جمعرات، 14 فروری، 2019

رفض و شیعت کا موجد ابن سبا ایک یہودی (تیسری اور آخری قسط).

”سربکف “مجلہ۶(مئی، جون ۲۰۱۶)
سرونٹ آف صحابہ

حصہ سوم
شیعہ اعتراض ابن سبا کا وجود ہے لیکن شیعت کا بانی یہ نہیں ہے
جو شیعہ یہ بات مانتے ہیں کہ ابن سبا کا وجود ہے تووہ یہ نہیں مانتے کہ شیعت کا موجد یہ ہے ہم سنی جب یہ کہتے ہیں کہ ابن شیعت کا بانی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم ایسی جماعت کی طرف اشارہ کر رہے ہیں جو کہ اہل بیت سے محبت کرتی ہے بلکہ ہم اس کی نشاندہی کر رہے ہیں جو رافضی ہیں اور منافقانہ عقائد رکہتے ہیں یعنی ابو بکر و عمر رضوان اللہ کو کافر کہنا ، قیامت سے پہلے امام کا واپس آنا اور ولایت تقوینیہ پر ایمان رکھنا وغیرہ۔ 
شیعوں کا یہ ٹولہ کم سے کم اس حد تک اپنے بڑوں کی عزت کرتا ہے کہ وہ اپنی کتب میں موجود ابن سبا یہودی کا انکارنہیں کرتا پر وہ اس بات کو رد کرتے ہیں کہ شیعت کا ابن سبا یا سبائی گروہ سے کوئی تعلق ہے وہ اس کے ثبوت میں آپ کو محمد بن حسن طوسی (رافضیوں کا مشہور عالم متوفی 460) کا حوالہ دیتے ہیں کہ وہ خود ابن سبا یہودی کو کافر مانتے ہیں۔ 
رجال طوسی ص 75 نمبر 718
طوسی کہتا ہے ابن سبا کافر ہوگیا تھا اور وہ غلت میں پڑ گیا تھا۔ 
یہ رافضی الکاشی کی صحیح روایات بھی پیش کرتے ہیں حوالہ کے طور پر جس میں اماموں نے ابن سبا یہودی پر لعنت کی ہے وہ اسی بنا پر ہی مانتے ہیں کہ ابن سبا یہودی کا وجود تھا لیکن شیعہ مذہب سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے ابن سبا یہودی ایسا آدمی ہے جس کو لعنت کی گئی ہے اماموں کی طرف سے کیونکہ اس نے امیر المومنین علی   کی امامت کے بجائے ان کے رب ہونے کی پرچار شروع کردی۔

یہ لوگ اس کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ حقیقت کو مسخ کیا جائے لیکن یہ حقیقت ہے کہ شیعہ علماء اس بات کو نہ صرف تسلیم کرتے ہیں کہ ابن سبا نے علی   کے رب ہونے کا پرچار کیا اس کے ساتھ یہ پہلا شخص ہے جس نے شیعوں کے دو بنیادی عقائد کی پرچار بھی کی جو کہ صرف شیعوں کے ٹولہ میں پائی جاتی ہیں۔ 
1۔ ابن سبا یہودی وہ پہلا شخص ہے جس نے اعلانیہ ابو بکر و عمر ، عثمان اور صحابہ رضوان اللہ اجمعین پر کھلا تبرا کیا بلکہ ان سے بیزاری کا اعلان کیا اور یہ بکواس بھی کی اسے ایسا کرنے کو علی   نے کہا ہے (جیسے آجکے رافضی دعوی کرتے ہیں) علی   اسے قتل کرنے والے تھے لیکن لوگوں کے احتجاج کی وجہ سے اسے جلاوطن کردیا اس بات کو نوبختی ، الکشی ، سعد بن عبداللہ القمی نے قبول کیا ہے۔
2۔ ابن سبا وہ پہلا شخص ہے جس نے شہادت دی کہ امامت علی کا ماننا فرض ہے اوراس نے اعلانیہ ان کے دشمنوں سے بیزاری کی اور انہیں کافر قرار دیا (جو آج کے رافضیوں کے ایمان کا حصہ ہے) یہ شیعہ علماء کی طرف سے ایک اور اقرار ہے جسے آسانی سے رد نہیں کیا جا سکتا۔
اسی کی بنیاد ہر جس نے شیعوں کی مخالت کی تو بلاجھجک کہا کہ رفض کی بنیاد یہود کے عقائد پر ہے اور یہی بات جو کہ جس کو مسلمان مانتے ہیں اور اہل سنت کہتے ہیں شیعہ عقائد کی بنیاد ابن سبا یہودی کے عقائد پرہے اور پھر رافضیوں کے بے تکے سوالوں کے جواب میں یہی کہتے ہیں مثال کے طور پر رافضی کہتے ہیں: 
٭شیعہ کا کون اصول ابن سبا سے لیا گیا ہے ، شیعہ کے کس فقہی مسئلے کو لیا گیا ہے ،کیا ہمارے امام ابن سبا کی تعریف کرتے تھے ، ہم نے ابن سبا سے کتنے احادیث لیں ہیں؟
٭کیا شیعہ پاگل یا جاہل ہیں کہ 1400 سالوں میں یہ نہیں جان سکے کہ ان کے عقائد کی بنیاد جھوٹی روایات پر ہے جو عبداللہ بن سبا کی طرف سے آئیں ہیں؟
٭اگر ابن سبا یہودی شیعوں کے لئے اتنا اہم ہے تو شیعوں نے اماموں کی طرح اس کی روایات کو کیون نہیں نقل کیا؟ یقیناً اگر ابن سبا ان کا آقا ہوتا تو وہ ضرور اس کی روایات نقل کرتے اور اس پر فخر کرتے ۔ 
اس قسم کے سوالات کرنے والے العسکری ، یاسر الخبیث ،عمار نخوانی ، الوائیلی وغیرہ ہیں اور ان کا سادہ سا جواب یہ ہے:
کسی بھی مسلم سنی عالم نے کبھی بھی یہ دعوی نہیں کیا کہ ابن سبا کی تقلید کے لائق ہےیا اس کی تقلید رافضیوں کے لئے ضروری ہے وہ صرف یہ لکھتے آئے ہیں کہ رافضی صرف اس کے یہودی خیالات کی پیروی کر رہے ہیں ۔ مثال کے طور پر آج کے عیسائی کبھی یہ نہیں مانتے کہ وہ ان کی مذہب بنیاد سیدنا مسیح علیہ السلام کی عقائد پر نہیں ہے بلکہ پال جاہل کے عقائد پر ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ سیدنا مسیح علیہ السلام کے شیعہ (پیروکار) ہیں۔ اسی طرح شیعت ایک ایسی جماعت ہے جس کی بنیاد رکہنے والا ایک یہودی ہے خاص طور ہر صحابہ کی تکفیر اور امامت علی کا فرض ہونے کے عقائد اہل بیت کے نہیں ہیں بلکہ یہ عقائد ابن سبا یہودی کے ہیں جس نے ان عقائد کی بنیاد رکھی اور وہی بقول شیعہ علماء کے پہلا شخص ہے جس ان عقائد کی لوگوں میں پرچار اسی لئے کہا جاتا ہے اور تا قیامت کہا جائے گا۔
ابن سبا رافضیوں کا روحانی باپ ہے اور ایسی عقائد کی بنیاد رکھنے ولا ہے جو کسی بھی فرقے میں نہیں ملتے سواء رافضیوں کے (خاص اثنا عشریوں میں)
جو بھی کہتے ہیں کہ ابن سبا نے شیعت کی بنیاد رکھی اس کی وجہ اس کے عقائد ہیں خاص کر صحابہ کی تکفیر ، رجا،علی   کے بارے میں غلط اور وہ ان عقائد کی وجہ سے ہی مشہور ہے شاید کوئی کوشش کرے کہ ایسے عقائد ابن سبا سے پہلے بھی تھے لیکن وہ اس کے لئے کوئی بھی چیز نہیں ڈھونڈ سکتا ۔ اگر کوئی کہے کہ ابن سبا نے شیعت کی بنیاد رکھی جس مین شیعت کے سب کے سب عقائد بشمول امامت کے آتے ہیں تو اس بات کسی نے بھی دعوی نہیں کیا اور نہ ہی ایسی چیز لکھی ہے مقصد کی بات یہ ہے ابن سبا یہودی نے رفض کی بنیاد رکھی جو کہ اہل بیت کے نام پر کی گئی اور آج تک اثنا عشری فرقہ اس کی تقلید میں صحابہ خاص کر ابو بکر و عمر کی تکفیر کرتا آرہا ہے ۔
نتیجہ
مسلم علماء اور شیعہ علماء حقیقت میں اس بات کے قائل ہیں کہ ابن سبا یہودی کے ہی خیالات ہیں جو شیعت کی بنیاد کے ذمہ دار ہیں پر یہ مکمل شیعت کا بانی نہیں ہے کیوں کہ رافضیت صدیوں کی ارتقا سے گزری ہے ۔ آپ تاریخ دمشق میں دیکھیں کہ وہان کچھ روایات ہیں ابن سبا کے بارے میں جو علی   کو خالق کائنات کہہ رہا ہے ۔ الجوزنجانی متوفی 259 ہجری اپنی کتاب رجال میں ابن سبا کا ذکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ابن سبا نے کہا کہ ہمارے پاس صرف 9/1 قرآن باقی ہے، پورا قرآن علی کے پاس ہے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس بات نے یہ عقیدہ بنا لیا ہوگا کہ قرآن تحریف شدہ ہے ۔

 آخری بات یہ کہ ابن سبا نے اہل بیت کے نام پر اپنے یہودی عقائد کی پرچار کی اور آج کی شیعہ بھی اہل بیت کے نام پر غلیظ شیعت کی پرچار کرتے ہیں۔٭
٭٭٭

     

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں