بدھ، 13 فروری، 2019

ردِّقادیانیت کورس ( قسط۔٣).

”سربکف “مجلہ۵(مارچ، اپریل ۲۰۱۶)
 منظور احمد چنیوٹی ﷫


حوالہ نمبر ۱﴾ ’’ اول تو یہ جاننا چاہیے کہ مسیح کے نزول کا عقیدہ کوئی ایسا عقیدہ نہیں ہے جو ہمارے ایمانیات کی کوئی جزو یا ہمارے دین کے رکنوں میں سے کوئی رکن ہو بلکہ صدہا پیش گوئیوں میں سے یہ ایک پیش گوئی ہے جس کو حقیقت اسلام سے کچھ بھی تعلق نہیں جس زمانہ تک یہ پیش گوئی بیان نہیں کی گئی تھی اس زمانہ تک اسلام کچھ ناقص نہیں تھا اور جب بیان کی گئی تو اس سے اسلام کچھ کامل نہیں ہوگیا۔‘‘ 
ازالہ اوہام ص۱۴۰، روحانی خزائن ص ۳ ص ۱۷۱
اس حوالہ سے چند امور واضح ہوئے :
۱۔عقیدہ نزول مسیح ؑ ہمارے ایمانیات کی جز نہیں ہے ۔
۲۔یہ مسئلہ دین کے ارکان میں سے کوئی رکن نہ ہے ۔
۳۔یہ ایک پیش گوئی ہے اس اس کاحقیقت اسلام سے کچھ بھی تعلق نہیں ۔
۴۔ اس کے بیان نہ کرنے سے اسلام ناقص نہیں ہوتا اور بیان کرنے سے کامل نہیں ہوتا۔
حوالہ ۲﴾ ’’ کل میں نے سنا تھا کہ ایک شخص نے کہا کہ اس فرقہ میں اور دوسرے لوگوں میں سوائے اس کے کچھ فرق نہیں کہ یہ لوگ وفات مسیح کے قائل ہیں اور وہ لوگ وفات مسیح کے قائل نہیں باقی سب عملی حالت مثلاً نماز، روزہ،اور زکوٰۃ اور حج وہی ہے سوسمجھنا چاہیے کہ یہ بات صحیح نہیں کہ میرا دنیا میں آنا صرف حیات مسیح کی غلطی کو دور کرنے کے واسطے ہے اگر مسلمانوں کے درمیان صرف یہی غلطی ہوتی تو اتنے کے واسطے ضرورت نہ تھی کہ ایک شخص خاص مبعوث کیا جاتا اور الگ جماعت بنائی جاتی اور ایک بڑا شور بپا کیا جاتا یہ غلطی دراصل آج نہیں پڑی بلکہ میں جانتا ہوں کہ آنحضرت ﷺ کے تھوڑے ہی عرصہ بعد یہ غلطی پھیل گئی تھی اور کئی خواص او راولیاء اور اہل اﷲ کا یہی خیال تھا اگر یہ کوئی ایسااہم امر ہوتا تو خدا تعالی اسی زمانہ میں اس کا ازالہ کردیتا۔‘‘
احمدی اور غیر احمد ی میں فرق ص۲ از مرزا غلام احمد قادیانی
اس حوالہ سے چند امور واضح ہوئے :
۱۔ حیا ت عیسیٰ ؑ کا عقیدہ آنحضرت کے تھوڑے ہی عرصہ بعد پھیل گیاتھا ۔
۲۔کئی خواص ، اولیاء ، اہل اﷲ کا یہی عقیدہ تھا ۔
۳۔یہ کوئی ایسا اہم امر نہیں ہے جس کاازالہ خدا تعالیٰ نے ضروری سمجھا ہو ۔
حوالہ نمبر ۳﴾ ’’ اور مسیح موعود کے ظہور سے پہلے اگر امت میں سے کسی نے خیال بھی کیا کہ حضرت عیسیٰ ؑ دوبارہ دنیا میں آئیں گے توان پر کوئی گناہ نہیں صرف اجتہادی خطا ہے جو اسرائیلی نبیوں سے بھی بعض پیش گوئیوں کے سمجھنے میں ہوتی رہی ہے ۔‘‘
حاشیہ حقیقت الوحی ص ۳۰، روحانی خزائن ج۲۲ ص ۳۲
اس حوالہ سے جو امور واضح ہوئے وہ یہ ہیں :
۱۔ نزول عیسیٰ ؑ کے معتقد پر کوئی گناہ نہیں ہے ۔
۲۔ یہ محض اجتہادی خطا ہے اور اس قسم کی خطا اسرائیلی نبیوں سے بھی ہوتی رہی ۔
حوالہ نمبر ۴﴾ ’’ ہماری یہ غرض ہر گز نہیں کہ مسیح علیہ السلام کی وفات و حیات پر جھگڑے اور مباحثے کرتے پھرو یہ ایک ادنیٰ سی بات ہے ۔‘‘
ملفوظات احمدیہ ج۲ص۷۲ جدید
اس حوالہ سے یہ واضح ہوا کہ :
۱۔مرزائیوں کی غرض یہ نہیں ہونی چاہیے کہ وفات و حیات مسیح پر مباحثے و جھگڑے کریں ۔
۲۔ یہ ایک ادنیٰ سی بات ہے 
سو ہم کہتے ہیں کہ جب یہ مسئلہ ہمارے ایمانیات کی جز نہیں ہے ،جب یہ دین کے رکنوں میں سے رکن نہیں ، جب اسلام کی حقیقت سے اس کا کچھ تعلق نہیں ، جب اس کے بیان کرنے یا نہ کرنے سے اسلام میں کچھ فرق نہیں پڑتا ، جب یہ مسئلہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ کے بعد جلد ہی پھیل گیا تھا ، جب یہ عقیدہ خواص کا تھا ، اولیاء کا تھا، اہل اﷲ کاتھا ، اور جب یہ کوئی خاص امر نہیں ہے ، جب اس کا ازالہ خدا نے ضروری نہیں سمجھا ،جب اس کے عقیدہ رکھنے والے پر کوئی گناہ نہیں ، جب یہ محض اجتہادی غلطی ہے ، جب اس قسم کی خطائیں سابقہ انبیاء سے بھی ہوتی رہیں ، جب آپ کی غرض اس پر مباحثہ کرنے کی نہیں اور جب یہ ادنیٰ سی بات ہے تو اس مسئلہ پر بحث کرنے کی کوئی ضرورت و اہمیت باقی نہ رہی لہذا ہم سب سے پہلے مرزا کی سیرت و کردار پر بحث کریں گے جو انتہائی اہم اور ضروری ہے ۔
تعین موضوع نہایت اہم اور کٹھن معاملہ ہے مسلمان مناظر کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ سیرت مرزا کا موضوع طے کیاجائے اور مرزائی مناظر کی یہ تمنا ہوتی ہے کہ حیات ووفات مسیح ، اجرائے نبوت جیسے موضوعات میں وقت ضائع کیا جائے ۔ اس لئے اس مرحلہ میں ہمارے مناظر کو انتہائی سمجھداری سے کام لینا چاہیے ۔ ہمارے مناظر کے اندر اتنی قوت ہونی چاہیے کہ وہ اپنا موضوع منوالے اگر کسی صورت میں بھی مرزائی مناظر یہ موضوع نہ مانے تو پھر بے شک مناظرہ نہ کرو ۔ تیسرا درجہ یہ ہے کہ اگران کاایک موضوع مانو ، تو اپنا بھی ایک موضوع منوا لو اگر ان کے دو موضوع مانو ، تو پھر اپنے بھی دو موضوع منوالویعنی 
”۱۔سیرت مرزا غلام احمد قادیانی
 ۲۔سیرت بشیر الدین محمود “
مرزائی حربہ :
مرزائی مناظر موضوع طے ہونے سے قبل ہی ہمارے مناظر کے سامنے چالاکی سے کوئی نہ کوئی آیت یا حدیث وفات مسیح پربطور دلیل پیش کر دیتے ہیں حالانکہ ابھی موضوع بحث طے نہیں ہوچکا ہوتا او رہمارا مناظر ان کی دلیل کو معمولی سمجھتے ہوئے اس کے پرخچے اڑانا شروع کردیتا ہے اور یوں خود بخود مرزائیوں کا من بھاتا موضوع وفات مسیح شروع ہوجا تا ہے۔ اس لیے ہمارے مناظرکو چاہیے کہ جب تک موضوع طے نہ ہو ،جواب نہ دے بلکہ یہی چالاکی اور یہی حربہ ان سے کرنا چاہیے کہ بات چیت کے دوران ہی مرزا کا کوئی جھوٹ کوئی بدمعاشی وغیرہ انتہائی رعب سے بیان کرنا چاہیے اور اس طرح دباؤ ڈالنا چاہیے کہ تمہارا نبی ایسا تھا اگرایسا نہ ہو تو گویا میں ہار گیا وغیرہ تو اس طرح کرنے سے مرزائی مناظر جب اس کا جواب دے گا تو خود بخود سیرت مرزا کا موضوع شروع ہوجائے گا اور میدان ان شا ء اﷲ آپ کے ہاتھ میں ہوگا۔
٭ایک اہم نکتہ 
اگر کوئی شخص حضرت عیسیٰ ؑ کو فوت شدہ مانے مگر مرزا کو نبی نہ مانے تو مرزائیوں کے نزدیک وہ پھر بھی کافر ہے معلوم ہوا اصل مدار مرزا کی ذات ہے اس لیے سب سے پہلے مرزا کی سیرت پر بحث ہونی چاہیے اسی طرح اگر کوئی شخص عیسیٰ ؑ کی وفات مانے اور نبوت کو بھی جاری مانے مگر مرزا کو نبی نہ مانے تب بھی وہ مرزائیوں کے نزدیک مسلمان نہیں معلوم ہوا کہ اصل مدار مرزاکی ذات ہے اسی لئے سب سے پہلے مرزا کی ذات و سیرت پر بحث ہوگی جیسا کہ بہائی فرقہ عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کا بھی قائل ہے اور نبوت بھی جاری مانتا ہے مگر مرزائیوں کے نزدیک وہ پھر بھی کافرہے کیونکہ وہ مرزا کو نبی نہیں مانتا ۔ اس لیے معلوم ہوا کہ اصل محل نزاع مرزا کی ذات ہے اور اسی پر ہم بحث کرنا چاہتے ہیں ۔
﴿باب سوم ﴾
بحث اول 
صدق وکذب مرزا
مذکورہ بالاموضوع میں ہم مدعی ہوں گے مرزائی صاحبان اول تو اس موضوع کو تسلیم ہی نہیں کرتے اگر بامر مجبوری انہیں تسلیم کرنا پڑے تو وہ مدعی بن جاتے ہیں حالانکہ یہ اصول غلط ہے ، جو فریق جو موضوع پیش کرے اصولاً اس کو اس کا مدعی ہو نا چاہیے مرزا صاحب کی سیرت و کردار کا موضوع چونکہ ہماری طرف سے پیش ہوا ہے لہذا مدعی ہمیں ہونا چاہیے اور حیات ووفات کا موضوع عموماً مرزائیوں کی طرف سے پیش ہوتا ہے اور وہ اس پر مصر ہوتے ہیں لہذا وفات مسیح کے مسئلہ میں مدعی انہیں ہونا چاہیے ۔
﴿پہلی دلیل﴾ 
کذبات مرزا :
کذبات مرزا بیان کرنے سے قبل ان آیات کو بار بار دہرانا چاہیے :
’’لعنۃ اﷲ علی الکاذبین ، ومن اظلم ممن افتری علی اﷲ کذبا اوقال اوحی الی ولم یوح الیہ شیء‘‘ وغیرہ ،
نیز جھوٹ کے متعلق مرزا صاحب کے اپنے فتوے بھی بار بار بیان کرنے چاہیے۔
٭جھوٹ کے متعلق مرزا صاحب کے اپنے فتوے 
۱ ’’ جھوٹ بولنا مرتد ہونے سے کم نہیں ‘‘
ضمیمہ تحفہ گولڑویہ حاشیہ ص۲۰، روحانی خزائن ص ۵۶ ج ۱۷
۲ ’’ جھوٹ بولنے سے بد تر دنیا میں اور کوئی براکام نہیں ‘‘ 
تتمہ حقیقت الوحی ص ۲۶، روحانی خزائن ص۴۵۹ ج ۲۲
۳ ’’ تکلّف سے جھوٹ بولنا گوہپاخانہ کھانے کے مترادف ہے ‘‘ 
ضمیمہ انجام آتھم ص۵۹ ، روحانی خزائن ص۳۴۳ج۱۱ ، حقیقت الوحی ص۲۰۶ج ۲۲ص ۲۱۵
۴ ’’ جھوٹ کے مردار کو کسی طرح نہ چھوڑنا یہ کتو ں کا طریق ہے نہ انسانوں کا ۔‘‘
انجام آتھم مطبع قادیان ص ۴۰، روحانی خزائن ص ۴۳ج ۱۱
۵ ’ ’ ایسا آدمی جو ہر روز خدا پر جھوٹ بولتا ہے اور آپ ہی ایک بات تراشتا اور پھر کہتا ہے کہ یہ خدا کی طرف سے وحی ہے جو مجھ پر ہوئی ہے ایسا بد ذات انسان تو کتوں اور سوؤروں اور بندروں سے بد تر ہے ۔‘‘
براہین احمدیہ ج۵ ص ۱۲۶،۱۲۷۔ روحانی خزائن ج۲۱ ص۲۹۲
۶ ’’ وہ کنجر جو ولد الزنا کہلاتے ہیں وہ بھی جھوٹ بولتے ہوئے شرماتے ہیں ۔ ‘‘
شحنہ حق ص۶۰، روحانی خزائن ج۲ ص ۳۸۶
۷ ’’ جب ایک بات میں کوئی جھوٹا ثابت ہوجا ئے تو پھر دوسری باتوں میں بھی اس پر اعتبار نہیں رہتا ۔‘‘ چشمہ معرفت ص۲۲۲،روحانی خزائن ص۲۳۱ ج۲۳٭
(جاری ہے...) 

     

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں