منگل، 12 فروری، 2019

سوشل نیٹ ورک کی عفریت - فیضان الحق معراجی

فیضان الحق معراجی حفظہ اللہ

ہم تفریح طبع کے لئے سوشل نیٹ ورک پر کیسے کیسےمباحث میں مصروف رہتے ہیں کہیں اسلامی مسئلہ ،کہیں مسلکی مسئلہ،کہیں سیاسی تو کہیں نظریاتی الغرض ہم میں سے ہر ایک خواہ وہ عقل پر لٹھ کے بجائے سینک لے کر گھوم رہا ہو مگر اختلافی موضوعات میں نوے فی صد حصہ لے رہا ہے اس بات سے قطع نظر کہ وہ اختلافی موضوعات کس قسم کے ہیں۔

مگر سوشل نیٹ ورک(عفریت) کے صارفین ان چھوٹی چھوٹی تفریحوں کے فوائد و نقصانات کا اندازہ جب لگتا ہے جب ہم ان کا گہرائی سے مطالعہ کرتے ہیں چنانچہ ہم میں سے کوئی بھی جب اپنا اکاؤنٹ بناتاہے اس وقت مالکان سوشل نٹورک ہم سے کچھ ایسے معاہدے کرواتے ہیں کہ اگر ہم ان کو بغور پڑھیں اور ان کی گہرائی کو سمجھیں تو شاید کسی سائٹ پر اکاؤنٹ بناتے ہوئے ہم سب کا کلیجہ منہ سے باہر گر جائے۔

وہاں ان کے معاہدے کچھ اس طرح ہوتے ہیں کہ آپ کی محفوظ کردہ دستاویز کو مالکان کسی بھی صورت استعمال کرنے کا جواز رکھتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔

اب اس ضمن میں دیکھا جائے تو ابھی کچھ ہی روز کا معائینہ تھا کہ خود ہمارے ملک "ہندوستان" میں کسی خبر سے بدامنی پھیلانے کے لئے صرف "دس منٹ" کا وقت صرف ہونا ہے ۔

اسی طرح ملٹی نیشنل کمپنیوں کو اپنی کالا بازاری اور پروجکٹ کی کامیابی کے لئے کون سا علاقہ زیادہ موزوں ہے اس کے لئے وہ سب سے پہلے سوشل نٹورک مالکان سے رابطہ کرتے ہیں کہ ان کا یہ پروجکٹ کس علاقہ میں کس حد تک نفع کما سکتا ہے ؟ اور چونکہ ہم اس معاہدے کے تحت ہیں اس لئے مالکان سوشل نٹورک ہماری رائے ان کو بلا جھجھک فروخت کرتے ہیں اور اس طرح وہ ہماری اس چیز کو جو ہم صرف تفریح طبع کے لئے استعمال کررہے ہیں اس کو وہ اپنےمفاد کے لئے بلا عوض استعمال کررہے ہیں ۔اور یہیں پر بس نہیں بلکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی مذہبی،مسلکی،سیاسی نظریات میں کون کون کس کس طرح کے رویہ کا خوگر ہے اور کس علاقہ کے سرکردہ اور غیر سرکردہ لوگ اس مسئلہ میں کس نظریہ کے حامی ہیں ان تمام باتوں کو باقاعدہ طور سے سوشل نٹورک سے حاصل کیا جاتا ہے اور یہ بیش قیمت معلومات دینے کے لئے ہم بھولی عوام جانتے بوجھتے ہوئے خود کا نظریہ بلا عوض ان تک پہونچاتے ہی نہیں بلکہ اس پر خود کے قیمتی اوقات کے ساتھ اپنی خطیر رقم بھی اس پر شوق سے گنوانے میں فخر محسوس کرتے ہیں اور وہ اسی کو بڑی بڑی رقم میں دوسروں کو فروخت کرتے ہیں۔

بات صرف فروختگی تک محدود ہو تو تسکین خاطر ہوجائے اور صبر کرلیا جائے تاہم یہاں بات صرف فروختگی کی نہیں ہے۔۔۔

بلکہ بات یہاں ان دشمنان انسانیت کی ہے جن کو صرف اپنی بالا دستی اور لیڈر شپ کے لئے رذیل سے رذیل پروپگنڈوں کو انسانیت کے انہدام کے لئے استعمال کرنے کی ہے اور خود کی حکمرانی اور تانا شاہی کی برقراری کی ہے لہذا ضروری ہے کہ ہم سے ہر ایک ایسے مباحث میں بہت محتاط انداز سے محض اصلاحی فکر کا جذبہ کار فرما رکھ کر اس سوشل نٹورک کا استعمال کرے ۔

اور جہاں جہاں برساتی مینڈھک بیٹھے بیٹھے ٹرٹر کررہے ہیں ان کو بہت ہی خوش اسلوبی سے سمجھائے اگر وہ وار کرتے ہیں تو اس انداز سے دفاع ہو کہ وہاں ہم سب کا نظریہ ہار اور جیت بالکل نہ ہو بلکہ ہمارا نظریہ سمجھنا اور سمجھانے کے ساتھ متلاشی حق اور اصلاحی ہو اس طرح اس سوشل نٹورک سے نفع اٹھا کر ہم ہی پر وار کرنے والوں کے منحوس اذہان کو شکست اور ان کے ناپاک پروپگنڈوں کا قلع قمع بھی کیا جا سکتا ہے اور ساتھ میں بے جا الزامات اور کذب بیانی کرنے والوں کے گلے میں پھندا بھی ڈالا جا سکتا ہے۔

٭٭٭

     

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں