”سربکف “مجلہ۵(مارچ، اپریل ۲۰۱۶)
مولانا فضل الرحمٰن ندوی ﷾
اللہ نے ہر انسان کو سوچنے سمجھنے کی الگ الگ صلاحیتیں عطا کی ہیں، جہاں ایک انسان کسی واقعہ پر غور و فکر کے بعد ایک نتیجہ اخذ کرتا ہے تو دوسرا کوئی اور نتیجہ نکالتا ہے، چونکہ دنیا میں انسانوں کے سوچنے سمجھنے کے ڈھنگ جدا جدا ہیں سو کسی واقعہ پر ایک شخص کے ذریعہ پیش کیا گیا تجزیہ بہت سے ایسے لوگوں کے حلق سے نیچے نہیں اترتا جو اس سے مختلف ذہنیت کے حامل ہوتے ہیں. اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم کس بنیاد پر کسی نظریہ کو اختیار یا رد کر رہے ہیں. ظاہر ہے ہمارا کسی نظریہ کو اختیار کرنا ہمارے علم و تجربے اور مخصوص حالات سے متاثر ہوکر ہوتا ہے، لہذا اس خوش فہمی میں رہنا کہ ہم نے جو نتیجہ اخذ کیا ہے صرف وہی درست ہے ایک بالکل نامناسب رویہ ہے.
ہمیں اللہ نے نماز کی بیش بہا دولت سے نوازا ہے اور نماز میں سورہ فاتحہ کی قرات ہر رکعت میں ضروری قرار دی ہے، افکار و خیالات کی اس دنیا میں رہتے ہوئے جب ہم دن میں پانچ مرتبہ اس آیت کریمہ پر پہونچتے ہیں تو بے ساختہ قلب سے یہ آواز نکلتی ہے کہ اے میرے خدا افکار و نظریات کے اس جنگل میں ہمارے لئے مشکل ہے کہ ہم صحیح فکر تک رسائی حاصل کرسکیں تیری عنایات حاصل نہ ہوئیں تو یقینا ہم خسارے میں رہیں گے، اے میرے پروردگار دلائل کے بہتات نے ہمیں عاجز کر رکھا ہے، کبھی کوئی نظریہ صحیح معلوم ہوتا ہے تو کبھی کوئی دلیل اپنے آگے جھکنے پر مجبور کر دیتی ہے یا خدا ہمیں سیدھا راستہ دکھا نفس کی پیروی سے محفوظ رکھ. اس اندھی عقیدت سے بچا جو بغیر دلیل اور ضد اور ہٹ دھرمی کی بنیاد پر ہو
یاد رکھیں! صحیح فکر اختیار کرنا صرف اور صرف توفیق الہی سے ہی ممکن ہے. علم کا غرور نقصان کا باعث ہوتا ہے، ہمیں اس سے پناہ مانگنا چاہئیے.
اللہ ہم سب کو غرور، خود پسندی اور تعصب سے محفوظ رکھے۔آمین۔
٭٭٭
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں