”سربکف “مجلہ۴ (جنوری ، فروری ۲۰۱۶)
محسن اقبال ﷾
اکثر غیر مقلدین امام ابو حنیفہؒ کو معاذ اللہ شیطان ثابت کرنے کے لئے الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي سے ایک روایت پیش کرتے ہیں۔
حَدَّثَنَا عَبد اللَّهِ بْنُ عَبد الحميد الواسطي، حَدَّثَنا ابْن أبي بزة، قَالَ: سَمِعْتُ المؤمل يَقُول: سَمعتُ حَمَّاد بْن سَلَمَة يَقُول كَانَ أَبُو حنيفة شيطانا استقبل آثار رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يردها برأيه.
[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 8/ 239 واسنادہ صحیح]
مسلم اورسنن اربعہ کے ثقہ راوی حماد بن سلمہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ابوحنیفہ شیطان تھا وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی احادیث کو اپنی رائے سے رد کر دیا کرتا تھا۔
اس روایت کی سند سخت ضعیف ہے اس کے ایک راوی مومل بن اسماعیل کی وجہ سے۔ یہ وہی مومل بن اسماعیل ہے جس کی روایت کو غیر مقلدین سینہ پہ ہاتھ باندھنے کے لئے پیش کرتے ہیں۔
مومل بن اسماعیل کے بارے میں محدثین کی رائے :
• علامہ ابن قیم کہتے ہیں کہ مومل علی صدرہ کے الفاظ نقل کرنے میں اکیلا ہے، اور حاشیہ میں مومل کو ضعیف کہا گیا ہے۔
] اعلام الموقعین، جلد 4 صفحہ 285[
• مشہور غیر مقلد عالم عبدالرحمان مبارکپوری کہتے ہیں کہ ” میں تسلیم کرتا ہوں کہ مومل بن اسماعیل ضعیف ہے اور بپیقی کی سینہ پہ ہاتھ باندھنے کی یہ روایت ضعیف ہے۔“
] ابکار المنن، صفحہ 359[
• غیر مقلدین کے مستند شدہ محدث علامہ البانی بھی سینہ پہ ہاتھ باندھنے کی روایت کو مومل کی وجہ سے ضعیف کہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مومل سیئ الحفظ ہے۔
] صحیح ابن خزیمہ بتحقیق البانی جلد 1 صفحہ 243[
• غیر مقلد عالم عبدالمنان نور پوری کا اعتراف کہ سینہ پہ ہاتھ باندھنے کی روایت کا راوی مومل بن اسماعیل ضعیف ہے اور علامہ البانی بھی اس کی سند کو اس لئے ضعیف کہتے ہیں کہ مومل بن اسماعیل سئی حفظ ہے۔
] مکالمات نور پوری، صفحہ 528[
• مومل کے بارے میں علامہ البانی اور لکھتے ہیں کہ
قلت: وهذا خطأ فاحش، وبخاصة من الذهبي؛ لأن مؤملا هذا ليس من
رجال الشيخين أولا، ثم هو شديد الخطأ ثانيا؛ فقد قال فيه إمام المحدثين البخاري:
"منكر الحديث ".
وقد اعترف كل من ترجم له - حتى الذهبي - بأنه سيئ الحفظ، فقال في "حافظ عالم يخطئ. وثقه ابن معين. وقال أبو حاتم: صدوق شديد في
السنة، كثير الخطأ. وقال البخاري: منكر الحديث. وقال أبو زرعة: في حديثه خطأ كثير "
وقال الحافظ في " التقريب ":
"صدوق سيئ الحفظ ".
وقد أعتمد قول أبي حاتم المتقدم الذهبي نفسه في " الكاشف "، ثم أتبعه ببيان سبب كثرة خطئه فقال:
"وقيل: دفن كتبه، وحدث حفظا؛ فغلط ".
قلت: فمثله لا يحتج به إذا انفرد
] سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ12/58[
• ابونصرالمروزی کہتے ہیں: المؤمل إذا انفرد بحديث وجب ان يتوقف ويتثبت فيه لانه كان سيئ الحفظ كثير الغلط.
] تہذیب التہذیب جلد 10 صفحہ 381، تعظیم قدر الصلوہ از امام مروزی، صفحہ 574[
• دارقطنی کہتے ہیں: ثقة كثير الخطأ۔
اوران سے ایک دوسری روایت میں صدوق کثیر الخطاء کے الفاظ بھی منقول ہیں۔
• اس کے علاوہ علل میں دارقطنی کہتے ہیں۔
وَرَوَاهُ مُؤَمَّلُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ يَحْيَى الْقَطَّانِ فَوَهِمَ عَلَيْهِ فِي إِسْنَادِهِ، وَهْمًا قَبِيحًا؛
] علل الدارقطنی9/314[
• امام بخاری فرماتے ہیں منکرالحدیث
] میزان الاعتدال4/284[
• ابوحاتم کہتے ہیں صدوق شدید فی السنۃ کثیرالخطاءیکتب حدیثہ،
] الجرح والتعدیل 8/374[
• ابوزرعہ الرازی کہتے ہیں فی حدیثہ خطاء کثیر
• ابن سعد کہتے ہیں ثقۃ کثیرالخطاء
• یعقوب بن سفیان المعروف الفسوی لکھتے ہیں:
• قال يعقوب بن سفيان: مؤمل أبو عبد الرحمن شيخ جليل سني سمعت سُلَيْمان بن حرب يحسن الثناء كان مشيختنا يوصون به الا ان حديثه لا يشبه حديث اصحابه وقد يجب على اهل العلم ان يقفوا عن حديثه
• فانه يروي المناكير عن ثقات شيوخه وهذا اشدفلو كانت هذه المناكير عن الضعفاء لكنا نجعل له عذرا
• ساجی کہتے ہیں: صدوق كثير الخطأ وله أوهام يطول ذكرها
دیگر کتابیں :
تہذیب الکمال،طبقات ابن سعد5/501،سیر اعلام النبلاء8/286،من تکلم فیہ وھوموثق1/513،میزان الاعتدال4/284،تہذیب التہذیب10/381،لسان المیزان7/406،موسوعۃ اقوال ابی الحسن الدارقطنی2/674۔
اس کے علاوہ ان کے بارے میں یہ بھی کہاگیاہے کہ ان کی کتابیں دفن ہوگئی تھیں وہ جوکچھ بیان کرتے تھے یادداشت سے بیان کرتے تھے اسی بناء پر ان کی غلطیاں زیادہ ہوگئیں وَقَال غيره: دفن كتبه فَكَانَ يحدث من حفظه، فكثر خطؤه.
اور یہ بات مشہور ہے کہ جب کسی کی غلطیاں صواب سے زیادہ ہو جائیں تو پھر وہ ترک کا مستحق ہو جاتا ہے۔
] تہذیب الکمال جلد 7 صفحہ 164[
یہ امام ابو حنیفہ رح پہ جرح کے بارے میں غیر مقلدین کی پیش کردہ ایک مشہور روایت کا حال ہے جس سے غیر مقلدین ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ معاذ اللہ امام ابو حنیفہ رح شیطان تھے۔
اللہ سب کو ہدایت دے اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ، اہلبیت رضی اللہ عنھم اور ائمہ کرام رحم اللہ عنھم کا ادب اور احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
٭٭٭
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں