منگل، 12 فروری، 2019

دشمن کو دوست بنانے کا قرآنی نسخہ

”سربکف “مجلہ۴  (جنوری ، فروری ۲۰۱۶)
محمد بن احمد قرطبی ﷫
وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ۭ اِدْفَعْ بِالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَبَيْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ     34؀
اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہوتی، تم بدی کا دفاع ایسے طریقے سے کرو جو بہترین ہو ،  نتیجہ یہ ہوگا کہ جس کے اور تمہارے درمیان دشمنی تھی، وہ دیکھتے ہی دیکھتے ایسا ہوجائے گا جیسے وہ (تمہارا) جگری دوست ہو (آسان ترجمہ قرآن- سورہ ۴۱ ،حٰم سجدہ: ۳۴)

ولا تستوی الحسنۃ ولا السیئۃ فراء نے کہا : لا زائدہ ہے کلام یوں ہے 
ولا تستوی الحنۃ والسئۃ
 اور یہ شعر پڑھا : 
ما کان یرضی رسول اللہ فعلھم 
و لطیبان ابو بکر و الاعمر 
رسول اللہ ﷺحضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر دونوں پاکیزہ ہستیاں ان کے عمل پر راضی نہ تھے۔
 شعر میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا : حسنہ لاء الہ الا اللہ ہے اور سیئہ شرک ہے۔ 
ایک قول یہ کیا گیا ہے : حسنہ سے مراد طاعت ہے اور سیئہ سے مراد شرک ہے بعینہ یہ قول ہے۔ 
ایک قول یہ کیا گیا ہے : حسنہ سے مراد عفو و درگزر ہے اور سیئہ سے مراد انتقام ہے۔ 
ضحاک نے کہا : حسنہ سے مراد علم ہے اور سیئہ سے مراد فحش ہے۔ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے حسنہ سے مراد آل رسول سے محبت ہے اور سیئہ سے مراد ان سے بغض ہے۔
ادفع بالتی ھی احسن آیت سیف کی وجہ سے یہ منسوخ ہے اور اس میں سے مستحب باقی ہے وہ حصن معاشرت، برداشت کرنا اور چشم پو شی کرنا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا : آدمی تیرے ساتھ جہل سازی کرتا ہے اپنے حلم کے ساتھ اسے کے جہل کو دور کرے۔ ان سے یہ قول بھی مروی ہے : مراد ایسا آدمی ہے جو دوسرے کو گالی دیتا ہے دوسرا کہتا ہے : اگر تو سچا ہے تو اللہ تعالیٰ مجھے بخش دے اگر تو جھوٹا ہے تو اللہ تعالیٰ تجھے بخش دے، اسی طرح ایک اثر مروی ہے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہی بات ایک ایسے آدمی سے کہی جس سے آپ نے اسی قسم کی اذیت پائی تھی۔
مجاہد نے کہا : بالتی ھی احسن سے مراد یہ ہے سلام کہنا جب وہ اپنے دشمن سے ملے ؛ یہ عطا کا قول ہے۔
ایک تیسرا قول ہے جو قاضی ابو بکر بن عربی نے احکام میں ذکر کیا ہے جو مصافحہ ہے ایک اثر میں ہے 
تما فحوا یذھب الغل
باہم مصافحہ کیا کرو کینہ جاتا رہتا ہے۔ امام مالک مصافحہ کی رائے نہ رکھتے تھے آپ کی سفیان کے ساتھ ملاقات ہوئی اور مصافحہ کے بارے میں گفتگو کی۔ سفیان نے کہا : رسول اللہ ﷺنے حضرت جعفر طیار سے اس وقت مصافحہ کیا تھا جب آپ حبشہ سے واپس کوٹے تھے۔ امام مالک نے فرمایا : یہ حکم خاص ہے۔ سفیان نے ان سے کہا : جو چیزوں رسول اللہ ﷺکے لیے خاص ہے وہ ہمارے لیے بھی خاص جو بھی خاص ہے جو آپ کے لیے عام ہے وہ ہمارے لیے بھی عام ہے، مصافحہ ثابت ہے اس کے انکار کی کوئی وجہ نہیںَ۔
قتاوہ نے روایت کی ہے کہا میں نے حضرت انس سے کہا : رسول اللہ ﷺکے صحابہ میں مصافحہ کا معمول تھا ؟ انہوں نے فرمایا : ہاں۔ یہ حدیث صحیح ہے۔
ایک اثر ہے : محبت کا کمال ہاتھ پکڑنا ہے۔
محمد بن اسحاق (جو امام مقدم ہے) زہری سے وہ عروہ سے وہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ حضرت زید بن حارثہ مدینہ طیبہ آئے جبکہ رسول اللہ ﷺمیرے گھرمیں تھے اس نے دروازہ کھٹکھٹایا رسول اللہ ﷺاپنی چادر گھسیٹتے ہوئے اس کی طرف بڑھے جبکہ جسم پر پورا لباس نہ تھا اللہ کی قسم ! میں نے اس سے قبل اور اس کے بعد آپ کو بے لباس نہ دیکھا رسول اللہ ﷺنے اس کے ساتھ معانقہ کیا اور اسے بوسہ دیا۔
میں کہتا ہوں : امام مالک سے مصافحہ کا جواز مروی ہے یہی علماء کی جماعت کا نقطہ نظر ہے۔ سورۃ یوسف میں بحث گذر چکی ہے وہاں ہم نے حضرت براء کی حدیث کا ذکر کیا کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا : جو وہ مسلمان آپس میں ملتے ہیں ان میں سے ایک اپنے ساتھی کا ہاتھ پکڑتا ہے وجہ دونوں میں محبت اور خلوص ہوا کرتی ہے تو ان کے گناہ ان دونوں کے درمیان گرادیے جاتے ہیں۔ 
فاذ الذی بینک وبینہ عد اوۃ کا نہ ولی حمیم۔
 ولی حمیم یعنی قریبی دوست۔ مقاتل نے کہا : یہ آیت ابو سفیان بن حرب کے حق میں نازل ہوئی وہ نبی کریم ﷺکو اذیت پہنچایا کرتا پہلے وہ دشمن تھا بعد میں رشتہ مصاہرت کی وجہ سے دوست بن گیا پھر وہ اسلام لے آیا۔ اسلام میں ولی اور قرابت میں حمیم بن گیا۔
ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ آیت ابو جہل کے بارے میں نازل ہوئی وہ نبی کریم ﷺکو اذیتیں دیا کرتا اللہ تعالیٰ نے نبی کریم کو اس پر صبر اور درگزر کا حکم دیا ؛ یہ مادر دی نے ذکر کیا ہے۔ پہلا قول ثعلبی اور قشیری نے ذکر کیا ہے وہ زیادہ مناسب ہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : 
فاذ الذی بینک وبینہ عداوۃ کا نہ ولی حمیم۔
ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ جہاد کا حکم نازل ہونے سے پہلے حکم تھا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا : اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں غضب کے وقت صبر، جہل کے وقت حلم، زیادتی کے وقت عفو کا حکم دیا جب لو ایسا کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ انہیں شیطان سے محفوظ رکھتا ہے اس کے دشمن کو زیر کردیتا ہے۔ روایت بیان کی جاتی ہے کہ ایک آدمی نے حضرت علی شیر خدا کے غلام قنبر کو گالی دی حضرت علی شیر خدا نے اپنے غلام کو آواز دی : اے قنبر ! اپنے گالی دینے والے کو چھوڑ دو، اس سے بے نیاز ہوجا رحمٰن تجھ سے راضی ہوگا شیطان ناراض ہوگا اور تو اپنے گالی دینے والے کو سزادے گا احمق کو اس سے بڑھ کر کوئی سزا نہیں کہ اس کو جواب نہ دیا جائے انہوں نے یہ اشعار ذکر کیے : 
ولکفت عن شتم اللیم تکرما           اضرلہ من شتہ حین یشتم
شرافت کی بنا پر کمینے آدمی کو گالی پر جواب نہ دینا اس کے لیے زیادہ تکلیف دہ ہے بنسبت اس کے گالی کے وقت اسے گالی دی جائے۔
وما شیء احب الی سفیہ ءاذا سب الکریم من الجواب
متارکۃ السفیہ بلا جواب اشد علی السفیہ من السباب
بے وقوف کے لیے جو سے بڑھ کر کوئی چیز محبوب نہیں جب وہ جو کریم کو گالی دے۔ جواب کے بغیر سفیہ کو چھوڑ دینا سفیہ بے وقوف کے لیے گالی دینے سے زیادہ سخت ہے۔
محمود راق نے کہا : 
سانزم نفسی الصفح عن کل مذنب وان کثرت منہ لدی الجرائم
میں ہر گناہ گار سے درگذر کرنا اپنے اوپر لازم کرتا ہوں اگرچہ اس کے جرائم میرے ہاں بہت زیادہ ہوجائیں۔
فما الناس الا و احد من ثلا ئۃ شریف و مشروف ومثل مقاوم
فاما الذی فوقی فاعرف قدرہ واتبع فیہ الحق والحق لازم
لوگ تینوں میں سے ایک ہی ہوتا ہے شریف، کمینہ اور مد مقابل جو مجھ سے بلند مرتبہ ہے میں اس کی قدرو منزلت کو پہچانتا ہوں اور میں اس کے بارے میں حق کی اتباع کرتا ہوں اور حق لازم ہے۔
واما الذی دونی فان قال صنت عن ءاجابیہ عرجی وان لام لا تم
جو مجھ سے مرتبہ میں کم ہے اگر وہ کچھ بات کرے تو میں اپنی عزت کو اس کا جواب دینے سے محفوظ رکھتا ہوں اگرچہ ملا مت کرنے والا ملامت کرے۔
وءاما الذی مثلی فان ذل اوھفا تفضلت ان الفضل بالحلم حاکم
جو مرتبہ میں میری مثل ہے اگر وہ بغزش کرے تو میں بڑائی کا اظہار کروں بے شک فضیلت کا فیصلہ حلم کے ساتھ ہی ہونے والا ہوتا ہے۔٭

     

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں