خواجہ مجذوبؒ
یہ دنیا اہلِ دنیا کو بسی معلوم ہوتی ہے |
نظر والوں کو یہ اجڑی ہوئی معلوم ہوتی ہے |
یہ کس نے کردیا سب دوستوں سے مجھ کو بیگانہ |
مجھے اب دوستی بھی دشمنی معلوم ہوتی ہے |
طلب کرتے ہو دادِ حسن تم، پھر وہ بھی غیروں سے! |
مجھے تو سن کے بھی اک عار سی معلوم ہوتی ہے |
میں رونا اپنا روتا ہوں تو وہ ہنس ہنس کے سنتے ہیں |
انہیں دل کی لگی، اک دل لگی معلوم ہوتی ہے |
نہ جائیں میری اس خندہ لبی پر دیکھنے والے |
کہ لب پر زخم کے بھی تو ہنسی معلوم ہوتی ہے |
اگر ہمت کرے پھر کیا نہیں انسان کے بس میں |
یہ ہے کم ہمتی جو بے بسی معلوم ہوتی ہے |
***
Ye duniya ahl-e-duniya ko basi maaloom hoti hai by Khwaja Majzoob
یہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔
جواب دیںحذف کریںایک تازہ غزل آپ کی بصارتوں کی نذر
حذف کریں_____________________________________________
برسات میں بھیگا سا زخمی کوئ پروانہ
اڑنے کو تڑپتا ہے سوۓ در جانانہ
اک نور سراپا ہے اک نور کا دیوانہ
جگنو کی جگہ جگنو پروانہ کی پروانہ
سیماب طبیعیت کو تسکین سےکیا مطلب
شوریدہ سری ہوتی ہوتا غم جانانہ
اک شوق حدی خوانی اک شوق جہانبانی
اک رسم مسیحائی اک ضرب کلیمانہ
لا باد بیابانی سرمستئ صحرائ
محروم تماشہ ہیں دانا ہو کہ دیوانہ
شاہی کو لباس نو جمہور کی سلطانی
بندوں کے خدا بندے تجدید صنم خانہ
اب اور بھلا کیا ہو گلشن کی بیا بانی
زاغوں کے تصرف میں شاہین کا کاشانہ
بیمار محبت کی اک یہ بھی علامت ہے
محروم صدا ہونا ، الفاظ سے گھبرانا
توقیر صدف کیا ہے گوہر کی نگہبانی
گوہر سےجدا ہونا بس خاک میں مل جانا
وہ فاقہ کش افغاں قیصر کو غنیم جاں
ملتی ہے کہاں بزمی یہ جراءت رندانہ
سرفراز بزمی
سوای مادھوپور راجستھان
بھارت