منگل، 8 جنوری، 2019

یہ دنیا اہلِ دنیا کو بسی معلوم ہوتی ہے

خواجہ مجذوبؒ

یہ دنیا اہلِ دنیا کو بسی معلوم ہوتی ہے
نظر والوں کو یہ اجڑی ہوئی معلوم ہوتی ہے
یہ کس نے کردیا سب دوستوں سے مجھ کو بیگانہ
مجھے اب دوستی بھی دشمنی معلوم ہوتی ہے
طلب کرتے ہو دادِ حسن تم، پھر وہ بھی غیروں سے!
مجھے تو سن کے بھی اک عار سی معلوم ہوتی ہے
میں رونا اپنا روتا ہوں تو وہ ہنس ہنس کے سنتے ہیں
انہیں دل کی لگی، اک دل لگی معلوم ہوتی ہے
نہ جائیں میری اس خندہ لبی پر دیکھنے والے
کہ لب پر زخم کے بھی تو ہنسی معلوم ہوتی ہے
اگر ہمت کرے پھر کیا نہیں انسان کے بس میں
یہ ہے کم ہمتی جو بے بسی معلوم ہوتی ہے
***
Ye duniya ahl-e-duniya ko basi maaloom hoti hai by Khwaja Majzoob
     

2 تبصرے:

  1. یہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. ایک تازہ غزل آپ کی بصارتوں کی نذر
      _____________________________________________

      برسات میں بھیگا سا زخمی کوئ پروانہ
      اڑنے کو تڑپتا ہے سوۓ در جانانہ

      اک نور سراپا ہے اک نور کا دیوانہ
      جگنو کی جگہ جگنو پروانہ کی پروانہ

      سیماب طبیعیت کو تسکین سےکیا مطلب
      شوریدہ سری ہوتی ہوتا غم جانانہ

      اک شوق حدی خوانی اک شوق جہانبانی
      اک رسم مسیحائی اک ضرب کلیمانہ

      لا باد بیابانی سرمستئ صحرائ
      محروم تماشہ ہیں دانا ہو کہ دیوانہ

      شاہی کو لباس نو جمہور کی سلطانی
      بندوں کے خدا بندے تجدید صنم خانہ

      اب اور بھلا کیا ہو گلشن کی بیا بانی
      زاغوں کے تصرف میں شاہین کا کاشانہ

      بیمار محبت کی اک یہ بھی علامت ہے
      محروم صدا ہونا ، الفاظ سے گھبرانا

      توقیر صدف کیا ہے گوہر کی نگہبانی
      گوہر سےجدا ہونا بس خاک میں مل جانا

      وہ فاقہ کش افغاں قیصر کو غنیم جاں
      ملتی ہے کہاں بزمی یہ جراءت رندانہ

      سرفراز بزمی
      سوای مادھوپور راجستھان
      بھارت

      حذف کریں