جمعرات، 28 اکتوبر، 2021

کیااللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتااورگمراہ کرتا ہے؟ - وقار اکبر چیمہ

Does Allah leaves to stray and guides whoever He wills?

ہدایت کا مطلب

ہدایت کا مطلب ہوتا ہے رہنمائی، رہبری، راہ دکھانا، سیدھا راستہ، بتانا۔ قرآن مجید ہدایت کو تین درجات میں تقسیم کرتا ہے اور مخصوص قسم کی ہدایت کو مخصوص درجہ(Level) کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔
پہلے درجہ کی ہدایت عالمگیری ہے اور یہ ہر شے کے لیے ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
قَالَ رَبُّـنَا الَّذِیۡۤ اَعْطٰی کُلَّ شَیۡءٍ خَلْقَہٗ ثُمَّ ہَدٰی
کہا کہ ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر شے کو اس کی خلقت عطا کی ‘ پھر ہدایت دی۔(سورہ طہ 50)
اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے ہر شہ کو ایک مخصوص شکل بخشی اور پھر ان چیزوں کو ان کے کردار کے مطابق ہدایت بخشی گئی۔ ہدایت کی یہ قسم انسان، جِن، جانور، پودوں اور باقی سب تخلیقات کے لیے ہے۔

دوسرے درجہ کی ہدایت انسانوں اور جنات کے لیے مخصوص ہے۔ اس قسم کی مدد سے لیے گئے کاموں کے وہ دونوں بروز قیامت جوابدہ ہوں گے۔ یہ ہدایت ہمیشہ سے موجود ہے اور جن و انس میں سے ہر کوئی آزاد ہے چاہے اسکو پہچان کر اس سے کام لے یا اس کو مسترد کر دے۔ ارشاد ربانی ہے:

وَ نَفْسٍ وَّ مَا سَوّٰىہَا(7)فَاَلْہَمَہَا فُجُوۡرَہَا وَ تَقْوٰىہَا(8) قَدْ اَفْلَحَ مَنۡ زَکّٰىہَا(9) وَ قَدْ خَابَ مَنۡ دَسّٰىہَا(10)

قسم ہے نفس کی اور اسے درست کرنے کی، پھر اللہ تعالیٰ نے اس نفس کو برائی سے بچنے اور پرہیز گاری اختیار کرنے کی سمجھ عطا فرمائی۔ پھر اس پر اس کی بدی اور اس کی پرہیز گاری واضح کر دی۔ بے شک وہ کامیاب ہو گیا جس نے نفس کو پاکیزہ بنا لیا۔ اور نا مراد ہوا وہ جس نے اس کو آلودہ کیا۔(سورہ الشمس7-10)

تیسری قسم کی ہدایت جن و انس میں سے ان کے لیے ہے جنہوں نے سچائی کے پیغام کو بغور سنا۔ یہ ہدایت انھیں سچائی کو پہچاننے میں مزید مدد کرتی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے :

والذین اھتدوا زادھم ھدی واتاھم تقوھم

وہ لوگ جنھوں نے ہدایت قبول کی اس نے انھیں ہدایت میں بڑھا دیا اور انھیں ان کا تقویٰ عطا کر دیا (سورہ محمد:17)

تو جب اللہ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ وہ لوگوں کو ہدایت نہیں بخشتا تو اس سے مراد صرف یہ تیسری قسم کی ہدایت ہوتی ہے اور یہ اللہ صرف اس وجہ سے کرتا ہے کہ وہ لوگ ان شرائط پر عمل پیرا نہیں ہوتے یا اس کی خواہش نہیں رکھتے جو اس ہدایت کو پا لینے کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔

جس کو اللہ چاہتا ہے اس کو اللہ ہدایت دیتا ہے کا مطلب

ایک چیز کو سمجھ لیا جائے کہ کوئی بھی قرآنی آیت قرآن کی باقی آیات اور احادیث کی روشنی میں ہی سمجھی جا سکتی ہے ۔ قرآن مجید میں کچھ آیات ہیں جن میں خدا کا فرمان ہے اللہ جس کو چاہتا ہے اس کو ہدایت بخشتا ہے اور جسے چاہتا ہے گمراہ چھوڑ دیتا ہے، مثلاً

…فَیُضِلُّ اللہُ مَنۡ یَّشَآءُ وَیَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَہُوَ الْعَزِیۡزُ الْحَکِیۡمُ

پھر خدا جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ اور وہ غالب اور حکمت والا ہے۔(سورہ ابراہیم:4)

بندے کے پاس اختیار ہے

قرآن مجید کی دوسری مختلف آیات اس بات کی تشریح کرتی ہیں کہ اللہ نے حق اور باطل میں ایک تفریق کر دی ہے اور حق و باطل کو بالکل نمایاں اور واضح کر دیا ہے۔ اب یہ بندے کی اپنی خواہش ہے وہ حق کو پسند کرتا ہے یا اس کو چھوڑ دیتا ہے ۔ جیسے پہلے بھی بیان ہوا:

وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا*فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا*قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا*وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاهَا(10)”

قسم ہے نفس کی اور اسے درست کرنے کی، پھر اللہ تعالیٰ نے اس نفس کو برائی سے بچنے اور پرہیز گاری اختیار کرنے کی سمجھ عطا فرمائی۔ پھر اس پر اس کی بدی اور اس کی پرہیز گاری واضح کر دی۔ بے شک وہ کامیاب ہو گیا جس نے نفس کو پاکیزہ بنا لیا۔ اور نامراد ہوا وہ جس نے اس کو آلودہ کیا(الشمس7-10)

وَقُلِ الْحَقُّ مِنۡ رَّبِّکُمْ ۟ فَمَنۡ شَآءَ فَلْیُؤْمِنۡ وَّ مَنۡ شَآءَ فَلْیَکْفُرْ ۙ اِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلظّٰلِمِیۡنَ نَارًا ۙ اَحَاطَ بِہِمْ سُرَادِقُہَا …(29)

اور ان سے کہہ دو کہ حق تمہارے رب ہی کی طرف سے(آ چکا) ہے، سو جس کا جی چاہے ایمان لے آئے اور جس کا جی چاہے کفر کرے ہم نے یقیناً تیار کر رکھی ہے ظالموں کے لئے ایک ایسی ہولناک آگ، جس کی لپیٹوں نے ان کو اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے۔(الکھف18)

وہ جنہیں اللہ ہدایت دیتا ہے

یھدی الیہ من اناب
(27)اور وہ جو اس کی طرف رجوع کریں انھیں(اللہ) ہدایت دہ دیتا ہے(الرعد:27)۔
وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللهَ لَمَعَ المُحْسِنِينَ

اور جنہوں نے ہماری راہ میں کوشش کی ضرور ہم انھیں اپنے راستے دکھا دیں گے اور بیشک اللہ نیکوں کے ساتھ ہے(العنکبوت:69)

اللَّهُ يَجْتَبي إِلَيْهِ مَنْ يَشاءُ وَ يَهْدي إِلَيْهِ مَنْ يُنيبُ

للہ جسے چاہتا ہے اپنے لئے چن لیتا ہے اور جو اس کی طرف رجوع کرے اسے اپنی طرف راستہ دکھا دیتا ہے(ہدایت دے دیتا ہے)(الشورٰی:13)

وہ جنہیں خدا گمراہ کرتا ہے

اسی طرح اللہ ہمیں بتاتا ہے کہ وہ کس کو گمراہ چھوڑتا ہے۔

وَمَا یُضِلُّ بِہٖۤ اِلَّا الْفٰسِقِیۡنَ

اور اس(سیدھے راستے سے اللہ) گمراہ نہیں کرتا سوائے نافرمانوں کے(البقرہ 26)
وَ یُضِلُّ اللہُ الظّٰلِمِیۡنَ ۟ۙ وَ یَفْعَلُ اللہُ مَا یَشَآءُ(27)اور اللہ نافرمانوں (ظالموں)پر راہ گم کر دیتا ہے اور وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے(ابراہیم:27)

اللہ گمراہ کیسے کرتا ہے؟

اب سوال پیدا ہوتا ہے اللہ گمراہ کیسے کرتا ہے؟ اس کا جواب اللہ بہت کھول کر اور واضح طور پر بتاتا ہے:

وَمَنۡ یُّشَاقِقِ الرَّسُوۡلَ مِنۡۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْہُدٰی وَیَتَّبِعْ غَیۡرَ سَبِیۡلِ الْمُؤْمِنِیۡنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَنُصْلِہٖ جَہَنَّمَ ؕ وَسَآءَتْ مَصِیۡرًا(115)

اور جو شخص سیدھا راستہ معلوم ہونے کے بعد پیغمبر کی مخالفت کرے اور مومنوں کے راستے کے سوا اور(کسی دوسرے) راستے پر چلے تو جدھر وہ چلتا ہے ہم اسے ادھر ہی چلنے دیں گے اور قیامت کے دن جہنم میں داخل کریں گے اور وہ بری جگہ ہے(النساء:115)
اللہ نے اپنے نشانوں سے یہ بات بالکل واضح کر دی ہے وہ لوگ جو حق کے ظاہر ہو جانے کے بعد حق کی طرف رجوع کریں گے ان کو اللہ ہدایت دے گا(تیسری قسم کی ہدایت) اور جو حق کے ظاہر ہو جانے کے باوجود باطل اور برائی کی طرف رجوع کریں گے اللہ ان کو ان کے پسندیدہ راستے کی طرف چھوڑ دیتا ہے(جو گمراہی کے راستے ہیں) تو ایسے لوگوں کو اللہ سزا دینے میں بھی حق بجانب ہے کیونکہ انہوں نے حق کے ان پر ظاہر ہو جانے کے بعد اس کو تسلیم نہ کیا۔

اللہ گمراہ کرتا ہے والی آیت کا مطلب(یُّغْوِیَکُمْ) 

عیسائی مشنری اور ملحدین بعض اوقات سورہ ھود کو آیت نمبر 34 بھی پیش کرتے ہیں۔ یہ امت نوح علیہ السلام کے لوگوں کے متعلق ہے۔نوح ؑ اپنی قوم سے کہتے ہیں :

وَلَا یَنۡفَعُکُمْ نُصْحِیۡۤ اِنْ اَرَدۡتُّ اَنْ اَنۡصَحَ لَکُمْ اِنۡ کَانَ اللہُ یُرِیۡدُ اَنۡ یُّغْوِیَکُمْ ؕ ہُوَ رَبُّکُمْ ۟ وَ اِلَیۡہِ تُرْجَعُوۡنَ

اور تمہیں میری نصیحت نفع نہ دے گی اگر میں تمہارا بھلا چاہوں جبکہ اللہ تمہاری گمراہی چاہے، وہ تمہارا رب ہے، اور اسی کی طرف پھرو گے(ھود34)
یہاں اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ نوح علیہ السلام یہ بات اس وقت کہہ رہے ہیں جب ان کی قوم ساری حدیں پار کر چکی تھی بلکہ اس عذاب کا مطالبہ کر رہی تھی جس سے ان کو پہلے ہی ڈرایا جا چکا تھا تو یہاں اللہ اپنا طریقہ اختیار کرتا ہے اور ایسے ظالموں کو ان کے ہی پسندیدہ راستوں پر مقرر کر دیتا ہے جو انہوں نے حق کو چھوڑ کر پسند کیے جیسا کہ پہلے بھی بیان ہوا۔ اور عین ممکن ہے یہ بات اس وقت کہی جا رہی ہے جب قوم نوح سزا دیے جانے کے قریب تھی کیونکہ یہی لفظ سزا اور تباہی کے معانی میں استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً قرآن میں ہم پڑھتے ہیں

فَخَلَفَ مِنۡۢ بَعْدِہِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوۃَ وَاتَّبَعُوا الشَّہَوٰتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّا

پھر ان کے بعد ایسے لوگ ان کی جگہ آئے جنہوں نے نمازوں کو برباد کیا، اور اپنی نفسانی خواہشات کے پیچھے چلے سو عنقریب ان کو گمراہی (کی سزا) ملے گی۔(مریم59)
کچھ لوگ الاعراف16 اور الحجر39 کو بھی اس سلسلہ میں پیش کرتے ہیں

قَالَ فَبِمَاۤ اَغْوَیۡتَنِیۡ لَاَقْعُدَنَّ لَہُمْ صِرٰطَکَ الْمُسْتَقِیۡمَ
(شیطان نے )کہا جیسا تو نے مجھے گمراہ کیا ہے میں بھی ضرور ان کی تاک میں تیری سیدھی راہ پر بیٹھوں گا(الاعراف 16)۔
قَالَ رَبِّ بِمَاۤ اَغْوَیۡتَنِیۡ لَاُزَیِّنَنَّ لَہُمْ فِی الۡاَرْضِ وَلَاُغْوِیَنَّہُمْ اَجْمَعِیۡنَ

اس(شیطان) نے کہا کہ پروردگار جس طرح تو نے مجھے گمراہ کیا ہے میں ان بندوں کے لئے زمین میں ساز و سامان آراستہ کروں گا اور سب کو اکٹھا گمراہ کروں گا۔(الحجر39)
مگر ہر عاقل شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ الفاظ شیطان کے ہیں جو اپنے شیطانی عزائم کا اظہار کر رہا ہے ان آیات کو اپنے معنوں میں صرف شیطانی روحیں ہی استعمال کرنے کی کوشش کر سکتیں ہیں!

دلوں پر مہر کرنے کا مطلب

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جب اللہ خود کہتا ہے کہ وہ خود کافروں کے دلوں پر مہر لگادیتا ہے تو ان کافروں کو ان کے اعمال کا ذمہ دار کیوں کر قرار دیا جا سکتا ہے؟
یہ کہنے کی اصلی وجہ پورے معاملے کو نہ سمجھنا ہے۔ اللہ صرف ان کافروں کے دل مہر کرتا ہے جو انتہائی ضد و کینہ کے ساتھ حق کے پیغام کو مسترد کر دیتے ہیں اور ان کے جو ہدایت کی دوسری قسم (جو کہ ہر ایک کے لیے ہے اور جسے پانے کے لیے صرف اپنی خواہش درکار ہوتی ہے) کو مسترد کر دیتے ہیں۔ ہم قرآن میں جب دیکھتے کہ اللہ کسی کہ دلوں کو مہر کرنے کا کہتا ہے تو اس سے مراد صرف وہ کافر ہوتے ہیں جو انتہائی بیہودگی سے حق کو مسترد کیے دیتے ہیں اور بجانب حق کوئی رجوع، خواہش نہیں رکھتے۔ البقرہ آیت نمبر 7، النساء آیت نمبر 168 اور سورہ نحل آیت نمبر 106 و 109 اس کی واضح مثالیں ہیں۔

خلاصہ

اس ساری بحث کا خلاصہ یہ کہ اللہ تعالی اپنی نشانیوں سے سب کو ہدایت دکھاتا ہے۔ وہ اپنے پیغمبر بھیجتا ہے جو خدا کا پیغام لے کر آتے ہیں اور وہ اس کے ذریعہ سے حق اور باطل کو بالکل واضح کر وا دیتا ہے۔ اس کے بعد جو شخص حق کو پہچاننے کی خواہش رکھتا ہے( ظاہر کرتا/ کوشش کرتا ہے) تو اللہ اس پر ہدایت کھول دیتا ہے۔ اور جو اس کے برخلاف بالکل گمراہ کیے جاتے ہیں وہ وہ لوگ ہیں جو باطل کی طرف رجوع کرتے ہوے حق کو چھوڑ دیتے ہیں اور جو اس گمراہی پر بضد ہو جاتے ہیں اللہ ان کے دلوں کو مہر کر دیتا ہے۔

     

خدا اور بھاری پتھر - راحیل فاروق

God and the heavy rock | Omnipotence paradox

 میں نے ایک گزشتہ مضمون میں اس طرف اشارہ کیا تھا کہ حقیقت کی جستجو میں جوابات ہی سے نہیں بلکہ خود سوالات سے بھی محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ مذہبی معاملات میں جس رویے کو ادب سے تعبیر کیا جاتا ہے اس کی بنیاد میں شاید یہی ادراک کارفرما ہے کہ جوابات کی طرح کچھ سوالات بھی بالکل غلط ہو سکتے ہیں۔ رومیؒ فرماتے ہیں:

بےادب تنہا نہ خود را داشت بد
بلکہ آتش در ہمہ آفاق زد

یعنی بےادب نے محض اپنی جان ہی کو نقصان نہ پہنچایا بلکہ گویا تمام عالم میں آگ لگا دی۔ ظاہر ہے کہ یہ بےادبی کوئی ذاتی اور محدود چیز نہیں ہو سکتی بلکہ کسی ایسے عمومی رویے یا دعویٰ پر مشتمل ہونی چاہیے جو نہ صرف غلط بلکہ گمراہ کن بھی ہو۔ گو جاہ پرست اور دین فروش اکابرینِ مذہب اس کو بھی اپنے نفس کی تسکین کے لیے استعمال کرنے کی بھرپور کوشش کرتے رہے ہیں تاہم ادب اپنی حقیقت میں غالباً محض اس خبرداری، احتیاط اور عجز کا نام ہے کہ بشر ہونے کے ناتے خود آپ کا سوال بھی کسی اور کے جواب کی طرح غلط ہو سکتا ہے۔

اب ذرا مدعا کی طرف آ جائیے۔ پرانے وقتوں سے ایک بحث دہریوں اور ایمان والوں کے درمیان چلی آتی ہے جو ذاتِ باری تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ سے متعلق ہے۔ اغلب ہے کہ یہ سوال آپ کی نظروں سے بھی کبھی نہ کبھی گزرا ہو گا۔ اگر نہیں تو اب ملاحظہ فرما لیجیے۔ دہریے اور متشککین عموماً اسے اس صورت میں پیش کرتے ہیں کہ کیا خدا ایک ایسا بھاری پتھر تخلیق کر سکتا ہے جسے وہ خود بھی نہ اٹھا سکے۔

پیچیدگی یہ ہے کہ یہ سوال خطرناک حد تک سادہ بھی ہے اور فتنہ انگیز بھی۔ یعنی غور کیجیے۔ اگر خدا قادرِ مطلق ہے تو یقیناً اس میں اتنی قوت ہونی چاہیے کہ وہ ایسا بڑا پتھر تخلیق فرما دے جسے وہ خود بھی نہ اٹھا سکتا ہو۔ لیکن پھر اگر خدا اپنا بنایا ہوا پتھر ہی نہ اٹھا سکے تو اس کی خدائی طاقت کے اس سے زیادہ منافی کچھ نہیں ہو سکتا۔ اور اگر وہ ایسا پتھر بنا ہی نہیں سکتا تو یہ بھی ایک طرح سے اس کی قدرت کا نقص ہے۔ یعنی خدا میں ہر کام کرنے کی طاقت تو نہ ہوئی نہ پھر۔ آگے کنواں پیچھے کھائی!

یہاں ایک لمحہ ٹھہر کر یہ سمجھ لیجیے کہ اگر آپ یہ سوال کرتے ہیں تو یہ ہرگز ہرگز کوئی بےادبی نہیں ہے۔ ملا کی ذاتِ پاک کو اس سے کوئی ٹھیس پہنچے تو پہنچے، خدا کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اور ملا کی انانیت کا لحاظ کرنے کی آپ کو کوئی ضرورت بھی نہیں ہے۔ ہاں، بےادبی یہ تب ہے کہ آپ اس سوال کی نسبت بالکل پریقین ہو جائیں کہ یہ ٹھیک ہے، اس کی بنیاد پرخود خدا بن کر فیصلے جاری کرنا شروع کریں اور تمام عالم میں وہ آگ لگا دیں جو ابھی تک محض آپ کے اندر لگی ہوئی ہے۔ کیونکہ اس سوال میں ایک بنیادی نقص موجود ہے۔

جی ہاں، اس سوال کے اندر ایک سوال موجود ہے جس کا فیصلہ کیے بغیر آپ اس کا جواب معلوم کرنا چاہ رہے ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے آپ مثلاً کچھ چیزوں کی خریداری پر آنے والے اخراجات کا حساب کر رہے ہوں اور ان میں سے ایک چیز کی قیمت آپ کو سرے سے معلوم ہی نہ ہو۔ فرض کیجیے کہ وہ چیز بھی ایسی ہو جس کی قیمت کا آپ تصور بھی نہ کر سکتے ہوں۔ اب آپ جتنا زور مار لیں یہ امکان نہ ہونے کے برابر ہے کہ آپ کل اخراجات کا ٹھیک ٹھیک اندازہ کر سکیں گے۔ ہے نا؟

یہی معاملہ اس سوال کے ساتھ ہے۔ کرنے والے نے اس میں ایک جھول ایسا چھوڑا ہے کہ جب تک اس سے نہ نمٹا جائے حل نکالنے کی کوشش ہی بےسود ہے۔ اور جب اس سے دو دو ہاتھ کر لیے جائیں تو سوال کا پھن بھی خودبخود گر جاتا ہے۔ مغالطہ اسی کو کہتے ہیں۔ اور میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ مغالطے (Fallacy) اور قولِ محال (Paradox) کا فرق مذہب فلسفے سے بہتر جانتا ہے۔

تو جھول یہ ہے کہ سوال کرنے والے نے قدرتِ کاملہ کو فرض تو کر لیا مگر یہ بات معلق رہنے دی کہ قدرتِ کاملہ کسے کہتے ہیں۔ اس سے بڑی گڑبڑ پیدا ہوئی۔ تاثر یہ قائم ہوا کہ قدرتِ کاملہ شاید اتنا بڑا پتھر بنا لینے کا نام ہے جو قادرِ مطلق خود بھی نہ اٹھا سکے۔ بلکہ نہیں۔ شاید اتنا بڑا پتھر نہ بنا سکنے کا نام ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان دونوں ممکنہ جوابات کو خود اس سوال نے قائم کیا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ دونوں کو عقل تسلیم نہیں کرتی۔ گویا یہ سوال درحقیقت کوئی سوال نہیں ہے بلکہ ایک اسی قسم کی پھلجڑی ہے جیسے میں، گستاخی معاف، آپ سے پوچھوں کہ آپ بندر ہیں یا گدھے۔ ظاہر ہے کہ آپ دونوں نہیں ہیں لیکن اگر آپ کو انھی دونوں جوابات میں سے کوئی منتخب کرنے پر مجبور کر دیا جائے تو؟

یہی کھیل اس سوال میں کھیلا گیا ہے۔ بڑی چابکدستی اور ہوشیاری سے سوال کرنے والا آپ کو قدرتِ کاملہ کی نوعیت آزادانہ طور پر سمجھنے کی اجازت دینے کی بجائے خود دو راہیں دکھا کر ان میں سے کوئی ایک اختیار کرنے کا پابند کر دیتا ہے۔ بھاری پتھر بنانا یا نہ بنانا؟ بندر یا گدھا؟ اب آپ ان میں سے جو بھی راہ چلیں گے خفت ہی اٹھائیں گے نا۔

رہ گیا یہ سوال کہ قدرتِ کاملہ کیا ہے تو اس کا جواب ہر عاقل شخص کے فہم کی بنیاد میں موجود ہے۔ قدرتِ کاملہ کا جوہر یہی ہے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہو۔ یعنی ہم انسان جس چیز کا تصور بھی نہ کر سکیں وہ وہ بھی کر سکے۔ اجتماعِ ضدین یعنی دو متضاد چیزوں کا ایک جگہ جمع ہو جانا تو بہت چھوٹی چیز ہے۔ اگر آپ خود منطق کا سہارا لے کر بھی قدرتِ کاملہ کی تعریف کریں تو وہ یہ تسلیم کرتی ہے کہ اسے منطق کا پابند ہونے کی ضرورت نہیں۔ اور زیرِ بحث نقیضین یعنی اتنا بڑا پتھر بنا سکنا یا نہ بنا سکنا محض منطقی لحاظ سے ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ قادرِ مطلق تو خود منطقی اعتبار سے بھی ہونا ہی وہی چاہیے جس کے لیے ان دونوں کو اکٹھا کرنا ۱ چنداں دشوار نہ ہو۔ ورنہ قادرِ مطلق کہاں کا؟ کیا خیال ہے؟۲


۱ اجتماعِ نقیضین محال ہونے کا ضابطہ اہلِ علم کی مجالس میں اکثر زیر بحث آتا ہے، البتہ علماء کا موقف بھی اس سلسلے میں یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کو ضابطوں کا پابند ماننا درست نہیں۔ نیز وہ اجتماعِ نقیضین پر بھی قادر ہے۔ یہ جواب کافی اور تسلی بخش ہے۔ (مدیر)
۲بشکریہ اردو گاہ، 14 اکتوبر 2018
     

کیامسلمان ملحدین سےاپنی نبیؐ کےاحترام کامطالبہ کرتےہیں؟ - ذیشان وڑائچ

Do Muslims force atheists to respect their prophet?

 توہین رسالت کے ضمن میں کچھ ملحدوں اور غیر مسلموں کا سٹیٹس نظر آیا جن کا خلاصہ یہ تھا کہ عزت زبردستی نہیں کروائی جاسکتی اور یہ کہ ان سے نبیؐ کے عزت کروانے کی کوشش عبث ہے۔

یہ پیغام خود ایک عبث پیغام ہے۔ ہم مسلمان ملحدوں اور غیر مسلموں سے قطعاً یہ مطالبہ نہیں کر رہے ہیں کہ وہ نبی اکرمؐ کی عزت کریں۔ اگر وہ عزت کریں تو یہ یقینا ان کی خود قسمتی ہوتی، لیکن ہمارا مطالبہ یہ ہے ہی نہیں۔ ہم اتنی سمجھ ضرور رکھتے ہیں کہ جو محمدؐ کے بارے میں یہ گمان رکھتا ہو انہوں نے اللہ سے منسوب کر کے جھوٹا پیغام دیا وہ ان کی عزت نہیں کرسکتا۔

چونکہ بحث کا تناظر توہین رسالت ہے اس لئے اس پیغام سے جو چیز واضح ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ملحدوں اور ان گستاخ پرستوں کے نزدیک دو میں سے کسی ایک چیز کا ہی اختیار ہے۔ یا تو نبیؐ کی عزت و احترام کریں جیسا کہ عام طور پر مسلمان کرتے ہیں یا ان کے اندر سے کوئی شدید قسم کا دماغی داعیہ پیدا ہوتا ہے جس کے تتیجے میں یہ نبیؐ پر ققرے یا بھپتی کستے ہیں یا طعنے دیتے ہیں۔ حالانکہ جس کی دماغی کیفیت صحیح ہوتی ہے اس کے لئے ایک بہت ہی سادہ سا آپشن یہ بھی ہوتا ہے کہ خاموش رہے، یا پھر منطقی اور مہذب انداز میں اپنا نکتہ نظر پیش کرے۔ ہجو گوئی اور وہ بھی اس ذات کے بارے میں جن کا احترام دیڑھ ارب انسان کرتے ہیں ذہنی پستی کے علاوہ اور کس چیز کی علامت ہے؟

جو لوگ نبیؐ کو نبی نہیں مانتے منطقی اور علمی اعتبار سے ہمارا ان سے یہ مطالبہ ہے کہ۔۔

نبی یا اسلام کے کسی بھی شعائر سے متعلق بات کرتے ہوئے منطقی انداز میں توجیہات کے ساتھ بات کریں۔ توجیہات بتانے سے پہلے آپ پہلے ہی سے اپنا نتیجہ اخذ کرکے گالی سے بات کریں گے تو پھر یہاں پر آپ کی عقل شروع ہونے سے پہلے منطقی بحث کا امکان ختم ہوچکا ہوتا ہے۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کے پاس محمدؐ کی مخالفت کرنے کے لئے کوئی ٹھوس گراؤنڈ موجود ہے تو پھر آپ کو اپنا نتیجہ بیان کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ آپ کی توجیہات خود نتیجہ بیان کردے گی۔ ہاں اگر آپ خود اپنی توجیہات کے بارے میں متشکک ہیں تو پھر آپ کو اپنی بات میں زور پیدا کرنے کے لئے طعنے بازی، نیم کالنگ(Name calling)، بھپتیاں، فقرے بازی، ہجو گوئی جیسی گھٹیا اور غیر علمی حرکات کا اضافہ کرنا پڑے گا۔ ایسا کر کے آپ صرف اپنا مقدمہ کمزور کر رہے ہوتے ہیں۔ اور اگر نبیؐ کے بارے میں ہی اپنی اس ذپنی پستی کا اظہار کرنے پر آپ کا اصرار ہے تو پھر آپ خود اپنے آپ کو انسانیت کے مقام سے نیچے گرا دیتے ہیں۔ جب آپ عقل کے بجائے اپنی ذہنی پستی یا گھٹیا پن کا اظہار کرنے پر ہی مصر ہیں تو پھر انسانی بنیاد پر مسلمان اجتماعیت سے اپنے کسی حق کا مطالبہ کرنے پر اصرار نری حماقت ہے۔

جب آپ بحث میں کسی مذہبی علامت یا شخصیت کے بارے میں توہین آمیز رویہ اختیار کرتے ہیں تو دراصل یہ اس بات کا اعلان ہوتا ہے کہ اس خاص معاملے میں آپ عقل اور Reasoning نام کی چیز سے کوسوں دور ہیں۔ آپ کے دماغ نے عقل کوreasoning کے لئے نہیں بلکہ بدزبانی اور مغلظات کے لئے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ایک دوسرے انسان کے ساتھ معاملہ کرتے ہوئے جذبات نام کی کسی چیز کو بھی کوئی قدر نہیں دیتے۔

بحث کے دوران گالی اور توہین آمیز انداز اختیار کرنا اپنی حقیقت کے اعتبار سے بحث کو عقل کے دائرے سے نکال سفلی جذبات، طعنے مارنا، شناعت بازی، کمینگی اور ذہنی پستی کے مقابلے میں میدان میں لے آتا ہے۔ جب آپ یہ رویہ اختیار کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ انسانی رفعت کو چھوڑ کر شعوری پستی میں مبتلا ہیں۔ یہاں پراگر ہم یا کوئی مسلمان آپ سے مقابلہ کرتا ہے تو پھر ہمیں اسی میدان کا کھلاڑی ہونا چاہئے۔ آپ کو سمجھنا چاہئے کہ یہ ہمارا میدان نہیں بلکہ شیاطین کا میدان ہے۔ یہاں پر ہماری مجبوری یہ ہے کہ ہم دلیل کا مقابلہ دلیل سے کرسکتے ہیں اور تلوار کا مقابلہ تلوار سے۔ لیکن اس ذہنی پستی اور کمینگی کا مقابلہ کرنے کے معاملے میں ہم تہی دامن ہیں اس لئے مشتعل ہوجانا ایک فطری مجبوری ہے۔

دوسری طرف انسانی شعور کی رفعت کا ایک اور مظہر عقل کے ساتھ ساتھ تعلقات، رشتوں کا احترام اورمحبت کے مراکز ہیں ۔ انسان اپنی معاشرت میں چاہے وہ قومیت ہو، مذہب ہو، خاندان ہو، اپنے کچھ تعلقات اور محبت کے مراکز رکھتا ہے اور اس کے بارے میں حساس ہوتا ہے۔ ایک فرد اپنے محبت کے مراکز کے بارے میں کوئی غلط بات یا گالی سننے کا روادار نہیں ہوتا۔ کسی کے مرکز محبت کی توہین کرنا یا اس کو گالی دینا اس فرد کے لئے ذہنی اذیت کا باعث بنتا ہے۔

اگر آپ کو لگتا ہے کہ مسلمانوں نے اپنے لئے محبت کے غلط مراکز قائم کر لئے ہیں اور نبیؐ کے بارے میں ان کا یہ رویہ غیر عقلی ہے تو ایسے میں ایک عقل مند فرد کا طرز عمل یہ ہونا چاہئے کہ وہ توہین آمیز رویہ اختیار کرنے کے بجائے اپنے مؤقف میں عقلی دلائل فراہم کرے اور واضح کرے کہ ہم نے اپنے لئے ایک غلط محبت کا مرکز چن لیا ہے۔ چونکہ یہ چیزیں انسانی شعور، نفسیات اور رویوں سے متعلق ہوتی ہیں اس لئے پوری طرح منطقی دائرے میں نہیں آتی۔ اس لئے یہاں اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کے صحیح ہونے کے باوجود مسلمان آپ کی بات نہیں مان رہے ہیں تو اس بات کا پورا امکان موجود ہوتا ہے کہ آپ خود غلط ہوں۔ اگر آپ اس کو مسلمانوں کا نفسیاتی مسئلہ سمجھ رہے ہیں تو پھر اس بات کا پورا امکان موجود ہے کہ یہ خود آپ کا نفسیاتی مسئلہ ہو۔ اس لئے بدزبانی اور مغلظات کسی بھی صورت میں اس کا حل نہیں ہیں۔

مسلمان نبیؐ سے بے انتہا محبت اور احترام کا تعلق رکھتے ہیں۔ اگر آپ مسلمانوں کے نبیؐ کے معاملے میں منطقی انداز اور باہمی انسانی مفاہمت کا معاملہ نہیں کرتے، اگر آپ کو لگتا ہے کہ نبیﷺ کے بارے میں بات کرنے کے لئے آپ کے پاس طعنے، بھپتاں، فقرے بازی، بدزبانی اور مغلظات ہی ہیں تو پھر آپ مسلمانوں سے کیا توقع رکھتے ہیں؟ منطق اور جذبات تو انسانی شعور کی رفعت کی ہم ترین علامت ہیں اور جب آپ بار بار اسی انسانی رفعت پر حملہ آور ہیں تو ہم آپ کو انسان تسلیم ہی کیوں کریں؟


بشکریہ الحاد ڈاٹ کام
     

منگل، 26 اکتوبر، 2021

"سربکف" میگزین 10


اس شمارے کے مضامین نیچے لسٹ کی شکل میں موجود ہیں۔ مزید مضامین شائع ہوتے ہی نیچے فہرست میں خودکار طور پر شامل ہو جائیں گے۔
شائع شدہ مضامین نیچے فہرست میں کلک کر کے پڑھے جا سکتے ہیں۔ یہ ویب سائٹ مکمل طور پر آپٹیمائزڈ ہے اور تمام ڈیوائسز کے لیے کمپیٹبل ہے۔ نستعلیق اور عربی فانٹ کی سپورٹ کا خیال رکھا گیا ہے۔

کچھ یاد دہانیاں

(مجلے کی کافی عرصے غیر حاضری کے سبب یاد دہانی کے طور پر یہ چند باتیں درج ہیں۔ مکمل تفصیلات "تعارف" کے ذیل میں دیکھی جا سکتی ہیں)
دو ماہی ”سر بکف“ مجلہ، ایک آن لائن میگزین ہے جو سر بکف گروپ کے تحت جاری کئی پروجیکٹس میں سے ایک ہے۔ ابتدائی طور پر میگزین ہی واحد چیز تھی، جو بعد میں ایک فری لانس پلیٹ فارم کے طور پر "سر بکف گروپ" کے نام سے سامنے آئی۔ بعد ازاں کتب کی اشاعت سے لیکر ترجمے، ویب سائٹ ڈیزائننگ اور ایپس تک، سبھی مرحلہ وار شامل ہوتے گئے۔
موضوعات کے تنوع کے اعتبار سے مجلۂ ھذا آن لائن دنیا میں اپنی نظیر کی پہلی میگزین ہے۔ موضوعات کےتنوع کے باوجود، سر بکف میگزین کا مرکزی موضوع مذہب ہے ۔
سر بکف ہمیشہ پی ڈی ایف کی شکل میں شائع ہوتا رہا، البتہ اس کا متن محفوظ کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی رہی۔ چنانچہ آئندہ شمارے پہلے ویب سائٹ پر یونیکوڈ میں پیش کیے جائیں گے، اور پھر انہیں حسبِ روایت خوبصورت پرنٹ ایبل پی ڈی ایف کی شکل دی جائے گی، ان شاء اللہ!
اللہ حامی و ناصر ہو۔
فقیر شکیبؔ احمد
مدیر سربکف مجلہ

فہرستِ مضامین