جمعرات، 14 فروری، 2019

کلیم آؤ کوئی غزل گنگناؤ

”سربکف “مجلہ۶(مئی، جون ۲۰۱۶)

 غزل 

پروفیسر کلیم عاجزؔ مرحوم
زمانے کو نیند آ رہی ہے جگاؤ
کلیم آؤ کوئی غزل گنگناؤ
ذرا دل کے زخموں سے پردہ اٹھاؤ
غضب کا اندھیرا ہے شمعیں جلاؤ
وہ بولے کہاں زخمِ دل ہے دکھاؤ
کہو کیا کہیں، کیا بتائیں بتاؤ؟
یہاں سب کرو، دل نہ ہرگز لگاؤ
ہم اس دھوکہ میں آ چکے تم نہ آؤ
وہ کہتے ہیں ہر چوٹ پر مسکراؤ
وفا یاد رکھو، ستم بھول جاؤ
کہاں ہو تم اے فصل گل کی ہواؤ
ادھر سے بھی گزرو، یہاں بھی تو آؤ
ترنم سے ہے گرم فریادِ عاجزؔ
بڑی تیز ہے آنچ دامن بچاؤ
     

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں