”سربکف “مجلہ۴ (جنوری ، فروری ۲۰۱۶)
عبد الرشید قاسمی سدھارتھ نگری ﷾
چوں کہ موجودہ دور کا ہر غیر مقلد جب اپنے اصلی رنگ بالفاظ دیگر "غیر مقلدیت" کے نشہ میں مست ہوتا ہے تو ”تقلید“ کی ہر قسم کو ہر حال میں شرک، حرام، غلط، باطل، ناجائز، مردود اور مقلدین کو جاہل، مشرک، بدعتی اور نہ جانے کیا کیا کہہ جاتا ہے، اس لئے ذیل میں خود اساطین غیر مقلدین اور ان کی کتب کے حوالہ سے چند عبارات اور ان سے متعلقہ چند سوالات غیر مقلدین کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں، ان عبارات کو پیش نظر رکھ کر غیر مقلدین سوالات کے جواب دیں ۔
• غیر مقلدین کے محدث عصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کی مشہور زمانہ کتاب "دین میں تقلید کا مسئلہ" کے "پیش لفظ" کی دوسری سطر میں فضل اکبر کاشمیری لکھتے ہیں:
"آنکھیں بند کر کے، بے سوچے سمجھے، بغیر دلیل اور حجت کے کسی غیر نبی کی بات ماننا (اور اسے اپنے اوپر لازم سمجھنا) تقلید (مطلق) کہلاتا ہے" ۔
• مصنف کتاب حافظ زبیر علی زئی مرحوم صفحہ 80/ پر ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:
"لغت اور اصول فقہ کی رو سے آنکھیں بند کر کے، بغیر سوچے سمجھے کسی امتی کی بے دلیل بات ماننے کو تقلید کہتے ہیں"۔
• فضل اکبر کاشمیری اپنے "پیش لفظ" کی سطر نمبر4/ میں تقلید شخصی کی تعریف کرنے کے بعد سطر 8/ میں لکھتے ہیں:
"تقلید کی یہ دونوں قسمیں (یعنی تقلید مطلق اور تقلید شخصی) باطل و مردود ہیں، جیسا کہ قرآن، حدیث، اجماع اور آثار سلف صالحین سے ثابت ہے" ۔
• حافظ زبیر علی زئی کتاب کے صفحہ 23/ پر لکھتے ہیں:
"تقلید بلا دلیل کی تمام قسمیں غلط و باطل ہیں" ۔
• اور اوپر نمبر2/ پر موصوف کی نقل کردہ عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ "تقلید" بلا دلیل ہی ہوتی ہے ۔
• موجودہ دور کے جماعت اہل حدیث کے مشہور مصنف اور خطیب حافظ جلال الدین صاحب قاسمی اپنی کتاب "تقلید کی شرعی حیثیت" کے صفحہ 58/ پر لکھتے ہیں:
"تقلید کی کوئی قسم جائز نہیں" یعنی نہ تقلید مطلق نہ تقلید شخصی" ۔
• دوسری طرف انہیں کے پیشوا اور شیخ الکل فی الکل میاں نذیر حسین صاحب محدث دہلوی رحمہ اللہ اپنی مشہور زمانہ کتاب "معیار الحق کے صفحہ 80- 81/ پر لکھتے ہیں:
"باقی رہی تقلید وقت لاعلمی، سو یہ چار قسم ہے ۔ قسم اول: واجب ہے اور وہ تقلید مطلق ہے، ....... قسم ثانی: مباح" ۔
• مشہور اہل حدیث عالم اور مصنف مولانا محمد ابوالحسن سیالکوٹی مرحوم اپنی کتاب "الظفر المبین فی رد مغالطات المقلدین" کے صفحہ 43/ پر چوتھے مغالطہ کے جواب میں لکھتے ہیں:
"جسے بسبب کم علمی یا قصور فہم یا قلت تدبر کے قرآن و حدیث سے کوئی مسئلہ معلوم نہ ہوسکے تو ایسے شخص کو (اللہ تعالی کے حکم فاسئلوا اہل الذکر ان کنتم لاتعلمون [سورة النحل:43] "اگر کوئی بات تمہیں معلوم نہ ہو تو اہل علم سے پوچھ لو" کے مطابق) کسی محدث، مجتہد، فقیہ، قاضی، مفتی یا عالم سے اس مسئلہ کے متعلق پوچھ لینا چاہئے ۔ ایسے مواقع پر مجبوراً کسی کی تقلید کرنا جائز ہے" ۔
• مولانا محمد حسین بٹالوی مرحوم فرماتے ہیں:
"عوام اور بے علموں کے لئے ترک مطلق تقلید کا کوئی قائل نہیں ۔ (احسن الجدال صفحہ 27)
• حافظ جلال الدین قاسمی اپنی اسی کتاب کے اسی صفحہ پر لکھتے ہیں:
"ترک مطلق تقلید کو وہ (یعنی مولانا بٹالوی) صحیح نہیں سمجھتے تھے" ۔
• مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی رحمہ اللہ اپنی مشہور زمانہ کتاب "تاریخ اہل حدیث" کے صفحہ 146/ پر لکھتے ہیں:
"ہمارے حنفی بھائی ہم اہلحدیثوں کے بارے میں یہ خیال رکھتے ہیں کہ ہم مطلقا تقلید کا انکار کرتے ہیں" ۔
• غیر مقلدین کے امام العصر حافظ محمد محدث گوندلوی "الاصلاح" کے 1/158 پر لکھتے ہیں:
"جس تقلید کو حنفیہ واجب کہتے ہیں، اس کے ادلہ کو اگر دیکھا جائے تو ایسی تقلید سے اہل حدیث بھی مفر نہیں" ۔
قارئین کرام! یہاں ہمیں تقلید کے اقسام، اس کے وجوب و جواز اور شرک و حرام سے بحث نہیں ہے ۔
نہ اس سے بحث ہے کہ مقلدین جو تقلید کو واجب اور ضروری کہتے ہیں وہ بوقت لاعلمی ہے یا ہر حال میں؟
نہ ہی اس سے مطلب ہے کہ مقلدین ائمہ اربعہ کی تقلید بحیثیت شارع کرتے ہیں یا بحیثیت شارح؟
نہ ہی یہ پوچھنا ہے کہ جب بقول حافظ زبیر علی زئی تقلید بے دلیل ہی ہوتی ہے، تقلید کی ہر قسم ہر حال میں غلط، باطل، شرک اور حرام ہے، تو کیوں شیخ الکل فی الکل اور مولانا سیالکوٹی نے بوقت لاعلمی اسے جائز اور واجب کہا؟
نہ یہ فیصلہ کرنا ہے کہ شیخ الکل فی الکل اور مولانا سیالکوٹی کی بات غلط ہے یا محدث عصر حافظ زبیر علی زئی کی؟
اور نہ یہ سوال ہے کہ جو تقلید بقول ابوالحسن سیالکوٹی قرآن کی صیغہ امر والی آیت "فاسئلوا اہل الذکر" سے ثابت ہے وہ بلا کسی قرینہ کے صرف جائز اور مباح ہی کیوں رہی؟
٭بلکہ صرف یہ عرض کرنا ہے کہ:
①جس تقلید کی غیر مقلدین مذمت کرتے ہیں اور شرک، حرام، ناجائز، بدعت وغیرہ نہ جانے کیا کیا کہتے ہیں، اس کی کیا تعریف ہے؟
②تقلید بے دلیل ہوتی ہے یا با دلیل؟
③اگر بے دلیل ہوتی ہے تو کیا بے دلیل بات کی پیروی اور اتباع شریعت میں جائز ہے؟
④کیا تقلید کی ہر قسم ہر حال میں شرک اور حرام ہے؟ یا کوئی قسم کسی صورت میں واجب یا مباح بھی ہے؟
⑤اگر ہے تو محدث عصر اور عام غیر مقلدین کیوں علی الاطلاق تقلید کو غلط، باطل اور شرک و حرام کہہ کر امت کو فریب میں مبتلاء کرتے ہیں؟
⑥اور اگر کسی بھی صورت میں واجب یا جائز نہیں ہے تو شیخ الکل فی الکل اور مولانا سیالکوٹی وغیرہ کیوں تقلید کو واجب اور جائز کہتے ہیں؟
⑦تقلید کا ثبوت قرآن کریم کی کسی آیت سے ہے یا نہیں؟
⑧اگر ہے تو مولانا سیالکوٹی کیوں اسے ثابت مانتے ہیں؟ اور مولانا بٹالوی وغیرہ کس دلیل سے تقلید مطلق کے قائل ہیں؟
⑨اور اگر ثابت ہے تو امت کو کیوں یہ کہہ کر فریب میں مبتلاء کیا جاتا ہے کہ تقلید کا ثبوت قرآن کریم کی کسی آیت سے نہیں؟
⑩اگر ایک چیز قرآن کریم کی کسی آیت سے ثابت ہو اور اس کے بارے میں کوئی علی الاطلاق صراحتاً انکار کر دے، تو اس منکر پر کیا حکم لگے گا؟ منکر قرآن، محرف قرآن، یا قرآن و سنت کا متبع؟
⑪لاعلم اور کم علم لوگوں کو بے دلیل بات ماننے کا حکم اور ترغیب دینا اور خود اسے واجب و جائز کہنا کیسا ہے؟
⑫بے دلیل بات ماننے کا حکم اور ترغیب دینے والے کے بارے میں غیر مقلدین کا کیا نظریہ ہے؟
⑬اجتہاد کا حق کس کو حاصل ہے؟
⑭اجتہاد کے کیا شرائط ہیں؟
⑮موجودہ دور کے جاہل غیر مقلدین قرآن و سنت کے احکام پر کس طرح عمل کریں گے؟ کسی کی تقلید کر کے یا بلا تقلید؟
⑯اگر تقلیدا ً عمل کریں گے تو یہ تقلید ان کے اوپر واجب ہوگی یا جائز، یا شرک اور حرام؟
⑰اور اگر بلا تقلید عمل کریں گے تو کیسے؟
⑱ہم غیر مقلدین کے بارے میں کیا خیال رکھیں کہ وہ صرف تقلید مطلق کے قائل ہیں یا تقلید مطلق اور تقلید شخصی دونوں کے، یا دونوں کے منکر ہیں؟
⑲وہ کونسی تقلید ہے جسے حنفیہ واجب کہتے ہیں، اور دلائل کے پیش نظر غیر مقلدین بھی اس کے منکر نہیں؟
سارے سوالوں کا جواب سوچ سمجھ کر دیں اور ضرور دیں۔
٭٭٭
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں