مزمل اختر حفظہ اللہ، کامٹی
اللہ کی قدرت :
جس کے ناموں کی نہیں ہے انتہا
ابتدا کرتا ہوں اسکے نام سے
بڑی مشکل سےمجھے اللہ نے چلہ کے لیے قبول کیا،بات تو یہی ہے کہ اصل اللہ ہی قبول کرتا ہے ورنہ ہماری کیا بساط کہ ہم اسکے راستے میں نکلیں۔ وہ جسے چا تا ہے بلاتا ہے، (13/04/12 ) بروز جمعہ مسجد وارث پورہ میں بعد نماز مغرب بیان کے بعد تشکیل ہوئی تب عاجز (مزمل اختر غفرلہُ)کو معلوم ہوا ضمیر بھائی (اللہ آپ کی عمر میں برکت عطا فرمائیں اور آپ کو جزائےخیر عطا فرمائیں کہ آپ ہی عاجز کے نظام الدین جانے کا ذریعہ بنے ) چلہ کے لیے جارہے ہیں ہم نے تب نام نہ لکھایا دوسرے دن (13/04/13) بروز سنیچر کو ہمارا سعید نگر مسجد میں گشت ہوتا ہے تو بی بی کالونی کے کچھ حضرات آتے ہیں ان میں عمران بھائی (پولس والے ) بھی تھے انھوں نے عاجز کی تشکیل کی اور ہمت افزائی کی عاجز تیار ہو گیا اور (13/04/16) بروز منگل عاجز اور ضمیر بھائی صبح 07:15 بجے کی ٹرین سے کامٹی اسٹیشن سے چھتیس گڑھ (میندرگڑھ) کے لیے روانہ ہوئے.اللہ کے فضل سے پورا چلہ عافیت سےلگایا-( بحمدللہ)
چلہ میں تقریباً 15 دن بعد سے نظام الدین کا معاملہ شروع ہوا وہاں ایک حضرت تھے عبدالحق صاحب (انکی طبیعت تھوڑی خراب رہتی ہےان کے لیے بھی دعاء کریں بہت اللہ ان سے بھی بہت کام لے رہا ہے اللہ آگے بھی لے ) انھیں کی وجہ سے عاجز کا آدھا کام آسان ہوگیا۔ کامٹی کے شوریٰ حضرات سے انہیں نے شفارش کی تھی، کہا عاجز کو اپنی خدمت کے لیے لے جا رہے ہیں (مگر اس نالائق نے انکی ذرا بھی خدمت نہ کی بلکہ نظام الدین کے نورانی ماحول میں کھو گیا )
عاجز کی گزارش ہے اس کام کو سمجھنے کے لیے نظام الدین کا سفر ضرور کریں اور اپنی فکروں میں اضافہ کریں سچ کہتا ہوں وہ منظر وہ کیفیت کیسے بیان کروں یہ تو وہی سمجھ سکتا ہے جو وہاں ہو یا وہاں گیا ہو۔ جب ضمیر بھائی نے بتایا حضرت جی مولانا یوسف صاحب حیاۃ الصحابہ یہاں بیٹھ کر لکھا کر تے تھے یہاں اس حجرے میں جو کہ پہلے الیاس صاحب اور بعد میں یوسف صاحب رحمہما اللہ کا حجرہ تھا یہاں پر مشورہ ہوتا ہے اور پہلے یہاں ہوتا تھا واہ کیا منظر تھا عاجز وہیں کھڑا تھا ۔وہ کیفیت وہ سکون اسے لکھا نہیں جا سکتا اسے وہاں جا کر صرف محسوس کیا جا سکتا ہے۔
زیرِ نظر تحریر میں وہاں کی کچھ عجیب باتیں جو فقیر نے محسوس کیں، کچھ اکابرین کے ملفوظات اور کئی اور چیزیں قارئین کے فائدے کے تحت لکھنے کا ارادہ ہے۔ جن حضرات کا فائدہ ہو خصوصی و عمومی دعاؤں میں عاجز (مزمل اختر غفرلہُ )اور ( ضمیر بھائی، عبدالحق صاحب،عمران بھائی،ہمارے حضرت جی مرشدی مولانا صلاح الدین سیفی صاحب دامت برکاتہم ) ان تمام حضرات کے لیے خوب دعا ئیں کریں اور خاص دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں مزید کی توفیق دیں اور اس مبارک کام کے لیے قبول فرمائیں۔
اور ایک خاص بات جو عاجز نے محسوس کی ہمارے کام کرنے والے حضرات اکابرین کے نام لیتے ہیں تو کچھ ادھورا ادھورا سا لگتا ہے دیکھیے اکابر علماء دیوبند کا ایک مقام ہے بس ہم چاہتے ہیں وہ مقام باقی رہے۔ ہمارے علماءحضرات کو دیکھیے انھیں حضرات کے نام کتنے پیار سے لیتے ہیں ہمارے اکابرین نے اس دین کے لیے کیا کچھ نہیں کیا،کیا ہم ان کا صحیح طریقے سے پوراپورا نام بھی نہیں لے سکتے؟ ہمارے ساتھی کہتے ہیں :
” مولانا سعد صاحب فرماتے ہیں۔۔۔ “
اسی کو اس طرح کہا جائے تو کیاہی اچھا ہو:
”حضرت مولانا سعد صاحب دامت برکاتہم فرماتے ہیں کہ ۔۔۔“
آپ کہہ کر دیکھیں، آپ کو خود اپنی بات(مذاکرہ ) میں فرق نظر آئے گا ۔ دلیل کے لیے، کچھ ہفتے پہلے اسلم صاحب کے فرزند مولوی عبدللہ صاحب دامت برکاتہم نے مرکز وارث پورہ کامٹی میں بیان کیا تھا انہوں نے ہر مرتبہ ایسے ہی ہر اکابر حضرات کا نام لیا تووہ کہتے تھے :
”حضرت شیخ مولوی محمد یوسف صاحب فرمایا کرتے تھے ۔۔۔“
اسی طرح عاجز نے بارہا حضرت مفتی اسحاق صاحب دامت برکاتہم سے اکابرین کے نام اس طریقے سے لیتے ہوئے سنا ہے۔ دیکھیے یہ دین علماء حضرات سے ہم تک آیا ہے ،یہ لوگ حضور ﷺ کے وارث ہیں، ہمارا فرض ہے ہم انھیں سے ہر چیزیں سیکھیں اور انکی بہت عزت کریں۔ جزاک اللہ ۔
دعا جو ودعا گو
مزمل اختر غفرلہُ
پہلی نشست (25/05/13) بروز سنیچر
حضرت مولانا یعقوب صاحب دامت برکاتہم (بعد نماز مغرب)
وقت:-08:03 pm سے 08:57 pm
1)آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے جب تمھیں تکلیفیں دی جائیں تو میری تکلیفوں اور مصیبتوں کو یاد کرنا تم اپنی تکلیفوں کو بھول جاؤ گے ۔
2) دیکھو دین اجتماع سے نہیں پھیلے گا - اجتماع کے تین بڑے نقصان ہوتے ہیں ۔
الف) نقد جماعتیں ادھار ہو جاتی ہیں
ب) خرچ زیادہ ہوتا ہے ( عوام کی نظریں اللہ کی بجائے مالداروں کے جیب پر آجاتی ہے )
ت)جماعتوں کو امیر نہیں ملتے (زیادہ جماعتوں کے بننے کی وجہ سے ہر جماعت کو مناسب امیر ملنا آج کے دور میں تھوڑا مشکل ہے)
3) حضرت نے تین سے چار مرتبہ کہا ہر ایک کو اپنا سمجھیں۔ پہلے عداوت آئے گی پھر دوستی ہوجائے گی ۔
4) ہم اسلئے یہاں آتے ہیں تاکہ ہماری فکریں ایک ہو جائیں۔
نشست دوم (2013/05/26) اتوار
حضرت مولانا ابراہیم دولا صاحب دامت برکاتہم (بعد نماز فجر)
وقت: - pm05:23 سے 06:50 pm
1) کام کی حفاظت کریں۔ اس کام کی حفاظت کریں گے تو اسکا اثر نظر آئے گا ۔
(بقول موجودہ حضرت جی کہ یہ کام تعارف کی سطح سے ا وپر چلا گیا ہے ہر کوئی جانتا ہے کام کیا ہے تم لاکھ اس کام کے خلاف پرچے چھاپ لو قسم خداکی اس کام کو ذرہ برابر نقصان نہیں پہچا سکتے اب کام کو نقصان غیر وں سے نہیں بلکہ کام کو نقصان کام کے کرنے والوں سے ہے ) اس لیے حضرت کہہ رہے اس کام کی حفاظت کام کرنے والے کریں ۔
2)ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے آپ کو کام کے تابع کریں، نہ کہ کام کو اپنے تابع کریں ۔
ورنہ پھر اس کام کے کرنے کا دل چاہے گا کریں گے نہ چاہے گا تو نہ کریں گے۔
جو شخص اپنے آپ کو نماز کا پابند کرے گا تو نماز کااثر ہوگا، وہ برائی سے رکے گا یہ نہیں کہ نماز کو اپنا پابند کرلیا کہ دل چاہا پڑھ لی نا ہوانہ پڑھی - اپنی نماز کو مؤمن والی نماز بناؤ نماز کے پابند ہو جاؤ گے۔٭
3)دین کا کام ہماری ذمہ داری ہے ترقی اسی کو ہوگی جو ذمہ داری پوری کرے گا۔
4)اس کام کی برکت سے اللہ کا تعلق پیدا ہوگا۔ اس لیے اس کام سے لگے رہیں۔
مولانا یوسف صاحب فرمایا کرتے تھے (اس کام سے لگے رہو ) اخلاص آئے گا ۔
5) حق کی ابتدا دشواریوں سے ہوتی ہے اور اسکی انتہاء کامیابیوں سے ہوتی ہے ۔
6) اپنے آپ کو ہم کام سے گزاریں، اپنے آپ سے کام کو لیں۔
7) اپنے کاموں کی فہرست میں دین کی بھی محنت کو لاؤ۔
8) ااپنے دین کا بھلا چاہو اور دین والوں کا بھلا چاہو دوسروں کا بھلا چاہنا یہ دین کا ایک اہم جز ہے ۔
9) دین کی محنت میں اخلاق کا ظہور ہوتا ہے ۔
10) اس محنت کا اثر یہ ہے کہ تمہارے دشمن تمہارے ساتھ ہوجائے گا ۔
(ہمارے ایک ساتھی کہہ رہے تھے یہ کام ایسا ہے اگر ہم استقبال میں کھڑے ہوں اور ہمارا کوئ دشمن بھی آئے تو اسے بھی گلے لگانے کو کہتا ہے )
11 )کوئی غلطی بتائے تو تبلیغ کا مخالف....؟؟نہیں بلکہ وہ توہمارا خیر خواہ ہے۔ جیسے نماز میں کوئی لقمہ دے تو نماز کا مخالف نہیں ۔ اس نے تو ہماری نماز صحیح کی ہے اس لیے اس کا احسان مانیں، تسلیم اور تصحیح ہر عمل میں شامل ہے۔
12) تجارت ایسے کرو کہ جو اپنے سے اوپر ہے اس سے دین لو اور جو اپنے سے نیچے ہےاسے دین دو۔
13) نیچے جاؤ تو راستے کھلتے ہیں ۔آپ ﷺ اوپر سے بہت ساری چیزیں لاتے اور پھر نیچے گئے چھوٹوں کے ساتھ (غریبوں کے ساتھ) رہے ۔
14) سرمہ پتھر تھا اسکی پٹائی ہوئی، پسائی ہوئی، تو کیا مقام ملا....!!!!! آنکھوں تک پہنچ گیا۔ ہم بھی اپنی پٹائی اور پسائی کروائیں۔
15) انصار کے اندر یہ خوبی تھی کہ مشکل کام اپنے ذمہ لیتے تھے ۔
16) ایسے عمل کرو جس میں اللہ کے لیے اخلاص ہو اور مخلوق کے لیے اخلاق ہو۔
تیسری نشست(13/05/26) بروز اتوار
حضرت مولانا سعد صاحب دامت برکاتہم
وقت: - 10:10 سے 12:19 تک
ہمار ے یہاں کے بڑے ذمہ داروں میں ایک اہم شخصیت ہے جنہیں عموما لوگ اسلم صاحب کے نام سے جانتے ہیں۔ کافی کم عمر سے حضرت کام سے لگے اور اللہ نے ان سے بہت کام لیااور ابھی بھی لے رہے ہیں۔ حضرت اس زمانے کے ہیں آپ لوگ خود ہی سوچ سکتے ہیں کتنی مشقتیں اٹھائی ہوں گی۔ اس پر بھی ایک مرتبہ حضرت فرمارہے تھے جو کہ ہم نے کسی معتبر شخص سے سنا،حضرت کہہ رہے تھے:
" جب پہلی مرتبہ حضرت مولانا سعد صاحب دامت برکاتہم ( اسلم صاحب کا پتہ نہیں، مگر ہم سے جنھوں نے کہا انھوں نے دامت برکاتہم نہیں کہا تھا ۔۔۔ اللہ توفیق دیں ) سو جب انھوں نے پرانوں کے مجمع میں بات کی تو مجھے ایسا لگا کہ ہم نے اب تک کوئی کام ہی نہیں کیا ۔"
1) کارگزاری کمیت کی نہیں ہے کہ اتنے اتنے نکلے، بلکہ کارگزاری تو کیفیت کی ہے ۔
2) حضرت نے فرمایا مفتی زین العابدین صاحب جب بھی یہاں (مطلب نظام الدین) آتے تو تمام چیزیں لکھ کر لے جاتے اور دوسروں کو دکھاتے۔
3) سمجھ میں آئے نہ آئے کرنا وہ ہے جو ہم کہہ رہے ہیں ۔
4) جتنی ترقی ہمار ی صحابہ پر نظر رکھنے سے ہوگی اتنی کہیں نہیں ہو سکتی ، اپنے کاموں کو سنتوں پر لائیں، دعوت کا کوئ ایک جز ایسا نہیں ہے جس کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہ ہو اور صحابہ سے عملی طور پر کروایا نہ ہو۔
5) متحرک وہ ہے جن کے سالانہ چلہ لگ رہے ہوں۔
6) اپنے مجمع کو شروع سے اللہ کے راستے کےخروج کی اہمیت بتائیں ۔
7) مجمع کیوں نکلے یہ بات سامنے آنی چاہیے ۔صحابہ سے ایک سال کا خروج چھوٹنے کی وجہ سے اللہ اور نبیﷺ کی ناراضگی کے واقعات پیش کریں ۔
8) جب تک اللہ کے راستے کے خروج کو نہ بتائیں گے تب تک مجمع متحرک نہ ہوگا ۔
9) حضرت فرماتے تھے، ہمارے مجمع کا جمع ہونا بکھیرنے کے لیے ہے۔٭
10) لوگوں سے کہیں کہ 5 اعمال آپ عملی طور پر کر کے دکھلادیں تب عام مجمع اس کام پر آئے گا۔
11) جماعتوں کو زیادہ سے زیادہ اپنے ہی علاقوں میں چلاؤ نئے لوگوں کو مسجد وار جماعت سے جوڑو تاکہ ان کے اندر فکر آئے اور پرانوں کو شب گزاری سے جوڑو۔
12) جماعت کو لمبے خروج کے لیے تیار کرو صحابہ کی قربانیوں کے ذریعہ سمجھاؤ(نکلنا کیوں ضروری ہے نہ نکلنے کا کیا نقصان ہے)
13)(اپنے علاقوں میں گھروں کی تعلیم کو خوب عام کریں اور اس کو خوب مضبوط کریں ہماری بستی میں کوئی ایسا گھر نہ بچے جہاں تعلیم نہ ہوتی ہو ) حضرت نے فرمایا حضرت ( حضرت شیخ مولوی محمد یوسف صاحب ) نے مسجد میں حیاۃ الصحابہ کی تعلیم کی ۔ پھر گھر گئے حالت کافی خراب تھی تعلیم شروع کی تو گھر والوں نے کہا آپ کی حالت ٹھیک نہیں ہے آپ نے مسجد میں تعلیم کی ہم نے سن لی (کیونکہ آپ کا حجرہ مسجد سے متصل تھا ) آپ نے کہا تم لوگوں نے سنا ہوگا لیکن وہ میری مسجد کی تعلیم تھی یہ میرے گھر کی تعلیم ہے ۔
14) 6 نمبر کے مذاکرے کا مقصد یہ ہے کہ گھروں میں مستورات کے اندر فکر آئے۔
15) طلبہ بھی مسجد کی جماعت کے ساتھی ہیں، اگر ان کا مشورہ الگ ہوگا تو وہ اپنے آپ کو الگ سمجھیں گے۔ مشورہ سے یہ محسوس نہ ہو کہ یہ عمل اس طبقہ کا ہے ۔
16) روزآنہ کی فکروں میں طلبہ نہیں رہیں گے تو طلبہ بے فکر ہو جائیں گے ۔
17) ہم تو چاہتے ہیں کہ طلبہ میں پورے عالم کی فکر ہو اسلئے ہر عمل میں طلبہ کو بھی شریک کریں ۔
18) منتخب احادیث کی تعلیم کو عام کرو تاکہ عام سے عام آدمی کو حدیث کی روشنی میں چھ نمبر بولناآجاٰئے ۔
19) اس کام کی وجہ بصیرت اور استقامت آئے گی ۔
20) جب وہ دیکھتا ہے میری نماز ٹھیک ہو گئی، دین ٹھیک ہو گیا تو اب میں کیوں نکلوں؟ اسلئے لوگوں کے سامنے خروج کی اہمیت بتائیں اور تشکیل کریں۔
چوتھی نشست(26/05/13)بروز اتوار
پروفیسر عبدالعلیم صاحب (بعد نماز مغرب)
وقت: -08:05 سے 09:03
1) دیکھو دو رخ ہیں اس کام کے (الف) نقل و حرکت. (ب) مقام پر رہ کر کام کرنا
2) خروج کا بدل اور کوئی عمل نہیں ہے۔ مقامی کام اسکی بھٹکنے سے حفاظت کرتا ہے ۔
جتنا مقامی کام مضبوط ہوگا اتنی ہی نقل وحرکت مضبوط ہوگی ۔نفس پر سب سے بھاری مقامی کام ہوتا ہے۔
3) مقامی کام کے لیے مسجد ہونا شرط نہیں ہے۔ فرانس میں درخت کے نیچے کام کیا او ر چار ماہ کی جماعت نکالی ۔
4) عمومی گشت ریڑھ کی ہڈی ہے ۔ بہت سی روحانی بیماریوں کا علاج ہی عمومی گشت ہے ۔
5) اگر کوئی عالم کمزوری بتائے تو اسے فوراً قبول کریں دلیل پیش نہ کرے نہ ہی صفائی پیش کریں ۔
6) ایک مرتبہ کسی نے کہہ دیا دوبارہ میرے پاس نہ آنا تو پھر اس کے پاس جانا(اور بار بار جانا) اور اس کے پاس جانا نہ چھوڑنا یہ سوچیں کہ وہ آپ ﷺ کا امتی ہے ،اس وجہ سے اس کے پاس جانا ۔دل تو اللہ کے قبضہ میں ہے جب چاہے بدل دے ۔
7) 70 برس کی دادی اماں ہے اس سے بھی مذاکرہ کرائیں تاکہ وہ بھی اللہ سے ہونے کے بول کو بولتے ہوئے اللہ کے پاس جائے
8) شیر خوار بچہ بھی ہے تو ماں اسکو ساتھ لے کر بیٹھے حالاں کہ وہ سمجھ نہیں رہا ہے مگر تعلیم کا نور اسکے اندر داخل ہوتا ہے ۔جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اذان دی جاتی ہے نا ؟ وہ سمجھ نہیں رہا ہوتا ہے مگر اذان دی جاتی ہے۔
پانچویں نشست (26/05/13)بروز اتوار
حضرت مولانا سعد صاحب دامت برکاتہم (عشاء بعد حیات الصحابہ)
وقت: -11:10 سے 11:26
( حضرت عشاء پڑھاکر اپنے حجرے میں چلے جاتے ہیں جس کا دروازہ مسجد کی تقریباً چوتھی صف میں ہے۔پھر نمازوں سے فارغ ہوکر آتےہیں۔ ان کے پیچھے ان کے تینوں بیٹے فرمانبردار بیٹوں کی طرح نہایت ہی ادب سے حضرت کے پیچھے چلتے ہیں اور حضرت کرسی پر بیٹھ جاتے ہیں اور آپ بیٹےبھی وہی آس پاس بیٹھ جاتے ہیں۔ ان میں ہر ایک کے پاس کتاب ہوتی ہے ۔مولوی سعد صاحب دامت برکاتہم کتاب پڑھتے ہیں اور دونوں بیٹے کتاب کھول کر سنتے ہیں اور پورا مجمع اس منظر کو خوشدلی کے ساتھ دیکھتا ہے اور اور تعلیم سنتا ہے تعلیم سے پہلے حضرت کچھ اہم بات کرتے ہیں جن میں سے کچھ یہ ہیں )
1) اس راستے میں آنے والی مشکلوں کو صحابہ کی زندگی میں تلاش کرو ۔ جو یہ نہ کرے اس کے اندر استقامت نہیں ہوگی ۔
2) لوگ یہ چاہتے ہیں کہ کام استقبال سے شروع ہوں ۔جو لوگ کام کرنے کے لیے حالات کے بدلنے کا انتظار کریں گے تو حالات ان کے لیے کبھی نہیں بدلیں گے ۔
(اس کے بعد حضرت نے کتاب پڑھنی شروع کی )
(جاری ہے……)
تبصرے و حاشیے (مدیر کے قلم سے)
٭ غالباً مضمون نگار سے یہاں "بکھرنے" کی جگہ "بکھیرنے" تحریر ہوگیا ہے۔ بکھیرنے کا لفظ بھی معنی کے عین مطابق ہے البتہ زیادہ قرینِ قیاس 'بکھرنے' ہے، کیونکہ کام کے لیے سب سے پہلے خود کو پیش کیا جاتا ہے۔(مدیر)
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں