ہفتہ، 31 اکتوبر، 2015

اب سربکف بلاگ پر اپلوڈ کی سہولت



 سربکف بلاگ sarbakaf.blogspot.com پر اب اپلوڈ سیکشن بھی شامل کردیا گیا ہے۔۔۔احباب اپنے مضامین اب ای میلsarbakafmagazine@gmail.com کے علاوہ یہاں اپلوڈ بھی کرسکتے ہیں۔

اپلوڈ کرنے کے بعد اپنے تجربہ سے مجلس مشاورت کے کسی فرد کو یا ای میل پر ضرور مطلع کریں۔ تاکہ اسے بہتر بنایا جاسکے۔
     

جمعہ، 30 اکتوبر، 2015


 سربکف بلاگ sarbakaf.blogspot.com پر اب اپلوڈ سیکشن بھی شامل کردیا گیا ہے۔۔۔احباب اپنے مضامین اب ای میلsarbakafmagazine@gmail.com کے علاوہ یہاں اپلوڈ بھی کرسکتے ہیں۔
اپلوڈ کرنے کے بعد اپنے تجربہ سے مجلس مشاورت کے کسی فرد کو یا ای میل پر ضرور مطلع کریں۔ تاکہ اسے بہتر بنایا جاسکے۔
     

پیر، 19 اکتوبر، 2015

منکرینِ حدیث سے چند سوالات

"سربکف" میگزین 2-ستمبر، اکتوبر 2015
اسلام مکمل دین ہے۔
قرآن مجید رہتی دنیا تک ہمیشہ کے لیے دین اسلام کے کامل ہونے کا اعلان فرمایا ہے، چنانچہ سورہ مائدہ میں ارشاد ہے
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا
ترجمہ: آج میں نے تمہارے لیے تمھارے دین کو کامل کردیا اور میں نے تم پر اپنا انعام پورا کردیا، اور میں نے تمہارے  لیے اسلام کو بحیثیت دین کے پسند کرلیا، (سورہ المائدہ 5 آیت 3)
    اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ دین اسلام کامل دین ہے، ہم منکرینِ حدیث سے سوال کرتے ہیں کہ جب دین کامل ہے اور تمہارے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول فعل حجت نہیں ہے( جسے حدیث کہتے ہیں) تو تم پورا دین قرآن سے ثابت کرو۔
1.قرآن مجید میں نماز کا حکم ہے، بتاؤ قرآن کی کون سی آیت میں نماز کی رکعتوں کی تعداد بتائی ہے، اور رکوع اور سجدہ میں پڑھنے کو کیا بتایا ہے، نماز میں نظر کہاں رہے، ہاتھ کہاں رہیں یہ سب قرآن سے ثابت کریں۔
2. اسی طرح قرآن مجید میں جگہ جگہ زکوٰۃ دینے کا ذکر ہے، زکوٰۃ کتنی فرض ہے؟ کس مال میں فرض ہے؟ کتنے کتنے دنوں یا مہینوں کے فصل سے دی جائے، درمیان میں جو مال آئے اس کی زکوٰۃ واجب ہے یا نہیں؟ یہ سب امور قرآن سے ثابت کریں۔
3.قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ نماز کو کھڑے ہو تو ہاتھ پاؤں منہ دھو لو اور سر کا مسح کرو (سورہ المائدہ 5 آیت 6)۔ اس کو عوام و خواص سب وضو کہتے ہیں۔ اور احادیث شریفہ میں اس کا یہی نام وارد ہوا ہے۔ اس وضو کے توڑنے والی کیا چیزیں ہیں؟ اس کا جواب قرآن سے دیں۔
4. قرآن مجید میں حج و عمرہ کے پورا کرنے کا حکم ہے(سورہ بقرہ آیت  196)، حج کیسے ہوتا ہے؟ کیا کیا کام کرنے پڑتے ہیں؟ کن کن تاریخوں میں کیا عمل ہوتا ہے؟ اس کے کتنے فرائض ہیں؟ احرام کس طرح باندھا جاتا ہے؟ اس کے کیا لوازم ہیں؟کیا ممنوعات ہیں؟ یہ سب قرآن شریف سے ثابت کریں۔
5. عمرہ میں کیا کیا افعال ہیں؟ اور اس کا اتمام کس طرح ہوتا ہے؟ وہ بھی قرآن سے ثابت کریں۔
6. سورہ توبہ میں نمازِ جنازہ کا ذکر ہے(آیت 84) نمازِ جنازہ کس طرح پڑھی جائے؟ اس کا طریقہ ادا کیا ہے؟ یہ سب قرآن مجید سے ثابت کریں۔ نیز ساتھ ہی کفن دفن کا طریقہ بھی قرآن سے ثابت کریں اور یہ بھی بتائیں کہ میت کو غسل دیا جائے یا نہیں اور اگر دیا جائے تو کس طرح دیا جائے؟ ان سب امور کے بارے میں آیاتِ قرآنیہ میں کہاں کہاں ہدایات مذکور ہیں؟
7. نکاح انسانی زندگی کی اہم ضرورت ہے۔ انعقادِ نکاح کس طرح ہوتا ہے؟ یہ بھی قرآن سے ثابت کریں۔
8. قرآن مجید میں دیت(خون بہا) کا ذکر ہے(سورہ  النساء آیت 92) قرآن مجید سے ثابت کریں کہ ایک جان کی دیت کتنی ہے؟ اور مختلف اعضا کی دیت کتنی ہے؟ اور مرد و عورت کی دیت میں کچھ فرق ہے یا نہیں؟
9. سارق اور سارقہ(چور اور چورنی) کے ہاتھ کاٹنے کا قرآن مجید میں حکم ہے(سورہ المائدہ آیت 38)قرآن سے ثابت کریں کہ ہاتھ کہاں سے کاٹا جائے؟(یاد رہے کہ عربی میں ید انگلیوں سے لے کر  بغل تک پورے  ہاتھ پو بولا جاتا ہے) اور کتنا مال چرانے پر ہاتھ کاٹا جائے، کیا ایک چنا اور ایک لاکھ روپے چرانے کا ایک ہی حکم ہے؟ پھر اگر دوسری بار چوری کرلی تو کیا کیا جائے؟ ان سب امور کا جواب قرآن مجید سے دیں۔
10.قرآن مجید میں زانی اور زانیہ کو ماۃ جلد(سو ضرب) مارنے کا حکم دیا ہے(سورہ النور آیت 2)۔ یہ ضرب کس چیز سے ہو؟ متفرق ہو یا بیک وقت متواتر ہو؟ یہ سب قرآن سے ثابت کریں۔
    منکرینِ حدیث ان سوالات کے جوابات قرآن سے دیں اور یہ یقین ہے کہ وہ جوابات قرآن سے نہیں دے سکتے، لہذا یہ اقرار کریں کہ دین اسلام کو جو قرآن نے کامل بتایا یہ اسی طرح سے ہے۔ کہ قرآن کے ساتھ حدیث پر بھی عمل کیا جائے اور یہ بھی تسلیم کرلیں کہ قرآن مجید پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریحات کے بگیر عمل نہیں ہوسکتا اور یہ بھی اقرار کریں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال حجت ہیں۔
اور یہ بھی اقرار کریں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و ارشادات محفوظ ہیں۔ اگر وہ ہم تک نہ پہونچے ہوں تو  اب قرآن پر عمل ہونے کا کوئی راستہ نہیں رہتا اگر اس وقت قرآن پر عمل نہیں ہوسکتا تو قران دوامی کتاب نہ رہی(العیاذ باللہ)
    اور اگر حدیث کو حجت نہیں مانتے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ صرف قرآن سے دین کیسے کامل ہوا؟ قرآن مجید کا اعلان ہے کہ دینِ اسلام کامل ہے اور بے شمار احکام ہیں جو قرآن میں نہیں۔ اور جو احکام قرآن میں مذکور ہیں وہ مجمل ہیں۔ بغیر تشریح اور تفسیر کے ان پر عمل نہیں ہوسکتا۔ اگر کوئی دشمن یہ سوال کرلے کہ قرآن کا فرمان ہے کہ دین اسلام کامل ہے لیکن اس میں تو نماز کی رکعتوں کا ذکر بھی نہیں ہے۔ اور حج کا طریقہ بھی نہیں بتایا وقوفِ عرفات کی تاریخ بھی نہیں بتائی۔ دیت کی مقدار بھی نہیں بتائی وغیرہ وغیرہ تو پھر کیسے کامل ہوا۔ اس سوال کا جواب ملحدو اور منکرو تمہارے پاس کیا ہے؟ کیا انکارِ حدیث کے گمراہانہ دعوے کی پچ میں دین اسلام کو ناقص مان لو گے؟٭

٭ بشکریہ دفاعِ اسلام بلاگ
     

داڑھی مونڈنا ممنوع اور داڑھی مونڈنے کی مزدوری لینا حرام

 "سربکف" میگزین 2-ستمبر، اکتوبر 2015
مدیر کے قلم سے
دیوبند، (ایس این بی) داڑھی کا مونڈنا شریعت میں گناہِ کبیرہ ہے اور داڑھی مونڈنے والے حجام کی کمائی کو بھی علماءِ کرام نے ناجائز قرار دیا ہے۔ شریعت کے اس حکم کے باوجود کتنے ہی لوگ نبیﷺ کی ، اور تمام پیغمبروں کی مشترکہ سنت کو مونڈتے ہیں، اور مونڈواتے ہیں۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ دارالعلوم چوک پر واقع فرینڈ ہیئر سیلون پر دارالعلوم دیوبند کا ایک فتویٰ فلیکس کی صورت میں چسپاں رہا، اور لوگوں کی گفتگو کا موضوع بھی بنا رہا۔ فرینڈس ہیئر سیلون کے مالک محمد ارشاد نے دارالافتاء دیوبند سے رجوع کرکے ایک فتوی طلب کیا کہ شریعت میں داڑھی مونڈنے اور مونڈانے کی کیا حیثیت ہے۔ اس کے جواب میں دارالعلوم دیوبند کے مفتی وقار علی، مفتی فخر الاسلام اور مفتی زین الاسلام قاسمی کے دستخطی فتوی میں کہا گیا ہے کہ:
"داڑھی منڈوانا اور مونڈنا دونوں گناہِ کبیرہ ہیں اور معصیت و گناہ پر لی گئی اجرت ناجائز ہے۔ شیونگ خواہ مسلمان کی کی جائے یا غیر مسلم کی، دونوں کا حکم ایک ہی ہے۔ اس لیے شیونگ کرنے سے احتراز کرنا واجب ہے۔ حجامت کا پیشہ کرنے والے کو بھی جائز وسیلہ سے آمدنی حاصل کرنے کی کوشش کرنا واجب اور ناجائز ذرائع سے احتراز کرنا لازم ہے۔ "
    اس فتویٰ کو محمد ارشاد نے اپنی دکان پر فلیکس کی شکل میں چسپاں کردیا ہے۔ یہ فتوی دن بھر لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا رہا...نوجوان اس خبر کو سوشل میڈیا  واٹس ایپ وغیرہ کے توسط سے دھڑادھڑ شیئر کرتے رہے۔
٭٭٭
     

جماعت والے لوگوں کو کیسے گمراہ کرتے ہیں؟؟؟

 "سربکف" میگزین 2-ستمبر، اکتوبر 2015

 محسن اقبال حفظہ اللہ
عجیب لوگ ہیں یہ تبلیغی جماعت والے بھی، جہاں دیکھو وہاں پہنچے ہوتے ہیں۔۔لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں اور کفریہ اور شرکیہ عقائد کی تعلیم دیتے ہیں...
نجانے کتنے لوگوں کو انہوں نے گمراہ کر دیا ہے۔ قران، حدیث تو مانتے نہیں بس ایک کتاب فضائل اعمال اٹھائی ہوتی ہے اوراس کتاب سے کچھ احادیث ،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے واقعات اور کچھ پرانے بزرگوں کے واقعات بیان کرتے ہیں...
فضائل اعمال تو ضعیف احادیث سے بھری پڑی ہے اور ضعیف حدیث تو قبول کرنے کے لائق نہیں اور جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین کے واقعات ہیں تو ان کی بھی کوئی حیثیت نہیں۔۔ بس صرف قران اور حدیث کو ہی ماننا چائیے...۔یہ سب واقعات تو شرک ہیں۔
ان تبلیغیوں کے گمراہ کرنے کے طریقے بھی بہت عجیب ہوتے ہیں۔ اچھے بھلے لڑکے کرکٹ ، یا فٹبال کھیل رہے ہوتے ہیں اور یہ اوپر سے آکر اپنی تبلیغ شروع کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نماز پڑھو ، مسجد میں آؤ ،۔۔ اب ان کو کون سمجھائے کہ کرکٹ یا فٹبال کھیلنا ان تبلیغی جماعت والوں کے ساتھ نماز پڑھنے سے ذیادہ اہم ہے...
انہوں نے تو بہت سے لوگوں کو گمراہ کر دیا ہے۔

اچھا بھلا جنید جمشید گانے گاتا تھا،اور بہت مشہور تھا، پکا مسلمان تھا۔۔ اب دیکھو! ان تبلیغی جماعت والوں کے ساتھ مل کر داڑھی بھی رکھ لی، گانا بھی چھوڑ دیا اور ان تو نعتیں پڑھتا ہے،، مکمل گمراہ اور مشرک ہو گیا ہے۔۔
اسی طرح سعید انور تھا، جب تک کرکٹ کھیلتا تھا تب تک اس کا کتنا نام تھا اور تب وہ پکا مسلمان بھی تھا لیکن ان تبلیغی جماعت والوں کے ساتھ مل کر اس نے بھی داڑھی رکھ لی اور نماز پڑھنا شروع کر دی،اور دوسرے کرکٹرز کو بھی نمازوں پہ لگا دیا، خود تو گمراہ ہوا لیکن دوسرے کئی کرکٹرز جیسا کہ شاہد آفریدی،انضمام الحق وٖغیرہ کو بھی تبلیغی جماعت کے ساتھ مل کر مشرک اور گمراہ بنا دیا۔۔

ارے یہ سب تو پہلے مسلمان تھے اور تبلیغی جماعت کے ساتھ ملکر گمراہ اور مشرک ہوئے لیکن محمد یوسف کو دیکھو!،وہ عیسائی تھا پھر تبلیغی جماعت کی کوششوں سے مسلمان ہوا لیکن کیا فائدہ ۔۔ ہے وہ ابھی بھی گمراہ اور مشرک۔۔ تو اس کو عیسائیت چھوڑنے کا کیا فائدہ جب وہ مسلمان ہو کے بھی گمراہ ہوا۔ تبلیغی جماعت والوں نے اس کو مشرک بنا دیا ۔

ان جیسے اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ ہیں جنہوں نے تبلیغی جماعت کی وجہ سےداڑھی رکھی، نماز شروع کی، برا کام چھوڑے لیکن پھر بھی وہ گمراہ ہیں کیونکہ تبلیغ والے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں...

یاد آیا! ہم سچے مسلمان ہیں، قرآن و حدیث کو ماننے والے۔۔ہمارا کام لوگوں کو قرآن،حدیث کی طرف لانا ہےاور اور فضائل اعمال جیسی ضعیف کتاب اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور بزرگوں کے واقعات سے نجات دلانا ہے۔


ہمارا کام بے نمازیوں کو نماز پڑھوانا نہیں بلکہ جو نماز پڑھتے ہیں ان کو بتانا ہے کہ تم لوگوں کی نماز قران حدیث والی نہیں ہے۔کیونکہ تم نے رفع یدین نہیں کیا،،تماری نماز مکمل نہیں کیونکہ تم نے اونچی آمین نہیں کہی،،تمہاری نماز نبی کریم ﷺ جیسی نماز نہیں کیونکہ تم نے سینے پہ ہاتھ نہیں باندھے...

لوگوں کو قران و حدیث سمجھانے کے لئے ہم لوگوں کو اپنے علماء کی کتابیں دیتے ہیں۔ ان کتابوں میں اگر ضعیف احادیث آ جائیں تو ہم ان کو نہیں مانتے... اگر ہمارے کسی عالم کا یا بزرگ کا کوئی ایسا واقعہ آ جائے جیسے واقعات فضائل اعمال میں ہیں تو ان سب کو ہم نہیں مانتے کیونکہ ہمارے علماء سے غلطی بھی تو ہو سکتی ہے۔۔اللہ ہمارے علماء کی غلطیوں کو معاف کرے لیکن یہ معافی صرف ہمارے علماء کے لئے ہے کیونکہ وہ ہمارے علماء ہیں ،تبلیغی جماعت کی کتاب میں جو واقعات ہیں وہ شرکیہ ہیں کیونکہ تبلیغی جماعت والے گمراہ ہیں۔

اصل میں ہم اپنے علماء کی کتابوں کو ہی نہیں مانتے کیونکہ ہم صرف قران و حدیث کو مانتے ہیں لیکن قران و حدیث سمجھنے کے لئے ہم اپنے انہی علماء کی کتابیں ہی پڑھتے ہیں کیونکہ ان کے بغیر ہمیں قران و حدیث سمجھ نہیں آتا۔
تو ہمارے علماء کی جو کتابیں ہیں ہم ان سے قران و حدیث سمجھتے ہیں لیکن ہم ان کو مانتے نہیں اور ان کے واقعات پہ ہم شرک کا فتوی بھی نہیں لگا سکتے کیونکہ وہ ہمارے علماء ہیں...

بس صرف اتنا یاد رکھیں کہ تبلیغی جماعت والے مشرک اور گمراہ ہیں اور اگر ہمارے علماء کی کتابوں میں ایسی کوئی بات آ جائے جیسی فضائل اعمال میں ہے تو ہمارے علماء گمراہ اور مشرک نہیں کیونکہ ہم ان کو نہیں مانتے ہم صرف قران و حدیث کو مانتے ہیں۔


دوستو! یہ اوپر ایک جھلک ہے تبلیغی جماعت کے ان مخالفین کی سوچ اور نظریات کی جن کا دعوی ہے کہ وہ صرف قران و حدیث پہ عمل کرتے ہیں اور تبلیغی جماعت والے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں...۔۔
شکریہ
غلامِ خاتم النبیین ﷺ
محسن اقبال
     

فکریے

"سربکف" میگزین 2-ستمبر، اکتوبر 2015
ابنِ غوری، حیدر آباد، ہند
رمضان:
    چاند نظر آتے ہی مسلمان  -ما شاء اللہ -مساجد میں یدخلون فی دین اللہ افواجا کی مجسم تصویر پیش کرتے ہیں، لیکن پھر چاند نظر آتے ہی وہ - معاذ اللہ مساجد سے یخرجون من دین اللہ افواجا اور کالعرجون القدیم کی طرح نظروں سے دور ہوجاتے ہیں۔
    کیا یہی  طریقہ ہے (دارین میں) عزت یابی کا؟

بے ریش صوفی:
"وہ اپنے مختصر سفر میں اپنا ٹفن ساتھ رکھتے تھے۔"
پھر تو، وہ کوئی پہنچے ہوئے بزرگ ہوں گے؟
جی نہیں، وہ تھے سلطنتِ آصفیہ دکن کے دیوان سالار جنگ اول (تراب علی خاں)

جعلی کام:
جعلی نوٹ کتنی ہی بڑی رقم کا کیوں نہ ہو، اس کا نفع بالکل وقتی/ غیر یقینی ہوتا ہے۔ جب وہ حکومت کی نظر میں آجائے تو نوٹ ساز مجرم قرار دیا جاتا ہے۔
    اسی طرح غیر مسنون عمل/بدعت خواہ وہ کتنی ہی دلکش اور مفید معلوم ہو، اللہ کے نزدیک اس کے حامل مجرم ہی ہوں گے۔

دو چیزیں:
    سیاست میں اخلاقیات............اچھی بات!
    اخلاق میں سیاسیات............۔بری بات!

مدینہ -مدینہ:
    تاج دارِ مدینہ کانفرنسیں ......۔بہت ہوتی رہتی ہیں! ماشاءاللہ
لیکن ان کے شرکاء میں "تابع دارِ تاج دارِ مدینہ" کتنے ہوتے ہیں؟ انا للہ

Cell: 9392460130
     

گوگل کے مطابق پرائم منسٹر نریندر مودی مجرم

 "سربکف" میگزین 1-جولائی،اگست 2015
مدیر کے قلم سے

(ایجنسی) الیکٹرانک میڈیاکے بے تاج بادشاہ "گوگل" نے  بھارتی پرائم منسٹر نریندر مودی کو  مجرموں کی صف میں لا کھڑا کیا ہے۔  گوگل امیجز پر top 10 criminals    تلاش کرنے پر   اُسامہ بن لادن وغیرہ  کے ساتھ نریندر مودی کی تصویر بھی  تلاش کے نتائج کے طور پر دکھائی گئی۔ حیرت تو یہ ہے کہ
" محترم پرائم منسٹر" کی تصویر اس سرچ  کا پہلا رزلٹ تھی۔ کچھ ہی عرصے میں سوشل میڈیا کے ذریعے یہ خبر ہر طرف پھیل گئی۔
    اس کے بعد بدھ کے روز گوگل نے  ان الفاظ یا اس جیسے الفاظ کے سرچ پر اوپر سرخ رنگ کے ہائیلایٹ  میں یہ پیغام دکھایا"گوگل پر سرچ کے نتائج صرف سرچ کرنے والے کے الفاظ تک محدود رہتے ہیں۔ یہ نتائج بذاتِ خود گوگل کے نظریہ کی ترجمانی نہیں کرتے۔" لیکن۔۔۔اس تحریر کے باوجود بھی پرائم منسٹر نریندر مودی کی تصویر ہی اس تلاش کا اول مصداق دکھائی جاتی رہی۔
    پرائم منسٹر نریندر مودی کے ساتھ ساتھ سرچ رزلٹ میں  امریکہ کے سابق صدر "جارج بش"، لیبیا کے "معمر قذافی"، دلی کے چیف منسٹر "اروند کیجریوال"، انڈرورلڈ ڈان"داؤد ابراہیم" اور بالی ووڈ کے اداکار"سنجے دت" کو بھی دکھایا گیا۔
    گوگل نے پرائم منسٹر سے اس "غیر متوقع" سانحہ پر معذرت کرلی ہے۔

     

فری میسنری کی "معصومیت"

"سربکف" میگزین 1-جولائی،اگست 2015
مدیر کے قلم سے


(ایجنسی) یہودیوں کی بدنامِ زمانہ خفیہ تنظیم "فری میسن" نے نیک نامی کے لیے بڑی خوبصورت باتیں کی ہیں اور اپنی جانب اٹھنے والی انگلیوں کو نیچے کرنے کی بودی کوشش کی ہے۔ اُن کے بقول  تنظیم "خفیہ" نہیں ہے، اور عوام کی غلط فہمیاں بالکل بے جا ہیں۔
    روزنامہ "دی ہتوادThe Hitavada" کے ایک کارکن  شہر میں موجود فری میسن کے ممبران سے ملاقات اور انٹرویو کے بعد اسے اس شہ سُرخی کے ساتھ شائع کرتے نظر آئے۔
Free Masonary is not a Secret Society, It’s the society with Secrets!
    انٹرویو کے خلاصے کے طور پر تمام ممبران فری میسن کی نام نہاد "معصومیت" کے گیت گاتے نظر آئے۔ اُن کا کہنا ہے کہ تنظیم کوئی خفیہ سرگرمی میں ملوث نہیں ہے، بلکہ سماجی خدمات انجام دینے میں پیش پیش ہے، جس کی تفصیل ویب سائٹ پر دیکھی جاسکتی ہے۔ فری میسنری کا مشن معاشرے کا مثبت بدلاؤ اور طرزِ زندگی کی مکمل آسودگی ہے۔ امن اور شانتی کی داعی ہے، ریڈ کراس کی طرح یہ بھی سوشل ورک کا کام انجام  دیتی ہے۔
    اتنے "بے ضرر" مقاصد کو دیکھتے ہوئے جب انٹرویور نے اُن سے پوچھا کہ پھر آپ کا یہ مخصوص لباس  کیوں؟جس پر عجیب قسم کے نشانات اور اسٹارس ہیں۔ فری میسنری کی ممبران ہمیشہ رات کی تاریکی میں کیوں ملتے ہیں؟ اِن کی پہچان ہمیشہ خفیہ کیوں ہوتی ہے؟ تو تمام ممبران  ایک ہی "رٹا ہوا" جواب دیتے نظر آئے کہ" ہمارا کام اور مقصد تو وہی ہے جو بیان ہوا، اس کے علاوہ تنظیم میں کوئی خفیہ بات نہیں، ہاں یہ ضرور ہے کہ ممبران کی آپس کی پہچان کے لیے کچھ کوڈ ورڈز متعین ہیں، اور پیغام رسانی بھی انہیں کوڈ ورڈز میں ہوتی ہے۔ تنظیم بالکل بھی خفیہ نہیں۔ "
    شاید کفار و مشرکین کے شبہات  تو اس جواب سے زائل ہو گئے ہوں، لیکن امتِ مسلمہ اب بھی اِن کی "معصعومیت" پر مسکرا رہی ہے۔۔۔کہ اتنی بے ضرر مقاصد والی سوشل ورکر تنظیم  میں کوڈ ورڈز کے استعمال کی کیا ضرورت اور غایت ہے؟
٭٭٭
     

عید الضحیٰ پر گائے کی قربانی؟

 "سربکف" میگزین 2-ستمبر، اکتوبر 2015
مدیر کے قلم سے 

(ایجنسی) ہند میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے ایک مسئلہ اس عید قرباں پر یہ آکھڑا ہوا تھا کہ آیا ملک کے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 'گئو ماتا' کی قربانی کی جائے یا نہیں؟ واضح رہے کہ گائے کی قربانی، اور گوشت و کھال کے کاروبار پر ہند کی ریاستوں میں پابندی عائد ہے۔ گائے کا مسئلہ ہمیشہ سے متنازع فیہ رہا ہے، کیونکہ ملک میں بسنے والے ہندو بھائیوں کے عقائد کے مطابق گائے اُن کی ماں ہے، بھگوان ہے، اور بعض کے مطابق ہندوؤں کے ٣٣کروڑ بھگوان گائے کے سر سے دُم تک جمع ہیں۔٭
 
٭ اِس پر عاجز نے ایک دوست سے پوچھا بھی تھا، کہ جب سارے بھگوان اسی میں یکجا ہیں تو سب کو چھوڑ کر اسی کو کیوں نہیں پوجتے؟(مدیر)

ملک کے حالات کے پیشِ نظر، اور امنِ سلامتی کی فضا کوبرقرار رکھنے کی خاطر تمام مکاتبِ فکر کے علماء نے متفقہ فیصلہ دیاکہ اس سال گائے کی قربانی نہ کی جائے، اور اس کی جگہ بھینس اور بکروں کو قربان کیا جائے۔ دارالعلوم دیوبند کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے تمام مکاتبِ فکر کے علماء نے عوام کو یہی مشورہ دیا۔ علماء کے مطابق نبی پاک ﷺ سے کوئی فضیلت ثابت نہیں کہ گائے ہی کی قربانی کی جائے، چنانچہ ہمیں غیر مسلم بھائیوں میں دعوت کے پیغام کو پہنچانے کے لیے دیگر جانور قربان کرنے چاہئیں۔ اور ان شاء اللہ گائے کی بڑھتی ہوئی تعداد کچھ ہی عرصے میں اُنہیں یہ پابندی ہٹانے پر مجبور کردے گی۔
    علماء کے اس بروقت اور کارآمد فیصلے سے ملک میں سلامتی کی فضا بھی قائم رہی اور کوئی پولیس و کچہری کا معاملہ بھی پیش نہ آیا۔ بعض لوگوں نے گائیں بھی قربان کیں، ان لوگوں کے متعلق سادہ دل عوام یہ بھی کہتی سنائی دی کہ اِن کی قربانی نہیں ہوگی۔ علماء نے واضح کیا کہ شریعت نہیں بدلی، صرف ہم نے ایک فیصلہ حالات کو دیکھ کر دیا ہے، البتہ اگر گائے کو قربان کرنے والوں کے سبب کوئی حادثہ خدانخواستہ امتِ مسلمہ کو پیش آتا ہے تو اس کا گناہ اسی شخص کو جائے گا۔
ملک میں امن اور سلامتی کی فضا تاحال قائم ہے۔
     

صفت احسان اور دیدار الٰہی

"سربکف" میگزین 1-جولائی،اگست 2015

قاری  معاذ شاہد حفظہ اللہ
 
١
 
 
۔۔۔۔اَن تَعبُدَاللہَ کَاَنّکَ تَرَاہ فَاِلَّم تَکُن تَرَاہُ فَاِنّہ یَرَاکَ ۔۔۔۔

حضرت جبرائیل علیہ وسلم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ احسان کیا ہے   ،، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا  کہ تو عبادت ایسے کر گویا کہ تو اللہ تعالی کو دیکھ رہا ھےاور   اگر تو اللہ کو نہیں دیکھ رہا تو اللہ تو تمہیں دیکھ رہا ھے۔
    یہاں پر اشکال یہ ھے ہمارا اللہ کو دیکھنا تو محال ھے پھر ہم یہ کیسے تصور کرلیں تو اسکا طریقہ کار بیان فرمایا کہ یہ تصور کرکہ وہ تجھ کو دیکھ رہا ھے جب یہ تصور کرے گا تو پھر عمل.کے اعتبار سے ایسا ہی ہو جائے گا کہ تو اس کو دیکھ رہا ھے    ۔۔ جب مالک بندے کو دیکھتا ہے تو کام بڑی توجہ سے ہوتا ھے ۔۔لیکن  اگر صرف تم اسے دیکھو تو اس میں وہ بات نہیں ھے جو مالک کے دیکھنے میں ھے
بعض علماء نے اس میں دو درجے بیان فرمائے ہیں
۔۔۔1 ۔۔۔ اعلی درجہ تو یہ ھے کہ اس چیز کا تصور کرے کہ تو اللہ کو دیکھ رہا ھے
۔۔۔2 ۔۔۔ اور ادنی درجہ یہ ھے کہ وہ تجھے دیکھے ۔۔
صوفیاء کرام نے ایک بہت خوبصورت بات فرمائی  فان لم تکن   کہ اگر تو اپنے آپ کو اس ذات پر فنا کردے تو  تَرَاہ تو بدلے میں تُو اسے دیکھ لے گا
۔۔۔۔،،،۔۔۔ بقول شاعر ۔۔۔،،،،۔۔۔۔

ہم نے لیا ہے درد دل کھوکے بہار زندگی
اِک گل تر کے واسطے میں نے چمن لٹا دیا

۔۔۔۔،،۔۔۔  ایک مقام مشاہدہ ہے ایک مقام مراقبہ ھے
مقام مشاہدہ یہ کہ اللہ. تجھے دیکھ رہا ھے
مقام مراقبہ یہ ھے کہ تو اللہ کو دیکھ رہا ھے
    ایک بزرگ دوسرے بزرگ کے پاس بیعت ہونے کیلئے گئے تو انہوں نے سوال کیا کہ کیا آپ کو صفت احسان حاصل ھے؟ انہوں نے جواب دیا الحمدلللہ  حاصل ھے. تو فرمایا پھر آپ کو میری بیعت کی ضرورت نہیں ھے کیونکہ بیعت کا اصل مقصد سالک کے اندر صفت احسان کو پیدا کرنا ھے ۔۔
ایک بزرگ فرمانے لگے دنیا میں تو کانک تراہ ھے یعنی  گویا کہ اسے دیکھ رہا ھے اور آخرت میں کاف ہٹا دیا جائے گا براہ راست اسے دیکھے گا  ۔۔۔۔۔۔ بقول شاعر ۔۔۔۔
نہیں وہ وعدہ کرتے دید کا حشر سے پہلے
دلِ مضطر کی ضد ھے کہ ابھی ہوتی یہیں ہوتی

 
٢

صفت احسان پیدا کرنے کا طریقہ  یہ ھے کہ اخلاص کے ساتھ مجاہدہ کیا جائے ۔
قرآن مجید میں ارشاد ھے ۔۔ والذین جاھدو فینا لنھدینّھم سبلنا۔ ۔۔۔ جو اخلاص کے ساتھ اللہ تعالی کے لئے مجاہدہ کرے گا ہم ہدایت کی راہیں اس کیلئے کھول دیں گے ۔۔
اورجو  اخلاص کے ساتھ مجاہدہ کرے گا اللہ تعالی فرماتے ہیں ہم اسے تین انعامات عطا فرمائیں گے
۔۔۔۔۔۔1 ۔۔۔۔۔۔ اس پر ہدایت کی راہیں کھول دیں گے
۔۔۔۔۔۔ 2 ۔۔۔۔۔  صفت احسان عطا فرمائیں گے
۔۔۔۔۔۔3 ۔۔۔ صفت احسان عطا فرما کر اپنی معیت نصیب فرمائیں گے ۔۔۔۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا ہے ۔۔۔۔۔اللہمَّ انی اَسئلکَ لذَّۃَ نظرَۃً الی وَجھک ۔۔۔۔۔۔۔
اے اللہ میں آپ سے آپ کے چہرے کو دیکھنے کی لذت کا سوال کرتا ہوں    
--------بقول شاعر -------
نگاہ عشق بے پردہ دیکھتی ھے انہیں
خِرد کیلئے ابھی حجاب عالم ھے

۔۔۔۔۔ایک شاعر یوں کہتا ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فانی اسی حسرت میں جیے اور مرے ہم
بے پردہ نظر آؤ کبھی دیدہ سر سے

     قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ۔۔۔اِنَّ اللہَ لَمع الُمحسِنین ۔۔۔  اس آیت میں اللہ صفت احسان والوں کے ساتھ معیت کا وعدہ فرما رہے ہیں
اور  ایک دوسری جگہ  پر ارشاد باری تعالی ہے ۔۔
اِنَّ اللہَ یحب المحسنین ۔۔ اللہ صفت احسان والوں کو پسند فرماتے ہیں ۔۔۔
یہ بھی بتا دیا کہ میں کن سے محبت کرتا ہوں کیوں کرت ہوں اور کن  کن کو پسند کرتا ہوں 
آج میرا دل کہتا ھے آؤ بڑھ کر شاعر کے اس قول پر عمل کرتے ہیں اس سے پہلے کہ وقت ہاتھ سے نکل جائے ۔۔۔
  پردے ھٹے ہوئے بھی ہیں ان کی ادھر نظر بھی ھے
  بڑھ کے مقدر آزما سر بھی ھے سنگ در بھی ھے

 
٣
 
اس آیت میں سب عبادات کا تذکرہ ھے یہ سب عبادات کو شامل ھے  جس طرح نماز میں صفت احسان ضروری ھے اسی طرح ہر عبادت،  ،،ذکر، تلاوت ، حج ،  زکٰوۃ ، روزہ ، ، جہاد ،  میں  استحضار (صفت احسان) ضروری ھے ۔
،،، 1 ،،، نماز
حضرت حاتم اصم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب میں نماز کیلئے کھڑا ہوتا ہوں تو گویا اس طرح ہوتا ہوں کہ بیت اللہ میرے سامنے ھے دائیں طرف جنت  بائیں طرف جہنم ھے اور میرے پاؤں پل صراط پر ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ گویا یہ میری آخری نماز ھے اور نماز پڑھ کر امید اور خوف کے درمیان میں رہتا ہوں کہ نامعلوم قبول بھی ھو گی کہ نہیں
 ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جب جنگ میں تیر لگا تو وہ جسم سے نماز کے دوران نکالا گیا اور ان کو خبر تک نہ ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔  ایک بزرگ سے کسی نے پوچھا کہ آپ کو نماز میں اللہ کے غیر کا خیال نہیں آتا  تو کیا خوبصورت جواب دیا کہ نہ نماز میں آتا ھے اور نہ غیر نماز میں ( یعنی دل ہروقت اللہ کی یاد میں مصروف رہتا ھے )
 ۔۔۔۔۔۔۔۔  حاجی امداداللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ عارف کا ایک سجدہ غیر عارف کے ایک لاکھ سجدوں پر بھاری ھے ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔مولانا روم رحمۃ اللہ فرماتے ہیں ،،،،
کہ عارف کا ایک سجدہ دو سو ملکوں کی سلطنت سے بہتر ھے۔۔
،،،،،،،شعر.  ،،،،،،،،
لیکے ذوقِ سجدۂ پیش خدا
           خوشتر از عائد ملک دو صد ترا،

اللہ تعالی کے سامنے سجدہ کرنے کی لذت.  دوسو ملکوں کی سلطنت سے بہتر ھے ۔
جب ہم نماز کیلئے مسجد کی طرف جائیں تو ایسے جائیں گویا کہ احرام باندھ کر  حج کو جا رہے ہیں  اپنی نظروں کی حفاظت کرتے ہوئے  اپنے رب کی آواز پر لبّیک کہتے ہوئے دنیا سے بے خبر ہوکر جائیں ،،
ایک بزرگ جب آزان کی آواز سنتے تو فورا کھڑے ہوجاتے اور یہ کہتے ہوئے اے اللہ میں حاضر اے اللہ میں حاضر مسجد کی طرف چل پڑتے ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔ ایک بزرگ فرمانے لگے کہ دنیاوی بادشاہ تو بے وقوف ہیں ملکوں کو حاصل کرنے کے لئے لشکر کشی کرتے ہیں.  اگر انہیں معلوم ہوجائے کہ اسل دولت تو ہمارے پاس ھے تو ہم پر لشکر کشی کریں ،،،،،،،
،،،،،،، شعر ،،،،،،،
خدا کی یاد میں بیٹھے سب سے بے غرض ہوکر
تو پھر اپنا بوریا بھی ہمیں تخت سلیماں تھا

٭٭٭

     

نماز میں دل لگانے کا طریقہ


"سربکف" میگزین 2-ستمبر، اکتوبر 2015

 مرشدی و مولائی حضرت مولانا  پیر ذوالفقار احمد نقشبندی دامت برکاتہم

محترم قارئین! کتنے ہی ہم علم والے ہو جائیں،  مناظر و محقق بن جائیں، اصل تو عمل اور پھر رب کے دربار میں قبولیت ہے۔ رب کا عشق اور رضا مقصودِ حقیقی ہے، اور یہ عشق دنیا میں بھی اپنا اثر دکھاتا ہے۔ زیرِ نظر مظمون صدق دل سے پڑھیں اور اپنی عبادات میں اللہ کا عشق لائیں۔ رب کے سامنے کھڑے ہوتے وقت ہم نہ مناظر ہوں نہ محققِ اسلام،  نہ خطیب ہوں نہ مبلغ! بس، ہم ہوں  اللہ، اور کیفیتِ "کَاَنَّکَ تَرَاہُ" کی تصویر ہو۔   (مدیر)


ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
یَا اَ یُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصَّلٰوۃِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْ ھَکُمْ وَ اَیْدِیْکُمْ اِلَی الْمَرَافِقِ وَ امْسَحُوْا بِرُؤُو سِکُمْ وَ ارْ جُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَیْنِ (سورۃ المائدہ:۵)
(اے ایمان والو ! جب تم نماز کی طرف قیام کا ارادہ کرو تو تم اپنے چہروں کو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لو، اور اپنے پاؤں کو ٹخنوں سمیت دھو لو اور اپنے سر کا مسح کر لو)
    * اس آیت مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ نماز سے پہلے وضو کرنا لازمی ہے۔
    * حدیث پاک میں وارد ہوا ہے کہ الصلوٰۃ مفاتیح الجنۃ و مفاتیح الصلوٰۃ الطھور۔ (جنت کی کنجیاں نماز ہیں اور نماز کی کنجی وضو ہے)
    * ایک حدیث پاک میں ہے کہ وضو کے اعضاء قیامت کے دن روشن ہوں گے جس کی وجہ سے نبی علیہ السلام اپنے امتی کو پہچان لیں گے۔
    * وضو کرنے والے کے سر پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کی چادر ہوتی ہے۔ جب وہ دنیا کی باتیں کرتا ہے تو چادر ہٹ جاتی ہے۔
    * ایک روایت میں ہے کہ جو شخص وضو شروع کرتے وقتبِسْمِ اللہِ الْعَظِیْمِ وَ الْحَمْدُ لِلہِ عَلیٰ دِیْنِ الْاِسْلَامِ پڑھے اور وضو کے اختتام پر کلمہ شہادت پڑھے اسکے پچھلے سب گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔

فضائل وضو
ایک حدیث پاک میں آیا ہے اَلْوُ ضُوْءُ سَلَّاحُ الْمُؤمِنِ(وضو مومن کا اسلحہ ہے) جس طرح ایک انسان اسلحے کے ذریعے اپنے دشمن کا مقابلہ کرتا ہے اسی طرح مومن وضو کے ذریعے شیطانی حملوں کا مقابلہ کرتا ہے۔ امام غزالیؒ فرمایا کرتے تھے کہ تم اپنے قلبی احوال پر نظر ڈالو تمہیں وضو سے پہلے اور وضو کے بعد کی حالت میں واضح فرق نظر آئے گا۔ ہمارے مشائخ اپنی زندگی با وضو گزارنے کا اہتمام فرماتے تھے۔

حدیث پاک میں ہے اَنْتُمْ تَمُوْ تُوْ نَ کَمَا تَعِیْشُوْنَ(تم جس طرح زندگی گزارو گے تمہیں اسی طرح موت آئے گی)
اس حدیث پاک سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ جو شخص اپنی زندگی با وضو گزارنے کی کوشش کرے گا اللہ تعالیٰ اسے با وضو موت عطا فرمائیں گے۔
٭ہمیں ایک مرتبہ حضرت مجدد الف ثانیؒ کے خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب کے گھر جانے کا اتفاق ہوا۔ انکی کوٹھی ایک نئی کالونی میں بن رہی تھی۔ مغرب کا وقت شروع ہوا تو انہوں نے گھرکے دالان میں نماز ادا کرنے کے لئے صفیں بچھا دیں۔ انکے گھر کے صحن میں پانچ سات چھوٹے بڑے بچے کھیل رہے تھے۔ جب اقامت ہوئی تو کھیلنے والے بچے دوڑتے ہوئے آئے اور نماز میں شریک ہو گئے۔ ان سے پوچھا گیا کہ وضو بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔ تو انکے والد نے بتایا کہ ہم نے اپنے بزرگوں سے یہ بات سیکھی ہے کہ اپنی زندگی با وضو گزارو۔ ہمارے گھر کا چھوٹا بڑا کوئی بھی فرد جب بھی آپ کو ملے گا با وضو ہو گا۔ جب بھی وضو ٹوٹتا ہے فوراً نیا وضو کر لیتے ہیں۔
٭حضرت خواجہ فضل علی قریشیؒ اپنے مریدین کو تلقین فرماتے تھے کہ ہر وقت با وضو رہنے کی مشق کریں۔ ایک مرتبہ آپ مطبخ میں تشریف لائے تو مہمانوں کے سامنے دستر خوان بچھایا جا چکا تھا۔ آپ نے سب کو مخاطب کر کے فرمایا 'فقیرو! ایک بات دل کے کانوں سے سنو، جو کھانا تمہارے سامنے رکھا گیا ہے۔ اسکی فصل جب کاشت کی گئ تو وضو کے ساتھ، پھر جب اسکو پانی لگایا گیا تو وضو کے ساتھ، اسکو کاٹا گیا وضو کے ساتھ، گندم کو بھوسے سے جدا کیا گیا تو وضو کے ساتھ، پھر گندم کو چکی میں پیس کر آٹا بنایا گیا تو وضو کے ساتھ، پھر اس آٹے کو گوندھا گیا وضو کے ساتھ، پھر اسکی روٹی پکائی گئ وضو کے ساتھ، وہ روٹی آپکے سامنے دسترخوان پر رکھی گئ وضو کے ساتھ،کاش کہ آپ لوگ اس کو وضو سے کھا لیتے۔
٭حضرت ملاں جیون سے وقت کے بادشاہ نے کوئی مسئلہ دریافت کیا۔انہوں نے لگی لپٹی رکھے بغیر کھری کھری سنا دیں۔ بادشاہ کو بہت غصہ آیا لیکن وقتی طور پر برداشت کر گیا۔ چند دن کے بعد اس نے ایک سپاہی کے ہاتھ کوئی پیغام بھیجا۔ ملاں جیون اس وقت حدیث شریف کا درس دے رہے تھے۔ انہوں نے سپاہی کے آنے کی پروا تک نہ کی اور درس حدیث جاری رکھا۔ درس کے اختتام پر سپاہی کی بات سنی۔ سپاہی اپنے دل میں پیچ و تاب کھاتا رہا کہ میں بادشاہ کا قاصد تھا اور ملاں جیون نے تو مجھے گھاس تک نہ ڈالی۔ چنانچہ اس نے واپس جا کر بادشاہ کو خوب اشتعال دلایا کہ میں ملاں جیون کے پاس آپ کا قاصد بن کر گیا تھا۔ انہوں نے مجھے کھڑا کیے رکھا اور پروا ہی نہ کی۔ مجھے لگتا ہے کہ اس کو اپنے شاگردوں کی کثرت پر بڑا ناز ہے ایسا نہ ہو کہ یہ کسی دن آپکے خلاف بغاوت کر دے۔ بادشاہ نے ملاں جیون کی گرفتاری کا حکم صادر کر دیا۔ بادشاہ کے بیٹے ملاں جیون کے شاگرد تھے۔ انہوں نے یہ بات سنی تو اپنے استاد کو بتا دی۔ ملاں جیون نے یہ سن کر وضو کیا اور تسبیح لے کر مصلٰے پر بیٹھ گئے کہ اگر بادشاہ کی طرف سے سپاہی آئیں گے تو ہم بھی اللہ تعالیٰ کے حضور ہاتھ اٹھا کر معاملہ پیش کریں گے۔
شہزادے نے یہ صورت حال دیکھی تو بادشاہ کو جا کر بتایا کہ ملاں جیون نے وضو کر لیا اور وہ مصلےٰ پر دعا کرنے کیلئے بیٹھ گئے ہیں۔ بادشاہ کے سر پر اس وقت تاج نہ تھا وہ ننگے سر ، ننگے پاؤں دوڑا اور ملاں جیون کے پاس آ کر معافی مانگی اور کہنے لگا 'حضرت ! اگر آپ کے ہاتھ اٹھ گئے تو میری آئندہ نسل تباہ ہو جائے گی'۔ ملاں جیون نے اسے معاف کر دیا۔

٭فقیر کو ۱۹۷۱ء میں بینائی میں کمزوری محسوس ہوئی۔ لاہور کے مشہور ای پلومر ڈاکٹر صاحب نے چیک کیا تو کہا کہ اڑھائی نمبر شیشے کی عینک لگانی ضروری ہے ورنہ بینائی کمزور سے کمزور تر ہو جائے گی۔ فقیر نے چار ماہ عینک استعمال کی۔ ایک مرتبہ وضو کیلئے بیٹھنے لگا تو عینک گری اور شیشہ ٹوٹ گیا۔ فقیر نے دعا مانگی کہ یا اللہ! میں تیرے محبوب ﷺ کی مسواک والی سنت پر پابندی سے عمل کروں گا میری بینائی کو تیز فرما۔ کچھ عرصے بعد دوبارہ بینائی چیک کروائی تو بالکل ٹھیک نکلی۔ تیس سال تک دوبارہ عینک لگانے کی ضرورت پیش نہ آئی۔
٭٭

معارف وضو

درج ذیل میں وضو سے متعلق چند اسرار و رموز بیان کئے جاتے ہیں۔

    * وضو کو یکسوئی اور توجہ سے کرنا اعلیٰ مرتبہ کی نماز پڑھنے کا مقدمہ ہے۔ کوئی شخص ایسا نہیں ہو سکتا جو عادتاً غفلت سے وضو کرے مگر نماز حضوری کے ساتھ پڑھے۔ پس معلوم ہوا کہ اہتمام وضو اور حضوری نماز میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔
    * مشائخ کرام فرماتے ہیں کہ در حقیقت وضو انفصال عن الخلق (مخلوق سے کٹنا ہے) جبکہ نماز اتصال مع الحق (اللہ تعالیٰ سے جڑنا) ہے۔ جو شخص جس قدر مخلوق سے کٹے گا اتنا ہی زیادہ اللہ تعالیٰ سے جڑے گا۔ یہی مطلب ہے لا الہ الا اللہ کا۔ پس لا الہ کا مقصود یہ ہے کہ مخلوق سے کٹو اور الا اللہ کا مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے جڑو۔ ماسوی اللہ سے قلبی تعلق توڑنے کو عربی زبان میں تبتل کہتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ وَاذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ وَ تَبَتَّلْ اِلَیْہِ تَبْتِیْلاً (المزمل: ۸) (اور اپنے رب کا نام پڑھے جا اور سب سے الگ ہو کر اسی کی طرف سب چھوڑ کر چلا آ)
    * پانی کی خاصیت یہ ہے کہ آگ کو بھجا دیتا ہے۔ لہذا جو شخص وضو کر کے حضوری کے ساتھ نماز ادا کرے گا تو اس شخص کیلئے نماز دوزخ کی آگ سے ڈھال بن جائے گی۔
    * وضو میں شش جہات (چھ اطراف) سے پاکیزگی حاصل کی جاتی ہے۔ دائیں ہاتھ سے دائیں طرف۔ بائیں ہاتھ سے بائیں طرف۔ چہرہ دھونے سے آگے کی طرف۔ گردن کا مسح کرنے سے پیچھے کی طرف۔ سر کا مسح کرنے سے اوپر کی طرف اور پاؤں دھونے سے نیچے کی طرف سے پاکیزگی حاصل ہو گئ۔
    * وضو کرنے سے انسان چھ اطراف سے پاکیزہ ہو گیا۔ پس محبوب حقیقی سے ملاقات کی تیاری مکمل ہو گئ۔ جب نماز ادا کرے گا تو اسے ملاقات بھی نصیب ہو جائے گی۔ ارشاد فرمایا اَنْ تَعْبُدَ اللہَ کَاَ نَّکَ تَرَاہُ( تو اللہ تعالیٰ کی عبادت ایسے کر جیسے اسے دیکھ رہا ہے) اسی لئے کہا گیا کہ اَلصَّلوٰۃُ مِعْرَاجُ الْمُؤمِنِ (نماز مومن کی معراج ہے) حدیث پاک میں بتایا گیا ہے کہ آدمی جب وضو کرتا ہے تو اعضاء دھلنے کے ساتھ ہی ان سے کئے گئے گناہ بھی دھل جاتے ہیں۔ امام اعظم ابو حنیفہؒ کو ایسا کشف نصیب ہو گیا تھا کہ وہ وضو کے پانی کے ساتھ گناہ کو جھڑتا دیکھتے تھے۔ اسی لئے انہوں نے وضو کے مستعمل پانی کو مکروہ کہا۔ ویسے بھی نمازی کو حکم ہے کہ وضو کا پانی کپڑوں پر نہ گرنے دے۔بعض مشائخ کا معمول تھا کہ وضو کے وقت جو لباس زیب تن فرماتے تھے اسے بدل کر نماز ادا فرماتے تھے۔
    * شرع شریف میں پاکیزگی اور طہارت کو بہت پسند کیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔اِنَّ اللہَ یُحِبُّ التَّوَّا بِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَھَّرِیْنَ (البقرہ: ۲۲۲)(بے شک اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں سے اور پاکیزہ رہنے والوں سے محبت کرتا ہے)
    * توبہ کرنے سے گناہ معاف ہوئے تو انسان باطنی طور پر پاکیزہ ہو گیا۔ حدیث پاک میں اسی مضمون کو مثال سے سمجھایا گیا ہے کہ اگر کسی شخص کے گھر کے سامنے نہر بہتی ہو اور وہ دن میں پانچ مرتبہ غسل کرے تو اس کے جسم پر میل کچیل نہیں رہ سکتی۔ جو شخص پانچ مرتبہ اہتمام سے وضو کرے اور حضوری سے نماز ادا کرے اسکے دل پر سیاہی نہیں رہ سکتی۔
    * شرع شریف کا حسن و جمال دیکھئے کہ وضو میں سارا جسم دھلانے کے بجائے صرف انہی اعضاء کو دھلوانے پر اکتفا کیا گیا جو اکثر و بیشتر کام کاج میں کھلے رہتے ہیں۔ مثلاً ہاتھ، پاؤں ، بازو، چہرہ وغیرہ۔ جو اعضاء کم کھلتے ہیں ان کا مسح کروایا گیا مثلاً سر اور گردن۔ جو اعضاء پردے میں رہتے ہیں انکو مستثنیٰ قرار دیا گیا مثلاً شرمگاہ وغیرہ۔
    * وضو میں جن اعضاء کو دھلوایا گیا قیامت کے دن انہی کو نورانی حالت عطا کی جائے گی۔ حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ نبی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن میں امت اپنے اعضاء کی نورانیت سے پہچان لی جائے گی۔
    * وضو مین جن اعضاء کو دھویا جاتا ہے قیامت کے دن ان اعضاء کو عزت و شرافت سے نوازا جائے گا۔ ہاتھوں میں حوض کوثر کا جام عطا کیا جائے گا۔ چہرے کو تروتازہ بنا دیا جائے گا جیسے فرمایا وُجُوْہٌ یَّوْ مَئِذٍ نَّاعِمَہٌ (اس دن چہرےتروتازہ ہوں گے) سر کو عرش الٰہی کا سایہ عطا کیا جائے گا۔ حدیث پاک میں آیا ہے یوم لا ظل الا ظل عرشہ ( قیامت کے دن عرش الٰہی کے سوا کوئی سایہ نہ ہو گا) پاؤں کو پل صراط پر چلتے وقت استقامت عطا کی جائے گی۔

وضو میں چند علمی نکات
علمی نکتہ۔ ۱
وضو میں پہلے ہاتھ دھوتے ہیں، کلی کرتے ہیں، ناک میں پانی ڈالتے ہیں پھر چہرہ دھونے کی باری آتی ہے۔ اب ایک طالب علم کے ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ فرض کا درجہ سنت سے زیادہ ہے تو پھر پہلے چہرہ دھلواتے بعد میں دوسرے کام کرواتے۔ مگر وضو میں سنت عمل کو فرض عمل پر مقدم کیا گیا۔ آخر اس کی کیا حکمت ہے؟
جواب
پانی سے اس وقت وضو کیا جا سکتا ہے جبکہ پانی پاک ہو۔ اگر پانی ہی ناپاک ہو تو وضو ہو گا ہی نہیں۔ پانی کی پاکیزگی کا اندازہ اس کی رنگت ، بو اور ذائقہ سے لگایا جاتا ہے۔ وضو کرنے ولا آدمی جب ہاتھ دھوئے گا تو اسکو پانی کی رنگت کا پتہ چل جائے گا، جب کلی کرے گا تو ذائقے کا پتہ چل جائے گا، جب ناک میں پانی ڈالے گا تو بو کا پتہ چل جائے گا۔ جب تینوں طرح سے پاکیزگی کا پتہ چل گیا تو شریعت نے چہرہ دھونے کا حکم دیا تاکہ فرض کامل صورت میں ادا ہو جائے۔
علمی نکتہ۔ ۲
وضو کے اعضاء متعین کرنے میں کیا خصوصیت ہے؟
جواب
حضرت آدمؑ سے شجر ممنوعہ کا پھل کھانے کی بھول ہوئی، وضو کے ذریعے اس بھول کی یاد دہانی کروائی گئ تاکہ انسان اپنی تمام غلطیوں سے معافی مانگ سکے۔ حضرت آدمؑ نے اپنے ہاتھوں سے شجر ممنوعہ کا پھل توڑا، آنکھوں سے دیکھا، منہ سے کھایا، پتوں کو سر لگا، پاؤں سے اسکی طرف چل کر گئے۔ وضو کرتے وقت اس بھول کی یاد دہانی کروائی گئ۔ تاکہ انسان اپنے پچھلے گناہوں سے توبہ کرے اور آئندہ گناہوں سے اپنے آپ کو بچائے۔ یہ سبق بھی دیا گیا کہ اگر میرے حکموں کے مطابق زندگی گزارو گے تو نعمتوں میں پلتے رہو گے، جنت میں جا سکو گے، اور اگر شیطان کی پیروی کرو گے تو نعمتوں سے محروم کر دیئے جاؤ گے، جنت میں داخلہ نصیب نہ ہو سکے گا۔
علمی نکتہ۔ ۳
وضو میں ہاتھ دھونے سے ابتداء کیوں کی گئ؟
جواب
تاکہ موت کے وقت مال سے ہاتھ دھونے پڑیں گے تو دل کو رنج نہ ہو۔ مزید برآں انسان کے ہاتھ ہی سب سے زیادہ مختلف جگہوں یا چیزوں سے لگتے ہیں اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ ہاتھوں پر مختلف بیکٹیریا اور جراثیم لگے ہوئے ہوں۔ ہاتھ پہلے دھونے سے وہ گندگی دور ہو جائے گی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان دوسرے اعضاء کو ہاتھوں ہی کی مدد سے دھوتا ہے اگر ہاتھ ہی پاک نہ ہوں تو دوسرے اعضاء کیسے پاک ہوں گے۔ اس لئے وضو میں ہاتھ پہلے دھلوائے گئے باقی اعضاء کو بعد میں دھلوایا گیا۔
علمی نکتہ۔ ۴
وضو میں چار فرض کیوں ہیں؟
جواب
وضو میں چار فرض ہیں۔ دو اعضاء ذرائع علم میں ہیں مثلاً سر اور چہرہ، جبکہ دو اعضاء ذرائع عمل میں سے ہیں مثلاً ہاتھ اور پاؤں۔ ان چاروں کو دھونا فرض قرار دیا گیا۔ گویا یہ طے شدہ بات ہے کہ تمام سعادتوں کی بنیاد علم پر عمل کرنے میں ہے۔
علمی نکتہ۔ ۵
تیمم میں دو فرض کیوں ہیں؟
جواب
تیمم اس وقت کرتے ہیں جب پانی موجود نہ ہو یا بیماری کا عذر ہو۔ پس عذر کی حالت میں عمل میں تخفیف کی گئ، انسان پر بوجھ کم کر دیا گیا، رخصت مل گئ، عمل کرنے میں آسانی ہو گئ۔ رہی بات یہ کہ چار میں سے کون سے دو چنے گئے۔ تو ایک عضو ذرائع علم میں سے چنا گیا مثلاً چہرہ اور سر میں چہرے کو منتخب کیا گیا۔ وجہ یہ تھی کہ سر کا تو پہلے ہی چوتھائی حصہ کا مسح کرتے ہیں جبکہ چہرہ کامل دھلوایا جاتا ہے۔ پس کامل کو ترجیح دی گئ البتہ ذرائع عمل میں سے ہاتھ اور پاؤں میں سے ہاتھوں کو چنا گیا۔ چونکہ ہاتھ پاؤں سے اعلیٰ ہیں۔ شریعت نے کامل اور اعلیٰ اعضاء کو چن لیا۔ بقیہ کا بوجھ کم کر دیا۔
علمی نکتہ۔ ۶
تیمم میں سر کو کیوں نہ چنا گیا؟
جواب
وضو میں پہلے ہی چوتھائی سر کا مسح کیا جاتا ہے۔ جب معافی دینی تھی تو پورے سر کا مسح معاف کر دیا گیا۔ ویسے بھی جہلا کی عادت ہوتی ہے کہ مصیبت کے وقت سر پر مٹی ڈالتے ہیں تو تیمم میں سر کا مسح معاف کر دیا گیا تاکہ جہلا کے عمل سے مشابہت نہ ہو۔
عملی نکتہ۔ ۷
تیمم میں ہاتھ اور چہرے کو دوسرے اعضاء پر مقدم کیوں کیا گیا؟
جواب
انسان اکثر گناہ اپنے چہرے اور ہاتھوں کے ذریعے کرتا ہے۔اس لئے انکا انتخاب ضروری تھا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ قیامت کے دن دو اعضاء پر خوف زیادہ ہو گا ۔ ایک چہرے پر کہ گنہگاروں کے چہرے سیاہ ہوں گے۔
یَوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْ ہٌ وَّ تَسْوَ دُّ وُجُوْ ہٌ (آل عمران:۱۰۶)
(جس دن سفید ہوں گے بعض چہرے اور سیاہ ہوں گے بعض چہرے)
کفار کے چہرے کالے اور مٹی آلود ہوں گے۔
وُجُوْ ہٌ یَّوْ مَئِذٍ عَلَیْھَا غَبَرَ ہٌ ۔ تَرْ ھَقُھَا قَتَرَ ۃٌ ۔ اُو لٰئِکَ ھُمُ الْکَفَرَ ۃُ الْفَجَرَۃ (عبس ۳۰، ۳۱، ۳۲)
(اور کتنے منہ اس دن گرد آلود ہوں گے۔ چڑھی آتی ہے ان پر سیاہی۔ یہ لوگ وہی ہیں جو منکر اور ڈھیٹ ہیں)
دوسرا پل صراط سے گزرتے ہوئے بعض لوگوں کے پاؤں کانپ رہے ہوں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
وَ اِنَّ مِنْکُمْ اِلَّا وَا رِ دُھَا کَانَ عَلیٰ رَبِّکَ حَتْماً مَّقْضِیِّاً ۔ ثُمَّ نُنِجِّی الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَنَذَرُ الظّٰلِمِیْنَ فِیْھَا جِثِیًّا (مریم: ۷۱)
(اور کوئی نہیں تم میں جو نہ پہنچے گا اس پر۔ تیرے رب پر یہ وعدہ لازم اور مقرر ہو چکا۔ بچائیں گے ہم انکو جو ڈرتے رہے اور چھوڑ دیں گے گنہگاروں کو اس میں اوندھے گرے ہوئے۔

ماخوذ از نماز کے اسرار و رموز
     

صفت احسان اور دیدار الٰہی-2


"سربکف" میگزین 2-ستمبر، اکتوبر 2015

قاری  معاذ شاہد حفظہ اللہ
 
٤

...اَن تَعبُدَاللہَ کَاَنّکَ تَرَاہ فَاِلَّم تَکُن تَرَاہُ فَاِنّہ یَرَاکَ ...

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا «««« نماز مؤمن کی معراج ہے »»»» اور معراج میں تین چیزیں ہیں :
1 : قرب الہی     2: دیدار الہی    3: ہم کلامی
 حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو تینوں چیزیں معراج میں نصیب ہوئیں ... قرب کی انتہاء ، دیدار بھی ، اور اللہ تعالی سے ہم کلام ہونے کا شرف بھی حاصل ہوگیا ۔
     لیکن مؤمن کی معراج صفت احسان کے ساتھ ہی نصیب ہو گی۔ جب آدمی نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے اور الحمدلللہ ربّ العلمین کہتا ہے اللہ کی طرف سے جواب آتا ہے حمدنی عبدی تواس طرح ہم کلام ہوگیا ... اور جب سجدہ کرتا ہے تو گویا سر رحمٰن کے قدموں میں رکھ دیاہے تو قرب بھی نصیب ہوگیا اور نماز میں مؤمن دل کی آنکھوں سے اللہ تعالی کو دیکھ رہا ہے اور اسکا دیدار کررہاہے اور الفاظ بھی مخاطب حاضر کے ،ایّاکَ نَعبُدُ٭، تیری عبادت جیسے کہ وہ آمنے سامنے ہوں گویا کہ وہ اسے دیکھ رہاہے جب یہ تینوں صفات پائی جائیں گی تو مؤمن کی معراج بنے گی اگر ان میں سے ایک چیز بھی نکل گئی ۔جیسے کانک تراہ۔ یعنی رویت کا استحضار نہ ہوا تو مؤمن کی معراج ادھوری ہو گی تو گویا صفت احسان سے خالی نماز پُھسپُھسی اور بے جان ہو گی اور اس پر وہ اثرات مرتب نہ ہوں گے جو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کی نمازوں پر ہوتے تھے
جلد اٹھنے نہ دے سر سجدے سے میرے مولا
 اور کچھ دیر مجھے یونہی پڑا رہنے دے
ذکر میں صفت احسان
 ٭ شاہ عبدالعزیز( رحمۃ اللہ علیہ) نے فضائل ذکر میں فرمایا کہ روح کا یہ دھیان کہ اللہ دیکھ رہا ہے اسی کو استحضار کہتے ہیں اور دوامِ استحضار کا نام ہی معیت ہے ۔ع
جدھر دیکھتا ہوں ادھر تو ہی تو ہے
٭ جب بھی ہم ذکر کرنے بیٹھیں تو اللہ تعالی کے اس قول کا استحضار کریں فَاذکُرُونِی اَذکُرکُم ...تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا اور اس حدیث قدسی کا دھیان رکھتے ہوئے ذکر کریں اَنا جَلِیسُ مَن ذَکَرَنِی ...۔میں اس کا ہم نشین ہوتا ہوں جو میرا ذکر(یاد) کرتا ہے
درود پاک میں صفت احسان
آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پاک پڑھتے ہوئے اس بات کا استحضار کریں کہ اے اللہ تو بھیج رحمت اور سلامتی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اور اللہ تعالی کی رحمتیں اور سلامتیاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر اتر رہی ہیں اور میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہء اقدس کے ساتھ بیٹھا ہوں اور مجھ پر بھی ان کے چھینٹے پڑ رہے ہیں
 نام لیتا ہوں محمد کا زباں سے میں
رحمتیں عرش والے کی مجھ کو گھیر لیتی ہیں
 اور جو ان صفات کے ساتھ کثرت سے درود پاک پڑھے گا اللہ تعالی اسے دنیا میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت اور قیامت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قرب نصیب فرمائیں گے اور جو ذکر الہی کثرت سے کرے گا اللہ تعالی اسے حلاوت ایمانی نصیب فرمائیں گے ...۔۔ ایک بزرگ فرمانے لگے کہ جب میں اللہ کا نام لیتا ہوں تو میرا منہ میٹھا ہو جاتا ہے
اللہ اللہ کیسا پیارا نام ہے
عاشقوں کا مینا اور جام ھے
٥
ذکر میں پانچ چیزیں ہیں اور ان سب میں صفت احسان ضروری ہے
:::1::: اللہ تعالی کی صفات اور بڑائی کے کلمات کا ذکر ، :::2 ::: استغفار ، :::3::: تلاوت قرآن ، ::4::: درود پاک ، :::5::: ہر موقع کی دعا
     حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ نے مولانا عبد الغنی پھول پُوری کو خواب میں فرمایا کہ میں تمہیں ایسا اللہ اللہ سکھاتا ہوں جس کو سو مرتبہ پڑھو گے تو چوبیس ہزار مرتبہ پڑھنے کا اثر پیدا ہو گا پہلی بار اللہ کرو تو یہ تصور باندھو کہ میرا دل اللہ اللہ کر رہا ہے پھر یہ استحضار کرو کہ اب میرے جسم کا بال بال اور رُوّاں رُوّاں اللہ اللہ کر رہا ہے اس کے بعد اس چیز کا استحضار کرو کہ میرے ساتھ کائنات کی ہر ہر چیز اللہ اللہ کر رہی ہے ریت کے زرّے ، پہاڑ ، دریا ، سمندر کی لہریں ، بارش کے قطرے ، درختوں کے پتّے ، میرا دل بھی اللہ اللہ کر رہا ہے، اور میرے جسم کا رُوّاں رُوّاں بھی اللہ اللہ کر رہا ہے کائنات کی ہر چیز میرے ساتھ اللہ اللہ کر رہی ہے ، اگر اس تاثر کے ساتھ اللہ کا نام ایک سو مرتبہ لیں گے تو چوبیس ہزار مرتبہ اللہ اللہ کہنے کا تاثر پیدا ہو گا
    مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب میں اللہ اللہ کرتا ہوں تو میرے بال بال سے گویا شہد کے سمندر جاری ہوجاتے ہیں اور فرمایا شکّر زیادہ میٹھی ہے کہ شکّر کو پیدا کرنے والا ، ایک اور جگہ فرمایا کہ جب میں اللہ اللہ کرتا ہوں تو اللہ تعالی کی طرف سے مجھے وہ لذتیں حاصل ہوتی ہیں کہ تمام دنیا کی زبانیں اس کو بیان کرنے سے عاجز آجاتی ہیں
نام لیتے ہی نشہ سا چھا گیا
ذکر میں تاثیرِ دورِ جام  ہے
لا الہ الا اللہ کے ذکر میں تین چیزیں ہیں اور اس میں صفت احسان ضروری ہے
1۔دل سے اللہ تعالی کے غیر کو نکالنے کا استحضار یہ استحضار کرنا ہے کہ لا الہ کہنے پر اللہ کا سارا غیر دل سے نکل رہا ہے اور دل سے نشانہ بناکر اس سے اللہ کے غیر کو باہر کھینچنا ہے اور الااللہ پر اللہ کی ذات کے دل میں آنے کا استحضار کرنا ہے
نکالو دل سے یاد حسینوں کی اے مجذوب
 خدا کے گھر پئے عشقِ بُتاں نہیں ہوتا
2۔ اس حدیث مبارک کا استحضار کرنا ہے لا الہ الا اللہ لیس لہا حجاب دون اللہ، کہ میرے اس لاالہ الااللہ اور اللہ کے درمیان میں کوئی حجاب اور پردہ نہیں ہے ...۔۔ میں تو یہاں ہوں لیکن میری لاالہ الااللہ. اللہ تعالی کے عرش پر اللہ کے پاس ہے اور گویا کہ اللہ سے ملاقات کر رہی ہے میں تو فرش پر ہوں لیکن لاالہ الااللہ کے ذریعے عرش والے سے مل رہا ہوں میں تو یہاں ہوں اور میرے تذکرے عرش پر ہورہے ہیں اس حدیث قدسی کو سوچتے ہوئے کہ تم مجھے فرش پر یاد کرو میں تمہیں عرش پر یاد کروں گا
 غیر سے بالکل ہی اٹھ جائے نظر
 تو ہی تو آئے نظر دیکھوں جدھر
 3۔اس کا استحضار کہ میری لاالہ الااللہ ۔ اللہ تعالی تک پہنچ رہی ہے اور الااللہ ۔ اللہ کا. نور لیکر میرے دل کے اوپر آرہی ہے اور اس نور کے طفیل میرا دل جگمگا رہا ہے جسکو اس دعا میں ذکر فرمایا ہے ...۔
اللہمَّ جعل فی قلبی نورا ......۔ اے اللہ میرے دل میں نور پیدا فرمائیے ۔۔ اور دل سے نکل کر وہ نور کانوں کو آنکھوں کو گوشت پوست کو ہڈیوں کو بال بال کو نورانی کر رہا ہے اور پھر وہ نور مجھے گھیر رہا ہے ... اب وہ نور میرے دائیں جانب بھی ہے بائیں جانب بھی اوپر بھی نیچے بھی اور وہ نور مجھے سراپا نور کر رہا ہے ایک مخلوق پر خالق کا نور پڑ رہا ہے ... اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعا کو سامنے رکھنا ہے اے اللہ تیرے چہرے کے اس نور کے طفیل جس سے تمام اندھیریاں روشن ہو گئیں اور جس سے سب کام بنتے ہیں ... اور اس بات کا تصور کرنا ہے کہ اس نور طفیل دل سے حسد کی ظلمت اور اندھیرا ،، کبر اور بڑائی کا اندھیرا ، خود پسندی اور خود رائی کا اندھیرا ، اور جملہ اعمال بد کے اندھیرے دور ہو رہے ہیں اور دل جگمگا رہا ہے اور اس کے اندر صفات آرہی ہیں قرآن مجید میں ہے: اللہُ نورُ السموٰتِ والارض ،  اللہ نور ہے آسمانوں اور زمین کا ۔۔ اور وہ نور میرے دل میں ارہا ہے ...جس دل میں یہ نور آجاتا ہے اس دل کے سامنے سورج کی روشنی کی بھی کوئی حیثیت نہیں ۔۔ کیونکہ سورج مخلوق ہے اسکی روشنی بھی مخلوق ہے اللہ خالق ہے اسکا نور بھی خالق ہے سورج محدود ہے اسکی روشنی بھی محدود ہے اللہ لا محدود ہے اسکا نور بھی لا محدود ہے سورج فانی ہے اسکی روشنی بھی فانی ہے اللہ غیر فانی ہے اسکا نور بھی غیر فانی ہے سورج کی روشنی کو اس نور سے کیا نسبت ہے …
جو دل پے ہم ان کا کرم دیکھتے ہیں
 تو دل کو بے حد جامِ جَم دیکھتے ہیں
     

کنواروں کا مسئلہ

"سربکف" میگزین 1-جولائی،اگست 2015

عبد الرحمٰن صدیقی حفظہ اللہ

"پہلے اپنے پیروں پر کھڑے ہوجاؤ پھر شادی کی سوچنا"
یہ ایک جملہ ہے جو ہمارے عہد کے بہت سارے کنواروں کے دل پر بجلی بن کر گرتا ہےاور ان کی سلگتی تمنّاؤں اور امنگتی آرزوں کو خاکستر کردیتا ہے ۔ ہمارےیہاں لڑکے کے لیے پیروں پر کھڑا ہونے معیار اتنی بلندی پر رکھا گیا ہے کہ وہاں تک پہنچتے پہنچتے لڑکے کی عمر اس مرحلہ میں پہنچ جاتی ہے جہاں گھٹنوں کا درد شروع ہوجاتا ہے ۔ لیکن گھنٹے میں درد شروع ہوجانے کی اور بھی کئی ساری وجوہات ہوتی ہیں ۔
عجیب معاملہ یہ ہے کہ تیس سال سے پہلے تو یہ سمجھا ہی نہیں جاتا کہ بچّہ اب بچّہ نہیں رہا۔ جوان ہوچکا ہے ۔ آرزوئیں اب اس کےدل میں بھی کچوکے لگاتی ہیں ، خواب اب اس کی راتوں کو سونے نہیں دیتے ۔بے چارہ نوجوان شرم اور بے شرمی کے بیچ جھولتا رہتا ہے اس فکر میں کہ آخر بے شرمی کی کون سی حد تک جائے کہ گھر والے اس کا مسئلہ سمجھ پائیں ۔ کبھی حیا اس کو ہاتھ پکڑ کر روک لیتی ہے تو کبھی کنوارگی کا درد اس کو مجبور کرتا ہے کہ" اتر جاؤ بے شرمی پر اور رکھ دو دل کا درد کھول کر سب کے سامنے ۔"
پھر جب عمر کی دہائی پر جب 3 آکر لگتا ہے تو گھر والوں کو لگتا ہے بچّہ اب شادی کے لائق ہوگیا ۔پھر رخ کیا جاتا ہے منڈی کی طرف ۔ لڑکے پر حسب لیاقت و صلاحیت قیمت کے ٹیگ لگتے ہیں ۔ خریدارکی تلاش ہوتی ہے ۔ دلالوں سے کانٹیکٹ کیا جاتا ہے۔ بولیاں لگتی ہیں ۔ مول بھائی ہوتا ہے۔ نیلامی ہوتی ہے ۔ اور تلاش ہوتی ہے صحیح خریدار اور مناسب دام کی ۔
مردوں کی منڈی میں ہر طرح دلہے بکنے کو دستیاب ہوتےہیں ۔ ہر قسم کے دلہے کہ اپنی ولیو ہوتی ہے ۔ ڈاکٹر اور انجینر اور باہر ملکوں میں مقیم سب سے اعلیٰ نسل کے دلہے سمجھے جاتے ہیں منڈی میں جہاں اس نسل کے دولہے بکتے ہیں وہاں کی انٹری فیس بھی بڑی ہوتی ہے ۔ جو صرف انتہائی امیر گھرانے کے لڑکی والے ہی ادا کرپاتے ہیں ۔
متوسظ قسم کے مالداروں اور خوشحال گھرانوں کا بھاؤ کافی عروج پر ہے آج کل ۔ اور انگریجی پڑھائی پڑھنے والوں کی بھی کافی مانگ ہے ۔
منڈی ایک کونے مولوی بھی بکتے ہیں ۔ کیونکہ مولوی نسل کے دولہوں کے بارے میں خریداروں کی رائے یہ ہے کہ اس نسل کے دولہے کسی نا کسی طرح اپنے بال بچّوں کا پیٹ پال ہی لیتے ہیں ، اس لیے مارکیٹ میں ان کا بھی ریٹ کافی اچھا ہوگیا ہے ۔ بلکہ شاید یہی ایک مارکیٹ ہے جہاں ان کی ویلیو تھوڑی ٹھیک ٹھاک ہے ۔ دو پہیہ سے کم اب کوئی مولوی فروخت نہیں ہوتا ۔ الا من شاء ربک
لیکن مسئلہ صرف صحیح خریدار اور مناسب قیمت ملنے کا بھی نہیں ہے۔ یہ بازار ایسا ہے کہ بکنے والے کو خریدار بھی پسند آنا چاہے ورنہ ڈیل کینسل ۔
ذہنیت یہ بن گئی ہے کہ جب تک دس بیس گھرانے کی دعوتیں اڑا کر ان کی لڑکیاں ریجیکٹ نہ کردی جائیں لڑکے کے گھر والوں کو تسکین نہیں ہوتی ۔(١)
وہی ہوتا ہے کہ لڑکے کا تھوبڑا چاہے دیکھنے لائق نہ ہو ۔گھر والوں کی فکر لگی ہوتی ہے ، ۔ "وہ پری کہاں سے لاؤں ، تیری دلہن کسے بناؤں" لڑکی چاہیے حور پری ۔ لڑکے کو چاہے بات کرنے کی تمیز نہ ہو لڑکی چاہیے بے اے ایم اے ۔
لڑکیوں کو ریجکٹ کرنے کےلیے ایسے ایسے کمنٹ سنے گئے ہیں :
"رنگ سانولا ہے ۔ میرے بھائی کو گوری لڑکی چاہیے ۔ "
"بال دیکھے تھے اپّی کتنے چھوٹے تھے اس کے ۔ "
"اس کی ایڑیاں پھٹی ہوئی ہیں میں نے چپ کے سے موزہ اتروا کے دیکھ لی تھی"
"قد چھوٹا ہے نہیں جمے گی بھائی کو "
" ماسٹر ہی تو ہے ابّا لڑکی کے ۔ کچھ بھی دے لیں تو کتنا دیں لیں گے آخر"
(١) یہ صورتِ حال اکثر جگہوں پر دیکھی گئی ہے اور انتہائی شرم کا مقام ہے۔ اِن میں بلامبالغہ صرف عورتیں ہی پیش پیش رہتی ہیں۔ کاش کہ  "مرد" حضرات اپنی "مردانگی" کا  پاس کرلیں اور  نبی اکرم ﷺ کے فرمانِ عالیشان  فلیغیرہ بیدہ   کا  خیال کرلیں۔ (مدیر)
" چودھری تو ہیں وہ لوگ لیکن چھوٹے چودھری ہیں ۔ ہم بڑے چودھری کے گھر کی لڑکی لائیں
گے"
"ہم انصاری لوگ شیخوں کے یہاں شادی نہیں کرتے"
اور بعض مرتبہ بہانہ ہوتا ہے ۔
"لڑکی سمجھ نہیں آرہی ہے "
الغرض اس طرح پسندیدہ خریدار اور مناسب دام ملتے ملتے لڑکا 35 / 40 کراس کرچکا ہوتا ہے ۔
اب بھلا بتائیے کہ کہ ایک ایسے زمانہ میں جب تقویٰ مسجد کی صفوں میں بھی دکھائی نہیں دیتا ، ایک لڑکے سے جس کی ضرورت 15 /16 سال سے ہی شروع ہو گئی تھی آپ بیس سال تک روزے پر کیسے گذارا کراسکتے ہیں ۔ پھر آپ کہتے ہیں کہ معاشرہ میں فحاشی بڑھ گئی ہے ۔ تو بھائی جہاں نکاح مشکل ہوگا وہاں زنا اپنے لیے راستے آسان کر ہی لے گا۔
بہت سارے معاملا ت میں نے دیکھے ہیں کہ لڑکے جہیز کی لالچ نہیں رکھتے لیکن ان کی جوانی گھر والوں کی لالچ کی بھینٹ چڑھا جاتی ہے ۔
میں اپنے عہد کے کنواروں کو بغاوت پر ابھارتا ہوں ۔ دوستو! اصل کھیلنے کے دن تو یہ بیس کی دہائی کے ہی ہوتے ہیں ۔ یہ ایک ایک دن بڑے قیمتی ہیں ۔ ان کو اپنی کنوارگی میں ضائع مت کرو، نا جوانی کی اس پاک دامنی پر بد کرداری  کا داغ نہ لگنے دو۔ تمہارے نبی کی تعلیم ہے کہ اگر بیوی کا نان نفقہ برداشت کرسکتے ہو تو شادی کرلو۔ اس سے نگاہیں جھک جاتی ہیں اور شرمگاہیں محفوظ ہوجاتی ہے ۔
یہ خوبصورت لمحے لالچی گھر والوں کی بھینٹ مت چڑھاؤ ۔ یہ لالچی لوگ تمہاری جوانی واپس نہیں لاکر دینے والے ۔ لڑکے کو شادی کےلیے ولی کی ضرورت نہیں ۔ قدم آگےبڑھاؤ اور گھر دلہن لےآؤ۔ ورنہ تیس کے بعد حور پری بھی مل جائے تونوجوانی کا یہ لطف نہیں ملنے والا۔
دیکھو تمھارے لیے بھی آسمان سے اتر کر حوریں نہیں آنے والی ۔ دنیا ہی کی کسی لڑکی سے کام چلانا پڑے گا۔ بقیہ خواہشیں پوری کرنے کے لیے دینداری اختیار کرو اور جنّت کا انتظار۔ دنیا کےلیے تو رسول کی یہی ہےہدایت ہے کہ :
تُنْکَحُ الْمَرْأَةُ لِأَرْبَعٍ لِمَالِهَا وَلِحَسَبِهَا وَجَمَالِهَا وَلِدِينِهَا فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاکَ
"عورت سے چار وجہوں سے شادی کی جاتی ہے ۔ مال ،جمال ، نسب اور دین ۔ دین دار لڑکی سے شادی کرکے کامیاب ہولے ۔ " ( متفق علیہ)
٭٭٭
     

روزہ بھوکا پیاسا رہنے کا نام نہیں

"سربکف" میگزین 1-جولائی،اگست 2015
کوکب شہزاد
یہ بات تو عیاں ہے کہ روزہ ایک کٹھن عبادت ہے اور خاص طورپر گرمیوں کے روزے تو بچوں کے لیے بہت ہی مشکل ہوتے ہیں لیکن ہمیں اپنے بچوں کو یہی بتانا چاہیے کہ روزے کا اصل مقصد تقویٰ ہے.
اسلام میں روزہ فرض ہے اس لیے میں نے شروع سے ہی اپنے بچوں میں روزہ رکھنے کی عادت ڈالی ہے مگر میرا بڑا بیٹا رمضان میں بہت چڑچڑا ہوجاتا ہے۔چھوٹی چھوٹی باتوں پر اپنے بہن بھائیوں سے لڑتا اور انھیں مارتا ہے اور میری اور اپنے باپ کی نافرمانی کرتا ہے۔مجھے بتائیں کہ میں اس کے لیے کیا کروں کہ وہ روزہ رکھنے کا صحیح حق ادا کرسکے؟
یہ بات تو عیاں ہے کہ روزہ ایک کٹھن عبادت ہے اور خاص طورپر گرمیوں کے روزے تو بچوں کے لیے بہت ہی مشکل ہوتے ہیں لیکن ہمیں اپنے بچوں کو یہی بتانا چاہیے کہ روزے کا اصل مقصد تقویٰ ہے ۔تقویٰ کا مطلب ہے ایسے کام کرنا جن سے اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہوجائے۔دراصل بچے چھوٹے ہوتے ہیں تو ہم ان کو روزہ رکھوانے کی کوشش تو کرتے ہیں لیکن اس کا فلسفہ آداب اور بنیادی تقاضے نہیں بتاتے جس کی وجہ سے بچوں کے اندر صبراور برادشت پیدا نہیں ہوتی اور وہ بھوکا اور پیاسارہنے کو ہی روزہ سمجھتے ہیں حالانکہ ہمارے دین اسلام نے روزہ رکھنے کے مقاصد واضح طورپر بتایئے ہیں ۔قرآن مجید میں ہے۔
”اے ایمان والوتم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تا کہ تم تقویٰ حاصل کرسکو۔
اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اس کی مقررکردہ حدودومیں رہنااور لڑائی ،جھگڑا،چوری،ملاوٹ،گالم گلوچ اور ہر طرح کے برے کاموں کو چھوڑدینا۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جس نے ایمان اور احتساب کے ساتھ روزے رکھے اس کے پہلے سارے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔
ایک مقام پر رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے روزے کی حالت میں لڑنا،جھگڑنانہ چھوڑا اللہ تعالیٰ کو اس کے بھوکے پیاسے رہنے کی کوئی پرواہ نہیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہر بنی آدم کی نیکی دس گناسے سات سو گنا بڑھادی جاتی ہے سوائے روزے کے پس وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزادیتا ہوں کیونکہ وہ میرے لیے اپنی شہوت اور اپنا کھانا چھوڑتا ہے ۔روزہ دار کے لیے دوہری خوشیاں ہیں۔ایک خوشی جواس کو روزہ افطار کرتے وقت ملے گی اور ایک خوشی اپنے رب سے ملاقات کے وقت ملے گی اور روزے دار کے منہ کی بواللہ تعالیٰ کو مشک (عطر) کی خوشبو سے زیادہ پسند ہے۔روزہ ڈھال ہے۔جس دن تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو وہ نہ فحش بات کرے نہ شور مچائے۔اگر اس کو گالی دی جائے یا اس سے کوئی لڑے تو وہ کہے میں روزے سے ہوں ۔
اسی طرح حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کے مطابق ایک حدیث مبارکہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :جس نے جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑا رتو اللہ تعالیٰ کو اس کی حاجت نہیں کہ وہ اپنا کھانا اور پینا چھوڑے۔
ہمیں اپنے بچوں کو یہ بتانا چاہیے کہ رمضان تربیت کا مہینہ ہے اور اس مہینے میں سب سے زیادہ تربیت صبروشکر کی ہوتی ہے۔اگر ہم شروع ہی سے یہ باتیں ان کے ذہن میں ڈال دیں اور خود بھی اس کا عملی نمونہ بنیں تو ضرور بچوں پر اس کا اثر ہوگا کیونکہ بچے آخر کار وہی کرتے ہیں جو وہ اپنے ماں باپ کو کرتے دیکھتے ہیں۔(١)
(١)بشکریہ اردو پوائنٹ ڈاٹ کام
     

فکریے

"سربکف" میگزین 1-جولائی،اگست 2015
ابنِ غوری، حیدر آباد،ہند
رمضان:
؎  
  خزاں کے دن جو دیکھا، کچھ نہ تھا جز خار گلشن میں
    بتاتا باغ باں رو رو کر یہاں غنچہ، یہاں گل تھا

شعر کا مطلب یہ ہے: یکم شوال کے بعد جو دیکھا مسجدوں میں تو صرف پرانے نمازی ہی نظر آئے۔ مسجد روتے ہوئے کہہ رہی ہے کہ فجر میں اس کا دامن بھر جاتا تھا…مغرب میں اس کی گل پوشی کی جاتی تھی۔ عشاء میں اس کا استقبال ہوتا تھا، لیکن اب پانچوں اوقات میں مجھے مرثیہ پڑھنا پڑتا ہے۔
قسمت سوتی ہے:
    کسی کےکال کا انتظار ہے۔ آپ رات بھر سیل فون کھلا رکھتے ہیں۔ خوب!
    کوئی فجر کے وقت آپ کو اٹھانا چاہتا ہے۔ آپ اپنا فون بند رکھتے ہیں۔ افسوس!
دو آتشہ:
    ارشاد نبیﷺ: عورتیں شیطان کا جال ہیں۔ بازار شیاطین کے اڈے ہیں۔
    مشاہدہ: عورتیں بازاروں میں
    نتیجہ: فحاشی اور طغیانی
زاغ کی چونچ میں انگور:
    آپ عالم ہیں۔ اس قسم کی نوکریاں آپ کی شان کے خلاف ہیں۔
    آپ دین کی خدمت کیجیے۔ اللہ آپ کا کفیل ہوگا۔
    ٭کوئی استاد، اپنے شاگرد کو نصیحت کررہے ہوں گے؟؟؟
    جی نہیں، وہ تو ایک انگریز حاکم تھا!

Cell: 09392460130
     

کشمکش

"سربکف" میگزین 2-ستمبر، اکتوبر 2015
تعزیر بستوی                                            
 
میری رگ رگ میں خدا تو نے شرارے بھر کر
حکم صادر یہ کیا آگ نہ لگنے پائے

ایک سے ایک حسیں چیز بنا کر یہ کہا
خواہشِ نفس کبھی دل میں نہ جگنے پائے

میں فرشتہ  نہ پیمبر نہ صحابی کوئی
اکثر و بیشتر راہوں سے بھٹک جاتا ہوں

ایک سوکھی ہوئی لکڑی سی حقیقت میری
شعلہء نفس سے اک پل میں دہک جاتا ہوں

دل میں اٹھتی ہے کبھی ہوک عبادت میں کروں
تجھ سے رو رو کے گناہوں کی معافی چاہوں

لغزشِ پا کے سبب دہر کے میخانے میں
جو بھی نقصان ہوا اس کی تلافی چاہوں

لب پہ قرآن کی آیات سجائے رکھوں
اپنے کردار کو آئینہ بنائے رکھوں

آندھیاں لاکھ چلیں نفس کے صحراؤں میں
دل میں قندیل تقدس کی جلائے رکھوں

ایک دو روز ہی رہتا ہے تقدس لیکن
پھر اسی نفس کے بازار میں کھوجاتا ہوں

محفلِ رقص سجا لیتی ہے دنیا پھر سے
اس کی پازیب کی جھنکار میں کھو جاتا ہوں

ایسا کردے مرے مولا کہ وفادار رہوں
میں سدا تیری محبت میں گرفتار رہوں

     

مے فروش


"سربکف" میگزین 2-ستمبر، اکتوبر 2015


                علامہ اقبال ؒ
فرما رہے تھے شیخ طریقِ عمل پہ وعظ
کفار ہند کے ہیں تجارت میں سخت کوش
مشرک ہیں وہ جو رکھتے ہیں مشرک سے لین دین
لیکن ہماری قوم ہے محروم عقل و ہوش
ناپاک چیز ہوتی ہے کافر کے ہاتھ کی
سن لے، اگر ہے گوش مسلماں کا حق نیوش
اک بادہ کش بھی وعظ کی محفل میں تھا شریک
جس کے لیے نصیحت واعظ تھی بار گوش
کہنے لگا ستم ہے کہ ایسے قیود کی
پابند ہو تجارت سامان خورد و نوش
میں نے کہا کہ آپ کو مشکل نہیں کوئی
ہندوستاں میں ہیں کلمہ٭ گو بھی مے فروش
 
٭ بحر کی مناسبت سے کلِمہ (ل کے نیچے کسرہ) پڑھا جائے گا، جیسا کہ عربی میں تلفظ ہے۔(مدیر)
     

عشقِ الہٰی کے اثرات

"سربکف" میگزین 1-جولائی،اگست 2015
مرشدی و مولائی حضرت مولانا  پیر ذوالفقار احمد نقشبندی دامت برکاتہم

محترم قارئین! کتنے ہی ہم علم والے ہو جائیں،  مناظر و محقق بن جائیں، اصل تو عمل اور پھر رب کے دربار میں قبولیت ہے۔ رب کا عشق اور رضا مقصودِ حقیقی ہے، اور یہ عشق دنیا میں بھی اپنا اثر دکھاتا ہے۔ زیرِ نظر مظمون صدق دل سے پڑھیں اور اپنی عبادات میں اللہ کا عشق لائیں۔ رب کے سامنے کھڑے ہوتے وقت ہم نہ مناظر ہوں نہ محققِ اسلام،  نہ خطیب ہوں نہ مبلغ! بس، ہم ہوں  اللہ، اور کیفیتِ "کَاَنَّکَ تَرَاہُ" کی تصویر ہو۔   (مدیر)



    عشقِ الہٰی کی برکات اتنی زیادہ ہیں کہ جس انسان کے دل میں یہ پیدا ہوجاتی ہیں اس کو سر سے لیکر پاؤں تک منور کر دیتی ہیں۔
چہرے میں تاثر
عاشق صادق کا چہرہ عشقِ الہٰی کے انوار سے منور ہوتا ہے۔ عام لوگوں کی نظریں جب اس کے چہرے پر پڑتی ہیں تو اُن کے دل کی گرہ کھل جاتی ہے۔
•    ایک مرتبہ کچھ ہندوؤں نے اسلام  قبول کیا۔ دوسرے لوگوں نے اس سے پوچھا کہ تو نے ایسا کیوں کیا؟ تو اس نے علامہ انور شاہ کشمیریؒ کے چہرے کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ یہ چہرہ کسی جھوٹے کا چہرہ نہیں ہوسکتا۔ چونکہ یہ مسلمان ہے، اس لیے ہم بھی مسلمان بن گئے ہیں۔
•    حضرت مرشد عالمؒ ایک مرتبہ حرم شریف میں تھے کہ آپ کی نظر حضرت مولانا قاری محمد طیب ؒ کے چہرے پر پڑی۔ آپؒ نے اُن سے ملاقات کی  اور پوچھا کہ قاری صاحب، آپ نے یہ نورانی چہرہ کیسے بنایا؟انہوں نے مسکرا کے کہا"یہ میں نے نہیں ،میرے شیخ نے بنایا ہے"
حدیثِ پاک میں اللہ  والوں کی یہ پہچان بتائی گئی ہے کہ اَلَّذِیْنَ اِذَا رَاُوْ ا ذُکِرَ اللہُ (وہ لوگ جنہیں تم دیکھو تو اللہ یاد آئے) گویا اللہ والوں کے چہروں پر اتنے انوار ہوتے ہیں کہ اُنہیں دیکھ کر اللہ یاد آتا ہے۔ قرآن مجید میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں ہے سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُودِۚ[سورة الفتح,٢٩](ان کے نشانی ان کے چہروں میں ہے سجدوں کے اثر سے) گویا سجدوں  کی عبادتیں چہرے پر نور بناکر سجادی جاتی ہیں۔
•    بعض صحابہ کرام  فرمایا کرتے تھےکہ جب نبی اکرم کی طبیعت بہت زیادہ  ناساز تھی اور حضرت ابوبکر  نماز کی امامت کررہے تھے تو ایک نماز کے بعد نبی اکرم ﷺ نے گھر کا دروازہ کھول کر مسجد میں دیکھا تو ہمیں  آپ کا چہرہ یوں لگا کَاَنَّہٗ وَرْقَۃُ مُصْحَفٍ (جیسے وہ قرآن کا ورق ہو) حضرت عطاء اللہ شاہ بخاریؒ فرمایا کرتے تھے  کہ جب غارِ ثور میں حضرت ابوبکر اپنی گود میں نبی اکرم ﷺ کا سرمبارک لے کر بیٹھے تھے اور ان کے چہرہ انور کو دیکھ رہے تھے تو فرماتے ہیں کہ مجھے اپنے تصور میں یوں لگتا ہے  کہ اے ابوبکرتیری گود رحل کی مانند ہے اور نبی اکرم ﷺ کا چہرہ انور قرآن کی مانند ہے اور اے ابوبکر  تو قاری ہے جو بیٹھا قرآن پڑھ رہا ہے۔
•    ایک مرتبہ حضرت خواجہ ابوالحسن خرقانی ؒ نے فرمایا کہ بایزید بسطامیؒ  کہ چہرے پر اتنا نور تھا کہ جو دیکھتا تھا اس کی گرہ کھل جاتی تھی۔ ایک صاحب نے اعتراض کیا"ابوجہل نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا تو اس کی گرہ نہ کھلی۔۔۔آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ بایزیدؒ بسطامی  کے چہرے کو دیکھ کرلوگوں کے دل کی گرہ کھل جاتی تھی۔حضرت خواجہ ابوالحسن خرقانی ؒ نے فرمایا ارے نامعقول ! ابو جہل نے نبی اکرمﷺ کے چہرہ انور کو دیکھا ہی کب تھا؟ وہ شخص  حیران ہوکر کہنے لگا کہ دیکھا کیوں  نہیں تھا؟فرمایا ابوجہل نے محمدؐ بن عبداللہ کو دیکھا تھا۔ ایک مرتبہ بھی محمد الرسول اللہ ﷺ سمجھ کر نگاہ ڈال لیتا تو ہدایت سے محروم نہ رہتا۔
•    حضرت عبداللہ بن سلام  یہود کے بڑے عالم تھے۔ نبی اکرمﷺ سے تین سوال پوچھنے کے لیے آئے مگر  چہرہ انور کو دیکھ کر اسلام قبول کرلیا۔ کسی نے کہا آپ آئے تو کسی اور مقصد سے تھے، یہ  کیا ہوا؟ نبی اکرمﷺ کے چہرہ انور کی طرف اشارہ کرکے کہا واللہ ہذا الوجہ لیس وجہ  الکذاب (اللہ کی قسم یہ چہرہ کسی جھوٹے کا نہیں ہوسکتا)
•    تابعین حضرات  میں سے بعض حکام نے اپنے لوگوں کو کفار کے پاس جزیہ وصوال کرنے کے لیے بھیجا تو انہوں نے انکار کردیا۔ پوچھا کہ کیا وجہ ہے ؟ ہمارے باپ دادا کو تو تم جزیہ دیتے تھے۔انہوں نے کہا ہاں! وہ لوگ آتے تھے تو ان کے کپڑے پھٹے پرانے ، ان کے بال بکھرے ہوئے، آنکھوں میں رات کی عبادتوں کی وجہ سے سرخ ڈورے پڑے ہوئے ہوتے تھے مگر چہروں پر اتنا رعب ہوتا تھا کہ ہم آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتے تھے۔تم میں وہ اوصاف نہیں، جاؤ! ہم تمہیں  کچھ نہیں دے سکتے۔(١)
٭٭٭
(١) ماخوذ از "عشقِ الٰہی" –پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مجددی دامت برکاتہم ص٢٣،٢٤،٢٥،تاریخِ اشاعت غیر مذکور
     

کیا علمائے اہلسنت دیوبند انگریز کے خیر خواہ تھے؟؟

"سربکف" میگزین 2-ستمبر، اکتوبر 2015
مولانا ساجد خان نقشبندی حفظہ اللہ


اعتراض نمبر۱:
مکالمۃ الصدرین ص۷ میں ہے کہ جمعیت علماء اسلام حکومت کی مالی امداد اور اس کی ایماء پر قائم ہوئی۔
جواب: بریلوی حضرات کا یہ دعوی سرے سے باطل ہے۔
(اولا): اس لئے کہ مکالمۃ الصدرین کوئی مستند کتاب نہیں اگر اس کتاب میں درج شدہ باتیں واقعۃ کوئی مکالمہ تھا تواس پر فریقین کے سربراہوں کے دستخط ہونے چاہئے تھے۔جب کہ اس پر نہ تو حضرت مولانا مدنی ؒ کے دستخط ہیں اور نہ حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ کے۔اصل حقیقت اس کی فقط اتنی ہے کہ نظریہ قومیت کے اختلاف کے دنوں میں جمعیۃ علماٗ ھند کے ارکان کا ایک وفد حضرت شیخ الاسلام شبیر احمد عثمانی صاحب ؒ کی تیمارداری کیلئے ان کے مکان پر حاضر ہوا۔اس ملاقات میں چند ایک اختلافی مسائل بھی زیر بحث آئے۔ارکان جمعیہ اور حضرت علامہ ؒ کے سوا اس مجلس میں کوئی اور شخص موجود نہ تھا ۔جمعیۃ علمائے ہند کے مخالفین کو جب اس ملاقات کا علم ہوا تو ان بزرگوں کا آپس میں مل بیٹھنا سخت ناگوار گزرا۔چنانچہ ان مخالفین نے بتوسط مولوی محمد طاہر صاحب حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی صاحب ؒ کی شخصیت کو استعمال کرکے ایسی صورت حال پیدا کردی کہ ان بزرگوں کو دوبارہ آپس میں مل بیٹھنے کا موقع ہی نہ مل سکے۔مولوی محمد طاہر صاحب نے کچھ باتیں تو حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ سے حاصل کیں اور بہت سی باتیں اپنی طرف سے ملا کر مکالمۃ الصدرین کے نام سے رسال طبع کرادیا۔اس رسالہ کے غیر مستند ہونے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ اس کے مرتب یعنی مولوی محمد طاہر بزرگوں کی اس ملاقات میں سرے سے شریک ہی نہیں تھے چنانچہ حضرت مدنی ؒ فرماتے ہیں کہ:
مگر خود غرض چالاک لوگوں نے نہ معلوم مولانا (عثمانی)کو کیا سمجھایا اور کس قسم کا پروپگینڈا کیا کہ کچھ عرصہ بعد یہ رسالہ مکالمۃ الصدرین شائع کردیا گیا۔جس میں نہ فریقین کے دستخط ہیں نہ فریق ثانی (اراکین جمعیہ)کو کوئی خبر دی گئی نہ ان میں سے کسی سے تصدیق کرائی گئی۔خود مولانا موصوف کے دستخط بھی نہیں بلکہ مولوی محمد طاہر صاحب کے دستخط ہیں جو اثنائے گفتگو میں موجود تک نہ تھے(کشف حقیقت ص ۸)
ارکان جمعیۃ کو جب اس رسالہ کی اشاعت کا علم ہوا تو عوام کے بے حد اصرار پر حضرت مولانا مدنی ؒ نے ۱۳۶۵ ؁ ھ بمطابق ۱۹۴۶ ؁ء میں کشف حقیقت کے نام سے اس کا جواب لکھاجو دلی پریس پرنٹنگ سے طبع ہوا(یہ کتاب آپ کو ہماری سائٹ اہلحق٭ پر بریلویوں کے رد میں کتابوں کے سیکشن میں مل جائے گی)جن میں انھوں نے اس بات کی صراحت فرمائی کہ رسالہ مذکورہ اس کے مرتب کے ذہن کی اختراع ہے جسے غلط طور پر علامہ عثمانی ؒ کی طرف منسوب کردیا گیا ہے چنانچہ حضرت علامہ مدنی ؒ فرماتے ہیں کہ :
مکالمہ مذکورہ مولوی محمد طاہر صاحب ہی کا اثر خامہ اور ان ہی کے فہم و خیالات کا نتیجہ ہے۔اور ہماری باہمی گفتگو کو صرف ان خیالات و افکار کا حیلہ بنایا گیا ہے اور اسی لئے یہ حقیقت سے دور اور کذب و افتراء کا مجموعہ ہے۔(کشف حقیقت ص ۹)
نیز فرماتے ہیں کہ اگر واقع میں یہ تمام تحریر مولانا شبیر احمد عثمانی کی مصدقہ تھی تو مولانا نے اس پر دستخط کیوں نہ فرمائے ؟اور اگر اس میں صداقت اور واقعیت تھی تو قبل اشاعت جمعیت کو دکھایا کیوں نہیں گیا۔(کشف حقیقت ص ۱۰)
یعنی حضرت علامہ عثمانی ؒ کا اس پر دستخط نہ کرنا ہی اس چیز کی دلیل ہے کہ یہ رسالہ ان کا مصدقہ نہیں بلکہ مخالفین نے ان بزرگوں کے درمیان مزید بعد پیدا کرنے کیلئے اس کی نسبت حجرت علامہ عثمانی ؒ کی طرف کردی۔چنانچہ حضرت مولانا مدنی ؒ اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :
چونکہ اس (مکالمۃ الصدرین)کی نسبت علامہ مولانا شبیر احمد صاحب عثمانی کی طرف کی گئی ہے اس لئے اس سے لوگوں کو بہت سے شبہات اور خلجانات پیدا ہوئے اور وہ ہماری طرف رجوع ہوئے۔دیکھنے سے معلوم ہوا کہ بلاشبہ اس میں اکذیب اور غلط بیانیاں ہیں کہ جن کو دیکھ کر ہماری حیرت کی کوئی انتہاء نہ رہی اور بغیر افسوس اور انا للہ و انا الیہ رجعون پڑھنے کے اور کوئی چارہ کار نظر نہ آیا(ایضا ص ۴)
ان حقائق سے صاف طاہر ہے کہ مکالمۃ الصدرین کوئی مستند اور مصدقہ کتاب نہیں یہ ایک غیر مستند کتاب ہے تو اس پر کسی دعوے کی بنیاد رکھنا ہی سرے سے غلط ہے میری تمام بریلوی حضرات سے گزارش ہے کہ خود کشف حقیقت کا مطالعہ کریں جو ہماری سائٹ سے فری میں ڈاؤنلوڈ کر سکتے ہیں انشاء اللہ آپ پر تاریخ کے کئی مخفی راز عیاں ہونگے۔
ثانیا: یہ بات مولانا حفظ الرحمن صاحب سے نقل کی گئی مکالمۃ الصدرین میں اور مولانا نے خود ان تمام باتوں کی تردید کی ہے کشف حقیقت میں اس تردید کی تفصیل موجود ہے جس میں سے کچھ عبارتیں ہم آئیندہ پیش کریں گے ۔پس جب کتاب غیر مستند اس کی راوی کی تردید موجود تو ایسے حوالے سے استدلال کرنا سوائے دل ماؤف٭ کو تسکین دینا نہیں تو اور کیا ہے۔
ثالثا: خود مکالمۃ الصدرین کے آگے والے صفحہ میں یہ عبارت موجود ہے کہ انگریز کی طرف سے یہ نوٹ لکھاگیا کہ
ایسے لوگوں یا انجمنوں پر حکومت کا روپیہ صرف کرنا بالکل بے کار ہے اس پر آئیندہ کیلئے امداد بند ہوگئی۔(مکالمۃ الصدرین،ص۸)
پس اگر جمعیت علمائے اسلام انگریز حکومت کی حمایت یافتہ تھی اور اس کی پشت پناہی حاصل تھی تو انگریز نے یہ حمایت اور یہ امداد بند کیوں کردی ۔۔ ؟؟؟اور کیوں یہ کہا کہ ایسے انجمنوں پر پیسہ لگانا فضول ہے۔
اس سے آپ حضرات ’’سابقہ دیوبندی کلین شیو‘‘ خلیل رانا صاحب کے دجل و فریب کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔
باقی رہا جمعیت علمائے ہند کا انگریز کے خلاف جدوجہد تو الحمد للہ اس پر اب تک پوری پوری کتابیں لکھی جاچکی ہیں اس جماعت کو ایسے اکابرین بھی ملے جنھوں نے اپنی آدھی سے زیادہ زندگیاں جیلوں میں گزار دیں میں یہاں صرف ایک حوالہ پیش کرتا ہوں:
جمعیت علمائے ہند کے ۱۹۲۰ کے اجلاس میں جو حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کی صدارت میں ہوا انگریز کے خلاف یہ فتوی صادر کیا گیا:
مسلمانوں کیلئے ایسی ملازمت جس میں دشمنان اسلام (انگریز)کی اعانت و امداد ہو اور اپنے بھائیوں کو قتل کرنا پڑے قطعا حرام ہیں۔
اس فتوے پر چار سو چوہتر علماء نے دستخط کئے اور اسی فتوے کے بعدتحریک ترک موالات شروع ہوئی ۱۹۲۱ میں جمعیت کا یہ فتوی ضبط کرلیا گیا مگر جمعیت نے قانون شکنی کرکے بار بار اس کو شائع کیا ۔اور اسی تحریک میں حضرت شیخ الہندرحمۃ اللہ علیہ اور مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ ’’اسیر مالٹا‘‘ ہوئے ۔ غور فرمائیں انگریز کی روٹیوں پر پلنے والے اس طرح ہوتے ہیں؟؟۔اگر یہ لوگ بھی انگریز کی جوتیاں چاٹنے والے ہوتے تو جیلیں آباد کرنے کے بجائے احمد رضاخان کی طرح ساری زندگی ’’بریلی ‘‘ کے ایک حجرے میں بیٹھ کر ہر اس تحریک پر کفر کا فتوی لگاتے جو انگریز کی مخالفت پر کمر بستہ ہو۔

اعتراض نمبر۲:
تبلیغی جماعت کو بھی ابتداء میں حاجی رشید احمد کے ذریعہ حکومت سے کچھ روپیہ ملتا۔مکالمۃ الصدرین،ص۸۔
جواب:اس سے بھی فریق مخاف کو کوئی فائدہ نہیں
اولا: اس لئے کہ مکالمۃ الصدرین کی حقیقت پہلے بیان ہوچکی ہے وہ غیر معتبر کتاب ہے لہٰذا اس پر کسی دعوے کی بنیاد رکھنا ہی درست نہیں ۔
ثانیا: یہ روایت بھی مولانا حفظ الرحمن کے حوالے سے ہے اور مولانا نے خود اس کی پرزور تردید کی ہے:
چنانچہ کشف حقیقت ص۴۲ میں یہ عنوان ہے مولانا حفظ الرحمن صاحب کا بیان اور پھر ص۴۴ میں مکالمۃ الصدرین کے حوالے سے لکھا کہ مولانا حفظ الرحمن صاحب نے کہا کہ مولا نا الیاس رحمۃ اللہ علیہ کی تبلیغی تحریک کو بھی ابتداء حکومت کی جانب سے بذریعہ حاجی رشید احمد صاحب کچھ روپیہ ملتا تھا پھر بند ہوگیا مکالمۃ الصدرین اس کا جواب حضرت حفظ الرحمن سیوہاروی ؒ ناظم جمعیۃ علماء ہند یہ دیتے ہیں :
وکفی باللہ شھیدااس کا ایک ایک حرف افتراء اور بہتان ہے میں نے ہر گز ہر گز یہ کلمات نہیں کہے اور نہ مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تبلیغی تحریک کے متعلق یہ بات کہی گئی ہے سبحانک ھذا بہتان عظیم۔بلکہ مرتب صاحب (مولوی محمد طاہر مسلم لیگی)نے اپنی روانی طبع سے اس کو گھڑ کر اس لئے میری جانب منسوب کرنا ضروری سمجھاکہ اس کے ذریعہ سے حضرت مولانا الیاس صاحب کی تحریک سے والہا نہ شغف رکھنے والے ان مخلصوں کو بھی جمعیۃ علماء ہند سے برہم اور متنفر کرنے کی ناکام سعی کریں جو جمعیۃ علماء ہند کے اکابر و رفقاء کار کے ساتھ بھی مخلصانہ عقیدت اور تعلق رکھتے ہیں اب یہ قارئین کرام کا اپنا فرض ہے کہ وہ اس تحریر کو صحیح قرار دیں جس کی بنیاد شرعی اور اختلافی احساسات کو نظر انداز کرکے محض جھوٹے پروپگینڈے پرقائم کی گئی ہے یا اس سلسلہ میں میری گزارش اور تردید پر یقین فرمائیں البتہ میں مرتب صاحب کی اس بے جا جسارت کے متعلق اس سے اس سے زیادہ اور کیا کہہ سکتا ہوں والی اللہ المشتکی واللہ بصیر بالعباد۔انتھی بلفظہ کشف حقیقت ص۴۴،۴۵۔
ایسی واضح اور صریح تردید کی موجودگی میں تبلیغی جماعت کو سرکار برطانیہ کا ہمدرد اور نمک خوار ثابت کرنا کہاں کاانصاف و دیانت ہے ؟سچ کہا
نور خدا ہے کفر کی حرکت پر خندہ زن
 پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
ثالثا: اس لئے کہ فریق مخالف نے عبارت نقل کرنے میں بھی دجل سے کام لیا ہے اور پوری عبارت نقل نہیں کی جواس طرح ہے کہ :
اس ضمن میں مولاناحفظ الرحمن صاحب نے کہا کہ مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو بھی ابتداء حکومت کی جانب سے بذریعہ حاجی رشید احمد کچھ روپیہ ملتا تھا۔پھر بند ہوگیا۔ص۸۔
خلیل رانا صاحب نے اپنے اعلحضرت اور دیگر اکابر کا روایتی طریقہ واردات اختیار کرتے ہوئے آخری خط کشیدہ جملہ حذف کردیا ہے یہ جملہ باقی رہتا اور حذف نہ کیا جاتا تو ہر قاری یہ سوچنے پر مجبور ہوتا کہ:
(۱) اگر تبلیغی جماعت گورنمنٹ کے مقاصد کیلئے استعمال ہورہی تھی تو یہ روپیہ بند کیوں کردیا گیا؟اس روپیہ کا بند ہوجانا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ تبلیغی جماعت گورنمنٹ کے مقاصد کیلئے استعمال نہ ہوسکی اور انگریز کواس کی توقع بھی نہ تھی ورنہ رقم کبھی بند نہ ہوتی رقم کابند ہوجانا اور بند کردینا ہی اس کی روشن دلیل ہے کہ تبلیغی جماعت انگریز کیلئے آلہ کار نہیں بنی اور بفضلہ تعالی پہلے سے اب جماعت تمام دنیا میں زیادہ عروج پر ہے اور ان ملکوں اور علاقوں میں بھی کام کررہی ہے جو انگریزوں کے سخت مخالف ہے۔
(۲) انگریز کچھ لوگوں اور بعض انجمنوں کواپنے جال میں پھنسانے کیلئے ابتداء کچھ رقمیں دیا کرتا تھا پھر بند کردیں۔۔چنانچہ مذکورہ بالا عبارت سے متصل ہی یہ عبارت بھی مذکور ہے کہ (ایک سرکاری ہندو افسر نے)گورنمنٹ کو نوٹ لکھا جس میں دکھلایا گیا کہ ایسے لوگوں یا انجمنوں پر حکومت کا روپیہ صرف کرنا بالکل بے کار ہے اس پر آئیندہ کیلئے امداد بند ہوگئی۔
اس سرکاری افسر کے بیان سے بالکل عیا ں ہوگیا کہ جن لوگوں اور انجمنوں کو جال میں پھنسانے کیلئے انگریز کچھ رقمیں دیا کرتا تھا وہ بند کردی گئی تھیں کیونکہ ان میں رقمیں صرف کرنا بالکل بے کار تھا اس لئے کہ ان سے انگریز کے حامی ہونے کی قطعا کوئی توقع نہ تھی ۔جو بزبان حال یوں گویا ہے
ہزار دام سے نکلاہوں کہ ایک جنبش سے
 جسے غرور ہو آئے کرے شکار مجھے
الفضل ما شھدت بہ الاعداء
تبلیغی جماعت کے متعلق بریلویوں کے روحانی پیشوا نظام الدین مرولوی صاحب فرماتے ہیں کہ:
تبلیغی جماعت کی کوششیں بے حد مخلصانہ ہیں لیکن اس کے نتائج خاطر خواہ برآمد نہیں ہورہے ہیں۔(ھو المعظم،ص۷۲)
اس کے نتائج خاطر خواہ کیسے ظاہر ہوں (بقول نظام الدین مرولوی صاحب کے) جبکہ بریلوی حضرات کی طرف سے اس کی مخالفت کی سرتوڑ کوششیں کی جارہی ہیں ان کے بستروں کو مسجدوں سے باہر پھینک دیا جاتا ہے خودتو کبھی گھروں سے نکلنے کی توفیق نہ ہو اور تبلیغی جماعت جنھوں نے لاکھوں انگریزوں کو مسلمان کیا پر انگریز کے ایجنٹ ہونے کا الزام لگایا جائے ان کووہابی کہہ کر بدنام کیا جائے۔
اعتراض نمبر ۳:
حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ کو ۶۰۰ روپے انگریز سے ملتے تھے ملاحظۃ مکالمۃ الصدرین اس امر کی تردید خود حضرت تھانوی صاحب بھی نہ کرسکے ملاحظہ ہوالاضافات الیومیہ ص ۶۹ ج۶۔
جواب:یہ حوالہ بھی فریق مخالف کیلئے سود مند نہیں اس لئے کہ
(اولا) مکالمۃ الصدرین کی حقیقت واضح کی جاچکی ہے ایسی غیر مستند کتاب پر کسی دعوے کی بنیاد رکھنا ہی جہالت ہے۔
(ثانیا): اگر بالفرض اس مکالمہ کو مصدقہ تسلیم کر بھی لیا جائے تو بھی بریلوی حضرات کا یہ دعوی کے مکالمہ الصدرین میں تسلیم کیا گیا ہے کہ مولانا تھانوی ؒ انگریز سے چھ سو روپے ماہوار لیا کرتے تھے سراسر دجل اور صریح افتراء ہے کیونکہ مکالمہ میں حضرت علامہ عثمانی ؒ کی اصل عبارت اس طرح منقول ہے فرماتے ہیں کہ:
عام دستور ہے کہ جب کوئی شخص کسی سیاسی جماعت یا تحریک کا مخالف ہو تو اس قسم کی باتیں اس کے حق میں مشتہر کی جاتی ہیں۔دیکھئے حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ ہمارے اور آپ کے مسلم بزرگ پیشوا تھے۔ان کے متعلق بعض لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ ان کو چھ سو روپے ماہوار حکومت کی جانب سے دئے جاتے تھے۔(مکالمۃ الصدرین ص ۹)
اس عبارت میں حضرت عثمانی ؒ صاف لفظوں میں اس الزام کو مخالفین کا سیاسی پروپگینڈا قرار دے رہے ہیں لیکن بریلوی حضرات کا دجل ملاحظہ فرمائیں کہ وہ پوری عبارت نقل کرنے کے بجائے صفحہ کو ایک مخصوص جگہ سے کاٹ کر پیش کرتے ہیں۔فالی اللہ المشتکی۔
(ثالثا): اگر مکالمہ کے حوالے بالفرض سے اس الزام کو درست بھی مان لیا جائے تو بھی اس کی کوئی اخلاقی حیثیت نہیں ہے۔کیونکہ خود حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے اس الزام کی تردید موجود ہے ۔چنانچہ جب حکیم الامت ؒ کو جب اس الزام کا علم ہوا تو بڑا حکیمانہ جواب دیافرمایا:
اگر چھ سو روپے گورنمنٹ سے پاتا ہوں تو طمع ہے خوف نہیں اور اگر طمع کا یہ عالم ہے تو تم نو سو روپے دے کر اپنے موافق کرلو۔اگر قبول کرلوں تو صحیح وگرنہ غلط۔(الاضافات الیومیہ ص ۶۹۸ ج ۴،بحوالہ مولانا اشرف علی تھانوی اور تحریک آزادی ص۵۴)۔

جبکہ اس کے مقابلے میں فریق مخالف کے اعلحضرت کی حکومت انگریز کیلئے وفاداری کا اقرار خود انگریزوں نے کیا ہے ملاحظ ہو:
The mashrik of gorakhpor and albashir usually took note the pro-government fatwas of Ahmed raza Khan.(Separatism among india Muslims,page 268(.
انگریز مورخ سر فرانسس رابنسن کی کتاب علماء فرنگی محل اینڈ اسلامی کلچر میں مندرجہ ذیل الفاظ میں احمد رضاخان کی خدمات کا اعتراف کیا گیا ہے:
The actions of One learned man ,the very influentional Ahmed Rada Khan (1855,1921) of barielly,present our conlusion yet more Clearly....at the same time he Support the colonial Government loudly and vigorousily through world warI,and through the khilafat Movement when he opposed mahatma Gnadhi allaince with tha nationalist movement and and non-Cooperation with the british.(ulam farange Mehal and Islamic culture page )
Khan ahmed rada of bareilly 37,37 & 47,58,67 and Support for the British 196(Index ,ulma farangi mehal and Islamic Culture page 263(
جبکہ اس کے برخلاف خود انگریز مورخین نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ ہمارے راستے میں سب سے سخت رکاوٹ دارالعلوم دیوبند تھا ملاحظہ ہو:
The most Vital School of Ulma in india is the second Half of the initeenth Century was that centerd upon Deoband,the Darul Uloom.(The Muslims or british India,byP.Hardy page 170(
اعلی حضرت اعلی سیرت کے صفحہ ۳۳ اور اسی طرح حیات اعلی حضرت میں یہ بات موجود ہے کہ مولوی احمد رضاخان کے دادا نے گورنمنٹ کی پولیٹیکل خدمات انجام دی جس کے عوض ان کو آٹھ گاؤں جاگیر میں ملے اور ان کے ساتھ آٹھ سو فوجیوں کی بٹالین ہواکرتی تھی۔

شاہ عبد العزیز ؒ کے فتوے کے خلاف کے ہندوستان دارالحرب ہے اعلی حضرت نے ہندوستان کے دارلسلام ہونے کا فتوی دیا اس لئے کہ دارالسلام میں جہاد جائز نہیں۔اس کے علاوہ اس مکتبہ فکر نے آزادی کے ہر متوالے پر کفر کے فتوے لگا کر عوام کوان سے بد ظن کرنے کی کوشش کی۔۱۹۱۴ میں الدلائل القاہرہ علی الکفرۃ النیاشرہ کے نام سے فتوی شائع ہوا جس میں خان صاحب کے علاوہ کئی بریلوی علمائے کے تصدیقات موجود تھے جس میں قائد اعظم کو کافر کہا گیا اور مسلم لیگ سے ہر قسم کے تعاون کو حرام قرار دیا گیا۔ان کے مولوی حشمت علی نے مسلم لیگ کی زریں بخیہ دری کے نام سے کتاب لکھی جس میں قائد اعظم کو کافر قرار دیا گیا۔مولوی مصطفی رضاخان نے اس زمانے میں مسلمانوں کے دلوں سے کعبہ و مدینہ کی محبت نکالنے کیلئے حج کے ساقط ہونے کا فتوی دیا اور آج بھی بریلوی برملا امام کعبہ اور مدینہ کو کافر لکھتے اور کہتے ہیں ٭مصطفی رضاخان نے ایک کتاب لکھی اس زمانہ میں جو اب نایاب ہے رسالۃ الامارہ والجہاد جس میں انگریز سے جہاد کو حرام قرار دیا گیا تھا۔ یہ چند مثالیں میں نے دے دی ہے ورنہ ان کی غداریوں سے تاریخ کے صفحات آج بھی بھرے پڑے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کے تاریخ آزادی میں کہیں بھی اس گروہ کا نام و نشان نہیں جس کا اعتراف خود مولوی احمد رضاخان کے سوانح نگار کرتے ہیں کہ اور اس کا الزام مورخین پر ڈالتے ہیں کہ انھوں نے محض تعصب کی وجہ سے ہمارے اعلحضرت کا ذکر کہیں نہیں کیا اور وہابی (یعنی دیوبند) کی خدمات سے ساری تاریخ کو بھر دیا۔
حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظات کے حوالے سے بھی آپ نے اپنی ’’مخصوص رضاخانیت‘‘ کامظاہرہ کیا ہے پوری عبارت اس طرح ہے :
ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ تحریکات کے زمانہ میں میرے متعلق یہ مشہور کیا گیا تھا کہ چھ سو روپیہ ماہانہ گورنمنٹ سے پاتا ہے ایک شخص نے ایک ایسے ہی مدعی سے کہا کہ اس سے یہ تو معلوم ہوگیا کہ یہ خوف سے متاثر نہیں لیکن طمع سے متاثر ہے بلکہ خوف سے تو گورنمنٹ ہی متاثر ہوئی چنانچہ تمھیں اور ہمیں سو روپیہ نہیں دیتی تو اب اس کا امتحان یہ ہے کہ تم نو سو روپے دیکر اپنی موافق فتوی لے لو اگر وہ قبول کرلے تو وہ بات صحیح ہے ورنہ وہ بھی جھوٹ ۔(الاضافات الیومیہ،ج۶،ص۱۰۳،ملفوظ نمبر،۸۸)
غور فرمائیں کس حکیمانہ اور بلیغ انداز میں حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اس الزام کی تردید کررہے ہیں مگر خلیل رانا صاحب کہتے ہیں کہ نہیں وہ تو تردید نہیں بلکہ تصدیق کررہے ہیں۔۔تف ہے ایسی تحقیق پر اور ایسی دیانت پر...ہم بار بار خلیل رانا صاحب کو یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ حوالہ دیتے ہوئے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ان حوالہ جات کو کل کو کوئی چیک بھی کرسکتا ہے ۔۔
اعتراض: تھا کون جو انگریز کو کہتا رحمت؟ کس نے کیا گوروں کے وظیفے پر گزارا
جواب: ارے وہی جس کی وفاداری کے گن گاتے انگریز بھی بھائی وہی جن کو سیر کرائی جاتی ہے پینٹاگون کی آج بھی
(روزنامہ وقت لاہور ۱۰ مئی ۲۰۱۰ ؁ء کی خبر کے مطابق بریلوی علماء و مشائخ کو انتہا ء پسندی کے خلاف پینٹاگون میں تربیت دی جائے گی۔)



اعتراض نمبر ۴:
 مولانا رشید احمد گنگوہی اور قاسم نانوتوی صاحب اپنی مہربان سرکار کے دلی خیر خواہ تھے ۔ملاحظہ ہو تذکرۃ الرشید ج۱ص۷۹۔
جواب:فریق مخالف کا یہ حوالہ بھی بالکل سود مند نہیں اس لئے کہ انھوں نے تو یہ ثابت کرنا تھا کہ حضرت گنگوہی اور حضرت حجۃ الاسلام رحمہمااللہ انگریز کے وفادار تھے اور اس کے خلاف انھوں نے کچھ نہ کہا مذکورہ بالا عبارت مولف تذکرۃ الرشید کی ہے جس کے ذمہ دار وہ خود ہیں کسی اور کی عبارت کو لیکر کسی اور پر فٹ کرنا کہاں کا انصاف ہے۔۔؟؟آپ کا یہ ثابت کرنا کہ ان حضرا ت نے انگریز کی مخالف نہیں کہ قطعا باطل اور مردود ہے جبکہ خود اسی تذکرۃ الرشید میں یہ حوالے بھی موجود ہیں کہ:
(۱) تینوں حضرات (حاجی امداد اللہ صاحب ،حضرت مولانا قاسم نانوتوی ؒ اور مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ )کے نام چو نکہ وارنٹ گرفتاری جاری ہوچکے ہیں اور گرفتار کنندہ کیلئے صلہ (انعام) تجویز ہوچکا تھا اس لئے لوگ تلاش میں ساعی اور حراست کی تگ و دو میں پھرتے تھے۔(تذکرۃ الرشید ،ج۱،ص۷۷)
(۲) روش (پولیس)رامپور پہنچی اور حضرت امام ربانی مولانا رشید احمد صاحب قدس سرہ حکیم ضیاء الدین صاحب کے مکان سے گرفتار ہوئے تخمینے سے یہ زمانہ۱۲۷۵ ؁ ھ کا ختم یا ۱۲۷۶ کا شروع سال ہے (الی قولہ)آپ کے چاروں طرف محاٖفظ پہرہ دار تعنیات کردئے گئے اور بند بیل (بیل گاڑی)میں آپ کو سوار کرکے سہارنپور چلتا کردیا گیا (الی قولہ)حضرت مولانا سہارنوپر پہنچتے ہی جیل خانہ بھیج دئے گئے اور حوالات میں بند ہوکر جنگی پہرہ کی نگرانی میں دے دئے گئے۔(تذکرۃ الرشید ،ج۱،ص۸۲)
(۳) حضرت مولانا تین یا چار یوم کال کوٹھری میں اور پندرہ دن جیل خانہ کی حوالات میں قید رہے تحقیقات پر تحقیقات اور پیش پر پیشی ہوتی رہی آخر عدالت سے حکم ہوا کہ تھانہ بھون کا قصہ ہے اس لئے مظفر نگر منتقل کیا جائے چنانچہ امام ربانی جنگی حراست اور ننگی تلواروں کے پہرہ میں براہ دیوبند دو پڑاؤ کرکے پاپیادہ مظفر نگر لائے گئے اور اب یہاں کے جیل خانہ میں بند کردئے گئے ۔(الی قولہ)مظفر نگر کے جیل خانہ میں حضرت کوکم و بیش چھ ماہ رہنے کا اتفاق ہوا اس اثناء میںآپ کی استقامت ،جوانمردی ،استقلال کی پختگی ،توکل،رضا،تدین،اتقاء،شجاعت،ہمت،اور سب پر طرہ حق تعالی کی اطاعت و محبت جو آپ کی رگ رگ میں سرایت کئے ہوئے تھی اس درجہ حیرت انگیز ثابت ہوئیں کہ جن کی نظیر نہیں نظر ملتی۔(تذکرۃ الرشید،ج۱،ص۸۴)
(۴) حضرت امام ربانی قطب الارشاد مولانا رشید احمد صاحب قدس سرہ کو اس سلسلہ میں امتحان کا بڑا مرحلہ طے کرنا تھا اس لئے گرفتار ہوئے اور چھ مہینے حوالہ جات میں بھی رہے ۔(تذکرۃ الرشید،ج۱،ص۷۹)
ان تمام واضح حوالوں سے حضرت مولانا گنگوہی اور ان کے رفقاء کا گرفتار ہونا جنگی حراست میں رہنا حوالہ جات اور کال کوٹھریوں کا آباد کرنا اور قید و بند کی صعوبتیں اٹھانا روز روشن کی طرح واضح ہے اور ہمارا مدعی بھی یہی ہے۔غرض ان کو انگریز کا وفادار ثابت کرنا تاریخ کو مسخ کرنا ہے اور خلیل رانا صاحب نے جو مجمل اور مبہم حوالہ دیا ہے اس سے انکا مدعی ہرگز ثابت نہیں ہوسکتا یہ مجمل عبارت صرف اس کا مصداق ہے
تم جو دیتے ہو نوشتہ وہ نوشتہ کیا ہے
جس میں ایک حرف وفا بھی کہیں مذکور نہیں
لفظ ’’سرکار‘‘ کا اطلاق رب تعالی (حقیقی سرکار) پر بھی ہوتا ہے
اصل میں فریق مخالف کو اس عبارت میں لفظ ’’مہربان سرکار‘‘ سے مغالطہ ہوا ہے حالانکہ یہ لفظ دیگر متعدد معنوں کے علاوہ مالک حقیقی آقا اور ولی نعمت پر بھی صادق آتا ہے چنانچہ فرہنگ آصفیہ ج۳ ص ۷۰ میں سرکار کے معنی سردار،میر،پیشوا،رئیس ،آقا،ولی نعمت اور والی وغیرہ کے کئے گئے ہیں۔
اور پھر ’’مولف تذکرۃ الرشید‘‘جس طرح لفظ سرکار کا انگریز پر اطلاق کرتے ہیں اسی طرح ’’اللہ تعالی ‘‘ پر بھی اس کا اطلاق کرتے ہیں۔چنانچہ وہ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے سہارنپور جیل سے مظفر نگر منتقل کرنے کے سلسلہ میں لکھتے ہیں:
سنا ہے کہ دیوبند کے قریب سے گذرنے پرمولانا قاسم العلوم نظر براہ راستہ سے کچھ ہٹ کر بغرض ملاقات پہلے سے آکھڑے ہوئے تھے گو خود بھی مخدوش حالت میں تھے مگر بیتابئ شوق نے اس وقت چھپنے نہ دیا اور دور ہی دور سے سلام ہوئے ایک نے دوسرے کو دیکھا مسکرائے اور اشاروں ہی اشاروں میں خدائے تعالی کے وہ وعدے یاد دلائے جو سچے سرکاری خیرخواہوں اور امتحانی مصیبتوں پر صبر و استقلال کرنے والوں کیلئے انجام کار ودیعت رکھے گئے ہیں۔(تذکرۃ الرشید ،ج۱،ص۸۴)
بالکل واضح امر ہے کہ یہ وعدے اللہ تعالی کے واللہ مع الصبرین ،و ان جندنا لھم الغلبون ،انا لننصررسلنا والذین امنوافی الحیوۃ الدنیا اور فان حزب اللہ ھم الغلبون وغیرہ کلمات جو قرآن کریم میں موجود ہیں ۔۔سچی سرکار ،آقائے حقیقی اور مالک الملک کے مخلص بندوں کیلئے ہیں جو امتحان میں کامیاب ہوتے ہیں ۔یہاں سرکار کے لفظ سے اللہ تعالی ہی کی ذات مقدسہ مراد ہے۔

اعتراض نمبر ۵:
حافظ ضامن ،قاسم نانوتوی ،رشید گنگوہی انگریز کی حمایت میں لڑے اور اور حافظ ضامن ’’شہید‘‘ ہوگئے۔تذکرۃ الرشید،ج۱،ص۷۴،۷۵


جواب: لاحول ولا قوۃ الا باللہ ۔۔خلیل رانا صاحب اتنا صریح دھوکہ ۔۔ہم نے یہ صفحہ بار بار چیک کیااور کہیں ہمیں یہ عبارت نہیں ملی ٭کہ حافظ ضامن صاحب انگریز کی حمایت میں لڑتے ہوئے شہید ہوئے تاریخ کاادنی طالب علم بھی جانتا ہے کہ ان کی شہادت شاملی کے میدان میں انگریز کے خلاف لڑتے ہوئے ہوئی۔۔مگر آپ کس طرح خدا خوفی سے بے پرواہ ہوکر جھوٹ پر جھوٹ بولے جارہے ہیں۔۔جن صفحات کا حوالہ آپ نے دیا ہے اس میں بھی اسی شاملی کے معرکہ کا ذکر ہورہا ہے ۔آپ میں اگر ذرا بھی انصاف ودیانت کامادہ ہے تو جو عبارت آپ نے نقل کی ہے اس کتاب کا اصل عکسی حوالہ دے کر بعینہ ثابت کریں ورنہ
لعنۃ اللہ علی الکاذبین  کا وظیفہ پڑھ کر اپنے اوپردم کریں۔
۱۸۵۷ کی جنگ آزادی حضرت حاجی امداداللہ رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں لڑی گئی اور شاملی کے میدان پر قبضہ کرلیا گیا جو ایک ماہ تک رہا ۔
* حاجی امدااللہ صاحب کو امام ،مولانا قاسم نانوتوی ؒ کو سپہ سالار افواج مولانا رشیداحمد گنگوہی ؒ کو قاضی ،مولانا محمد منیر نانوتوی ؒ اور حافظ محمد ضامن ؒ کو میمنہ اور میسرہ کے افسر مقرر کئے گئے۔(سوانح قاسمی ،ج۲،ص۱۲۷)
* اس معرکہ میں حافظ محمد ضامن شید ہوئے حضرت حاجی صاحب اور مولانا رحمت اللہ کیرانوی مکہ مکرمہ کی طرف حجرت کرگئے حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ روپوش ہوگئے اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ گرفتار کرلئے گئے۔مولانا گنگوہی ؒ کو سہارنپور کی جیل میں قید کردیا گیا ۔تین چار یوم کال کوٹھری میں رہے اور پندرہ دن جیل خانہ کی حوالات میں قید رہے ۔آخر عدالت سے حکم ہوا تھانہ بھون کاقصہ ہے اس لئے مظفر نگر منتقل کیا جائے ۔چنانچہ جنگی حراست اور ننگی تلواروں کے پہرے میں براستہ دیوبند چند پڑاؤ کرکے پاپیادہ مظفر نگر لائے گئے اور حوالات کے اندر بند کرئے گئے چھ ماہ قید رہے آخر چھوڑ دئے گئے۔(ایسٹ انڈیا کمپنی کے باغی علماء ،ص۱۱۳،از مفتی انتظام اللہ شہابی)۔

جناب پروفیسر محمد ایو ب صاحب قادری مرحوم لکھتے ہیں کہ
* اسی (۱۸۵۷ کی جنگ آزادی ) میں حافظ محمد ضامن ؒ صاحب کو گولی لگی اور وہ شہید ہوگئے آخر میں مجاہدین کے پاؤں بھی اکھڑ گئے انگریزوں نے قبضہ کرنے کے بعد تھانہ بھون کی اینٹ سے اینٹ بجادی ۔(جنگ آزادی ،ص۱۸۱)
نوٹ:پروفیسر ایوب قادری بریلوی حضرات کے ہاں بھی مستند مانے جاتے ہیں عبد الحکیم شرف قادری نے اپنی کتاب پر ان سے تقریظ لکھوائی اوران کے انتقال پر اظہار غم بھی کیا۔
غرض یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ حضرت حافظ ضامن صاحب انگریز کے خلاف لڑتے ہوئے شاملی کے میدان میں شہید ہوئے مگر فریق مخالف کا سوء ظن دیوبند دشمنی ملاحظہ ہو کہ جھوٹ پر جھوٹ بولتے ہوئے بھی کچھ حیاء نہیں۔ہمیں تو یوں لگتا ہے کہ خلیل رانا صاحب یہ تمام حوالے کسی بریلوی ملاں کے رسالے سے ہی کاپی پیسٹ کرتے ہیں اس لئے کہ ظاہر ہے کہ بندہ ایک دو حوالوں میں چلو دھوکہ دہی کردے مگر ان کا ہر حوالہ دجل و فریب کا شاہکار ہوتا ہے ۔پہلے تو ہم ان کوان کی داڑھی کا واسطہ دیتے کہ چہرے پرسجائی اس سنت رسول ﷺ سے ہی شرما جاؤ مگر ان کی تو داڑھی بھی نہیں واسطہ دیں بھی تو کس کا...؟؟؟
اب آخر میں ہم فریق مخالف سے سوال کرتے ہیں کہ شاہ صاحب اور انکی تحریک کے لوگ تو تھے ہی بقول آپ کے وہا بی تھے، معاذاللہ ،اللہ و رسولﷺ اور تمام مسلمانوں کے دشمن تھے ، اسلام کے بد خواہ تھے مگر آپ کے روحانی دادا حضور مولوی نقی علی۱۸۵۷ء ؁ کی جنگ آزادی میں کہاں تھے ؟ انکو بھی چھوڑئے آپکے روحانی ابا حضور مولوی احمد رضاخان جو بزعم خویش پورے ہندوستان میں واحد مسلمان اور اسلام کے خیر خواہ تھے، انہوں نے انگریز کے خلاف جہاد کے کتنے فتوے دیے۔؟؟؟؟؟؟؟
٭٭٭

     

سرمایہ

"سربکف" میگزین 1-جولائی،اگست 2015
  اکبرؔ الٰہ بادی
 
سنا کہ چند مسلمان جمع تھے یکجا
خدا پرست، خوش اخلاق اور بلند نگاہ
کہا کِسی نے یہ اُن سے کہ یہ تو بتلاؤ
تمہاری عزت و وقعت کا کس طرح ہے نباہ
نظر کرو طرفِ اقتدارِ اہلِ فرنگ
کہ اُن کے قبضہ میں ہے ملک و مال و گنج و سپاہ
انھیں کا سکہ ہے جاری یہاں سے لندن تک
انھیں کی زیرِ نگیں ہے ہر اک سفید و سیاہ
کلیں بنائی ہیں وہ وہ کہ دیکھ کر جن کو
زبانِ خلق سے بے ساختہ نکلتی ہے واہ!
تمہارے پاس بھی کچھ ہے کہ جس پہ تُم کو ہے ناز؟
کہا انہوں نے کہ ہاں لا الٰہ اِلا اللہ

     

مقام

"سربکف" میگزین 1-جولائی،اگست 2015

                علامہ اقبال ؒ
لا پھر اک بار وہی بادہ و جام اے ساقی
ہاتھ آ جائے مجھے میرا مقام اے ساقی!
تین سو سال سے ہیں ہند کے میخانے بند
اب مناسب ہے ترا فیض ہو عام اے ساقی
مری مینائے غزل میں تھی ذرا سی باقی
شیخ کہتا ہے کہ ہے یہ بھی حرام اے ساقی
شیر مردوں سے ہوا بیشۂ تحقیق تہی
رہ گئے صوفی و ملا کے غلام اے ساقی
عشق کی تیغ جگر دار اڑا لی کس نے
علم کے ہاتھ میں خالی ہے نیام اے ساقی
سینہ روشن ہو تو ہے سوز سخن عین حیات
ہو نہ روشن ، تو سخن مرگ دوام اے ساقی
تو مری رات کو مہتاب سے محروم نہ رکھ
ترے پیمانے میں ہے ماہ تمام اے ساقی!
     

ادبی منافقت

"سربکف" میگزین 1-جولائی،اگست 2015
عالم نقوی

یہ بحث بہت پرانی ہے کہ ادب برائے زندگی ہو یا محض ۔ برائے شعر گفتن۔ اور اگر چہ یہ سوال کسی دل جلے ہی نے کیا ہے کہ شعر گفتن چہ ضرور؟ لیکن اس کے مختلف و النّوع جوابات سے دفتر کے دفتر بھرے پڑے ہیں۔
فضیل جعفری افسانوں کے مجموعے’’شیر آہو خانہ‘‘ میں اس کے خالق قمر احسن اعظمی کے اسلوب کا ذکر کرتے ہوئے یہ تأثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ’’گردو پیش کے حالات اور مسائل کی عکاسی اپنے زاویۂ نگاہ سے بلکہ خالصتاًاپنی مرضی سے کرنا چاہیے‘‘ اور عام قاری کے رد عمل کی پروا ہ نہ کرنی چاہیے۔ یایہ کہ ’’شاعر یا ادیب کے لیے اپنے ہر تجربے، ہر جذبے یا ہر احساس کی توضیح مناسب نہیں‘‘ ۔ اور وہ اس کی توجیح یہ پیش کرتے ہیں کہ۔ ’’ جو شخص دوسروں سے الگ اپنے لیے ایک راستہ بنانا چاہتا ہے اور اپنی ایک منفرد شناخت قائم کرنا چاہتا ہے اسے عام قاریوں کی طرف سے ملنے والی ناپسندیدگی کی قیمت تو چکانی ہی پڑے گی۔(1)
جہاں تک اپنی راہ الگ بنانے اور اپنی شناخت قائم کرنے کی بات ہے تو اس میں کسی کو اعتراض نہیں ہو سکتا لیکن، کہیں اس کلمۂ حق کا استعمال باطل کے لیے تو نہیں ہو رہا ہے؟
کچھ لوگوں نے ، جو اس بحث میں پڑنا ہی نہیں چاہتے،گریز کی ایک نئی راہ نکالی ہے۔ مثلاً عبد الاحدسازؔ اپنے مجموعۂ کلام’’خموشی بول اٹھی ہے‘‘ کے دیباچے میں لکھتے ہیں کہ ۔ ’’جدید شاعری جسے اب عصری شاعری کہنا زیادہ مناسب ہے اپنے دائرہ سفر کی ایک بڑی قوس پوری کرکے متوازن ہو چلی ہے‘‘(2)اس بیان میں وہ یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ ادھر انحراف تھا۔ مگر فوراً ہی صفائی بھی دیتے ہیں کہ اب وہ راہ راست پر آلگی ہے۔
لیکن، ہم ایک اور سوال اٹھانا چاہتے ہیں۔ اور وہ یہ کہ ادیب و شاعر کے بے حسن ،خیر اور صداقت پر مشتمل جوہر انسانیت کا حامل انسان ہونا بھی ضروری ہے یا نہیں؟ کیا بڑا ادب یا ’ادب عالیہ اور آفاقی شعر صرف اس لیے ہوتا ہے کہ اس پر عالمانہ اور فلسفیانہ بحثیں کی جائیں یا اس کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیے جائیں اور بس؟ قاری یا سامع کی ذمہ داری ختم ؟ اس بڑے ادیب ، بڑے شاعر یا اس کے ’شاہکار‘ کا حق ادا ہوگیا؟
رگھوپتی سہائے فراقؔ بیسویں صدی کے ایک بہت بڑے شاعر تھے قمر احسن کے لایعنی و بے معنی افسانوں کا دفاع کرنے والے نقاد تو انہیں میرؔ و غالبؔ کے ہم پلّہ شاعر قرار دیتے ہیں۔ وہ فراقؔ ۔ہم جنسی کے مریض تھے۔ (اب جن کے نزدیک ہم جنسی کوئی مرض نہیں بلکہ محض ایک Normal Sexual Manifestationہے ،سرَ دست وہ ہمارے مخاطب بھی نہیں ہیں)یا ۔ ایک اور بڑے شاعر تھے فیض احمد فیضؔ ۔ ان کی حسن پرستی (افلاطونی یا تصوفانہ(؟)نہیں) بلکہ گوشت پوست کے حسینوں کی پرستش کا یہ حال تھا کہ دوستوں کی بیویاں بھی ان کے تصرف سے نہ بچتی تھیں۔ یہاں تک کہ جب وہ مرے تو ان کی ایک فین(Fan)نے (جو خیر سے باشوہر بھی ہیں)اپنے اور اس عظیم شاعر کے درمیان ہونے والی خط و کتابت باقاعدہ کتابی صورت میں شایع کروادی، جس میں ’’معاملات‘‘ کا وہ بیان بھی شامل ہے جو نظم میں کالی داس سے لے کر شعرائے اودھ کی مثنویات سے ہوتے ہوئے کمار پاشی اور میراجی تک اور نثر میں الف لیلیٰ سے لے کر ڈی ایچ لارنس کی لیڈی چیٹرلیز لورLady Chatterley\'s Loverاور قاضی عبد الستار کی ’حضرت جان‘ سے ہوتے ہوئے منٹوؔ اور عصمت تک کم یا زیادہ ، تھوڑا یا بہت، پوشیدہ یا علانیہ، ہر جگہ موجود ہے۔ یقین نہ آئے تو محترمہ سرفراز اقبال کی تالیف کردہ کتاب ’دامن یوسف‘ اٹھا کے دیکھ لیجئے، بقول ’خامہ بگوش‘ (مشفق خواجہ مرحوم) ان خطوں میں کیا کچھ ہوگا، ذیل کے اقتباس سے اس کا اندازہ بآسانی لگا یا جاسکتا ہے:
’’جو تم نے لکھا ہے، کیفیت اپنی بھی کچھ ایسی ہی ہے، یعنی جہاں تک بدعادتوں کا تعلق ہے، تمہاری عادت ہمیں کچھ اتنی پڑچکی ہے کہ آنکھ کھلتے ہی’’صبا کے ہاتھ میں نرمی ہے ان کے ہاتھوں کی ‘ ‘ والا مضمون ذہن میں آتا ہے۔ (ص61)‘‘
بیسویں صدی میں ایک اور بڑے شاعر تھے جون ایلیا، جو اس مسئلے میں گرفتار تھے کہ اگر ’’انسانی ناف کے اوپر بالوں کی لکیر نہ پائی جاتی تو آخر کس نظامیت بدنی کو نقصان پہنچ جاتا؟‘‘ 90کے دہے میں جب ان کا مجموعۂ کلام ’’شاید‘‘ شایع ہو اتھا جس کے دیباچے میں انھوں نے مذکورہ اعتراض فرمایا ہے اس وقت وہ ماشاء اللہ ایک عدد جرنلسٹ اور کالم نگار بیوی ’زاہدہ حنا‘اور کچھ جوان بچوں کے باپ تھے۔ بعد میں زاہدہ حنا نے ان سے طلاق لے لی اور اب تو جون ایلیا بھی دنیا سے رخصت ہو کر اسی خالق حقیقی کے پاس پہنچ چکے ہیں جس کے وہ شاکی تھے ۔
شاعر بزرگ مذکور نے ’شاید‘ کے دیباچہ میں لکھا ہے کہ’’میں نے اپنی بعض محبوبات کی پنڈلیوں پر بالوں کی جھلک دیکھی ہے اور بعض کی پنڈلیاں بالکل صاف پائی ہیں۔ بعض محبوبات کا (خیال رہے کہ دونوں مقام پر صیغۂ جمع ارشاد ہوا ہے) پیالۂ ناف گہرا پایا ہے اور بعض کا اُتھلا۔ میں شاعر، عاشق اور معشوق کے طورپر (یہ معشوق ہونا، کہیں ان کی کسی اور’ ’خصوصیت‘‘ کا اعتراف تو نہیں؟)ان مظاہر کی توجیح کرنے کا قطعاً ذمہ دار نہیں ہوں۔ مگر ایک سوچنے والے غیر جذباتی فرد کے طورپر سوال کرنے کا حق رکھتا ہوں کہ ایسا کیوں ہے؟ اس’’بے نظامی‘‘ کوکس نظام کا نتیجہ قرار دیا جائے؟‘‘(3)
یہ اور بات ہے کہ دنیا کے تمام سائنسدانوں کا (جو شاعر بے شک نہیں تھے) اس بات پر اتفاق ہے کہ اس کائنات کے حقیر ترین ذرّے ایٹم سے لے کر نظام شمسی تک اور ہماری کہکشاں سے (کہ ہمارا نظام شمسی جس کا ایک معمولی سا حصہ ہے) خلاے بسیط کی محدود وسعتوں تک پھیلے ہوئے معلوم و نا معلوم اجرامِ فلکی تک ایک حیرت انگیز ’’نظام ‘‘ یا ’’نظم و انتظام‘‘ پایا جاتا ہے کہ جس میں ایک سکنڈ کے کروڑویں حصّے کا فرق بھی اس پورے نظام کو تہ و بالا کر سکتا ہے!
جو ن ایلیا ایک طرف اپنے ’عالمِ و فلسفی ‘ ہونے کا دعویدار تھے اور دوسری طرف ’یقینیات ‘ سے محرومی کا شکوہ بھی کرتے تھے۔ وہ فرماتے ہیں۔ ’’ یہ کائنات ایک واقعہ ہے جو عظیم الشان پیمانے پر متصلاً پیش آرہا ہے۔ وہ شے جو زمانی اور مکانی طورپر واقع نہ ہو یا پیش نہ آئے غیر موجود ہوتی ہے۔ خدا زمانی یا مکانی طورپر واقع نہیں یا پیش نہیں آتا ، اس لیے وہ غیر موجود ہے‘‘(4)انھیں یہ مسئلہ پریشان کرتا ہے کہ ’’کائنات کی کوئی غایت ہے یا نہیں؟ ارسطو یا ہٹلر کے پیدا ہونے کی آخری کیا غایت تھی، اگر ہمالیہ شمال کے بجائے جنوب میں واقع ہوتا تو اس میں کیا استحالہ تھا‘‘(١)(5)
یہ پریشاں خیالی اور ژولیدہ فکری ثبوت اس بات کا ہے کہ کائنات پر غور کرتے ہوئے انھوں نے اپنے سمندذہن و توَسنِ عقل کو حکمت کی لگام کے ساتھ آزاد نہیں چھوڑا بلکہ محض چند ’انسان ساختہ‘ فلسفوں کے مطالع تک خود کو محدود رکھا اور کیا فلسفہ؟ جو خود ایک بہت بڑے فلسفی کے نزدیک ’’ ہمبگ‘‘ Humbugہے تشکیک کی وادی میں بھٹکنے کے باوجود اُس فلسفۂ حیات و کائنات سے وہ قصداً گریزاں رہے جس کے مطالعے اور اس پر غور فکر سے عین ممکن تھا کہ وہ ’’یقینیات‘‘ سے محروم ہونے کے بجائے ’اہل یقین‘ میں شامل ہو جاتے کیونکہ قرآن ہانکے پکارے کہہ رہا ہے کہ ’’ بے شک آسمان و زمین کی خلقت میں اور لیل و نہار کے اختلاف میں ارباب عقل کے لیے نشانیاں موجود ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جو ہر وقت خواہ کھڑے ہوئے ہوں یا بیٹھے ہوں یا پہلو کے بھل لیٹے ہوئے ہوں۔ آسمان و زمین کی خلقت میں غور فکر کرتے رہتے ہیں اور (اس نتیجے پر پہنچتے ہیں) کہ رَبَّناَ ماَخَلَقْتَ ھٰذا باطِلاًپالنے والے تونے ان تمام اشیا کو بے کار نہیں خلق کیا ہے(آل عمران190.91)
حقیقت یہ ہے کہ ’’نظامیت بدلنی‘‘ اور کائنات میں بے نظمی کا شکوہ کرنے والے یہ لوگ بھی بیکار نہیں خلق  (١)جب انسان خود کو "بحمد اللہ" کے بغیر "عقلمند" سمجھنے لگتا ہے، اور اللہ عزوجل   پر سے اس کی نگاہ ہٹ جاتی ہے تو اُس سے یوں ہی "عقلمندیاں" سرزد ہوتی ہیں۔ (مدیر)
کیے گئے ہیں۔ بلکہ ان جیسے لوگ گروہ’’ یعقلون‘‘ کے لیے نمونۂ عبرت ہیں کہ دیکھو اور غور کرو کہ جب عقل کے شہ زور گھوڑے کے منھ پر’حکمت‘ کی لگام نہیں دی جاتی تو معلم الملکوت سے ابلیس بننے میں زیادہ دیر نہیں لگتی۔
غرض کہ سنسکرت، عربی انگریزی اور اردو ادیبوں شاعروں اور آرٹسٹوں کی ایک طویل فہرست ہے کہ جس میں شامل افراد کا نام دنیا ئے ادب و فنون لطیفہ میں نہایت ادب و احترام سے لیا جاتا ہے لیکن ان کی نجی زندگی کے جو احوال تحریری طورپر ہم تک پہنچے ہیں وہ اس کا ثبوت ہیں کہ وہ ’عظیم‘ لوگ نہایت گھٹیا قسم کے نفس پرست ضلالت میں پڑے ہوئے کمزور انسان تھے۔ اچھا وہ بہت بڑے ادیب و شاعر یافن کار بھی تھے۔ تو پھر؟؟ ان کی لفظی بازی گری یا برش کی مشاقی سے انسان کا کیا بھلا ہوا؟ انھوں نے تہذیب او رمہذب سماج کے ارتقا میں کیا رول ادا کیا؟ انھوں نے انسان اور انسانیت اور معاشرے کو کیا دیا؟ ہاں یہ ضرور ہوا کہ ہم جیسے چھُٹ بھیوّں کے لیے ان کا نمونۂ عمل کھل کھیلنے کے واسطے بنے بنائے ’جواز‘ کی شکل اختیار کر گیا ۔ ہم آج کتنے ہی ایسے ادبیوں ،شاعروں، دانشوروں اور اساتذہ کو جانتے ہیں کہ جو مے نوشی اور ہوس پر ستی کو’’دانشورانہ فضیلت‘ ‘ سمجھتے ہوئے شعوری طورپر اپنائے ہوئے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ کسی کی نجی زندگی سے ہمیں کیا لینا؟ ہر شخص کو اپنی فکر اور اپنے ارادے کے مطابق اپنی ذاتی زندگی کو گزارنے کا اختیار ہے ۔ اور کسی کو حق نہیں کہ اس میں جھانکنے کی کوشش کرے یا اسی پر اس کے ادب اور شعر کو محمول کرکے رائے قائم کرے۔ دانشوران شعرو ادب ہم جیسے’’غیر ادیب‘‘ غیر شاعر اور غیر دانشور‘‘ لوگوں کو چپ کر انے کے لیے اسی طرح کی باتیں کرتے ہیں۔
بے شک کسی کو حق نہیں کہ وہ تاکا جھانکی کرتا پھر ے یا دوسروں کی ٹوہ میں رہے ہم نے کب کہا؟ یہ تو’’زندگی کے ٹھیکے داروں کا شغل ہے کہ ’’سماج کے ناسور‘‘یا اس کا ’حسن ‘دکھانے کے لیے گلی گلی، کمرے کمرے ٹوہ لیتے اور جھانکتے پھرتے ہیں اور پھر جو کچھ نظر آتا ہے اسے اور’’مزے دار‘‘ بنا کر قاری یا سامع یا ناظر کے چٹخاروں کے لیے پیش کردیتے ہیں اور اسی خمیر سے بنے ہوئے نقلی وتقلیدی نقادوں کی ٹولیاں ادب یا آرٹ میں اس فن پارے کا مقام تلاش کرنے کے لیے’’دانشورانہ‘‘ موشگافیوں میں مشغول ہو جاتی ہیں۔
یہاں تو حال یہ ہے کہ دانشور حضرات خود ہی اپنی تحریروں، فن پاروں سوانحی خاکوں سفرناموں یا انٹر ویو ز میں اپنے’’عادات و اوصاف‘‘ کا اعلان کرتے رہتے ہیں اور تاکا جھانکی کا شوق رکھنے والوں کو زحمت مزید سے بچا لیتے ہیں۔ توپھر ہمیں پر یہ قدغن کیوں کہ ہم ادب یا آرٹ میں ان کا مقام متعین کرنے کے لیے ان کی نجی زندگی اور ان کے معائب و محاسن پر نظر نہ رکھیں اور یہ دیکھنے کی کوشش نہ کریں کہ ان کے قول و فعل میں تضاد تو نہیں؟ وہ جو بڑی بڑی اور اچھی اچھی باتیں کرتے نہیں تھکتے۔ خود بھی ان کے عامل ہیں؟
رہی یہ بات کہ کسی ادیب ، آرٹسٹ یا شاعر کی قدرو منزلت آنکنے کے لیے اس کے کردار پر نگاہ نہ ڈالی جائے بذات خود مہمل ہے۔
تھوڑی دیر کے لیے یہ نرالی منطق مان بھی لی جائے تو فرائڈ Frued اس کے فن تحلیل نفسی(Psyeo analyses)اور تحت الشعور و لاشعور کی تھیوریوں کا کیا ہوگا؟ جن پر ماہرین نفسیات سے زیادہ ادیبوں شاعروں اور نقادوں نے بغلیں بجائی ہیں اور فرائڈسے سیکڑوں سال قبل کے فن کاروں تک کی تحلیل نفسی کر ڈالی ہے۔ جی، فن تحلیل نفسی کی خدمت کے لیے نہیں، بلکہ خو پر اٹھنے والی انگلیوں کا رخ موڑنے کے لیے کہ دیکھو وہ اور وہ بھی تو’’ایسے ‘‘ اور ’’ویسے‘‘ تھے مگر اس کے باوجود وہ کتنے ’’بڑے ‘‘ تھے!
لہٰذا ہم یہی سوال اٹھانا چاہتے ہیں کہ بالفرض کوئی بڑا آرٹسٹ بڑا ناول نگار، بڑا افسانہ نگار یا بڑا شاعر ہے...........تو پھر؟؟
اوّل تو یہ ’’بڑے‘‘ کا سابقہ ہی مہمل ہے۔ یہاں تو یہی چیز محّلِ نظر ہے کہ اگر وہ آدمی کو انسان بننے میں مدد نہ دے سکے، ’بھیڑ‘ کے’ معاشرے‘میں تبدیل ہونے کے عمل میں معاون نہ ہو سکے اور’’تلاش کمال‘‘ میں آدمی کو انسانی حدّ کمال کے قریب تک نہ لے جا سکے تو اس کے بڑا ادیب شاعر آرٹسٹ یا نقاد ہونے سے فائدہ ؟
احسنؔ جو نہ بدلے قسمت دل اس حرف و نواسے کیا حاصل؟
بنیاد ستم جو ڈھانہ سکے، وہ شعر ہے کیا؟ تقریر ہے کیا؟

جو یہ چاہتے ہیں کہ اگر وہ شراب و شباب میں غرق رہیں تو کوئی ان پر انگلی نہ اٹھائے۔ وہ اگر جنسی بے راہ روی کے شکار ہوں اور ’ ہم جنسی‘ ان کے لیے شہوانی خواہشات کا فطری نکاس Out letہوتو کوئی ان پر اعتراض نہ کرے۔ وہ اگر شادی شدہ ہوتے ہوئے بھی جس کسی پر دل آجائے اسے اپنے تصرف میں لانا اپنا’’حق دانشوری‘ سمجھتے ہوں تو کوئی ٹوکنے روکنے کی جرأت نہ کرے۔ وہ اگر اپنی محبوبات کے پیالۂ ناف کے اتھلے پن یا گہرائی کے بیان میں فخر کریں تو آپ اپنا سر شرم سے نہ جھکائیں۔
وہ اگر یہ کہے کہ ’’فن کے تعلق سے ہر وہ اخلاقیات جو جمالیات کے مفہوم سے کم یا زیادہ مفہوم رکھتی ہو وہ اخلاقیات نہیں ہوتی بلکہ ’عقیدہ‘ ہوتی ہے اور عقیدوں کا حسن اور فن سے کوئی غیر مشروط تعلق نہیں ہوتا۔ عقیدوں کے نظام ۔ غیر مشروط حسن، خیراور فن سے تضاد کی نسبت رکھتے ہیں۔ چنانچہ ’مابعد الطبعیِ ‘ حقائق کے شاعر (جیسے مولانا رومؒ اور اقبالؒ ) شاعر سے بلند مرتبے کے حقدار تو ہو سکتے ہیں مگر شاعر نہیں ہو سکتے.......‘‘(6)
تو آپ ان لوگوں کی گرفت نہ کریں انھیں بڑا شاعر مانیں اور ان کے قصیدے پڑھیں کیونکہ وہ فراقؔ ، فیضؔ اورجونؔ ایلیا جو ہیں!
ہم جب بڑے ادیبوں ، شاعروں اور فن کاروں ، فرانسیسی نظریہ سازوں، یونانی مفکروں، اور انگریزی و عربی کے بعض ادیبوں او رشاعروں کی زندگی پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں واضح طورپر دوگروہ نظرآتے ہیں ۔ ایک تو وہ جو مظاہرفطرت اور اپنے درون و برون پر غور فکر کے بعد کسی نتیجے پر پہنچے اور پھر اپنی پوری زندگی اپنے تلاش کردہ(یا ایجاد کردہ) فلسفے ، نظریے اور نظام میں ڈھال دی۔ یعنی جو کچھ کہا اسے کر کے اور برت کے دکھادیا۔ مارکس، نطشیے میراجی اور دریداؔ اس فہرست کے چند نمائندہ نام ہیں۔ ان سب کی فکر صراط مستقیمی بھلے ہی نہ ہو لیکن وہ بذات خود اپنے نظریے اور فلسفے کے تئیں مخلص تھے۔
اور دوسرے گروہ میں وہ لوگ شامل ہیں جو ساری زندگی تبلیغ تو ایک نظریے کی کرتے رہے لیکن نجی زندگی دوسرے کے مطابق گزاری۔ ہمارے نزدیک فرائیڈ،ڈارون، ن۔ م ۔ راشد، گیان چند جین، گوپی چند نارنگ، قاضی افضال اور شمس الرحمن فاروقی اسی گروہ ثانی سے تعلق رکھتے ہیں۔ گیان چند کی آخری کتاب ایک بھاشا دو لکھاوٹ دو ادب، گوپی چند نارنگ کی وہ سبھی کتابیں اور مضامین جو مابعد جدید یت کی تشریح و تفسیر اور اشاعت کے لیے لکھے گئے اور شمس الرحمن فاروقی کے ’سوار اور دوسرے افسانے‘ اور ناول’ کئی چاند تھے سر آسماں‘ اس کا ثبوت ہیں۔ مثال کے طورپر آخرالذکر کی پوری زندگی شب خونی جدیدیت کے پر چار میں گزری لیکن جب شاعری کی، افسانے لکھے اور ناول لکھا، تو اس پر چیستانیت ، محیرالعقولیت، کرب تحقیق اور المیۂ ذات کے فلسفۂ جدیدیت کی کوئی چھاپ نظر نہیں آتی۔ فاروقی نے قمر احسن اعظمی کو تو اسپ کشت مات میں پھنسا رکھ کر نا کارہ بنا دیا اور خود میرؔ غالبؔ مصحفیؔ اور داغؔ اور ان کے ہر دم تغیر پذیر اور زوال آمادہ عہد پر شاہکار ناول اور افسانے لکھ ڈالے ! اگر یہی صحیح تھا تو قمر احسنوں کو کیوں غارت کیا اور اگر شب خونی نظر یہ و اسلوب درست تھا تو خود سیدھے سادھے بیانیہ والے اسلوب کو کیوں اپنایا؟کوئی ہمیں بتائے کہ اگر یہ منافقت  Hypocrisyنہیں تو پھر کیا ہے؟
یہی حال شاعروں کا ہے۔ بلکہ ان کا تو زیادہ برا حال ہے۔ کیونکہ ان میں اکثر کے لیے تو قرآن ہانکے پکارے کہہ رہا ہے کہ وہ تلامیذ الرحمن نہیں تلامذۂ شیطان ہوتے ہیں اور شیاطین جھوٹوں اور بدکرداروں ہی پر نازل ہو سکتے ہیں۔ ایسے شاعروں کی پیروی صرف گمراہ کرتے ہیں کیونکہ یہ تخیل کی وادیوں میں مارے مارے پھرتے ہیں اور ایسی باتیں کہتے ہیں جن پر خود کبھی عمل نہیں کرتے۔
مگر منافقین اور مخلصین کے دوگروہ یہاں بھی ہیں۔ بلکہ شعرا میں تو اکثر یت منافقین کی ہے اور ان میں چھوٹے اور بڑے اچھے اور برے تحت خواں اور گلے بازاساتذہ اور تلامذہ سب ایک ہی کشتی کے سوار ہیں۔ غالب ہوں یا انشاء فراق ہوں یا فیض ، مجاز ہوں یا جون ایلیا، کم یا زیادہ ، تھوڑا یا بہت ، قول فعل کا تضاد اور آفاقی اخلاقی قدروں سے انحراف ہر ایک کے یہاں موجود ہے۔
لیکن اس ہجوم میں وہ لوگ بھی ہیں جو اَنَّھُمْ یَقولُونَ مَالا یَفْعَلُونَ کے زمرے میں نہیں آتے بلکہِ الَّا اَلّذِینَ آمنُو وَ عَمِلُوالصّٰلِحٰتِ وَذکُرُواللّٰہ کثیراً کے اقلیتی گروہ میں شامل ہیں۔ وہ محض دون کی نہیں ہانکتے ۔ نہ فلسفیانہ کج بحشی ان کا شیوہ ہے نہ شعربرائے شعر ان کا نظریہ۔ حق گوئی و بیباکی ان کا وطیرہ ہوتا ہے اور فروتنی وانکساری ان کا مزاج ، ان کے درون کا انسان ان کے اندر کے شاعر پر حاوی رہتا ہے۔ انھیں ہر وقت یاد رہتا ہے۔ کہ انھیں ایک ایک لفظ اور ایک ایک حرف کا حساب دینا ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ ان سے پوچھا جائے گا کہ تم جو کہتے تھے اس پر خود عمل کیا؟ اس فہرست شعرا میں فرزدق ، حسان بن ثابت اور کمیت اسدی سے لے کر مولانا روم تک اور پھر اقبال ، اکبرالہٰ بادی ، حفیظ جالندھری ، ماہر القادری، سے لے کر عامرؔ عثمانی ، انجم فوقی بدایونی ، نعیم صدیقی، رشید کوثرؔ فاروقی اور حفیظ الرحمن احسن مجاہد ،سید ، اور خردؔ فیض آبادی تک ایک خاصی طویل فہرست ہے جو گروہ اوّل کی اکثریت کے مقابل اقلیت میں
سہی لیکن کم مّن فئَۃٍ قلیِلَتہٍ غلبت فِئَۃٍ کَثِیرَۃ کی مصداق ہے۔
کسی ادیب یا شاعر پر کوئی نظریاتی لیبل چسپا ں کرنا درست نہیں کیونکہ ادب ہو یا شعر اس کی دو ہی قسمیں ہو سکتی ہیں اچھا ادب اور اچھا شعر۔ برا ادب اور برا شعر ۔ اور اگر دائرے کو مزید محدود کرنا چاہیں تو یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ۔ ادب یا غیر ادب، شعر یا غیر شعر۔ اس لیے اتنی شرط ضرور لگائی جانی چاہیے کہ اچھا ادیب اور اچھا شاعر ایک اچھا انسان بھی ہو۔ بلکہ ادیب اور شاعر کے لیے ’انسان‘ ہونا لازمی ہے۔ رشید احمد صدیقی کے بقول ’’جب تک انسانیت کے بہتر ین مقاصد انسانیت ہی کے بہترین طور طریقوں سے پورے نہ کیے جائیں گے، نہ اعلیٰ انسان وجود میں آئے گا اور نہ اعلیٰ ادب۔‘‘
اگر کوئی فنکار ادیب یا شاعر جمالیات بغیر اخلاقیات اور حسن بغیر خیر کا قائل ہے اور ازلی صداقتوں کا انکار کرکے زندگی کی سچائیوں کی مجرد تصویر کشی کرتا ہے تو وہ خائن بھی ہے اور گمراہ بھی اس کے اچھے ادیب اچھے فن کار یا اچھے شاعر ہونے سے کوئی فائدہ نہیں بلکہ ۔ نقصان زیادہ ہے۔
کیونکہ اس کا فن پارہ ، شعر ، یا اعلیٰ نثری نمونہ قاری کو کم متاثر کرتا ہے اور خود اس ادیب شاعر یا فنکار کا کردار زیادہ ۔ ہم سوچتے ہیں کہ جب غالبؔ شراب پینے کے باوجود غالبؔ ہو سکتے ہیں تو بذات خود نہ شراب کوئی بری چیز ہے نہ اس کا پینا کوئی مذموم فعل ۔ جب ایک بہت بڑا شاعر فلسفی نظریہ ساز اور پینٹر ہم جنسی کا عادی ہے اور اپنے اس عیب کو ہنر اور مرض کو شفا سمجھتا ہے تو اس کے معنی ہیں کہ ہم جنسی بجنسہٰ کوئی بری یا قابل نفرین شے نہیں ہو سکتی۔ جب ایک بین اقوامی شہرت کا حامل، ترقی پسند و ں کا خدا وند، عظیم شاعر اپنی حسین اور وفاشعار بیوی کے ہوتے ہوئے بھی پرائی عورتوں ، دوستوں کی بیویوں اور اپنی مداح خواتین کو بلا جھجک اپنے تصرف میں لا سکتا ہے اور ایسا کرنے سے سماج میں اس کے عزت و وقار اور مقام بلند کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا تو ہمارے لیے بھی حسب دل خواہ من چاہی عورتوں سے اپنی خواہش پوری کرنا کوئی عیب نہیں ہو سکتا
غرض یہ کہ خود کو اپنے ہیرو کے ساتھ Identifyکرنے کا یہ فطری جذبہ ان نام نہاد بڑے لوگوں کی اچھائیوں سے زیادہ ان کی برائیوں اور ان کے انحرافات کے فروغ کا سبب بن جاتا ہے
ہو سکتا ہے کچھ لوگ اس بحت کا یہ مطلب نکالیں کہ پھر شعر فکشن، تنقید ادب کی دیگر قسموں اور آرٹ کے نخلستان کو صحرابنا دینا چاہیے کہ پھر کوئی نہ اس سے لطف اندوز ہو سکے اور نہ ہی اس کی خدمت کر سکے۔ جی نہیں۔ بالکل نہیں۔ ہم صرف یہ کہنا چاہتے ہین کہ کوئی ناول نگار ہو یا شاعر ، کہانی کار ہو یا نقاد ، صنّاع ہو یا خطّاط اسے ترقی کی سمت اپنے اپنے ہنر کے مدارج طے کرنے کے ساتھ ساتھ ایک اچھاانسان بھی ہونا چاہیے تا کہ اس کی ذات اور اس کا فن’انسان‘اس کی حیات اور اس دنیا کو بھی فائدہ پہنچا سکے۔ وہ صرف اپنی زندگی نہ جیے بلکہ دوسروں کو اپنی ذات پر مقدم رکھے۔ اپنی ذات کی تلاش اور شناخت میں اس لیے سر گرداں رہے کہ نہ صرف دوسروں کے دکھ دور ضرورتوں اور مسائل کو پہچان کر ان کا مداوا ڈھونڈ سکے بلکہ اس وسیلے سے اس ذات واجب تک جا پہنچے یا پہنچنے کی کوشش کرے کہ جس نے نہ صرف یہ کہ اسے خلق کیا ہے بلکہ اس کو وہ عقل و بصیرت بھی دی ہے کہ جو اَنفُسْ اور آفاق کےِ ادراک میں اس کی رہنمائی کرتی ہے۔
کوئی ہماری بات توجہ سے سنے یا ہنسی میں اڑا دے۔ کان دھرے یا برسر پیکار ہو جائے۔ ہمیں معلوم ہے کہ ابھی لِیُظْھِرَہٗ علی الدّین کلہ کا وعدہ پورا ہونا ہے ۔ لیکن ۔ اس وقت کے انتظار میں ہم ہاتھوں پر ہاتھ دھرے بیٹھے تو نہیں رہ سکتے ۔
یہ رزم خیر و شر ہے تو الجھیں گے بار بار
دلدادگان صبح سے وابستگان شب!

حواشی:
(1)فیضل جعفری۔ قمر احسن کی کتاب ’شیر آہوخانہ ‘ کے گرد پوش پرشایع اقتباس
(2)عبد الاحد سازؔ مجموعہ کلام’خموشی بول اٹھی ہے‘ کا دیباچہ ’ خط ترسیل ‘ ص 9
(3,4,5)جون ایلیا، مجموعہ کلام’شاید‘ (1991)کا دیباچہ ص31۔36
نوٹ: مضمون میں درج دونوں شعر حفیظ الرحمن احسن کے ہیں اور ان کے مجموعہ کلام’فصل زیاں‘سے لیے گئے ہیں۔
(نوٹ: محترم عالم نقوی کے اس مضمون کو میں یونی کوڈمیں پیش کر رہا ہوں تاکہ سبھی حضرات اسے پڑھ سکیں۔مجھے ذاتی طور پر یہ مضمون بہت ہی اچھا لگا۔ عالم نقوی صاحب مبارک باد کے مستحق ہیں۔ فریاد آزر)(١)
(١)بشکریہ سرور عالم راز "سرورؔ"-یو ایس اے        یونیکوڈ فائل : فریاد آذر