منگل، 12 فروری، 2019

ردِّقادیانیت کورس ( قسط۔ ۲)

 منظور احمد چنیوٹی عفااﷲ عنہ
 ”سربکف “مجلہ۴  (جنوری ، فروری ۲۰۱۶)

مرزا کے دعوے :
مرزا نے درجہ بدرجہ دعوے کئے تھے جس کا نقشہ حسب ذیل ہے :
ملہم من اﷲ
مجدد
مسیح موعود
مہدی
ظلی بروزی نبوت
مستقل نبوت
ان دعووں پر چند حوالہ جات :
۱۔ ’’ جب تیرھویں صدی کا آخیر ہوا اور چودہویں صدی کا ظہور ہونے لگا تو خدا نے الہام کے ذریعہ مجھے خبر دی کہ تو اس صدی کا مجد د ہے ‘‘
کتاب البریہ حاشیہ ۱۸۳ ،روحانی خزائن ج۱۳ ص ۲۰۱

۲۔ ’’ میں خدا تعالی کی طرف سے مامور ہوکر آیا ہوں ‘‘ 
کتاب البریۃص ۱۸۴، روحانی خزائن ج ۱۳ ص۲۰۲
۳۔ ’’ انی فضلتک علی العالمین قل ارسلت الیکم جمیعا‘‘ 
ترجمہ: میں نے تجھ کو تمام جہانوں پر فضیلت دی تو کہ دے کہ میں تم سب کی طرف بھیجا گیا ہوں  ۔
تذکرہ ص ۱۲۹ طبع دوم
۴۔ ’’ اﷲ جل شانہ کی وحی اورالہام سے میں نے مثیل موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہے ‘‘
تذکر ہ ص ۱۷۷؍۱۷۷طبع دوئم
۵۔ ’’ جعلنا ک المسیح ابن مریم ‘‘ ہم نے تجھے مسیح ابن مریم بنایا۔
ازالہ اوہام ص۵۷۳ ، روحانی خزائن ج ۳ ص۴۰۹،تذکرہ ص ۱۹۱،۲۱۹،۲۲۳ طبع دوم 
۶۔ ’’ خدا نے مجھے بشارت دی او رکہا کہ وہ مسیح موعود اور مہدی مسعود جس کا لوگ انتظار کرتے ہیں تو ہے ۔ ‘‘ 
اتمام الحجۃ ص۳ ، روحانی خزائن ج ۸ ص ۲۷۵
۷۔ ’’ جبکہ میں بروزی طور پر آنحضرت ﷺ ہوں اور بروزی رنگ میں تمام کمالات محمد ی مع نبوت محمدیہ میرے آئینہ ظلیت میں منعکس ہیں تو پھر کون ساالگ انسان ہوا جس نے علیحدہ طور پر نبوت کا دعویٰ کیا ۔‘‘ 
ایک غلطی کاا زالہ ص۸ ، روحانی خزائین ج۱۸ ص۲۱۲ 
۸۔ ’’ انا انزلنہ قریباً من القادیان ‘‘ہم نے اس کو قادیان کے قریب اتاراہے ۔
براہین احمدیہ ص۴۹۸ حاشیہ ، روحانی خزائن ج ۱ ص ۵۹۳،تذکرہ ص۶۳۷طبع دوم
۹۔ ’’ سچا خدا وہی خدا ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا‘‘ 
 دافع البلا ء ص ۱۱، روحانی خزائن ج۸ ۱ص ۲۳۱
۱۰۔ ’’ قل یا ایھا الناس انی رسول اﷲ الیکم جمیعا ای مرسل من اﷲ ‘‘۔ اور کہہ کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف خدا تعالی کا رسول ہو کر آیا ہوں۔
تذکرہ ص ۳۶۰
۱۱۔ ’’ یٰس انک لمن المرسلین علی صراط مستقیم ‘‘ ۔
اے سردار تو خدا کا مرسل ہے راہ راست پر ۔
 حقیقت الوحی ص ۱۰۷ ، روحانی خزائن ج۲۲ ص۱۱۰،تذکرہ ص۶۵۸،۶۵۹
۱۲۔ ’’ شریعت کی تعریف یہ ہے کہ جس میں امر اور نہی پا یا جائے اور یہ دونوں میری وحی میں بھی پائے جاتے ہیں ‘‘ 
خلاصہ عبارت اربعین نمبر۴ص ۶، روحانی خزائن ص ۴۳۵، ۴۳۶ ج ۱۷
۱۳۔’’اور مجھے بتلایا گیا تھا کہ تیری خبر قرآن و حدیث میں موجود ہے ۔اور تو ہی اس آیت کا مصداق ہے ۔’ھوالذی ارسل رسولہ بالھدیٰ ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ‘۔‘‘ 
(اعجاز احمدی ص۷۔ روحانی خزائن ص۱۱۳ ج ۱۹)
مرزا کے جانشین:
مرز اغلام احمد قادیانی کی وفات ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء بروز منگل لاہور میں ہوئی۔ اس کا پہلا خلیفہ حکیم نورالدین ہو اجو بھیرہ کا تھا یہ بڑا اجل طبیب تھا اور عالم تھا یہ کشمیر کے راجہ کے پاس رہتا تھا ، راجہ کشمیرنے اسے انگریز کی جاسوسی کے الزام میں نکال دیا تھا اس کا چونکہ مرز اقادیانی سے پہلے سے رابطہ اور تعلق تھا اس لئے دونوں اکٹھے ہوگئے پھر دونوں نے مل کر اس دھندے کو چلایا یہ اس کا دست راست تھا اور علم میں اس سے بہت اونچا تھا حکیم نورالدین کی خلافت ۱۹۱۴ء تک رہی اس کے بعد خلافت کے دوامیدوار تھے : 
(۱)مولوی محمد علی لاہوری (۲) مرزا محموداحمد 
مولوی محمد علی لاہوری ،مرزا کا بڑا قریبی مرید تھا اور بہت پڑھا لکھا آدمی تھا قابلیت کے لحاظ سے واقعی وہ خلافت کا حقدار تھا مگر مقابلہ میں چونکہ خود مرزا کا بیٹا تھا ، اس لئے اس کو کامیابی نہ ہوئی اور چونکہ مرزا بشیر الدین کے حق میں اس کی والدہ کا ووٹ بھی تھا جس کو مرزائی ام المؤمنین کہتے ہیں اس لئے مرزا بشیر الدین خلیفہ بن گیا ۔ بوقت خلافت مرزا بشیر الدین کی عمر ۲۴ سال تھی اس کی شہزادوں کی سی زندگی تھی اور خوب عیاش تھا ۔ ۱۹۶۵ء تک یہ خلیفہ رہا اس نے اپنے والد کی سیرت پر کتاب بھی لکھی جس کا نا م ’’سیرت مسیح موعود ‘‘ ہے اس کے علاوہ بھی اس نے متعدد کتب لکھیں ۔
مولوی محمد علی لاہوری ۱۹۱۴ء سے ۱۹۲۰ء تک قادیان میں رہا اگرچہ جماعت کا کام کرتا رہا مگر اس نے بیعت نہ کی اور نہ اس کی پارٹی نے بیعت کی ان کو غیر مبایعین کہا جاتا تھا اس نے ۱۹۲۰ء میں باقاعدہ علیحدہ دکان بنانا چاہی چنانچہ اس نے لاہور آکر ایک تنظیم بنائی جس کا نام ’’ انجمن اشاعت الاسلام احمدیہ‘‘ رکھااور خود اس جماعت کا پہلا امیر بنا ۔ چونکہ مرکز ان کے پاس نہ تھا اس لئے اس کا کام زیادہ نہ چلا لیکن بڑا سمجھدار تھا اپنی تنظیم کو خوب مضبوط کیا اور غیر ممالک میں پھیلایا اور غیر ممالک میں اس کی جماعت کو بڑی کامیابی ہوئی ۔
یہ مرزا کو نبی نہیں مانتے بلکہ محض مصلح یا مجدد مانتے ہیں اور نبوت کو ختم مانتے ہیں ۔ ہم کہتے ہیں یہ محض ان کی منافقت ہے اگر ان کا اختلاف حقیقی ہے تو لاہوری جماعت والوں کا چاہیے کہ وہ قادیانیوں کوکافر کہیں کیونکہ وہ ایک غیر نبی کو نبی مانتے ہیں اور سلسلہ نبوت جاری مانتے ہیں اسی طرح قادیانیوں کو بھی چاہیے کہ وہ لاہوریوں کو کافر کہیں کیونکہ وہ ایک سچے نبی کی نبوت کے منکر ہیں ۔ محمد علی لاہوری کے مرنے کے بعد جماعت کا امیر صدرالدین بنا اور اب ڈاکٹر نصیر احمد ہے ۔ان دوپارٹیوں کے علاوہ مرزائیوں کی چند اور پارٹیاں بھی ہیں مگر یہ دونوں پارٹیاں زیادہ مشہور ہیں ۔ ان دو پارٹیوں کا مباحثہ چا رنکات پر راولپنڈی میں ہو ا تھا ،جو کہ درج ذیل ہے: 
۱۔مرز اغلام احمد قادیانی کی پیش گوئی متعلقہ مصلح موعود کا مصداق کون ہے ؟
۲۔مرزا قادیانی کی جانشین انجمن ہے یا خلیفہ ؟
۳۔مرزا نبی ہے یا مجدد؟
۴۔  مرزا کا منکر کافر ہے یا نہیں ؟
یہ مباحثہ بصورت رسالہ ’’مباحثہ راولپنڈی ‘‘ کے نام سے شائع ہو ا، یہ ایک نہایت اہم رسالہ ہے اس میں دونوں پارٹیوں کے دلائل خود مرزا کی تحریرات سے موجود ہیں ۔
مرزا بشیر الدین کی وفات کے بعد اس کا بیٹا مرزا ناصر احمد خلیفہ بنا ، یہ برابر ۱۹۸۲ء تک خلیفہ رہا ۔بروز بدھ مورخہ ۸ اور ۹ جون ۱۹۸۲ء کی درمیانی شب ہارٹ اٹیک سے ہلاک ہوکر واصل جہنم ہوا ۔ اس کی موت کے بعد خلافت کے بارے میں جھگڑا ہوا بعض کی رائے تھی کہ مرزا بشیر الدین کے بیٹے مرزا رفیع احمد کو خلیفہ بنایا جائے جبکہ بعض مرزا طاہر احمد کے حق میں تھے ۔ بہرحال اسی کشمکش میں مرزا رفیع احمد کو اغوا کرلیاگیا اور یوں مرزا طاہر احمد جو مرزا ناصر احمد کا بھائی ہے خلیفہ بن گیا۔
﴿ باب دوم ﴾
مرزائیوں اور مسلمانوں کے مابین متنازع فیہ مسائل
تعین موضوع:
مرزائیوں اور مسلمانوں کے مابین متنازع فیہ مسائل تین ہیں :
۱﴾ حیات ووفات عیسیٰ علیہ السلام 
۲﴾ اجرائے نبوت و ختم نبوت
۳﴾ صدق وکذب مرز ا یعنی سیرت وکردار مرزا 
مرزائی عموماً کوشش کرتے ہیں کہ پہلے دو موضوعات پر بحث کی جائے تیسرے موضوع پر بحث کرنا انہیں موت نظر آتی ہے ، حتیٰ کہ بعض اوقات اس موضوع سے گھبراتے ہوئے وہ مناظرہ ہی کو خیر باد کہہ دیتے ہیں وہ عموماً حیات عیسیٰ یا اجرائے نبوت کے متعلق مناظرہ کرتے ہیں ، مگر ہمیں چاہیے کہ سب سے پہلے انہیں مجبور کریں کہ وہ سیرت مرزا پر مناظرہ کریں کیونکہ اصل بحث کسی مدعی ماموریت کی سیرت وکردار پر ہی ہونی چاہیے اگر اس کی سیرت وکردار بے داغ ہو تو پھر دوسرے مسائل کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ ہر مدعی پہلے اپنی سیرت قوم کے سامنے پیش کرتا ہے جیسا کہ نبی اکرم خاتم النبیین ﷺ نے اہل مکہ کے سامنے صفا پہاڑی پر چڑھ کر اپنی چالیس سالہ زندگی پیش کی ۔ قرآن مجید میں ہے :
’’ فقد لبثت فیکم عمرا من قبلہ افلا تعقلون ‘‘ 
اس لئے ہم بھی چاہتے ہیں کہ ہم سب سے پہلے مرزا صاحب کی زندگی اور کردار کو ان کی اپنی تحریروں کے آئینہ میں دیکھیں اگر وہ اپنی تحریروں کی رو سے ایک پاکیزہ سیرت ، شریف ، دیانتدار اور سچا انسان ثابت ہوجائے توا سکے تمام مسائل دعاوی کوبلا حیل و حجت مان لیں گے او ردوسرے مسائل میں بحث کرنے اور وقت ضائع کرنے کی ضرورت ہی نہ ہوگی اور اگر وہ کسی ایک بات میں جھوٹا ثابت ہوجائے تو بقول خود مرزا کے اس کی کسی بات کا اعتبار نہیں رہے گا چنانچہ مرزا صاحب خود تحریر کرتے ہیں کہ :
’’ ظاہر ہے کہ جب ایک بات میں کوئی جھوٹا ثابت ہوجائے تو پھر دوسری باتوں میں بھی اس پر اعتبار نہیں رہتا ۔ ‘‘ 
(چشمہ معرفت ج۲ ص۲۲۳، روحانی خزائن ص ۲۳۱ ج۲۳(
لہذا پہلے ہم مرزا صاحب کی سیرت وکردار دیکھتے ہیں ۔ 
ہم بلا خوف تردید کہہ سکتے ہیں کہ کسی مرزائی کے اند ر یہ جرأت نہیں ہے کہ وہ مرز اکو اس کی اپنی تحریروں کی رو سے ایک سچا اور شریف انسان ثابت کرسکے ۔ ہم آگے چل کر مشت نمونہ از خروارے اس کے کذاب ہونے کے چند دلائل پیش کریں گے لیکن اس بحث سے قبل ہم اپنی تائید میں مرز اصاحب کے دونو ں خلفاء کی تحریریں پیش کرتے ہیں ۔
حوالہ نمبر ۱﴾ ’’ جب یہ ثابت ہو جائے کہ ایک شخص فی الواقع مامور من اﷲ ہے تو پھر اجمالاً اس کے تمام دعاوی پر ایمان لانا واجب ہوجاتا ہے ……الغرض اصل سوال یہ ہوتا ہے کہ مدعی ماموریت فی الواقع سچا ہے یا نہیں اگر اس کی صداقت ثابت ہوجائے تو اسکے تمام دعاوی کی صداقت بھی ساتھ ہی ثابت ہوجاتی ہے اگر اس کی سچائی ہی ثابت نہ ہو تو اس کے متعلق تفصیلات میں پڑنا وقت کو ضائع کرنا ہوتا ہے ۔‘‘
(دعوۃ الامیر مصنفہ بشیرالدین محمود ص ۴۹،۵۰)
حوالہ نمبر۲﴾ ’’ خاکسار (بشیر احمد ایم ۔اے) عرض کرتا ہے کہ حضرت خلیفہ اول (حکیم نورالدین) فرماتے ہیں کہ ایک شخص میرے پا س آیا اور کہنے لگا کہ مولوی صاحب کیا نبی کریم ﷺ کے بعد بھی کوئی نبی ہو سکتا ہے ؟ میں نے کہا نہیں ۔ اس نے کہا کہ اگر کوئی نبوت کا دعویٰ کرے تو پھر ؟ میں نے کہا پھر ہم دیکھیں گے کہ کیا وہ صادق اور راست باز ہے یا نہیں ۔ اگر صادق ہے تو بہر حال اس کی بات کو قبول کریں گے ۔‘‘
(سیرۃ المہدی حصہ اول ص ۹۸ حدیث نمبر ۱۰۹(
ان دو حوالہ جات سے بخوبی معلوم ہوگیا کہ اصل بحث صدق و کذب پر ہونی چاہیے اگر وہ ہوہی جھوٹا تو پھر اس کے دعاوی وغیرہ پر بحث کرنے کی ضرورت ہی نہیں ۔ اب ہم اس بات پر دلیل دیں گے کہ وفات وحیات مسیح پر بحث کرنے کی ضرورت نہیں ۔٭
(جاری ہے...) 

     

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں