ ؕوَجَعَلْنَا لَـكُمْ فِيْهَا مَعَايِشَ قَلِيْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
”اور ہم نے تمہیں زمین میں جگہ دی اور اس میں تمہاری زندگی کا سامان بنا دیا تم بہت کم شکر کرتے ہو۔“ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(پارہ 8، سورہ اعراف، آیت:10)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اور فرمایا:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
فَاِذَا قُضِيَتِ الصَّلٰوةُ فَانْتَشِرُوْا فِى الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ…الآیۃ</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
''جب تم نماز ادا کر چکو تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کے دیئے ہوئے فضل (روزی) کو تلاش کرو۔"</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(پارہ 28، سورہ جمعہ، آیت:10)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
دوسری جگہ فرمایا:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
وَلَا تَنْسَ نَصِيْبَكَ مِنَ الدُّنْيَا…الآیۃ</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
"اور دنیا میں تمہارا جوحصہ ہے اسے نہ بھولو۔"</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(پارہ20، سورہ قصص، آیت:77)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
ایک جگہ اور ارشاد فرمایا:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
هُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمْ الأَرْضَ ذَلُولاً فَامْشُوا فِي مَنَاكِبِهَا وَكُلُوا مِنْ رِزْقِهِ وَإِلَيْهِ النُّشُورُ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو نرم کر دیا سو تم اس کے راستوں میں چلو پھر اور الله کے رزق میں سے کھاؤ اور اسی کے پاس پھر کر جانا ہے۔"</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(پارہ29، سورہ ملک، آیت:15)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
ایک جگہ حضرت داؤد علیہ السلام کے بارے میں تذکرہ کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
وَلَقَدْ اٰتَيْنَا دَاوٗدَ مِنَّا فَضْلًا ؕ يٰجِبَالُ اَوِّبِيْ مَعَهٗ وَالطَّيْرَ ۚ وَاَلَــنَّا لَـهُ الْحَدِيْدَ اَنِ اعْمَلْ سٰبِغٰتٍ وَّقَدِّرْ فِى السَّرْدِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًـا ؕ اِنِّيْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اور بے شک ہم نے داؤد کو اپنی طرف سے بزرگی دی تھی اے پہاڑو ان کی تسبیح کی آواز کا جواب دیا کرو اور پرندوں کو تابع کر دیا تھا، اور ہم نے ان کے لیے لوہا نرم کر دیا تھا کہ کشادہ زرہیں بناؤ اور اندازے سے کڑیاں جوڑو اور تم سب نیک کام کرو بے شک میں جو تم کرتے ہو خوب دیکھ رہا ہوں۔" </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(سورہ سباء، آیت: 10، 11)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اور حدیث پاک میں</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
حضرت ابوہریرہ ضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
"إن الله عز وجل ينزل الرزق على قدر المؤنة، وينزل الصبر على قدر البلاء". </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
"بے شک اللہ بزرگ وبرتر محنت و مشقت کے بقدر بندہ پر روزی کو نازل کرتے ہیں، اورصبر کو آزمائش کے اعتبار سے اتارتے ہیں۔" </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(اتحاف الخیرہ: ج4، ص181)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
" فيعمل بيديه فينفع نفسه ويتصدق "</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
یعنی اپنے ہاتھ سے کام کرے اور اس سے خود کو بھی فائدہ پہنچائے اورصدقہ بھی کرے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
حضرت زبیر بن عوامؓ سے مروی روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
لأن يأخذ أحدكم حبله فيأتي بحزمة الحطب على ظهره فيبيعها فيكف الله بها وجهه ، خير له من أن يسأل الناس أعطوه أو منعوه.</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
"تم میں سے کوئی بھی اگر (ضرورت مند ہو تو) اپنی رسی لے کر آئے اور لکڑیوں کا گٹھا باندھ کر اپنی پیٹھ پر رکھ کر لائے ۔ اور اسے بیچے ۔ اس طرح اللہ تعالیٰ اس کی عزت کو محفوظ رکھ لے تو یہ اس سے اچھا ہے کہ وہ لوگوں سے سوال کرتا پھرے ‘ اسے وہ دیں یا نہ دیں۔" </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(بخاری)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
سنن ابن ماجہ میں ہے:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ جَائَ إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْأَلُهُ فَقَالَ لَکَ فِي بَيْتِکَ شَيْئٌ قَالَ بَلَی حِلْسٌ نَلْبَسُ بَعْضَهُ وَنَبْسُطُ بَعْضَهُ وَقَدَحٌ نَشْرَبُ فِيهِ الْمَائَ قَالَ ائْتِنِي بِهِمَا قَالَ فَأَتَاهُ بِهِمَا فَأَخَذَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ ثُمَّ قَالَ مَنْ يَشْتَرِي هَذَيْنِ فَقَالَ رَجُلٌ أَنَا آخُذُهُمَا بِدِرْهَمٍ قَالَ مَنْ يَزِيدُ عَلَی دِرْهَمٍ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا قَالَ رَجُلٌ أَنَا آخُذُهُمَا بِدِرْهَمَيْنِ فَأَعْطَاهُمَا إِيَّاهُ وَأَخَذَ الدِّرْهَمَيْنِ فَأَعْطَاهُمَا الْأَنْصَارِيَّ وَقَالَ اشْتَرِ بِأَحَدِهِمَا طَعَامًا فَانْبِذْهُ إِلَی أَهْلِکَ وَاشْتَرِ بِالْآخَرِ قَدُومًا فَأْتِنِي بِهِ فَفَعَلَ فَأَخَذَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَشَدَّ فِيهِ عُودًا بِيَدِهِ وَقَالَ اذْهَبْ فَاحْتَطِبْ وَلَا أَرَاکَ خَمْسَةَ عَشَرَ يَوْمًا فَجَعَلَ يَحْتَطِبُ وَيَبِيعُ فَجَائَ وَقَدْ أَصَابَ عَشْرَةَ دَرَاهِمَ فَقَالَ اشْتَرِ بِبَعْضِهَا طَعَامًا وَبِبَعْضِهَا ثَوْبًا ثُمَّ قَالَ هَذَا خَيْرٌ لَکَ مِنْ أَنْ تَجِيئَ وَالْمَسْأَلَةُ نُکْتَةٌ فِي وَجْهِکَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّ الْمَسْأَلَةَ لَا تَصْلُحُ إِلَّا لِذِي فَقْرٍ مُدْقِعٍ أَوْ لِذِي غُرْمٍ مُفْظِعٍ أَوْ دَمٍ مُوجِعٍ</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
"حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ ایک انصاری مرد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور سوال کیا۔ آپ نے فرمایا تمہارے گھر میں کچھ ہے؟ عرض کیا ایک ٹاٹ ہے۔ کچھ بچھالیتے ہیں اور کچھ اوڑھ لیتے ہیں اور پانی پینے کا پیالہ ہے۔ فرمایا دونوں لے آؤ۔ وہ دونوں چیزیں لے کر آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں چیزیں اپنے ہاتھوں میں لیں اور فرمایا یہ دو چیزیں کون خریدے گا؟ ایک مرد نے عرض کیا کہ میں دونوں چیزیں ایک درہم میں لیتا ہوں آپ نے دو تین مرتبہ فرمایا کہ ایک درہم سے زائد کون لے گا؟ ایک مرد نے عرض کیا میں دو درہم میں لیتا ہوں تو آپ نے دونوں درہم انصاری کو دئیے اور فرمایا ایک درہم سے کھاناخرید کر گھر دو اور دوسرے سے کلہاڑا خرید کر میرے پاس لے آؤ اس نے ایسا ہی کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کلہاڑا لیا اور اپنے دست مبارک سے اس میں دستہ ٹھونکا اور فرمایا جاؤ لکڑیاں اکٹھی کرو اور پندرہ یوم تک میں تمہیں نہ دیکھوں وہ لکڑیاں چیرتا رہا اور بیچتا رہا پھر وہ حاضر ہوا تو اس کے پاس دس درہم تھے۔ فرمایا کچھ کا کھانا خرید لو اور کچھ سے کپڑا۔ پھر فرمایا کہ خود کمانا تمہارے لئے بہتر ہے بنسبت اس کے کہ تم قیامت کے روز ایسی حالت میں حاضر ہو کہ مانگنے کا داغ تمہارے چہرہ پر ہو مانگنا درست نہیں سوائے اس کے جو انتہائی محتاج ہو یا سخت مقروض ہو یا خون میں گرفتار ہو جو ستائے۔"</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
ایک دوسری حدیث میں حضرت مقدام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
ما أكل أحد طعاما قط خيرا من أن يأكل من عمل يده</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
" کسی انسان نے اس شخص سے بہتر روزی نہیں کھائی ، جو خود اپنے ہاتھوں سے کما کر کھاتا ہے۔"</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
قيل: يا رسول الله، أي الكسب أطيب؟ قال: عمل الرجل بيده وكل بيع مبرور</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
"یعنی پوچھا گیا کہ اےاللہ کے رسول (ﷺ)! کونسی کمائی زیادہ پاکیزہ ہے؟ فرمایا:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
"آدمی اپنے ہاتھ سے کمائے اور ہر نیکی والی تجارت کرے۔"</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(مسند احمد)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
ایک حدیث میں حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِذَا سَبَّبَ اللَّهُ لِأَحَدِکُمْ رِزْقًا مِنْ وَجْهٍ فَلَا يَدَعْهُ حَتَّی يَتَغَيَّرَ لَهُ أَوْ يَتَنَکَّرَ لَهُ</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
بلاشبہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا جب اللہ تعالیٰ تم میں سے کسی کی روزی کا کوئی ذریعہ بنادیں تو اسے نہ چھوڑے یہاں تک کہ وہ بدل جائے یا بگڑ جائے۔" </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(ابن ماجہ)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
ایک دوسری حدیث میں حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
إِنَّ أَطْيَبَ مَا أَکَلْتُمْ مِنْ کَسْبِکُمْ وَإِنَّ أَوْلَادَکُمْ مِنْ کَسْبِکُمْ</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
"یعنی پاکیزہ ترین چیز جو تم کھاؤ وہ تمہاری اپنی کمائی ہے اور تمہاری اولاد (کی کمائی) بھی تمہاری کمائی ہے۔"</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(ابن ماجہ)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
لا یقعد احدکم عن طلب الرزق و یقول اللھم الرزقنی.</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
"تم میں سے کوئی رزق کی طلب سے نہ بیٹھے اور کہتا رہے اے اللہ مجھے روزی دے۔" </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(اتحاف السادۃ المتقین بشرح احیاء علوم الدین: ج5، ص417)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
معلوم ہوا کہ اسباب اختیار کرنے کا حکم خود اللہ اور اسکے رسول ﷺ نےدیا ہے،لہذا اسباب اختیار کرنا چاہیے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اسباب کو حضرات انبیاء علیہم السلام نے بھی اختیار کیا ہے۔ چنانچہ مسلم شریف میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
كَانَ زَكَرِيَّاءُ نَجَّارًا </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
"حضرت زکریاعلیہ السلام بڑھئی (کارپینٹرCarpenter) کا کام کرتے تھے۔"</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اور بخاری شریف میں ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
أن داود ـ عليه السلام ـ كان لا يأكل إلا من عمل يده.</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
"حضرت داؤد علیہ السلام نہیں کھاتے تھے مگر اپنے ہاتھ کی کمائی سے"</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
بخاری شریف کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
وإن نبي الله داود ـ عليه السلام ـ كان يأكل من عمل يده.</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
"حضرت داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ سے کام کرکے کھایا کرتے تھے۔"</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
عَنْ عُلَيِّ بْنِ رَبَاحٍ قَالَ سَمِعْتُ عُتْبَةَ بْنَ النُّدَّرِ يَقُولُ کُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَرَأَ طس حَتَّی إِذَا بَلَغَ قِصَّةَ مُوسَی قَالَ إِنَّ مُوسَی صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آجَرَ نَفْسَهُ ثَمَانِيَ سِنِينَ أَوْ عَشْرًا عَلَی عِفَّةِ فَرْجِهِ وَطَعَامِ بَطْنِهِ</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
"حضرت عتبہ بن ندر فرماتے ہیں کہ ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے آپ نے (سورت ق) کی تلاوت شروع فرمائی جب حضرت موسیٰؑ کے قصہ پر پہنچے تو فرمایا: حضرت موسیٰؑ نے آٹھ یا دس سال اپنے آپ کو مزدوری میں رکھا اپنی شرم گاہ کی حفاظت پر اور اپنے پیٹ کے کھانے پر"</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(سنن ابن ماجہ)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے رویت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
ما بعث الله نبيا إلا رعى الغنم ". فقال أصحابه وأنت فقال " نعم كنت أرعاها على قراريط لأهل مكة".</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
"اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسا نبی نہیں بھیجا جس نے بکریاں نہ چَرائی ہوں۔ صحابہؓ نے پوچھا کیا آپ نے بھی بکریاں چرائی ہیں؟ فرمایا کہ ہاں ! کبھی میں بھی مکہ والوں کی بکریاں چند قیراط کی تنخواہ پر چَرایا کرتا تھا۔"</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(بخاری)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
حضرات صحابہ کرامؓ، تابعینؒ، تبع تابعینؒ، اکابرین فقہاءؒ ومحدثینؒ اور اولیاء کرامؒ سے بھی مختلف قسم کے پیشے سے زندگی گزارنا ثابت ہے، لہذا اسباب رزق کو اختیار کرنا ضروری ہے، اس کو ترک کرکے وسعت رزق کی خاطر محض تقدیر پر بھروسہ کرلینا (کہ قسمت میں ہوگا تو ملےگا ورنہ نہیں) یا صرف دعا اور وضیفوں میں لگ جانا اور اسی پر اکتفاء کرلینا نہ صرف قانون اور ضابطہ کے خلاف ہے بلکہ یہ جہالت ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
لیکن یہاں یہ بات بھی ذہن نشیں کر لینا ضروری ہےکہ اسباب ہی کو سب کچھ سمجھ لینا بھی درست نہیں ہے اور نہ ہی اس پر اعتماد کرنا صحیح ہے اس لئے کہ اعتماد و بھروسہ ذات خداوندی پر ہونا چاہیے، کیونکہ وہی مسبب الاسباب ہے، اور اسباب کے اندر تاثیر پیدا کرنا اور اسباب کے استعمال سے صحیح نتائج برآمد کرنا اللہ رب العامین ہی کا کام ہے؛ جیساکہ ذیل کی آیتوں سے معلوم ہوتا ہے:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
أَفَرَأَيْتُمْ مَا تُمْنُونَ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
أَأَنْتُمْ تَخْلُقُونَهُ أَمْ نَحْنُ الْخَالِقُونَ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
"بھلا دیکھو (تو) (منی) جو تم ٹپکاتے ہو۔"</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
"کیا تم اسے پیدا کرتے ہو یا ہم ہی پیدا کرنے والے ہیں۔"</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(پارہ 27، سورہ واقعہ، آیت:58، 59)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
نیز فرمایا:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
أَفَرَأَيْتُمْ مَا تَحْرُثُونَ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
أَأَنْتُمْ تَزْرَعُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
"بھلا دیکھو جو کچھ تم بوتے ہو"</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
"کیا تم اسے اگاتے ہو یا ہم اگانے والے ہیں۔"</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(الواقعہ، آیت:63، 64)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
معلوم ہوا کہ اسباب ہی پر توکل و بھروسہ کر لینا صحیح نہیں، بلکہ صحیح راہ یہ ہے کہ انسان اسباب کو اختیار کرتے ہوئے مسبب الاسباب رب العٰلمین پر توکل و بھروسہ رکھے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اللہ پاک صحیح سمجھ کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: left;">
از قلم: خاکپائے اکابر اہلسنت و جماعت علمائے دیوبند</div>
<div dir="rtl" style="text-align: left;">
حافظ محمود احمد عرف عبدالباری محمود</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: center;">
٭٭٭</div>
<div style="text-align: center;">
<br /></div>
</div>
Sarbakafhttp://www.blogger.com/profile/14532797594298636576noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3854913904789287339.post-47256583479359838532019-03-11T04:23:00.000-07:002019-03-11T04:23:05.924-07:00ہم زندگی کیسے گذاریں؟<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<b>مولانا سید ابوالحسن علی ندوی</b></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<h3>
اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے ہمیں اسلام عطا فرمایا</h3>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اللہ تعالیٰ کاشکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں مسلمان پیدا کیا، مسلمان گھروں میں پیدا کیااور ایمان نصیب فرمایااور شریف گھرانوں میں ہم نے آنکھیں کھولیں اور پھر اللہ تعالیٰ کااور زیادہ فضل ہے کہ دین دار گھرانوں میں ہماری پرورش ہوئی اور پھر یہ احسان عظیم فرمایا کہ مردوں سے اللہ تعالیٰ نے تبلیغی کام شروع کرایااور اس کی برکت گھروں تک پہنچی او راب تو اللہ کے فضل وکرم سے گھروں میں ہماری مائیں اور بہنیں تبلیغی کام کرنے لگی ہیں ۔ اس کی برکت سے ہم اچھابرا سمجھنے لگے، حرام وحلال، نیک وبد، جائز وناجائز، اللہ کس چیز سے راضی یاناراض ہوتا ہے، اس کی کچھ سوجھ بوجھ ہونے لگی اور اس کی پوچھ گچھ بھی شروع ہوئی کہ زندگی کی کون سی چیزیں اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند ہیں اور کون کون سی چیزیں ایسی ہیں جو اللہ کوناپسند ہیں، معاشرت کیسی ہونی چاہیے؟ گھروں میں رہنا سہنا کیسا ہونا چاہیے؟ لباس اور کپڑے کس طرح کے ہونے چاہئیں کہ شریعت کے مطابق ہوں اور کون سے شریعت کے خلاف ہیں؟ ان باتوں کااب گھروں میں تذکرہ ہونے لگا ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
مغربی تہذیب کااصول " کھاؤ پیو، مست رہو"</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
آپ سب اس ملک میں ہیں، یہاں بہت دنوں سے یاسیکڑوں برس سے خدا کاخوف، شرم وحیا، لحاظ اور تہذیب نہیں رہی، یہاں صرف ایک ہی کام رہا کھاؤ پیواور مست رہو، چناں چہ انگریزوں میں کہاوت ہے ” کھاؤ، پیو، مست رہو، مگن رہو“ یہ مگن رہنا ان کے یہاں زندگی کااصول ہے، جس میں آدمی مگن رہے اور مست ر ہے موت کبھی بھول کر بھی یاد نہ آئے کہ ہمیں مرنا ہے، ہمیں خدا کے سامنے جانا ہے، یہاں جو مزے اڑائے ہیں، گلچھرے اڑائے ہیں ان کاجواب دینا ہے، یہاں جو موج اڑائی ہے اس کا پائی پائی کاحساب دینا ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
یہاں زندگی کااصول یہ ہے کہ آدمی موت کوبھولا رہے، آخرت کوبھولا رہے، اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑے رہے اور صرف عمدہ سے عمدہ کھانا، اچھی سے اچھی صحت بنانا، جوانی کامزہ اڑانا اور دولت کے مزے اڑانا یاد رکھے، یہ یہاں کی زندگی کااصول بن گیا ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
لیکن خدا کے فضل وکرم سے ہمارا جس مذہب سے تعلق ہے اور جس ملک سے تعلق ہے اور جن لوگوں سے تعلق ہے، ان کی زندگی کااصول یہ نہیں ہے۔ ان کوتو یہ بتایاگیا ہے کہ دنیاتو کافر کی جنت اور مسلمانوں کاجیل خانہ ہے، جیل خانہ میں آدمی موج نہیں اڑاتا، جیل خانہ میں آدمی آزاد نہیں ہوتا کہ گھومنے پر آیاتو گھومتا چلا گیا، جو دل میں بات آئی، جو من میں چاہت ہوئی بس وہ کر گزرا، کوئی روک ٹوک نہیں، کوئی پابندی نہیں، جیل خانہ میں گھومنے پھرنے کی جگہ بھی نپی تلی ۔ کھانے کاحساب بھی نپاتلا، کھانے کوجی کچھ چاہتا ہے مل کچھ رہا ہے، پسند کچھ ہے اورکھِلایا کچھ جارہا ہے، کبھی پہننے کوجی چاہا، کبھی سیر کاجی چاہا، ہوا خوری کاجی چاہا، مگر یہ تو چہار دیواری ہے، یہ تو جیل کی کوٹھری ہے اور کافر کے لیے کیا ہے؟ بس ایک بہت بڑا پارک، ایک بہت بڑاباغ، ایک بہت بڑا چمن، چاہے لوٹے پوٹے، چاہے گھومے، چاہے ننگا پھرے، چاہے چہکے، چاہے بیل کی طرح چلے، کھائے پئے، کوئی بولنے والا نہیں، کوئی پوچھنے والا نہیں، تو ” دنیا کافر کی جنت اور مومن کاجیل خانہ ہے ۔“</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
دنیامیں اس طرح رہوجیسے کہ تم پردیس میں ہو</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” کن فی الدنیا کأنک غریب او عابر سبیل۔“</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(دنیامیں اس طرح رہوجیسا کہ تم پردیس میں ہویا کہ راستہ چلتے مسافر۔)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جو مسافر ہوتا ہے اس کاجی نہیں لگتا، وہ کسی جگہ اپنا گھر نہیں بناتا، کسی اسٹیشن پرٹھہر نہیں جاتا، دیکھتا سب کچھ ہے، گزرتا سب جگہ سے ہے، لیکن اپنے وطن کونہیں بھولتا اور نہ اپنی منزل کوبھولتا ہے، کہاں سے چلے تھے اور کہاں جانا ہے اور جہاں جانا ہے وہاں سے کام کرکے فوراً آنا ہے، جیسے چڑیاں دن بھر اڑتی رہتی ہیں، جیسے کبوتر اور میناہوں، جو دن بھر اڑتی رہتی ہیں اور دن بھر جگہ جگہ سے دانہ چگتی جاتی ہیں، لیکن اپنے آشیانہ، اپنے گھونسلہ کوبھولتی نہیں کہ کہیں اور پہنچ جائیں، شام ہوئی تو سیدھے اپنے گھر واپس آتی ہیں، کسی شاخ پر وہی تنکوں اور پتیوں کابنا ہوا گھونسلہ، دن بھر چاہے کسی امیر کے محل پر جاکر، کسی اونچی سے اونچی کوٹھی پر جاکر اپنا چارہ تلاش کرے، شام ہوئی تو اپنا گھر یاد آیا، بال بچے یاد آئے، اڑکروہیں پہنچیں، یہی مؤمن کاحال ہے کہ دنیامیں سارا دن گھومتا پھرتا رہے، کام کاج کرے، دکان پر بیٹھے، دس دس گھنٹے یوٹی دے، لیکن اس کواصلی بستی نہیں بھولتی، اس کوقبر کا کونا نہیں بھولتا، وہاں سیکڑوں ہزاروں برس سونا ہے، اس کوآخرت نہیں بھولتی، بس شام ہوئی، یعنی جیسے ہی دنیا کا کام ختم ہوا، اپنے اصلی وطن کی راہ لی۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<h3>
مسلمان کواپنا اصلی وطن نہیں بھولنا چاہیے</h3>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
مسلمان کی زندگی ایسی ہی ہونی چاہیے، ہمارے لیے ہندوستان، فرانس، جرمنی اور بڑے سے بڑے ملک امریکا، کینی اسب برابر ہیں، ہم کہیں بھی ہوں اپنا وطن نہیں بھولنا چاہیے، چاہے وہ محل ہو یاجھونپڑا، لیکن دل ہمارا خدا کے پاس رہنا چاہیے، ہمارا جسم کہیں بھی ہو، ہم کواصل جگہ کبھی نہیں بھولنی چاہیے، جہاں ہم کومدتوں رہنا ہے، وہ قبر کا کونا ہے، جہاں اندھیرا ہے، قبرستان جو جنگل میں ہے، شہر کی آبادی سے دور، جہاں نہ شہر کے بچوں کی آواز پہنچ سکتی ہے، نہ بڑوں کی، وہاں تو آدمی ہے اور اس کاعمل، جو نمازیں ٹوٹی پھوٹی پڑھیں، جو کلمہ پڑھا، درود شریف پڑھا، وہ وہاں کام دے گا، اسی سے وہاں دل لگے گا، وہی وہاں کاتکیہ، وہی وہاں کابچھونا، وہی وہاں کی روشنی، وہی وہاں کا چراغ، وہاں کی گنجائش اور وسعت، ورنہ وہ کونا جہاں آدمی کروٹ بھی نہ لے سکے، وہاں جو کچھ کام آئے گا، وہ نور ایمان کام آئے گا، اللہ کانام کام آئے گا، زندگی میں اللہ کے ساتھ جو تعلق پیدا کیا ہے وہ کام آئے گا، نماز میں اگر یہاں دل لگا ہے تو وہاں بھی دل خوش ہوگا، اگر کلمہ، نماز اور ایمان کی باتوں میں دل نہیں لگا ہے اور طبیعت ہمیشہ اچاٹ رہی اور وہی کپڑوں میں، زیور میں، کھانے پینے میں، کوٹھی میں، موٹر میں اگر وہ پھنسا رہاتو وہاں وحشت ہوگی، وہاں ان میں سے کوئی چیز موجودہ نہ ہوگی، یہ چیزیں تو کیا ہوں گی، باپ مدد کرنے کے لیے، ماں بھی دلاسہ دینے کے لیے، بیٹی بھی خدمت کرنے کے لیے، بیٹے بھی سلوک کرنے کے لیے وہاں موجود نہ ہوں گے، وہاں وہی ایک نام اللہ کا، اللہ کانام کام آئے گا اور ایمان کانور کام آئے گا، نماز روزہ کانور کام آئے گا، قرآن کی روشنی کام آئے گی اور جو اللہ کاذکر کیابس وہی کام آئے گا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
حدیث میں ہے کہ ” قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہوگی یادوزخ کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا۔” وہاں جو کام آنے والی چیزیں ہیں، وہ خود کچھ نہیں، یہیں کے اچھے عمل باغ بن جائیں گے، انہی اچھے اعمال سے جنت کی ہوائیں آئیں گی، حدیث میں آتا ہے کہ قبر کی کھڑکی کھول دی جاتی ہے، وہاں ان کو پہلے سے جنت کی ہواؤں کے جھونکے آنے لگتے ہیں، خوشبوئیں آنے لگتی ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہی ہمارا ٹھکانا ہے اور حدیث میں یہ بھی آتا ہے کہ مرنے کے وقت اور مرنے کے بعد اس کا ٹھکانا اس کودکھا یاجائے گا کہ تمہارا ٹھکانہ جہنم ہے یاجنت اور یہ بھی حدیث میں ہے کہ اگر کسی کے اچھے عمل ہیں، ایمان سلامت لے کر گیا ہے تو اس سے کہاجاتا ہے”نم کنومۃ العروس“ ”سوجا جیسے دلہن سوتی ہے“۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<h3>
قبر کی فکر ہی اصل فکر ہے</h3>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اس گھر کی فکر کرنی چاہیے اور جو چیزیں وہاں کام آنے والی ہیں، ان کی فکر کرنی چاہیے، یہاں کے سامان کاحال یہ ہے کہ بچپن کاسامان جوانی میں کام نہیں آتا، جوانی کاسامان بڑھاپے میں کام نہیں آتا، بچپن میں جو کپڑے تھے جوانی میں پہنے نہیں جاتے او رجوانی میں جو کپڑے ہیں وہ بڑھاپے میں پہننا مناسب نہیں، یہ تو جوانی کے شوق تھے، بڑھاپے کا کپڑااور ہوتا ہے اور اب تو دو مہینے کے کپڑے اس زمانہ میں کام نہیں آتے، یہاں یورپ پر ایسی مصیبت آئی ہے اور اس کی بدولت ساری دنیا پر، یہاں مہینے دو مہینے میں فیشن بدلتے ہیں، پہلے فیشن کے مطابق جو کپڑے بنالیے، اب جب فیشن بدل گیاتو بالکل پرانے اور دقیانویسی معلوم ہونے لگتے ہیں اور ان کو پہن کر شادیوں میں جانا معیوب سمجھاجاتا ہے، ایسی بے مروت، آنکھ چرانے والی او رمنھ موڑنے والی اور جلدی سے جلدی بدل جانے والی تہذیب! اس پرا گر دل لگائے تو اس سے زیادہ بے عقل کون ہوگا؟!</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<h3>
حضرت ابراہیم علیہ السلام کاواقعہ</h3>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب ستارہ دیکھاتو کہا کہ یہ تو بڑا چمک دار ہے، کچھ عجب نہیں کہ دنیا کا پیدا کرنے والا ہو ۔ اب جو ستارہ غروب ہوا اور وب گیاتو انہوں نے کہا کہ یہ تو کچھ نہیں، اس کا کوئی بھروسہ نہیں ۔ پھر جاند دیکھاتو کہاسبحان اللہ، چاند کا کیا کہنا، کیسی روشنی، ساری دنیاروشن، ساری دنیامیں چاندنی پھیلی ہوئی ہے، انہوں نے کہا، شاید یہی خالق ہو۔ پھر وہ غروب ہوا تو کہنے لگے یہ بھی کچھ نہیں، اس کابھی کچھ زور نہیں، اس کابھی بھروسہ نہیں۔ پھر جب سورج نکلا اور انہوں نے اس کی چمک دیکھی اور دن ہوا تو کہنے لگے واہ واہ، اس سے بڑھ کر تو کوئی روشن نہیں، ستارہ بھی اس کے سامنے ماند اور چاند بھی اس کے سامنے شرمندہ، بس یہ سورج ہی سورج ہے، پھر جب سورج بھی وبنے لگا، تو کہنے لگے، ” لا أحب الآفلین“ میں ایسے منھ چھپانے والوں اور ایسے بے مروتوں اور ایسے آنکھ بند کرنے والوں سے اپنا دل نہیں لگا سکتا، جس کے ساتھ دل لگایاجائے وہ ” حی قیوم“ ہمیشہ رہنے والی ذات ہو، ہمیشہ ساتھ دینے والی ذات ہو۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<h3>
حضرت ابراہیم علیہ السلام کادیا ہوا سبق یاد رکھنا چاہیے</h3>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے، جو ہمارے آپ کے مورث اور پیغمبر ہیں اور سب سے آخر میں آنے والے پیغمبر کے دادا بھی ہیں، انہوں نے یہ سبق دیا کہ جو بے مروت ہو، جو آنکھیں پھیرنے والا ہو، اس سے دل نہیں لگاناچاہیے، جوانی بھی ایسی ہی دولت ہے اور طاقت، زندگی یہ سب منھ چھپانے والے، بچھڑ جانے والے اور بے وفا اور بے مروت، طوطا چشم، ان سے دل لگائے تو اس سے بڑھ کر کوئی حماقت نہیں، اگر کسی نے یہ سمجھا کہ جوانی میں جوانی کے کام کرنے چاہئیں او رکچھ لحاظ نہ کرنا چاہیے، تو جب بڑھاپاآئے گا اور یہ رنگ روپ، یہ شکل وصورت باقی نہیں رہے گی، اس وقت معلوم ہوگا کہ ہم نے اس بے وفا جوانی کی وجہ سے اس رحمان ورحیم خداکی نافرمانی کی، خدا کی رحمت کبھی ساتھ نہیں چھوڑتی، وہ ہمیشہ کام آتی ہے، وہ اندھیرے میں، اجالے میں، امیری میں، غریبی میں، جوانی وبڑھاپے میں، وطن وپردیس میں ہر جگہ اور ہمیشہ ساتھ دینے والی ہے ”اللہ معکم“ اللہ تمہارے ساتھ ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم تین ہوتے ہوتو، چوتھاخدا ہوتا ہے، چار ہوتے ہوتو پانچواں خدا ہوتا ہے، تھوڑے ہوتے ہو یابہت ہوتے ہو، بازار میں ہوتے ہو یاگھر میں ہوتے ہو ہم ساتھ ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے، ہر ایک کودیکھنے والا ہے، ہر ایک کی مدد کرنے والا ہے ۔ ﴿ واذا سألک عبادی عنی فانی قریب﴾ جب میرے بندے میرے متعلق پوچھتے ہیں کہ خدا کہاں ہے؟ تو کہہ دو کہ میں قریب ہوں۔ وہ ہر پکارنے والے کی پکار سنتا ہے، تو ایسے خدا، ایسے مالک ومہربان، ایسے شفیق ورحیم، ایسے کریم، ناصر ومعین، ایسے مدد کرنے والے، ایسے رحم کھانے والے، ایسے سہارا دینے والے خدا کاساتھ دیاجائے، یابے وفا جوانی کا، بے وفا حسن وجمال کا، یابے وفا ساتھیوں اور بے وفا رفیقوں کا، یاباتیں بنانے والی سہیلیوں اور بہنوں کا، یاایسے فیشن کاجو صبح ہے تو شام کواس کا ٹھکانہ نہیں، شام ہے تو صبح اس کا ٹھکانا نہیں، اس کاساتھ دے کر اللہ کی نافرمانی کرے، اس سے بڑھ کر کون سی حماقت اور بے عقلی ہوسکتی ہے؟ اس خدا کا کیوں ساتھ نہ دیں جو ہر وقت ہمارے ساتھ ہے، یہاں بھی کام آئے اور قبر میں بھی؟ اسی کی ہی دست گیری کام آئے گی اور حشر میں وہی ہے اور کوئی ہے ہی نہیں، اس خدا سے تعلق پیدا کرنا چاہیے، اس سے انس پیدا کرنا چاہیے، اس سے ایسی جان پہچان پیدا کر لینی چاہیے، اس پر ایسا بھروسہ ہونا چاہیے، ایسا اس کے ساتھ تعلق ہونا چاہیے کہ آدمی کو ہر وقت ایک ڈھارس رہے، ہر وقت حوصلہ رہے، ہمارا خدا ہمارے ساتھ ہے، ہمارا کوئی کیابگاڑ سکتا ہے، ہماری دولت کو کوئی اگر لے لے تو ہمارا ایمان تو کسی نے نہیں لیا ۔ اگر ہماری جوانی ختم ہوگئی ایمان تو ختم نہیں ہوا، خدا کاساتھ تو نہیں چھوٹا، اگر دولت نے منھ چھپالیااور بے وفائی کی، اگر شوہر نے بھی بے وفائی کی تو کوئی رنج نہیں، ہمارا خدا تو ہمارے ساتھ ہے، اگر خدا ہمارے ساتھ ہے تو سب کچھ ہمارے ساتھ ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<h3>
جس نے بادشاہ کولیااس کوسب ملا</h3>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
ایک قصہ ہے کہ ایک بادشاہ نے بہت موج میں آکر رعیت سے کہا کہ آج جو جس چیز پر ہاتھ رکھ دے گا، وہ چیز اس کی ہوجائے گی، بس کیا پوچھنا، بن آئی لوگوں کی، وہاں جو امرا وزرا، غلام، باندیاں اور خواص موجود تھے، جس کوجو چیز پسند آئی، اس نے اس پر ہاتھ رکھ دیا، کسی نے بادشاہ کے تاج پر ہاتھ رکھا، کسی نے تخت پر ہاتھ رکھا، کسی نے فانوس پر، غرض کہ جو جس پر ہاتھ رکھتا گیا، وہ چیز اس کی ہوتی گئی، ایک غلام کھڑا ہوا تھا، اس نے کچھ نہ کہا، بت بنا کھڑارہا، بادشاہ کی نظر جب اس پر پڑی تو اس نے کہا، کیاتم کو یقین نہیں آیا، دیکھتے نہیں کہ جس نے جس چیز پر ہاتھ رکھ دیاوہ اس کامالک ہوگیا، اس نے جواب دیا کیاواقعی ایسی بات ہے، بادشاہ نے کہا کہ اللہ کے بندے کیاتو دیکھ نہیں رہا ہے، کیاقسم کھانے، تحریر لکھنے کی ضرورت ہے؟ اس نے کہا کہ یہ تو ہیں بے وقوف، مجھے اللہ نے عقل وسمجھ دی ہے، کسی نے تاج لیا، کسی نے تخت، کسی نے موتی لیاتو ہیرا نہیں ملا، کسی نے ہیرا لیاتو موتی نہیں ملا، کسی نے گھوڑالیاتو پالکی سے محروم رہا، پالکی لے لی تو گھوڑانہیں آیا، یہ کہہ کر اس نے بادشاہ پر ہاتھ رکھ دیا کہ میں نے تو اس کولیا، جس نے بادشاد کولیا، اس کوتخت بھی ملا، تاج بھی، گھوڑابھی ملا، طاؤس بھی، گھر بھی ملا، گھر کاسامان بھی، اس کوعزت بھی ملی اور طاقت بھی۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
یہی ہماری مثال ہونی چاہیے، آج ایسے افراد ہر جانب ملیں گے جو فیشن پر جان دینے والے، کپڑوں، موٹروں کے شوقین، جوانی اور دولت پر فدا ہونے والے ہوں گے، لیکن مسلمان عورتوں کوتو صرف اللہ کاطالب ہونا چاہیے اللہ کی محبت حاصل کرنے کی کوششکرنی چاہیے کہ اللہ کی نظر عنایت اس کی طرف ہوجائے، پھر سب کچھ اس کا ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<h3>
بی بی مرغی پال لو</h3>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
خاندان مجددی کے ایک بزرگ شاہ محمد یعقوب صاحب مجدد کہانیوں اور قصوں میں بڑی اونچی اونچی باتیں سمجھایا کرتے تھے، انہوں نے ایک قصہ سنایا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
”بھوپال میں بیگمات کادور تھا، ایک بیگم بہت پریشان تھیں، ایک پیر صاحب کے پاس آئیں، کہنے لگیں، پیر صاحب! میں بہت پریشان ہوں، میرے شوہر مجھے پوچھتے نہیں، پہلے تو بہت خیال کرتے تھے، لیکن اب ان کادل مجھ سے بھر گیا ہے، مجھے سخت تکلیف ہے، اولاد بھی میرا خیال نہیں کرتی، شوہر کی نگاہ کیا پھری، ساری دنیا کی نگاہیں پھر گئیں، سر کار میرے لیے دعا کریں ۔ انہوں نے پوری رام کہانی سنی اور کہنے لگے، بی بی! مرغی پال لو، اب وہ بڑی پریشان، کہ پیر صاحب کو کیا ہوگیا؟ کل تک تو خوب سنتے تھے، اب اونچاسننے لگے ۔ ذرا زور سے پکار کر کہاحضرت صاحب میرے لیے دعا کیجیے میں بہت پریشان ہوں۔ پیر صاحب نے آہستہ سے کہابی بی! میں کہہ رہا ہوں مرغی پال لو۔ اب وہ پریشان کہ آج پیر صاحب کو کیا ہوگیا ہے، میں تو ان سے دعا کے لیے کہتی ہوں اور پیر صاحب مرغی پالنے کو کہتے ہیں؟ پھرعرض کیا کہ حضرت میں سمجھی نہیں، آپ ذرا اچھی طرح سمجھادیں، تو پیر صاحب نے فرمایابی بی صاحبہ! ایک قصہ ہے، قصہ سے بات خوب سمجھ میں آجائے گی، دو گھر قریب قریب تھے، ایک امیر گھر تھا، کھاتا پیتا اور ایک ذرا غریب گھر تھا، بیچ میں ایک دیوار تھی، اس دیوار میں ایک کھڑکی تھی، تو جب اس غریب گھرمیں کوئی مہمان آتا تو غریب گھر والی پڑوس کے گھر منھ ال کر کہتی کہ مہمان ناوقت آگئے ہیں، کچھ انتظام ممکن نہیں ہے، ایک ان ادے تو کام چل جائے۔ ایک بار ہوا، دو بار ہوا اور جب بار بار یہ واقعہ پیش آیاتو جل کر کہنے لگی کہ بی بی ہمسائی! ایک مرغی پال لو، قصہ ختم ہوجائے گا، فرصت ہوجائے گی۔ تو بیگم صاحبہ میں تم سے وہی کہتا ہوں کہ اللہ کے ساتھ تعلق قائم کر لو، اللہ سے دعا کرنا، مانگنا سیکھ لو، سب مشکلیں آسان ہوجائیں گی۔“</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<h3>
سب کاموں کی کنجی اللہ سے تعلق</h3>
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
وہی میں آپ سب سے کہتا ہوں، اللہ کو یاد کرنا، اللہ سے مانگنا، اللہ کوراضی رکھنا سیکھ لیجیے، سب کام بن جائیں گے، دنیا کی جتنی چیزیں ہیں، سب بے وفا، بے مروت، طوطا چشم ہیں، جوانی ہے صحت خراب، قصہ ختم۔ صحت ٹھیک تو کاروبار فیل تو سب بے کار، اگر خدا کومحبوب رکھے تو جوانی بھی ہے صحت بھی ہے اور سب کچھ ہے ۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
ساری مشکلوں، مصیبتوں کاعلاج ایک اللہ کاتعلق پیدا کرنا ہے، وہی سب کچھ کرتا ہے، اللہ کی نیک بندیوں کے حالات پڑھو کہ انہوں نے کسی چیز میں دل نہیں لگایا، نہ جوانی میں، صحت میں، نہ طاقت اور حسن وجمال میں، انہوں نے صرف اللہ کے ساتھ تعلق پیدا کیا، اللہ کانام لینا، راتوں کواٹھنا، توبہ استغفار کرنا، درود شریف پڑھنا، تلاوت قرآن کرنا، اسلامی عقائد پر بچوں کی پرورش کرنا، توحید کے بیج ان کے دل میں بونا، گناہ کی نفرت پیدا کرنا، اللہ کانام سکھانا، اسلامی آداب واخلاق کی تعلیم دینا یہ ان کے مشغلے رہے، نتیجہ یہ کہ گھر کاماحول اسلامی، دل خوش، اللہ راضی تو سب راضی، اگر اللہ ناراض تو سب ناراض ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
﴿ ولا تبرجن تبرج الجاہلیۃ الاولیا﴾ ۔ (سورہ احزاب رکوع: 4)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(اورجاہلیت قدیم کے مطابق اپنے کودکھاتی مت پھرو۔)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
تمہارا دل گھروں میں لگنا چاہیے، سینما گھروں میں نہیں، محفلوں اور بازاروں میں نہیں، تمہاری جگہ، تمہاری سلطنت تمہارا گھر ہے، غریب ہو یاامیر باہر نکلو گی تو تم وہ نہ رہوگی جو گھر میں ہو، گھر میں تمہارا حکم چلے گا، اولاد تمہاری خدمت کرے گی، گھر سکون واطمینان کی جگہ ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے لیے جو پسند کیاوہی تم کواپنے لیے پسند کرنا چاہیے، وہی ہمارے لیے نمونہ ہے، اسلام سے پہلے کازمانہ جو جاہلیت کازمانہ تھااس کی طرح بناؤ سنگار نہ کرو، نماز پڑھو، زکواۃ دو، نماز کے لیے جگہ مقرر کرو، جگہ پاک وصاف ہو کہ وہاں تسبیح پڑھ سکو، دینی کتابوں کامطالعہ کر سکو، اپنے بچوں کودین کی باتیں سکھاسکو، جو وقت بچے اس میں شوہر کی خدمت کرو۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
حضرت مولانا الیاس صاحب ، مولانا یوسف اور شیخ الحدیث مولانا محمد زکریارحمۃ اللہ علیہم کی ماؤں کے قصے پڑھیے، وہ کیسی عابدہ، زاہدہ تھیں، ان کی راتیں کیسے گزرتی تھیں، دن کیسے گزرتے تھے، نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کوایسے فرزند عطا فرمائے، جن کے نور سے سارا عالم منور ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اب جو اولاد ماں کی گود میں پلتی ہیں، ظاہر ہے کہ وہ کیسی ہوں گی، جیسی گودویسی اولاد، جب وہ زبان سے اللہ کانام نہ لیں گی، تلاوت نہ کریں گی، تو کیااثر ہوگا؟ ٭</div>
<div dir="rtl" style="text-align: center;">
٭٭٭</div>
<hr />
<div style="text-align: center;">
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
٭ ماخوذ از ماہنامہ الفاروق، کراچی، جلد ۲۵ شمارہ ۴</div>
</div>
</div>
Sarbakafhttp://www.blogger.com/profile/14532797594298636576noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3854913904789287339.post-9123279887342619592019-03-11T04:19:00.000-07:002019-03-11T04:19:23.785-07:00جہدِ بوتراب بنو! <div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: center;">
<b>فاروق درویش</b></div>
<div dir="rtl" style="text-align: center;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: center;">
جہانِ شب ہے دھواں صبحِ انقلاب بنو</div>
<div dir="rtl" style="text-align: center;">
جلا دو تختِ بتاں دستِ احتساب بنو</div>
<div dir="rtl" style="text-align: center;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: center;">
لہو کے دیپ جلاؤ کے شب طویل ہوئی</div>
<div dir="rtl" style="text-align: center;">
محل سے روشنی چھینو سحر کی تاب بنو</div>
<div dir="rtl" style="text-align: center;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: center;">
تڑپ رہے ہو جزیرہ نما تنوروں میں</div>
<div dir="rtl" style="text-align: center;">
ہوا کے دوش پہ اڑتے ہوئے سحاب بنو</div>
<div dir="rtl" style="text-align: center;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: center;">
اگر ہو لیلیٰ تو صحرا میں چھوڑ دو محمل</div>
<div dir="rtl" style="text-align: center;">
بنو جو قیس تو پھر عشق کی کتاب بنو</div>
<div dir="rtl" style="text-align: center;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: center;">
عتابِ زرد میں خاموش خود کشی ہوگی</div>
<div dir="rtl" style="text-align: center;">
سکوتِ مرگ میں نعرۂ اضطراب بنو</div>
<div dir="rtl" style="text-align: center;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: center;">
جو ظلمتوں کے بیاباں سے ڈر گئے درویشؔ</div>
<div dir="rtl" style="text-align: center;">
انہیں کہو کہ اٹھو! جہدِ بو تراب بنو </div>
<div style="text-align: center;">
<br /></div>
</div>
Sarbakafhttp://www.blogger.com/profile/14532797594298636576noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3854913904789287339.post-17924941822652808922019-03-11T04:17:00.003-07:002019-03-11T04:17:56.002-07:00(غزل) جو ہوا سو ہوا- ندا فاضلی<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: center;">
<b>ندا فاضلی</b></div>
<div dir="rtl" style="text-align: center;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: center;">
اٹھ کے کپڑے بدل گھر سے باہر نکل جو ہوا سو ہوا</div>
<div dir="rtl" style="text-align: center;">
رات کے بعد دن آج کے بعد کل جو ہوا سو ہوا</div>
<div dir="rtl" style="text-align: center;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: center;">
جب تلک سانس ہے بھوک ہے پیاس ہے یہ ہی اتہاس ہے</div>
<div dir="rtl" style="text-align: center;">
رکھ کے کاندھے پہ ہل کھیت کی اور چل جو ہوا سو ہوا</div>
<div dir="rtl" style="text-align: center;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: center;">
جو مرا کیوں مرا؟ جو لٹا کیوں لُٹا؟ جو جلا کیوں جلا؟</div>
<div dir="rtl" style="text-align: center;">
مدتوں سے ہیں گم ان سوالوں کے حل جو ہوا سو ہوا</div>
<div dir="rtl" style="text-align: center;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: center;">
خون سے تر بتر کر کے ہر رہ گزر تھک چکے جانور</div>
<div dir="rtl" style="text-align: center;">
لکڑیوں کی طرح پھر سے چولہے میں جل جو ہوا سو ہوا</div>
<div dir="rtl" style="text-align: center;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: center;">
مندروں میں بھجن مسجدوں میں اذاں آدمی ہے کہاں؟</div>
<div dir="rtl" style="text-align: center;">
آدمی کے لیے ایک تازہ غزل جو ہوا سو ہوا</div>
<div dir="rtl" style="text-align: center;">
<br /></div>
</div>
Sarbakafhttp://www.blogger.com/profile/14532797594298636576noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3854913904789287339.post-15297672481956421542019-03-11T04:15:00.001-07:002019-03-11T04:15:55.271-07:00ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت کا جائزہ (چوتھی اور آخری قسط)<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<b>مولانامفتی نجیب اللہ عمر ﷾(کراچی، پاکستان)</b></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<br />
(۲۱) ’’اٰخرالنبین‘‘کو ’’آخر الانبیاء ‘‘سے بدل دیا</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
احمد رضا خان ایک روایت نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
’’شب معراج رب العزۃ جل جلالہ نے حضور اقدسﷺ سے ارشاد فرمایا :اغم علیک ان جعلتک آخر الانبیائ‘‘ ترجمہ احمد رضا:کیا تمہیں اس بات کا غم ہوا کہ میں نے تمھیں سب سے پچھلا نبی کیا عرض کی نہیں ۔ارشاد فرمایا کہ تمھاری امت کو اس بات غم ہوا کہ میںنے انہیں سب سے پچھلی امت کیا۔عرض کی نہیں اے رب میرے ۔ارشاد فرمایا: میں نے انہیں اس لئے سب سے پچھلی امت کیا کہ سب امتوں کو ان کے سامنے رْسوا کروں اور انھیں کسی کے سامنے رُسوانہ کروں‘‘ ۔ (ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ سوم صفحہ۲۸۶نوری کتب خانہ لاہور)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اصل حدیث کے الفاظ:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
الخصائص الکُبْریٰ ،باب کلامہ للہ عزوجل عند سدرۃ المنتھی جلد ۲ ص ۳۳۱</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
’’ھل غمک ان جعلْتک اٰخِرالنبیِّیْن‘‘</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
حدیث کے نقل میں غلطیاں:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(۱) اس حدیث میں احمد رضا خان ’’ھَلْ‘‘کو ’’أَ‘‘سے تبدیل کردیا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(۲) اور ’’غمک‘‘کو ’’غم علیک‘‘سے بدل دیا</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(۳) اور’’آخر النبیین‘‘کو ’’آخر الانبیائ‘‘سے تبدیل کر دیا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(۲۲) ’’ولا صورۃ‘‘کو ’’اوتصاویر‘‘سے بدل دیا:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
عرض :کُتّے کا رواں تو ناپاک نہیں۔ ارشاد: صحیح یہ ہے کہ کتے کا صرف لعاب نجس ہے لیکن بلا ضرورت پالنا نہ چاہیے کہ رحمت کا فرشۃ نہیں آتا۔ حدیث صحیح ہے کہ جبریل کل کسی وقت حاضری کا وعدہ کر کے چلے گئے دوسرے دن انتظار رہا مگر وعدہ میں دیر ہوئی اور جبریل حاضر نہ ہوئے سرکار باہر تشریف لائے ملا حظہ فرمایاکہ جبریل ؑ در دولت پر حاضر ہیں ۔فرمایا کیوں ۔ عرض کیا ’’انالاند خل بیتاًفیہ کلب او تصاویر‘‘ رحمت کے فرشتے اس گھر میں نہیں آتے جسمیں کتا ہو یا تصویر ہو اندر تشریف لائے سب طرف تلاش کیا کچھ نہ تھا۔پلنگ کے نیچے ایک کتے کا پلّا نکلا اسے نکالا تو حاضر ہوئے ۔ <span style="white-space: pre;"> </span>(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ سوم صفحہ۲۹۲نوری کتب خانہ لاہور) حدیث کے اصل الفاظ:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
’’انا لاندخل بیتافیہ کلب ولاصورۃ‘‘</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>(سنن ابی داؤد ص ۲۱۹ ج ۲ کتاب اللباس ،باب فی الصور حدیث ۴۱۵۷)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
غلطی کی نشاندہی:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
احمد رضا نے اس حدیث میں ’’ولا صورۃ ‘‘واحد کو تصویر کی جمع ’’اَوْ تصاویر‘‘سے بدل دیا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(۲۳) ’’اِنْ یَکُ‘‘کو ’’انْ یَکْنُ‘‘ کردیا:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>عرض :بعض علی گڑھی کو سید صاحب کہتے ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>ارشاد:وہ تو ایک خبیث مرتد تھا۔حدیث میں ارشاد فرمایا:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>’’لا تقولوا للمنافق سیداً فانہ ان یکن سید کم فقداسخطتم ربکم ‘‘</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>ترجمہ احمد رضا :منافق کو سید نہ کہو کہ اگر وہ تمہارا سید ہواتو یقینا تم نے اپنے رب کو غضب دلایا‘‘۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ سوم صفحہ۲۹۳نوری کتب خانہ لاہور)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اصل حدیث کے الفاظ:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>’’قال رسول اﷲﷺ لاتقولوا للمنافق سیداً فانہ ان یک سید کم فقدا اسخطتم ربکم عزوجل‘‘۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(سنن ابی داؤد ص ۳۳۸ جلد ۲ کتاب الادب باب لایقول المملوک ربّی وربّتی حدیث ۴۹۷۷)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
غلطی کی نشاندہی:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
احمد رضا خان نے اس حدیث میں لفظ’’اِنْ یَکُ‘‘کو ’’ان یکن ‘‘سے تبدیل کر دیا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(۲۴) ’’التابعۃ ‘‘کو ’’متتابعۃ ‘‘سے تبدیل کر دیا:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
احمد رضا خان اپنے نسب کو دوسرے کی طرف منسوب کرنے کی وعید ان لفظوں میں سناتے ہیں :</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>تیسری حدیث میں فرمایا’’فعلیہ لعنۃ اللہ متتابعۃ الیٰ یوم القیامۃ ‘‘</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>ترجمہ احمد رضا:اس پر اللہ کی پے در پے قیامت تک لعنت ہے‘‘۔۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ سوم صفحہ۲۹۵نوری کتب خانہ لاہور)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اصل حدیث کے الفاظ:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
حلانکہ اس حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
’’فعلیہ لعنۃ اللہ التابعۃ الیٰ یوم القیامۃ ‘‘(عن جریر عن ابن عباس)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>(کنز العمال ،کتاب الدعوی ،باب دعویٰ النسب ولحاق الولد حدیث ۱۵۳۱۹ ج ۶ ص ۷۹)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
غلطی کی نشاندہی:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اس جگہ احمد رضا خان نے لفظ ’’التابعۃ‘‘کو ’’متتابعۃ‘‘سے تبدیل کر دیا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(۲۵) لفظِ اللہ کو حذف کر دیا اور۔۔۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>حدیث میں ارشاد ہوا :کوئی شخص بغیر اللہ کی رحمت کے اپنے اعمال سے جنت میں نہیں جاسکتا صحابہ نے عرض کی ’’ولا انت یا رسول اللہ ‘‘آپ بھی نہیں یا رسول اللہ ۔ارشاد فرمایا ’’ولا انا الاان یتغمدنی رحمتہ‘‘اور میں جب تک میرا رب رحمت نہ فرمائے’’۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ سوم صفحہ۲۹۶نوری کتب خانہ لاہور)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
حدیث کے اصل الفاظ:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اس حدیث کا یہ جملہ اصل حدیث میں اسطرح ہے:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
’’ولا انا الاان یتغمدنی اللہ برحمۃٍ‘‘</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>(بخاری ص ۹۵۷ جلد ۲کتاب الرفاق باب القصرد المداومۃ حدیث ۶۴۶۳)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
غلطیوں کی نشاندہی:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>اس حدیث میں احمد رضا نے لفظ ’’اللہ ‘‘کو حذف کردیا اور ’’برحمۃ‘‘کو ’’رحمتہ ‘‘سے تبدیل کر دیا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(۲۶) ’’تُبْصِرْ‘‘ کو ’’تَریٰ‘‘سے اور’’تَنْسیٰ‘‘کو’’ لَاتَریٰ‘‘سے بدل دیا:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>عرض:زید نے ایک شخص کو پوشیدگی میں گناہ کرتے دیکھا اب یہ اس کے پیچھے اقتداء کر سکتا ہے یا نہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>ارشاد: کر سکتا ہے اپنے کو دیکھے اگر اس نے کبھی گناہ نہ کیا ہو تو نہ پڑھے حدیث میں ہے ’’تری القذاۃ فی عین اخیک و لا تری الجذع فی عینیک‘‘</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>(ہاں فاسق معلن کے پیچھے نماز پڑھنا گناہ ہے)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ سوم صفحہ۳۰۱نوری کتب خانہ لاہور)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اصل حدیث کو الفاظ:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جبکہ اس حدیث کے الفاظ اس طرح وارد ہیں:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
’’تبصر القذاۃ فی عین اخیک و تنسی الجذع فی عینک ‘‘</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>(المقاصد الحسنہ حرف التاء المثناۃ حدیث ۳۱۴ ص ۱۵۸ دار الکتب العلمیہ بیروت)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
حدیث کے نقل میں غلطیاں:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(۱)احمد رضا نے پہلے جملے ’’تبصرہ ‘‘کو ’’تری‘‘سے بدل دیا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(۲) اور آگے لفظ’’لاتریٰ‘‘کو لفظ’’تنسیٰ‘‘سے تبدیل کر دیا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(۲۷) حدیث میں کمی اور تبدیلی کی ایک اور غلطی:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>حدیث میں ارشاد ہوا:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>’’اذا ظھرت الفتن اوقال البدع ولم یظھر العالم علمہ فعلیہ لعنۃ اللہ والملائکۃ والناس اجمعین لا یقبل اللہ منہ صرفاً ولا عدلاً‘‘</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>ترجمہ احمد رضا: جب فتنے یا بد مذھبیاں ظاہر ہوں اور عالم اپنا علم ظاہر نہ کرے تو اس پہ اللہ اور فرشتوں اور تمام آدمیوں کی لعنت اللہ نہ اس کا فرض قبول کرے نہ نفل۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ چہارم صفحہ۳۰۶نوری کتب خانہ لاہور)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
حدیث کے اصل الفاظ:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
حالانکہ اس حدیث کے الفاظ کچھ یوں ہیں:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>’’اذاظھرت الفتن او قال البدع فلیظھرالعالم علمہ ومن لم یفعل ذلک فعلیہ لعنۃ اللہ والملئکۃ والناس اجمعین لایقبل اللہ صرفاً ولا عدلاً‘‘۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>(الجامع لاخلاق الراوی وآداب ص ۳۰۸ باب اذا ظھرت الفتن حدیث ۱۳۶۶)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
نقل حدیث میں غلطیاں:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(۱)اس حدیث میں جملہ ’’فلیظھر ‘‘(امر غائب)کو احمد رضا نے ’’ولم یظھر ‘‘(فعل مضارع نفی جحد بلم)سے تبدیل کر دیا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(۲) اور اگلے جملے ’’ومن لم یفعل ذالک ‘‘کو بالکل غائب کر دیا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(۳) اور ترجمہ بھی ان الفاظ کا کر دیا جو احمد رضا نے نقل کئے ہیں ۔لھٰذا اس غلطی کو کسی اور کی جانب منسوب کرنا ایک حقیقت کا انکار کرنا ہوگا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(۲۸) الفاظِ حدیث میں تبدیلی اور حذف:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>عرض :زمزم شریف بھی تین سانسوں میں پینا چاہئے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>ارشاد:ہاں ہر چیز کا یہی حکم ہے حدیث میں ارشاد ہوا:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>’’مصوہ مصاً ولا تعبوہ عباً فان منہ الکباد‘‘</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>ترجمہ احمد رضا:چوس چوس کر پیو غٹ غٹ کر کے بڑے بڑے گھونٹ نہ لگاؤ۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ چہارم صفحہ۳۰۸نوری کتب خانہ لاہور)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
حدیث کے اصل الفاظ:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اس حدیث کے اصل الفاظ ا سطرح ہیں:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
’’فاشر بوامصاً ولا تشربوا عباًفان العب یورث الکباد‘‘</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>(الجامع الصغیر حدیث ۷۱۰ ج ۱ ص ۴۹)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
غلطیوں کی نشاندھی:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(۱) احمد رضا نے ’’فاشربوہ‘‘کے لفظ کو ’’مصوہ‘‘سے بدل دیا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(۲) اور ’’ولا تشربوا ‘‘کو ’’ولا تعبوہ‘‘سے بدل دیا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(۳) ’’فان العبَّ یورث الکباد‘‘کو خان صاحب نے ’’فان منہ الکباد‘‘سے تبدیل کردیا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(۲۹) لفظ بدلنے کی خصلت:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
احمد رضا ایک حدیث یوں نقل کرتے ہیں:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>حدیث میں ارشاد ہوا:’’لیل تھامّۃ لا حرولابرد ولا خوف ولا ساٰمۃ ‘‘</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>ترجمہ احمد رضا:مدینہ کی رات میں نہ گرمی ہے نہ سردی نہ خوف نہ ملال‘‘۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ چہارم صفحہ۳۰۹نوری کتب خانہ لاہور)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
حدیث کے اصل الفاظ:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اس حدیث کے اصل الفاظ اس طرح ہیں:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
’’لیل تھامۃ لا حرولا مخافۃ ولا سامۃ‘‘</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>(مجمع الزوائد ،کتاب النکاح ،باب عشرہ النساء حدیث ۲۶۸۷ ج ۴ ص ۵۸۰)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
غلطی کی نشاندھی:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اس حدیث میں لفظ ’’مخافۃ ‘‘کو ’’خوف ‘‘سے بدل دیا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(۳۰) حدیث کے نقل میں بے شمار غلطیاں</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
احمد رضا لکھتے ہیں:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>جو اپنے نفس پراعتماد کرے اس نے بڑے کذاب پر اعتماد کیا ۔ حدیث میں ہے ’’القلوب فی اصبعی الرحمٰن یصرفھا کیف یشاء ‘‘</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>ترجمہ احمد رضا :انسان کے دل رحمٰن کے دست قدرت کی دو انگلیوں میں ہیں پھیرتا ہے ان کو جس طرف چاہتا ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ چہارم صفحہ۳۲۳نوری کتب خانہ لاہور)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
حدیث کے اصل الفاظ:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جبکہ حدیث کے اصل الفاظ اس طرح ہیں :</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
’’ان القلوب بین اصبعین من اصابع اللہ یقلبھا کیف یشائ‘‘</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>(جامع الترمذی ،ابواب القدر، باب ماجاء ان القلوب بین اصعی الرحمٰن، ج ۲ ص ۴۸۱)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
حدیث کے نقل کرنے میں غلطیاں:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(۱)اس حدیث میں احمد رضا ’’اِنَّ‘‘(حرف مشبہ بالفعل )کو حذف کردیا ۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(۲)لفظ ’’بین ‘‘کو ’’فی ‘‘سے بدل دیا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(۳)اور لفظ ’’اصبعین‘‘کو ’’اصبعی‘‘سے بدل دیا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(۴)اور ’’من اصابع اللہ‘‘کو ’’اصبعی الرحمن ‘‘سے بدل دیا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(۵)اور ’’یقلبھا‘‘کو ’’یصرفھا‘‘سے تبدیل کر دیا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(۶)اور حدیث کا ترجمہ بھی اسی طرح کیا ہے جس طرح الفاظ نقل کئے ہیں ۔لھذا اس غلطی کو ناشر یا مرتب کی طرف منسوب نہیں کر سکتے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(۳۱) حدیث کے الفاظ اپنی طرف سے بنادیئے</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>عرض :حضور گیند کھیلنا کیسا ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>ارشاد:عبث ہے اگرچہ صاحب ھدایہ نے ہر عبث کو حرام لکھا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ عبث باطل ہے۔حدیث میں ہے:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>’’کل لھو المؤمن باطل الا فی ثلاث ‘‘</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>ترجمہ احمد رضا :مسلمان کا ہر لھو باطل ہے مگر تین باتوں میں اول گھوڑا پھیرنا، دوسرا تیر اندازی، تیسرا اپنی عورت سے ملاعبت یہ ان تینوں میں داخل نہیں اسلئے باطل ہے۔<span style="white-space: pre;"> </span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>(ملفوظات اعلٰی حضرت، حصہ چہارم، صفحہ۳۳۸،نوری کتب خانہ لاہور)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
حدیث کے اصل الفاظ:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
حالانکہ اس حدیث کے الفاظ ہیں:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>’’کل مایلھو بہ الرجل المسلم باطل الارمیۃ بقوس وتادیبہ فرسہ وملاعبتہ اھلہ فانھن من الحق‘‘</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>(جامع الترمذی ص ۴۲۶ ج ۱ ، ابواب فضائل الجھاد ،باب ماجاء فی فعل الرمی)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(۳۲) ’’کفرۃ الجنّ‘‘کو ’’مرّدۃ الجن‘‘سے بدل دیا:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
احمد رضا خان لکھتے ہیں:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
’’میں نے بندر کو قیام کرتے دیکھا۔میں اپنے پُرانے مکان میں جس میں میرے منجھلے بھائی مرحوم رہا کرتے تھے مجلس میلاد پڑھ رہا تھا ایک بندر سامنے دیوار پر چپکا مؤدب بیٹھا سن رہا تھا جب قیام کا وقت آیا مؤدب کھڑا ہوگیا پھر جب بیٹھے وہ بھی بیٹھ گیا ۔وہ بندر تھا وھابی نہ تھا۔حدیث میں ہے۔ ’’مامن شئی الاویعلم انی رسول اللہ الامردۃ الجن والانس‘‘ ترجمہ احمد رضا:کوئی شئے ایسی نہیں جو مجھے اللہ کا رسول نہ جانتی ہو سوائے سرکش جن اور آدمیوں کے‘‘۔ <span style="white-space: pre;"> </span>(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ چہارم ،صفحہ۳۸۰،نوری کتب خانہ لاہور) جبکہ اس حدیث کے اصل الفاظ اس طرح ہیں :</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>’’مامن شئی الایعلم انی رسول اللہ الاکفرۃ الجنّ والانسِ‘‘</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>(المعجم الکبیر حدیث نمبر۶۷۲ ج ۲۲ ص ۲۶۲)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
غلطیوں کی نشاندھی:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(۱) اس حدیث میں لفظ ’’کفرۃ‘‘کو ’’مَرَدَّۃ‘‘سے بدل دیا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(۲) اور ترجمہ بھی انھیں لفظوں کا کیا جو احمد رضا نے نقل کئے ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(۳۳) حدیث کاپورا جملہ بدل دیا</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>’’سید عالم ﷺ فرماتے ہیں: جو بلا اجرت سات برس محض اللہ کی رضا کیلئے اذان دے ۔’’وجبت لہ الجنۃ ‘‘</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>ترجمہ احمد رضا :اسکے لئے جنت واجب ہوگئی‘‘۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ چہارم صفحہ۳۶۲نوری کتب خانہ لاہور)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
حدیث کے اصل الفاظ:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
’’من اذن محتسبا سبع سنین کتب لہ براء ۃ من النار‘‘</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>(سنن ابن ماجہ ،کتاب الاذان ،باب فضل الاذان، حدیث نمبر۷۲۷ ،ج ۱ ،ص ۴۰۲ قدیمی کتب خانہ)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
غلطیوں کی نشاندھی:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(۱)احمد رضا نے ’’کتب لہ براء اۃ من النار ‘‘کو ’’وجبت لہ الجنۃ ‘‘سے تبدیل کر دیا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(۲)اور ترجمہ اسی جملے کا کیا ہے جس کو احمد رضا نے نقل کیا ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(۳۴) حدیث میں لفظ’’وادرک نبوّتی‘‘کا اضافہ</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>عرض :یہ حدیث ہے:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>’’لو کان موسیٰ و عیسیٰ حیین ما وسعھا الااتباعی‘‘</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>ارشاد:یہ قادیانی ملعونوں کا حدیث پر افتراء اور زیادت ہے حدیث میں اتنا ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>’’لو کان موسیٰ حیّاً وادرک نبوتی ماوسعہ الااتباعی‘‘</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>ترجمہ احمد رضا:اگر موسیٰ زندہ ہوتے اور میری نبوت کا زمانہ پاتے تو انھیں کچھ گنجائش نہ ہوتی سوائے میری اطاعت کے۔‘‘</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>افتراء بھی کیا اور کال نہ کٹا۔الخ</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ چہارم، صفحہ۳۶۳،نوری کتب خانہ لاہور)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
حدیث کے اصل الفاظ:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
دراصل اس حدیث کے الفاظ یوں ہیں:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
’’لو کان موسیٰ حیاً ماوسعہ الااتباعی‘‘</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>(شعب الایمان للبیھقی ،باب فی الایمان بالقرآن، حدیث نمبر ۱۷۷ ،ج ۱ ،ص ۲۰۰)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
غلطیوں کی نشاندھی:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(۱)اس حدیث میں احمد رضا نے ’’وادرک نبوتی‘‘کا اضافہ کردیا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(۲)اور ترجمہ بھی اس اضافی جملے کا لکھ دیا جبکہ یہ اصل حدیث میں موجود نہیں ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(۳۵) الفاظ حدیث میں مختلف تبدیلیاں</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
احمد رضا خان نے حضرت ابراھیم علیہ السلام کا واقعہ یوں نقل کیا ہے:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
’’جب آپ کو گو پھن میں بٹھا کر پھینکا ۔آپ آگ کی محاذات پر آئے جبریل علیہ السلام حاضر ہوئے عرض کی :الک حاجۃ؟ابراھیم کوئی حاجت ہے۔فرمایا :امامنک فلا،ہے تو مگر تم سے نہیں ،عرض کی تو جس سے ہے اسی سے کہئے ۔فرمایا:علمہ بحالی کفا نی عن سوالی ۔وہ خود جانتا ہے عرض کی ضرورت نہیں۔‘‘ <span style="white-space: pre;"> </span>(ملفوظات اعلٰی حضرت، حصہ چہارم، صفحہ۳۸۲،نوری کتب خانہ لاہور) اصل واقعہ کے الفاظ:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اس واقعہ کے اصل الفاظ اسطرح ہیں:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
’’ان ابراھیم حین قیدوہ لیلقوہ فی النار قال لاالہٰ الا انت سبحانک رب العالمین لک الحمد ولک الملک لا شریک لک قال ثمہ رموابہ فی المنجنیق من مضرب شاسع فاستقبلہ جبریل فقال:یا ابراھیم الک حاجۃ؟ قال اماالیک فلا ،فقال جبریل فاسأل ربکفقال حسبی من سؤالی علمہ بحالی‘‘ (فی تفسیر ابن کثیر ،ص۲۴۵ ج ،۳ قدیمی کتب خانہ، قرطبی الانبیاء تحت الآیۃ ۶۹ ص ۲۶۵ ج ۱۱ مکتبہ رشید کوئٹہ ) غلطیوں کی نشاندھی:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>’’حضرت ابراھیم علیہ السلام نے حضرت جبریل ؑ کو یہ جواب دیا ’’اماالیک فلا‘‘ان کے الفاظ کو احمد رضا نے ’’امامنک فلا‘‘لکھا ہے۔‘‘</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>اور جملہ ’’علمہ بحالی کفا نی عن سوالی ‘‘کو احمد رضا نے ’’حسبی من سؤالی علمہ بحالی‘‘کے الفاظ سے نقل کیا ۔(یہ جملہ ابن کثیر میں نہیں ہے)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(۳۶) حدیث کی خود ساختہ ترتیب</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>حدیث میں ہے ایک شخص نے دربار اقدس میں ڈکار لی۔فرمایا:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>’’کف عنا حشیائک فان المول الناس جوعاً یوم القیٰمۃ شبعاً فی الدنیا‘‘</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>ترجمہ احمد رضا:ہم سے اپنی ڈکار دور رکھ کہ دنیا میں جو زیادہ مدت تک پیٹ بھرے تھے وہ قیامت کے دن زیادہ مدت تک بھوکے رھیں گے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ دوم، صفحہ۲۱۹،نوری کتب خانہ لاہور)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اصل حدیث کے الفاظ:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اصل حدیث ان الفاظ کے ساتھ نہیں ہے بلک اصل حدیث میں مختلف الفاظ وارد ہیں:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>(۱)’’لاتفعل یا ابا جحیفۃ ان اطول الناس جو عاً یوم القیامۃ اطولھم شبعاً فی الدنیا‘‘۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>(کنز العمال ص ۸۷ ج ۳ ادارہ تالیف اشرفیہ ملتان حدیث ۶۲۱۶ )</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>(۲)حدیث ۶۲۱۷ کے الفاظ اس طرح ہیں:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>’’اکفف من جشائک فان اکثر الناس فی الدنیا شبعاً اکثر ھم فی الآخرۃ جوعاً‘‘۔(عن ابی جحیفہ)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>(۳) حدیث ۶۲۱۸ کے الفاظ یوں ہیں :</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>’’یا ابا جحیفہ اقصر من جشائک فان المول الناس جوعاً یوم القیامۃ اکثرھم شبعاً فی الدنیا۔‘‘</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>(۴)حدیث ۶۲۱۹ کے الفاظ اس طرح مذکور ہیں:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>’’یاھذا اکفف من جشائک فان اکثر الناس فی الدنیا شبعاً اکثر ھم الآخرۃ جوعاً‘‘</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>(کنز العمال ،کتاب الاخلاق قسم الاقوال ص ۸۷ ج ۳ ادارہ تالیفات اشرفیہ )</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>’’انا امۃ امیۃً لا نکتب ولا نحسب اشھر ھٰکذا وھکذا وھکذا فان غم علیکم فعدواثلثین‘‘</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>ترجمہ احمد رضا :ہم امت امیۃ ہیں نہ لکھتے ہیں نہ حساب کرتے ہیں ۔مہینہ ۲۹ کا ہے یا ۳۰ کا تو اگر تمہیں شبہ پڑجائے تو ۳۰ کی گنتی پوری کرلو۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
حدیث میں غلطیاں:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اس جگہ احمد رضا خان نے دو حدیثوں کو جمع کر دیا ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
کسی ایک حدیث میں یہ جملے نہیں ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(۱) ’’انا اُمَّۃ امیّۃً ‘‘سے ’’وَھٰکذا‘‘تک ایک حدیث کے الفاظ ہیں ۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>(ابوداؤ ص ۳۳۷ج ۱ کتاب الصیام ، باب الشھریکون تحا وعشرین حدیث ۲۳۱۹)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
حدیث کے دوسرے جملے (فان غم علیکم فعدواثلثین)کے الفاظ کسی حدیث کی کتاب میں وارد نہیں ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
حدیث میں مختلف الفاظ آئے ہیں لیکن احمد رضا کے نقل کردہ الفاظ خود ساختہ ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(۱)’’فان غم علیکم فاتمواثلاثین۔‘‘</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>(نسائی کتاب الصوم ،باب اکمال شعبان ص ۳۰۱ ج ۱ )</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(۲) ’’فان غم علیکم الشھر فعدواثلاثین۔‘‘<span style="white-space: pre;"> </span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>(مشکوٰۃ ۱۷۴ ج ۱)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اس جگہ تو احمد رضا نے دو حدیثوں کوخواہ مخواہ جمع کر دیا</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(۲) اور دوسری غلطی یہ کی کہ حدیث کے الفاظ احمد رضا نے خود ساختہ نقل کر دیئے ۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(۳۷)حدیث میں اپنی طرف سے ’’فاخبروہ ‘ ‘ کا اضافی کر دیا</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>عرض:داڑھی چڑھانا کیسا ہے؟</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>ارشاد:حدیث میں ہے:من عقد لحیۃ فاخبروہ ان محمدﷺمنہ برئی۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
ترجمہ:جو شخص داڑھی باندھے یسے خبر دیدو کی محمدﷺ اس سے بیزار ہیں‘‘۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>(ملفوظات صفحہ ۲۱۲ حصہ دوم نوری کتب خانی لاہور)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
احمد رضا خان سے یہی سوال و جوابات حصہ سوئم میں بھی مذکور ہے ۔وہاں احمد رضاخان نے اس طرح جواب دیاہے:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>ارشاد:نسائی شریف میں ہے :’’من عقد لحیۃ فاخبروہ ان محمدﷺ برئی منہ۔‘‘الخ</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>(ملفوظات صفحہ ۲۶۱ حصہ سوئم نوری کتب خانی لاہور)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
حدیث کے اصل الفاظ:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جبکہ نسائی شریف میں یہ روایت ان لفظوں کے ساتھ منقول ہے :</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
’’من عقد لحیۃ ان محمدﷺمنہ برئی۔‘‘</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>(نسائی شریف کتاب الزینتہ باب عقد الحیتہ ص۱۳۶ ج۸ دارالکتب العلمیہ بیروت)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
غلطیاں:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(۱)حصہ دوئم و سوئم کے دونوں حوالوں میں احمد رضا نے حدیث میں فاخبرہ کے الفاظ کا اضافہ کیا ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(۲)اور ترجمہ میں بھی یہ اضافت موجود ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(۳)اور حصہ سوئم میں ’’منہ برئی‘‘کو’’ برئی منہ‘‘ سے تبدیل کر دیا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(۳۸)تبدیلی اور اضافہ کا ایک اور نمونہ</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
احمد رضا سود سے متعلق روایت نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>دوسری صحیح حدیث میں ہے۔رسول اکرمﷺ فرماتے ہیں:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>’’الربوٰ ثلاثۃو سبعون جوباً ایسرھنّ ان یقع الرجل علی امّہ‘‘</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>سود۷۳ گناہ کے برابر ہے۔جن میں سب سے ہلکا یہ کے آدمی اپنی ماں کے ساتھ زنا کرے‘‘۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>(ملفوظات صفحہ ۲۱۲ و۲۱۳ حصہ دوم نوری کتب خانہ لاہور)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
حدیث کے اصل الفاظ:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
حلانکہ حدیث کے اصل الفاظ اس طرح ہیں:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
’’الربوٰ ثلاثۃو سبعون باًباً ایسرھا ان ینکح الرجل امّہ۔‘‘</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>(عن ابن مسعود)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>(کنزالعمال کتا ب البیوع قسم القول حدیث ص ۹۷۵ج۴دار الکتب العلمیہ بیروت۔ادارہ تالیفات اشرفیہ ملتان)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
غلطیوں کی نشاندہی:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(۱)اس روایت میں احمد رضا نے’’باًباً ‘‘ کے لفظ کو’’جوباً ‘‘سے</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(۲)’’ایسرھا‘‘ کو ’’‘ایسرھنّ‘سے</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(۳)اور’’ینکح‘‘ کو ’’یقع‘‘ سے تبدیل کر دیا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(۴)اور آخر میں علیٰ کے لفظ کا اضافہ بھی کر دیا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(۵)اور ترجمہ بھی اپنی نقل کردہ حدیث کا کیا۔احمد رضا کے نقل کردہ الفاظ حدیث کنزالعمال کے کسی جلد کے کسی صفحے پر نہیں ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(۳۹)لفظ کلھماکا اضافہ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>’’صحیح حدیث فرمایا:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>الراشی والمرتشی کلھما فی النار</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>ترجمہ:رشوت لینے والا اور دینے والا دنوں جہنمی ہیں‘‘۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>(ملفوظات صفحہ ۵۶ حصہ اول سن اشاعت ۲۰۰۰نوری کتب خانہ لاہور)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اصل الفاظ یوں ہیں:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
’’الراشی والمرتشی فی النار‘‘</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
ترجمہ:رشوت لینے والا اور دینے والا دنوں جہنمی ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>(مجمع الزوئد کتاب الاحکام باب فی الرشاء حدیث۷۰۲۷ ج۴ ص۳۵۹ دارالفکر بیروت)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(۴۰)غلظ حدیث لکھنے کا ایک اور ثبوت</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
’’شب معراج حضور اقدس ﷺ نے ملاحظہ فرمایا کہ کوئی ژخص رب عزوجل کے حضور بلند آواز میں ہم کلام کر رہا ہے ۔ارشاد فرمایا :اے جبریل یہ کون شخص ہیں۔عرض کی موسیٰ ہیں ۔فرمایا:کیا اپنے رب پر تیزی کرتے ہیں۔عرض کیا :قدعرف ربہ حدتہ انکا رب جانتا ہے انکا مزاج تیز ہے‘‘۔ <span style="white-space: pre;"> </span>(ملفوظات صفحہ۹ ۲۲ حصہ سوئم نوری کتب خانہ لاہور) حدیث کے اصل الفاظ:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جبکہ اصل الفاظ یہ ہیں:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>’’ان اﷲقدعرف لہ حدتہ‘‘</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>(عمدۃالقاری کتاب مناقب الانصار باب المعراج ج۱۱ ص۶۰۵)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
غلطیاں:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اس حدیث میں احمد رضا نے لفظ ان اﷲکو بالکل حذف کر دیا اور اس کی جگہ لفظ ربہ کا اضافہ کر دیا۔اور لفظ لہ کو بھی گیارھویں کا حلوہ سمجھ کر کھا گئے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(۴۱)حدیث کے الفاظ میں تبدیلی اور کمی</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>عرض :حضور یہ صحیح ہے کہ عالم کی زیارت کا ثواب ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>ارشاد:ہا ں صحیح حدیث میں وارد ہوا :’’النظر الیٰ وجہ العالم عبادۃ النظر الیٰ الکعبہ عبادۃ النظر الیٰ المصحف عبادۃ‘‘ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
ترجمہ:عالم کے چہرہ کو دیکھنا عبادت ہے ،کعبہ معظمہ کو دیکھنا عبادت ہے،قرآن عظیم کو دیکھنا عبادت ہے‘‘۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>(ملفوظات صفحہ۲۹۳ حصہ سوئم نوری کتب خانہ لاہور)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
حدیث کے اصل الفاظ</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>’’من العبادۃالنظر الیٰ الکعبہ والنظر الیٰ المصحف والنظر الیٰ وجہ العالم۔‘‘</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>(کنزالعمال کتاب المواعظ جلد۱۵ ص۳۷۱ حدیث۴۳۴۸۶)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
حدیث نقل کرنے میں غلطیاں</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
۱)اس حدیث میں احمد رضا نے لفظ من العبادۃ کو ختم کر دیا ۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
۲)اور لفظ عبادۃ کوجملے کے بعد زیادہ کر دیا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
۳)اور النظر الیٰ وجہ العالم جو اصل حدیث میں سب سے آخر میں تھا سب سے پہلے ذکر کر دیا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
۴)النظر الیٰ المصحف کا لفظ جوحدیث کے درمیان میں تھا اسے بالکل آخر میں کر دیا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
۵)اور اسی طرح لفظ النظر الیٰ الکعبہ کے بالکل شروع میں جسے احمد رضا نے درمیان میں کر دیا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
۶)اور ترجمہ بھی اسی ترتیب پر کیا جس ترتیب پر الفاظ حدیث نقل کئے ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(۴۲)ایک جھوٹی حدیث کے غلط الفاظ</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>’’مؤلف : اعلیٰحضرت قبلہ کی حدت مزاج کا تذکرہ تھا ۔ایک صاحب نے ذکر کیا ایک تو مزاج گرم اس پر علم کی گرمی اس پر ارشاد فرمایا : حدیث میں ہے’’ ان الحدۃ تعتری قراء امتی لعزۃ القرآن فی اجوافھم قراء محاورۃ ‘‘ حدیث میں علماء کو کہتے ہیں۔یعنی میری امت کے علماء کو گرمی پیش آئے گی۔قرآن کی عزت کے سبب جوان کے دلوں میں ہے‘‘۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>(ملفوظات صفحہ۳۳۱حصہ چہارم نوری کتب خانہ) </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جملے کے الفاظ</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>’’ ان الحدۃ تعتری قراء امتی لعزۃ القرآن فی اجوافھم قراء محاورۃ ‘‘۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>(المعجم الکبیر للطبرانی حرف الحاء حدیث۱۱۴۷۱ ج۱۱ ص۱۰۰)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>اس جگہ احمد رضا نے جہاں ایک جھوٹی حدیث سے استدلال کیا دوسری طرف اس کے الفاظ بھی غلط نقل کئے ہیں۔اس حدیث کی سند میں ابو البختری وھب بن وھب ہے جو کذاب (جھوٹا) اور وضاع (جھوٹی حدیثیں گھڑ نے والا )ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
علامہ ذھبی فرماتے ہیں:’’ھذہ احادیث مکذوبتہ علیٰ رسول اﷲﷺ‘‘ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>(میزان الاعتدال ص۳۵۴ج۴)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="white-space: pre;"> </span>یہ وہ حدیث ہیں جو آپ ﷺ پر جھوٹ باندھی گئی ہیں آپ نے نہیں کہی۔<span style="white-space: pre;"> </span>(مطالعہ بریلویت ج۲ ص۸۹)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: center;">
٭٭٭</div>
<div style="text-align: center;">
<br /></div>
</div>
Sarbakafhttp://www.blogger.com/profile/14532797594298636576noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3854913904789287339.post-73959071187501697242019-03-11T04:14:00.002-07:002019-03-11T04:14:17.327-07:00بریلوی عقیدہ ”علمِ غیب“ (دوسری اور آخری قسط)<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<b>احتشام انجم ﷾( پنجاب، پاکستان)٭</b></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
عقیدہ علم غیب کے متعلق مزید حوالہ جات </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اب ہم ان کے عقیدہ سے ان کے کتابوں سے کچھ تناقضات پیش کریں گے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
٭:احمد رضا صاحب لکھتے ہیں:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
’’وہ صفت جو غیر انسان کے لئے ہو سکتی ہے انسان کے لئے کمال نہیں۔اور جو غیر مسلم کے لئے ہو سکتی ہو مسلم کے لئے کمال نہیں‘‘</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(ملفوظات ص ۳۰۸، ۳۰۹)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جبکہ مفتی احمد یار نعیمی لکھتے ہیں:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
’’شیطان کو بھی آئندہ غیب کی باتوں کا علم دیا گیا ہے‘‘</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(نور العرفان )</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
ایک جگہ لکھتے ہیں:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
’’رب نے شیطان کو بھی علم غیب دیا کہ اس نے آئندہ کے متعلق جو خبر دی آج ویسا ہی دیکھا جا رہا ہے‘‘ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(نور العرفان )</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اب ایک وصف غیر انسان کے لئے مان رہے ہیں تو خان صاحب کے اصول سے یہ نبی ﷺ کے لئے کمال ہی نہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
٭مفتی احمد یار صاحب لکھتے ہیں :</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
’’تیسرے یہ کہ غیب کی نسبت اپنی طرف کرنے کو ناپسند فرمایا‘‘ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(جاء الحق ص۱۲۲)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
آگے لکھتے ہیں :</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
’’شارحین نے کہا ہے کہ حضور ﷺ کا اسکو منع فرمانا اس لئے ہے کہ اس میں علم غیب کی نسبت حضور کی طرف ہے لہذا آپکو ناپسند آئی‘‘</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(ایضاً)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
یعنی اس عقیدہ کی بنیاد پر انہوں نے حضور ﷺ کی ناپسند کو پسند بنایا ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جبکہ بریلوی مولوی حسن علی رضوی کی مصدقہ کتاب سگریٹ نوشی کے مضمرات کے صفحہ۵ پر ہے کہ جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی ناپسندیدہ چیزوں کا ارتکاب کرتے ہیں۔وہ رسول ﷺ کو ایذا دیتے ہیں۔جس پر ان کے لئے ذلت کا عذاب ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اورمفتی حنیف قریشی لکھتے ہیں ؛</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
’’اگر کوئی اہل ایمان دانستہ اذیت رسول کا ارتکاب کرتا ہے تو مسلمان نہیں رہتا کافر ہو جاتا ہے۔‘‘</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
( غازی ممتاز حسین قادری ص ۲۰۱)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
لیجئے حضور ﷺ کی ناپسند کو پسند بنا کر بریلو ی کافر ہو گئے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
٭مفتی فیض احمد اویسی لکھتے ہیں:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
’’نبی ﷺ کے لئے علم غیب کا لفظ نہیں استعمال کرنا چاہئے۔آج تک کسی عالم یا مفسر نے حضور ﷺ کے لئے علم غیب کا استعمال نہیں کیا۔اس لئے کہاعالم الغیب اللہ کے اسماء میں سے ہے۔لہذا یہ صفت مخلوق پر استعمال کرنے سے شرک فی الاسماء ہو گا اس لئے حضور وﷺکے لئے علم غیب ثابت کرنا شرک ہے‘‘ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(غایۃ المامول فی علم الرسول ص۳۴۸)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
لیجئے آج کے سارے بریلوی مشرک ہوئے۔یہ فتوی ہمارا نہیں ان کے اپنے مفتی کا ہے۔ابذاتی مان کر مشرک ہوں یا عطائی ان کی اپنی مرضی۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
*…*…*</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اب آتے ہیں کہ رضاخانیوں کے نزدیک نبی ﷺ کو عالم الغیب کہہ سکتے ہیں یا نہیں۔آپکو یہ جان کر مزید حیرت ہو گی کہ اس مسئلہ پر بھی ان کا تضاد ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
٭ہم اب وہ مولوی پیش کرتے ہیں جو نبی ﷺ کے لئے عالم الغیب کا لفظ استعمال کرتے ہیں</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
۱:مولوی نظام الدین ملتانی لکھتے ہیں:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
’’آپکی ذات و صفات کا اول سے عالم الغیب ہوناثابت ہوا یا نہیں‘‘</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(کشف المغیبات مصدقہ پیر جماعت علی شاہ ص ۲۳)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
۲:مولوی عبد الحامد قادری بدایونی لکھتے ہیں:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
’’محدثین اورمتقدمین کے نزدیک حضور ﷺ عالم الغیب تھے‘‘</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(تصحیح العقائد ص۴۹)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
۳:حافظ محمد حسن صاحب لکھتے ہیں :</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
’’پھر بھی ہمارا دعوی ثابت ہوا کہ آپ عالم الغیب تھے‘‘</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(العقائد الصحیحہ فی تردید الوہابیہ ص۴۵)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
۴:آئینہ اہل سنت کتاب میں بھی مولوی ابو کلیم صدیق فانی صاحب پیر مہر علی شاہ صاحب کے حوالے سے نبی ﷺ کو عالم الغیب تسلیم کرتے ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
یہ تو تھے وہ حضرات جو نبی ﷺ کو عالم الغیب مان رہے تھے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
٭اب ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دکھاتے ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
۱:مفتی اختر رضا بریلوی صاحب لکھتے ہیں؛</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
’’بے شک عالم الغیب کا استعمال غیر اللہ کے لئے روا نہیں۔‘‘</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(انوار رضا ص ۱۳۵)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
٭یہاں اختر رضا صاحب نے نبی کو غیر اللہ کہا ہے جبکہ عمر اچھروی صاحب لکھتے ہیں کہ ان آیت قرانیہ میں اللہ تعالی نے اپنے اور اپنے رسولوں کے درمیان تفرقہ ڈالنے والوں اور رسولوں کو غیراللہ کہنے والوں کے واسطے فتوی کفر ارشاد فرمایا۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(مقیاس حنفیت ص۴۳)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اب یہ فتوی اختر رضاصاحب پر جا لگا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
۲:ایک جگہ ازہری صاحب لکھتے ہیں:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
’’رہا آپ کا ہماری نسبت یہ کہنا کہ حضور ﷺ عالم اغیب ہیں بالکل افتراء ہے۔عالم غیب مثل رحمن و قیوم وقدوس وغیرہ اسماء خاصہ بزات باری میں سے ہے۔اس کا اطلاق غیر خدا کے لئے ہم اہل سنت کے نزدیک حرام و نا جا ئز ہے‘‘</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(انوار رضا ص ۱۳۴)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
۳:مولوی شفیع اوکاڑوی لکھتے ہیں:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
’’ہم بھی تسلیم کرتے ہیں مخلوق کو عالم الغیب کہنا جائز نہیں‘‘</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(تعارف علماء دیوبند ص۵۹)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
۴:مولوی احمد رضا صاحب لکھتے ہیں:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
’’لہذا مخلوق کو عالم الغیب کہنا مکرہ‘‘</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(الامن و العلی )</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
۵: مولوی جہانگیر صاحب لکھتے ہیں:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
’’ جبکہ عالم الغیب کا استعمال حضور ﷺ پر کسی اہل سنت و جماعت بریلو ی کے اکابر عالم نے نہیں کیا۔‘‘</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(مناظرہ اہل سنت بریلوی ص۴۳۷)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اب یہ جملہ فتوی جات ان حضرات پر ضا لگے جو نبی ﷺکو عالم الغیب کہہ رہے تھے۔اور یہ بات بھی صاف ہو گئی کہ اس کا اس بات پر بھی شدید اختلاف ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
*…*…*</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
رضاخانی دلائل کے مختصر جوابات </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
٭بریلوی کہتے ہیں کہ قران میں ہے کہ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اور</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اس سے ثابت ہے کہ قران میں ہر چیز کا روشن بیان ہے اور حضور ﷺ قران کو جانتے تھے لہذا ان کو بھی ماکان و مایکون کا علم ملنا اس آیت سے ثابت ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جواب نمبر ۱:اس آیت سے ان کا استدلال درست نہیں کہ یہ آیت قطعی الدلالۃ نہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ لفظ کل ہمیشہ عموم کے لئے ہی نہیں خصوص کے لئے بھی آتا ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جواب نمبر ۲:اگر واقعی قران میں ہر ہر شی کا بیان تفصیلی ہے تو فقہا کو اجتہاد کی کیا ضرورت پیش آئی؟</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جواب نمبر ۳:اسی قران کریم میں ہے لَمْ نَقْصُصْ عَلَيْكَ٭ یعنی بعض انبیاء کے قصے ہم نے آپ کو نہیں بیان کئے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
لفظ کل عموم کے لئے نص قطعی نہیں ہے بلکہ خصوص کے لئے بھی آتا ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
ہم اس پر بھی چند دلائل عرض کرتے ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
۱:قران میں ہی ’علی کل جبل‘ بھی آیا ہے لیکن اس سے مراد چن پہاڑ ہیں نہ کہ کل۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
۲:ملکہ بلقیس کے بارے میں ارشاد ہوا کہ</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
وَأُوتِيَتْ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ٭</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
یعنی اور ہر ایک چیز اس کو عطا کی گئی تھی۔ جبکہ اس کو سب کچھ ملا ہو گا مگر نبوت اور ملک سلیمان تو ہرگز نہیں ملا۔اور اسے داڑھی بھی یقینا نہیں ملی تھی ۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
تو یہاں بھی کل خصوص کے لئے آیا ہے نہ کہ عموم کے لئے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اور ملا جیون ؒفرماتے ہیں:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
’’وکلمۃ کل یحتمل الخصوص‘‘</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
یعنی کلمہ کل خصوص کا احتمال رکھتا ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اور جب یہاں احتمال آگیا تو استدلال کیوں کر صحیح ہو گا؟؟</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
٭بریلوی کہتے ہیں و علم آدم الاسمآء کلھا کہ جب آدم علیہ السلام کو تمام اشیاء کے نام سکھا دیے تو نبی ﷺ کو ان سے بھی زیادہ علم غیب ہونا چاہئے کہ آپ ﷺ تو اما م الانبیاء ہیں۔٭</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جواب نمبر ۱:انہوں نے قیاس سے کام لیا ہے اور عقائد میں قیاس نہیں چلتا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جواب نمبر۲:دلیل قطعی الدلالۃ نہیں ہے کیوں کہ ناموں کی بات ہے نہ کہ ہر ہر ذرے کا علم۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جواب نمبر ۳:اگر آدم علیہ السلام کو ہر ہر چیز کا علم غیب حاصل ہو گیا تھا تو ابلیس نے آپ کو دھوکہ دے کر نکلوایا اور قسم کھا کر ان کو پھسلایا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جواب نمبر ۴:یہاں بھی لفظ کل ہے جو کہ احتمال رکھتا ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
لہذا یہ آیت ان کی دلیل نہیں بن سکتی۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
٭بریلوی کہتے ہیں کہ فلا یظہر علی غیبہ احدا الا من ارتضی من رسول یعنی اللہ اپنے غیب پر کسی کو مسلط نہیں کرتا سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے تو اس آیت سے بھی نبی ﷺ کو علم غیب کلی ملنا ثابت ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
٭جواب٭</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جواب نمبر ۱:یہ آیت مکی ہے اگر اس سے علم غیب مکمل مل گیا تو پھر قران اس کے بعد بھی کیوں نازل ہوتا رہا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جواب نمبر ۲:اس سے پہلے والی آیت میں آپ کے لئے علم قیامت کی نفی موجود ہے ۔جو کے آپ کے ما کان ومایکون کے عقیدے کا رد کر رہی ہے تو آپ کا مدعیٰ کیسے ثابت ہوا؟</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جواب نمبر ۳: اس میں اظہار الغیب کے الفاظ ہیں کے اظہار الغیب ہمارا عقیدہ ہے آ کو علم غیب پر دلیل دینی ہے ۔پھر ہم علم غیب اور اظہار الغیب میں فرق بھی پیچھے بتا آئے ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اس میں بھی غیب کی بعض باتوں کا ذکر ہے نہ کے کل۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
٭بریلوی کہتے ہیں کہ وما ھو علی الغیب بضنین یعنی نبی ﷺ غیب بتانے میں بخیل نہیں۔تو اس سے پتا لگا کہ ان کے پاس علم غیب ہے تو ہی بتاتے ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
٭جواب٭</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جواب نمبر ۱: یہ سورۃ مکی ہے ( دیکھئے روح المعانی) اگر اس سے علم غیب مکمل مل گیا تو پھر قران اس کے بعد بھی کیوں نازل ہوتا رہا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جواب نمبر ۲:قطعی الدلالۃ نہیں ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جواب نمبر ۳:بعض مفسروں نے ھو سے مراد قران لیا ہے دیکھئے تفسیر عزیزی و حقانی۔تو یہ آیت قطعی الدلالۃ نہ رہی۔ابن کثیر کہتے ہیں اللہ نے نبی ﷺپر قران اتارا آپ اس قران کے سنانے میں بخل نہیں کرتے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جواب نمبر ۴:بضنین اور بظنین دو قراتیں ہیں دونوں متواتر ہیں(دیکھئے ابن کثیر)۔اس لئے یہ قطعی الدلالۃ نہ رہی۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
٭بریلوی کہتے ہیں کہ</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
وماکان اللہ لیطلعکم علی الغیب و لکن اللہ یجتبی من رسلہ من یشاء</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
یعنی اور اللہ کی شان یہ نہیں کی اے عام لوگو تم کو غیب پر مطلع کرے ہاں اللہ چن لیتا ہے اپنے رسولوں میں جس کو چاہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
نبی ﷺ کو علم غیب اس سے ثابت ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
٭جواب٭</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جواب نمبر ۱:یہ غزوۂ احد میں نازل ہوئی۔۳ ہجری میں پیش آیا۔ اگر اس سے علم غیب مکمل مل گیا تو پھر قران اس کے بعد بھی کیوں نازل ہوتا رہا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جواب نمبر ۲:اس میں بھی اطلاع الغیب کا لفظ ہے جبکہ آپ کو علم غیب ثابت کرنا ہے اور ہم پیچھے بتا آئے ہیں کہ علم غیب اور اطلاع الغیب میں فرق ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جواب نمبر ۳:اس سے مراد بھی بعض غیب پر مطلع ہونا ہے جبکہ آپ کا عقیدہ کلی اس سے ثابت نہیں ہوتا۔(دیکھئے تفسیر مظہری ، معالم التنزیل و غیرہ)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
٭ بریلوی کہتے ہیں کہ وعلمک ما لم تکن تعلم یعنی تم کو سکھا دیا جو کچھ تم نہ جانتے تھے۔ اس آیت سے بھی نبی ﷺ کے لئے علم غیب کا اثبات ہوتا ہے۔اور تفسیر معالم التنزیل اور خازن وغیرہ میں اس آیت کی تفسیر میں علم غیب کے لفظ آئے ہیں۔لہذا آپ ﷺ کے لئے علم غیب ثابت ہوا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
٭جواب٭</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جواب نمبر ۱:اس میں لفظ ما ہے جو قطعی نہیں احتمال رکھتا ہے۔ان کو کلی علم غیب کے لئے قطعی ثبوت پیش کرنا تھا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جواب نمبر ۲:یہ آیت اوائل ۴ ہجری میں نازل ہوئی۔ اگر اس سے علم غیب مکمل مل گیا تو پھر قران اس کے بعد بھی کیوں نازل ہوتا رہا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جواب نمبر ۲:قران میں ہی ہے و علم الانسان مالم یعلم یعنی اللہ نے انسان کو وہ باتیں سکھائیں جو وہ نہیں جانتا تھا۔ لیجئے اب تمام انسانوں کو ہی علم غیب حاصل ہونا ماننا پڑے گا رضاخانی منطق سے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جواب نمبر ۳:بعضوں نے اس سے مراد علم غیب لیا ہے لیکن قیل کے ساتھ جو ضعف کی طرف اشارہ ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جواب نمبر ۴:پھر اگر بعض حضرات نے یہاں علم غیب مراد لیا بھی ہو تو وہ حضرات بریلوی اصول سے کافر ہیں۔کہ</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
خان صاحب بریلوی لکھتے ہیں:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
’’علم جب کہ مطلق بولا جائے۔خصوصاََ جب کہ غیب کی طرف مضاف ہواس سے مراد علم ذاتی ہوتا ہے‘‘</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(ملفوظات حصہ سوم ص۲۵۵)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
تو ان کے اعلی حضرت کی روسے وہ مفسر جنہوں نے علم غیب مراد لیا ہے تو وہ ذاتی ہے۔اور جو کسی کے لئے ذاتی علم مانے اس کے متعلق خانصاحب کیا فرماتے ہیں:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
’’کوئی شخص کسی مخلوق کے لئے ذرہ بھی علم ذاتی مانے یقینا کافر ہے‘‘</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(ملفوظات ص ۲۵۶)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
لیجیے اب وہ مفسر جن کو انہوں نے دلیل بنایا وہ تو ان کے نزدیک کافر ہو گئے۔اب یہ صورت ہے کہ یا تو ان کو کافر کہیں یا ان کی اس بات کی تاویل کریں۔تو اس کی تاویل دیوبندیوں پر لازم نہیں بریلوی حضرات کو بھی اس کی تاویل کرنا ہو گی۔تو ماننا پرے گا کہ یہاں علم غیب لغوی طور پر مراد ہے ورنہ رضاخانی اگر یہ تاویل مراد نہ لیں تو ان مفسروں پر فتوی کفر ارشاد فرمائیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اس پرایک حوالہ بریلوی مولوی کا پیش کرتے ہیں</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
مولوی پیر محمد چشتی صاحب لکھتے ہیں؛ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
’’جہاں جہاں ذوات قدسیہ انبیاء و مرسلین اور ان کے متبعین کے لئے علم غیب کا ثبوت آیا ہے وہ علم غیب کے لغوی مفہوم پر محمول ہیں ‘‘ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(اصول تکفیر ص ۳۶۰)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
لیجئے یہ بات بھی صاف ہو گئی کہ ان مفسروں نے جہاں علم غیب کا لفظ استعمال کیا وہ لغوی طور پر استعمال</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
کیا۔ جبکہ ان کو شرعی طور پر ثابت کرنا ہے جو ان کا ثابت کرنا ممکن نہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
نوٹ:یہ اصول ہر جگہ استعمال کیا جائے گا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
٭بریلوی کہتے ہیں کہ خلق الانسان ۔علمہ البیان سے بھی نبی ﷺ کو ما کان ومایکون کا علم غیب حاصل ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
٭جواب٭</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جواب نمبر ۱:یہ آیت مکی ہے۔ اگر اس سے علم غیب مکمل مل گیا تو پھر قران اس کے بعد بھی کیوں نازل ہوتا رہا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جواب نمبر ۲:کئی حضرات نے جنس انسان مراد لئے ہیں نہ کہ نبی ﷺ۔جیسے جلالین وغیرہ۔تو یہ قطعی الدلالۃ نہ ہوئی۔لہذا آپ کو مفید نہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جواب نمبر ۳:اگر یہاں ما کان و مایکون یہ مراد ہو تو بھی اس سے جمیع علم لینا مراد نہیں اور یہ آپ کو مفید نہیں،آپ ﷺ نے ما کاناومایکون کی بے شمار خبریں دی ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جواب نمبر ۴:مولانا کرم الدین دبیر جن کو شرف قادری صاحب نے اپنی کتاب میں اپنا اکابر مانا ہے ۔وہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
’’علم ماکان و ما یکون خاصہ ذات باری تعالی ہے۔‘‘</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(آفتاب ہدایت ص۱۸۵)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
لیجئے ان کے گھر سے بات صاف ہو گئی۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: center;">
٭٭٭</div>
<hr />
<div style="text-align: center;">
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
٭ مصنف موصوف کی اس تحریر کی پہلی قسط پچھلے شمارے میں ان کے قلمی نام ”شمشیرِ دیوبند“ سے چھپی تھی۔ ان کا اصل نام احتشام الدین ہے۔ قارئین نوٹ فرمالیں۔ (مدیر)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
٭ سورہ ۴، النساء:۱۶۴، سورہ غافر:۷۸ (مدیر)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
٭ سورہ ۲۷، النمل:۲۳(مدیر)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
٭ چیزوں کے نام پتہ ہونے سے ہر شے کے کلی علم کا کیا تعلق ہے؟ نیز عَلَّمَ کا لفظ بتا رہا ہے کہ وہ علم بھی حضرت آدم کی ذاتی شان نہیں تھی، بلکہ در حقیقت انہیں اللہ نے سکھایا تھا جس کی وجہ سے انہیں فرشتوں پر فضیلت حاصل ہوئی۔ بالکل یہی بات ہم اہلِ سنت والجماعت بھی کہتے ہیں کہ نبی پاکﷺ کو تمام انسانوں پر بلاشبہ فضیلت حاصل ہے لیکن آپﷺ کا علم بھی اللہ کا عطا کردہ تھا۔ یعنی عالم الغیب ہونا صرف اللہ ہی کی صفت قرار پائی جو عین قرآن کے مطابق ہے۔(مدیر)</div>
<div style="text-align: justify;">
<br /></div>
</div>
</div>
Sarbakafhttp://www.blogger.com/profile/14532797594298636576noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3854913904789287339.post-75974476202208472772019-03-11T04:11:00.000-07:002019-03-11T04:11:03.215-07:00ردِّقادیانیت کورس (قسط۔۷)<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<b>منظور احمد چنیوٹی </b></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="color: #6aa84f;"> محدث العصر حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیری نے فرمایا: </span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="color: #6aa84f;">ہم پہ یہ بات کھل گئی ہے کہ گلی کا کتابھی ہم سے بہتر ہے اگر ہم تحفظِ ختمِ نبوت نہ کر سکیں ۔</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="color: #6aa84f;">[ نقش دوام از مولانا انظر شاہ کاشمیری مطبوعہ ادارہ تالیفات اشرفیہ ملتان ص۱۹۱ ]</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
٭مرزا صاحب کا ہیضہ سے مرنا ٭</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
حوالہ نمبر ۱:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
’’والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعودکو پہلا دست کھانا کھانے کے وقت آیا تھا مگر اس کے بعد تھوڑی دیر تک ہم لوگ آپ کے پاؤں دباتے رہے اور آپ آرام سے لیٹ کر سوگئے اور میں بھی سوگئی لیکن کچھ دیر کے بعد آپ کو پھر حاجت محسوس ہوئی اور غالباً ایک یا دودفعہ رفع حاجت کیلئے آپ پاخانہ تشریف لے گئے اس کے بعد آ پ نے زیادہ ضعف محسوس کیا آپ نے ہاتھ سے مجھے جگایا میں اٹھی تو آپ کو اتنا ضعف تھا کہ آپ میری چارپائی پرہی لیٹ گئے اور میں آپ کے پاؤں دبانے کیلئے بیٹھ گئی تھوڑی دیر کے بعد حضرت صاحب نے فرمایا تم اب سوجاؤ میں نے کہا نہیں میں دباتی ہوں اتنے میں آپ کو ایک او ردست آیا مگر اب اس قدر ضعف تھا کہ آپ پاخانہ نہ جاسکتے تھے اس لیے میں نے چارپائی کے پاس ہی انتظام کردیا اور آپ وہیں بیٹھ کر فارغ ہوئے اور پھر اٹھ کرلیٹ گئے اور میں پاؤں دباتی رہی مگر ضعف بہت ہوگیا تھا اس کے بعد ایک او ردست آیا اور پھر آپ کو قے آئی جب آپ قے سے فارغ ہو کر لیٹنے لگے تو اتنا ضعف تھا کہ آپ لیٹتے لیٹتے پشت کے بل چارپائی پر گر گئے اور آپ کاسر چارپائی کی لکڑی سے ٹکرایا او ر حالت دگر گوں ہوگئی ۔‘‘</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(سیرۃ المہدی حصہ اول ص۱۱ حدیث ۱۲)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اس حوالہ سے مرزا قادیانی کا ہیضہ سے مرنا روز روشن کی طرح واضح ہے کیونکہ دست اور قے جب دونوں اکٹھے ہوجائیں اس کو ہیضہ کہتے ہیں نیز یہ بھی ثابت ہوا کہ مرزا قادیانی اپنے پاخانہ پر مرا تھا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
مرزائی عذر:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
مرزا صاحب ہیضہ کی مرض سے نہیں مرے اگر وہ ہیضہ سے مرتے تو ریل گاڑی میں انکی میت لے جانے کی اجازت ہر گز نہ ہوتی کیونکہ یہ قانونا منع ہے حالانکہ مرز اکی لاش کو ریل گاڑی پرلادکر قادیان لے جایا گیا ۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جواب نمبر ۱:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
مرزا قادیانی بقول اپنے ’’ انگریز کا خود کاشتہ پودا‘‘ تھااسلئے اس کی لاش کو ریل گاڑی پر لے جانا کچھ مشکل بات نہ تھی۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جواب نمبر ۲:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اس جواب کے دو مقدمے ہیں</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
۱) ریل گاڑی مرزا قادیانی کے بقول دجال کا گدھا ہے</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
۲) مرزا نے ۱۹۰۸ ء میں مولانا ثناء اﷲ امرتسری کے بالمقابل ایک اشتہار شائع کیا تھا جس میں کہا تھا کہ اگر میں مولانا ثناء اﷲ کی زندگی میں مرجاؤں تو میں کذاب ودجال ٹہروں گا اور عملاً یہی ہوا کہ ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء کو مرزا کا مولانا ثناء اﷲ کی زندگی میں انتقال ہوگیا ۔ جس سے مرزا کا اپنے قول کیمطابق دجال ہونا ثابت ہوا ۔ اب ہم کہتے ہیں کہ جب مرزا دجال اور ریل گاڑی دجال کا گدھا ہے (بقول مرزا کے ) تو قدرت الٰہی نے دجال کیلئے اس کے گدھے پر سوار ہونے کا انتظام کردیا اور انگریزی پولیس اپنی نگرانی میں اس کی لاش لاہور سے قادیان لے گئی۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
حوالہ نمبر ۲:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
مرزا قادیانی نے اپنے سسر میر ناصر نواب کو بلا کر کہا :</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
’’ میر صاحب مجھے وبائی ہیضہ ہوگیاہے۔ ‘‘</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(حیات ناصر ص۱۴)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
مرزا صاحب کے اس اعتراف کے بعد کہ مجھے وبائی ہیضہ ہوگیا ہے اب کسی تاویل یا انکار کی گنجائش نہیں ہے واضح ہوکہ مرزا صاحب نے طب کی کتب بھی پڑھی ہوئی تھیں لہذا ان کا یہ کہنا قابل اعتبار ہوگا ۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
مرزائیوں کا ایک اور عذر:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
مرزا قادیانی نے اس آخری فیصلہ کے ذریعے مولوی ثناء اﷲ کو مباہلہ کی دعوت دی تھی کیونکہ مولوی ثناء اﷲ بالمقابل مباہلہ کیلئے تیار نہ ہو ا اسلیئے مرزا صاحب کا اسکی زندگی میں مرنا جھوٹے ہونے کی دلیل نہیں ۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جواب :</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
یہ سراسر جھوٹ ہے مرزا کے اس آخری فیصلہ میں کوئی مباہلہ کا لفظ نہیں ہے نہ ہی اس میں یہ موجود ہے کہ مولوی ثناء اﷲ بھی اس قسم کی دعا کریں یہ محض یکطرفہ دعا تھی جو مرزا قادیانی نے اﷲ تعالیٰ کی بار گاہ میں مانگی جس کو خدا تعالیٰ نے قبول فرما کر فیصلہ کردیا اسی بات پر کہ مرزا صاحب کا یہ اشتہار محض یکطرفہ دعا ہے یامباہلہ ہے ؟ مولوی ثنا ء اﷲ صاحب امرتسری اور میرقاسم علی قادیانی کا لدھیانہ میں ۱۹۱۲ء میں تحریری مناظرہ ہوا تھا جس میں سردا ربچن سنگھ وکیل کو سرپنچ مقرر کیاگیاتھا ۔ اور دونوں حضرات نے تین تین صد روپیہ اس کے پاس جمع کرادیا کہ جو اپنا دعویٰ ثابت کرے اسکو یہ چھ صد روپیہ دے ۔ بالآخر سردار بچن سنگھ نے فیصلہ مولوی ثناء اﷲ کے حق میں کردیا او رچھ صدر وپیہ بھی انکے حوالے کردیا اس رقم سے مولوی صاحب نے اس مناظرہ کو ’’ فاتح قادیان ‘‘ کے نام سے شائع کیا جو کہ آج بھی سرگودہا سے دستیا ب ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
﴿باب چہارم ﴾</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
بحث ثانی حیات ووفات مسیح علیہ السلام</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
تنقیح موضوع:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
مرزائی عموماً عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق وفات و حیات کے عنوان پر بحث کرتے ہیں حالانکہ یہ عنوان بالکل غلط ہے قادیانیوں نے بڑی مکاری و عیاری سے کام لیتے ہوئے اس غلط عنوان کوموضوع بحث بنا رکھا ہے موضوع بحث در حقیقت رفع اور نزول عیسےٰ علیہ السلام کے عنوان سے ہونا چاہیے جس کے لئے درج ذیل دلائل پیش کئے جاتے ہیں ۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
٭توجیہ :</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
یہ امر تسلیم شدہ ہے کہ قرآن حکیم اہل کتاب کے تمام اختلافات کے لئے بطور حکم آیا ہے جیسا کہ قرآن کریم کا خود دعویٰ ہے :</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
وَمَا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ إِلاَّ لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُوا فِيهِ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
ترجمہ: اور ہم نے کتاب کو آپ پر صرف اسی لئے نازل کیا ہے تاکہ آپ ان کیلئے وہ چیز بیان کریں جس میں وہ اختلاف کرتے ہیں او ر اس قوم کیلئے جو ایمان لاتے ہیں ہدایت اور رحمت ہے ۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(پارہ۱۴ سورۃ النحل ع۸آیت۶۴)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
چنانچہ مرزا قادیانی نے بھی مندرجہ بالا آیت سے یہی استدلال کیا ہے ہم نے اس کو اس لئے تجھ پر اتارا ہے تاکہ امو رمتنازعہ فیہ کا اس سے فیصلہ کردیں ۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(ازالہ اوہام ۶۵۵،روحانی خزائن ص۴۵۴ج۳)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اب ہم عیسائیوں کے عقائد کو دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق درج ذیل عقائد رکھتے ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(۱) تثلیث</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(۲) الوہیت مسیح</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(۳) ابنیت</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(۴) صلیب اور کفارہ</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(۵) رفع جسمانی اور نزول جسمانی </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اسی طرح یہود کے بھی عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق چند خیالات پائے جاتے ہیں رفع اور نزول کے علاوہ باقی تمام غلط عقائد کی قرآن مجید نے بڑے صریح الفاظ میں تردیدکی ہے ملاحظہ ہو:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
رد تثلیث﴾</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ ثَالِثُ ثَلاَثَةٍ ……الخ (سورۃ مائدہ ع۱۰ آیت۷۳) </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
’’ البتہ تحقیق وہ لوگ کافر ہیں جو کہتے ہیں کہ اﷲ تین میں سے تیسرا ہے ‘‘</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
رد الوہیت﴾</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ (پارہ ۶ سورہ المائدہ ع۱۰ آیت ۷۲) </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
’’البتہ تحقیق کہ وہ لوگ کافر ہیں جوکہتے ہیں کہ اﷲ ہی عیسیٰ بن مریم ہیں ‘‘</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
رد ابنیت﴾</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
وَقَالَتْ النَّصَارَى الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ (پارہ ۱۰ سورہ توبہ ع۵ آیت۳۰)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
’’ اور نصاریٰ نے کہا کہ مسیح اﷲ کا بیٹاہے ۔‘‘</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
رد صلیب وکفارہ﴾</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ (پارہ ۶ سورۃ النساء ع۲آیت ۱۵۷)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
’’ اور نہیں قتل کیا انہوں نے اس کو اور نہ سولی دیا اس کو ‘‘</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
وَلاَ تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى (پارہ ۲۲ سورہ ۱۵ ع۳ آیت ۱۸)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
’’ نہیں اٹھائے گا کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ‘‘۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اب رہا ان کا عقیدہ رفع و نزول، تو ہم پوچھتے ہیں کہ اس کا فیصلہ قرآن حکیم نے کہاں کیا ہے اگر یہ عقیدہ بھی دوسرے عقائد کی طرح غلط او رباطل تھا توقرآن مجید کو صریح الفاظ میں جیسے ’’ ما رفع ، لم یرفع، لا ینزل ‘‘ وغیرہ سے تردید کرنی چاہیے تھی حالانکہ ہم بلا خوف تردید یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ قرآن مجید میں کوئی ایسا اشارہ تک نہیں پایا جاتا اور نہ حدیث کے ذخیرہ میں کوئی ایک حدیث اس مضمون کی ملتی ہے بلکہ اس کے بر عکس قرآن اور حدیث نے بڑے زور دار الفاظ میں ان کے اس عقیدہ کی تائید کی ہے اگر قرآن مجید اس عقیدہ کی تائید نہ بھی کرتا بلکہ صرف سکوت اختیار کرتا تو بھی ان کا یہ عقیدہ درست اور صحیح ماننا پڑتا ۔مرزانے خود اس اصول کو تسلیم کیا ہے کہ نہایت ادب واحترام سے فرماتے ہیں کہ’’ اب ہم دیکھتے ہیں کہ واقعی صلیب کے متعلق قرآن شریف کیا کہتا ہے اگر یہ خاموش ہے تو پتہ چلا کہ یہود ونصاریٰ اپنےخیالا ت میں حق پر ہیں ۔‘‘</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(ریویو آف ریلجنز أپریل ۱۹۱۹ء ج۱۸ شمارہ نمبر ۶ ص۱۴۹،۱۵۰)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
رفع ونزول کے متعلق عیسائیوں کا عقیدہ</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
حوالہ نمبر ۱:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
’’ یہ کہ وہ ان کے دیکھتے دیکھتے اوپر اٹھا لیا گیا اور بدلی نے اسے ان کی نظروں سے چھپا لیا اور ا سکے جاتے وقت جب وہ آسمان کی طرف غور سے دیکھ رہا تھا تو دیکھو دو مرد سفید پوشاک پہنے ان کے پاس آ کھڑے ہوئے او رکہنے لگے اے گلیلی مردو! تم کیوں کھڑے آسمان کی طرف دیکھتے ہو ۔ یسوع جو تمہارے پاس سے آسمان پر اٹھیا گیاہے اسی طرح پھر آئے گا جس طرح تم نے اسے آسمان کی طرف جاتے دیکھا ہے ۔‘‘</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(رسولوں کے اعمال باب ۱ آیت ۹،۱۰،۱۱ ؍متی ص۲۸ آیت ۲۴تا ۳۰)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
حوالہ نمبر ۲:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
’’ پس توبہ کرو اور رجوع لاؤ تاکہ تمہارے گناہ مٹائے جائیں اور اس طرح خدا وند کے حضور سے تازگی کے دن آئیں اور وہ اس مسیح کو جو تمہارے واسطے مقرر ہوا ہے یعنی یسوع کو بھیجے ضرور ہے کہ وہ آسمان میں اس وقت تک رہے جبتک کہ وہ سب چیزیں بحال نہ کی جائیں جنکا ذکر خدانے اپنے پاک نبیوں کی زبانی کیا ہے جو دنیا کے شروع سے ہوتے آئے ہیں چنانچہ موسیٰ نے کہا کہ خدا وند خدا تمہارے بھائیوں میں سے تمہارے لئے مجھ سا ایک نبی پیدا کرے گا جوکچھ وہ تم سے کہے اسکی سننا۔ اور یوں ہوگا کہ جوشخص اس نبی کی نہ سنے گا ، وہ امت میں سے نیست و نابود کردیا جائے گا۔ ‘‘</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(رسولوں کے اعمال باب ۳ آیت ۲۰ تا ۲۴)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
حوالہ نمبر ۳:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
’’ غرض خداوند یسوع ان سے کلام کرنے کے بعد آسمان پر اٹھایا گیاا ور خدا کی دا ہنی طرف بیٹھ گیا۔‘‘ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(مرقس باب۱۴ آیت ۱۹؍۲۰)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
حوالہ نمبر ۴:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
’’ جب وہ انہیں برکت دے رہا تھا توایسا ہو ا کہ ان سے جدا ہوگیا اور آسمان پر اٹھایا گیا۔‘‘ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(لوقا باب ۲۴ آیت ۵۱)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
حوالہ نمبر ۵:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
’’ یسوع نے اس سے کہا مجھے نہ چھو میں اب تک باپ کے پاس اوپرنہیں گیا لیکن میرے بھائیوں کے پاس جاکر ان سے کہہ کہ میں اپنے باپ او رتمہارے باپ اور اپنے خدا اور تمہارے خدا کے پاس اوپر جاتا ہوں ۔‘‘</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(یوحنا باب ۲۰ آیت۱۷)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
حوالہ نمبر۶:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
’’ یسوع نے اس سے کہاکہ اگر تو خدا کا بیٹا مسیح ہے تو ہم سے کہہ دے۔ یسوع نے اس سے کہا تو نے خود کہہ دیابلکہ میں تم سے کہتا ہوں کہ اس کے بعد تم ابن آدم کو قادر مطلق کی دا اہنی طرف بیٹھے اور آسمان کے بادلوں پر آتے دیکھو گے ۔‘‘</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(متی باب ۲۶ آیت ۶۴)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
حوالہ نمبر ۷:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
’’ او راس وقت ابن آدم کا نشان آسمان پر دکھائی دے گا اور اس وقت زمین کی سب قومیں چھاتی پیٹیں گی اور ابن آدم کو بڑی قدرت اور جلال کے ساتھ آسمان کے بادلوں پر آتے دیکھیں گی۔‘‘</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(متی باب ۲۴آیت۳۰)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
مرزا کا اعتراف:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(۱) ’’ جناب نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں عیسائیوں کا یہی عقیدہ تھا کہ در حقیقت مسیح ابن مریم ہی دوبارہ دنیا میں آئیں گے۔‘‘</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(ازالہ اوہام ص۶۱۹ روحانی خزائن ص۳۱۸ ج۳)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(۲) ’’ وان عقیدۃ حیاتہ قد جاء ت فی المسلمین من الملۃ النصرانیۃ ‘‘ ترجمہ:اور یہ کہ اس کی (عیسیٰ علیہ السلام کی) حیات کا عقیدہ ملت نصرانیہ سے مسلمانوں میں آیا ہے ۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(الاستفتا ء ضمیمہ حقیقت الوحی ص۳۹ روحانی خزائن ص۶۶۰ ج۲۲)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
مرزائی عذرنمبر ۱:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
قرآن مجید نے جب عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کااعلان کردیا تو اس سے عیسائیوں کے رفع او رنزو ل کا عقیدہ خود بخو دباطل ہوگیا قرآن مجید میں تیس سے زائد آیات موت عیسیٰ کے بارے میں موجود ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(ازالہ اوہام روحانی خزائن ج۳ ص۴۲۳،۴۳۸)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
الجواب :</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
تیس آیت نہیں اگر تیس پارے بھی عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ثابت کردیں تو اس سے عیسائیوں کے رفع اور نزول کے عقیدہ کی تردید نہیں ہوگی کیونکہ عیسائی موت کے توخود قائل ہیں لیکن موت کے تین دن بعد زندہ اٹھائے جانے اور قیامت کے قریب بہ جسد عنصری نازل ہونے کے بھی قائل ہیں اگر یہ عقیدہ غلط ہے تو ضرورت اس کی تردید کی ہے موت سے اس عقیدہ کی تردید نہیں ہوگی۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(عقیدہ موت کیلئے دیکھو لوقا باب ۲۳ آیت ۲۴)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
مرزائی عذر نمبر ۲:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
’’اور یہ بیان بھی صحیح نہیں ہے کہ عیسائیوں کا متفق علیہ یہی عقیدہ ہے کہ حضرت مسیح ؑ دنیا میں پھر آئیں گے کیونکہ بعض فرقے ان کے حضرت مسیح کے فوت ہوجانے کے قائل نہیں اور حواریوں کی دونوں انجیلوں نے یعنی متی اور یوحنا نے اس بیان کی ہر گز تصدیق نہیں کی کہ مسیح درحقیقت آسمان پر اٹھا یاگیا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(ازالہ اوہام ص۴۲۰ روحانی خزائن ج۳ص ۳۱۹)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جواب نمبر ۱:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
غلط بالکل غلط یہ مرزا کی یا تو صریح کذب بیانی ہے یاان کی جہالت کیونکہ ان دونوں کتابوں میں اس عقیدہ کا ذکرموجود ہے اس کے حوالے ما قبل گذر چکے ہیں ۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جواب نمبر ۲:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
دروغ گو را حافظ نہ باشد کے مصداق مرز اقادیانی اپنی اسی کتاب ازالہ اوہام ص۲۴۸ روحانی خزائن ص۲۲۵ ج۳ پر تحریر کرچکا ہے کہ:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
’’ نصاریٰ کے تمام فرقے اور چاروں اناجیل اسی پر متفق ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر اٹھائے گئے ۔‘‘ اب مرزا خود تسلیم کر چکا ہے کہ تمام فرقے او رچاروں اناجیل اس عقیدہ پر متفق ہیں لہذا اعتراض ہی ختم ہوگیا اور ہمارا سوال علیٰ حالہ قائم رہا جس کامرزائیوں کے پا س کوئی جواب نہیں ہے ۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
مرزائی عذر نمبر ۳:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
ایلیا نبی کے متعلق یہودیوں کا عقیدہ موجودہ ہے کہ وہ زندہ آسمانوں پر اٹھایا گیا ہے او رپھر دوبار ہ نازل ہوگا جسطرح عیسائیوں کا عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق عقیدہ ہے تو کیا یہ عقیدہ صحیح ہے یا غلط ؟؟ اگر غلط ہے تو قرآن و حدیث سے اس کی تردید دکھائیں اور اگر تردید نہ پائی جاتی اور قرآن وحدیث خاموشی اختیا ر کریں تو تمہارے اصول کے مطابق ثابت ہوا کہ یہودیوں کا ایلیا کے بارے میں یہ عقیدہ ٹھیک ہے جیسا کہ تم ہمیں عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں کہتے ہو۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جواب نمبر ۱:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
یہ اصول صرف ہمارے نزدیک ہی مسلّم نہیں ہے بلکہ یہ اصول مرزا صاحب نے خود بھی اسے تسلیم کیا ہے جیسا کہ حوالہ گذر چکا ہے (ریویو آف ریلجنز )</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
لہذا مرزا صاحب کے اس تسیلم شدہ اصول کے مطابق اگر قرآن مجید نے ایلیا علیہ السلام کی آمد ثانی کی تردید نہیں کی تو ثابت ہوا کہ ان کا یہ عقیدہ درست ہے بقول شخصے:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
الجھا ہے پاؤں یار کا زلفِ دراز میں</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جواب نمبر ۲:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
یہودیوں کے اس عقیدہ کی تردید کا مطالبہ قرآن وحدیث سے کرنا صریح حماقت او رجہالت ہے اس لئے کہ ایلیا کا تذکرہ ایجابی اور سلبی رنگ میں قرآن وحدیث میں مذکور نہیں لہذا اس کا محض بائبل میں ذکر ہونا کافی نہیں بخلاف عیسیٰ علیہ السلام کے کہ ان کا ذکر قرآن وحدیث میں بڑی صراحت کے ساتھ موجود ہے ۔ ایلیا کا عیسیٰ علیہ السلام پر قیاس کرنا غلط ہے یہ قیاس ،قیاس مع الفارق ہے ۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اعتراض:</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
یہودی ایلیا کے بجسدہ آنے کے منتظر تھے حالانکہ ایلیا سے مراد ان کا مثیل یوحنا نبی تھا اسی طرح عیسیٰ سے مراد بھی ان کا مثیل مراد ہے نہ کہ بعینہ عیسیٰ بن مریم۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جواب :</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اس ساری کہانی کا دارومدار بھی بائبل پر ہے جو عقلاً او رنقلاً محرف ہے قرآن وحدیث سے اس کی کوئی نظیر ہوتو پیش کیجئے جیسا کہ عیسیٰ علیہ السلام کی تصدیق قرآن وحدیث میں ہے ۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: center;">
(جاری ہے...) </div>
<div dir="rtl" style="text-align: center;">
٭٭٭</div>
<div style="text-align: center;">
<br /></div>
</div>
Sarbakafhttp://www.blogger.com/profile/14532797594298636576noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3854913904789287339.post-4928195521127638362019-03-11T04:09:00.000-07:002019-03-11T04:09:05.124-07:00ایک خوش قسمت بہن زینب سے ایک ملاقات<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<b> زینب چوہان</b></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="color: #6aa84f;">غیر مسلم بھائیوں میں دعوت کے اسلوب کو بیان کرنے کے لیے ، اور دعوت الی اللہ پر اُبھارنے کے لیے یہ سلسلہ سربکف نے پیش کیا ہے، اس کے تحت غیر مسلم بھائیوں کے مشرف بہ اسلام ہونے کے واقعات لائےجاتے ہیں۔ شاید کہ اُن بیمار ذہنوں کا علاج ہوسکے جو غیر مسلموں کے لیے صرف جہاد ہی کو فیصل سمجھتے ہیں۔ (مدیر)</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اسماء امت اﷲ : السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
زینب چوہان : وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
سوال : زینب آپا ! آپ کے آنے سے بہت خوشی ہوئی، آپ کی ذات اللہ تعالی کی ہدایت کی عجیب نشانی ہے، جب ابی سے آپ کی کہانی سنی تھی خیال ہو تا تھا کہ ابی کوئی افسانہ سنا رہے ہیں، بہت اشتیاق تھا ملاقات کا، اللہ تعالی نے ملاقات بھی کرا دی اور یہ موقع دیا کہ ابی نے ذمہ داری لگا دی کہ آپ کی کہانی آپ کی زبان سے سنوں اور قارئین ارمغان کی خدمت میں ہدیہ پیش کروں ؟</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جواب : سچی بات یہ ہے اسماء ! کہ تمہارے بچپن کے قصے جو مولانا صاحب کے ہم جیسے جہنم کے راستہ پر پڑے لوگوں کے ایمان کا ذریعہ بنانے کا ذریعہ بنے، میں نے بھی دو مرتبہ حضرت کی تقریر میں سنے تھے، اس لئے مجھے بھی بڑی حسرت تھی کہ تم سے ملوں، اللہ نے میری بھی پرانی مراد پوری کر دی۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
سوال : چلئے اللہ کا فضل ہوا دونوں کا کام بن گیا، آپ کو ابی نے بتا ہی دیا ہے کہ ارمغان کے لئے آپ سے کچھ باتیں کرنی ہیں، اس لئے کچھ باتیں پوچھ لوں ؟</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جواب : جی ! بس آج میں دلّی صرف اسی لئے آئی ہوں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
سوال : آپ اپنا خاندانی تعارف کرائیے ؟</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جواب : میں راجستھان کے چورو ضلع کے ایک راجپوت خاندان میں ۲۰/ اپریل ۱۹۶۸ء کو پیدا ہوئی، ہمارے پتاجی ہائی اسکول میں پرنسپل تھے، ابتدائی تعلیم گاؤں کے ایک اسکول میں ہوئی، بعد میں چورو میں ایک ڈگری کالج سے میں نے بی اے کیا، ہنومان گڑھ کے ایک پڑھے لکھے خاندان میں ۶/ جون ۱۹۹۰ء کو ہماری شادی ہوئی، میرے شوہر مدھیہ پردیش میں رتلام میں نائب تحصیل دار تھے، وہ ہاکی کے بہت اچھے کھلاڑی رہے ہیں اور ان کو اسی بنیاد پر نوکری ملی تھی، دو سال میں اپنی سسرال ہنومان گڑھ میں رہی، بعد میں ہم رتلام ضلع کی ایک تحصیل میں جہاں میرے شوہر کی ملازمت تھی وہیں رہنے لگے، ٹرانسفر کی وجہ سے اجین اور بعد میں مندسور میں چھ سال رہے، ا سد ور ان میرے یہاں دو بیٹے اور ایک بیٹی پیدا ہوئے، ۲۰۰۰ء میں میرے شوہر کا پرموشن ہوا اور وہ تحصیل دار بن کر بھوپال کی ایک تحصیل میں چلے گئے، گھر پریوار سب کچھ اچھا تھا، ہم دونوں میں بہت محبت تھی، اچانک نہ جانے کیا ہوا ہمارے گھر کو کسی کی نظر لگ گئی اور اگر میں یہ کہوں کہ ہدایت کی ہوا لگ گئی اسماء بہن ! میرا حال عجیب ہے، میری زندگی کا بگاڑ میرے سنورنے کا ذریعہ بن گیا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
سوال : ہاں ہاں ! وہی میں تو سننا چاہتی ہوں، اللہ نے آپ کی اسلام کی طرف کیسے رہ نمائی کی، ذرا تفصیل سے سنائیے ؟</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جواب : میرے شوہر کے دفتر میں ایک برہمن لڑکی کلرک تھی، بہت خوب صورت اور ایکٹیو(فعال)بلکہ اگر میں کہوں کہ اووَر ایکٹیو(Over active) تو یہ بات بھی سچ ہو گی، اس لڑکی کی ہر ادا میں، اس کی شکل میں، اس کی آواز میں، اس کے انداز میں غرض ہر چیز میں بلا کی کشش تھی، اسماء بہن، میرے شوہر کی خطا نہیں، بلکہ وہ لڑکی ویسی تھی کہ پتھر کی مورتی بھی اس کے سامنے پگھل جاتی، میرے شوہر اپنے کو بہت بچانے کی کوشش کرتے رہے اور سنبھلنے کی کوشش کرتے رہے، مگر اللہ نے مرد و عورت کے رشتہ میں جذبہ رکھا ہے وہ بچ نہ سکے اور اس لڑکی سے ان کو تعلق ہو گیا، اب ہر وقت بس اس کی محبت میں گھلتے رہتے تھے، اس کا مجھے سوفیصد یقین ہے کہ جب تک انھوں نے شادی نہیں کی ان میں جسمانی تعلقات نہیں ہوئے، مگر ظاہر ہے کہ ایک جسم میں دو دل تو ہوتے نہیں اس سے محبت کے ساتھ ان کا مجھ سے تعلق کم ہو نا شروع ہو گیا، وہ شروع میں تو بہت کوشش کرتے رہے کہ مجھے کچھ پتہ نہ لگے مگر بات چھپ نہ سکی اور مجھے بھی پتہ لگ گیا اور دفتر میں بھی لوگوں کے علم میں آ گیا، مجھ سے بھلا کیسے برداشت ہو سکتا تھا انتشار رہنے لگا، بات بگڑتی گئی اور انھوں نے پروگرام بنایا کہ مجھے چھوڑ کر اس سے شادی کر لیں، اس کے لئے انھوں نے مجھے ہنومان گڑھ چھوڑا، مئی ۲۰۰۰ء میں بچوں کی چھٹیاں تھیں، وہ دہلی گئے مجھے یہ بتایا کہ مجھے ٹریننگ میں جانا ہے، دہلی میں آشا شرما کو بلا لیا، آشا شرما نے ان کے ساتھ ایک کمرے میں رہنے سے منع کیا کہ پہلے ہم شادی کریں اس کے بعد ایک کمرے میں رہ سکتے ہیں، انھوں نے دو کمرے شروع میں ہوٹل میں لئے، اس کے بعد وکیلوں سے مشورہ کیا، ایک وکیل نے مشورہ دیا کہ قانونی گرفت سے بچنے کا سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ آپ دونوں مسلمان ہو کر شادی کر لیں، یہ رائے ان کو پسند آئی میرے شوہر نے آشا کو بھی اس کے لئے تیار کیا، شروع میں ایک ہفتہ تک تو وہ اسلام قبول کرنے سے منع کرتی رہی، مگر بعد میں بہت دباؤ دینے پر راضی ہو گئی، وہ دونوں جامع مسجد دہلی گئے وہاں کے امام بخاری صاحب نے ان کو مسلمان کرنے سے منع کر دیا، کئی مسجدوں میں میرے شوہر گئے مگر کوئی مسلمان کرنے اور کلمہ پڑھوانے کے لئے تیار نہ ہوا، کسی وکیل نے انھیں بتایا کہ پرانی دہلی میں سرکاری رجسٹرڈ قاضی ہوتے ہیں، وہ نکاح پڑھاتے ہیں، میرے شوہر نے ان کا پتہ معلوم کیا اور پرانی دہلی کے قاضی صاحب کے پاس گئے، انھوں نے کہا پہلے آپ دونوں مسلمان ہو کرمسلمان ہو نے کا بیان حلفی سرکاری وکیل سے بنوا کر لاو، میرے شوہر نے کہا آپ ہمیں مسلمان بنا لو، انھوں نے مسلمان کرنے سے انکار کر دیا اور آپ کے والد حضرت مولانا کلیم صاحب کے پاس جانے کو کہا، وہ دونوں اگلے روز پھلت گئے تو معلوم ہوا کہ مولانا صاحب دہلی گئے ہوئے ہیں، ایک مولانا صاحب نے ان دونوں کو کلمہ پڑھوا دیا اور بتایا کہ مسلمان ہونے کے لئے مولانا صاحب کا ہونا ضروری نہیں ہے، آپ میرٹھ یا دہلی سے کسی سرکاری وکیل (نوٹری) سے اپنے کاغذات بنوا لیں، میرٹھ ایک گپتا جی کا پتہ بھی بتا دیا انھوں نے میرٹھ جا کر بیان حلفی بنوایا اس کے بعد قاضی صاحب نے اپنی فیس لے کر ان دونوں کا نکاح پڑھوا دیا اور نکاح کو عدالت سے رجسٹرڈ کرانے کو بھی کہا، آشا نے ہمارے شوہر سے کہا، ہم جب مسلمان ہو گئے ہیں تو پھر ہمیں اسلام کو پڑھنا بھی چاہئے، انھوں نے اردو بازار سے ہندی اور انگریزی میں اسلام پر کتابیں خریدیں اور ہندی قرآن مجید بھی لیا، ان کو کسی نے مولانا صاحب سے ملنے کا مشورہ دیا، اوکھلا میں ایک مسجد میں تلاش اور کوشش سے ان کی ملاقات بھی ہو گئی مولانا نے ان کو اپنی کتاب ’’آپ کی امانت آپ کی سیوا میں ‘‘ دی اور سمجھا یا کہ بلا شبہ اپنے خاندان، اپنے پھول سے بچوں اور ایسی نیک بیوی کو چھوڑنا خود کیسی عجیب چیز ہے، مگر اگر آپ سچے دل سے اسلام قبول کریں تواس الجھی ہوئی زندگی میں اللہ کے قبضے میں سب کچھ ہے، وہ اچھی زندگی عطا کریں گے، مولانا صاحب نے یہ بھی کہا کہ آپ کو اپنی پہلی بیوی اور بچوں بلکہ سب خاندان والوں پر دعوت کا کام کرنا چاہئے، کم از کم دعا تو ہدایت کی ابھی سے شروع کر دینی چاہئے، میرے شوہر بتاتے ہیں کہ انھوں نے قرآن کی آیت پڑھ کر یہ بات بتائی کہ جو بھی مرد ہو یا عورت اچھے کام کرے گا شرط یہ ہے کہ وہ مومن ہو تو اللہ تعالی اس کو اچھی اور پاکیزہ زندگی عطا فرمائیں گے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
سوال : ہاں قرآن مجید کی آیت :مَنْ عَمِلَ صَا لِحاً مِنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثیٰ وَہُوَ مُومِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیَاۃً طِیِّبَۃً اسکا ترجمہ یہ ہی ہے۔آگے بتائیے ؟</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جواب : پہلے ذرا اس آیت کا ترجمہ کیجئے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
سوال : جو بھی مرد ہو یا عورت نیک عمل کرے گا شرط یہ ہے کہ وہ مومن ہو ہم اس کو ضرور پاکیزہ زندگی عطا کرتے ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جواب : ہاں یہی بالکل یہی آیت ہے، میرے شوہر کہتے ہیں، اس آیت نے میری زندگی کو روشن کیا ہے، پوری آیت ان کو یاد ہے، سچی بات یہ ہے فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیَاۃً طِیِّبَۃً کیسی سچی بات کہی ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
سوال : ہاں تو آگے سنائیے کہ آپ کو ایمان کیسے ملا، یہ تو آشا کے اسلام کا ذکر آپ کر رہی ہیں ؟</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جواب : ہاں بہن! اسی سے جڑا ہے میرا اسلام بھی، ہوا یہ کہ میرے شوہر کو تو شروع میں اسلام کو پڑھنے کا موقع نہ ملا، مگر آشا کو پڑھنے کا بہت شوق تھا، جیسے جیسے اسلام کو وہ پڑھتی گئی اسلام اس کے اندر اترتا گیا، بچوں کی چھٹیاں ختم ہو گئیں میرے شوہر کی بھی چھٹیاں ختم ہوئیں تو وہ بھوپال پہنچے، مگر مجھے ہنو مان گڑھ سے نہیں بلایا، مجھ سے رابطہ بھی بہت کم کیا، مجھے فکر ہوئی تو میں نے اپنے چھوٹے بھائی کو بھوپال بھیجا، اتفاق سے آشا رات کو گھر تھی، اس کا نیا اسلامی نام عائشہ تھا، میرے بھائی نے معلوم کیا کہ یہ لڑکی آپ کے گھر رات میں کون ہے، انھوں نے کہا دفتر میں کام کرتی ہے دفتری کام کے لئے بلایا ہے، میرا بھائی ان سے بہت لڑا، تیسرے روز مجھے اس نے فون کر کے بلایا، میں اپنے پتاجی کے ساتھ بھوپال پہنچی، کئی روز تک جھگڑا چلتا رہا، آخر میں انھوں نے وہ کاغذات قبول اسلام کے نکال کر میرے سامنے رکھ دئیے، میرے لئے اس سے افسوس اور صدمہ کی کیا بات تھی، میرے والد نے وکیلوں سے مشورہ کیا اور ایف آئی آر کرائی اور عدالت میں کئی روز گئے، پولیس آئی ان کو گرفتار کر کے لے گئی، کچھ روز کے بعد ضمانت تو ہو گئی مگر دفتر سے ان کو معطل کر دیا گیا، میرے گھر والے میری محبت میں میرے شوہر کے دشمن ہو گئے، جگہ جگہ سے ان پر مقدمے چلوائے، زندگی ان کے لئے مشکل سے مشکل ہو گئی، آشا اس دوران اسلام کو پڑھتی رہی اور وہ بہت مذہبی مسلمان بن گئی، وہ بھی سسپنڈ ہو گئی، گھر رہ کر اس نے قرآن مجید پڑھ لیا اور کچھ مسلمان عورتوں سے رابطہ کیا، وہ اجتماع میں جانے لگی، پردہ کرنے لگی، برقع منگوا لیا، میرے اور میرے گھر والوں کی طرف سے جب حد درجہ کی مخالفتیں ہوئیں اور میرے سسرال والے بھی میرے ساتھ تھے، تو عائشہ اور میرے شوہر نے مشورہ سے طئے کیا کہ ہمیں دہلی جا کر مولانا کلیم صاحب سے مشورہ کرنا چاہئے، وہ دہلی پہنچے، مولانا صاحب سے عائشہ نے کہا حضرت الحمد للہ مجھے تو اسلام سمجھ میں آ گیا ہے، میرے دل میں تو یہ آتا ہے کہ اگر ساری زندگی مجھے جیل اور مشکلات میں گزارنی پڑے اور میرا ایمان سلامت رہ جائے تو مرنے کی بعد کی زندگی میں جنت بہت سستی ملے گی، اس لئے میرے دل میں آتا ہے کہ ان کی پہلی بیوی نے ایک زندگی ان کے ساتھ گزاری ہے اور بہت محبت اور خدمت کے ساتھ گزاری ہے، اس بے چاری کی کیا خطا ہے، یہ اگر اس کے ساتھ جا کر رہنا چاہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں، البتہ یہ دل چاہتا ہے کہ ان کا ایمان بچا رہے، یہ ان کے ساتھ جا کر رہیں اور ان کو مسلمان کرنے کی کوشش کریں، اگر وہ مسلمان ہو جائیں تو ان سے نکاح کر لیں، مجھے چاہیں طلاق دے دیں یا رکھیں، اس کے لئے ضروری ہے کہ کچھ وقت جماعت میں لگا لیں تاکہ وہاں جا کر مرتد نہ ہوں، مولانا صاحب نے میری رائے سے اتفاق کیا، مجھے بہت شاباشی دی، پھر میرے شوہر کو اس پر راضی کیا اور کہا آپ عائشہ کی بات مان لیجئے، آپ چالیس روز جماعت میں لگا آئیں، آپ کی زندگی کے سارے مسائل مجھے امید ہے کہ انشاء اللہ ضرور حل ہو جائیں گے، وہ تیار ہو گئے اور مولانا صاحب نے نظام الدین سے ان کو جماعت میں بھیج دیا، گجرات میں ان کا وقت لگا، حیدرآباد کی جماعت کے ساتھ وقت بہت اچھا لگا، ان کو بہت اچھے خواب دکھائی دئیے اور الحمد للہ اسلام ان کے اندر اتر گیا، جماعت سے واپس آئے تو وہ عائشہ کے یہاں گئے، عائشہ نے انھیں ہنومان گڑھ جا کر بات کرنے کو کہا، مگر ان کی ہمت نہ ہوئی، عائشہ خود ایک اچھی داعیہ بن گئی تھی، اس کے بچپن کی کئی سہیلیاں اس کی کوشش سے مسلمان ہو چکی تھیں، عائشہ نے مجھے فون کیا کہ آپ بھی مسعود صاحب (میرے شوہر کا اسلامی نام مسعودہے ) سے کب تک لڑائی اور مقدمہ بازی کرتی رہیں گی، آپ ایک بار دس منٹ کی میری بات سن لیجئے، بس ایک روز کے لئے بھوپال آ جائیے، میں ان سے الگ ہو نے کو تیار ہوں میں نے اس کو شروع میں تو بہت گالیاں سنائیں، مگر اس اللہ کی بندی نے ہمت نہ ہا ری، بار بار فون کرتی رہی اور جب میں کسی طرح تیار نہ ہوئی تو اس نے مجھ سے یہ کہا کہ اچھا پھر ہم اپنے اللہ سے کہہ کر بلوائیں گے، عائشہ بتاتی تھی اس کے بعد اس نے دو رکعت صلوٰۃ الحاجت پڑھی اور اللہ کے سامنے فریاد کی: میرے اللہ! جب میں آپ پر ایمان لائی ہوں اور آپ مجھ سے محبت کرتے ہیں تو آپ اس کے دل کو نرم کر دیجئے اور میرے مولیٰ اس کی ہدایت کا فیصلہ فرما کر اس کو یہاں بھیج دیجئے، اس کے بعد تہجد میں دعا کرتی رہی، اس اللہ والی کا اللہ کے ساتھ اسماء بہن بہت ناز کا تعلق ہو گیا تھا، اس کی دعائیں میرے گلے کا پھندہ بن گئیں، تین دن کے بعد میرے دل میں ایم پی جانے کا تقاضا پیدا ہوا، میں اپنے تینوں بچوں کو چھوڑ کر اپنے بھائی کے ساتھ وہاں پہنچی، میرے شوہر کی تو مجھ سے ملنے کی ہمت نہ ہوئی، عائشہ میرے پاس آئی اور مجھے اسلام قبول کرنے کو کہا اور مجھے سمجھایا کہ ان کے ساتھ یہیں رہنے کے لئے ایک ہی راستہ ہے کہ آپ بھی مسلمان ہو جاؤ اور مسلمان ہو کر آپ کا نکاح دوبارہ ان سے ہو گا اگر آپ ان کے ساتھ مسلمان ہو کر رہو تو میں الگ ہو نے کو تیار ہوں، وہ روکر میرے پاؤں پکڑتی اور خوشامد کرتی رہی، مرنے کے بعد کے حالات اور جہنم کی بات کرتی رہی، اس کی بات میرے دل میں گھستی چلی گئی یہاں تک کہ میرے دل میں آیا کہ میں مسلمان ہو جاؤں، میں نے مسلمان ہو نے کو کہہ دیا، وہ مجھ سے چمٹ کر خوب روئی اور میرے شوہر کو فون کر کے بلا لیا، ایک عورت کو فون کر کے ان کے شوہر حافظ صاحب کو بلایا، انھوں نے دو لوگوں کو مزید بلا کر مہر فاطمی پر میرا نکاح ان سے پڑھوا دیا، وہ اپنے کپڑے لے کر میرا گھر چھوڑ کر چلی گئی، چند روز فاطمہ آپا جن کے یہاں اجتماع ہوتا تھا، ان کے یہاں رہی اور پھر ایک چھوٹا مکان کرائے پرلے لیا، ایک ہفتہ تک وہ تھوڑے وقت کے لئے میرے یہاں آتی اور مجھے مبارک باد دیتی، میری بلائیں لیتی اور کہتی، زینب تم کتنی خوش قسمت ہو کہ اللہ نے تم پر کیسا رحم کیا کہ تمھیں ایمان دیا اب اس ایمان کی قدر جب ہو گی جب تم اس کو پڑھو گی، وہ ایک ایسی لڑکی تھی جواب شاید جنت میں رہتی تھی، بس اس کا جسم دنیا میں تھا، مگر اس کا دل و دماغ اور سوچ سب جنت و آخرت میں رہتی تھی، وہ اس دنیا کو بالکل ایک دھوکہ کا گھر، ایک سفر جانتی تھی، اس کی باتوں میں ایسی سچائی اور محبت اور خلوص ہوتا کہ مجھے وہ دنیا میں اپنی سب سے بڑی خیرخواہ دکھائی دینے لگی، ایک ہفتہ کے بعد ایک روز مجھ سے کہا کہ اب میں اس گھر میں نہیں آؤں گی، اب آپ کچھ وقت کے لئے میرے کمرے پر آیا کریں میں ان کے کمرے جانے لگی، اپنے شوہر سے سارے مقدمے ہم نے واپس لے لئے، میں دفتر کے وقت میں کئی گھنٹے اس کے پاس گزارتی، اس نے مجھے قرآن مجید پڑھایا اور اردو شروع کرائی، ایک روز صبح گیارہ بجے میں (زینب )اس (عائشہ )کے پاس گئی، اس کا چہرہ خوشی سے چمک رہا تھا، جمعہ کا دن تھا اس نے کہا، ایک خوشی کی بات سناؤں، اب اللہ سے ملنے کے لئے اور جنت میں جانے کے لئے مجھے انتظار نہیں کرنا پڑے گا، رات میں نے خواب دیکھا، ہمارے حضور تشریف لائے تھے اور مجھ سے فرمایا:عائشہ یہ دنیا تو قید خانہ ہے، تم کب تک یہاں رہو گی؟پیر کے دن ہم تمھیں جنت کے لئے لینے آئیں گے، یہ کہہ کر بہت ہنسی، بس تین روز اور ہیں زینب، بس پھر وہیں ملیں گے، بہت اطمینان سے وہاں مزے میں ساتھ رہیں گے، مجھے بہت عجیب سا لگا، اگلے روز میں وہاں گئی تو وہ کل کی طرح ہشاش بشاش تھی، مجھے پڑھایا اور مجھ سے کہا کہ اللہ نے ہمیں ایمان دیا ہے تو اب ہمیں دوسرے لوگوں کو ایمان کی دعوت دے کر دوزخ کی آگ سے بچانے کی کوشش کرنی چاہئے، اتوار کے روز میں وہاں پہنچی تو میں نے دیکھا وہ چادر اوڑھے ہوئے ہے، میں نے کہا عائشہ آپ کو کیا ہوا؟انھوں نے بتایا کہ مجھے صبح سے بخار آ رہا ہے، میں اس کو بہت زور دے کر ڈاکٹر کے یہاں لے گئی دوا دلوائی اور کہا:کہو تو میں رک جاؤں، یاپھر آپ ہمارے یہاں ہی چلیں اکیلے بخار میں رہنا ٹھیک نہیں، وہ بولی مومن اکیلا کہاں ہوتا ہے اور یہ شعر پڑھا ؎</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
تم مرے پاس ہوتے ہو</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جب دوسرا کوئی نہیں ہوتا</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
سوال : شعر یوں ہے ؎</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا٭</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جواب : ہاں ہاں ! جیسے بھی ہو، میں چلی آئی، میں نے خواب دیکھا کہ میں اس کے پاس گھر میں ہوں، اچانک ایک بہت حسین خوب صورت نورانی شکل کے حضرت تشریف لائے، حضرت مولانا کلیم صاحب بھی اسی گھر میں ہیں، مجھ سے کہا یہ ہمارے رسول ﷺ ہیں، عائشہ کو لینے کے لئے تشریف لائے ہیں، اس کے بعد وہ عائشہ کا ہاتھ پکڑ کر لے گئے، میری آنکھ کھلی تو مجھ پر خواب کی خوشی ہونے کے بجائے کہ پہلی مرتبہ پیارے نبیﷺ کی زیارت ہوئی تھی عجیب صدمہ سا ہوا، رات کے تین بج رہے تھے میں نے اٹھ کر تہجد کی نماز پڑھی اور بہت روئی، صبح سویرے میں عائشہ کے گھر پہنچی، بخار اس کو بہت زیادہ تھا، میں نے پانی کی پٹیاں اس کے سر وغیرہ پر رکھیں اس سے اس کو راحت ہوئی، مجھ سے کہا زینب! تمھاری زندگی کو میں نے اجیرن کیا، مجھے معاف کرنا خدا کے لئے دل سے معاف کر دینا، مگر اس مشکل کے بعد یہ ایمان جو آپ کو ملا ہے پھر بھی بہت سستا سودا ہے، بس میری آپ سے ایک آخری التجا ہے کہ تینوں بچوں کو عالم اور داعی بنانا، یہ دین کا کام کریں گے تو تمھارے مرنے کے بعد تمھارے لئے ثواب کا کارخانہ لگا رہے گا، میں نے کچھ کھا نے کے لئے کہا تو انھوں نے کہا کہ دودھ ذرا سا پیوں گی، میرے نبی نے فرمایا کہ دودھ اچھا رزق ہے، پینے اور کھانے دونوں کا کام کرتا ہے، میں نے دودھ دیا تو گرم تھا، بولی ذرا سا ٹھنڈا کر دو، زیادہ گرم کھانے کی حدیث میں ممانعت آئی ہے، دودھ ٹھنڈا کر کے دیا، دودھ پیا کمزوری بڑھتی گئی، سرمیں درد کی شکایت کی، میں نے گود میں سر رکھ کر دبانا شروع کیا، عصر کے بعد اچانک کہنے لگی، لو میرے نبی تو لینے آ گئے، زور زور سے درود پڑھنے لگی اٹھنے کی کوشش کی مگر ہلنے کی ہمت نہ ہوئی اچانک کلمہ شہادت پڑھا، دو ہچکیاں آئیں اور انتقال ہو گیا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
سوال : پھر ان کے کفن دفن کا کیا انتظام ہوا؟</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جواب : نہ جانے کس طرح فاطمہ آپا گئیں، بس انھوں نے سب لوگوں کو خبر کر دی، نہ جانے کیسی خوشبو اس کے جنازہ سے پھوٹ رہی تھی، گھر تو گھر محلہ خوش بو سے معطر ہو گیا، بڑی تعداد میں لوگوں نے جنازہ میں شرکت کی۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
سوال : آپ کے شوہر کا کیا ہوا؟کیا انھوں نے اسے طلاق دے دی تھی؟</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جواب : اصل میں عائشہ میرے شوہر سے اصرار کرتی تھی کہ زینب کی خوشی کے لئے مجھے طلاق دے دو، مگر انھوں نے طلاق نہیں دی تھی، ان کے انتقال کا ان پر بہت اثر پڑا، ان کی زندگی بالکل خاموش ہو گئی۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
سوال : اور آپ کوکیسا لگا؟</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جواب : یہ بالکل عجیب و غریب اتفاق ہے، سچی بات یہ ہے کہ ایک عورت کے لئے سوکن کا وجود سب سے بڑا کانٹا ہو تا ہے، مگر میرے اللہ جانتے ہیں یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ عائشہ کے انتقال کا مجھے غم زیادہ ہوا یا میرے شوہر کو، بس میں اتنا ضرور کہہ سکتی ہوں کہ اگر کوئی مجھ سے سو قسمیں دے کر یہ سوال کرے کہ دنیا میں پوری زندگی میں مجھے سب سے زیادہ محبوب کون ہے تو میں بغیر سوچے سمجھے یہ کہوں گی میری سب سے محبوب اور خیرخواہ شخصیت اللہ اور اس کے رسول کے بعد عائشہ مرحومہ ہے، وہ زمین پر ایک زندہ ولی تھی، اسما بہن! سچی بات یہ ہے کہ میں اپنے شوہر پر اُن حالات میں جس قدر روتی تھی، اس سے سو گنا زیادہ مجھے عائشہ کے انتقال کے صدمہ نے رلایا ۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
سوال : آپ نے اپنے بچوں کی تعلیم کیا کیا؟</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جواب : میں نے بچوں کو اسکول سے اٹھا لیا، میرے دونوں بیٹوں کا نام حسن اور حسین ہے، ان دونوں کو ایک بڑے مدرسے میں داخل کیا، الحمد للہ حسن کے ۲۶/ پارے حفظ ہو گئے ہیں، حسین کے ۴/ پارے ہوئے ہیں اور فاطمہ بیٹی بھی الحمد للہ حفظ کر رہی ہے اس کے ۱۶/ پارے حفظ ہو گئے ہیں، میری خواہش ہے وہ داعی بنیں اور عالم دین بن کر حضرت خواجہ معین الدین اجمیری کی طرح دعوت کا کام کریں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
سوال : آپ کے شوہر کا کیا حال ہے ؟</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جواب : ان کو عائشہ کے انتقال کا بڑا صدمہ ہے، ہمارے پاس رہنے لگے ہیں، بار بار کہتے ہیں اب دنیا سے دل بھر گیا ہے بس اللہ تعالی ایمان پر خاتمہ کرا دے، لیکن جب زیادہ پریشان ہوتے ہیں تو میں مولانا صاحب کے پاس ان کو بھیج دیتی ہوں وہ کچھ دعوت پر ابھارتے ہیں اب بھی ان کو لے کر آئی ہوں، الحمد للہ اس مرتبہ انھوں نے ہشاش بشاش رہنے کا وعدہ کیا ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
سوال : آپ کے شوہر ابی سے ملنے آتے رہتے ہیں ؟</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جواب : وہ ابی سے بیعت ہیں، عائشہ بھی ان سے بیعت تھی، اور میں اور میرے چھوٹے بچے بھی حضرت سے بیعت ہیں، میں نے جب بیعت کے لئے کہا تھا تو حضرت نے بہت منع کیا، انھوں نے کہا بیعت تو ضرور ہو نا چاہئے مگر کسی اللہ والے اور کامل شیخ سے بیعت ہونا چاہئے، جسم کی بیماری میں جب آدمی اچھے سے اچھے طبیب کو تلاش کرتا ہے تو روح کی بیماری میں تو اور بھی اچھے سے اچھے شیخ کامل کو تلاش کرنا چاہئے، حضرت نے فرمایا کہ جو خود آخری درجہ میں بیمار ہو وہ کیا کسی کا علاج کر سکتا ہے، میں تو اپنے شیخ کے حکم کی تعمیل میں توبہ کر لیتا ہوں کہ شاید سچے طالب کی برکت سے اللہ تعالی میرے گناہ معاف فرما دیں، میرے شوہر نے کہا حضرت ہمیں آپ کی برکت سے اللہ تعالی نے کفر و شرک کی بیماری سے نکال لیا آپ کے علاوہ ہمیں کون طبیب ملے گا، بہت اصرار کرنے پر حضرت نے ہم سب کو بیعت کر لیا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
سوال : بہت بہت شکریہ زینب آپا، واقعی آپ کی زندگی ایک عجیب زندگی ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جواب : اسماء بہن ! میری زندگی میں اور بھی عجیب عجیب واقعات ہیں جن کو اگر میں بتا دوں تو ایک لمبی کتاب بن جائے گی مگر اس وقت ہماری گاڑی کا وقت قریب ہے، ابھی باہر سے بار بار تقاضہ آر ہا ہے، پھر کسی وقت آ کر ساری کہانی سناؤں گی۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
سوال : ضرور زینب آپا، اب کی مرتبہ آپ چند روز کے لئے آئیے پھر ہم کچھ عورتوں کو اکٹھا کریں گے اس وقت آپ سنائیے گا</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جواب : اسماء یہ نہیں ہو سکتا، بس تمہیں سنا سکتی ہوں، عورتوں کے سامنے میں کوئی مولوی نہیں ہوں، مجھے تو بہت رعب ہو جاتا ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
سوال : اچھا ٹھیک ہے، اللہ حافظ ! ا لسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
جواب : وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ ٭</div>
<div dir="rtl" style="text-align: center;">
٭٭٭</div>
<div style="text-align: center;">
<br /></div>
</div>
Sarbakafhttp://www.blogger.com/profile/14532797594298636576noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3854913904789287339.post-52611839632337904732019-03-11T04:07:00.000-07:002019-03-11T04:07:12.973-07:00الاحادیث المنتخبہ - 9<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<b>پیش کش: مدیر </b></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<span style="color: #6aa84f;">'سربکف' کے پہلے شمارے سے اس سلسلے کے تحت وہ احادیث لائی جارہی ہیں جو عموماً قارئین کو یاد ہوتی ہیں، نیز وہ احادیث بھی جو تبلیغی جماعت والے استعمال کرتے ہیں۔ اس کے ذریعے احادیث کی ترویج درست طریقے پر ہو گی، اور من گھڑت قصے کہانیوں کو بطور حدیث پیش کرنے کی فاش غلطی کا سدباب ہوگا انشاءاللہ۔ احادیث بمع حوالہ درج کی جاتی ہیں،تاکہ بوقتِ ضرورت کام آسکیں۔(مدیر)</span></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<br /></div>
<h3 dir="rtl" style="text-align: justify;">
شبِ معراج میں نماز فرض ہونا</h3>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
حدثنا يحيى بن بكير، قال حدثنا الليث، عن يونس، عن ابن شهاب، عن أنس بن مالك، قال كان أبو ذر يحدث أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال " فرج عن سقف بيتي وأنا بمكة، فنزل جبريل ففرج صدري، ثم غسله بماء زمزم، ثم جاء بطست من ذهب ممتلئ حكمة وإيمانا، فأفرغه في صدري ثم أطبقه، ثم أخذ بيدي فعرج بي إلى السماء الدنيا، فلما جئت إلى السماء الدنيا قال جبريل لخازن السماء افتح. قال من هذا قال هذا جبريل. قال هل معك أحد قال نعم معي محمد صلى الله عليه وسلم. فقال أرسل إليه قال نعم. فلما فتح علونا السماء الدنيا، فإذا رجل قاعد على يمينه أسودة وعلى يساره أسودة، إذا نظر قبل يمينه ضحك، وإذا نظر قبل يساره بكى، فقال مرحبا بالنبي الصالح والابن الصالح. قلت لجبريل من هذا قال هذا آدم. وهذه الأسودة عن يمينه وشماله نسم بنيه، فأهل اليمين منهم أهل الجنة، والأسودة التي عن شماله أهل النار، فإذا نظر عن يمينه ضحك، وإذا نظر قبل شماله بكى، حتى عرج بي إلى السماء الثانية فقال لخازنها افتح. فقال له خازنها مثل ما قال الأول ففتح ". قال أنس فذكر أنه وجد في السموات آدم وإدريس وموسى وعيسى وإبراهيم ـ صلوات الله عليهم ـ ولم يثبت كيف منازلهم، غير أنه ذكر أنه وجد آدم في السماء الدنيا، وإبراهيم في السماء السادسة. قال أنس فلما مر جبريل بالنبي صلى الله عليه وسلم بإدريس قال مرحبا بالنبي الصالح والأخ الصالح. فقلت من هذا قال هذا إدريس. ثم مررت بموسى فقال مرحبا بالنبي الصالح والأخ الصالح. قلت من هذا قال هذا موسى. ثم مررت بعيسى فقال مرحبا بالأخ الصالح والنبي الصالح. قلت من هذا قال هذا عيسى. ثم مررت بإبراهيم فقال مرحبا بالنبي الصالح والابن الصالح. قلت من هذا قال هذا إبراهيم صلى الله عليه وسلم ". قال ابن شهاب فأخبرني ابن حزم أن ابن عباس وأبا حبة الأنصاري كانا يقولان قال النبي صلى الله عليه وسلم " ثم عرج بي حتى ظهرت لمستوى أسمع فيه صريف الأقلام ". قال ابن حزم وأنس بن مالك قال النبي صلى الله عليه وسلم " ففرض الله على أمتي خمسين صلاة، فرجعت بذلك حتى مررت على موسى فقال ما فرض الله لك على أمتك قلت فرض خمسين صلاة. قال فارجع إلى ربك، فإن أمتك لا تطيق ذلك. فراجعت فوضع شطرها، فرجعت إلى موسى قلت وضع شطرها. فقال راجع ربك، فإن أمتك لا تطيق، فراجعت فوضع شطرها، فرجعت إليه فقال ارجع إلى ربك، فإن أمتك لا تطيق ذلك، فراجعته. فقال هي خمس وهى خمسون، لا يبدل القول لدى. فرجعت إلى موسى فقال راجع ربك. فقلت استحييت من ربي. ثم انطلق بي حتى انتهى بي إلى سدرة المنتهى، وغشيها ألوان لا أدري ما هي، ثم أدخلت الجنة، فإذا فيها حبايل اللؤلؤ، وإذا ترابها المسك".</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(صحیح بخاری: حدیث نمبر 349)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے یونس کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے ابن شہاب سے، انھوں نے انس بن مالک سے، انھوں نے فرمایا کہ ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ یہ حدیث بیان کرتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے گھر کی چھت کھول دی گئی، اس وقت میں مکہ میں تھا۔ پھر جبرائیل علیہ السلام اترے اور انھوں نے میرا سینہ چاک کیا۔ پھر اسے زمزم کے پانی سے دھویا۔ پھر ایک سونے کا طشت لائے جو حکمت اور ایمان سے بھرا ہوا تھا۔ اس کو میرے سینے میں رکھ دیا، پھر سینے کو جوڑ دیا، پھر میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے آسمان کی طرف لے کر چلے۔ جب میں پہلے آسمان پر پہنچا تو جبرائیل علیہ السلام نے آسمان کے داروغہ سے کہا کھولو۔ اس نے پوچھا، آپ کون ہیں؟ جواب دیا کہ جبرائیل، پھر انھوں نے پوچھا کیا آپ کے ساتھ کوئی اور بھی ہے؟ جواب دیا، ہاں میرے ساتھ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں۔ انھوں نے پوچھا کہ کیا ان کے بلانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا؟ کہا، جی ہاں! پھر جب انھوں نے دروازہ کھولا تو ہم پہلے آسمان پر چڑھ گئے، وہاں ہم نے ایک شخص کو بیٹھے ہوئے دیکھا۔ ان کے داہنی طرف کچھ لوگوں کے جھنڈ تھے اور کچھ جھنڈ بائیں طرف تھے۔ جب وہ اپنی داہنی طرف دیکھتے تو مسکرا دیتے اور جب بائیں طرف نظر کرتے تو روتے۔ انھوں نے مجھے دیکھ کر فرمایا، آؤ اچھے آئے ہو۔ صالح نبی اور صالح بیٹے! میں نے جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا یہ کون ہیں؟ انھوں نے کہا کہ یہ آدم علیہ السلام ہیں اور ان کے دائیں بائیں جو جھنڈ ہیں یہ ان کے بیٹوں کی روحیں ہیں۔ جو جھنڈ دائیں طرف ہیں وہ جنتی ہیں اور بائیں طرف کے جھنڈ دوزخی روحیں ہیں۔ اس لیے جب وہ اپنے دائیں طرف دیکھتے ہیں تو خوشی سے مسکراتے ہیں اور جب بائیں طرف دیکھتے ہیں تو (رنج سے) روتے ہیں۔ پھر جبرائیل مجھے لے کر دوسرے آسمان تک پہنچے اور اس کے داروغہ سے کہا کہ کھولو۔ اس آسمان کے داروغہ نے بھی پہلے کی طرح پوچھا پھر کھول دیا۔ حضرت انس نے کہا کہ ابوذر نے ذکر کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان پر آدم، ادریس، موسیٰ، عیسیٰ اور ابراہیم علیہم السلام کو موجود پایا۔ اور ابوذر رضی اللہ عنہ نے ہر ایک کا ٹھکانہ نہیں بیان کیا۔ البتہ اتنا بیان کیا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت آدم کو پہلے آسمان پر پایا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو چھٹے آسمان پر۔ انس نے بیان کیا کہ جب جبرائیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ادریس علیہ السلام پر گزرے۔ تو انھوں نے فرمایا کہ آؤ اچھے آئے ہو صالح نبی اور صالح بھائی۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ جواب دیا کہ یہ ادریس علیہ السلام ہیں۔ پھر موسیٰ علیہ السلام تک پہنچا تو انھوں نے فرمایا آؤ اچھے آئے ہو صالح نبی اور صالح بھائی۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ جبرائیل علیہ السلام نے بتایا کہ موسیٰ علیہ السلام ہیں۔ پھر میں عیسیٰ علیہ السلام تک پہنچا، انھوں نے کہا آؤ اچھے آئے ہو صالح نبی اور صالح بھائی۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ جبرائیل علیہ السلام نے بتایا کہ یہ عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔ پھر میں ابراہیم علیہ السلام تک پہنچا۔ انھوں نے فرمایا آؤ اچھے آئے ہو صالح نبی اور صالح بیٹے۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ جبرائیل علیہ السلام نے بتایا کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں۔ ابن شہاب نے کہا کہ مجھے ابوبکر بن حزم نے خبر دی کہ عبداللہ بن عباس اور ابوحبۃ الانصاری رضی اللہ عنہم کہا کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، پھر مجھے جبرائیل علیہ السلام لے کر چڑھے، اب میں اس بلند مقام تک پہنچ گیا جہاں میں نے قلم کی آواز سنی (جو لکھنے والے فرشتوں کی قلموں کی آواز تھی) ابن حزم نے (اپنے شیخ سے) اور انس بن مالک نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے نقل کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ پس اللہ تعالیٰ نے میری امت پر پچاس وقت کی نمازیں فرض کیں۔ میں یہ حکم لے کر واپس لوٹا۔ جب موسیٰ علیہ السلام تک پہنچا تو انھوں نے پوچھا کہ آپ کی امت پر اللہ نے کیا فرض کیا ہے؟ میں نے کہا کہ پچاس وقت کی نمازیں فرض کی ہیں۔ انھوں نے فرمایا آپ واپس اپنے رب کی بارگاہ میں جائیے۔ کیونکہ آپ کی امت اتنی نمازوں کو ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتی ہے۔ میں واپس بارگاہ رب العزت میں گیا تو اللہ نے اس میں سے ایک حصہ کم کر دیا، پھر موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا اور کہا کہ ایک حصہ کم کر دیا گیا ہے، انھوں نے کہا کہ دوبارہ جائیے کیونکہ آپ کی امت میں اس کے برداشت کی بھی طاقت نہیں ہے۔ پھر میں بارگاہ رب العزت میں حاضر ہوا۔ پھر ایک حصہ کم ہوا۔ جب موسیٰ علیہ السلام کے پاس پہنچا تو انھوں نے فرمایا کہ اپنے رب کی بارگاہ میں پھر جائیے، کیونکہ آپ کی امت اس کو بھی برداشت نہ کر سکے گی، پھر میں باربار آیا گیا پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ نمازیں (عمل میں) پانچ ہیں اور (ثواب میں) پچاس (کے برابر) ہیں۔ میری بات بدلی نہیں جاتی۔ اب میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو انھوں نے پھر کہا کہ اپنے رب کے پاس جائیے۔ لیکن میں نے کہا مجھے اب اپنے رب سے شرم آتی ہے۔ پھر جبرائیل مجھے سدرۃالمنتہیٰ تک لے گئے جسے کئی طرح کے رنگوں نے ڈھانک رکھا تھا۔ جن کے متعلق مجھے معلوم نہیں ہوا کہ وہ کیا ہیں۔ اس کے بعد مجھے جنت میں لے جایا گیا، میں نے دیکھا کہ اس میں موتیوں کے ہار ہیں اور اس کی مٹی مشک کی ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
٭٭٭</div>
<div style="text-align: justify;">
<br /></div>
</div>
Sarbakafhttp://www.blogger.com/profile/14532797594298636576noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3854913904789287339.post-33564847361402320722019-03-11T04:05:00.001-07:002019-03-11T04:05:15.191-07:00عیسیٰؑ کے ۱۲ صحابہ کی روداد<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<b>حافظ عماد الدین ابن کثیر</b></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا كُونوا أَنصَارَ اللَّهِ كَمَا قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِيِّينَ مَنْ أَنصَارِي إِلَى اللَّهِ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنصَارُ اللَّهِ فَآَمَنَتْ طَائِفَةٌ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَكَفَرَتْ طَائِفَةٌ فَأَيَّدْنَا الَّذِينَ آَمَنُوا عَلَى عَدُوِّهِمْ فَأَصْبَحُوا ظَاهِرِينَ 14</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
مومنو! خدا کے مددگار بن جاؤ جیسے عیسیٰ ابن مریم نے حواریوں سے کہا کہ (بھلا) کون ہیں جو خدا کی طرف (بلانے میں) میرے مددگار ہوں؟ حواریوں نے کہا کہ ہم خدا کے مددگا رہیں تو بنی اسرائیل میں سے ایک گروہ تو ایمان لے آیا اور ایک گروہ کافر رہا۔ بالآخر ہم نے ایمان لانے والوں کو ان کے دشمنوں کے مقابلہ میں مدد دی اور وہ غالب ہوگئے ۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
(ترجمہ جالندھری- سورہ ۶۱،الصف: ۱۴)</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<br /></div>
<h3 dir="rtl" style="text-align: justify;">
عیسیٰ علیہ السلام کے 12صحابہ کی روداد:</h3>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
اللہ سحبانہ و تعالٰی اپنے مومن بندوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ ہر آن اور ہر لحظہ جان مال عزت آبرو قول فعل نقل و حرکت سے دل اور زبان سے اللہ کی اور اس کے رسول کی تمام تر باتوں کی تعمیل میں رہیں، پھر مثال دیتا ہے کہ حضرت عیسیٰ کے تابعداروں کو دیکھو کہ حضرت عیسیٰ کی آواز پر فوراً لبیک پکار اٹھے اور ان کے اس کہنے پر کہ کوئی ہے جو اللہ کی باتوں میں میری امداد کرے انہوں نے بلا غور علی الفور کہہ دیا کہ ہم سب آپ کے ساتھی ہیں اور دین اللہ کی امداد میں آپ کے تابع ہیں، چنانچہ روح اللہ علیہ صوالت اللہ نے اسرائیلیوں اور یونانیوں میں انہیں مبلغ بنا کر شام کے شہروں میں بھیجا، حج کے دنوں میں سرور رسل صلی اللہ علیہ وسلم بھی فرمایا کرتے تھے کہ کوئی ہے جو مجھے جگہ دے تاکہ میں اللہ کی رسالت کو پہنچا دوں قریش تو مجھے رب کا پیغام پہنچانے سے روک رہے ہیں، چنانچہ اہل مدینہ کے قبیلے اوس و خزرج کو اللہ تعالٰی نے یہ سعادت ابدی بخشی انہوں نے آپ سے بیعت کی آپ کی باتیں قبول کیں، اور مضبوط عہد و پیمان کئے کہ اگر آپ ہمارے ہاں آ جائیں تو پھر کسی سرخ و سیاہ کی طاقت نہیں جو آپ کو دکھ پہنچائے ہم آپ کی طرف سے جانیں لڑا دیں گے اور آپ پر کوئی آنچ نہ آنے دیں گے، پھر جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو لے کر ہجرت کر کے ان کے ہاں گئے تو فی الواقع انہوں نے اپنے کہے کو پورا کر دکھایا اور اپنی زبان کی پاسداری کی اسی لئے انصار کے معزز لقب سے ممتاز ہوئے اور یہ لقب گویا ان کا امتیازی نام بن گیا اللہ ان سے خوش ہو اور انہیں بھی راضی کرے آمین! جبکہ حواریوں کو لے کر آپ دین اللہ کی تبلیغ کے لئے کھڑے ہوئے تو بنی اسرائیل کے کچھ لوگ تو راہ راست پر آ گئے اور کچھ لوگ نہ آئے بلکہ آپ کو اور آپ کی والدہ ماجدہ طاہرہ کو بدترین برائی کی طرف منسوب کیا ان یہودیوں پر اللہ کی پھٹکار پڑی اور ہمیشہ کے لئے راندہ درگاہ بن گئے، پھر ماننے والوں میں سے بھی ایک جماعت ماننے میں ہی حد سے گذر گئی اور انہیں ان کے درجہ سے بہت بڑھا دیا ، پھر اس گروہ میں بھی کئی گروہ ہوگئے، بعض تو کہنے لگے کہ سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں بعض نے کہا تین میں کے تیسرے ہیں یعنی باپ بیٹا اور روح القدس اور بعض نے تو آپ کو اللہ ہی مان لیا، ان سب کا ذکر سورہ نساء میں مفصل ملاحظہ ہو۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
<br /></div>
<h3 dir="rtl" style="text-align: justify;">
سچے عیسائی:</h3>
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
سچے ایمان والوں کی جناب باری نے اپنے آخر الزماں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے تائید کی ان کے دشمن نصرانیوں پر انہیں غالب کر دیا، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں جب اللہ کا ارادہ ہوا کہ حضرت عیسیٰ کو آسمان پر چڑھا لے آپ نہا دھو کر اپنے اصحاب کے پاس آئے سر سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے یہ بارہ صحابہ تھے جو ایک گھر میں بیٹھے ہوئے تھے آتے ہی فرمایا تم میں وہ بھی ہیں جو مجھ پر ایمان لا چکے ہیں لیکن پھر میرے ساتھ کفر کریں گے اور ایک دو دفعہ نہیں بلکہ بارہ بارہ مرتبہ، پھر فرمایا تم میں سے کون اس بات پر آمادہ ہے کہ اس پر میری مشابہت ڈالی جائے اور وہ میرے بدلے قتل کیا جائے اور جنت میں میرے درجے میں میرا ساتھی بنے، ایک نوجوان جو ان سب میں کم عمر تھا، اٹھ کھڑا ہوا اور اپنے آپ کو پیش کیا، آپ نے فرمایا تم بیٹھ جاؤ، پھر وہی بات کہی اب کی مرتبہ بھی کم عمر نوجوان صحابی رضی اللہ تعالٰی عنہ کھڑے ہوئے، حضرت عیسیٰ نے اب کی مرتبہ بھی انہیں بٹھا دیا، پھر تیسری مرتبہ یہی سوال کیا ، اب کی مرتبہ بھی یہی نوجوان کھڑے ہوئے آپ نے فرمایا بہت بہتر، اسی وقت ان کی شکل و صورت بالکل حضرت عیسیٰ جیسی ہو گئی اور خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس گھر کے ایک روزن سے آسمان کی طرف اٹھا لئے گئے۔ اب یہودیوں کی فوج آئی اور انہوں نے اس نوجوان کو حضرت عیسیٰ سمجھ کر گرفتار کر لیا اور قتل کر دیا اور سولی پر چڑھا دیا اور حضرت عیسیٰ کی پیشین گوئی کے مطابق ان باقی کے گیارہ لوگوں میں سے بعض نے بارہ بارہ مرتبہ کفر کیا، حالانکہ وہ اس سے پہلے ایماندار تھے ، پھر بنی اسرائیل کے ماننے والے گروہ کے تین فرقے ہوگئے، ایک فرقے نے تو کہا کہ خود اللہ ہمارے درمیان بصورت مسیح تھا، جب تک چاہا رہا پھر آسمان پر چڑھ گیا، انہیں یعقوبیہ کہا جاتا ہے، ایک فرقے نے کہا ہم میں اللہ کا بیٹا تھا جب تک اللہ نے چاہا اسے ہم میں رکھا اور جب چاہا اپنی طرف چڑھا لیا، انہیں سطوریہ کہا جاتا ہے، تیسری جماعت حق پر قائم رہی ان کا عقیدہ ہے کہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول حضرت عیسیٰ ہم میں تھے، جب تک اللہ کا ارادہ رہا آپ ہم میں موجود رہے پھر اللہ تعالٰی نے اپنی طرف اٹھا لیا، یہ جماعت مسلمانوں کی ہے۔ پھر ان دونوں کافر جماعتوں کی طاقت بڑھ گئی اور انہوں نے ان مسلمانوں کو مار پیٹ کر قتل و غارت کرنا شروع کیا اور یہ دبے بھی ہوئے اور مغلوب ہی رہے یہاں تک کہ اللہ تعالٰی نے اپنے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا، پس بنی اسرائیل کی وہ مسلمان جماعت آپ پر بھی ایمان لائی اور ان کافر جماعتوں نے آپ سے بھی کفر کیا، ان ایمان والوں کی اللہ تعالٰی نے مدد کی اور انہیں ان کے دشمنوں پر غالب کر دیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا غالب آ جانا اور دین اسلام کا تمام ادیان کو مغلوب کر دینا ہی ان کا غالب آنا اور اپنے دشمنوں پر فتح پانا ہے۔ ملاحظہ ہو تفسیر ابن جریر اور سنن نسائی۔ پس یہ امت حق پر قائم رہ کر ہمیشہ تک غالب رہے گی یہاں تک کہ امر اللہ یعنی قیامت آ جائے اور یہاں تک کہ اس امت کے آخری لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہو کر مسیح دجال سے لڑائی کریں گے جیسے کہ صحیح احادیث میں موجود ہے۔ واللہ اعلم ۔٭</div>
<div dir="rtl" style="text-align: center;">
٭٭٭</div>
<hr />
<div style="text-align: center;">
<div dir="rtl" style="text-align: justify;">
٭ ماخوذ از تفسیر ابن کثیر، حافظ ابن کثیر، سورہ ۶۱،الصف: ۱۴، تاریخِ اشاعت غیر مذکور</div>
</div>
</div>
Sarbakafhttp://www.blogger.com/profile/14532797594298636576noreply@blogger.com0