”سربکف “مجلہ۵(مارچ، اپریل ۲۰۱۶)
بھائی فاروق اعظم سےایک ملاقات
احمد اوّاہ:السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
فاروق اعظم :وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
س:آپ اس وقت کہاں سےآرہےہیں ؟
ج:میں چارماہ کی جماعت میں ہوں ،ہماری جماعت دوچلےلگاکرمرکزپہنچی ہے،تیسرےچلےکےلئےمہاراشٹرکارخ بناہے،پرسوں کارزرویشن ہواہے،آج سوچاحضرت سےملاقات ہوجائے،اللہ کاشکرہےملاقات ہوگئی ۔
س:جماعت میں آپ نے وقت کہاں لگایا؟
ج:پہلاچلہ گجرات میں لگااوردوسراراجستھان میں ۔
س:آپ کےیہ تینوں ساتھی بھی آپ کےساتھ جماعت میں ہیں ؟
ج:جی یہ میرےجیل کےساتھی ہیں اورانھوں نےبھی مجھ سےچندماہ بعداسلام قبول کیاہے،یہ عبدالرحمٰن بھائی جوبہرائچ یوپی کےرہنےوالےہیں ،یہ بھی ایک جھوٹےمقدمےمیں دہلی میں پھنس گئےتھے،تہاڑجیل میں تھے،مجھ سے دو مہینے بعد مسلمان ہوگئے،اورچھ مہینےبعدجیل سےچھٹ گئے،ان کو میں نے جماعت کےلئےگھرسےبلایاہے،اوریہ دوسرے شکیل احمدبھائی ہیں یہ پنجاب میں پٹیالہ کےرہنےوالےہیں ،یہ بھی جیل میں میرےساتھ تھے،اورمجھ سےچارمہینےبعدمسلمان ہوئے،یہ بھی تین سال پہلےبری ہوگئےتھے،ان کوبھی ساتھ میں جماعت کےلئےمیں نےبلایاتھا،اوریہ تیسرےمحمدسلمان بھائی یہ لونی غازی آبادکےہیں ، انھوں نےمجھ سےچھ ماہ بعداسلام قبول کیاتھا،اوراسلام قبول کرنےکےچھ روزبعدیہ رہاہوگئےتھے،انھوں نےجیل سےجاکرچالیس دن لگالئےتھے،مگرمیرےساتھ وقت لگانےکاوعدہ تھااس لئےپھرمیرےساتھ چارمہینےلگارہےہیں ۔
س:آپ کاوطن کہاں ہے؟
ج:میں گورکھ پور(یوپی )کےایک گاؤں کارہنےوالاہوں، آٹھویں کلاس کےبعدچاچاکےساتھ دہلی ۱۹۸۹ء میں روزگارکےلئےآگیاتھا،زندگی کااکثرحصہ دہلی میں گذرا،آخرکےیہ چھ سال توجیل میں گذرے۔
س:جیل میں آپ کیسےچلےگئے؟
ج:اصل میں ہمارےنبی ﷺنےبری صحبت سےبچنےکاحکم دیاہے،اورلوہارکےپاس اگرآگ نہ لگےتودھواں تولگےگاہی ،ہم کچھ لوگ جمناپارمیں ساتھ رہتےتھے،لکشمی نگرکےایک آدمی کاقتل ہوگیااس کی ہمارےایک ساتھی سےچندروزپہلےلڑائی ہوئی تھی ،جس سےلڑائی ہوئی تھی ،اس کی صحبت اچھی نہیں تھی ،جواصل قاتل تھےانھوں نےپولیس کوپیسےدےکرہوشیاری سےہم لوگوں کےنام وہ قتل لگادیااورہم لوگوں کوجیل جاناپڑا،میرےاللہ کاکرم تھاہمارےمقدمہ کی کوئی پیروی کرنےوالانہیں تھا۔
س:یہ کیابات آپ کہہ رہےہیں ؟
ج:میں سچ کہہ رہاہوں مولانااحمدصاحب ،ہمارےپیارےنبی ﷺنےکیاسچ فرمایاکہ کچھ لوگ ایسےہوں گےکہ ان کےگردن میں طوق ڈال کراللہ تعالیٰ کھینچ کرجنت میں داخل کریں گے،مجھےبالکل ایسالگتاہےکہ میرےاللہ کاوہ کرم ہمارےاورہمارےجیل کےساتھیوں کےلئےہے میرے اللہ نےجس طرح ہمیں جیل میں بھیج کرہدایت سےنوازا۔
س:آپ ذراتفصیل بتائیے؟
ج:میں نےبتایاناکہ میں بچپن میں اپنےچاچاکےساتھ روزگارکےلئےدہلی آگیاتھا،شروع میں ایک ہارڈویرکی دوکان پرمیرےچاچانےمجھےلگایاپھرمیرےچاچایہاں آکرایک عورت کےچکرمیں پڑگئےاورپھرگھربارکوچھوڑدیا،میرےپتاجی (والدصاحب )کاانتقال ہوگیابعدمیں میں نےکچھ بیکری آئٹم سپلائی کےلئےایک ریڑہ رکشہ خریدااورایک کےبعدایک کچھ نہ کچھ سپلائی کاکام کرتارہا،مارچ ۲۰۰۱ ءمیں میری شادی میری ماں نےکرادی ،۲۰۰۶ ءمیں مجھ پرمقدمہ قائم ہوااورمیں اپنےساتھیوں کےساتھ جیل میں چلاگیا،جیل میں تنہائی میں میں بہت غورکرتا،کہ مجھےبھگوان نےکس جرم میں جیل بھیجا،اصل میں جب میں ہندوتھاجب بھی میرےدل میں اس کاپکایقین تھاکہ جوکچھ ہوتاہےمالک کی مرضی سےہوتاہے،یہ دنیاکےسارےلوگ اوراسباب کٹھ پتلی ہیں ،جیسےوہاں سےانگلی ہلتی ہےیہ ناچتےہیں ،تومیں سوچ میں بہت ڈوب جاتاکہ مجھےجیل میں مالک نےکیوں بھیجاہے،جب میں بےقصورہوں اورمیری کوئی پیروی کرنےوالابھی نہیں تومیرےدل میں کوئی کہتاکہ تجھےکچھ دینےکےلئےاوربنانےکےلئے۔تین سال پہلےدہلی کےایک وکیل صاحب بچپن کےکسی مقدمہ میں سزایاب ہوکرتہاڑجیل پہنچے،جیل میں بہت چرچےتھے،کہ دہلی ہائی کورٹ کےاتنےبڑےوکیل صاحب جیل میں آگئےہیں ،وکیل صاحب کےباقاعدہ داڑھی تھی ،بڑےمولانالگتےتھے،سب قیدی ان سےدبتےرہتے،مقدموں کےسلسلہ میں مشورہ کرتے،وہ مفیدمشورہ دیتے،لوگ ان سےمعلوم کرتےکہ آپ اتنےبڑےوکیل ہیں پھربھی جیل میں آگئے،انھوں نےکہاجج رشوت چاہ رہی تھی ،میں نےرشوت دینےکےمقابلہ میں جیل کومناسب سمجھا،لوگ کہتےکہ رشوت دےدینی چاہئےتھی ،تووہ کہتے،رشوت دینےسے،مرنےکےبعدکی خطرناک جیل جہنم میں جانےکےبجائےیہ عارضی تہاڑجیل اچھی ہے،وہ مقدموں کےسلسلہ میں مشورہ کےدوران قیدیوں سےمعلوم کرتےکہ اس قیدمیں اتنےپریشان ہورہےہو،جہاں کھانا،پانی ،علاج ،پنکھےبسترسب ہے،مرنےکےبعدکی جہنم کی جیل کی پرواکیوں نہیں ؟جہاں نہ کھانانہ پانی ،اورسزاہی سزاہے،قیدیوں کوان کےمولویانہ حلیہ اورہرایک کی ہمدردی کےجذبہ کی وجہ سےبہت تعلق ہوگیاتھا،وہ ان کی بات کوبہت گہرائی سےلیتےتھے،جیل میں وہ مسلمانوں میں بھی نمازوغیرہ کی دعوت کاکام کرتےتھے،اورغیرمسلم قیدیوں کوحضرت کی کتاب ’’آپ کی امانت آپ کی سیوامیں ‘‘دیتے،’’مرنےکےبعدکیاہوگا؟‘‘اور’’نسیم ہدایت کےجھونکے‘‘(ہندی میں )بھی پڑھواتے،مولانااحمدصاحب میرےجتنےساتھیوں نےاسلام قبول کیاہے،سارےساتھیوں کاخیال یہ ہےکہ ’آپ کی امانت آپ کی سیوامیں ‘ایسےلگتی ہےجیسےکسی عمرقیدکی سزاکاٹ رہےقیدی کواچانک رہائی کاپروانہ مل جائے،اورمیں توبالکل اس کومالک کےیہاں سےقیدسےرہائی کاپروانہ ہی سمجھتاہوں ،۱۷ ؍جنوری ۲۰۱۰ ءکومیں نےتہاڑمیں اسلام قبول کیا،دسمبر۲۰۱۰ ءمیں ہم کچھ لوگوں کوناگ پورجیل بھیجاگیا،وکیل صاحب کےساتھ مل کرمیں نےکام کیا،الحمدللہ کل ملاکرتہاڑمیں ۳۷ ؍لوگوں نےاسلام قبول کیا،ان میں ایک بجرنگ دل کےوہ صاحب بھی تھے،جنھوں نے۱۹۹۲ ءکےفسادات میں دواماموں کوقتل کیاتھا،اوربعدمیں وہ خوداتنےپچھتائےکہ قتل میں جیل چلےگئے۔
”مولانااحمدصاحب میرےجتنےساتھیوں نےاسلام قبول کیاہے،سارےساتھیوں کاخیال یہ ہےکہ ’آپ کی امانت آپ کی سیوامیں ‘ایسےلگتی ہےجیسےکسی عمرقیدکی سزاکاٹ رہےقیدی کواچانک رہائی کاپروانہ مل جائے“
س:ناگپورمیں بھی آپ نےکام کیا؟
ج:ناگپورمیں اس سال مارچ میں رہائی تک رہا،اورالحمدللہ میں یہ سوچ کرجیل میں رہاکہ مجھےاللہ تعالی نےحضر ت یوسف علیہ السلام کی سنت زندہ کرنےکےلئےجیل کےاندرقیدیوں کوجہنم کی جیل سےآزادکرانےکےلئےبھیجاہے،الحمدللہ ۶۷ ؍لوگ ناگپورجیل میں مسلمان ہوئے،ناگپورجیلرکےپاس لوگوں نےشکایت کی ،مجھےمعلوم ہواکہ وہ مجھےبلاکربات کرنےوالےہیں میں نےاس خیال سے،اس سےپہلےکہ اندھیرےوالےچراغ کوبجھانےکوکہیں ،ہمیں اندھیروں کوروشن کرناچاہئے،جیلرآرکےپاٹل سےوقت لیا،سب سےپہلےمیں نےان کوقانون کی آرٹیکل ۲۵ ؍کےحوالہ سےملک کےہرشہری کواپنےمذہب کی دعوت دینےکےمول ادھیکار(بنیادی حق )کی بات ذرازوردےکرکہی ،کہ آپ ملک کےکسی شہری کواس سےروکیں گےتوقانون توڑیں گے،اس کےبعدمیں نےان کواپناتعارف کرایااوربتایاکہ مالک جانتاہےکہ میں بالکل بےقصورسزاپارہاہوں ،اوراس مالک نےمجھ قیدی کوناگپورجیل میں آپ جیلرپاٹل صاحب کونرک کی خطرناک جیل سےچھڑانےکےلئےبھیجاہے،میں نےکچھ آخرت کی بات کہہ کران کو’آپ کی امانت ‘دی ،اوران سےپڑھنےکاوعدہ لیا،اوراس پرکہ وہ ضروراس کتاب کوپڑھیں ان کی ماں کےدودھ کی قسم لی ،وہ کتاب انھوں نےپڑھی ،ان کی سوچ کی دنیابدل گئی ،انھوں نےدوسری کوئی کتاب مانگی تومیں نے‘مرنےکےبعدکیاہوگا؟‘پھر’نسیم ہدایت کےجھونکے‘(ہندی میں )کتاب ان تک پہنچائی ،مالک کاکرم ہےانھوں نےاسلام قبول کیا،پچھلےسال رمضان سےپہلےوہ مسلمان ہوگئےہیں ،ابھی عام اعلان تونہیں کرسکے،انھوں نےپچھلےسال رمضان کےایسےسخت روزےرکھےاورناگپورکےکچھ تاجرمسلمانوں کےساتھ مل کرجیل میں افطاراورسحری کابہت اچھاانتظام کرایااورپھردہلی سفرکرکےمیرےکیس کی پیروی کی ، وکیل کیااپنےخرچ سے،الحمدللہ میری رہائی ہوگئی ۔
س:آپ کےگھروالوں کومعلوم ہوگیا؟
ج:میں جیل سےہی اپنی ماں اوربھائیوں کوخط کےذریعہ دعوت دیتارہا،جیل سےرہاہوکرگھرگیا،میری ماں اوردوبھائی الحمدللہ پہلےسےتیارتھے،انھوں نےاسلام قبول کرلیاہے،میرےچچاکےبیٹےجوڈاکٹرہیں وہ بھی مسلمان ہوگئےہیں ،میں حضرت کی تقریر کی CD ناگپورسےلایاتھااس میں انھوں نےکہاہےکہ اسلام ایک نورہے،اگرکوئی شخص اسلام لائےگاتوچراغ کی طرح اسلام کےنورسےمنورہوگا،جہاں رہےگاوہ روشنی پھیلائےگا،مومن جہاں ہواسلام کانوراس سےضرورپھیلےگا،کسی چراغ کےبس میں نہیں کہ وہ روشن ہواورروشنی نہ پھیلائے،اسی طرح مومن کےبس میں ہی نہیں کہ وہ داعی نہ ہو،الحمدللہ ہمارےجوساتھی تہاڑجیل سےمسلمان ہوئےاورجوناگپورسےہوئےہرایک کودعوت کی دھن ہے،ایک محمدعمرناگپورسےاورنگ آبادجیل میں گئےوہاں پربہت لوگوں نےاسلام قبول کیا،ایک محمداقبال بریلی جیل گئے،وہاں پرایک ڈاکٹرصاحب کےساتھ مل کربہت کام کیا،ایک محمداسماعیل روہتک جیل میں گئے،وہاں پراکیس لوگ مسلمان ہوئےاوریاہادی یارحیم پڑھ کرلوگ رہاہوتےگئے،ان میں سےاکثرنےجاکرکام کیا،اوراپنےگھروں میں اپنی زندگی کامقصددعوت بناکرکام کررہےہیں ۔
س:ابی سےتوآپ پہلی مرتبہ ملےہوں گے؟
ج:بظاہرتوپہلی مرتبہ ملے،مگرآپ کی امانت اورنسیم ہدایت کےجھونکے،اوروکیل صاحب سے(چونکہ وہ حضرت کےمریدہیں )ان کی باتیں سن سن کرایساتعلق ہوگیاہے،ایسالگتاہےجیسےنےہم حضرت کی تربیت سےپلےہیں ،اوراب بیانات کی CD نے حضرت کےبول یادکرادئیےہیں ،دیکھنےاورملنےسےبھی ایسا لگاجیسےحضرت کوبہت دیکھاہے۔
س:اب آپ کاکیاارادہ ہے؟
ج:جماعت میں وقت لگاکرحضرت کےپاس کچھ وقت گذارناہے،اورپھرگورکھ پورکےآس پاس دعوت کاکام کرناہے
س:آپ کےبیوی بچوں کاکیاہوا؟۔
ج:الحمدللہ میری بیوی اوردونوں بچےاسلام میں آگئےہیں
س:ان کےاخراجات وغیرہ کااس دورمیں کیاہورہاہے؟
ج:میری بیوی نےاپنےزیوربیچ کراپنےبھائی کےساتھ مل کرایک کاروبارکیاتھا،الحمدللہ اس میں بڑی برکت ہوئی ،میری بیوی نےمجھےجماعت کاخرچ دیا،اوراس نےطےکیاہےکہ وہ حضرت خدیجہ کی طرح اپنےمال کودعوت پرخرچ کرےگی ،اتفاق سےہمارےرواج کےخلاف وہ عمرمیں مجھ سےآٹھ سال بڑی ہیں ،اس طرح اللہ کاکرم یہ ہےکہ ایک طرح یہ سنت بھی اللہ نےبےمانگےدےدی ۔
س:جماعت میں آپ رہےتوآپ کادل غیرمسلموں میں دعوت کونہیں چاہا؟
ج:اصل میں ابھی جماعت میں اس کی کھل کراجازت نہیں ،مگرکوئی موقع مل جاتاہےتوپھرآدمی کیاکرے،راجستھان میں ہم کوٹہ میں کام کررہےتھے،گشت کےلئےجارہےتھے،ایک آشرم کےسامنےکچھ لوگ بیٹھےتھے،آشرم کےذمہ داربھی تھے،ہمیں روک کربولے،آپ لوگ دھرم کےنام پرجماعت میں نکلےہو،توکیاہم تمہارےبھائی نہیں ؟ہم سےایسی نفرت کےساتھ کیوں نگاہ چراکرجارہےہو،ہمیں بھی بتاؤ،میں نےامیرصاحب سےاجازت لی اورسب سےگلےملااوربات کی ،الحمدللہ چاروں لوگوں نےنقدکلمہ پڑھا،اورہمارےساتھ گشت کرایا،نمازپڑھی اورپھربات کےبعدتشکیل ہوئی ،چلےکےلئےنام بھی لکھائےاس طرح ایک دو،کہیں کہیں کام ہوتارہا۔
س:اس مرتبہ آپ کےامیرکون ہیں ؟
ج:اصل میں مجھ سےمعلوم کیاتومیں نےبتایاکہ میں دوچلےلگاچکاہوں ،توپھرجماعت کامجھےہی امیربنادیاگیا،جماعت میں الگ الگ جگہ کےلوگ ہیں ،میں نےبہت منع بھی کیا،مگرمیرےساتھ بس میرےیہ تینوں ساتھی بھی ہیں جن کایہ تیسراچلہ ہے،دوصاحب ہیں جن کےچھ سال پہلےچلےلگےتھے،ان ساتھیوں میں سےکوئی تیارنہیں ہوا،مجبوراًمجھےہی امیربنادیاگیا۔
س:آپ کاپہلانام کیاتھا؟کیاآپ نےنام جیل میں ہی بدل لیاتھا؟
ج:میرانام سکھ رام تھا،ہماراخاندان ،برہمن خاندان ہے،وکیل صاحب نےمیرانام محمدفاروق اعظم رکھااورمجھ سےکہاتم فاروق اعظم ؓکی طرح اسلام کی مضبوطی اورقوت کےلئےکام کرنا،مجھےبھی اچھالگا،اللہ کےلئےکیامشکل ہےکہ نام کی برکت سےمجھ کم زورکوقوت والابناکراسلام کی تقویت کاذریعہ بنادے۔
س:آپ رمضان میں اللہ کےراستہ میں ہوں گے،آپ ہمارےلئےبھی دعاکیجئے؟
ج:مولانااحمدصاحب ،آپ کےگھرسےجسمانی اورظاہری تعلق میراپرانانہیں ،مگرروئیں روئیں میں آپ کےگھرانہ سےتعلق ہے،حضرت اورحضرت کےہرساتھی بلکہ کتےکابھی میں اپنےکواحسان مندپاتاہوں ۔
س:واقعی اللہ تعالی کی رحمت اورشان ہدایت دیکھنی ہوتوآپ کودیکھے،کہ اللہ نےگلےمیں رسی ڈال کرآپ کواسلام اورجنت کی راہ پرڈال دیا۔
ج:اچھاآپ کونہیں لگتا۔وہ حدیث جب پڑھتاہوں کہ کچھ لوگ ایسےہوں گےکہ فرشتےان کواللہ کےحکم سےگلےمیں رسی ڈال کرگھسیٹتےہوئےجنت میں داخل کریں گے،مجھےتوایسالگتاہےکہ وہ رسی میرےگلےمیں پڑی ہے،اورفرشتےمجھ کو گھسیٹتےلے جا رہے ہیں۔
س:آپ کایہ انٹرویوہمارےاردومیگزین ’’ارمغان ‘‘میں چھپےگا،آپ اس کےپڑھنےوالوں کوکچھ پیغام دیں گے؟
ج:میں دودن کامسلمان کیاپیغام دےسکتاہوں ،بس میں تویہ کہہ سکتاہوں کہ ایک مسلمان کی حیثیت روشن چراغ کی ہےجوروشن ہوگاتوروشنی پھیلائےگا،جہاں رہےگاروشنی پھیلائےگا،اورجس چراغ کی لوسےاس کی لوقریب ہوگی ،توبجھےچراغ کو جلا دے گا، مسلمان جہاں رہےاگروہ اسلام اورایمان کانوروہاں نہیں پھیلارہاہےاوروہ دعوت کاکام نہیں کر رہا ہے، اور کفر اور شرک کے اندھیرےدل ،ایمان سےمنورنہیں ہورہےہیں تووہ بجھےچراغ کی طرح ہے،بجھاچراغ چراغ کہلانےکےلائق نہیں ،مسلمان کوداعی ہوناچاہئے،جہاں کفروشرک کےاندھیرےدل ہوں ،وہاں ایمان اوراسلام کی دعوت سےانھیں منورکرناچاہئےاورجومسلمان دعوت کاکام نہیں کررہےمیران بجھےچراوں کی لوسےاپنےدل کی کوئی لولگاکران کوروشن کرناچاہئے،تاکہ وہ بھی داعی بن جائیں ، ایک وکیل صاحب نےجیل میں آکرمجھ بےجان آدمی کےدل کےچراغ کواپنےچراغ کی لولگاکرجلایااورایمان سےمنورکیا،اب اگرمیں ،چراغ سےچراغ اورچراغوں سےچراغ ،تہاڑجیل ناگپور،بریلی ،روہتک ،اورنگ آبادجیل ،اورجیل سےرہائی پاکرگھرجاکرکام کرنےوالوں کےذریعہ ہدایت پانےوالوں کاحساب لگاؤں توتعدادہزارسےبھی زیادہ ہوجائےگی ،یہ بات صحیح ہےکہ یہ تعدادہےہی کیا،اس سلسلہ میں حضرت کی بات ہی ٹھیک ہےکہ جولوگ ابھی کفروشرک پرجہنم کی طرف جارہےہیں ان کی تعدادساڑھےچارارب سےزیادہ ہے،ان کےمقابلہ میں جواسلام کی طرف آرہےہیں ہرگزقابل ذکرنہیں ۔مگریہ بھی حقیقت ہےکہ ایک چراغ سےایک چراغ جل کرہی ساڑھےچارارب کی اندھیریاں دورہوسکتی ہیں ،اس لئےساری دنیاکےمسلمانوں سے،خصوصاارمغان پڑھنےوالوں سےمیری درخواست ہےکہ اگرآپ کےذریعہ صبح سےشام تک کوئی قریب رہنےوالےخونی رشتہ کےبھائی بہن کی کفروشرک کی اندھیری کم نہیں ہوئی اورآپ اس کواسلام کےقریب نہ کرسکے،اورساتھ رہنےوالےمسلمان بھائیوں کےدل کی کوئی لواپنےدل کی لولگاکرآپ نےاس کےاندرکچھ دعوتی جذبہ اورجوت نہیں جلائی توپھرآپ زندہ مومن نہیں بلکہ بجھےچراغ ہیں ،جوحقیقت میں چراغ کہلائےجانےکےلائق نہیں ۔دوسری درخواست یہ ہےکہ رمضان کامبارک مہینہ آرہاہے،اللہ کی خاص عطاکامہینہ ہےہمیں وفاداربندوں کی طرح اس ماہ کااستقبال کرناچاہئےاورہدی للناس قرآن مجیدکےاس جشن شاہی میں اس باراپنےاللہ سےپوری دنیاکےلوگوں کی ہدایت مانگنی چاہئے،میں نےتوپچھلےدوسالوں میں تجربہ کیا،میں نےجن جن لوگوں کانام لےکرپچھلےدونوں رمضان میں ہدایت کی دعامانگی میرےاللہ نےمیری درخواست قبول کرلی ،اورپھردعوت دینےمیں بالکل بھی مشکل پیش نہیں آئی ۔
س:ماشاءاللہ ۔آپ کواللہ کی ذات پریقین میں صحابہ کےایمان کاحصہ مل گیاہے؟
ج:اتنی بڑی بات کہاں کہہ رہےہیں ؟ہم توصحابہ کےپاؤں کی خاک بھی نہیں ،ہاں مگران کواپنابڑاکہنےپرفخرہے،اورہم ان کاعقیدت سےنام لینےوالےضرورہیں ۔
س:جزاکم اللہ ،بہت بہت شکریہ ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ
ج: شکریہ توآپ کاکہ آپ نےمجھےاس سعادت میں شریک کرلیا۔وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ٭
٭٭٭
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں