”سربکف “مجلہ۴ (جنوری ، فروری ۲۰۱۶)
حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی
(٣) سفیان بن عینیہ اور فضل بن عیاض دونوںبزرگ حسین جعفی کے شاگرد تھے ان میں سے ایک نے حسین کا ہاتھ دوسرے نے پائوں چوما۔ (آداب شرعیہ ٢/٢٧٢)
(٤) امام احمد نے دائود بن عمر کی رکاب تھامی تھی ۔
(٥) خلف احمر کا بیان ہے کہ امام احمد میرے پاس ابو عوانہ کی مرویات سننے کے لیے آئے میں نے بہت کوشش کی کہ ان کو بلند جگہ پر بیٹھائوں مگر انھوںنے فرمایا کہ میں توآپ کے سامنے ہی (شاگردوں کی جگہ پر ) بیٹھوں گا ہم کو حکم دیا گیا ہے کہ ہم جس سے علم حاصل کریں اس کے لیے تواضع کریں ۔ (آداب شرعیہ ٢/ ٢٥)
(٦) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ کسی صحابی کے پاس حدیث کا پتہ چلتا تو میں خود اُن کے دروازہ پر حاضر ہوتا تھا وہ اگر سوئے ہوتے تو میںباہر ہی اپنی چادر سر تلے رکھ کر پڑجاتا اور دھول پھانکتا رہتا جب وہ برآمد ہوتے اور فرماتے کیسے تشریف لائے آپ نے آدمی بھیج کر بلوا کیوں نہیں لیا تو میں کہتا میں ہی اس کا حقدار ہوں کہ حاضری دوں ۔ (آداب شرعیہ ٢/٢٧)
(٧) حضرت ابراہیم نخعی نے حماد بن ابی سلیمان (استاذ امام ابوحنیفہ ) کو ایک دن بازار گوشت لانے کے لیے بھیجا راستہ میں اتفاق سے ان کے والد مل گئے جوسواری پرچلے آرہے تھے ۔ حماد کے ہاتھ میں زنبیل دیکھ کر انھوںنے ان کو بہت ڈانٹا ا ور زنبیل چھین کر پھینک دی لیکن جب نخعی کے انتقال کے بعد طالبین حدیث حماد کے دروازہ پر حاضر ہوئے اور دستک دی تو حماد کے والد ہی ہاتھ میں شمع لے کر آئے طلبہ نے کہا ہم آپ کے پاس نہیں آئے بلکہ آپ کے صاحبزادے کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں ، وہ اُلٹے پائوں اندر واپس آئے او رحماد سے کہا بیٹا تم اورلوگوں کے پاس جائو، میں سمجھ گیا، زنبیل ہی نے تم کو یہاں تک پہنچایا ۔( مقدمة نصب الرایہ ٣٤)
(٨) حماد بن سلیمان کی ہمشیرہ عاتکہ کہتی ہیں کہ امام ابوحنیفہ ہمارے گھر کی روئی دُھنتے تھے ہمارا دودھ اور ترکاری خریدتے تھے، اور اسی طرح کے اوربہت سے کام کرتے تھے اس واقعہ کو نقل کرکے علامہ کوثری فرماتے ہیں کہ طالب علمی میں اسلاف اس طرح خدمت گزاری کرتے تھے اور اسی سے انہوں نے علم کی برکت پائی۔(تقدمہ ٣٤)
(٩) خلال نے روایت کی ہے کہ امام احمد ایک بار حضرت وکیع کی خدمت میں آئے اس وقت ان کے پاس علمائے کوفہ کی ایک جماعت حاضرتھی ۔ امام احمد ادباً وتواضعاً وکیع کے سامنے بیٹھ گئے ،لوگوں نے کہا کہ شیخ تو آپ کی بہت عزت کرتے ہیں،امام احمد نے فرمایا کہ وہ میری عزت کرتے ہیں تو مجھ کو بھی توان کی تعظیم واحترام لازم ہے ۔ (آداب ٢/٤)
(١٠) امام ابو عبید فرماتے ہیں کہ میں کبھی کسی محدث کے دروازہ پرحاضر ہواتو اطلاع بھجواکر داخلہ کی اجازت نہیںمنگائی بلکہ بیٹھا انتظار کرتا رہا تاآنکہ وہ خود برآمدہوئے۔ میں نے ہمیشہ قرآن پاک کی اس آیت سے جوادب مستفاد ہے اس پر نظر رکھی ولو انھم صبروا حتی تخرج الیھم لکان خیرالھم یعنی کاش وہ لوگ صبر کرتے تاآنکہ آپ باہر نکلتے تو ان کے لیے بہتر ہوتا۔ (آداب ِشرعیہ ٢/٤)
(١١) صاحب ِھدایہ فرماتے ہیں کہ بخارا کے ایک بہت بڑے امام اپنے حلقۂ درس میں درس دے رہے تھے مگر اثناء درس میں کبھی کبھی کھڑے ہوجاتے تھے جب اسکا سبب دریافت کیا گیا تو فرمایا کہ میرے استاذ کا لڑکا گلی میں بچوں کے ساتھ کھیل رہا ہے کھیلتے کھیلتے وہ کبھی مسجد کے دروازے کے پاس بھی چلا آتا ہے تو میں اُس کیلیے بقصدِ تعظیم کھڑا ہوجاتا ہوں ۔ (تعلیم المتعلم/٧)
(١٢) قاضی فخرالدین ارسابندی مرو میں رئیس الائمہ تھے ،بادشاہ وقت بھی ان کا بے حد احترام کرتے تھے وہ فرماتے تھے کہ میں نے یہ منصب صرف استاذ کی خدمت کے طفیل میں پایا ہے علاوہ اور خدمتوں کے تیس برس تک میں اپنے اُستادقاضی ابو زید دبوسی کا کھانا پکایا کرتا تھا اور کبھی اس میں سے کھاتانہ تھا۔
(١٣) خلیفہ ہارون رشید نے اپنے لڑکے کو علم وادب کی تعلیم کے لیے امام اصمعی کے سپرد کردیا تھا ،ایک دن اتفاقاً ہارون وہاں جاپہنچے دیکھا کہ اصمعی اپنے پائوں دھورہے ہیں اور شہزادہ پائوں پر پانی ڈال رہا ہے،ہارون نے بڑی برہمی سے فرمایا کہ میں نے تواس کو آپ کے پاس اس لیے بھیجا تھا کہ اس کو ادب سکھائیں گے ،آپ نے شہزادوں کو یہ حکم کیوں نہیں دیا کہ ایک ہاتھ سے پانی گرائے اور دوسرے ہاتھ سے آپ کے پیر دھوئے۔
اُستاذ کے ساتھ عقیدت :
(١٤) حضرت مرزاجان ِجاناں نے علم حدیث کی سند حضرت حاجی محمد افضل صاحب سے حاصل کی تھی، مرزا صاحب کا بیان ہے کہ تحصیل علم سے فراغت پانے کے بعد حضرت حاجی صاحب نے اپنی کلاہ جو پندرہ برس تک آپ کے عمامہ کے نیچے رہ چکی تھی مجھے عنایت فرمائی ۔میں نے رات کے وقت گرم پانی میں وہ ٹوپی بھگو دی ، صبح کے وقت وہ پانی املتاس کے شربت سے بھی زیادہ سیاہ ہوگیا تھا میں اس کو پی گیا، اس پانی کی برکت سے میرا دماغ ایسا روشن اور ذہن ایسا رسا ہوگیا کہ کوئی مشکل کتاب مشکل نہ رہی۔ (مقامات ِمظہری ٢٩)
بات چیت میں تمیز اورادب کی تعلیم :
(١٥) سلطان نظام الدین اولیاء رحمہ اللہ کا ارشاد ہے کہ ہمارے پیر حضر ت فرید گنج شکر رحمہ اللہ کے پاس ''عَوَارِفُ الْمَعَارِفْ'' کا جو نسخہ تھا اُس کا خط باریک تھا اور غلط بھی بہت تھا ۔شیخ جب اُس کو سامنے رکھ کر بیان فرماتے تو جگہ جگہ کچھ غور کرنا اور رُکنا پڑتا تھا۔ مجھے یاد آیا کہ شیخ کے بھائی نجیب الدین متوکل کے پاس عوارف کا بہت عمدہ وصحیح نسخہ موجود ہے لہٰذا میں نے اس کو شیخ سے کہا ،شیخ کو یہ بات گراں گزری ،چند دفعہ فرمایا کہ جی ہاں اس فقیر کو غلط نسخہ کی تصحیح کی لیاقت نہیں ہے ۔پہلے تو میں نہیں سمجھا لیکن جب میری سمجھ میں آیا کہ میری نسبت یہ فرمارہے ہیں تو میں کھڑا ہوگیااوراپنے سر سے ٹوپی اُتارکر اپنا سرشیخ کے قدموں میں ڈال دیا اور عرض کیا کہ معاذاللہ میری یہ غرض نہیں تھی بلکہ میں نے وہ نسخہ دیکھا تھا یاد آگیا ،آپ سے عرض کیا لیکن میری معذرت کچھ مؤثر نہیں ہوئی ۔شیخ کے بشرہ سے ناخوشی کا اثر بالکل پہلے جیسا ظاہر ہوتاتھا، میں سخت حیرانی وپریشانی کی حالت میں مجلس سے باہر آیا ، اُس دن جو غم مجھ کو تھا وہ کسی کونہ ہو، جی چاہتا تھا کہ کنویں میںگرکے جان دے دُوں، میرے اس اضطراب کی خبر شیخ کے صاحبزادہ مولانا شہاب الدین کو ہوئی ،وہ مجھ سے بہت محبت فرماتے تھے انھوں نے میرا حال بہت اچھے انداز میں شیخ سے بیان کیا اُس وقت شیخ خوش ہوئے اور مجھ کو بُلا کر بڑی شفقت ومہربانی کا اظہار فرمایا اور ارشاد کیا کہ:''یہ سب میں نے تمہاری حالت کے کمال کے لیے کیاتھا کہ پیر مشاطۂ مرید ہے ''۔اس کے بعد شیخ نے اپنی خاص پوشاک سے مجھ کو سرفراز فرمایا ۔ (اخبار الاخیار / ٦٩)
(١٦) امام احمد کے پاس حضرت عبداللہ بن مبارک کے مولی (آزاد کردہ غلام )آئے،توامام نے ان کی طرف تکیہ بڑھادیا اور ان کی بڑی عزت کی ،امام کا معمول تھا کہ کوئی قابلِ عزت آدمی آتا تو اپنا تکیہ (یا مسند ) اُس کی طرف بڑھا دیتے تھے ۔ایک بار ابوہمام آپ کے پاس سواری پر آئے تو امام نے رکاب تھام لی (آداب شرعیہ ١/٤٧٠)
(١٧) ایک بار حضرت وکیع ، امام سفیان ثوری کے لیے تعظیماً کھڑے ہوئے توانھوںنے اعتراض کیا، حضرت وکیع نے فرمایا کہ آپ ہی نے یہ حدیث نبوی مجھے سنائی ہے ''ان من اجلال اللّٰہ اجلال ذی الشیبة المسلم'' امام سفیان خاموش ہو گئے اور وکیع کا ہاتھ پکڑ کر اُن کو اپنے پہلو میں بٹھا لیا ۔( الاداب الشرعیہ١/٤٦٨)
(١٨) محدث کبیر امام ابوزرعہ نہ کسی کے لیے کھڑے ہوتے نہ کسی کو اپنے مسند پر بٹھاتے تھے مگر محدث ابن وارہ کے لیے یہ دونوں کام کرتے تھے ۔ (الاداب الشرعیہ١/٤٦٨)
(١٩) سلیمان بن عبدالملک امیرا لمؤمنین جب حج کو گئے تو اپنے دونوں بیٹوں کو ساتھ لے کر عطاء ابن ابی رباح کی خدمت میں مسائل پوچھنے کے لیے حاضر ہوئے۔ حضرت عطاء اُس وقت نماز پڑھ رہے تھے ، سلیمان بیٹھے انتظار کرتے رہے ،جب عطاء فارغ ہوئے تو انھوں نے سلیمان کی طرف رُخ بھی نہیں کیا۔ سلیمان اسی طرح مناسک ِحج پوچھتے رہے جب پوچھ چکے تو اپنے بیٹوں سے کہا اُٹھو چلو، پھر کہا بیٹو! علم حاصل کرنے میں سستی نہ کرو، میں اس حبشی غلام کے سا منے اپنے ذلیل ہونے کو نہیں بھول سکتا۔ (صفوة الصفوة ٢/١١٩)
(٢٠) سعیدبن مسلم کہتے ہیں کہ جلالت وعظمت میں علم سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہے۔ ابن داب انساب و اخبار کے حافظ تھے اور خلیفہ ہادی کے ندیم، مگر اس کے ساتھ یا اس کے سامنے کھانا نہیں کھاتے تھے۔ سبب پوچھا گیا تو کہا کہ میں ایسی جگہ کھانا نہیں کھاتا جہاں ہاتھ نہ دھوسکوں۔ خلفاء وملوک کے سامنے ہاتھ دھونا دربار کے آداب کے خلاف تھا۔ہادی کو معلوم ہوا تو اُس نے ان کو اپنے سامنے ہاتھ دھونے کی اجازت دی ،چنانچہ اور سب لوگ کھانے سے فارغ ہونے کے بعد باہر جا کر ہاتھ دھوتے تھے اور ابن داب ہادی کے سامنے ہاتھ دھویا کرتے تھے۔(معجم الادباء ١٦/١٥٥)
(٢١) حاکم خراسان عبداللہ بن طاہر کے صاحبزادے طاہر اپنے باپ کی زندگی میں حج کو آئے تو اسحاق بن ابراہیم نے اپنے گھر پر علمائے مکہ کو مدعو کیا تاکہ طاہر اِن سے مل لے اور اِن سے کچھ پڑھے ۔ اس دعوت کو اور سب لوگوں نے تو قبول کیا اور ہر قسم کے اہلِ علم شریک مجلس ہوئے مگر ابوعبید رحمة اللہ علیہ نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ''العلم یقصد'' یعنی علم کے پاس خود آناچاہیے ۔اسحاق اس جواب پرخفاہوگیااور عبداللہ بن طاہر کی طرف سے ابوعبید کو دوہزار درہم ماہانہ وظیفہ ملتا تھا اُس کو بند کردیا ،اور ابو عبید کے جواب کی اطلاع ابن طاہرکے پاس بھیج دی۔ ابن طاہر کو جب یہ اطلاع پہنچی تو اس نے اسحاق کولکھ بھیجا کہ ابوعبید نے بالکل سچی بات کہی ہے اور آج سے میںان کا وظیفہ دوچند کرتا ہوں ،تم اس پر عمل کرو اور اُن کا بقایا ادا کرو۔ (معجم الادباء ١٦/٢٦١)
تذکرة السامع کی ایک فصل کا خلاصہ :
قاضی القضاة امام بدرالدین بن جماعة نے تعلیم وتعلم کے آداب اور اُستادوشاگرد کے باہمی برتائو کے باب میں ایک نہایت جامع اورنفیس کتاب لکھی ہے ۔اس کے تیسرے باب کی دوسری فصل کا عنوان یہ ہے الفصل الثانی فی آداب مع شیخہ وقدوتہ وما یجب علیہ من عظیم حرمتہ ۔ (دوسری فصل استاذومقتداکے ساتھ ادب،اوراس احترام عظیم کے بیان میں جو شاگردپرواجب ہے) یہاں پر ہم اسی فصل کے مضامین کاخلاصہ پیش کرنا چاہتے ہیں :
(١) لازم ہے کہ شاگرد اپنے جملہ اُمور میں اپنے اُستاد کا مطیع ومنقادرہے ، اس کی رائے وتدبیر سے باہر نہ ہو، جس طرح بیمار حکیم حاذق کے ہاتھ میں ہوتا ہے اسی طرح اپنے کو اس کے ہاتھ میں دیدے ،جس بات کا قصد کرے اس میں مشورہ کرے اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرے، اس کے احترام میں مبالغہ اور اس کی خدمت کو قرب ِخداوندی کا موجب جانے اور یقین کرے کہ استاد کے سامنے ذلیل ہونا عزت ہے ،اس کے لیے جھکنا فخر ہے اوراس کے لیے تواضع سربلندی۔امام شافعی کو کسی نے ملامت کی کہ علماء کے لیے اس قدر کیوں تواضع کرتے ہیں؟تو فرمایا :
اھین لھم نفسی فھم یکرمونھا
ولن تکرم النفس التی لا تھینھا
یعنی میں اپنے کواُن کے آگے ذلیل کرتا ہوں تووہ میری عزت افزائی کرتے ہیں اور جس نفس کو تو ذلیل نہ کرے اُس کی عزت نہیں ہو سکتی۔
حضرت ابن عباس نے باوجود اپنی بزرگی ومرتبہ کے (کہ خاندان نبوت میں سے تھے اور رسول خدا ۖکے چچا زاد بھائی ) حضرت زید بن ثابت انصاری کی رکاب اپنے ہاتھ سے تھامی اور فرمایا کہ ہم کو اپنے علماء کے ساتھ ایسا ہی برتائو کرنے کا حکم ملا ہے۔ حضرت امام احمد (باوجود اپنی دینی وعلمی عظمت وامامت کے)جب خلف احمر لغوی کی مجلس میں جاتے تو فرماتے کہ میں آپ کے سامنے ہی بیٹھوں گا (یعنی شاگردوں کی طرح بیٹھوں گا،برابر نہیں بیٹھ سکتا)ہم کو یہی حکم ہے کہ جس سے علم سیکھیں اس کے لیے تواضع کریں۔
(٢) اپنے اُستاذ کو بڑی عظمت کی نگاہ سے دیکھے اوراُس کے کمال کاپختہ اعتقاد رکھے۔ سلف میں بعض حضرات یہ دعا کرتے تھے کہ خدا وندا !میرے اُستاذ کا عیب مجھ پر ظاہر نہ ہو کہ اس سے بے اعتقادی پیدا ہو کر میرے پاس سے اس کے علم کی برکت جاتی رہے۔
امام شافعی فرماتے ہیں کہ میں امام مالک کے سامنے ورق بھی بہت آہستہ اُلٹتا تھا کہ اس کی آواز اُن کو سنائی نہ دے۔ امام ربیع فرماتے ہیں کہ امام شافعی کی نظر کے سامنے مجھ کو کبھی پانی پینے کی جرأت نہ ہوئی۔
خلیفہ مہدی کا کوئی لڑکا قاضی شریک کے پاس آیا اور دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا ۔پھر اُس نے ایک حدیث پوچھی ، شریک نے کچھ توجہ نہیں کی ، اُس نے پھر پوچھا، انھوںنے پھر توجہ نہیں کی ، تب اُس نے کہا آپ خلفاء کی اولاد (شہزادوں ) کی بے حرمتی کرتے ہیں ۔شریک نے فرمایا کہ ہاں مگر علم اللہ کے نزدیک اِس سے کہیں برتر ہے کہ میں اس کو برباد کروں۔
اپنے استاذکو دور سے نہ پکارے، اور یا سیدی، یا اُستاذی اور ایھا العالم ، ایھا الحافظ کہہ کے پکارے ،عربی میں جمع کا صیغہ ماتقولون اور مارأیکم اختیار کرے ۔اس کی غیبوبت میں بھی تعظیمی القاب کے ساتھ اُس کا ذکر کرے، تنہا نام نہ لے۔
(٣) اُس کا حق پہچانے اور کبھی اس کا احسان نہ بھولے ،امام شعبہ کا ارشاد ہے کہ میں ایک حدیث بھی کسی سے سن لیتا ہوں تو اُس کی زندگی بھر کے لیے اُس کا غلام بن جاتاہوں ۔ تعظیم اُستاد میں یہ بھی داخل ہے کہ کوئی اُس کی غیبت کرے تو تم تردید کرو، اوراستاد کی حمایت کرو اور اگر یہ نہ کرسکو تو اس مجلس سے اُٹھ جائو وینبغی ان ید عولہ مدة حیاتہ ویرعی ذریتہ واقاربہ واولادہ بعد وفاتہ ویتعمد زیارة قبرہ والاستغفار لہ والصدقة عنہ ویسلک فی السمت والھدی مسلکھم ویراعی فی العلم والدین عادتہ ویقتدی بحرکاتہ وسکناتہ فی عاداتہ وعباداتہ یعنی شاگرد کو چاہیے کہ استاد کی زندگی بھر استاد کے لیے دعا کرے اورمرنے کے بعد اُس کی اولاد اوررشتہ داروں اور اُس کے دوستوں کا لحاظ کرے اور بالقصد اُس کی قبر کی زیارت، اُس کے لیے استغفاراور اُس کی طرف سے صدقہ کرے اوراس کے چال ڈھال کی پیروی کرے،علم ودین میں اُس کی عادات کا لحاظ ،اور خواہ عبادت ہو یا عادت ہرایک میںاس کے حرکات وسکنات کی اقتداکرے۔
جس طرح سے امام ابودائود امام احمد کے ، اور وہ وکیع کے ، اور وہ سفیان کے اوروہ منصور کے ، اور وہ ابراہیم نخعی کے اور وہ علقمہ کے ،اور وہ حضرت ابن مسعود کے،اوروہ رسول ِخدا ۖ کے مشابہ تھے، نشست وبرخاست میں رفتاروگفتار میں۔
(٤) اُستاد سے سخت مزاجی یا بد خلقی بھی صادر ہوتو صبر کرے ،اور ا س کی وجہ سے اُس کے پاس آنے جانے میں یا عقیدت میں فرق نہ پڑنے پائے ۔ لازم ہے کہ اس کے فعل کی کوئی عمدہ تاویل کرے اوراس سختی وبدمزاجی کے موقع پر اپنے ہی کو قصوروار قراردے اور معذرت میں سبقت کرے اور اپنی حرکت سے توبہ واستغفار کرنا ظاہر کرے،اسی میں شاگرد کی دنیا وآخرت کانفع ہے۔ امام معانی بن عمران نے فرمایا کہ جو عالم پر خفا ہوتا ہے اُس کی مثال اُس شخص کی ہے جو جامع مسجد کے کھمبوں پر خفاہو۔
ابن عینیہ سے کسی نے کہا کہ یہ طالب علم لوگ اتنی دُور دُور سے آپ کے پاس آتے ہیں اور آپ اِن پرخفا ہوتے ہیں کہیں وہ آپ کو چھوڑ کر چل نہ دیں۔ابن عینیہ نے کہا وہ تمہارے ہی جیسے احمق ہوں گے اگر میری بدخلقی کی وجہ سے اپنے نفع کی چیز چھوڑدیں۔
امام ابو یوسف نے فرمایاکہ انسان پر عالم کی مدارات واجب ہے یعنی اُس کی تندی وسختی کو اپنی نرمی سے دفع کرنا۔
(٥) اُستاد کوئی اچھی بات بتائے یا کسی بری بات پر تنبیہ کرے تو اُس کی شکر گزاری ضروری ہے اورجب وہ کوئی نکتہ بتائے توتمہیں اگر پہلے سے وہ معلوم ہے جب بھی یہ ظاہر نہ کرو کہ یہ تو مجھ کو پہلے سے معلوم ہے ۔
(٦) اُستاد کے دروازہ پر ا دب کے ساتھ آہستہ دستک دے۔ پہلے ناخنوں سے دستک دے، نہ کام چلے تو انگلیوں سے، ہاں اگر دُور رہتا ہو تو بقدرِضرورت دستک کی آواز بڑھا سکتا ہے ۔اُستاد کے پاس گیا اوروہاں کچھ لوگ اُس سے بات کررہے ہوں اور اُس کو دیکھ کر خاموش ہوگئے تو یہ جلدی سے اُٹھ کرچلاآئے الایہ کہ اُستادخود مزید ٹھہرنے کے لیے کہے ۔اُستاد سورہا ہے تو اُس کو جگائے نہیں بلکہ انتظار کرے۔ حضرت ابن عباس حضرت زید کے دروازہ پر بیٹھے اُن کا انتظار کرتے رہتے تھے، لوگ کہتے کہ جگادیا جائے تو فرماتے کہ نہیں ،حالانکہ کبھی کبھی دیر تک انتظار کرنے کی وجہ سے دھوپ کی تکلیف برداشت کرنا پڑتی۔
(٧) اُستاد کے سامنے نہایت ادب سے بیٹھے جس سے تواضع وخضوع اورسکون وخشوع مترشح ہوتا ہو ، اورہمہ تن اُس کی طرف متوجہ ہو، بلاضرورت دائیں بائیں اُوپر نیچے نہ دیکھے ،کوئی شورسن کر مضطرب نہ ہو جائے، اُستاد کے پاس بیٹھا ہواآستین نہ چڑھائے ،ہاتھ پیر سے نہ کھیلے، ڈاڑھی اورمنہ پر ہاتھ نہ رکھے ،ناک نہ کریدے،دانتوں پر ناخن سے نہ مارے، زمین پر ہاتھ نہ ٹیکے، اس پر لکیر نہ بنائے، انگلی نہ چٹخائے، گھنڈی یا بٹن سے نہ کھیلے، اُس کے سامنے کسی چیز سے ٹیک نہ لگائے، کسی چیز پر ہاتھ ٹیک کے نہ بیٹھے ، ہاتھ پر ٹیک لگائے پیچھے کو جھکا ہوا نہ رہے، اُس کی طرف پیٹھ یا پہلو نہ کرے، زیادہ بات نہ کرے، بے ضرورت کھنکھارے نہیں ، نہ تھوکے ، نہ بلغم نکالے، چھینکے تو منہ چھپا کے بہت آہستہ سے۔
طلبہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نصیحتیں :
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حقوق ِعالم کے باب میں جو نصیحتیں کی ہیں اُن میں ایک یہ ہے کہ عالم کو کوئی کام پیش آئے تو تم اُس کا کام کرنے کے لیے سب سے آگے بڑھو، اُس کی مجلس میں آہستہ آہستہ بات کرو، خدا کے واسطے اس کی توقیر کرو، اُس سے لغزش ہو جائے تو اُس کی معذرت قبول کرو۔
دوسرے بزرگوں نے فرمایا کہ اُستاد کے پہلو میں نہ بیٹھو ، وہ کہے تب بھی نہ بیٹھو مگر جب جانو کہ نہ بیٹھنے سے اُس کو صدمہ ہوگا تب مضائقہ نہیں ہے۔
(٨) اُس کے ساتھ بڑے ادب سے گفتگو کرے۔ علماء نے فرمایا ہے کہ اس سے لِمَ ؟ (کیوں) نہ کہے، اسی طرح لَا نُسَلِّمُ (ہم نہیں مانتے )یا مَنْ نَقَلَ ھٰذٰا (اس کو کس نے نقل کیا ہے) یا اَیْنَ مَوْضِعُہ (یہ کہاں لکھا ہے) یہ الفاظ نہ بولے۔
بعض سلف نے فرمایا کہ جو اپنے استاد سے لِمَ (یعنی یہ کیوں؟ ) کہے وہ کبھی فلاح نہ پائے گا، اُستاد سے بات کرنے میںاِس کا خیال رکھے کہ اس طرح کے الفاظ نہ آنے پائیں سمجھا؟ ہے نا؟ وغیرہ۔
(٩) جو بات تم کو معلوم ہے اُس کو بھی اُستاد کی زبان سے اس طرح سنو جیسے تمہیں معلوم نہ تھی اور اس کی طلب تھی اوراس پر خوشی کا اظہار کرو بلکہ اگر اس کو شروع کرنے کے بعد تم سے پوچھے کہ تم کو معلوم ہے تو یوں جواب دو کہ میں حضرت کی زبان سے اس کو سننا چاہتا ہوں یا جناب جو بات فرمادیں گے وہ زیادہ صحیح ہوگی وغیرہ وغیرہ ۔
(١٠) اُستاد کو کوئی خط ،درخواست یا استفتاء وغیرہ تہ کیا ہوا نہ دے کہ اس کو کھولنے کی زحمت ہو، اسی طرح کتاب دے تو اُلٹی نہ دے ،کوئی خاص مقام دکھانا ہوتو وہ مقام نکال کردے اور جگہ بتادے۔ اُستاد کوئی چیز دیتا ہو تو اس طرح نہ لے کہ خود اُستاد کو ہاتھ بڑھانا یا کھسکنا پڑے ۔اسی طرح کوئی چیز اس سے لینے کے لیے کھسک کرنہ جائے بلکہ کھڑے ہوکراور اپنے پیر یا ہاتھ وغیرہ سے اُستاد کے کپڑوں کو نہ دبائے ، قلم دے تو روشنائی میں ڈبو کر ، دوات سامنے رکھے تو کھول کر ، اُستاد کے سامنے خود مصلیٰ پر نہ بیٹھے ،اُستاد مجلس سے کھڑا ہوتو فوراً اُس کا جوتا پیش کرے یا سیدھا کرے، یا کسی اعانت کا محتاج ہوتو اُس اعانت کے لیے شاگردوں کو مبادرت کرنی چاہیے۔
(١١) اُستاد کے ساتھ رات کو آگے اوردن کو پیچھے چلے، مگر جب کہ اس کے خلاف میں کوئی دوسری مصلحت ہو تو خلاف میں مضائقہ نہیں۔ نامعلوم مقامات میںجیسے کیچڑ کی جگہ ، ناپدان ، نالی وغیرہ کے پاس خود آگے بڑھ جائے۔ آگے چلے تو ہر تھوڑی دیر کے بعد مڑ کر اُستاد کو دیکھ لے، اُستاد کی رائے غلط بھی ہوتو یہ نہ کہے کہ غلط ہے یا یہ رائے ٹھیک نہیں ہے بلکہ اِس طرح کہے کہ مجھ کویوں کرنے میں مصلحت معلوم ہوتی ہے ۔ (تذکرة السامع والمتکلم از ٨٧ تا ١١٢)
الآداب الشرعیہ ٢/١٧٩ میں ابن الجوزی کے حوالہ سے چند آداب مذکور ہیں۔از انجملہ یہ کہ جب محدث کوئی ایسی حدیث بیان کرے جس کو سامع طالب علم پہلے سے جانتا ہے تو اُس کو اس میںمداخلت نہ کرنی چاہیے ۔ حضرت عطائ فرماتے ہیں کہ کبھی کبھی بعض نوجوان مجھ سے کوئی حدیث بیان کرتے ہیں اور میں اُس کو اِس طرح سنتاہوں جیسے وہ میرے کان میں نہیں پڑی ہے حالانکہ میںاس کو اس نوجوان کی پیدائش سے پہلے سن چکاہوں۔ ابن وہب بھی اپنی عادت یہی بیان کرتے تھے۔ حضرت عطائ کی مجلس میں ایک شخص نے ایک حدیث بیان کرنی شروع کی، ایک دوسرا شخص بیچ میں دخل دینے لگا توانھوں نے فرمایا مَا ھٰذِہِ الْاَخْلَاقْ مَا ھٰذِہِ الْاَخْلَاقْ میں تو بعض آدمیوں کی زبانی ایک حدیث سنتاہوں اور اس کوبیان کرنے والے سے زیادہ جانتا ہوں پھر بھی اس طرح سنتا ہوں جیسے مجھے کچھ نہیں معلوم۔(صفة الصفوة ٢/١٢١)
خالد بن صفوان نے کہا جب تمہارے سامنے کوئی آدمی تمہاری سنی ہوئی حدیث یا جانی ہوئی خبر بیان کرے تو یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ میں اِس کوجانتا ہوں اس میں شرکت نہ کرومثلاً بیچ بیچ میں بول نہ پڑو کہ ایساکرناخفیف حرکت اور بے ادبی ہے ۔
ازانجملہ یہ ہے کہ جب طالب علم کو کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو صبر کرے تا آنکہ اُستاد کی بات ختم ہو ،اُس کے بعد ادب اور نرمی سے پوچھے، درمیان میں اُن کی بات نہ کاٹے ۔ایک حکیم نے اپنے لڑکے کو نصیحت کی حُسنِ کلام کی طرح حُسنِ استماع بھی سیکھنے کی ضرورت ہے۔ اور حسنِ استماع یہ ہے کہ متکلم کو اپنی بات پوری کرنے کی مہلت دو،اور اپنا منہ اور نگاہ اُس کی طرف متوجہ رکھو اور کوئی بات تمھیں معلوم بھی ہو تو دخل مت دو خاموشی سے سنو۔
از انجملہ یہ ہے کہ دوسرے سے کوئی مسئلہ یا بات پوچھی جارہی ہوتو تم مجیب نہ بن جائو ۔ حکیم لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا اِیَّاکَ اِذَسُئِلَ غَیْرُکَ اَنْ تَکُوْنَ الْمُجِیْبُ خبر دار! دوسرے سے سوال ہوتو تم مجیب نہ بنو۔ ابن ِبطہ کہتے ہیں میں ابو عمر زاہد کی مجلس میں تھا ،کسی نے اُن سے ایک مسئلہ پوچھا ، میں نے پیش قدمی کرکے جواب دے دیا، تو ابو عمر نے میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ آپ فضولیات کے ماہر معلوم ہوتے ہیں ، یہ سن کر میں بہت شرمندہ ہوا۔
اسی کتاب الآداب الشرعیہ میں ہے کہ ابو عبیدفرماتے تھے علم کا شکریہ بھی ہے کہ تم جب کسی سے علمی مذاکرہ کرو، اوراُس مذاکرہ سے تم کو نئی معلومات حاصل ہوں تو بعد میںجب کبھی ان معلومات کا ذکر آجائے تو تم کو صاف صاف کہنا چاہیے کہ مجھے ان کی نسبت کچھ معلوم نہ تھا،تا آنکہ فلاں سے مذاکرہ ہوتو اُس نے مجھے یہ بتایا،ایسا کروگے تو علم کا شکریہ ادا ہوگااِس طرح بیان نہ کرو کہ گویا تم اپنی طرف سے یہ تحقیق بیان کررہے ہو۔ (٢/١٧٩)
اسی کتاب میں امام شافعی سے منقول ہے کہ اس علم کو کوئی حکومت اور عزتِ نفس سے حاصل کرکے فلاح نہ پائے گا ،ہاں جواِس کو ذلت نفس اور عسرت برداشت کرکے اور علم کی خدمت اور تواضع کرکے حاصل کرے وہ فلاح پائے گا ۔ (الآداب الشرعیہ ٢/٢٧)
اصمعی سے منقول ہے کہ جو آدمی شاگردی کی ذلت تھوڑی دیر برداشت نہ کرے وہ جہالت کی ذلت میں عمر بھر گرفتار رہے گا۔ ابن المعتز نے کہا کہ جو طالب متواضع ہوگا اُسی کو زیادہ علم حاصل ہوگا ،جس طرح پست جگہ میں زیادہ پانی اکٹھا ہوتا ہے ۔حضرت زین العابدین مسجد میںآتے تو انبوہ میںگھس کر زید بن اسلم (حضرت عمر کے آزاد کردہ غلام )کے حلقہ میں جا بیٹھتے، کسی نے ٹوکا تو فرمایا کہ علم کی شان یہی ہے اُس کے پاس آیا جائے اورطلب کیا جائے جہاں کہیں بھی ہو ۔ امام شافعی فرماتے ہیں کہ ایک دن امام اعمش کسی طالب علم پر غضبناک ہو گئے ،دوسرے طالب علم نے کہا مجھ پر اِس طرح خفا ہوتے تو میںان کے پاس بھی نہ آتا ، یہ سن کر امام اعمش نے فرمایا کہ تمہاری طرح وہ بھی احمق ہے کہ میری کج خلقی کی وجہ سے اپنے نفع کی چیز چھوڑبیٹھے۔(الآداب الشرعیہ٢/٢٨۔٢٩)
علامہ ابن الجوزی نے فرمایا کہ اپنے سے زیادہ عمر یا علم والے کی موجودگی میں تحدیث ِنعمت نہ کرے ۔امام شعبی جب ابراہیم نخعی کے ساتھ ہوتے تھے تو ابراہیم کلام نہیں فرماتے تھے ۔امام سفیان ثوری نے ابن عینیہ سے ایک بار فرمایا کہ آپ حدیث کیوں نہیںسناتے یعنی روایت حدیث کا مشغلہ کیوں نہیں اختیار فرماتے ؟ تو انھوں نے کہا کہ آپ جب تک زندہ ہیں اُ س وقت تک تو یہ نہ کروں گا۔ حضرت سمرہ بن جندب فرماتے ہیں کہ میں عہدنبوی میں لڑکا تھا جوسنتا تھا محفوظ ہوجاتا تھایعنی معلومات کی کمی نہیں ہے مگر میں خاموش رہتا ہوں کہ مجھ سے معمر صحابہ موجود ہیں، ابن ہبیرہ نے کہا کہ اس سے یہ مستفاد ہوتا ہے کہ نوعمروں کے لیے شیوخ کی توقیر متعین ہے۔(الآداب الشرعیہ ٢/١٤٧)
ابن معین نے فرمایا کہ جو شخص ایسے شہر میںحدیث بیان کرے( حلقۂ تحدیث قائم کرے)جہاں اس سے بہتر محدث موجود ہووہ احمق ہے، انھوں نے یہ بھی فرمایا کہ جس شہر میں علی بن مسہر جیسا محدث موجود ہو وہاں میں محدث بنوں تو میں اِس لائق ہوں کہ میری ڈاڑھی مونڈ دی جائے۔ (الآداب الشرعیہ ٢/٧٠)
بہت اختصار کے ساتھ چند متفرق باتوں کو یکجا کرکے میں نے یہاں پیش کیاہے اگر استیعاب کا ارادہ کیا جائے تو بہت طوالت ہوجائے گی ۔وفی ھذا القدر کفایة۔( بشکریہ ماہنامہ ندائے شاہی ،انڈیا)٭
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں