مہمان اداریہ
”سربکف “مجلہ۵(مارچ، اپریل ۲۰۱۶)
”سربکف “مجلہ۵(مارچ، اپریل ۲۰۱۶)
قاری معاذ شاہد ﷾
کسان
نوجوان اپنے کھیت میں کام کر رہا تھا....
ایک نسوانی قہقہے سے وہ چونک گیا...
ایسی حسینہ تو اس نے زندگی بھر نہ دیکھی تھی...
وہ اس کی طرف بڑھا چلا گیا...وہ بھی مسکرا رہی تھی...
” میرے ساتھ گھر چلو گی ؟ “
وہ بلا جھجھک اس کے ساتھ ہو لی.. .وہ فضاؤں میں اڑنے لگا۔
٭
چوھدری کا ڈیرہ آباد تھا ...دوست احباب کے مجمع میں...نوکر چاکر خدمت کے لئے مستعد کھڑے ہوئے تھے...
”چوھدری جی!! چوھدری جی!! “اُس کا خادمِ خاص ڈیرے میں ہانپتا کانپتا داخل ہوا...
”خیر تو ہے ؟ خیر تو ہے ؟“
”او جی خیر کہاں!! میں چوک میں کھڑا تھا ...نورے جٹ کا جوان لڑکاایک ایسی حسینہ کے ساتھ گزر کے گھر جارہا تھا کہ اس جیسی زندگی میں نہ دیکھی... نامعلوم کہاں سے لے کر آیاہے... چاند کا ٹکڑا ہے چوھدری جی... “
٭٭
اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس حسینہ کو کہاں بٹھائے...
آج اس کی زندگی کا بہترین دن تھا، اس نے تو کبھی سوچا بھی نہ تھا... وقعی جب خدا دیتا ہے تو چھپر پھاڑ کے دیتا ہے ...
دفعتاً اسے کچھ شور کی آواز آئی جو رفتہ رفتہ اور قریب آگئی..... پھردروازہ کھٹکھٹایا جانے لگا...
دروازہ کھلا...
چوھدری ہکا بکا رہ گیا... اور بے اختیار اس حسینہ کی طرف بڑھا...
نوجوان جٹ ایک آہنی دیوار کی طرح اس کے راستے میں حائل ہو گیا....
”تم میری لاش پر سے گزر کر ہی اس تک پہنچ پاؤ گے...“
”تم اس کے قابل نہیں... نہ یہ گھر اس کے قابل ہے...یہ میری حویلی میں رہے گی... نوکرانیاں... راحت... آرام... عزّت...اسے وہاں ملے گی...“
”نہیں یہ فیصلہ جج کی عدالت میں جائے گا“
٭٭٭
عدالت پورے جوبن پر تھی... سائل...مدعی...وکلاء ...اہلکار...عملہ... سب موجود تھے...جج صاحب اپنی مسند ِخاص پر رونق افروز تھے....
جج صاحب نے نظر آٹھائی ...اسے اپنی نظروں پر یقین نہیں آیا... اس نے عینک اتار کر صاف کی اور دوبارہ دیکھا... واقعی... وہ حور اس کے سامنے کھڑی تھی!
جج بولا
”ارے یہ منہ اور مسور کی دال اپنی اوقات دیکھو اور اس کا حسن یہ تم دونوں کے لائق نہیں میرے پاس مال و دولت ہے عہدہ ہے بنگلے ہیں گاڑیاں ہیں نوکر چاکر ہیں معاشرے میں ایک حیثیت ہے ...یہ میرے لائق ہے... چلو نکلو تم دونوں اور اس کو یہیں رہنے دو!“
وہ ہکّے بکّے رہ گئے ۔
”نہیں !“چوہدری چلایا ۔
”یہ نہیں ہوسکتا “نوجوان بولا ”ہم راضی نہیں ہیں ...اب تو بادشاہ سلامت ہی ہمارے درمیان فیصلہ کریں گے“ ”بادشاہ کے پاس چلو“
جج نے سب کام وہیں چہوڑے اور اب تینوں حسینہ کو ساتھ لئے بادشاہ کے محل کی طرف بڑھنے لگے...
٭٭٭
دربار سجا ہوا تھا ...وزیر مشیر درباری سب اپنی اپنی مسندوں پر اور بادشاہ اپنے تخت پر جلوہ افروز تھ...ا اسکے سر پر رکھے ہوئے تاج کے موتیوں سے سارا دربار جگمگا رہا تھا اور وہ خود بھی حسن کا کرشمہ تھا ...
دربان نے تین اشخاص اور ایک حسینہ کو لا کر بادشاہ کے سامنے کیا...
بادشاہ سلامت نے نظر اٹھائی تو دیکھتا کا دیکھتا ہی رہ گیا ...ایسی حسینہ اور میری سلطنت میں!
حکمِ شاہی ہوا
” ان تینوں کو ایک طرف لے جاؤ اور حسینہ کو میرے محل میں لے جاؤ“
جج صاحب نے کچھ بولنے کی کوشش کی تو بادشاہ سلامت نے ایک طرف دیکھا ...تین ہٹے کٹے دربان آگے بڑھے اور تینوں خاموشی سے ایک طرف کو ہو گئے ...
وہ حسینہ جو اب تک خاموش تھی اس نے خاموشی کو توڑا اور بولی
” فیصلہ میں کروں گی تم چاروں میرے پیچھے دوڑو جو مجھے پکڑ لے گا میں اس کی... “
یہ کہہ کر وہ جلدی سے دربار سے باہر نکل گئی...
بادشاہ کو اپنا تخت بھول گیا ...اور... اگلے ہی لمحے وہ چاروں اس کے پیچھے دوڑ رہے تھے...
٭٭٭٭
وہ ہوا سے باتیں کررہی تھی ...
بادشاہ سلامت تھوڑی ہی دور جاکر دوڑنے کی تاب نہ لاسکے اور ایک لمبی آہ بھر کر وہیں ڈھیر ہو گئے...
جج صاحب بھی زیادہ دیر پیچھا نہ کرسکے اور اسکی سانسیں بھی جواب دے گئیں...
چوھدری صاحب ہمت ہارنے والے تو نہ تھے لیکن آخر کب تک!
اب وہ تھی اور نوجون تھا جو کہ ہر لمحے اس کے قریب سے قریب تر ہوتا جارہا تھا ...
مگر یہ کیا ! راستے کے ایک پتھر سے وہ ایسا ٹکرایا کہ منہ کہ بل گرا اور اسکے منہ سے ایک دل خراش چیخ بلند ہوئی جو حسینہ کے قہقہوں میں دب گئی...
”آؤ میرے عاشقو میرے پیچھے آؤ تم مجھے کبھی نہیں پاسکتے ...“
اور واقعی اسے کوئی نہ پاسکا کہ وہ دیکھنے میں تو حسینہ تھی ...حور کے حسن والی تھی... دل فریب تھی... عقل کو محو کرنے والی تھی...
لیکن...
حقیقت میں وہ دنیا تھی ...
اور اسکے پیچھے دوڑنے والوں کا یہی انجام ہوتا ہے...
٭٭٭٭٭
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں