نور سعدیہ شیخ حفظہا اللہ
انسانی احساسات جُوں جُوں پروان چڑھتے جاتے ہیں ویسے ویسے زندگی میں آنے والے نشیب و فراز سوالات کی پٹاری کھولے زندگی کو سوالیہ نشان بنا دیتے ہیں ۔یہ سوال ہماری زندگی کا مقصد متعین کرتے ہیں کہ ان جوابات کی روشنی میں زندگی گزارنا ہی بطریقِ احسن ہے ۔
لفظ میرا سرمایہ ہے ۔مجھے جینے کا طریقہ لفظوں نے سکھایا ہے ۔ میری زندگی میں پہلا لفظ اس ہستی کے لیے نکلا ، جس نے مجھے تخلیق کیا۔ احساس نے مجھے ''ماں'' اور ''اللہ '' دو الفاظ سکھائے اور میری جستجوِ لفظ نے سوالات کا انبار میرے سامنے رکھ دیا ہے ۔ زندگی میں انسان خود سے بہت زیادہ سولات کرتا ہے۔ جب سوالات کا جواب تشفی بخش نہیں ملتا تو تلاش میں نکل پڑتا ہے ۔میں نے ایک حدیث کی تحقیق کے لیے اصحاب و تابعین کو ایک بر اعظم کونے سے دوسرے کونے میں سفر کرتے ہوئے پڑھا تو حیرت نہیں ہوئی کہ اسلام کا حکم یہی کہ علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے ۔ . لفظ میرا سرمایہ ہیں… کبھی کبھی دل کرتا ہے ان لفظوں کو چوموں جو حقِ باری تعالی کا کلام ہیں… نوری کلام جو انسان کے قلم کی پیداوار نہیں ہے ۔
مجھ تک قرانِ پاک الفاظ سے پہنچا ۔ میں جب بھی یہ الفاظ سنتی تھی مجھ پر سحر طاری ہوجاتا اور ہر دفعہ میں سوچا کرتی تھی کہ میں نے اس کو سمجھ کر پڑھا نہیں ہے مگر اس کے اندر پھر بھی اتنی تاثیر ہے ۔اس احساس نے مجھے قرانِ پاک کا ترجمہ پڑھنے پر مجبور کردیا ۔ ٭ جب ترجمہ پڑھا تو مجھ پر انکشافات ہوئے ، سوالات کے جوابات کو پا کر مزید خود کو تشنہ پایا کہ قرانِ پاک ایسی کتاب ہے کہ اس کے ہر ہر لفظ کے گیارہ گیارہ پرتیں ہیں ، جانے کب یہ اسرار کھلے ، جانے کب میں اس کلام پر عبور حاصل کر پاؤں ۔ مجھے یہ احساس ، یہ احساس رُلاتا ہے کہ میں نے عمر گنوادی مگر نوری کلام دل میں سما نہ پایا۔ خود پر بہت ملامت محسوس ہوئی ۔ اس ملامت کے نتیجے میں میں جو لکھ رہی ہوں ۔ وہ آپ کے سامنے ہے ۔ میرے لفظ ، میرے احساس سے اور میرا احساس سوالات کی مرہون منت ہے ۔ زندگی میں سوال کے جواب پانا مرا مقصدِ حیات ہے۔
قرانِ پاک میں اخفاء کیا ہے ؟ اور کیا ظاہر ہے ؟ اس کا اسرار بے چین رکھتا ہے اور میری جستجو ساری عمر جاری رہے گی جب تک کہ اسرار سے پردہ اٹھا کر جان نہ لوں ۔قران پاک کی کتابت اور تدوین جناب سیدنا حضرت عثمان کے دور میں ہوئی اور احادیث کی تدوین جناب حضرت عمر بن عبد العزیز کے دور میں ہوئی ۔مزید کچھ لکھنے سے پہلے کچھ نقاط ذہن میں ہیں ۔ اسلامی قوانین کے بنیادی ماخذ درج ذیل ہیں ۔قوانین کو دو پرائمری اور سیکنڈری ماخد میں تقسیم کیا گیا ہے ۔
بنیادی ماخذ
1:قرانِ پاک
کلامِ الہی ہے ۔ اس میں کمی و بیشی کی گنجائش موجود نہیں ہے۔ چودہ سو سال سے آج تک یہ جُوں کا تُوں ہے ۔
2: سنت
کلامِ الہی کے ہر حکم پر عمل پیرا ہو کے ایک ہستی چلتا پھرتا قران بن گئی جن کو دنیا پیارے پیارے محمد صلی علیہ وآلہ وسلم کے نام سے جانتی ہے ۔
حدیث اور سنت ، دونوں ماخذ حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذاتِ اقدس سے منسلک ہیں ۔ سنت وہ ہے جس کی حضور پاک صلی علیہ وآلہ وسلم نے عمل کی ذریعے ترغیب دی جبکہ حدیث وہ الفاظ ہیں جو حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اقوال یا حرکات و سکنات مراد لی جاتی ہیں ۔
ثانوی ماخذ
1۔ رواج:
عربوں میں کچھ رواج جو حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جاری رکھے اوور کچھ کے احکامات بطور ممانعت نازل ہوئے۔ مثال کے طور پر شراب جائز سمجھی جاتی جب تک کہ شراب سے متعلق احکامات جاری نہ ہوگئے ۔ اسی طرح خواتین کا پردہ اسلام کے پھیل جانے کے بعد بطور رواج روایت میں شامل نہیں تھا جب تک کہ اسکے احکامات نازل نہ ہوگئے ۔ان معاملات پر حضرت عمر رض کی رائے بطور سند لی گئ کہ ان کی رائے اللہ تعالیٰ کو پسند آیا کرتی تھی ۔ اسی وجہ سے ان کو صاحب الرائے کہا جاتا ہے ۔
2۔اجماع (consensus of opinion):
قران ِ پاک اور احادیث کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اسلامی قانون سازی کی گئی ۔ اسلام قانون سازی کا سب سے بڑا ماخذ قرانِ پاک اور پھر حضور پاک صلی علیہ والہ وسلم کی ذات اقدس ہے ۔ ''اجماع'' کو ''قیاس'' بھی کہا جاتا ہے ۔١٭ عہد ِ وقت کے تمام علماء کا اسلام کے قانون کے ماخذ میں سے ایک پر اکتفا کرتے ہوئے رضامند ہوجانا ایک نیا قانون سامنے لے کر آتا تھا۔ یہ قانون اس وقت تک جاری رہتا تھا جب تک علماء حیات ہوتے تھے ، اس کے بعد نئے آنے والے علماء اجماع کے ذریعے نیا قانون بناتے تھے ۔ اجماع کی بنیاد سب سے پہلے جناب امام ابو حنفیہ نے رکھی اور اس کے بعد امام مالک ،امام شافعی ، امام احمد حنبل اور اصولی مسلک سے تعلق رکھنے والوں اس کو نہ صرف اپنایا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ قوانین کو شدت سے عملی جامہ بھی پہنایا گیا ۔٢٭
کچھ ماخذ پر اختلافات کی وجہ سے صرف نام لکھنے پر ہی اکتفا کروں گی ۔ ان میں قیاس ، فقہی صوابدید یا استحصان ،استدلال وغیرہ شامل ہیں ۔ بعض کی نسبت بعض نے ان پر شدت سے اکتفاء کیا۔
قرانِ پاک ہم عجمیوں کی زبان نہیں ہے اس لیے ا سمیں چھپپے اسرار اور مخفی علوم کو ہم حاصل کرنے سے قاصر رہے ہیں ۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے برصغیر میں جس ہستی نے کام کیا وہ حضرت شاہ ولی اللہ ہیں ۔ جنہوں نے ایک بڑے پیمانے پر ایک مدرسہ قائم کرنے کے بعد قرانِ پاک کا فارسی میں ترجمہ کیا ۔ جبکہ ان بیٹے شاہ عبد القادر نے قرانِ پاک کا اُردومیں ترجمہ کرکے قرانی تعلیمات کو عام کیا۔ اس طرح قرانِ پاک عربی سے لشکری زبان اور فارسی زبان میں پھیلتا چلا گیا۔ اس کے پھیلنے کے بعد ، ترجمہ پڑھ لینے کے بعد ہمارے اعمال ، احکام کے مطابق نہ ہوپائیں تو سمجھ لیں کہ ہم نے قرانِ پاک کو ٹھیک سے پڑھا ہی نہیں ۔
قرانِ پاک کی ترتیب
قرانِ پاک کی ترتیب کے دو طرز ہیں ۔
1۔ ترتیبِ نزولی
2۔ کتابی ترتیب
قرانِ پاک کی کتابت کا کام حضڑت عثمان نے کیا تھا۔ اس پیاری کتاب کے احکامات کو سمجھنے کے لیے نزولی ترتیب کو سمجھا جاتا ہے۔ قران ِ پاک کے احکامات ہجرت سے پہلے اور ہجرت کے بعد نازل ہوئے ۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ اسلام کے پھیلنے کا دور اور اسلامی ریاست کا دور ۔۔ قیامِ مکہ کا عرصہ وہ دور تھا جس میں عزت مآب حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اسلام کو پھیلانے کے تمام کوششیں بروئے کار لائیں ۔ ہجرت کے بعد وہ آیات یا نشانیاں نازل ہوئیں جن کے براہِ راست احکام انسانی زندگی ، معاشرت ، نظامِ حکومت اور سیاست سے متعلق تھے ۔ اس لیے اس کے نزولی ترتیب اس کے احکامات کی سمجھنے میں درست سمت عطا کرتے ہوئے کلام الہی کو سمجھنے میں مدد دے گی ۔ اکثر ایک حکم کی کئی نشانیاں موجود ہیں ۔ اگر ان نشانیوں یا آیات کو اکٹھا کیا جائے تو مزید احکامات سے پردہ اٹھایا جاسکتاہے ۔ یہی قرانِ پاک کو درست سمجھنے کا طریقہ ہے ۔ اس سے ہی ہماری زندگیاں سنور سکتی ہیں کہ انسان دنیا میں آیا ہی ایک امتحان دینے ہے ۔ اس(امتحان) کو پاس ہم ان احکامات کی روشنی میں کرسکتے ہیں۔
قرانِ پاک کی تعلیمات کے علاوہ اس کی ایک اور بڑی خوبی اس کی ترتیل ہے ، قران پاک کے ابتدائی احکامات میں اس کے پڑھنے پر زور دیا گیا ہے اور اس کے لیے سورۃ مزمل میں لفظ ترتیل استعمال کیا گیا جس سے مراد ہے کہ اس کو اس انداز سے پڑھا جائے جس سے آواز میں موسیقیت پیدا ہوجائے ۔١٭ قرانِ پاک کے لفظ ایک خاص قسم کے پچ اور حیطہ رکھتے ہیں اور یہ پچ اور حیطہ تقریبا پورے قرانِ پاک میں ایک جیسا ہے ، اس لیے جب یہ کلام نازل ہوا تو عرب، جو کہ خود کو فصاحت میں ید طولیٰ رکھتے تھے، کہہ دیا کہ انسانی کلام ایسا نہیں ہو سکتا ۔ قرانِ پاک میں احکامات کے ساتھ دو باتوں پر خاص طور پر زور دیا گیا ۔ایک زُبان ، اس زبان میں نازل ہو جو زبان عربیوں کی ہے اور دوسرا عربوں میں فصیح و بلیغ وہی کہلاتا تھا جس کا کلام بہترین شاعری کی صورت لیے ہوئے تھا۔ اللہ تعالیٰ نے احکامات کے ساتھ عربیوں کو مانوس رکھنے کے لئے قران پاک کو بصورت شاعری ٢٭اتارا کہ لوگ اس حکمت بھری کتاب میں شاعری کے اسرار و رموز سمجھتے ہوئے اس کو ترتیل سے پڑھیں ۔ اس کو ترتیل سےپڑھنے سے تلاوت دلوں پر اثر کرتی ہے کہ جس طرح موسیقی کا اثر دلوں پر ہوتا ہے ۔٭ اس لیے ہم جو قرانِ پاک کا علم نہیں رکھتے جب یہ کلام سنتے ہیں تو دل مسحور ہوجاتے ہیں ۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا معجزہ ہے جو کہ انسانی کمالات کی حد سے پرے ہے ۔
ترتیب نزولی کے لحاظ سے پہلی قرانِ پاک کی سورۃ :العلق
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ (1) خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ (2) اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ (3) الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ (4) عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ (5) كَلَّا إِنَّ الْإِنْسَانَ لَيَطْغَى (6) أَنْ رَآهُ اسْتَغْنَى (7) إِنَّ إِلَى رَبِّكَ الرُّجْعَى(8) أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهَى (9) عَبْدًا إِذَا صَلَّى (10) أَرَأَيْتَ إِنْ كَانَ عَلَى الْهُدَى (11) أَوْ أَمَرَ بِالتَّقْوَى (12) أَرَأَيْتَ إِنْ كَذَّبَ وَتَوَلَّى (13) أَلَمْ يَعْلَمْ بِأَنَّ اللَّهَ يَرَى (14) كَلَّا لَئِنْ لَمْ يَنْتَهِ لَنَسْفَعًا بِالنَّاصِيَةِ (15) نَاصِيَةٍ كَاذِبَةٍ خَاطِئَةٍ (16) فَلْيَدْعُ نَادِيَهُ (17) سَنَدْعُ الزَّبَانِيَةَ (18) كَلَّا لَا تُطِعْهُ وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ (19(
ترجمہ
پڑھو! اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی۔ پڑھو !تمہارا رب ہی سب سے بڑا کریم، جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا۔ انسان کو وہ(علم)سکھایا جو نہ جانتا تھا۔ ہاں ہاں بیشک آدمی سرکشی کرتا ہے ۔ اس پر کہ اپنے آپ کو غنی (بے نیاز) سمجھ لیا، بیشک تمہارے رب ہی کی طرف پھرنا یا لوٹنا ہے۔ تم نے دیکھا اُس شخص کو جو ایک بندے کو منع کرتا ہے جبکہ وہ نماز پڑھتا ہو ؟ بھلا دیکھو تو اگر وہ (بندہ) راہِ راست پر ہو یا پرہیزگاری کی تلقین کرتا ہو ؟ تمہارا کیا خیال ہے اگر (یہ منع کرنے والا شخص حق کو ) جھٹلاتا ہو اور منہ موڑتا ہو ؟ کیا وہ نہیں جانتا کہ اللہ دیکھ رہا ہے ؟ ہر گز نہیں، اگر وہ باز نہ آیا تو ہم اُس کی پیشانی کے بال پکڑ کو اُس کو کھینچیں گے ،اس پیشانی کو جو سخت جھوٹی اور خطا کار ہے۔
میں نے قران پاک کی پہلی نشانی اُٹھائی اور لفظ ''اقراء'' پر غور کرنا شروع کیا۔ زندگی میں پہلی دفعہ میرا دماغ مفلوج ہوگیا ۔ تین دن میرا ذہن لفظ ''اقراء'' میں پھنسا رہا ہے۔ اس بات نے مجھے بے قرار رکھا کہ میں اکثر ایک دو نظر سبق پڑھ کر اپنے آپ کو پاس کروالیتی ہوں ۔زندگی کا ایک بڑا امتحان میرے سامنے ہے ۔میں پہلے لفظ میں کھوئی ہوئی ہوں ۔ میری رفتار کیا ہے ؟ میں بہت کُند ذہن ہوں ۔ میں نے اللہ کے سامنے اپنی کم علمی کا اعتراف کیا کہ مالک میرا سجدہ قبول فرما لے ، میری گریہ قبول فرمالے ۔میرا لیے یہ زندگی کا سب سے بڑا مشکل امتحان ہے کہ جس میں قدم قدم پر آزمائش شرط ہے ۔ جہاں جستجو ہو ، وہاں دُعا رائیگاں نہیں جاتی ۔ چار دن بعد میری نظر لفظ ''اقراء'' سے ہوتی ہوئی ''العلق'' پر گئی ہے ۔ اقراء کا مطلب ''پڑھ '' ہے مگر اس کا عنوان ''العلق '' ہے ۔ اس کشمکش نے مجھے بہت رُلایا ہے ۔ بہت غور و فکر کے بعد میں اک نتیجے پر پہنچی ہوں۔۔ اس سورۃ نے کائنات کی تفسیر بیان کردی ہے ۔ اگر یہ کائنات کی تفسیر ہے تو پورا قرانِ پاک کیا ہوگا۔۔۔ہائے ! میرا احساس ندامت !!! احساس! میری غفلت کا ہے ، میری سرکشی کا ہے ، میری نافرمانی کا ہے ۔
''العلق'' کیا ہے ؟ کیا ایک انسان ہے ؟ ایک انسان کے دو حصے ہیں ؟ حیوانات کے دو حصے ہیں ؟ نباتات کے دو حصے ہیں؟ آخر کیا ہے ؟ حیوانات و نباتات کی ابتدا ''جوڑوں '' کی بصورت مذکر و مونث سے ہوئی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ہر ہر شے جو تخلیق کی صلاحیت رکھتی ہے اس کے جوڑے مختص کر دیے ہیں ۔ العلق کا لفظ جاندار نوع کی ابتدا کی تفسیر ہے ۔ بالخصوص اس سورۃ میں انسان کی بات کی گئی ہے ۔ انسان کی ابتدا کیسے ہوئی ہے ۔ انسان بڑا کثیف ہے ۔ ہائے! اس کی کثافت اس کو گُناہ کی طرف لے جاتی ہے ۔ یہ کثافت لطافت میں کیسے بدلی جائے ؟ انسان کی نجات کیا ہے ؟ میں ! میری ابتدا کہاں سے ہوئی ہے مجھے بتا دیا گیا ہے مگر انتہا کیا ہے ؟
اس بات سے پہلی دفعہ میرے دل میں سچا خوف پیدا ہوا ہے ۔ اس سے پہلے میں سوچا کرتی تھی کہ میں اللہ سے محبت کروں گی کہ خوف نہ کھاؤں گی ۔مجھے جنت اور دوذخ نہیں چاہیے ۔ خیر ! یہ تو بچپن کی سوچ ہے اور بچپن تو ہوتا ہے معصوم ہے ۔ جہاں میں سوچا کرتی تھی کہ میں نے ایک گناہ کیا ہے اور معافی مانگ لی ہے اور میں پاک ہوگئی ہوں ۔ مجھے کیا پتا تھا میں جب بڑی ہوجاؤں گی مجھے خود کو کتنی دفعہ ''سفل '' کہنا ہوگا کہ میں نے اکثر ایسا کہا ہے ۔۔اس میں دُکھ تھا کہ میری روح بڑی ناپاک ہے اور روح ناپاک ہے کہ میں جھوٹ بولوں ، میں منافق بن جاؤں ، میں دھوکا دوں ، میں اللہ کا خیال نماز میں نہ لاؤں اور ٹکر مارتی جاؤں ۔ بہت سے ایسے گناہوں جن کو میں کبیرہ اور صغیرہ کہتی ہوں میں نے اپنی زندگی میں کیے ہیں ۔۔۔ ان گُناہوں نے مجھے مجبور کیا ہے کہ میں لکھوں کہ شاید ہدایت پاجاؤں ۔ شاید میرا نامہ اعمال کی سیاہ کاریاں کم ہو جائیں ۔۔ !!!
اب کہ ''العلق'' سے خیال میرا براہِ راست "اقراء' کی طرف آیا ۔۔ اس میں تو '' پڑھ '' کا لفظ لکھا ہوا تھا۔ میں نے آج تک بہت کتابیں پڑھ ڈالیں مگر مجھے کچھ حاصل نہ ہوا۔ میرا من خالی ہے ِ؟ جانے یہ دل میخانہ کیوں نہ بنا ؟ جانے یہ دل کب میخانہ بنے گا؟ یہ سوال تو بڑا تڑپاتا ہے !!! میں جب پہلی دفعہ اسکول میں داخل ہوئی تو اس میں سب سے پہلے مجھے حروفِ تہجی سکھائی گئی اور پھر مجھے لکھنا سکھایا گیا جب میں نے لکھنا سیکھ لیا تو میرا امتحان لیا گیا ۔ میرا امتحان مجھے اگلے درجے میں پہنچا گیا ۔ اس کا ادراک مجھے پہلی دفعہ یہ سورۃ پڑھتے ہوئے کہ اس سورۃ کی تفسیر تو میری زندگی کی تعمیر و تخریب کی کہانی سناتی ہے کہ میں جو چاہوں راستہ اختیار کرلوں ۔میں نے قران پاک پڑھا۔۔ ارے ! میں پڑھ رہی ہوں مگر مجھے دو لفظوں کی مار نے ایسا رُلایا کہ میں اتنا کبھی نہیں روئی ۔ میں اس بے قراری کو کیا کہوں ۔۔۔؟ اگر اس طرح میں نے پورا قران پاک پڑھا تو کیا میں میرا عمل خالی رہ جائے گا؟
بات سمجھ کی آگئی ۔۔۔ میں نے پڑھا اور اس کو سمجھا !! اس کے بعد میں نے عمل کو لکھا ۔ کیسے ! اس سوچ میں ہوں کہ ایک لکھنا تو وہ ہے کہ مجھے بات سمجھ آگئی اور میں نے جو سمجھا لکھا ؟ سب سے پہلے اس کو دماغ کی سلیٹ پر لکھا ہے ۔ اس کے بعد اس سلیٹ سے میں نے کاغذ پر لکھنا شروع کردیا۔ اب جو میں نے لکھا ہے اس کو میں نے اچھا جانا ہے تو میں عمل اچھا کروں گی اور اگر اس کو سمجھ کر بھی میں اس پر عمل نہ کرسکی تو؟ اس سوالیہ کے نشان پر مجھے ناکامی کا احساس یاد آیا ہے کہ زندگی میں خواب ٹوٹ جائیں تو ناکامی بڑا ستاتی ہے ۔ ناکامی نہ جینے دیتی ہے اور نہ مرنے نہ دیتی ہے ۔۔ ہائے ناکامی ۔۔ وائے کامیابی ۔۔۔ وائے کامیابی ۔۔ کیسے اس کامیابی کو حاصل کیا جائے ؟ مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آئی ۔میں نے محنت شروع کرکے اعمال سنوارنے کی کوشش کی ؟ یا میں نے پیغام سمجھ لینے کے بعد اَن سُنی کردی ۔
کچھ طالب علم ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے اندرونی انتشار کی وجہ سے تعلیم حاصل نہیں کرسکتے اور بعض اوقات وہ ناکام ہوجاتے ہیں۔یہ تو زندگی کے امتحان ہوتے ہیں ، اس اندرونی انتشار کا سامنا ہم کو آخری امتحان روزِ محشر نہ ہو ۔ ورنہ میں اور آپ تو بڑے پھنس جائیں گے ۔ناکام کی کی جگہ اس دنیا میں کم ہوتی ہے دنیا کامیابی کے پیچھے بھاگتی ہے . اس طرح آخرت کی طرف دوڑنے والے کامیاب ہوجائیں گے . سب سے بڑا استاد خالق ہے اور اس کے شاگرد اس کو چیلنج کریں تو کیا اس کی غیرت یہ گنوارا کرے گی ؟ وہ بہت رحیم و رحمان ہے . فضل و کرم ان پر کرتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرتے ہیں اور ان کو سزا دیتا ہے جن کے دل قفل لگ جانے کی وجہ سے گرد سے اٹ جاتے ہیں . گرد تالے کے اوپر جمع ہوجاتی ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ یہ تالا یا قفل زنگ آلود ہوجاتا ہے ، پرانے تالوں پر چابیاں کام کرنا چھوڑ جاتی ہے . اللہ تعالیٰ کا کلام چابی ہے . یہ کلام ہر روح پر کارگر ہے ، ہر روح پر اسرار اس کلام کے ذریعے کھلتے ہیں . مگر جن کی عقل کام کرنا چھوڑ دے ، جن کا دل و نگاہیں بصیرت و بصارت کھودیں ، جن کے آنکھیں حقائق کو دیکھ کر ماننے سے انکار کردیں ان کے دل پر تالے ہیں. ان کے تالے کیسے کھلیں کہ عرصہ گزر جانے کے بعد رحمانی کلام کی چابی سے دل کے قفل نہیں کھولے گئے . کہاں جائیں گے وہ لوگ؟ کہاں جائیں گے َ ؟ ان کا ٹھکانہ کیا ہوگاَ؟ ان کے حصے میں ناکامی ہے ؟ ان کا ٹھکانہ کیا ہوگا؟
اس بات سے مجھے اللہ تعالیٰ کا فرمان یاد آگیا . جب حضرت ابراہیم نے اپنے باپ تارخ کے لے دُعا کی . بعض مورخین کے نزدیک ان کے والد کا نام آذر تھا جبکہ ان کے چاچا کا نام تارخ تھا . آپ نے اللہ سے ان کی مغفرت کی دعا مانگی . ایک شخص جس کی ساری زندگی انکار میں گزری ہو اور وہ روح پر قفل لگائے جہاں فانی سے کوچ کر جائے تو اس کا کیا ٹھکانہ ہوسکتا ہے ؟ اس کا ٹھکانہ اللہ تعالیٰ نے خود بتادیا . ایک پیغمبر جو خلیل اللہ تھے ان کی بات قبول نہ کی . اس بات سے یہ بات ظاہر ہوئی کہ محشر میں قرابت و رشتہ داری کام نہ آئے گا .اگر کام آئے گا تو ایک سچا رشتہ جو مجھے اللہ سے جوڑے اور خالق سے نکلے جتنے رشتے...ان رشتوں سے اگر میں محبت کر سکی تو .. میں اس قابل ہو جاؤں گی اپنی پناہ کی التجا کر سکوں . ورنہ مجھےڈر ہے .. مجھے اپنی آخرت کا ڈر ہے .. مجھے روزِ محشر سے ڈر لگتا ہے ، مجھے عالم برزخ سے ڈر لگتا ہے جس کا دروازہ مجھ پر کھلے تو وہ جنت کی ٹھنڈی چھاؤں بھی ہوسکتا ہےاور دوذخ کی گرم ہوا بھی ... اور مجھے سچ میں بہت ڈر لگا ... یوں لگا میرے آگے اندھیرا چھا گیا ہے .. اس سے آگے کا تصور میں کر نہیں سکی ... کیا کروں ... ڈر لگتا ہے ... بہت ڈر لگتا ہے ... مجھے اس کا نافرمان نہیں بننا .... مجھے کوشش کرنی ہے کہ میں اللہ کے راستے پر چل سکوں ۔
اس خیال کے آتے ہیں مجھے خیال آیا کہ اس صورت کے بھی چار حصے ہیں ....
.1. انسان کی مادی تخلیق و ارتقاء
.2. انسان کی روحانی تخلیق و ارتقاء
.3. جبرو قدر کا فلسفہ ...اختیار و مرضی کا تعلق
.4. برائی کا انجام ...جہنم
بسم الله الرحمن الرحيم
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ ۔۔خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ ۔۔اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ ۔۔الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ۔۔ عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ ۔
یہ انسان کی روحانی تربیت کے بارے میں بتاتا ہے ۔ انسان کی روحانی تربیت پڑھنے سے شروع ہوتی ہے ۔ اور پڑھنے کے بعد اس کی سمجھ نمو پاتی ہے اس کے ساتھ ہی دوسری آیت میں انسان کی ابتدا کے بارے میں بتایا گیا ۔ انسان کی ابتدا کثافت سے ہوئی مگر اس کی کثافت ، روح کی لطافت بڑھانے سے کم ہوسکتی ہے ۔ روح کو لطافت پڑھنے سے ملتی ہے ۔ جو جتنا پڑھتا جائے گا اس کی لطافت کثافت کو ختم کرتی جائے گی ۔ پیغمبروں کو اس لیے معصوم کہا جاتا ہے کہ ان میں لطافت لطافت ہی ہوتی ہے ۔ یہی وجہ تھی کہ جناب حضرت محمد ﷺ لطافت طائف کے سفر میں لہولہان ہوجانے کے باوجود بد دعا کے لئے ہاتھ اٹھا نہ سکے مگر وہ پیارے ہاتھ دعا کے لیے اٹھ گئے ۔ اس روحانی تربیت کی مثال کہاں ملے گی کہ اپنی شان میں گستاخی کرنے والوں کو دعا دیے جارہے تھے ۔ ہم پیارے نبیﷺ کی پیروی کرتے ہوئے گناہوں سے پا ک ہو کر روح کو بلند مقام کی طرف لے جاسکتے ہیں ۔مگر اس کے لیے ہمیں پڑھنا اور سمجھنا ہی نہیں ہے ، ان اعمال کو لکھنا ہے ، عمل کرنا ہے ، اچھائی کی طرف جانا ہے ، قلم ہمارا متحرک رہے ، ہمارا دماغ اچھے کو قبول کرکے اچھے کی طرف آمادہ کرے ۔۔۔ یہاں دو طرح کا لکھنا ہے ایک وہ قلم جس سے کاغذ پر لکھا جاتا ہے اور ایک وہ قلم ہے جس کو دماغ لکھتا ہے ، اس قلم سے عمل بنتا ہے ۔ قلم جب چلتی ہے ، دماغ جب چلتا ہے تو انسان وہ علم سیکھتا ہے جن علوم کو وہ جانتا ہی نہیں ۔ اب ہم کس حد تک اس قلم یعنی دماغ کو چلا کے روح کی تربیت کرکے مرشد کامل کے راستے پر چلتے ہوئے اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔
كَلَّا إِنَّ الْإِنْسَانَ لَيَطْغَى Aya-6 أَنْ رَآَهُ اسْتَغْنَى Aya-7. إِنَّ إِلَى رَبِّكَ الرُّجْعَى Aya-8. أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهَى Aya-9. عَبْدًا ِذَا صَلَّى Aya-10.
جبرو قدر کا فلسفہ سورۃ کے اس حصے میں بیان کیا گیا ہے ۔ انسان کی سرشت میں سرکشی ہے اور اپنے آپ کو روحانی تربیت سے بے نیاز کرکے حق کی طرف رجعت سے انکار کردیتا ہے ۔ دنیا تو عارضی ٹھکانہ ہے ۔ اس عارضی ٹھکانے میں کب تک رہے گا؟ آخر کو اس دنیا سے کوچ کرکے موت کی طرف جائے گا ۔ اس بات کا بالخصوص ذکر سورۃ ''ق' ' میں ذکر ہے ۔ انسان کی ہڈیاں کھا لی جائیں گی ۔ اس کے اعضاء ریشہ ریشہ ہوجائیں گے مگر اللہ تعالیٰ اس بکھرے ہوئے حصوں کو مجتمع کر لیں گے ۔ اور اس میں روح ڈال کر اس سے حساب لیں گے ۔ اس کے بعد اس کی سرکشی کس کام کی َ ؟ کہ دنیا تو عارضی ٹھکانہ ہے ۔ ۔۔''اریت'' کے معنی دیکھنا ۔۔'' ینہی'' بمعنی منع کرنا۔۔۔ کسی چیز سے منع کرنا ۔۔ "عبد'' ۔۔ بندے کو ۔''۔ صلیََ ''۔۔۔ نماز و عبادت کرے ۔۔ وہ بندہ جو سرکش ہے ۔ تاریخی حوالہ تو جناب پیارے حضور پاکﷺ اور ابو جہل سے متعلق ہے ۔ مگر یہاں یہ ہر اس انسان پر لاگو ہے جو حق راہ پر چلنے والوں کا راستہ روکے اور عبادت مٰیں رخنہ ڈالیں ۔۔ ان کا ٹھکانہ کیا ہوگا۔۔۔ جو اللہ کے آگے جھک جاتے ہیں وہ اس کے بندے ہوتے ہیں اور جو اس کے محبوب بندوں کو تنگ کریں وہ کس راہ پر ہوں گے ؟ سوچیے نا! وہ جو اس محبوب بندوں کو ایک سیدھی راہ پرچلنے دیں کہ ان کے دل تاکے کھاچکے ہیں مگر اپنے ساتھ نقصان تو یہ لوگ کرتے ہی ہیں ، ساتھ ساتھ اللہ کے نیک بندوں کے درمیاں رخنہ ڈال دیتے ہیں تاکہ عبادت میں رکاوٹ پیدا ہوجائے ۔ ایسے بندوں کے لیے سخت وعید ہے ۔
أَرَأَيْتَ إِنْ كَانَ عَلَى الْهُدَى Aya-11.أَوْ أَمَرَ بِالتَّقْوَى Aya-12. أَرَأَيْتَ إِنْ كَذَّبَ وَتَوَلَّى Aya-13.أَلَمْ يَعْلَمْ بِأَنَّ اللَّهَ يَرَى Aya-14. كَلَّا لَئِنْ لَمْ يَنْتَهِ لَنَسْفَعَنْ بِالنَّاصِيَةِ Aya-15. نَاصِيَةٍ كَاذِبَةٍ خَاطِئَةٍ Aya-16.فَلْيَدْعُ نَادِيَهُ Aya-17. سَنَدْعُ الزَّبَانِيَةَ Aya-18. كَلَّا لَا تُطِعْهُ وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ Aya-19.
''ارایت'' بمعنی دیکھنے کے ۔۔'' کان ''بے شک ۔۔ ''علی'' ۔۔اوپر یا کی جانب ۔۔ کیا ہدایت پاجانے والے بندے کو نہیں دیکھا ۔۔ بے شک حضرت محمدﷺ کی طرف اشارہ ہے اور ساتھ ساتھ ہر اس شخص کے لیے اشارہ ہے ، جو نبیﷺ کا پیرو کار ہے کہ وہ ہدایت پر ہیں ۔۔ امر ۔۔ بمعنی حکم کے ۔۔ پیرہیزگاری کے حکم کو اپنائے ہوئے ہے یا اس کو تقوی پر استوار کردیا گیا ہے ۔ اس شخص کو جو اللہ تعالیٰ کی راہ ہر ہے اس کو اگر اس کو فتنہ ساز تنگ کرے گا تو کیا ہوگا؟ کذب۔۔ جھوٹا اور ''تولی'' ۔۔۔ بمعنی حق سے رو گردانی کرنا ہے۔۔۔ کہ یہ فتنہ ساز جھوٹے اور حق سے روگرادنی کرنے والے ہیں ۔۔۔"الم ''۔۔۔ کیا نہیں ، ''یعلم'' ۔۔ جانتا ۔۔'' یری ''۔۔ دیکھنے کے روپ میں ۔۔۔اللہ تعالیٰ کیا نہیں دیکھ رہا کہ جو یہ لوگ کر رہے ہیں ۔ اور جب اللہ جانے تو اس کا کیا سلوک ہوگا ۔ بے شک یہ ایک وعید ہے ، ایک تنبیہ ہے ۔کہ ان کو پیشانیوں کے بل کھینچا جائے گا۔۔۔ پیشانی وہ جگہ جو دماغ کی طرف اشارہ کرتا ہے اور دماغ جب اندھا ہوجائے تو اس کو اس کی پیشانی سے پکڑ کر جہنم واصل کیا جائے اور تب اس کے ساتھی اس کے کام نہیں آنے والے ۔۔ اور جو لوگ پرہیز گار ہیں ۔۔۔ جو عبادت کرتے ہیں ۔۔۔ اس کو سنا دیا گیا کہ ان سے ڈرو مت ۔۔۔ تم حق پر ڈٹے رہو۔۔ ۔تاکہ۔۔۔ اللہ کا قرب حاصل ہو۔
تبصرے و حاشیے (مدیر کے قلم سے)
تبصرے و حاشیے (مدیر کے قلم سے)
٭ ظاہر ہے کلام کا اصل مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ اسے سمجھا جائے، اگر یہ احساس ہم تمام کو قرآن پاک سمجھ کر پڑھنے پر مجبور کردے تو کیا ہی بات ہے!(مدیر)
١٭ اجماع و قیاس دو بالکل الگ الگ چیزیں ہیں۔ نبیﷺ کی وفات کے بعد مجتہدین کا کسی حکمِ شرعی کے متعلق اتفاق کرلینا اجماع کہلاتا ہے، جبکہ علت کے مشترک ہونے کی بناء پر غیر منصوص(جو صراحتاً قرآن و سنت میں مذکور نہیں) یعنی فرع میں اصل کا حکم لگانے کو قیاس کہتے ہیں۔بحوالہ آسان اصولِ فقہ-خالد سیف اللہ رحمانی(مدیر)
٢٭ اجماع کی بنیاد ابو حنیفہ نے نہیں خود حق تعالیٰ نے رکھی ہے۔ مضمون نگار صاحبہ غالباً یہ کہنا چاہ رہی ہیں کہ اَوَّلَ مَنْ دَوَّنَ دِیْنَ مُحَمَّدﷺ ھُوَ اَبِی حَنِیْفَۃ دینِ محمدی ﷺ کی سب سے پہلے تدوین کرنے والے امام ابو حنیفہ ہیں۔(مدیر)
١٭ قرآن کے پڑھنے کا اصل لہجہ لحنِ عرب ہے، موسیقیت مناسب لفظ نہیں(مدیر)
٢٭ قرآن کو بصورتِ شاعری نہیں اُتارا گیا، بلکہ فصاحت و بلاغت سے بھرپور اُتارا گیا۔ غالباً ہم قافیہ الفاظ کو محترمہ نے شاعری سے تعبیر کیا ہے، جبکہ ظاہر ہے، صرف ہم قافیہ الفاظ شاعری نہیں کہلاتے۔(محترمہ یہ بات بخوبی جانتی ہیں) قرآن بھلے ہی شاعری نہیں، لیکن تمام شعراء کے دواوین پر بھاری ہے ۔(مدیر)
٭ حدیث کی طرزپر یوں کہی جاتی تو بہتر ہوتا" اس کی ترتیل سے تلاوت دلوں کے لیے ایسی ہی پُر اثر ہے جیسا کہ کھیتوں کے لیے پانی ۔" (مدیر)
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں