منگل، 12 فروری، 2019

عذاب الٰہی سے کیسے بچا جائے

”سربکف “مجلہ۴  (جنوری ، فروری ۲۰۱۶)
مفتی آرومند سعد
موجودہ دور میں اپنے ماحول کو بغور دیکھا جائے تو حضور اکرم ﷺ کے ارشادات روز روشن کی طرح سامنے آ جاتے ہیں۔ آقا علیہ السلام نے آخری زمانے کا جو نقشہ آج سے صدیوں پہلے بیان کیا تھا آج ہو بہو وہی باتیں عملی طور پر سامنے آ رہی ہیں۔ من جملہ ان پیشن گوئیوں کے ایک پیشن گوئی فتنوں کی بہتات اور عذاب الہی کا نازل ہونا ہے ۔ چنانچہ آج کا معاشرہ بدامنی ، فساد، قتل و غارت ، مال و جان کے عدم تحفظ سمیت کئی فتنوں میں مبتلا ہے ۔ 
ان حالات میں ایک مسلمان کا ذہن اس طرف جاتا ہے کہ کیا شریعت نے ہمیں اس دور کے لئے کچھ راہنمائی فراہم کی ہے ؟۔ کیا عذاب الہی سے بچنے کا کوئی ذریعہ ہے جس کو اختیار کر کے غضب خداوند کو ٹھنڈا کیا جا سکے ؟۔ زیر نظر مضمون بھی دراصل اسی طرح کے ایک سوال کا جواب ہے ، کہ عذاب الہی سے کیسے بچا جا سکتا ہے ۔ 
ہم ذیل میں مختصراً عذاب الہی سے بچنے کے ذرائع کا ذکر کرتے ہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ مجھے اور پورے عالم کے مسلمانوں کو اس پر عمل کی توفیق مل جائے اور اللہ تبارک و تعالی ہمیں دنیا اور آخرت کے عذاب سے محفوظ فر ما دے ۔ آمین۔ 
گناہوں سے کنا رہ کشی: 
سب سے اہم اور مقدم طریقہ اللہ تعالی کے عذاب سے بچنے کا یہ ہے کہ انسان گناہوں سے دور رہے اور اپنے دل کو گناہوں کے زنگ سے آلودہ نہ کرے ۔ کیونکہ عذاب نازل ہونے کی بنیادی سبب انسانی اعمال ہیں۔ 
ارشاد باری تعالی ہے : 
وَمَا أَصَابَكُم مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَن كَثِيرٍ 
] سورۃ ۴۲، الشوری: 30[
ترجمہ: اور تم کو جو مصیبت پہنچتی ہے تو وہ تمھارے اپنے ہی ہاتھوں کے کئے ہوئے کاموں کی بدولت ہوتی ہے اور بہت سی باتوں سے تو اللہ در گزر ہی کر دیتا ہے ۔ 
صحیح بخاری شریف میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے : 
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ عُقَيْلٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ أَنَّ زَيْنَبَ ابْنَةَ أَبِي سَلَمَةَ حَدَّثَتْهُ عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ بِنْتِ أَبِي سُفْيَانَ عَنْ زَيْنَبَ ابْنَةِ جَحْشٍ - رضى الله عنهن أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم دَخَلَ عَلَيْهَا فَزِعًا يَقُولُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَيْلٌ لِلْعَرَبِ مِنْ شَرٍّ قَدِ اقْتَرَبَ فُتِحَ الْيَوْمَ مِنْ رَدْمِ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ مِثْلُ هَذِهِ وَحَلَّقَ بِإِصْبَعِهِ الإِبْهَامِ وَالَّتِي تَلِيهَا قَالَتْ زَيْنَبُ ابْنَةُ جَحْشٍ ، فَقُلْتُ : يَا رَسُولَ اللهِ أَنَهْلِكُ وَفِينَا الصَّالِحُونَ قَالَ نَعَمْ إِذَا كَثُرَ الْخُبْثُ
] صحیح البخاری ـ حسب ترقیم فتح الباری -4 / 168[
ترجمہ: حضرت فاطمہ بنت جحش ؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ گھبرائے ہوئے اندر داخل ہوئے آپ ﷺ لا الہ الا للہ کہ رہے تھے اور فرما رہے تھے عرب کے لیے ہلاکت ہو اس شر سے جو قریب آ چکا ہے ۔ آج یاجوج ماجوج کے دیوار اس مقدار میں کھول دیا گیا ہے ۔ پھر شہادت کی انگلی اور انگوٹھے سے حلقہ بنایا۔ حضرت زینب بنت جحش فرماتی ہیں میں عرض کیا اے اللہ کے رسول !کیا ہم ہلاک ہونگے حالانکہ ہم میں نیک لوگ ہونگے ۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہاں جب گناہ زیادہ ہونگے ۔ 
اس روایت کا آخری جملہ موجودہ حالات کی ترجمانی کر رہا ہے ، آج نیک لوگ بکثرت موجود ہیں اور امت مسلمہ کے لئے دعاؤں میں مصروف ہیں لیکن معاشرے میں گناہوں کی کثرت نے عذاب الہی کا دروازہ کھول رکھا ہے ۔ اس لئے عذاب الہی سے بچنے کے لئے گناہوں سے بچنا از حد ضروری ہے ۔ 
احادیث مبارکہ میں گناہوں کے ساتھ ان کی وجہ سے آنے والے عذابوں کا ذکر ملتا ہے ، جیسا کہ زنا کے عام ہونے سے موت کا عام ہونا، ناپ تول میں کمی سے قحط سالی کا مسلط کیا جانا، ناانصافی کی وجہ سے قتل و غارت گری کا عام ہونا۔ وغیرہ وغیرہ الغرض عذاب سے بچنے کے لئے گناہوں سے بچنا انتہائی ضروری اور لا بدی ہے ۔ 
اعمال صالحہ اور تقوی اختیار کرنا: 
عذاب الہی سے بچنے کے دوسرا راستہ اعمال صالحہ اور تقوی اختیار کرنا ہے ۔ قرآن مجید میں عذاب الہی کا ایک سبب یہ بیان کیا گیا ہے کہ جو لوگ اعمال صالحہ اور تقوی ترک کر دیں ان پر عذاب الہی نازل ہوتا ہے ۔ 
وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَى آمَنُواْ وَاتَّقَواْ لَفَتَحْنَا عَلَيْهِم بَرَكَاتٍ مِّنَ السَّمَاء وَالأَرْضِ وَلَكِن كَذَّبُواْ فَأَخَذْنَاهُم بِمَا كَانُواْ يَكْسِبُونَ (96) أَفَأَمِنَ أَهْلُ الْقُرَى أَن يَأْتِيَهُمْ بَأْسُنَا بَيَاتاً وَهُمْ نَآئِمُونَ
] سورۃ ۷،الاعراف: 97[
ترجمہ: اور اگر ان بستیوں میں رہنے والے ایمان لے آتے اور پرہیز گاری کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتیں کھول دیتے لیکن انہوں نے تو (پیغمبروں کی)تکذیب کی تو ہم نے بھی ان کے اعمال کی وجہ سے ان کو پکڑ لیا۔ 
اس آیت کریمہ سے یہ بات بخوبی واضح ہو گئی ہے کہ ایمان اور تقوی اللہ کے نعمتوں کا ذریعہ بنتی ہے اور پیغمبروں کو جھٹلانا عذاب کا ذریعہ بنتی ہے ۔ 
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر: 
احادیث مبارکہ کا ذخیرہ مطالعہ کرنے سے پتا چلتا ہے کہ جب معاشرے میں برائیاں عام ہو جائے اور اس کو روکنے کی کوشش نہ کی جائے تو ایسا عذاب نازل ہوتا ہے کہ جس سے میں ہر خاص و عام مبتلا ہو جاتا ہے ۔ پھر نیک اور راست باز لوگوں کی دعائیں اور فریاد کام نہیں آتی۔ چنانچہ آقا علیہ السلام کا ارشاد مبارک ہے ۔ 
حدثنا قتيبة حدثنا عبد العزيز بن محمد عن عمرو بن أبي عمرو و عبد الله الأنصاري عن حذيفة عن اليمان : عن النبي صلى الله عليه و سلم قال والذي نفسي بيده لتأمرن بالمعروف ولتنهون عن المنكر أو ليوشكن الله أن يبعث عليكم عقابا منه ثم تدعونه فلا يستجاب لكم
] سنن الترمذي - شاكر + ألباني - 4 / 468[
ترجمہ: حضرت حذیفہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے ضرور بضرور تم نیکی کا حکم کرو اور برائی سے منع کرو ورنہ اللہ تعالی تمھارے اوپر عذاب مسلط کر دے گا پھر تم دعا مانگو گے تو دعا قبول نہ ہو گی۔ 
آج کل عذاب الہی کے نزول کے کئی وجوہات میں سے ایک بنیادی وجہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ترک کرنا بھی ہے ۔ اول تو کوئی گناہ کرنے والے کو روکنے کی کوشش نہیں کرتا اور جو روکنے کی کوشش کرے تو اسے مولوی، دقیانوسی پتہ نہیں کن کن القابات سے نوازا جاتا ہے ۔ آقا علیہ السلام نے اس کی بہت کی خوبصورت مثال دے کر سمجھایا ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کتنا اہم فریضہ ہے ۔ آپ علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ اگر ایک کشتی میں کچھ لوگ اوپر ہوں اور کچھ نیچے ہوں ، نیچے رہنے والے بار بار پانی لینے اوپر جانے سے تنگ آ جائیں اور آپس میں مشورہ کریں کہ بار بار اوپر جا کر ہم ان کو بھی تنگ کر رہے ہیں اور خود بھی مصیبت میں ہے لہذا یہیں پر سوراخ کر لیتے ہیں سمندر کا پانی ہمیں مل جائے گا اوپر جانے کی ضرورت نہ رہے گی۔ اب اگر اوپر رہنے والے ان کو کشتی میں سوراخ کرنے دیں تو دونوں فریق ڈوب جائیں گے ۔ حدیث کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں۔ 
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، قَالَ : حَدَّثَنِي الشَّعْبِيُّ أَنَّهُ سَمِعَ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَقُولُ : قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم مَثَلُ الْمُدْهِنِ فِي حُدُودِ اللهِ وَالْوَاقِعِ فِيهَا مَثَلُ قَوْمٍ اسْتَهَمُوا سَفِينَةً فَصَارَ بَعْضُهُمْ فِي أَسْفَلِهَا وَصَارَ بَعْضُهُمْ فِي أَعْلاَهَا فَكَانَ الَّذِي فِي أَسْفَلِهَا يَمُرُّونَ بِالْمَاءِ عَلَى الَّذِينَ فِي أَعْلاَهَا فَتَأَذَّوْا بِهِ فَأَخَذَ فَأْسًا فَجَعَلَ يَنْقُرُ أَسْفَلَ السَّفِينَةِ فَأَتَوْهُ فَقَالُوا مَا لَكَ قَالَ تَأَذَّيْتُمْ بِي ، وَلاَ بُدَّ لِي مِنَ الْمَاءِ فَإِنْ أَخَذُوا عَلَى يَدَيْهِ أَنْجَوْهُ وَنَجَّوْا أَنْفُسَهُمْ وَإِنْ تَرَكُوهُ أَهْلَكُوهُ ، وَأَهْلَكُوا أَنْفُسَهُمْ
] صحيح البخاري ـ حسب ترقيم فتح الباري - 3 / 237[
اس روایت کے پیش نظر اگر ہم نے عذاب الہی سے بچنا ہے تو جس طرح خود نیکی کرتے ہیں اسی طرح دوسروں کو بھی اس کی تلقین کرنی ہو گی ، جس طرح ہم خود برائی سے بچتے ہیں اوروں کا ہاتھ بھی روکنا ہو گا ورنہ پھر قہر الہی سے بچنا ناممکن ہے ۔ 
گناہوں پر ندامت اور سچے دل سے توبہ: 
عذاب سے بچنے کے ایک ایسا راستہ جس کی منزل یقینی طور پر رحمت خداوندی ہے وہ توبہ و استغفار ہے ۔ توبہ اللہ تعالی کو ایک ایسا محبوب عمل ہے جس سے اللہ خوش ہوتا ہے اور بندوں کے اوپر اپنی رحمت کے دروازے کھول دیتا ہے ۔ قرآن و حدیث میں ان واقعات کو بیان کیا گیا ہے جن میں توبہ و استغفار کرنے والوں سے عذاب الہی کو دور کر گیا ہے ۔ مثلاً
فَلَوْلاَ كَانَتْ قَرْيَةٌ آمَنَتْ فَنَفَعَهَا إِيمَانُهَا إِلاَّ قَوْمَ يُونُسَ لَمَّآ آمَنُواْ كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الخِزْيِ فِي الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَمَتَّعْنَاهُمْ إِلَى حِينٍ (98)
اس آیت کریمہ میں یونس علیہ السلام کی قوم کا تذکرہ ہے جن پر اللہ کا عذاب یقینی طور پر آنے والا تھا لیکن انہوں نے اللہ کی طرف توجہ کی اور توبہ کر کے اللہ کو راضی کر لیا تو ان سے عذاب ختم ہو گیا۔ 
اسی طرح سورت نوح ؑ میں بھی توبہ کو عذاب الہی کے ختم ہونے اور رحمتوں کے نزول کا سبب بتایا گیا ہے :
 فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا (10) يُرْسِلِ السَّمَاء عَلَيْكُم مِّدْرَارًا (11) وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَل لَّكُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَل لَّكُمْ أَنْهَارًا (12)
قرآن و حدیث کے بے شمار نصوص اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ توبہ سے بڑے سے بڑا عذاب ٹل سکتا ہے ۔ یہ مختصر سی تحریر ان کی متحمل نہیں ان شاء اللہ کبھی موقع ملا تو ان کو تفصیل سے بیان کر دیا جائے گا۔ 
صدقات سے عذاب کو ختم کرنا: 
احادیث مبارکہ میں عذاب الہی کو ختم کرنے اور اللہ تعالی کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لئے جن اعمال کا ذکر ملتا ہے ان میں سے ایک صدقات بھی ہیں۔ 
حدثنا عقبة بن مكرم العمي البصري حدثنا عبد الله بن عيسى الخزاز البصري عن يونس بن عبيد عن الحسن عن أنس بن مالك : قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم إن الصدقة لتطفئ غضب الرب
] سنن الترمذي - شاكر + ألباني - 3 / 52[
ترجمہ: حضرت انس بن مالک ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ صدقہ اللہ کے غصہ کو بجھا دیتا ہے ۔ 
اس طرح کا مضمون کئی احادیث میں وارد ہوا ہے جس میں صدقات کو بلاؤں کو ٹالنے والا کہا گیا ہے او ر ان کے عذاب ٹلنے کی خوشخبری سنائی گئی ہے ۔ اس لئے عذاب الہی سے بچنے کے صدقات کا بھی اہتمام کرنا چاہئے ۔ 
جہاد فی سبیل اللہ پر عذاب سے نجات کا وعدہ: 
قرآن و حدیث کے نصوص سے جہاں ہمیں دوسرے اعمال عذاب سے نجات کا ذریعہ معلوم ہوتے ہیں وہیں پر جہاد فی سبیل اللہ پر بھی اللہ کی طرف سے وعدہ ہے کہ یہ عذاب سے نجات دلائے گا۔ چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے ۔ 
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى تِجَارَةٍ تُنجِيكُم مِّنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ (10) تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ (11)
ترجمہ: اے ایمان والوں کیا میں تمھیں ایک ایسی تجارت نہ دکھا دوں جو تمھیں دردناک عذاب سے بچائے گی۔ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اللہ کی راہ میں مال و جان سے جہاد کرو یہ تمھارے لئے بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔ 
اس آیت سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ جہاد فی سبیل اللہ بھی اللہ کے عذاب سے بچانے والا عمل ہے (جہاد کے لئے شرائط و احکام ہیں ان کو علماء سے معلوم کیا جائے )
گناہوں سے دل میں نفرت کی جائے : 
عذاب الہی سے بچنے کے لئے ایک اور اکسیر نسخہ یہ ہے کہ اللہ کی نافرمانی کو دل سے برا جانے اور کم از کم اس سے نفرت ضرور کرے ۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا : 
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِى شَيْبَةَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ كِلاَهُمَا عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ - وَهَذَا حَدِيثُ أَبِى بَكْرٍ - قَالَ أَوَّلُ مَنْ بَدَأَ بِالْخُطْبَةِ يَوْمَ الْعِيدِ قَبْلَ الصَّلاَةِ مَرْوَانُ فَقَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ فَقَالَ الصَّلاَةُ قَبْلَ الْخُطْبَةِ. فَقَالَ قَدْ تُرِكَ مَا هُنَالِكَ. فَقَالَ أَبُو سَعِيدٍ أَمَّا هَذَا فَقَدْ قَضَى مَا عَلَيْهِ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَقُولُ « مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ وَذَلِكَ أَضْعَفُ الإِيمَانِ 
] صحیح مسلم ـ مشكول وموافق للمطبوع - 1 / 50[
ترجمہ: جب تم کسی برائی کو دیکھو تو اس کو ہاتھ سے روکو(اگر فساد کا خطرہ نہ ہو مثلاً ارباب حکومت یہ کام کرے تو کوئی فساد نہ ہو گا اگر عام آدمی کرے تو قانون کو اپنے ہاتھ میں نہ لے بلکہ گناہ کو روکنے کی ممکنہ کوشش کرے اگر ہاتھ سے روکنے میں فساد کا اندیشہ ہو یا حکومتی رٹ کے خلاف کچھ ہو تو )اگر ہاتھ سے نہ روک سکے تو زبان سے روکے اور اگر زبان سے بھی نہ روک سکے (مثلاً اگر اس کو منع کیا تو جان یا مال کو خطرہ ہو وغیرہ تو)دل سے اس کو برا جانے اور یہ ایمان کا سب سے آخری درجہ ہے ۔ 
بنی اسرائیل پر عام عذاب آنے کی ایک وجہ بھی یہ تھی کہ وہ گناہ کرنے کے باوجود ایسے لوگوں سے اپنے تعلقات قائم رکھتے اور ان سے اس گناہ کی وجہ سے قطع تعلق نہ کرتے ۔ صحیح مسلم میں واقعہ ان الفاظ کے ساتھ مذکور ہے ۔ 
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِىُّ حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ رَاشِدٍ عَنْ عَلِىِّ بْنِ بَذِيمَةَ عَنْ أَبِى عُبَيْدَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « إِنَّ أَوَّلَ مَا دَخَلَ النَّقْصُ عَلَى بَنِى إِسْرَائِيلَ كَانَ الرَّجُلُ يَلْقَى الرَّجُلَ فَيَقُولُ يَا هَذَا اتَّقِ اللَّهِ وَدَعْ مَا تَصْنَعُ فَإِنَّهُ لاَ يَحِلُّ لَكَ ثُمَّ يَلْقَاهُ مِنَ الْغَدِ فَلاَ يَمْنَعُهُ ذَلِكَ أَنْ يَكُونَ أَكِيلَهُ وَشَرِيبَهُ وَقَعِيدَهُ فَلَمَّا فَعَلُوا ذَلِكَ ضَرَبَ اللَّهُ قُلُوبَ بَعْضِهِمْ بِبَعْضٍ ». ثُمَّ قَالَ (لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ بَنِى إِسْرَائِيلَ عَلَى لِسَانِ دَاوُدَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ) إِلَى قَوْلِهِ (فَاسِقُونَ) ثُمَّ قَالَ « كَلاَّ وَاللَّهِ لَتَأْمُرُنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلَتَنْهَوُنَّ عَنِ الْمُنْكَرِ وَلَتَأْخُذُنَّ عَلَى يَدَىِ الظَّالِمِ وَلَتَأْطُرُنَّهُ عَلَى الْحَقِّ أَطْرًا وَلَتَقْصُرُنَّهُ عَلَى الْحَقِّ قَصْرًا 
] سنن أبي داود ـ محقق وبتعليق الألباني - 4 / 213[
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بنی اسرائیل میں پہلا نقصان یہ داخل ہوا کہ ایک شخص دوسرے شخص سے ملتا اور اس کو گناہ کرتے ہوئے دیکھتا تو اس کو اس گناہ سے منع کرتا کہ یہ تیرے لئے حلال نہیں جب کل دوبارہ اس سے ملتا (اور وہ شخص اسی طرح اس گناہ میں مصروف رہتا)تو وہ بدستور اس خورد نوش میں شریک ہوتا (یعنی اس گناہ کی وجہ سے اس کے دلی محبت میں کمی نہ آتی)تو اللہ نے کے دلوں کو ایک جیسا کر دیا (جس کی وجہ سے سب پر عام عذاب نازل ہوا)۔ پھر آقا علیہ السلام نے پھر قرآن کی آیت لعن الذین کفرو تلاوت کی پھر فرمایا ہر گز نہیں تم ضرور بالضرور نیکی کا حکم کرو گے اور برائی سے منع کرو گے اور ظالم کے ہاتھ کو پکڑو گے اور اسے حق کے قبول کرنے پر مجبور کرنا ہو گا۔ 
ایک جگہ ایک روایت دیکھی تھی اب حوالہ ذہن میں نہیں رہا کہ ایک بستی پر عذاب نازل ہونے والا تھا فرشتے نے اللہ تعالی سے پوچھا کہ اس تو فلاں بندہ بھی ہے جس نے کبھی نافرمانی نہیں کی۔ تو اللہ نے اس پر بھی عذاب نازل کرنے کا حکم دیا کہ اس کے دل میں ایک دفعہ بھی یہ درد نہیں جاگا کہ اللہ کے احکامات کی نافرمانی ہو رہی ہے ۔ 
الغرض برائیوں کو دل سے برا جاننا اور ان سے نفرت کرنا اور اس کے روکنے کی مقدور بھر کوشش کرنا عذاب الہی سے بچنے کے ضروری ہے ۔ 
قرآن و حدیث کے ان فرمودات کو سامنے رکھ کر زندگی گزاری جائے تو امید ہے کہ اللہ کے عذاب سے نجات ملے گی اور دنیا اور آخرت میں کامیابی نصیب ہو گی۔ 
٭٭٭

     

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں