جمعرات، 14 فروری، 2019

مسلمانان عالم ۔۔داخلی مسائل و مشکلات

”سربکف “مجلہ۶(مئی، جون ۲۰۱۶)
مولانا حبیب الرحمن اعظمی

آج سے تقریباً چودہ سو برس پہلے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک ایسی قوم کی تشکیل کی تھی جس کو خود آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے قرآن اور سیرت طیبہ کی شکل میں انتہائی روشن اور نورانی شاہراہ پر چھوڑا تھا، جس کے متعلق خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ ” لیلھا کنھارھا“ اپنے ابتدائی دور میں یہ قوم اس شاہراہ پر اس طرح چلی کہ دنیا بھر کی کامیابیاں اس کے قدم بوس ہوئیں، لیکن رفتہ رفتہ اس قوم نے اس شاہراہ سے انحراف کر دیا اور اسلامی تعلیمات سے انحراف کرتے ہی دنیاوی مسائل و مشکلات نے دبوچنا شروع کیا اور اب یہ قوم مصائب کے گھیرے میں ہے۔
عصر حاضر میں مسلمانوں کو درپیش مسائل و مشکلات بہت ہیں، طاغوتی لشکر کا حملہ ہر چہار سو سے ہے اور ہم مصائب میں الجھے زندگی گزار رہے ہیں ... تو سب سے پہلے ہم ان مسائل و مشکلات کے اسباب تلاش کرتے ہیں ۔ ہم صرف سرسری نظر اپنی زندگیوں پر ڈالیں گے تو مسئلہ ہم پر عیاں ہو جائے گا۔
قرآن و حدیث میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ اس جہان رنگ و بو میں کوئی چیز از خود اور اتفاق سے نہیں ہوتی بلکہ وہ منجانب اللہ ہوتی ہے اور ظاہر میں اس کے اسباب بھی ہوتے ہیں ۔ جن کو اللہ پاک نے قرآن مجید میں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے حدیث پاک میں بیان فرمایا ہے۔
چناں چہ ارشاد خداوندی ہے:
﴿ وما اصابکم من مصیبۃ فبما کسبت ایدیکم﴾ (الشوری: 30)
اور جو کچھ مصیبت تم کو (حقیقتاً) پہنچتی ہے وہ تمہارے ہی اعمال کی بدولت پہنچتی ہے۔
دوسری جگہ ارشاد ہے:
﴿ ظہر الفساد فی البر والبحر بما کسبت ایدی الناس لیذیقھم بعض الذی عملوا لعلھم یرجعون﴾ (الروم: 41)
لوگوں کے اعمال کی بدولت بر و بحر (یعنی خشکی اور تری) غرض ساری دنیا میں فساد پھیل رہا ہے (اور بلائیں وغیرہ نازل ہو رہی ہیں)، تاکہ اللہ تعالی ان کے بعض اعمال کی سزا کا مزہ چکھا دے، شاید کہ وہ اپنے ان اعمال سے باز آ جائیں۔
اس قسم کے مضامین قرآن میں بہت جگہ ہیں۔ پہلی آیت کے متعلق حضرت علی کرم اللہ وجہہ ارشاد فرماتے ہیں کہ مجھ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ:
”اس آیت کی تفسیر میں تجھے بتاتا ہوں، اے علی! جو کچھ پہنچے، مرض ہو یا کسی قسم کا عذاب ہو یا دنیا کی کوئی بھی مصیبت ہو، وہ تیرے ہی ہاتھوں کی کمائی ہے۔ (بحوالہ اسباب مصائب اور ان کا علاج ص: 8)
اب ایسی بھی بات نہیں ہے کہ کوئی مسئلہ ہی نہ پیش آئے او ر کسی کو کوئی مشکل ہی نہ پڑے، مسائل و مشکلات تو پیش آتے ہی رہیں گے۔ مشکلات و مسائل کا نام ہی زندگی ہے۔ ایسا ہوہی نہیں سکتا کہ انسان زندگی پائے اور مشکلات و مسائل سے دو چار نہ ہو ... اور ایمان والا انسان، جو اللہ کا سب سے برگزیدہ بندہ ہوتا ہے وہ بھلا رنج و غم سے کیسے بچ سکتا ہے جب کہ ارشاد نبوی (صلی اللہ علیہ و سلم ہے: ” ان عظم الجزاء مع عظم البلاء“۔ (ترمذی: 64/ 4)
یعنی بڑی جزا تو بڑی آزمائش کے ساتھ ہے ... اہل ایمان ہر دور میں مسائل و مشکلات سے دو چار ہوتے رہیں گے اور ابتلا و آزمائش کے مراحل ہی زندگی کا لازمی عنصر بنتے رہیں گے، کیوں کہ 
؏
مصائب میں الجھ کر مسکرانا ہے مری فطرت
عصر حاضر میں مسلمانوں کو درپیش مسائل و مشکلات دو طرح کی ہیں:
 ایک تو وہ ہیں جو خو دان کی اپنی ہی بداعمالیوں کا نتیجہ ہیں ۔
 دوسری وہ جو غیروں نے ان کی راہ میں کھڑی کر رکھی ہیں۔ 
اول الذکر کو داخلی مسائل و مشکلات اور دوسرے کو خارجی مسائل و مشکلات سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اور ہمارے داخلی مسائل خارجی مسائل و مشکلات کا سبب ہیں، کیوں کہ باطل کے سیل رواں میں پہلے اتنی بھی قوت نہ تھی کہ تنکہ بہا سکے۔ مگر جب مسلمانوں نے سفینہ۔ ملت میں سوراخ کیا، اپنے ہی ہاتھوں اپنے پاؤں میں کلہاڑی ماری تو 
؏
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کودے مارا
مسلمانوں کا اصل مسئلہ ”آخرت کے سدھارنے اور سنوارنے اور دینی تشخص و امتیاز برقرار رکھنے کا ہے“ پھر دیگر مسائل ہیں، مسلم معاشرہ کے مسائل و مشکلات کی آگ کی تپش محسوس کر کے ہی ہمارا ادراک صحیح منزل تک پہنچ سکتا ہے او ر مسائل و مشکلات کے صحیح ادراک کے بعد ہی کوئی صحیح حل پیش کیا جا سکتا ہے۔
مسلم معاشرہ میں مسائل و مشکلات جراثیم کی مانند پھیلے ہوئے ہیں اور ہمارا سماج گوناگوں مسائل و مشکلات اور اعتقادی و عملی پیچیدگیوں سے بھرا ہے، جن کو ہمیں سمجھنا ہوگا، اس وسیع موضوع پر مجموعی طور پر اور الگ الگ اجزا پر کتب موجود ہیں۔
ہم ذرا غور کریں، مسائل کو پہچانیں اور اپنے حالات کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ہم تعلیمی، تہذیبی، ثقافتی، اقتصادی، سیاسی اور معاشی، الغرض ہر اعتبار سے پستی میں ہیں، بے دینی اس قدر عام ہے کہ ہم سے دین داری کا شائبہ بھی ختم ہو رہا ہے اور ہم میں مغرب کا زہر سرایت کر رہا ہے۔ دیکھ لیں! کتنے مسلمان ایسے ہیں جن کے چہرے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نورانی سنت با احترام باقی ہے یا بالکل چٹ ... ! چہرے اور وضع قطع سے تو مسلمان کی پہچان دشوار ہو گئی ہے، داڑھی رکھنا شعائر اسلام میں سے ہے اور شعائر اسلام کو بالائے طاق رکھ کر، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی پیاری سنتوں کو چھوڑ کر ہم کبھی چین نہیں پا سکتے۔ کتنے افسوس اور حیرت کا مقام ہے کہ دعویٰ ہے مسلمان ہونے کا اور مسلم صفات سے آزاد۔ دعویٰ ہے عاشق رسول ہونے کا اور محبوب صلی اللہ علیہ و سلم ہی کے طور و طریق، جو اسوہ۔ حسنہ ہمارے لیے نمونہ ہیں، انہیں سے بیزاری ... اللہ اکبر! یہ کیسا بگاڑ ہے ... !
آج ایک مسلمان لباس غیروں جیسا پہنتا ہے، غیروں کا کلچر اپناتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے رشتہ توڑ کر طریقۂ یہود و نصاریٰ اس کو بھاتا ہے، نتیجہ یہ ہوا کہ ہم غیروں کے ہاتھ بک گئے اور کوئی وقعت نہ رہی۔
آج بھائی، بھائی کے خون کا پیاسا ہے، پڑوسی سے نالاں ہے، شکوہ ہے کہ اولاد نا کارہ اور آوارہ ہے، عورتوں کے حقوق ادا نہیں کیے جاتے، لڑکیوں کا حق مارا جاتا ہے، چھوٹے بڑے کی تمیز ختم ہوتی جا رہی ہے، بے ایمانیاں او ر معاملات کا بگاڑ اپنی انتہا پر ہے، بے دینی اور بد کرداری بالکل عام ہے، مسجدیں، نمازیوں سے خالی ہیں، صفیں مسجود حقیقی کی بارگاہ میں سجدہ ریز جبیں کو ترس رہی ہیں، اہل علم، جذبۂ عمل سے عاری، تعلیم و تعلم، خلوص و للہیت سے خالی، ہماری وضع قطع ایسی کہ شناخت کرنا دو بھر، کون مسلمان ہے، کون نہیں؟ کوئی امتیاز نہیں 
؏
چوں کفر از کعبہ بر خیزد کجا ماند مسلمانی
ہمارا رویہ نماز کے متعلق بہت زیادہ افسوس ناک ہے، نماز جو فارق بین الکفر و الاسلام ہے، جو ایمان کی علامت ہے، غور کریں کتنے مسلمان نماز کی پابندی کر تے ہیں، اسی طرح دوسرے ارکان پر عمل کرنے والے ہیں، اسی سے ہم تمام دینی احکام کا اندازہ کر سکتے ہیں ... فریضۂ دعوت ہم سے چھوٹ رہا ہے، غیر مسلموں میں تبلیغ دین سے تو ہمارے کان تقریباً ناآشنا ہو چکے ہیں، مسلمانوں کی اصلاح کا بہانہ بنا کر غیر مسلموں تک دعوت دین نہ پہنچانے سے مواخذہ ہوگا۔ بزرگان ملت اور دانش ور ان قوم اس مسئلہ پر بھی غور کریں۔ الحمدللہ! آج کل اس کا بھی عملاً کچھ اقدام کیا گیا ہے جس کے لیے طریقۂ کار سے وابستگی نہایت ضروری ہے او راسی کا ثمرہ ہے کہ دنیا آج اسلام کی طرف ہے۔
ہمارے آپسی اختلاف و انتشار، ملت اسلامیہ کے لیے اور بھی سوہان روح ہیں، جس اتحاد نے دنیا کو اسلامی طاقت کے سامنے سرنگوں ہونے پر مجبور کر دیا تھا آج اسی اتحاد کو بالائے طاق رکھنے کی وجہ سے ملت اسلامیہ کا شیرازہ بکھر چکا ہے، اتحاد اسلامی کا سرچشمہ قرآن حکیم اب بھی ہمیں اپنی تمام تر تاثیرات کے ساتھ اسلامی اتحاد کی دعوت دیتا ہے، دلوں کو جوڑنے اور اخوت و محبت پیدا کرنے کی سعی پیہم کرتا ہے۔
فرمان الٰہی ہے: ﴿ واعتصموا بحبل اللہ جمیعاً ولا تفرقوا﴾ 
مگر افسوس کہ آج امت مسلمہ نے کلمۂ حق کی بنیاد پر اتفاق و اتحاد نہیں کیا، ذات برادری کی تفریق کر کے مسلمان خود کے لہو کے پیاسے بن گئے اور اپنی جمعیت کا پارہ پارہ کر کے جذبہ۔ اخوت کا قلع قمع کر دیا۔ دیکھ لیجیے! عراق اور فلسطین کے مسلمان خانۂ جنگی کی مسموم فضا میں اپنے ہی ہم مذہب سے نبرد آزما ہیں اور اقوام عالم ہمارے کردار سے بھرپور منفعت حاصل کر رہی ہے۔
قرآن کریم اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ پر کیف اور پر سوز لہجے میں گویا ہے: 
﴿ واطیعوا اللہ ورسولہ ولاتنازعوا فتفشلوا وتذھب ریحکم﴾ ۔ (الانفال: 46)
اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑا فساد مت کرو، ورنہ تمہارے اندر کمزوری پیدا ہو جائے گی اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔
حیرت ہے کہ خدا ہمیں راہ راست پر لانا چاہتا ہے، مگر ہم آپس میں نفاق اور نفرت و عداوت کا بیج بو رہے ہیں۔
حیرت ہے کہ غیر قوموں میں مختلف فرقے اور ذاتیں ہیں، جن میں اشد ترین اختلافات بھی ہیں، مگر جب اسلام سے ٹکرانا ہوتا ہے تو سب ایک ہو جاتے ہیں او ر ایک مسلمان قوم ہے جسے مدت سے پریشان کیا جا رہا ہے اور ظلم و ستم کا نشانہ بنی ہوئی ہے ۔ مگر متحد نہیں ہو سکتی، اگر ہم اختلاف کی دلدل سے نکل کر اتفاق کے گلشن میں پہنچنا چاہتے ہیں تو ہمیں صرف کلمۂ توحید کی بنیاد پر اسلامی اتحاد قائم کرنا ہوگا، رنگ و نسل کے امتیاز کو ختم کر کے ہمدردی اور اخوت کا جامہ پہننا ہوگا، مسلمان کوئی بھی ہو، کہیں کا بھی ہو، سب ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ ایمان واسلام کے ناطے ہم سب آپس میں بھائی ہیں، نسل پرستی، قومیت اور وطنیت و علاقائیت کی ضد چھوڑو، یہ ہماری ملت اسلامیہ کی بدنصیبی ہے کہ ذاتی مسائل بھی ایک معمہ بن گئے۔ مسلکی اختلاف کیا چیز ہے؟ دشمن مسلک سے نہیں، مذہب سے لڑ رہا ہے۔ اتحاد اسلامی کی رفعت شان بزبان محسن انسانیت سنیے! آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سوا لاکھ صحابۂ کرام کے جم غفیر کو خطاب کر کے فرمایا:
 ”کلکم من آدم، وآدم من تراب، لافضل لعربی علی عجمی، ولالعجمی علی عربی، ولالأحمر علی اسود، ولا لاسود علی احمر، الا بالتقوی “
تم سب حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہو اور آدم علیہ السلام مٹی سے بنائے گئے تھے، کسی عرب نسل کے آدمی کو کسی عجم نسل کے آدمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت نہیں اور نہ کسی گورے کو کسی کالے پر اور نہ کسی کالے کو کسی گورے پر ۔ فضیلت صرف نیکی اور اچھائی کی بنیاد پر ہوگی۔
قرآن آج بھی دلوں کو جوڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے، بس ہم قرآنی تعلیمات پر خلوص کے ساتھ عمل پیرا تو ہوں، پھر ویسا ہی اتحاد پیدا ہوگا جیسا رسول خدا صلی اللہ علیہ و سلم نے عرب کے مختلف قبائل و خاندان کو کلمہ توحید کی بنیاد پر تیار کر کے قائم کیا تھا۔
مسلم معاشرہ میں ایک جانب دین اور اس کے احکام سے دوری ہے تو دوسری جانب شریعت کی ممنوعات سے قربت، جن چیزوں کو شریعت نے حرام قرار دیا اور جن کے کرنے والوں پر لعنت اور وعید وارد ہوئی ان میں کتنے رات دن مشغول اور منہمک ہیں۔ شراب ہی کولے لیجیے! یہ ام الخبائث ہے، اس میں کسی طرح کی شرکت حرام ہے، شراب پینے والا، پلانے ولا، بنانے والے، بنوانے والا، بیچنے و خریدنے والا، لاد کر لے جانے والا، جس کے پاس لاد کر لے جائی جائے وہ اور اس کی قیمت کھانے والا، سب بزبان رسالت ملعون و مردود ہیں، اسی طرح سود کا معاملہ ہے۔ اس کے نہ چھوڑنے والے کے لیے قرآن میں اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے جنگ کا اعلان ہے، سود کا سب سے کم درجہ اپنی ماں سے زنا کے مثل ہے، رشوت کے معاملہ میں راشی اور مرتشی دونوں جہنم میں جائیں گے ۔ یہ عذاب الہٰی کو دعوت دینا ہے، ہم اپنے حالات پر غور کریں، کتنے معاملات میں سودی لین دین کھلم کھلا ہوتا ہے ۔ شراب علی الاعلان پی جانے لگی، رشوت کا کاروبار عام ہے، امانت، مال غنیمت کے مثل ہو گئی۔
یہ امت خرافات اور رسوم و رواج میں کھو گئی، آج ہماری آنکھیں سب سے زیادہ ٹی وی اسکرین اور ویڈ یو کو پسند کرتی ہیں، اگر کوئی مشغلہ زیادہ محبوب ہے تو وہ صنف نازک سے نظر بازی ہے، اگر ہم زیادہ کسی چیز کو دیکھتے ہیں تو عریاں فلمی پوسٹر ہیں۔ آج کل کوئی ایسی بے حیائی کی جگہ نہیں جو مسلمانوں سے خالی ہو، مرد تو مرد، عورتیں بھی اس میں مبتلا ہیں ۔ انہیں پردہ کا کوئی اہتمام نہیں ۔ یہ گھروں سے نکلنے کے لیے ضرورت پیدا کرتی ہیں، یہ راستوں پر عام چال نہیں، بلکہ ناز سے پہلو بدل کر چلتی ہیں۔ جب کہ قرآن ببانگ دہل اعلان کرتا ہے۔
آپ کہہ دیجیے اے محمد (صلی اللہ علیہ و سلم)! مسلمان مردوں سے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنے ستر کی حفاظت کریں اور کہہ دیجیے مسلمان عورتوں سے کہ وہ (بھی) اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنے ستر کی حفاظت کریں اور اپنا سنگھار (اور زیب و زینت) نہ دکھلائیں۔
یہی حکم تمام صحابہ کرام و صحابیات کو تھا، یہی حکم ابوبکر و عمر و عثمان و علی کو تھا، یہی حکم اہل صفہ کو بھی تھا، یہی حکم درس گا ہ نبوت کے ہر طالب علم کو تھا اور یہی حکم جو چودہ سو سال پہلے فاطمہ زہرا، عائشہ صدیقہ کو تھا، بلا کسی تبدیلی کے ہم اور ہماری مائیں بہنیں بھی اسی کی مکلف ہیں، لیکن آہ! وہ قوم جس کا شیوہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر تھا آج وہ خود چاہ ضلالت میں گری پڑی ہے، ہماری زندگی خرافات کا مجموعہ بن گئی ہے، ناچ گانا، شطرنج و آتش بازی، داڑھی منڈوانا یا ایک مشت سے کتروانا، انگریزی بال، رسوم نکاح، فضول خرچی، بے پردگی... الغرض آج ہم ان خرافات او ر رسوم اختراعیہ کے اس قدر پابند ہیں کہ انہیں حق سمجھتے ہیں ۔ ہم اپنی تنگ دستی اور فقر و فاقہ کا رونا روتے ہیں ۔ اپنے اوپر مظالم کی شکایات کرتے ہیں، لیکن اپنے اعمال کی خبر نہیں لیتے، اخلاقی امراض جیسے غلط اخلاق و عادات، رقص و سرود، گانے بجانے، ریڈ یو، ٹی وی، سینما، آرام طلبی، منکرات و معاصی، احکام خداوندی کی بر سر عام نافرمانی، فسق و فجور اور الحاد زندقہ پھیلانے والے رسائل و ڈائجسٹ کا گھر گھر پھیل جانا، عریانیت و بے حیائی، اسراف و تبذیر، رسوم و رواج، بے عملی اور دین سے دوری، آپسی اختلاف انتشار، غربت و جہالت اور بد تہذیبی یہ ہمارے وہ داخلی خطرات ہیں جو قوم کے قلب و ضمیر او ر معاشرہ کے رگ و پے میں سما گئے ہیں ۔ یہ ہمارے داخلی دشمن اور داخلی مہلک امراض جو ہمارے انجام اور ہمارے معاشرہ کے لیے دشمنوں کے لشکر جرار سے کہیں زیادہ مہلک، خطرناک اور زیادہ تشویش ناک ہیں۔ ان کی طرف ہماری توجہ مبذول نہیں ہوتی۔ نہ ہم ان سے خلاصی حاصل کرنے کے لیے کوئی احتیاطی تدبیر اور موثر اقدام و علاج کرتے ہیں ... حد تو یہ ہے کہ ان داخلی امور میں ہماری بے دینی کی وجہ سے مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے، غیروں کے مسلسل حملوں اور پیہم یلغار کے باوجود ان باتوں میں کمی نہ آنا اور اصلاحی کوششوں کا بار آور نہ ہونا عصر حاضر کے مسلمانوں کا زبردست المیہ ہے۔
یہ طرز زندگی اور یہ اعمال و حرکات جو ہم نے اختیار کر رکھی ہیں، یقیناً ً اللہ کی نصرت اور اس کی رحمت و مدد سے محروم کرنے والی ہیں۔ ہم شیطان کی غلامی میں پھنس گئے۔ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی، مصائب و حوادث کی کثرت کا سبب ہے اور اللہ کی اطاعت اور اس کے احکام کی فرماں برداری دار ین کی فلاح کا سبب ہے۔٭
٭٭٭

     

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں