پیر، 11 مارچ، 2019

بریلوی عقیدہ ”علمِ غیب“ (دوسری اور آخری قسط)

احتشام انجم ﷾( پنجاب، پاکستان)٭

عقیدہ علم غیب کے متعلق مزید حوالہ جات  
اب ہم ان کے عقیدہ سے ان کے کتابوں سے کچھ تناقضات پیش کریں گے۔
٭:احمد رضا صاحب لکھتے ہیں:
’’وہ صفت جو غیر انسان کے لئے ہو سکتی ہے انسان کے لئے کمال نہیں۔اور جو غیر مسلم کے لئے ہو سکتی ہو مسلم کے لئے کمال نہیں‘‘
            (ملفوظات ص ۳۰۸، ۳۰۹)
جبکہ  مفتی احمد یار نعیمی لکھتے ہیں:
’’شیطان کو بھی آئندہ غیب کی باتوں کا علم دیا گیا ہے‘‘
                                              (نور العرفان )
ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’رب نے شیطان کو بھی علم غیب دیا کہ اس نے آئندہ کے متعلق جو خبر دی آج ویسا ہی دیکھا جا رہا ہے‘‘  
                         (نور العرفان )
اب ایک وصف غیر انسان کے لئے مان رہے ہیں تو خان صاحب کے اصول سے یہ نبی  ﷺ کے لئے کمال ہی نہیں۔
٭مفتی احمد یار صاحب لکھتے ہیں :
’’تیسرے یہ کہ غیب کی نسبت اپنی طرف کرنے کو ناپسند فرمایا‘‘     
(جاء الحق ص۱۲۲)
آگے لکھتے ہیں :
’’شارحین نے کہا  ہے کہ حضور  ﷺ کا اسکو منع فرمانا اس لئے ہے کہ اس میں علم غیب کی نسبت حضور کی طرف ہے لہذا آپکو ناپسند آئی‘‘
                     (ایضاً)
یعنی اس عقیدہ کی بنیاد پر انہوں نے حضور  ﷺ کی ناپسند کو پسند بنایا ہے۔
جبکہ بریلوی مولوی حسن علی رضوی کی مصدقہ کتاب سگریٹ نوشی کے مضمرات کے صفحہ۵ پر ہے کہ جو اللہ اور اس کے رسول  ﷺ کی ناپسندیدہ چیزوں کا ارتکاب کرتے ہیں۔وہ رسول  ﷺ کو ایذا دیتے ہیں۔جس پر ان کے لئے ذلت کا عذاب ہے۔
اورمفتی حنیف قریشی لکھتے ہیں ؛
’’اگر کوئی اہل ایمان دانستہ اذیت رسول کا ارتکاب کرتا ہے تو مسلمان نہیں رہتا کافر ہو جاتا ہے۔‘‘
                               ( غازی ممتاز حسین قادری ص ۲۰۱)
لیجئے حضور  ﷺ کی ناپسند کو پسند بنا کر بریلو ی کافر ہو گئے۔
٭مفتی فیض احمد اویسی لکھتے ہیں:
’’نبی  ﷺ کے لئے علم غیب کا لفظ نہیں استعمال کرنا چاہئے۔آج تک کسی عالم یا مفسر نے حضور  ﷺ کے لئے علم غیب کا استعمال نہیں کیا۔اس لئے کہاعالم الغیب اللہ کے اسماء میں سے ہے۔لہذا یہ  صفت مخلوق پر استعمال کرنے سے شرک فی الاسماء ہو گا اس لئے حضور  وﷺکے لئے علم غیب ثابت کرنا شرک ہے‘‘          
                                  (غایۃ المامول فی علم الرسول ص۳۴۸)
لیجئے آج کے سارے بریلوی مشرک ہوئے۔یہ فتوی ہمارا نہیں ان کے اپنے مفتی کا ہے۔ابذاتی مان کر مشرک ہوں یا عطائی ان کی اپنی مرضی۔
*…*…*
 اب آتے ہیں کہ رضاخانیوں کے نزدیک نبی  ﷺ کو عالم الغیب کہہ سکتے ہیں یا نہیں۔آپکو یہ جان کر مزید حیرت ہو گی کہ اس مسئلہ پر بھی ان کا تضاد ہے۔
٭ہم اب وہ مولوی پیش کرتے ہیں جو نبی  ﷺ کے لئے عالم الغیب کا لفظ استعمال کرتے ہیں
۱:مولوی نظام الدین ملتانی لکھتے ہیں:
’’آپکی ذات و صفات کا اول سے عالم الغیب ہوناثابت ہوا یا نہیں‘‘
                                  (کشف المغیبات مصدقہ پیر جماعت علی شاہ ص ۲۳)
۲:مولوی عبد الحامد قادری بدایونی لکھتے ہیں:
’’محدثین اورمتقدمین کے نزدیک حضور  ﷺ عالم الغیب تھے‘‘
                                         (تصحیح العقائد ص۴۹)
۳:حافظ محمد حسن صاحب لکھتے ہیں :
’’پھر بھی ہمارا دعوی ثابت ہوا کہ آپ عالم الغیب تھے‘‘
                                             (العقائد الصحیحہ فی تردید الوہابیہ ص۴۵)
۴:آئینہ اہل سنت کتاب میں بھی مولوی ابو کلیم صدیق فانی صاحب پیر مہر علی شاہ صاحب کے حوالے سے  نبی  ﷺ کو عالم الغیب تسلیم کرتے ہیں۔
یہ تو تھے وہ حضرات جو نبی  ﷺ کو عالم الغیب مان رہے تھے۔
٭اب ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دکھاتے ہیں۔
۱:مفتی اختر رضا بریلوی صاحب لکھتے ہیں؛
’’بے شک عالم الغیب کا استعمال غیر اللہ کے لئے روا نہیں۔‘‘
                                        (انوار رضا ص ۱۳۵)
٭یہاں اختر رضا صاحب نے نبی کو غیر اللہ کہا ہے جبکہ عمر اچھروی صاحب لکھتے ہیں کہ ان آیت قرانیہ میں اللہ تعالی نے اپنے اور اپنے رسولوں کے درمیان تفرقہ ڈالنے والوں اور رسولوں کو غیراللہ کہنے والوں کے واسطے فتوی کفر ارشاد فرمایا۔   
(مقیاس حنفیت  ص۴۳)
اب یہ فتوی اختر رضاصاحب پر جا لگا۔
۲:ایک جگہ ازہری صاحب لکھتے ہیں:
’’رہا آپ کا ہماری نسبت یہ کہنا کہ حضور  ﷺ عالم اغیب ہیں بالکل افتراء ہے۔عالم غیب مثل رحمن و قیوم وقدوس وغیرہ اسماء خاصہ بزات باری میں سے ہے۔اس کا اطلاق غیر خدا کے لئے ہم اہل سنت کے نزدیک حرام و نا جا ئز ہے‘‘
                                         (انوار رضا  ص ۱۳۴)
۳:مولوی شفیع اوکاڑوی لکھتے ہیں:
’’ہم بھی تسلیم کرتے ہیں مخلوق کو عالم الغیب کہنا جائز نہیں‘‘
                                             (تعارف علماء دیوبند ص۵۹)
۴:مولوی احمد رضا صاحب لکھتے ہیں:
’’لہذا مخلوق کو عالم الغیب کہنا مکرہ‘‘
                                  (الامن و العلی )
۵: مولوی جہانگیر صاحب لکھتے ہیں:
’’ جبکہ عالم الغیب کا استعمال حضور  ﷺ پر کسی اہل سنت و جماعت بریلو ی کے اکابر عالم نے نہیں کیا۔‘‘
                                (مناظرہ اہل سنت بریلوی ص۴۳۷)
اب یہ جملہ فتوی جات ان حضرات پر ضا لگے جو نبی  ﷺکو عالم الغیب کہہ رہے تھے۔اور یہ بات بھی صاف ہو گئی کہ اس کا اس بات پر بھی شدید اختلاف ہے۔
*…*…*
  رضاخانی دلائل کے مختصر جوابات  
 ٭بریلوی کہتے ہیں کہ قران میں ہے کہ 
تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ
اور
وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ
اس سے ثابت ہے کہ قران میں ہر چیز کا روشن بیان ہے اور حضور  ﷺ قران کو جانتے تھے لہذا ان کو بھی ماکان و مایکون کا علم ملنا اس آیت سے ثابت ہے۔
جواب نمبر ۱:اس آیت سے ان کا استدلال درست نہیں کہ یہ آیت قطعی الدلالۃ نہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ لفظ کل ہمیشہ عموم کے لئے ہی نہیں خصوص کے لئے بھی آتا ہے۔
جواب نمبر ۲:اگر واقعی قران میں ہر ہر شی کا بیان تفصیلی ہے تو فقہا کو اجتہاد کی کیا ضرورت پیش آئی؟
جواب نمبر ۳:اسی قران کریم میں ہے لَمْ نَقْصُصْ عَلَيْكَ٭ یعنی بعض انبیاء کے قصے ہم نے آپ کو نہیں بیان کئے۔
لفظ کل عموم کے لئے نص قطعی نہیں ہے بلکہ خصوص کے لئے بھی آتا ہے۔
ہم اس پر بھی چند دلائل عرض کرتے ہیں۔
۱:قران میں ہی ’علی کل جبل‘ بھی آیا ہے لیکن اس سے مراد چن پہاڑ ہیں نہ کہ کل۔
۲:ملکہ بلقیس کے بارے میں ارشاد ہوا کہ
وَأُوتِيَتْ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ٭
 یعنی اور ہر ایک چیز اس کو عطا کی گئی تھی۔ جبکہ اس کو سب کچھ ملا ہو گا مگر نبوت اور ملک سلیمان تو ہرگز نہیں ملا۔اور اسے داڑھی بھی یقینا نہیں ملی تھی ۔
تو یہاں بھی کل خصوص کے لئے آیا ہے نہ کہ عموم کے لئے۔
اور ملا جیون ؒفرماتے ہیں:
’’وکلمۃ کل یحتمل الخصوص‘‘
یعنی کلمہ کل خصوص کا احتمال رکھتا ہے۔
اور جب یہاں احتمال آگیا تو استدلال کیوں کر صحیح ہو گا؟؟
٭بریلوی کہتے ہیں  و علم آدم الاسمآء کلھا  کہ جب آدم علیہ السلام کو تمام اشیاء کے نام سکھا دیے تو نبی  ﷺ کو ان سے بھی زیادہ علم غیب ہونا چاہئے کہ آپ  ﷺ تو اما م الانبیاء ہیں۔٭
جواب نمبر ۱:انہوں نے قیاس سے کام لیا ہے اور عقائد میں قیاس نہیں چلتا۔
 جواب نمبر۲:دلیل قطعی الدلالۃ نہیں ہے کیوں کہ ناموں کی بات ہے نہ کہ ہر ہر ذرے کا علم۔
جواب نمبر ۳:اگر آدم علیہ السلام کو ہر ہر چیز کا علم غیب حاصل ہو گیا تھا تو ابلیس نے آپ کو دھوکہ دے کر نکلوایا اور قسم کھا کر ان کو پھسلایا۔
جواب نمبر ۴:یہاں بھی لفظ کل ہے جو کہ احتمال رکھتا ہے۔
  لہذا یہ آیت ان کی دلیل نہیں بن سکتی۔
٭بریلوی کہتے ہیں کہ فلا یظہر علی غیبہ احدا الا من ارتضی من رسول  یعنی اللہ اپنے غیب پر کسی کو مسلط نہیں کرتا سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے تو اس آیت سے بھی نبی  ﷺ کو علم غیب کلی ملنا ثابت ہے۔
٭جواب٭
جواب نمبر ۱:یہ آیت مکی ہے اگر اس سے علم غیب مکمل مل گیا تو پھر قران اس کے بعد بھی کیوں نازل ہوتا رہا۔
جواب نمبر ۲:اس سے پہلے والی آیت میں آپ کے لئے علم قیامت کی نفی موجود ہے ۔جو کے آپ کے ما کان ومایکون کے عقیدے کا رد کر رہی ہے تو آپ کا مدعیٰ کیسے ثابت ہوا؟
جواب نمبر ۳: اس میں اظہار الغیب  کے الفاظ ہیں کے اظہار الغیب ہمارا عقیدہ ہے آ کو علم غیب پر دلیل دینی ہے ۔پھر ہم علم غیب اور اظہار الغیب میں فرق بھی پیچھے بتا آئے ہیں۔
اس میں بھی غیب کی بعض باتوں کا ذکر ہے نہ کے کل۔
٭بریلوی کہتے ہیں کہ وما ھو علی الغیب بضنین  یعنی نبی  ﷺ غیب بتانے میں بخیل نہیں۔تو اس سے پتا لگا کہ ان کے پاس علم غیب ہے تو ہی بتاتے ہیں۔
٭جواب٭
جواب نمبر ۱: یہ سورۃ مکی ہے ( دیکھئے  روح المعانی) اگر اس سے علم غیب مکمل مل گیا تو پھر قران اس کے بعد بھی کیوں نازل ہوتا رہا۔
جواب نمبر ۲:قطعی الدلالۃ نہیں ہے۔
جواب نمبر ۳:بعض مفسروں نے ھو سے مراد قران لیا ہے دیکھئے تفسیر عزیزی و حقانی۔تو یہ آیت قطعی الدلالۃ نہ رہی۔ابن کثیر کہتے ہیں اللہ نے نبی  ﷺپر قران اتارا آپ اس قران کے سنانے میں بخل نہیں کرتے۔
جواب نمبر ۴:بضنین اور بظنین دو قراتیں ہیں دونوں متواتر ہیں(دیکھئے ابن کثیر)۔اس لئے یہ قطعی الدلالۃ نہ رہی۔
٭بریلوی کہتے ہیں کہ
وماکان اللہ لیطلعکم علی الغیب و لکن اللہ یجتبی من رسلہ من یشاء
 یعنی اور اللہ کی شان یہ نہیں کی اے عام لوگو تم کو غیب پر مطلع کرے ہاں اللہ چن لیتا ہے اپنے رسولوں میں جس کو چاہے۔
نبی  ﷺ کو علم غیب   اس سے ثابت ہے۔
٭جواب٭
جواب نمبر ۱:یہ غزوۂ احد میں نازل ہوئی۔۳ ہجری میں پیش آیا۔ اگر اس سے علم غیب مکمل مل گیا تو پھر قران اس کے بعد بھی کیوں نازل ہوتا رہا۔
جواب نمبر ۲:اس میں بھی اطلاع الغیب کا لفظ ہے جبکہ آپ کو علم غیب ثابت کرنا ہے اور ہم پیچھے بتا آئے ہیں کہ علم غیب اور اطلاع الغیب میں فرق ہے۔
جواب نمبر ۳:اس سے مراد بھی بعض غیب پر مطلع ہونا ہے جبکہ آپ کا عقیدہ کلی اس سے ثابت نہیں ہوتا۔(دیکھئے تفسیر مظہری ، معالم التنزیل و غیرہ)
٭ بریلوی کہتے ہیں کہ  وعلمک ما لم تکن تعلم یعنی تم کو سکھا دیا جو کچھ تم نہ جانتے تھے۔ اس آیت سے بھی نبی  ﷺ کے لئے علم غیب کا اثبات ہوتا ہے۔اور تفسیر معالم التنزیل اور خازن وغیرہ میں اس آیت کی تفسیر میں علم غیب کے لفظ آئے ہیں۔لہذا آپ  ﷺ کے لئے علم غیب ثابت ہوا۔
٭جواب٭
جواب نمبر ۱:اس میں لفظ ما ہے جو قطعی نہیں احتمال رکھتا ہے۔ان کو کلی علم غیب کے لئے قطعی ثبوت پیش کرنا تھا۔
جواب نمبر ۲:یہ آیت اوائل ۴ ہجری میں نازل ہوئی۔ اگر اس سے علم غیب مکمل مل گیا تو پھر قران اس کے بعد بھی کیوں نازل ہوتا رہا۔
جواب نمبر ۲:قران میں ہی ہے  و علم الانسان مالم یعلم یعنی اللہ نے انسان کو وہ باتیں سکھائیں جو وہ نہیں جانتا تھا۔ لیجئے اب تمام انسانوں کو ہی علم غیب حاصل ہونا ماننا پڑے گا رضاخانی منطق سے۔
جواب نمبر ۳:بعضوں نے اس سے مراد علم غیب لیا ہے لیکن قیل کے ساتھ جو ضعف کی طرف اشارہ ہے۔
جواب نمبر ۴:پھر اگر بعض حضرات نے یہاں علم غیب مراد لیا بھی ہو تو وہ حضرات بریلوی اصول سے کافر ہیں۔کہ
خان صاحب بریلوی لکھتے ہیں:
’’علم جب کہ مطلق بولا جائے۔خصوصاََ جب کہ غیب کی طرف مضاف ہواس سے مراد علم ذاتی ہوتا ہے‘‘
                       (ملفوظات حصہ سوم ص۲۵۵)
تو ان کے اعلی حضرت کی روسے وہ مفسر جنہوں نے علم غیب مراد لیا ہے تو وہ ذاتی ہے۔اور جو کسی کے لئے ذاتی علم مانے اس کے متعلق خانصاحب کیا فرماتے ہیں:
’’کوئی شخص کسی مخلوق کے لئے ذرہ بھی علم ذاتی مانے یقینا کافر ہے‘‘
                                                     (ملفوظات ص ۲۵۶)
لیجیے  اب وہ مفسر جن کو انہوں نے دلیل بنایا وہ تو ان کے نزدیک کافر ہو گئے۔اب یہ صورت ہے کہ یا تو ان کو کافر کہیں یا ان کی اس بات کی تاویل کریں۔تو اس کی تاویل دیوبندیوں پر لازم نہیں بریلوی حضرات کو بھی اس کی تاویل کرنا ہو گی۔تو ماننا پرے گا کہ یہاں علم غیب لغوی طور پر مراد ہے ورنہ رضاخانی اگر یہ تاویل مراد نہ لیں تو ان مفسروں پر فتوی کفر ارشاد فرمائیں۔
اس پرایک حوالہ بریلوی  مولوی کا پیش کرتے ہیں
مولوی پیر محمد چشتی صاحب لکھتے ہیں؛ 
’’جہاں جہاں ذوات قدسیہ انبیاء و مرسلین اور ان کے متبعین کے لئے علم غیب کا ثبوت آیا ہے وہ علم غیب کے لغوی مفہوم پر محمول ہیں ‘‘               
 (اصول تکفیر  ص ۳۶۰)
لیجئے یہ بات بھی صاف ہو گئی کہ ان مفسروں نے جہاں علم غیب کا لفظ استعمال کیا وہ لغوی طور پر استعمال
کیا۔ جبکہ ان کو شرعی طور پر ثابت کرنا ہے جو ان کا ثابت کرنا ممکن نہیں۔
نوٹ:یہ اصول ہر جگہ استعمال کیا جائے گا۔
٭بریلوی کہتے ہیں کہ  خلق الانسان ۔علمہ البیان سے بھی نبی  ﷺ کو ما کان ومایکون کا علم غیب حاصل ہے۔
٭جواب٭
جواب نمبر ۱:یہ آیت مکی ہے۔ اگر اس سے علم غیب مکمل مل گیا تو پھر قران اس کے بعد بھی کیوں نازل ہوتا رہا۔
جواب نمبر ۲:کئی حضرات نے جنس انسان مراد لئے ہیں نہ کہ نبی  ﷺ۔جیسے جلالین وغیرہ۔تو یہ قطعی الدلالۃ نہ ہوئی۔لہذا آپ کو مفید نہیں۔
جواب نمبر ۳:اگر یہاں ما کان و مایکون یہ مراد ہو تو بھی اس سے جمیع علم لینا مراد نہیں اور یہ آپ کو مفید نہیں،آپ  ﷺ نے ما کاناومایکون کی بے شمار خبریں دی ہیں۔
جواب نمبر ۴:مولانا کرم الدین دبیر جن کو شرف قادری صاحب نے اپنی کتاب میں اپنا اکابر مانا ہے ۔وہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:
’’علم ماکان و ما یکون خاصہ ذات باری تعالی ہے۔‘‘
                                      (آفتاب ہدایت ص۱۸۵)
لیجئے ان کے گھر سے بات صاف ہو گئی۔
٭٭٭

٭ مصنف موصوف کی اس تحریر کی پہلی قسط  پچھلے شمارے میں ان کے قلمی نام ”شمشیرِ دیوبند“ سے چھپی تھی۔ ان کا اصل نام احتشام الدین ہے۔ قارئین نوٹ فرمالیں۔ (مدیر)
٭ سورہ ۴، النساء:۱۶۴، سورہ غافر:۷۸ (مدیر)
٭ سورہ ۲۷، النمل:۲۳(مدیر)
٭ چیزوں کے نام پتہ ہونے سے ہر شے کے کلی علم کا کیا تعلق ہے؟  نیز عَلَّمَ کا لفظ بتا رہا ہے کہ وہ علم بھی حضرت آدم کی ذاتی شان نہیں تھی، بلکہ در حقیقت انہیں اللہ نے سکھایا تھا جس کی وجہ سے انہیں فرشتوں پر فضیلت حاصل ہوئی۔ بالکل یہی بات ہم اہلِ سنت والجماعت بھی کہتے ہیں کہ نبی پاکﷺ کو تمام انسانوں پر بلاشبہ فضیلت حاصل ہے لیکن آپﷺ  کا علم بھی اللہ کا عطا کردہ تھا۔ یعنی عالم الغیب ہونا صرف اللہ ہی کی صفت قرار پائی جو عین قرآن کے مطابق ہے۔(مدیر)

     

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں