منگل، 12 فروری، 2019

اللہ کی ذات کے متعلق علماء دیوبند کا موقف

”سربکف “مجلہ۴  (جنوری ، فروری ۲۰۱۶)
عباس خان ﷾
تمام اہلسنت والجماعت کا اجماعی عقیدہ ہے کہ
وقال الإمام الحافظ الفقيه أبو جعفر أحمد بن سلامة الطحاوي الحنفي (321 ھ) في رسالته  
(متن العقيدة الطحاوية)ما نصه: "وتعالى أي الله عن الحدود والغايات والأركان والأعضاء والأدوات، لا تحويه الجهات الست كسائر المبتدعات " اهـ. 

امام الطحاوي الحنفي (وفات 321ھ) كبار علماء السلف میں سے ہیں اپنی کتاب (العقيدة الطحاوية ـ جو کہ تمام اہلسنت والجماعت کہ ہاں مسلم ہے)  فرماتے ہیں:
الله تعالی ” مکان و جھت و حدود“ سے پاک ہے۔ 
(متن عقیدہ طحاویہ ص 15)
اب ہر وہ عقیدہ جس سے اللہ کیلئے حدود ، جسم یا جھت ثابت ہوتی ہے اسے علماء دیوبند ترک کرتے ہیں۔
اللہ تعالٰی ہر جگہ ہے اس کا علماء دیوبند کے نزدیک کیا معنی ہے؟
علماء دیوبند کے نزدیک اللہ تعالٰی جگہ/مکان میں ہونے سے پاک ہے یعنی  اللہ موجود ہے مگر بلا مکان۔
حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں :
  (اللہ تعالٰی کے) ہر جگہ ہونے کے اس عقیدہ ہی کی کوئی دلیل نہیں۔ جب وہ صرف جگہ میں ہونے سے پاک ہے کئی جگہوں میں اس کا ہونا تو بہت دور کی بات ہے۔
آگے لکھتے ہیں:
اگر چہ اس محاورہ (اللہ ہر جگہ ہے) میں گنجائش زیادہ ہے کیونکہ اس سے مراد کسی جگہ میں ہونے کی قید کا نہ ہونا ہے۔
(تسھیل تربیت السالک ج 3 صفحہ 118)
یعنی کہ علماء دیوبند کے نزدیک اللہ ہر جگہ کہنے سے کسی جگہ میں اللہ کی قید کی نفی کرنا ہے۔ جیسے کوئی  کہے کہ اللہ یہاں ہے وہاں نہیں تو کہا جا سکتا ہے کہ اللہ ہر جگہ ہے۔
شیخ الاسلام حضرت مولانا  محمد مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سورۃ بقرہ آیت ۱۱۵ کی تفسیر میں  فرماتے ہیں:
اللہ تعالٰی کسی ایک جہت میں محدود نہیں وہ ہر جگہ موجود ہے۔
 ( آسان ترجمہ قرآن  سورۃ ۲،  البقرۃ: ۱۱۵)
علماء دیوبند کے نزدیک ایسا کہنا کہ اللہ عرش پر ہے یا آسمانوں پر ہے اور اس کا علم ہر جگہ ہے کہنا بھی درست ہے۔بشرطیکہ اللہ کی ذات کی تخصیص یا اسکی ذات کیلئے کوئی جگہ مقرر کرنی نہ ہو۔ مقصود اِس نفی سے اُس  بات کی نفی کرنی ہو جو اللہ کی شان کے لائق نہ ہو اور اس سے کوئی لازم سمجھ سکتا ہو۔ 
ایسی ہی ایک جگہ حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں : میرے نزدیک جن حضرات نے احاطۂ ذاتی کی نفی کی ہے غالباً مقصود ان کا نفی کرنا ہے تجسیم (جسم) کی۔ یعنی احاطہ ذاتی سے متبادر محیط و محاط کا اتصال حسی ہے جو کہ عامہ (عامی) کے نزدیک احاطہ ذاتی کی لوازم سے ہے پس اصل مقصود لازم کی نفی ہے اور اس کیلئے ملزوم کی نفی کر دی جاتی ہے۔ 
(امداد الفتاویٰ جلد 6 ص 63)

کیونکہ یہ ایک  حقیقت ہے کہ اسلاف نے باطل گروہوں کے عقائد کی نفی کیلئے یا کم فہموں کیلئے ان باتوں کا درجہ ظن میں اثبات کیا ہے جو کہ وہ پہلے نہیں کیا کرتے تھے۔
علماء دیوبند کے عقائد کی کتاب المہند علی المفند جس پر علماء حرمین کے بھی دستخط موجود ہیں اس میں ایک جگہ علماء حرمین کی طرف سے یہ سوال ہوا ہے کہ :
ماقولكم في امثال قوله تعالي الرحمن علي العرش استوي هل تجوزون اثبات جهة و مكان للباري تعالي ام كيف رايکم فيه
ترجمہ: کیا کہتے ہیں حق تعالٰی کے اس قسم کے قول میں  کہ رحمٰن عرش پر مستوی ہوا، کیا جائز سمجھتے ہو باری تعالٰی کیلئے جہت و مکان کا ثابت کرنا یا کیا رائے ہے؟
الجواب :
قولنا في امثال تلك الايات انا نؤمن بها و لا يقام كيف و لومن بالله وسبحانه و تعالٰي متعال و منزه عن صفات المخلوقين وعن سمات النقص والحدوث كما هو راي قد مائنا واما ما قال المتاخرون من ائمتنا في تلك الايات يا ولونها بتاویلات صحیحة سائغة في اللغة  و الشرع بانه يكمن المراد من الاستواء الاستيلاء و من اليد القدرة الي غير ذلك تقريباً الي  افهام القاصرين فحق ايضا عندنا و اما الجهة والمكان فلا نجوز اثباتهما له تعالٰي ونقول انهتعالي منزه و متعال عنهما وعن جميع سمات الحدوث
ترجمہ: اس قسم کی آیات میں ہمارا مذہب یہ ہے کہ ان پر ایمان لاتے ہیں اور کیفیت سے بحث نہیں کرتے یقین جانتے ہیں کہ اللہ سبحانہ و تعالٰی مخلوق کے اوصاف سے منزہ اور نقص و حدوث کی علامات سے مبرا ہے جیسا کہ ہمارے متقدمین کی رائے ہے اور ہمارے متاخرین اماموں نے ان آیات میں جو صحیح اور لغت شرع کے اعتبار سے جائز تاویلیں فرمائی ہیں تاکہ کم فہم سمجھ لیں مثلا یہ کہ ممکن ہے استواء سے مراد غلبہ ہو اور ہاتھ سے مراد قدرت تو یہ بھی ہمارے نزدیک حق ہے۔ البتہ جہت و مکان کا اللہ تعالٰی کیلئے ثابت کرنا ہم جائز نہیں سجھتے اور یوں کہتے ہیں کہ وہ  جہت و مکانیت اور جملہ علامات حدوث سے منزہ و عالی ہے۔ 
(المہند علی المفند ص 38۔39)
بائن الخلۃ
مخلوق سے جدا
علماء دیوبند کے نزدیک اللہ تعالٰی  کی ذات قدیم ہے جیسا اللہ مخلوق کو پیدا کرنے سے پہلے تھا اب بھی ویسا ہی ہے۔
پھر اس نے مخلوقات کو پیدا فرمایا اور کسی مخلوق میں یہ ہمت نہیں کہ پیدا ہونے کے بعد وہ خدا کی ذات کے ساتھ متحد ہو جائے۔
اللہ تعالٰی کا کسی کے ساتھ اتحاد اور حلول نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی چیز اللہ کے ساتھ متحد(جڑجانا)  یا حل (مکس ہوجانا) ہو سکتی ہے۔ اللہ تعالٰی کی ذات قدیم ہے اور قدیم ،حادث  (جو بعد میں پیدا ہوئے) کے ساتھ متحد و حل نہیں ہو سکتا اتحاد اور حلول وہاں ہوتا ہے جہاں دو چیزیں ایک ہی جنس کی ہوں اور ظاہر ہے کہ اللہ تعالٰی نہ تو جنس جواہر ہے اور نہ ہی جنس اعراض ۔
مولانا ادریس کاندھلویؒ فرماتے ہیں:
حق تعالٰی کسی چیز کے ساتھ متحد نہیں ہوتا اور نہ کوئی چیز اس کے ساتھ متحد ہوتی ہے اور نہ کوئی چیز اس میں حلول کرتی ہے اور نہ وہ کسی شئے میں حلول کرتا ہے۔
(عقائد اسلام ص 59)
اللہ اپنی ذات کے ساتھ  متحد ہے کا عقیدہ دو طرح سے نکل سکتا ہے ایک یہ کہ اللہ کی ذات کو جسم و جھت سے پاک نہ مانا جائے اور دوسرا اس طرح کہ اللہ کی ذات کیلئے  کوئی جگہ مقرر کر دی جائے اور کہا جائے کہ اس کے بعد سے اللہ کی ذات نہیں پھر مخلوقات شروع ہوتی ہیں۔ اب جہاں سے بھی اللہ کی ذات ختم قرار دی جائے گی  پھر اس عقیدے سے یہ بھی لازم آئے گا کہ اللہ کی ذات اور اس کے بعد جو بھی مخلوقات ہیں وہ آپس میں متحد ہیں یا اگر اللہ  کی ذات اور مخلوق کے درمیان کوئی فاصلہ مقرر کر دیتے ہیں  تو وہ فاصلہ بھی ٖغیر اللہ  یعنی کہ مخلوقات میں ہی شامل ہو گا۔ اسلئے اب کسی بھی طرح یہ عقیدہ رکھنا جائز نہیں۔  
٭٭٭

     

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں