منگل، 12 فروری، 2019

احمد رضا خان کی تعریف میں علمائے دیوبند کی طرف منسوب جعلی حوالوں کی تحقیق

”سربکف “مجلہ۴  (جنوری ، فروری ۲۰۱۶)
 مولانا ساجد خان نقشبندی ﷾

ابن ماسٹر شفیع اوکاڑوی علامہ کوکب نورانی اوکاڑوی کے حوالہ جات پر ایک نظر:
”مولانا محمد شفیع اوکاڑوی کچھ عرصہ ستلج کائن ملز سے ملحقہ ہائی سکول میں معلوم اسلامیات کی حیثیت سے کام کرتے رہے ۔۔۔ مولوی صاحب آپ کو کیا تنخواہ ملتی ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ نوے روپے آپ نے فرمایا صرف نوے روپے ؟ آپ کی تنخواہ چار سو روپیہ ہونی چاہئے مولانا یہ سن کر خوش تو ہوئے لیکن گہری سوچ میں ڈوب گئے کہ یہ تو بڑی بات ہے تھوڑی دیر کے بعد حضرت صاحب ؒ نے دریافت کیا کہ کبھی کراچی بھی گئے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں حضور کراچی جانے کا کبھی اتفاق نہیں ہوا آپ نے فرمایا کہ برخوردار کراچی جانا چاہئے کچھ دنوں کے بعد بعض دوستوں کی دعوت پر بعزم کراچی روانہ ہو گئے وہاں پر ان کو ایک ماہ تک رکنا پڑا اور کئی تقریبات میں شمولیت کی بالآخر میمن مسجد کے خطیب منتخب ہو گئے اور ان کی ماہوار تنخواہ حضرت صاحب ؒ کے ارشاد عالیہ کے مطابق چار سو روپیہ مقرر ہوئی ‘‘۔
 ( معدن کرم ،ص247،غیر تحریف شدہ ایڈیشن کرمانوالہ بک شاپ)

اگر رضاخانی حضرات ماسٹر امین اوکاڑوی کہہ سکتے ہیں تو اس حوالے کی روسے ہمارا ماسٹر شفیع اوکاڑوی کہنے پر بھی ان کو ناراض نہیں ہونا چاہئے ویسے غور فرمائیں جب تک ماسٹر شفیع صاحب معمولی نعت خواں تھے تو نوے روپے ماہوار اور جیسے ہی علمائے اہل سنت کے خلاف خطیب و مصنف بن کر محاذ کھولا تو چار سو روپے ماہوار اس صورت حال میں کسی پیٹ پرست مولوی کا دماغ خراب ہے جواس اختلاف کو ختم کرنے کا تصور بھی دل میں لائے ۔ان شفیع اوکاڑوی صاحب کو آج کل ان کے فرزند مولانا کوکب نورانی صاحب پریس و میڈیا کے زور پر ’’مجدد مسلک اہل سنت ‘‘ ثابت کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں بیٹے کی طرف سے باپ کو دئے گئے اس لقب کا جو آپریشن بریلوی مفتی اعظم مفتی اقتدار خان نعیمی ابن مفتی احمد یار گجراتی نے ’’حرمت سیاہ خضاب ،ص6,7مطبوعہ نعیمی کتب خانہ گجرات ‘‘ پر کیا ہے وہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے ۔بہرحال مولانا کوکب نورانی نے عنوان دیا :
اعلی حضرت بریلوی کے بارے میں علمائے دیوبند کے تاثرات (فہرست )
”اعلی حضرت ۔۔۔کی دینی استقامت ،عشق رسول ( ﷺ) فقہی مرتبہ اور علمی عظمت و کمال کیلئے ذرا علمائے دیوبند ہی کی رائے ملاحظہ کیجئے ‘‘۔ 
( سفید و سیاہ ،ص112،ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور)
پھر اس عنوان کے بعد دوسرے نمبر پر حوالہ ابو الاعلی مودودی صاحب کا دیا اور انہیں علمائے دیوبند کے کھاتے میں ڈال دیا اگر یہی حرکت کوئی سنی مسلمان عالم دین کرتا تو رضا خانیوں کی طرف سے لعن طعن کی صرف صغیر صرف کبیر شروع ہو جاتی مگر یہاں چونکہ معاملہ اپنا ہے اس لئے لکڑ ہضم پتھر ہضم۔
خان صاحب کی توثیق پر حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا حوالہ:
مولانا کوکب نورانی صاحب نے جناب نواب احمد رضا خان صاحب کے بارے میں حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا قول پیش کیا کہ احمد رضا خان صاحب عاشق رسولﷺ تھے اس نے اگر ہماری تکفیر کی تو عشق رسالت کی بناء پر کی کسی اور غرض سے نہیں کی۔
(سفید و سیاہ ملخصا ،ص112)
اس کے ثبوت کیلئے حوالہ مولوی اوکاڑوی نے مولانا کوثر نیازی مودودی آف پیپلز پارٹی اور چٹان لاہور 23اپریل 1962کا دیا چٹان کا یہ حوالہ عبد الحکیم اختر شاہ جہاں پوری نے اعلی حضرت کا فقہی مقام ،ص110پر بھی نقل کیا ۔
اس قسم کے بناوٹی حکایات پر علامہ خالد محمود صاحب مدظلہ العالی تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’اب آپ غور فرمائیں مولانا کوثر نیازی کے اس بیان میں کیا ذرہ صداقت ہو سکتی ہے ؟ مولانا تھانوی کو اچھی طرح معلوم تھا کہ مولانا احمد رضا خان نے حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کی تحذیر الناس کے تین مختلف مقامات سے عبارت لیکر ایک کفریہ عبارت بنائی اور اس پر کفر کے فتوے حاصل کئے کیا یہ بددیانتی بھی مولانا احمد رضا خان صاحب نے عشق رسول کے جذبے میں کی تھی ؟ پھر حضرت مولانا خلیل احمد محدث سہارنپوری نے جب المہند میں بات کھول دی اور اس پر حضرت مولانا تھانوی نے بھی دستخط فرما دئے تو اب کون کہہ سکتا ہے کہ مولانا تھانوی کی مولانا احمد رضا خان کے اس دجل و فریب پر نظر نہ تھی ۔ سو ایسی حکایات جو ان حضرات کے نام سے لوگوں نے بنا رکھی ہیں ہر گز لائق اعتبار نہیں جو حضرت مفتی محمد شفیع صاحب کے نام سے وضع کی گئی ہوں یا شیخ الحدیث والتفسیر مولانا محمد ادریس کاندھلوی کے نام سے ،ان میں ذرا بھی صداقت نہیں ہے مولانا احمد رضا خان نے علمائے دیوبند کے بارے میں جو حرکت شنیعہ کی وہ بددیانتی پر مبنی تھی اور علمائے دیوبند بھی اس میں کسی خوش فہمی میں نہ تھے ‘‘۔
(مطالعہ بریلویت ،ج5،ص84)
احمد رضاخان صاحب کے عقائد باطل تھے مولانا تھانوی ؒ:
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
’’پچھلے دنوں ایک خط احمد رضا خان صاحب کے مرید کا آیا تھا جس میں لکھا تھا کہ میں پچیس سال سے مولوی احمد رضا خان صاحب سے مرید تھا اب ان عقائد باطلہ سے توبہ کرتا ہوں اور حضر ت سے بیعت کی درخواست کرتا ہوں میں نے جواب لکھ دیا کہ تعجیل مناسب نہیں ٭‘‘۔
 ( ملفوظات حکیم الامت ،ج7،ص13)
اس ارشاد میں حضرت تھانوی ؒ نے تسلیم فرمایا کہ مولانا احمد رضا خان صاحب کے عقائد باطلہ تھے عقائد حقہ نہ تھے ورنہ آپ اس شخص کو لکھ بھیجتے کہ خدا کا خوف کرو احمد رضا خان جیسے عاشق رسول ﷺ کے عقائد کو باطل کہتے ہو آپ کا اس پر نکیر نہ کرنا اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہے کہ احمد رضا خان باطل عقائد کا حامل تھا ۔باقی یہ جو کہا کہ تعجیل مناسب نہیں یہ اس لئے تھا کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ حضرت کو مریدوں ہی کی طلب اور پیاس رہتی ہے گویا آپ اسی انتظار میں بیٹھے ہیں ۔اس لئے کہا کہ پہلے استقامت دکھاؤ اس کے بعد بیعت کر لوں گا۔
بریلوی اور حضرت تھانوی ؒ:
حضرت حکیم الامت ؒ نے ایک دفعہ فرمایا کہ :
’’یہ اہل بدعت اکثر بد فہم ہوتے ہیں بوجہ ظلمت بدعت کے ۔۔۔علوم و حقائق سے کورے ہوتے ہیں ۔۔۔ویسے ہی لغویات ہانکتے رہتے ہیں جس کے سر نہ پیر ۔۔۔مثلاً حضور اکرم ﷺ کو علم غیب محیط ہے اور یہ کہ حضور کا مماثل پیدا کرنے کی اللہ تعالی کو قدرت نہیں ۔۔۔اس قسم کے ان کے عقائد ہیں اور اب تو اکثر بدعتی شریر بلکہ فاسق فاجر ہیں ‘‘۔
(ملفوظات ،ج7،ص23)
اور یہ عقائد مولانا احمد رضا خان بریلوی کے بھی ہیں تو حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ تو مولانا احمد رضا خان بریلوی کو علم سے کورا لغویات ہانکنے والا ،فاسق و فاجر شخص ہے ۔
حضرت تھانوی ؒ کی طرف سے خان صاحب کے اشعار پر فتوی:
حکیم الامت حضرت تھانوی ؒ کے سامنے خان صاحب کے یہ اشعار پیش ہوئے :
میں تو مالک ہی کہوں گا کہ ہو مالک کے حبیب
کیونکہ محبوب و محب میں نہیں میرا تیرا
( حدائق بخشش ،ج1،ص1،مدینہ پبلشنگ کراچی )
حضرت تھانو ی ؒ نے ان اشعار پر یہ فتوی دیا :
’’ اس صورت میں اس شعر کا بنانے والا مشرک اور خارج از اسلام سمجھے جانے کے قابل ہے ۔دوسرے شعر میں لفظ مالک خدا کے معنوں میں استعمال ہوا ہے اور اس صورت میں شعر کا مطلب صاف لفظوں میں یہ ہوا کہ حضرت شیخ محبوب الٰہی ہیں اور محبوب و محب میں کوئی فرق نہیں ہوتا لہذا حضرت شیخ بھی معاذ اللہ خدا ہوئے اور میں تو خواہ کچھ ہی خدا ہی کہوں گا اس اصرار علی الشرک کی وجہ سے بھی اسی فتوے کے مستوجب ہیں جو شعر اول کے متعلق دیا جا چکا ہے اور کسی تاویل سے یہ حکم بدل نہیں سکتا اس لئے کہ یہ الفاظ بالکل صاف ہیں‘‘ ۔
( امداد الفتاوی ،ج6،ص76,77،مطبوعہ دارالعلوم کراچی )
کیا اس واضح فتوے کے بعد بھی کوئی کہہ سکتا ہے کہ حضرت تھانوی ؒ نے احمد رضا خان کو عاشق رسول ﷺ تسلیم کیا ؟ حضرت ہے کہ حضرت تھانوی ؒ کے تیس جلدوں پر مشتمل ملفوظات بتیس جلدوں پر خطبات ہزار سے زائد تصنیفات میں تو کہیں بھی ایسی کوئی بات نہیں ملتی مگر ان کی وفات کے بعد نامعلوم مریدوں کے خطوط بریلویوں کو موصول ہونا شروع ہو جاتے ہیں کہ حضرت تھانوی ؒ مولانا احمد رضا خان صاحب کو معاذ اللہ عاشق رسول ﷺ مانتے ہیں۔
مولانا کوثر نیازی آف پیپلز پارٹی کی حقیقت:
یہ جعلی حکایات بنانے والے مولانا کوثر نیازی بریلوی کے بارے میں راقم الحروف سے محقق اہل سنت حضرت مفتی نجیب اللہ صاحب عمر مدظلہ العالی نے بیان فرمایا کہ حکیم محمود احمد برکاتی صاحب مرحوم سے جب ایک نشست میں کوثر نیازی صاحب کا تذکرہ چل پڑا تو واللہ تاللہ باللہ حکیم صاحب (جن کا تعلق خیر آبادی سلسلے سے ہے ) نے مجھ سے بیان فرمایا کہ وزارت کے دوران کوثر نیازی نے کراچی میں ایک کمرے کا مکان کرایہ پر لیا ہوا تھا جہاں شراب کباب اور مجرے کا دور چلتا اور زنا ہوتا ۔العیاذباللہ مولاناکوثر نیازی کٹر بریلوی رضاخانی تھے
اس قسم کے حوالوں کی بنیاد پر رضاخانی عوام کو یہ دھوکا دیتے ہیں کہ مولوی کوثر نیازی دیوبندی تھا حالانکہ اس اصول کے تحت نیازی کا کٹر رضاخانی اور بریلوی ہونا ثابت ہوتا ہے اور حقیقت بھی یہی تھی رضاخانی نیازی کو اپنے مجلسوں میں بطور مہمان خصوصی بلایا کرتے تھے ادارہ تحقیقات امام احمد رضاکے ایک اجلاس میں وہ یوں خطاب کرتے ہیں:
’’مولانا کوثر نیازی نے مہمان خصوصی کی حیثیت سے اپنی تقریر کا آغاز اس جملے سے کیا کہ عاشق رسول وہی شخص ہو سکتا ہے جو ناموس رسالت پر مر مٹنا جانتا ہو ۔انہوں نے کہا کہ امام احمد رضا ایک سچے عاشق رسول تھے ۔ان کا سرمایہ حیات عشق رسول تھا اور وہ زندگی بھر لوگوں کو حب رسول کا سبق دیتے رہے۔ مولانا کوثر نیازی نے کہا کہ امام خمینی کا فتوی شاتم رسول رشدی پر کل کی بات ہے لیکن امام احمد رضا نے اب سے ۸۰ ،۷۰ سال قبل گستاخانِ رسول پر جو فتوی دیا تھا وہ ہم سب کیلئے قابل مطالعہ ہے۔ مولانا کوثر نیازی نے برملا اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ اعلی حضرت شاہ احمد رضا خاں کی تصانیف جوں جوں میرے مطالعہ میں آ رہی ہیں توں توں ان کی عظمت و بزرگی ،جلالت علمی ،بحر ذکاوت ،دانائی تقوی کا احسان بڑھتا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دو قومی نظریہ کے سلسلہ میں امام احمد رضا مقتداء ہیں اور علامہ اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح مقتدی ہیں ۔انہوں نے اعلی حضرت کے مشہور زمانہ سلام مصطفی جان رحمت پر لاکھوں سلام کو اردو زبان کا قصیدہ بردہ شریف قرار دیا ہے اور کہا کہ یہ سلام آفاقی ہے ۔جس کی نظری نہیں ملتی۔ مولانا نے مزید کہا کہ امام احمد رضا پر جو شدت کا بہتان لگایا جاتا ہے اور جس کی دہائی دی جاتی ہے وہ ان کا عشق رسول ہے ‘‘۔
(تاریخ و کارکردگی ادارہ تحقیقات امام احمد رضا ۔ص۷۰۔۷۱۔ از ڈاکٹر مجید اللہ قادری بریلوی ۔مطبوعہ ادارہ تحقیقات امام احمد رضا کراچی ۲۰۰۵)
سید سلمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منسوب حوالہ:
مولانا کوکب اوکاڑوی سید سلیمان ندوی کی طرف منسوب کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’اس احقر نے جناب مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی مرحوم کی چند کتابیں دیکھیں تو میری آنکھیں خیرہ ہو کر رہ گئیں حیران تھا کہ یہ واقعی مولانا بریلوی صاحب مرحوم کی ہیں جن کے متعلق کل تک یہ سنا تھا کہ وہ صرف اہل بدعت کے ترجمان ہیں اور صرف چند فروعی مسائل تک محدود ہیں مگر آج پتہ چلا کہ نہیں ہرگز نہیں یہ اہل بدعت کے نقیب نہیں بلکہ یہ تو عالم اسلام کے اسکالر اور شاہ کار نظر آتے ہیں جس قدر مولانا ( احمد رضا ) مرحوم کی تحریروں میں گہرائی پائی جاتی ہے اس قدر گہرائی تو میرے استاد مکرم جناب مولانا شبلی نعمانی صاحب اور حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی اور مولانا محمد الحسن صاحب دیوبندی اور حضرت مولانا شیخ التفسیر علامہ شبیر احمد عثمانی کی کتابوں کے اندر بھی نہیں جس قدر مولانا بریلوی کی تحریروں میں ہے۔(ماہنامہ ندوہ اگست ،ص17،اگست 1913بحوالہ سفید و سیاہ ،ص112,113)
یہی حوالہ معارف رضا میں بحوالہ طمانچہ ص35میں بھی دیا گیا اور وہاں حوالہ میں حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی علیہ الرحمۃ ‘‘۔ 
(معارف رضا ،ص253شمارہ یازدہم 1991 ؁ء)
مگر اوکاڑوی نے پنے ہاتھ کا کرتب دکھا کر ’’علیہ الرحمۃ ‘‘ کو ایسے غائب کیا کہ اب دور بین لگانے پر بھی آپ کو نظر نہیں آئے گا ۔ اس تحریف کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات 1943 ؁ء میں ہوئی 1913کے ندوہ رسالہ میں اگر ان کی وفات کے 30سال قبل ہی رسالے میں ان کے ساتھ ’’علیہ الرحمۃ‘‘ لکھنا ہی اس کے جھوٹ کا پول کھولنے کیلئے کافی ہے ۔ پھر اس ندوہ رسالے میں احمد رضا خان صاحب کو ’’مرحوم ‘‘ لکھا گیا ہے حالانکہ خان صاحب کا انتقال 1921میں ہوا وفات سے 8سال قبل ہی ان کو مرحوم لکھ دینا اس حوالے کا میڈ اِن بریلوی ہونے کی چغلی کھا رہا ہے ۔پھر اگر خان صاحب کی کتب اتنی ہی اعلی پائے کی تھیں کہ ندوی مرحوم ان جلیل القدر علمائے دیوبند (علامہ تھانوی ،شیخ الہند و علامہ عثمانی رحمۃ اللہ علیہم اجمعین ) پر ترجیح دے رہے ہیں تو ندوی مرحوم کی کسی ایک کتاب کا حوالہ دیں جس میں ندوی ؒ نے خان صاحب کی ان تحقیقات کا حوالہ دیا ہو یا ان سے استفادے کا کہا ہے ۔جھوٹ بولنے کیلئے بھی سلیقہ چاہئے یہ حوالہ بالکل جعلی اور من گھڑت ہے۔
یہ جعلی حوالہ عبد الوہاب قادری کی صاعقۃ الرضا،ص158پر بھی دیا گیا ہے۔
(جاری ہے۔۔۔)
٭٭٭

     

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں