”سربکف “مجلہ۶(مئی، جون ۲۰۱۶)
غزل
پروفیسر کلیم عاجزؔ مرحوم
زمانے کو نیند آ رہی ہے جگاؤ |
کلیم آؤ کوئی غزل گنگناؤ |
ذرا دل کے زخموں سے پردہ اٹھاؤ |
غضب کا اندھیرا ہے شمعیں جلاؤ |
وہ بولے کہاں زخمِ دل ہے دکھاؤ |
کہو کیا کہیں، کیا بتائیں بتاؤ؟ |
یہاں سب کرو، دل نہ ہرگز لگاؤ |
ہم اس دھوکہ میں آ چکے تم نہ آؤ |
وہ کہتے ہیں ہر چوٹ پر مسکراؤ |
وفا یاد رکھو، ستم بھول جاؤ |
کہاں ہو تم اے فصل گل کی ہواؤ |
ادھر سے بھی گزرو، یہاں بھی تو آؤ |
ترنم سے ہے گرم فریادِ عاجزؔ |
بڑی تیز ہے آنچ دامن بچاؤ |
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں