منگل، 12 فروری، 2019

بھائی سراج الدین سےایک ملاقات

”سربکف “مجلہ۴  (جنوری ، فروری ۲۰۱۶)
سراج الدین / راکیش کمار

احمد اوّاہ: السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکا تہ 
سراج الدین :وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکا تہ 
س: سراج الدین بھائی آپ آج کل کہاں رہ ر ہے میراور کیا کرر ہے ہیں ؟
ج:میں آج کل میوات میں رہ رہاہوں ، میں پتھروالوں کے یہاں منیم گیری کررہاہوں ۔
س:سنا ہے وہاں اپنے مکا ن بھی بنالیااور آپ کی شادی بھی ہوگئی ہے ؟
ج:الحمدللہ وہاں پر اللہ نے سرچھپا نے میرے کے لئے ایک گھردے دیا ہے ، اگرچہ وہ قرض سے بنا ہے اور ابھی پوری طرح مکمل بھی نہیں ہوا ہے مگرپھربھی اپناہوگیا ہے اور قرض بھی اللہ تعالی نے کا فی اداکرادیا ہے ، اور الحمدللہ شادی بھی حضرت نے گورکھپورکی ایک مہاجراللہ والی سے کرادی تھی ، جناب محمدزماں خاں کے یہاں سے نکا ح ہوااور زماں خاں صاحب اور ان کے گھروالوں نے اپنی بیٹی کی طرح ان کو رخصت کیا ، واقعی دعوت کے لئے اس طرح ہر قربانی کے لئے تیار رہنے والے میں نے بہت کم لوگوں کو دیکھا ہے،  آدھی رات کو خودجناب زماں خان اور ان سے زیادہ ان کی اہلیہ محترمہ اور ان کے سب بچے ہر طرح تیار، ہمارے حضرت کو کچھ لوگ تو ایسے ملے ہیں اگرچندسوگھرا نے ایسے مل جائیں تو پورے ملک میں انقلاب آجائے ۔
س:وہاں میوات میں تم جماعت کے کا م سے جڑے ہوئے ہواور وہاں کا م پر بھی جاتے ہو، تو صافہ وافہ باندھ کراس حلیہ میں رہتے ہوکیا ؟
ج:الحمدللہ ، وہاں مجھے لوگ کا م کا ذمہ دارساتھی سمجھتے ہیں ، اور میرے اللہ کا کرم ہے اپنے حضرت کی جو تیوں کی صدقہ میں میں نے صرف علاقہ کا ہی نہیں بلکہ میں پورے عالم میں دعوت کے کا م کا اپنے کو ذمہ دارسمجھتاہوں ، الحمدللہ میں اپنی اصل ذمہ داری اور کا م دعوت سمجھتاہوں ، جماعت کا کا م ہویاکسی غیرمسلم بھائی تک دعوت یاان کے مسائل کے لئے آدھی رات کو میرے پاس کو ئی بھی آئے ، تو میں ا سے سب سے پہلے پوراکر نے کی کو شش کرتاہوں ، اور الحمدللہ میں جہاں رہتاہوں اسی اسلامی حلیہ اور سنت کے یونیفارم میں رہتاہوں ، یہ بھی ہے کہ لوگ اس طرح صافے وغیرہ میں دیکھ کرہر جگہ مجھے عالم سمجھتے ہیں اور بارباراجنبی لوگ مجھے مولاناکہتے ہیں ، میں مولانانہیں ہوں ، میں دینی لحاظ سے ایک جاہل آدمی ہوں ، یہ کہتے ہوئے بہت شرم آ نے لگی ہے ، کب تلک لوگوں کو منع کرتارہوں گا، میں نے بہت دعاکی ہے اور ارادہ بھی کرلیا ہے کہ بارباریہ کہنے کے بجائے کہ میں عالم نہیں ہوں یہ بہتر ہے کہ میں پڑھ کرعالم بن جاؤں ، میں نے حضرت سے بارباردرخواست بھی کی کہ میں کا م وغیرہ چھوڑکرکسی مدرسہ میں داخلہ لیکرایک عالم دین بن جاؤں ، مجھے بہت شرم آتی ہے جب لوگ مجھے اس حلیہ میں دیکھ کرمولاناکہتے ہیں اور مجھے منع کرناپڑتا ہے ، حضرت نے فرمایاکہ اب تم کا روبار کے ساتھ ہی پڑھ کرعالم دین بنو، الحمدللہ میں نے ابتدائی  کتابیں پڑھناشروع کردی ہیں ۔
 کب تلک لوگوں کو منع کرتارہوں گا، میں نے بہت دعاکی ہے اور ارادہ بھی کرلیا ہے کہ بارباریہ کہنے کے بجائے کہ میں عالم نہیں ہوں،  یہ بہتر ہے کہ میں پڑھ کرعالم بن جاؤں!
س:آپ اپناخاندانی تعارف اور قبول اسلام کا حال بتائیے ؟
ج:میراپر انانام راکیش کمارتھا، میں بھرت پورضلع کے ایک قصبہ میں ۱۹۷۹ ءمیں پیداہوا، میرے پتاجی اون کا کا روبارکرتے تھے ، میراایک بڑابھائی اور ایک چھوٹابھائی اور دوبہنیں ہیں ، جو شادی شدہ دہلی میں ہیں ، میں جس علاقہ کا رہنے والاہوں وہاں پر ایک بڑی تعدادملکا نہ راجپوتو ں کی ایسی ہے جہاں پوری پوری بستیاں شدھی سنگھٹن کی تحریک سے ہندوبن گئی تھیں ۔
س:وہ لوگ ۱۹۴۷ ءمیں پاکستان بننے کے وقت مرتدہوئے یابعدمیں ؟
ج:وہ لوگ ۱۹۲۹ ء کے آس پاس ہندوہوگئے تھے ، اصل بات یہ ہے مولانااحمدصاحب ، اللہ تعالی ہمارے حضرت کی لمبی عمرکرے ، مجھے تو روزروز کے تجربہ سے حضرت کی یہ بات بالکل دل میں جمتی جارہی ہے کہ مسلمانون کو یہ سمجھا نے کی ضرورت ہے کہ ان کے مسائل کا حل خصوصاًان کو دین پر باقی رکھنے اور ان کو مرتدہو نے سے روکنے کے لئے یہ بات ہر گزہر گزکا فی نہیں کہ وہ مسلمان رہیں بلکہ یہ مسئلہ صرف اور صرف جب حل ہوسکتا ہے جب مسلمانوں کو اس بات کے لئے باشعورکیا جائے کہ وہ داعی ہیں اور دوسروں کو دعوت دیناان کی ذمہ داری ہے ۔اس چھوٹی سی اسلامی زندگی میں میراتجربہ ہے کہ اتنے آ نے والے مہاجرمسلمانوں کو میں پہلے دن سے اس بات پر لگاتاہوں کہ آپ کو دوسرے لوگوں پر کا م کرنا ہے ، جب تک آپ ساری انسانیت کی فکرنہیں کریں گے ، اس وقت تک آپ نبی رحمت ﷺ کے امتی کہلا نے کے حقدارنہیں ، اللہ کا شکر ہے میں نے اب تک ۳۹ ؍ان لوگوں کو کلمہ پڑھوایا ہے جن کو میں نے شروع سے دعوت دی ہے اور ازخودان کو اسلام کے بارے میں نہ دلچسپی تھی نہ معلومات تھیں ، یہ سب کے سب دعوت کا کام  کرر ہے ہیں ، الحمدللہ ان کی تربیت کے لئے اور ان کو اسلام پر باقی رکھنے کے لئے مجھے کچھ زیادہ کو شش نہیں کرنی پڑی ، اس لئے مسلمانوں کے لئے اور ان کی نئی نسلوں کے لئے ارتداد کے مسئلہ کا حل صرف یہ ہے کہ ان میں دعوتی شعوربیدارہو، آج کل یہ گھرواپسی کا معاملہ جس نے ساری دنیا کے مسلمانوں کو بے چین کررکھا ہے ، اگریہ مسلمان اپنے کو داعی سمجھتے تو لوگ کسی حال میں بھی ہمارے پاس دھرم پر یورتن کی کو شش کے لئے آ نے کی ہمت نہ کرتے ۔
س:تو ہاں آپ اپنے اسلام قبول کر نے کے بارے میں بتار ہے تھے ؟
ج:جی تو میں یہ بتارہاتھاکہ میں جس علاقہ میں پیداہوا، بڑاہوااور وہاں کے سینئرسیکنڈری اسکو ل سے انٹرکیا اور پھربی اے کے جس کالج میں پڑھ رہاتھا، وہاں پر مجھ جیسے دھارمک پر یوار کے ایک انسان کے لئے اسلام میں آنابالکل ادبھت اور عجیب سی بات ہے ، مگرمردوں کو زندہ کر نے والے رب کے لئے تو یہ کا م بالکل آسان ہے ، میراایک ہندودوست راج کمارتھاجس سے میری دانت کا ٹی دوستی تھی ، وہ کچھ عیبوں میں پھنساہواتھا، گھروالوں سے اس کے ساتھ رہنے کے سلسلے میں اَ ن بن ہوتی رہتی تھی ، وہ اس دوستی سے چڑھتے تھے ، مگروہ سارے عیبوں کے باوجو دمجھ سے سچی دوستی رکھتاتھا، ایک بارمیرے پتاجی نے مجھے بی اے میں پڑھ نے کے دوران اس کے ساتھ رہنے کے لئے بہت برابھلاکہااور گالیاں سنائیں مگرمیری سمجھ میں نہیں آیا۔ایک دن میں گھرآیارات کو بارہ بجے تھے ، پتاجی غصہ میں بھرے ہوئے ، سوئے نہیں تھے اور میراچانٹوں اور گھوسوں سے سواگت کیا اور صاف صاف کہہ دیااس کے ساتھ رہتے ہوئے ہمارے گھر کے دروازہ میں گھسنے کی اجازت نہیں ، میری بھی جو انی تھی ، میں رات ہی کو گھر سے نکل گیا، بس اڈہ گیا، رات کو ہی سامنے علی گڑھ کی ایک بس کھڑی ہوئی تھی اس میں بیٹھ گیا، علی گڑھ کے راستے میں ایک گاؤں میں پہنچ کربس خراب ہوگئی ، صبح تک اسی گاؤں میں وقت گزارا، سامنے ایک میواتی مسلمان کا گھرتھا، انہوں نے دیکھاکہ مسافرسردی میں سسک ر ہے ہیں تو گھر سے گرم گرم چائے ، ابلے انڈے اور بسکٹ لے کرآئے اور ساری بس کے مسافروں کو پلائی ، مجھے گھر کے باہر اس طرح ان کی خاطر نے بہت متأثرکیا اور میں نے ان میں سے ایک صاحب سے بات کی اور بتایاکہ میں گھرچھوڑکرآیاہوں ، وہ دوسرے قصبہ املاس کے رہنے والے تھے ، اس گاؤں میں اپنی بہن سے ملنے آئے تھے ، انہوں نے پہلے تو مجھے سمجھایاکہ ماں باپ کی ڈانٹ تو محبت کی ہوتی ہے ، تم واپس چلے جاؤ، مگرجب میں نے اپنازندگی بھرگھرنہ لوٹنے کا فیصلہ ان سے بتایاتو انھوں نے اپنے گھرچلنے کے لئے کہااور بتایاکہ ہمارے یہاں جے سی بی چلتی ہیں ، ہم تمہیں وہ چلاناسکھادیں گے ، اس کے ڈرائیور کو دس ہزارروپئے تک مل جاتے ہیں، میں نے سوچاکہ نہ جا نے کہاں ٹھکا نہ ملے ، میں ان کے ساتھ املاس چلاگیاسچی بات یہ ہے کہ میرے  رحمٰن رب کو مجھے ایمان دیناتھا، وہ کسی طرح مجھے اسلام کے قریب کرتے گئے ، میں ان کے ساتھ ان کے گھرجاکرجے سی بی مشین چلاناسیکھنے لگا، ہم لوگ سوہنا کے علاقہ میں جے سی بی چلاناسیکھ ر ہے تھے ، وہاں کھانابھی خودبناتے تھے ، ایک روزشہزادبھائی جو مجھے ڈرائیورنگ سکھار ہے تھے انہوں نے مجھے کھانابنا نے کو کہا، کچھ مہمان آر ہے تھے ، میں نے چارآدمیوں کے لئے کھیر، سبزی اور روٹی بنائی ، چارپانچ مہمان اور آگئے ، میں نے شہزادبھائی سے کہاکہ کھاناتو چارآدمیوں کا بنایا ہے یہ پانچ اور آگئے ، وہ بولے بسم اللہ پڑھ کرکھانانکا لنا، برکت ہوجائے گی ، میں نے کہاکہ بسم اللہ سے کیا جادوہوجائے گا؟میں اور چاول جلدی بنالیتاہوں ، انھوں نے کہاکہ تو بسم اللہ پڑھ ، مالک کے نام سے سب کھالیں گے ، میں نے کھانانکا لااور جب بھی کھا نے میں چمچہ ڈالتابسم اللہ کہتارہا، دومہمان کھاناکھاتے ہوئے اور آگئے ، شہزادبھائی نے ان کو بھی کھا نے پر بٹھالیا، اتنے لوگوں نے کھاناکھایااور خوب کھایااور روٹی ، سبزی اور کھیر بچ گئی ، میں بہت تعجب میں تھا، شہزادبھائی نے کہاکہ بسم اللہ میں کیا جادو ہے ، انھوں نے بتایاکہ بسم اللہ کا مطلب ہے ، جب مالک کے نام سے کو ئی کا م کیا جاتا ہے تو اس میں برکت ہوتی ہے ، میرے دل میں بسم اللہ کا اعتمادجم گیااور اللہ کی ذات سے بھی مجھے ایک خاص تعلق سالگنے لگا۔
ایک بات بچپن سے ہی میرے ساتھ باربارہوتی تھی ، میں سوتاتھاتو خواب میں دیکھتاتھاجگمگاتے ستارے ہیں ، روشنی ہے اور نورانی مکا نات ہیں ، میرادل کہتاتھاکہ تو تو اس دنیاکا آدمی ہے اور دوسرے سنسارمیں رہتا ہے ، یہ خواب میں مجھے بارباردکھتے تھے ۔
مولانازلفی بٹلہ  ہاؤس جامع مسجد کے امام اور ان کے ایک رشتہ دارہمارے شہزادبھائی کے گھرآئے ، انھوں نے مجھے ہر کا م کرتے وقت بسم اللہ کہتے سناتو وہ مجھے سمجھا نے لگے ، وہ حضرت سے مریدتھے اور مجھے مسلمان ہو نے کو کہا، میں نے صاف صاف منع کردیا، انہوں نے جاتے وقت مجھے ہندی میں کلمہ لکھ کردیاکہ تم اس کو پڑھتے رہنا، اور اپنے پر س میں حفاظت سے رکھنا، پھرکبھی جب مسلمان ہونے  کو دل چا ہے اس وقت اس کو پڑھ لینا، مجھے اچھانہیں لگا، ان کے جاتے ہی میں نے اس پر چے کو پھینک دیا، اگلے روزصبح کو میں نے دیکھاکہ وہ پر چہ اسی جگہ پر پڑاہوا ہے ، میرے دل نے کہا، راکیش یہ اس اللہ کا نام ہے جس کے نام کی بسم اللہ کا چمتکا رتو دیکھ چکا ہے ، میں نے محبت سے اس پر چہ کو اٹھایااور بہت ہی آستھا اور محبت سے ا سے کئی بارپڑھا، مولانااحمدمیں اس اپنی حالت کو زبان سے بیان نہیں کرسکتاکہ اس محبت سے کلمہ پڑھ نے سے میرے اندرکی حالت کیا ہوگئی ، جیسے کسی اندھیری کا ل کو ٹھری کو روشنی سے جگمگ جگمگ کردیاہو، میں محلّہ کے امام صاحب کے پاس گیااور میں نے مسلمان ہو نے کو کہاکہ اس کے لئے مجھے کیا کرناپڑے گا؟امام صاحب نے کہاکلمہ پڑھناپڑے گا، میں نے کہاکلمہ پڑھ لیا ہے ، انھوں نے میرانام سراج الدین رکھ دیا، میں امام صاحب کے پاس زیادہ رہنے لگا، ہر نمازمیں آدھے گھنٹے پہلے ان کے پاس چلاجاتااور پانچوں وقت نمازپڑھتا، نمازمجھے آتی نہیں تھی مگربڑی عقیدت سے ، جیسے جیسے جماعت میں لوگ کرتے دیکھادیکھی کرتارہتا، یہ مجھے بہت اچھالگتا، ایک نماز کے بعددوسری نمازکا انتظارلگارہتا، شہزادبھائی کے والد نے مجھے چارمہینے کے لئے جماعت میں بھیج دیا، ایک چلہ میراایٹہ ، جلیسر، دوسرامرادنگرمیں میراوقت لگا، ایک چلہ بنگلورمیں لگا، وہاں ایک ساتھی جماعت سے بھاگ گئے تھے ، امیرصاحب بہت پر یشان تھے ، میں نے کہاآپ فکرنہ کریں میں اپنے اللہ سے دعاکرتاہوں ، میں نے دورکعت پڑھ کراللہ سے دعاکی ، وہ ساتھی ٹرین میں بیٹھ گیاتھا، ٹرین چلی اور تھوڑی دورجاکررک گئی ، دوساتھی تلاش کر نے گئے تھے ، وہ گاڑی میں چڑھے اور ان کو تلاش کر کے لے آئے ، ایک مہینہ بعدوہ پھرمیسور سے بھاگ گیا، امیرصاحب نے کہاسراج بھائی اب ہم اپنے لوگ نہیں بھیجیں گے ، تم اپنے اللہ میاں سے تلاش کرواکرمنگواؤ، میں نے دورکعت پڑھ کراللہ سے دعاکی ، میرے اللہ صبح فجر سے پہلے ہماراساتھی ہمارے پاس بھجو ادو، میں نے امیرصاحب سے کہاکہ صبح فجر سے پہلے انشاءاللہ ہمارے اللہ ا سے بھجو ادیں گے ، فجر سے آدھاگھنٹہ پہلے وہ ساتھی بنگلورپہنچ کرواپس آئے ، معلوم کر نے پر اس نے بتایاکہ مجھے معلوم نہیں کہ میں کیسے آیا، مجھے تو ایسالگاکہ کو ئی گرفتارکر کے مجھے میسورجماعت میں واپس چھوڑگیا، اب میں چارمہینہ سے پہلے ہر گزہر گزنہیں بھاگوں گا، یہ تو ۲۰۱۱ ء کے چارمہینوں کی بات ہے ، ۲۰۱۳ ءمیں ، میں بہارکی میں جماعت میں تھا، ایک جو ان ساتھی کو ٹایفائڈہوگیااور اس میں اس کو ہارٹ اٹیک ہوگیا، بڑے ڈاکٹر کو دکھایا، ڈاکٹر نے جواب دے دیاکہ پٹنہ بڑے ہسپتال میں داخل کر کے دیکھ لو، جماعت کے ساتھی سب رور ہے تھے ، میں نے سورہ فاتحہ اور سورہ بقرہ کی آخری آیتیں پڑھ کردورکعت نفل کے بعددعاکی ، میرے اللہ آپ اس کو مر نے کے بعددوبارہ زندہ ضرورکریں گے ، اس وقت یہ آپ کے نبی ﷺ کے دین کے کا م کا نہیں ہوگا، اب اگرآپ اس کو زندہ کردیں گے تو یہ آپ کے دین کا کا م کرے گا، بہت دل سے دعاکی ، پٹنہ لے جار ہے تھے ، اس کو پیشاب کی ضرورت ہوئی ، اس کو پیشاب کرایاگیااور وہ کھڑاہوگیا، اس نے پوچھاکہ کہاں جار ہے ہیں ؟امیرصاحب نے بتایاکہ پٹنہ اسپتال میں داخل کر نے ، اس نے کہا، مجھے کہیں لے جا نے کی ضرورت نہیں ، میں ٹھیک ہوں ِ چلوجماعت میں واپس چلو، الحمدللہ اب وہ بالکل ٹھیک ہوگیا، سچے یقین کے ساتھ اس کو یادکیا جائے تو وہ ضرورسنتے ہیں اور اس طرح یقین بھی بنتا ہے ، یہ میرازندگی کا باربارکا تجربہ ہے ۔
س:جماعت میں چارمہی نے لگاکراپنے کیا کیا ؟
ج:مولاناسراج صاحب کے ساتھ پھلت آیا، اور ایک سال تک قرآن شریف ، اردودینیات وغیرہ پڑھا، الحمدللہ پھرمیری شادی ہوگئی ، اور میوات میں بھی ایک اسکو ل میں پڑھایا، بعدمیں بدرپوراور اسٹون کریشروالوں کے یہاں منیم گیری کرتارہا۔
س:اور کو ئی خاص بات اپنی زندگی کی بتائیے ؟
ج:مجھے بڑی حسرت تھی کہ اللہ کے پیارے نبی ﷺکی خواب میں زیارت ہو، میں بہت دعاکرتاتھا، ایک رات کو خواب دیکھاکہ اسکو ل کے کھوئے ہوئے ایک بچے کو ہم تلاش کرر ہے ہیں ، تلاش کرتے کرتے ہم ایک مسجدمیں پہنچے ، وہاں ایک بہت خوبصورت نورانی شکل کے مہمان آئے ، جماعت تیارتھی ، میں نے ان سے نمازپڑھا نے کو کہا، انہوں نے نمازپڑھائی اور چلے گئے ، میں نے لوگوں سے معلوم کیا ، یہ میاں صاحب کو ن تھے ؟سب نے کہاکہ ہمارے پیارے نبی ﷺتھے ، میں نے لوگوں سے کہا، تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا؟میں تو کتنے دنوں سے ان کی زیارت کو تڑپ رہاہوں ، لوگوں نے کہاکہ زیارت ہوتو گئی ، نمازبھی پڑھ لی ، میری آنکھ کھل گئی ، میں بہت خوش تھا۔
 ایک بات یہ بھی دل میں بیٹھ گئی ہے جو میری چھوٹی سی اسلامی زندگی سے تجربہ میں آئی کہ دل چا ہے نہ چا ہے ، شریعت اور سنت کو پوری طرح مان کرہی آدمی اللہ سے جڑسکتا ہے ، اسلام لا نے کے بعدمیں جب دیکھتاہوں کہ بہت سے بھائی کچھ خاندانی مسلمانوں کی طرح ہیں ، جن کو دیکھ کرپہچاننابھی مشکل ہوتا ہے کہ مسلمان میریاہندو، اس حال میں اللہ سے تعلق نہیں ہوسکتا، دل چاہے نہ چا ہے ظاہر وباطن ہر طرح سے اللہ کے نبی کی سنت پھرعمل کرناچاہئے ، میں نے دولفظ یادکئے ہیں اور اپنے ہر بھائی کو یادکراتاہوں ۔
” میرے اللہ میں آپ سے راضی ہوں... آپ مجھ سے راضی ہوجائیے“
 اسلام لا نے کے بعدشک کی گنجائش نہیں ، چا ہے حکم سمجھ میں آئے یانہ آئے ، بس ماننا ہے اور پوری طرح ماننا ہے ، اسلام لانے کے بعدبہت سے لوگوں نے مجھ پر کو شش کی کہ میں اسلام سے پھرجاؤں ، مگرمیں نے ان کو بہت جم کردعوت دی ، میں نے کہااسلام کی حقانیت پر میرایقین پکا ہے ، جو میرے اللہ نے مجھے خوددیا ہے ، ایک آرایس ایس کے پر چارک مجھے ہفتو ں تک سمجھاتے رہے ، مسلمان ایسے ہوتے ہیں ، پاکستان میں کیا ہورہا ہے ۔میں نے ایک دن ان سے کہاکہ کسی کے پیٹ میں دردہورہاہواور آپ ساری دنیا کے ترک (دلائل ) سے یہ ثابت کر نے کی کو شش کریں بلکہ عقل کے مطابق ثابت کردیں کہ تیرے پیٹ میں دردنہیں ہورہا ہے ، تو کیا اس آدمی کو آپ کی بات پر ذرابھی یقین آے گاکہ آپ سچ کہتے ہیں ۔بس اسلام کی حقانیت اور مکتی اور موکش کا واحدراستہ ہو نے پر مجھے اپنے پیٹ کے درد سے زیادہ یقین ہے ، پھرمیں نے کہاآپ اگرحق پسندہیں اور سچائی پسندہیں تو آپ کو میری بات پر یقین کرناچاہئے کہ میرے پیٹ میں دردہورہا ہے ، پھرمیں ان سے ملتارہا، ایک مہینہ میں اللہ کا شکر ہے انھوں نے خودکلمہ پڑھااور اب خاندان میں کا م کرر ہے ہیں ۔
س:آپ نے اپنے گھروالوں پر کا م نہیں کیا ؟
ج:اصل میں نے قسم کھائی تھی کہ گھرواپس نہیں جاؤں گا، اس لئے گھرجا نے کی نہیں سوچتاتھا، مگرحضرت نے مجھے سمجھایاکہ جس طرح اچھی نذراور قسم کو پوراکرناضروری ہے ، اسی طرح کسی غلط بات کی قسم پر جمنابھی برا ہے ، والدین اور گھروالوں کا حق ہے اور وہ قسم آپ کی کفرکی حالت کی تھی ، پھرقسم کا کفارہ بھی ہے ، مگرگھروالوں کو دوزخ سے بچا نے کی فکرکرنابھی ضروری ہے ، ایک بارمیں ایک حافظ صاحب کو اپنے گھرلے کرگیا، مگروہ حافظ صاحب دعوتی ذہن نہیں رکھتے تھے ، وہ ڈرکرگھرپہنچ نے سے پہلے ہی مجھے واپس لے آئے ، اب انشاءاللہ حضرت سے وعدہ کیا ہے ، جلدی گھروالوں کی فکرکروں گا، اپنے اللہ سے دعاتو خوب کررہاہوں ۔
س: کو ئی پیغام ارمغان پڑھ نے والوں کیلئے دیناچاہیں گے ؟
ج:ہمارے نبی کریم ﷺ نے کسی جاہلی عرب شاعرکی اس بات کی تعریف کی ہے کہ اس نے کیسی سچی بات کہی ، جس کا مفہوم یہ تھا:
”ہوشیار!اللہ کے علاوہ جن چیزوں کا ذکراور اہمیت دی جاتی ہے وہ سب باطل ہیں ۔ “ 
سچی بات یہ ہے کہ یہ ایمان ہی ہے یہی ساری کا ئنات اور ہر انسان کی سب سے بڑی ضرورت اور مسائل کا حل ہے ، کہ جو کچھ ہوتا ہے اسی کی مرضی سے ہوتا ہے ، اور اس کی مرضی اور منشا کے خلاف کسی سے کچھ بھی نہیں ہوسکتاتو پھرہوش مندی یہ ہے کہ صرف اسی سے جڑیں ، اور اس پر یقین رکھیں اس کو راضی کریں اور سب کو اس کی راہ پر لا نے کی کو شش کریں ۔
س:جزاکم اللہ فی امان اللہ السلام علیکم 
ج:آپ کا بھی شکریہ ۔وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ٭

     

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں