منگل، 12 فروری، 2019

دو رنگی چھوڑ دے...قسط ۲

مدیر

اس طبقے کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ انہیں آس پاس والے محض مسلمان نہیں، بلکہ ولی اللہ میں سے تسلیم کرتے ہیں۔ ان کے اعمال محض فرائض و واجبات والے نہیں، بلکہ نوافل تک ہوتے ہیں۔ سونے پر سہاگا یہ کہ دوسروں کو دعوت بھی دیتے ہیں۔ لیکن خود وہ نہیں کرتے جو کہتے ہیں۔

دنیا کی نگاہ میں، اولیاء اللہ کا درجہ پانا کیا مشکل ہے؟ ہر کوئی پا سکتا ہے۔ دنیا دلوں کے اندر نہیں جھانکتی، دنیا آپ کے ذاتی کرتوتوں سے واقف نہیں ہوتی، یا یہ کہہ لیں کہ ہمارا پیارا اللہ لوگوں کو واقف نہیں کراتا...ورنہ خدا کی قسم! اگر اللہ گناہوں میں بدبو پیدا کر دے تو ہمیں ولی اللہ سمجھنے والے، ہم سے مشورہ مانگنے والے، دوسروں کی تربیت کے لیے ہم سے درخواست کرنے والے ہمارے گناہوں کے تعفن سے پاس بیٹھنا پسند نہیں کریں گے۔

یوں لگتا ہے جیسے دو رنگی کی زندگی گزارنے والوں سے فرشتے دور... بہت دور پرے ہو جاتے ہیں۔ کہ یا اللہ! یہ لوگوں کو ترغیب دینے والا گناہوں میں خود اس قدر ڈوبا ہوا ہے، کہ اس کی بدبو سے ہم اس کے قریب بھی نہیں جا سکتے۔ پھر اللہ گویا فرشتوں کی شکایت پر اللہ کریم ... ڈانٹتے ہوئے کہتا ہے:

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ

اے ایمان والو ! تم ایسی بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں ؟
[ سورہ ۶۱، الصف: ۲]

فیس بک اور واٹس ایپ پر اکثر یہ ”ولی اللہ“ مناظرے کرتے ہوئے آپ کو مل جائیں گے۔ جن کے علم سے ایک بڑا طبقہ فیضیاب ہو رہا ہوتا ہے اور ان سے مرعوب ہوتا ہے۔ کوئی بھی اچھی بات ہو، اسے شیئر کرتے ہوئے یہ ہچکچاتے نہیں، نیکی میں دیر کیسی!  فوراً اللہ کے بندے جو فیس بک پر ”الٹے سیدھے“ کاموں میں مشغول ہیں، ان تک احادیث کا تحفہ پہنچ جاتا ہے۔ لیکن اسی ”ولی“ کے فیک اکاؤنٹس لڑکیوں کے نام پر چل رہے ہوتے ہیں۔ ان کا کام روزانہ پندرہ، بیس احادیث ارسال کرنا اور تین چار فحش اور گندے میسجز اپنی فیک آئی ڈی کے ذریعے سے بھیجنا ہوتا ہے۔ دوسرے ہی دن مناظرِ اسلام اور باطل شکن  بن کر پھر میدان میں کود پڑتا ہے۔

یہ ”ولی اللہ“  راستہ چلتے ہوئے کوئی موقع بد نظری کا ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔   ہاں، یہ ضرور دیکھتا ہے کہ کوئی مجھے دیکھ تو نہیں رہا۔ بس،  اگر لوگ نہ دیکھیں تو میں ابھی  اپنے کمینہ پن کا ثبوت دے دیتا ۔

حتی کہ دینی فکروں اور باتوں کو اوڑھے ہوئے اللہ والوں کے ساتھ سفر جاری ہوتا ہے۔ جماعت کے ساتھ گشت میں نکلتا ہے تو یوں کسمساتا ہے کہ میرے جاننے والے ساتھ ہیں، ورنہ میں اسے دیکھ لیتا۔ کاش میرے ساتھ کوئی نہ چل رہا ہوتا تو میری کمینی آنکھوں کی ہوس پوری ہو جاتی۔ کاش یہ دین دار لوگ میرے ساتھ نہ ہوتے تو نفس کی خواہش کی تکمیل ہو جاتی۔
ہائے افسوس! کاش میں گشت میں نہ چل رہا ہوتا تو اپنی خباثت کا ثبوت دے دیتا۔

اس بد بخت کو علم نہیں کہ اس کی نحوست سے پوری جماعت کا گشت بے اثر ہو رہا ہے، اور نہ جانے کتنے لوگوں کی آخرت سنورنے سے رہ گئی ہے۔ سوچ صرف اتنی کہ میری آنکھوں کی ہوس پوری ہو جائے، حرام لذت پانے کا یہ موقع کہیں میں نہ کھو دوں۔ ساری دنیا بھاڑ میں جائے، میں نے شیطان سے دوستی گانٹھ لی ہے،  میں نے یہ گناہ کرنا ہی ہے۔
بس......کوئی دیکھ نہ رہا ہو!

چپکے سے، بہانے سے نظر گھماتا ہے ،آنکھوں کے کونے سے دیکھتا ہے، اور پھر طمانیت سے حرام لذت کو محسوس کرتا ہوا آگے بڑھتا ہے... شیطان بلند و بانگ قہقہے لگاتا اس کی حرکت سے محظوظ ہوتا ہے۔

اور پھر اللہ کا پاک کلام پس منظر میں پکارتا ہے:

يَعْلَمُ خَاۗىِٕنَةَ الْاَعْيُن

وہ (اللہ) آنکھوں کی خیانت کو جانتا ہے

وَمَا تُخْفِي الصُّدُوْرُ

اور ان باتوں کو بھی جن کو سینوں نے چھپا رکھا ہے
[ سورہ ۴۰، غافر: ۱۹ ]

کاش اے دوغلے انسان!  تو  فرش والوں  کی بجائے عرش والے رب کے ڈر سے گناہ چھوڑتا۔
 (جاری......)

فقیر شکیبؔ احمدعفی عنہٗ
بروز بدھ،۸:۰٥بجے صبح

     

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں