جمعرات، 14 فروری، 2019

مسلمان خاتون کے پردے کی عزت کرو: پوپ فرانسس

”سربکف “مجلہ۶(مئی، جون ۲۰۱۶)
مدیر کے قلم سے

کیرو،۲۲ مئی(اے ایف پی، عرب نیوز ڈاٹ کام)پادری فرانسس نے فرانس پر زور دیا ہے کہ وہ مسلم خواتین کے اپنے عقیدے پر قائم رہنے اور حجاب پہننے کا حق دیں، اسی طرح جیسے عیسائیوں کو صلیب(Cross) پہننے کا حق حاصل ہے۔
”اگر ایک مسلم خاتون برقع پہننا چاہتی ہے، تو اسے یہ حق ملنا چاہیے۔ اسی طرح، اگر ایک کیتھولک کراس پہننا چاہتا ہے...تو لوگوں پر یہ لازم ہے کہ وہ انہیں اپنے عقیدے کے مطابق عمل کرنے کا حق دیں۔ “ پوپ فرانسس نے کہا۔
فرانس میں چھ ملین مسلمانوں کی آبادی ہے، جو پورے یورپ میں سب سے زیادہ ہے۔فرانس کے مسلمان عرصہ سے اپنے مذہبی معمولات کی ادائیگی پر پابندی کی شکایت کرتے رہے ہیں۔
یاد رہے کہ ۲۰۰۴ء میں فرانس نے پردے پر پابندی عائد کی تھی جس کی وجہ سے عوامی مقامات اور اسکولوں وغیرہ میں پردہ ہرگز قبول نہیں تھا۔اپریل ۲۰۱۱ء میں چہرے کے پردےپر پابندی عائد کردی گئی تھی۔
٭٭٭


     

وطن کو خدا کا درجہ نہیں دیا جا سکتا:دار الافتاء دار العلوم دیوبند

”سربکف “مجلہ۶(مئی، جون ۲۰۱۶)
مدیر کے قلم سے

دیوبند/نئی دہلی(یو این آئی)ام المدارس دار العلوم دیوبند کی جانب سے وطن پرستی کی مخالفت کرتے ہوئے عام نعرہ ”بھارت ماتا کی جَے“ کہنے کو مسلمانوں کے عقیدے سے متصادم بتایا گیا ہے۔ دار الافتاء دیوبند کی جانب سے جاری کردہ فتوے میں کہا گیا ہے کہ محبت میں وطن کو خدا کا درجہ نہیں دیا جا سکتا، اس لیے بھارت ماتا کی جے کہنا مسلمانوں کے عقیدے سے متصادم ہے۔
دو روز غور و فکر کرنے کے بعد مبینہ طور پر ایک ریزولیوشن میں کہہ دیا گیا ہے کہ محبت میں وطن کو خدا کا درجہ نہیں دیا جا سکتا اس لیے ”بھارت ماتا کی جَے“ کہنا مسلمانوں کے عقیدے سے ٹکراتا ہے۔ جاری کردہ فتوے میں کہا گیا ہے کہ ”ہندوستان بلا شبہ ہمارا ملک ہے، ہم اور ہمارے آباء و اجداد یہیں پیدا ہوئے، ہم اپنے وطن سے محبت کرتے ہیں لیکن ہم اسے خدا نہیں مانتے۔ بھارت ماتا کی جَے کہنے والوں کے نزدیک اس کے مفہوم میں وطن کی پرستش شامل ہے، اس لیے کسی مسلمان کے لیے ایسا نعرہ لگانا جائز نہیں۔ اسلام کے ماننے والے مسلمان کبھی وحدانیت کے خلاف نعرے سے سمجھوتا نہیں کر سکتے۔“

     

رمضان-ضروری مسائل

”سربکف “مجلہ۶(مئی، جون ۲۰۱۶)
ادارہ

مسئلہ ۱: رمضان المبارک کا روزہ ہر عاقل، بالغ، مقیم، تندرست، مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔ عورت کو حالتِ حیض و نفاس میں روزہ رکھنا درست نہیں۔ بعد میں روزے کی قضا رکھنا ضروری ہے۔
مسئلہ ۲: روزہ نیت کے بغیر نہیں ہوتا اور نیت دل میں روزے کے قصد اور ارادہ کا نام ہے۔ روزے کی نیت رات ہی میں کر لینی چاہیے۔
روزہ کن چیزوں سے ٹوٹ جاتا ہے؟
کوئی چیز جان بوجھ کر کھا پی لینا۔
حقہ، بیڑی سگریٹ پینا
کھرّا، تمباکو کھانا
کلی کرتے وقت حلق میں پانی چلا جانا جب کہ روزہ یاد ہو
کان اور ناک میں تیل یا دوا ڈالنا
شوگر کے مریضوں کا پیٹ میں انسولین کا انجکشن لینا
قصداً منہ بھر کر قے کرنا
یا قے آئے چاہے کم ہو یا زیادہ، اس کو قصداً لوٹا لینا
ان صورتوں میں قضا رکھنا ضروری ہے اور بعض صورتوں میں کفارہ ہے۔ وہ صورتیں پیش آنے پر ان کی تفصیل کسی معتبر عالم یا  مفتی سے معلوم کر لی جائے۔
روزہ کن چیزوں سے نہیں ٹوٹتا؟
بھول سے کھا پی لینا
تھوک نگلنا
سرمہ لگانا
تیل لگانا
وکس یا بام لگانا
پھول یا خوشبو سونگنا
آنکھ میں دوا ڈالنا
مسواک کرنا، چاہے خشک ہو یا تر(یعنی گیلی ہو یا سوکھی)
بلا اختیار حلق میں دھواں یا گرد و غبار کا چلا جانا
سوتے ہوئے احتلام ہو جانا
گرمی کی وجہ سے ٹھنڈک حاصل کرنے کے لیے غسل کرنا
ہاتھ یا کمر میں انجکشن لگانا
سلائن چڑھانا جو کہ دوا کے طور پر ہو( نہ کہ تقویت کے لیے)
مسواک کرتے وقت دانتوں سے خان نکل آئے جو حلق میں نہ جائے
ان چیزوں سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔
٭٭٭

     

مسلمانان عالم ۔۔داخلی مسائل و مشکلات

”سربکف “مجلہ۶(مئی، جون ۲۰۱۶)
مولانا حبیب الرحمن اعظمی

آج سے تقریباً چودہ سو برس پہلے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک ایسی قوم کی تشکیل کی تھی جس کو خود آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے قرآن اور سیرت طیبہ کی شکل میں انتہائی روشن اور نورانی شاہراہ پر چھوڑا تھا، جس کے متعلق خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ ” لیلھا کنھارھا“ اپنے ابتدائی دور میں یہ قوم اس شاہراہ پر اس طرح چلی کہ دنیا بھر کی کامیابیاں اس کے قدم بوس ہوئیں، لیکن رفتہ رفتہ اس قوم نے اس شاہراہ سے انحراف کر دیا اور اسلامی تعلیمات سے انحراف کرتے ہی دنیاوی مسائل و مشکلات نے دبوچنا شروع کیا اور اب یہ قوم مصائب کے گھیرے میں ہے۔
عصر حاضر میں مسلمانوں کو درپیش مسائل و مشکلات بہت ہیں، طاغوتی لشکر کا حملہ ہر چہار سو سے ہے اور ہم مصائب میں الجھے زندگی گزار رہے ہیں ... تو سب سے پہلے ہم ان مسائل و مشکلات کے اسباب تلاش کرتے ہیں ۔ ہم صرف سرسری نظر اپنی زندگیوں پر ڈالیں گے تو مسئلہ ہم پر عیاں ہو جائے گا۔
قرآن و حدیث میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ اس جہان رنگ و بو میں کوئی چیز از خود اور اتفاق سے نہیں ہوتی بلکہ وہ منجانب اللہ ہوتی ہے اور ظاہر میں اس کے اسباب بھی ہوتے ہیں ۔ جن کو اللہ پاک نے قرآن مجید میں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے حدیث پاک میں بیان فرمایا ہے۔
چناں چہ ارشاد خداوندی ہے:
﴿ وما اصابکم من مصیبۃ فبما کسبت ایدیکم﴾ (الشوری: 30)
اور جو کچھ مصیبت تم کو (حقیقتاً) پہنچتی ہے وہ تمہارے ہی اعمال کی بدولت پہنچتی ہے۔
دوسری جگہ ارشاد ہے:
﴿ ظہر الفساد فی البر والبحر بما کسبت ایدی الناس لیذیقھم بعض الذی عملوا لعلھم یرجعون﴾ (الروم: 41)
لوگوں کے اعمال کی بدولت بر و بحر (یعنی خشکی اور تری) غرض ساری دنیا میں فساد پھیل رہا ہے (اور بلائیں وغیرہ نازل ہو رہی ہیں)، تاکہ اللہ تعالی ان کے بعض اعمال کی سزا کا مزہ چکھا دے، شاید کہ وہ اپنے ان اعمال سے باز آ جائیں۔
اس قسم کے مضامین قرآن میں بہت جگہ ہیں۔ پہلی آیت کے متعلق حضرت علی کرم اللہ وجہہ ارشاد فرماتے ہیں کہ مجھ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ:
”اس آیت کی تفسیر میں تجھے بتاتا ہوں، اے علی! جو کچھ پہنچے، مرض ہو یا کسی قسم کا عذاب ہو یا دنیا کی کوئی بھی مصیبت ہو، وہ تیرے ہی ہاتھوں کی کمائی ہے۔ (بحوالہ اسباب مصائب اور ان کا علاج ص: 8)
اب ایسی بھی بات نہیں ہے کہ کوئی مسئلہ ہی نہ پیش آئے او ر کسی کو کوئی مشکل ہی نہ پڑے، مسائل و مشکلات تو پیش آتے ہی رہیں گے۔ مشکلات و مسائل کا نام ہی زندگی ہے۔ ایسا ہوہی نہیں سکتا کہ انسان زندگی پائے اور مشکلات و مسائل سے دو چار نہ ہو ... اور ایمان والا انسان، جو اللہ کا سب سے برگزیدہ بندہ ہوتا ہے وہ بھلا رنج و غم سے کیسے بچ سکتا ہے جب کہ ارشاد نبوی (صلی اللہ علیہ و سلم ہے: ” ان عظم الجزاء مع عظم البلاء“۔ (ترمذی: 64/ 4)
یعنی بڑی جزا تو بڑی آزمائش کے ساتھ ہے ... اہل ایمان ہر دور میں مسائل و مشکلات سے دو چار ہوتے رہیں گے اور ابتلا و آزمائش کے مراحل ہی زندگی کا لازمی عنصر بنتے رہیں گے، کیوں کہ 
؏
مصائب میں الجھ کر مسکرانا ہے مری فطرت
عصر حاضر میں مسلمانوں کو درپیش مسائل و مشکلات دو طرح کی ہیں:
 ایک تو وہ ہیں جو خو دان کی اپنی ہی بداعمالیوں کا نتیجہ ہیں ۔
 دوسری وہ جو غیروں نے ان کی راہ میں کھڑی کر رکھی ہیں۔ 
اول الذکر کو داخلی مسائل و مشکلات اور دوسرے کو خارجی مسائل و مشکلات سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اور ہمارے داخلی مسائل خارجی مسائل و مشکلات کا سبب ہیں، کیوں کہ باطل کے سیل رواں میں پہلے اتنی بھی قوت نہ تھی کہ تنکہ بہا سکے۔ مگر جب مسلمانوں نے سفینہ۔ ملت میں سوراخ کیا، اپنے ہی ہاتھوں اپنے پاؤں میں کلہاڑی ماری تو 
؏
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کودے مارا
مسلمانوں کا اصل مسئلہ ”آخرت کے سدھارنے اور سنوارنے اور دینی تشخص و امتیاز برقرار رکھنے کا ہے“ پھر دیگر مسائل ہیں، مسلم معاشرہ کے مسائل و مشکلات کی آگ کی تپش محسوس کر کے ہی ہمارا ادراک صحیح منزل تک پہنچ سکتا ہے او ر مسائل و مشکلات کے صحیح ادراک کے بعد ہی کوئی صحیح حل پیش کیا جا سکتا ہے۔
مسلم معاشرہ میں مسائل و مشکلات جراثیم کی مانند پھیلے ہوئے ہیں اور ہمارا سماج گوناگوں مسائل و مشکلات اور اعتقادی و عملی پیچیدگیوں سے بھرا ہے، جن کو ہمیں سمجھنا ہوگا، اس وسیع موضوع پر مجموعی طور پر اور الگ الگ اجزا پر کتب موجود ہیں۔
ہم ذرا غور کریں، مسائل کو پہچانیں اور اپنے حالات کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ہم تعلیمی، تہذیبی، ثقافتی، اقتصادی، سیاسی اور معاشی، الغرض ہر اعتبار سے پستی میں ہیں، بے دینی اس قدر عام ہے کہ ہم سے دین داری کا شائبہ بھی ختم ہو رہا ہے اور ہم میں مغرب کا زہر سرایت کر رہا ہے۔ دیکھ لیں! کتنے مسلمان ایسے ہیں جن کے چہرے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نورانی سنت با احترام باقی ہے یا بالکل چٹ ... ! چہرے اور وضع قطع سے تو مسلمان کی پہچان دشوار ہو گئی ہے، داڑھی رکھنا شعائر اسلام میں سے ہے اور شعائر اسلام کو بالائے طاق رکھ کر، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی پیاری سنتوں کو چھوڑ کر ہم کبھی چین نہیں پا سکتے۔ کتنے افسوس اور حیرت کا مقام ہے کہ دعویٰ ہے مسلمان ہونے کا اور مسلم صفات سے آزاد۔ دعویٰ ہے عاشق رسول ہونے کا اور محبوب صلی اللہ علیہ و سلم ہی کے طور و طریق، جو اسوہ۔ حسنہ ہمارے لیے نمونہ ہیں، انہیں سے بیزاری ... اللہ اکبر! یہ کیسا بگاڑ ہے ... !
آج ایک مسلمان لباس غیروں جیسا پہنتا ہے، غیروں کا کلچر اپناتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے رشتہ توڑ کر طریقۂ یہود و نصاریٰ اس کو بھاتا ہے، نتیجہ یہ ہوا کہ ہم غیروں کے ہاتھ بک گئے اور کوئی وقعت نہ رہی۔
آج بھائی، بھائی کے خون کا پیاسا ہے، پڑوسی سے نالاں ہے، شکوہ ہے کہ اولاد نا کارہ اور آوارہ ہے، عورتوں کے حقوق ادا نہیں کیے جاتے، لڑکیوں کا حق مارا جاتا ہے، چھوٹے بڑے کی تمیز ختم ہوتی جا رہی ہے، بے ایمانیاں او ر معاملات کا بگاڑ اپنی انتہا پر ہے، بے دینی اور بد کرداری بالکل عام ہے، مسجدیں، نمازیوں سے خالی ہیں، صفیں مسجود حقیقی کی بارگاہ میں سجدہ ریز جبیں کو ترس رہی ہیں، اہل علم، جذبۂ عمل سے عاری، تعلیم و تعلم، خلوص و للہیت سے خالی، ہماری وضع قطع ایسی کہ شناخت کرنا دو بھر، کون مسلمان ہے، کون نہیں؟ کوئی امتیاز نہیں 
؏
چوں کفر از کعبہ بر خیزد کجا ماند مسلمانی
ہمارا رویہ نماز کے متعلق بہت زیادہ افسوس ناک ہے، نماز جو فارق بین الکفر و الاسلام ہے، جو ایمان کی علامت ہے، غور کریں کتنے مسلمان نماز کی پابندی کر تے ہیں، اسی طرح دوسرے ارکان پر عمل کرنے والے ہیں، اسی سے ہم تمام دینی احکام کا اندازہ کر سکتے ہیں ... فریضۂ دعوت ہم سے چھوٹ رہا ہے، غیر مسلموں میں تبلیغ دین سے تو ہمارے کان تقریباً ناآشنا ہو چکے ہیں، مسلمانوں کی اصلاح کا بہانہ بنا کر غیر مسلموں تک دعوت دین نہ پہنچانے سے مواخذہ ہوگا۔ بزرگان ملت اور دانش ور ان قوم اس مسئلہ پر بھی غور کریں۔ الحمدللہ! آج کل اس کا بھی عملاً کچھ اقدام کیا گیا ہے جس کے لیے طریقۂ کار سے وابستگی نہایت ضروری ہے او راسی کا ثمرہ ہے کہ دنیا آج اسلام کی طرف ہے۔
ہمارے آپسی اختلاف و انتشار، ملت اسلامیہ کے لیے اور بھی سوہان روح ہیں، جس اتحاد نے دنیا کو اسلامی طاقت کے سامنے سرنگوں ہونے پر مجبور کر دیا تھا آج اسی اتحاد کو بالائے طاق رکھنے کی وجہ سے ملت اسلامیہ کا شیرازہ بکھر چکا ہے، اتحاد اسلامی کا سرچشمہ قرآن حکیم اب بھی ہمیں اپنی تمام تر تاثیرات کے ساتھ اسلامی اتحاد کی دعوت دیتا ہے، دلوں کو جوڑنے اور اخوت و محبت پیدا کرنے کی سعی پیہم کرتا ہے۔
فرمان الٰہی ہے: ﴿ واعتصموا بحبل اللہ جمیعاً ولا تفرقوا﴾ 
مگر افسوس کہ آج امت مسلمہ نے کلمۂ حق کی بنیاد پر اتفاق و اتحاد نہیں کیا، ذات برادری کی تفریق کر کے مسلمان خود کے لہو کے پیاسے بن گئے اور اپنی جمعیت کا پارہ پارہ کر کے جذبہ۔ اخوت کا قلع قمع کر دیا۔ دیکھ لیجیے! عراق اور فلسطین کے مسلمان خانۂ جنگی کی مسموم فضا میں اپنے ہی ہم مذہب سے نبرد آزما ہیں اور اقوام عالم ہمارے کردار سے بھرپور منفعت حاصل کر رہی ہے۔
قرآن کریم اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ پر کیف اور پر سوز لہجے میں گویا ہے: 
﴿ واطیعوا اللہ ورسولہ ولاتنازعوا فتفشلوا وتذھب ریحکم﴾ ۔ (الانفال: 46)
اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑا فساد مت کرو، ورنہ تمہارے اندر کمزوری پیدا ہو جائے گی اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔
حیرت ہے کہ خدا ہمیں راہ راست پر لانا چاہتا ہے، مگر ہم آپس میں نفاق اور نفرت و عداوت کا بیج بو رہے ہیں۔
حیرت ہے کہ غیر قوموں میں مختلف فرقے اور ذاتیں ہیں، جن میں اشد ترین اختلافات بھی ہیں، مگر جب اسلام سے ٹکرانا ہوتا ہے تو سب ایک ہو جاتے ہیں او ر ایک مسلمان قوم ہے جسے مدت سے پریشان کیا جا رہا ہے اور ظلم و ستم کا نشانہ بنی ہوئی ہے ۔ مگر متحد نہیں ہو سکتی، اگر ہم اختلاف کی دلدل سے نکل کر اتفاق کے گلشن میں پہنچنا چاہتے ہیں تو ہمیں صرف کلمۂ توحید کی بنیاد پر اسلامی اتحاد قائم کرنا ہوگا، رنگ و نسل کے امتیاز کو ختم کر کے ہمدردی اور اخوت کا جامہ پہننا ہوگا، مسلمان کوئی بھی ہو، کہیں کا بھی ہو، سب ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ ایمان واسلام کے ناطے ہم سب آپس میں بھائی ہیں، نسل پرستی، قومیت اور وطنیت و علاقائیت کی ضد چھوڑو، یہ ہماری ملت اسلامیہ کی بدنصیبی ہے کہ ذاتی مسائل بھی ایک معمہ بن گئے۔ مسلکی اختلاف کیا چیز ہے؟ دشمن مسلک سے نہیں، مذہب سے لڑ رہا ہے۔ اتحاد اسلامی کی رفعت شان بزبان محسن انسانیت سنیے! آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سوا لاکھ صحابۂ کرام کے جم غفیر کو خطاب کر کے فرمایا:
 ”کلکم من آدم، وآدم من تراب، لافضل لعربی علی عجمی، ولالعجمی علی عربی، ولالأحمر علی اسود، ولا لاسود علی احمر، الا بالتقوی “
تم سب حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہو اور آدم علیہ السلام مٹی سے بنائے گئے تھے، کسی عرب نسل کے آدمی کو کسی عجم نسل کے آدمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت نہیں اور نہ کسی گورے کو کسی کالے پر اور نہ کسی کالے کو کسی گورے پر ۔ فضیلت صرف نیکی اور اچھائی کی بنیاد پر ہوگی۔
قرآن آج بھی دلوں کو جوڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے، بس ہم قرآنی تعلیمات پر خلوص کے ساتھ عمل پیرا تو ہوں، پھر ویسا ہی اتحاد پیدا ہوگا جیسا رسول خدا صلی اللہ علیہ و سلم نے عرب کے مختلف قبائل و خاندان کو کلمہ توحید کی بنیاد پر تیار کر کے قائم کیا تھا۔
مسلم معاشرہ میں ایک جانب دین اور اس کے احکام سے دوری ہے تو دوسری جانب شریعت کی ممنوعات سے قربت، جن چیزوں کو شریعت نے حرام قرار دیا اور جن کے کرنے والوں پر لعنت اور وعید وارد ہوئی ان میں کتنے رات دن مشغول اور منہمک ہیں۔ شراب ہی کولے لیجیے! یہ ام الخبائث ہے، اس میں کسی طرح کی شرکت حرام ہے، شراب پینے والا، پلانے ولا، بنانے والے، بنوانے والا، بیچنے و خریدنے والا، لاد کر لے جانے والا، جس کے پاس لاد کر لے جائی جائے وہ اور اس کی قیمت کھانے والا، سب بزبان رسالت ملعون و مردود ہیں، اسی طرح سود کا معاملہ ہے۔ اس کے نہ چھوڑنے والے کے لیے قرآن میں اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے جنگ کا اعلان ہے، سود کا سب سے کم درجہ اپنی ماں سے زنا کے مثل ہے، رشوت کے معاملہ میں راشی اور مرتشی دونوں جہنم میں جائیں گے ۔ یہ عذاب الہٰی کو دعوت دینا ہے، ہم اپنے حالات پر غور کریں، کتنے معاملات میں سودی لین دین کھلم کھلا ہوتا ہے ۔ شراب علی الاعلان پی جانے لگی، رشوت کا کاروبار عام ہے، امانت، مال غنیمت کے مثل ہو گئی۔
یہ امت خرافات اور رسوم و رواج میں کھو گئی، آج ہماری آنکھیں سب سے زیادہ ٹی وی اسکرین اور ویڈ یو کو پسند کرتی ہیں، اگر کوئی مشغلہ زیادہ محبوب ہے تو وہ صنف نازک سے نظر بازی ہے، اگر ہم زیادہ کسی چیز کو دیکھتے ہیں تو عریاں فلمی پوسٹر ہیں۔ آج کل کوئی ایسی بے حیائی کی جگہ نہیں جو مسلمانوں سے خالی ہو، مرد تو مرد، عورتیں بھی اس میں مبتلا ہیں ۔ انہیں پردہ کا کوئی اہتمام نہیں ۔ یہ گھروں سے نکلنے کے لیے ضرورت پیدا کرتی ہیں، یہ راستوں پر عام چال نہیں، بلکہ ناز سے پہلو بدل کر چلتی ہیں۔ جب کہ قرآن ببانگ دہل اعلان کرتا ہے۔
آپ کہہ دیجیے اے محمد (صلی اللہ علیہ و سلم)! مسلمان مردوں سے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنے ستر کی حفاظت کریں اور کہہ دیجیے مسلمان عورتوں سے کہ وہ (بھی) اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنے ستر کی حفاظت کریں اور اپنا سنگھار (اور زیب و زینت) نہ دکھلائیں۔
یہی حکم تمام صحابہ کرام و صحابیات کو تھا، یہی حکم ابوبکر و عمر و عثمان و علی کو تھا، یہی حکم اہل صفہ کو بھی تھا، یہی حکم درس گا ہ نبوت کے ہر طالب علم کو تھا اور یہی حکم جو چودہ سو سال پہلے فاطمہ زہرا، عائشہ صدیقہ کو تھا، بلا کسی تبدیلی کے ہم اور ہماری مائیں بہنیں بھی اسی کی مکلف ہیں، لیکن آہ! وہ قوم جس کا شیوہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر تھا آج وہ خود چاہ ضلالت میں گری پڑی ہے، ہماری زندگی خرافات کا مجموعہ بن گئی ہے، ناچ گانا، شطرنج و آتش بازی، داڑھی منڈوانا یا ایک مشت سے کتروانا، انگریزی بال، رسوم نکاح، فضول خرچی، بے پردگی... الغرض آج ہم ان خرافات او ر رسوم اختراعیہ کے اس قدر پابند ہیں کہ انہیں حق سمجھتے ہیں ۔ ہم اپنی تنگ دستی اور فقر و فاقہ کا رونا روتے ہیں ۔ اپنے اوپر مظالم کی شکایات کرتے ہیں، لیکن اپنے اعمال کی خبر نہیں لیتے، اخلاقی امراض جیسے غلط اخلاق و عادات، رقص و سرود، گانے بجانے، ریڈ یو، ٹی وی، سینما، آرام طلبی، منکرات و معاصی، احکام خداوندی کی بر سر عام نافرمانی، فسق و فجور اور الحاد زندقہ پھیلانے والے رسائل و ڈائجسٹ کا گھر گھر پھیل جانا، عریانیت و بے حیائی، اسراف و تبذیر، رسوم و رواج، بے عملی اور دین سے دوری، آپسی اختلاف انتشار، غربت و جہالت اور بد تہذیبی یہ ہمارے وہ داخلی خطرات ہیں جو قوم کے قلب و ضمیر او ر معاشرہ کے رگ و پے میں سما گئے ہیں ۔ یہ ہمارے داخلی دشمن اور داخلی مہلک امراض جو ہمارے انجام اور ہمارے معاشرہ کے لیے دشمنوں کے لشکر جرار سے کہیں زیادہ مہلک، خطرناک اور زیادہ تشویش ناک ہیں۔ ان کی طرف ہماری توجہ مبذول نہیں ہوتی۔ نہ ہم ان سے خلاصی حاصل کرنے کے لیے کوئی احتیاطی تدبیر اور موثر اقدام و علاج کرتے ہیں ... حد تو یہ ہے کہ ان داخلی امور میں ہماری بے دینی کی وجہ سے مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے، غیروں کے مسلسل حملوں اور پیہم یلغار کے باوجود ان باتوں میں کمی نہ آنا اور اصلاحی کوششوں کا بار آور نہ ہونا عصر حاضر کے مسلمانوں کا زبردست المیہ ہے۔
یہ طرز زندگی اور یہ اعمال و حرکات جو ہم نے اختیار کر رکھی ہیں، یقیناً ً اللہ کی نصرت اور اس کی رحمت و مدد سے محروم کرنے والی ہیں۔ ہم شیطان کی غلامی میں پھنس گئے۔ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی، مصائب و حوادث کی کثرت کا سبب ہے اور اللہ کی اطاعت اور اس کے احکام کی فرماں برداری دار ین کی فلاح کا سبب ہے۔٭
٭٭٭

     

مومن کا روزہ

”سربکف “مجلہ۶(مئی، جون ۲۰۱۶)
حضرت مولانا سید مفتی مختار الدین کربوغہ شریف٭

مومن کا روزہ اس کی صفات شکر، صبر، رحم اور تقویٰ کو ترقی دیتا ہے اور تقویٰ یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی حدود اور احکامات اور جن چیزوں سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے اس معاملہ میں انتہائی محتاط رہے اور اس کی پوری نگہداشت کرے کہ کسی طرح اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا مرتکب نہ ہو جائے۔ پس متقی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور ناپسندیدہ چیز سے بچنے کی انتہائی کوشش کرتا ہے۔
 روزہ میں انسان بھوک، پیاس کو برداشت کرتا ہے۔ یہی چیزیں ایک طرف تو بھوکوں پیاسوں کا احساس دلاتی ہیں تو دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی قدردانی اور شکر میں اضافے کا سبب بنتی ہیں۔ کیونکہ جب شدت پیاس نہ ہو تو پانی کی اہمیت کا کیسے اندازہ ہو سکتا ہے؟ اسی طرح جب جائز چیزیں موجود ہوں اور اس کا جی بھی چاہتا ہے کہ اسے کھائے پئے یا استعمال کرے لیکن وہ اللہ تعالیٰ کے خوف سے کھاتا ہے نہ پیتا ہے تو یہ اس کے اندر ضبط اور حق پر جمنے یعنی صبر کی قوت کو بڑھاتا ہے اور خوب پیاسا ہے بھوکا ہے کھانا موجود ہے لیکن پھر بھی ہاتھ نہیں لگاتا۔ تو یہ اللہ تعالیٰ کی حضوری (کہ اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے )کو ترقی دیتا ہے اور جب پاک حلال چیزوں سے روکنے کی مشق ہوتی ہے۔ تو اس کی وجہ سے جو چیزیں حرام ہیں۔ ان سے بچنے کے بارے میں سخت محتاط ہو جاتا ہے۔ سال میں ایک ماہ، ماہ رمضان اسی اصلاح و تربیت کے لئے مقرر کیا گیا ہے۔ تاکہ انسان کی پوری زندگی ایک روزہ دار کی زندگی ثابت ہو جائے اور وہ ہر آن اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی چیزوں اور حدود کے متعلق محتاط رہے لیکن یہ اس وقت حاصل ہو گا۔ جب روزہ قانون اور رسمی انداز سے نہ رکھا جائے۔ بلکہ بندگی اور احتیاط کی روح سے بھری ہوئی مشق کے ساتھ ہو۔ ورنہ اگر روزہ میں حلال چیزوں کوتو وقتی طور پر چھوڑ دیا جائے۔ لیکن غیبت، دھوکہ دہی، جھوٹ، افتراء اور کمزوروں پر ظلم اور ان کے خلاف غصہ، گالی گلوچ، تجارت، معاملات میں سود، حرام اور نا جائز کا ارتکاب ہو رہا ہے۔ علماء سے مسئلہ معلوم کر کے نشہ اور دوائیں انجکشن کے ذریعے جسم میں اتار کر مزہ لیتا رہے۔ تو آخر اس روزہ سے صبر و استقامت، شکر، مہربانی اور تقویٰ کیسے پیدا ہو گا؟
چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ  ١٨٣؁ۙ
 ’’اے ایمان والوں تم پر روزہ فرض کیا گیا جس طرح پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ‘‘ 
(بقرہ۔ آیت:۸۵ )٭
اور نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
 ’’الصوم لی و انا اجزی بہ‘‘ یعنی روزہ (خاص )میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دیتا ہوں۔ ‘‘(بخاری و مسلم )
یعنی روزے سے اللہ تعالیٰ، اس کی محبت، اس کا صحیح تعلق اور اس کی خوشنودی ملتی ہے اور یہ اسی لئے ہوتا ہے کہ روزہ کی وجہ سے انسان خالص اللہ تعالیٰ کاہو کر رہ جاتا ہے اور اس حالت میں ترقی کرتا جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ جب یہ اللہ تعالیٰ کاہو کر رہے گا تو اللہ تعالیٰ بھی اس کاہو جائے گا۔ جیسا کہ نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے کہ
”من کان للہ کان اللہ لہٗ“
 ’’جو شخص اللہ تعالیٰ کاہو کر رہ گیا، اللہ تعالیٰ اس کاہو گیا۔ ‘‘ 
باقی رہے وہ روزے جن کو صرف رسمی طور پر رکھا جائے۔ تو ان سے قطعاً مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوں گے۔ چنانچہ ایسے روزہ داروں کے متعلق جو صرف قانوناً بھوکے پیاسے رہ کر حرام چیزوں سے بچنے کا اہتمام نہیں کرتے۔ نبی کریمﷺ فرماتے ہیں کہ
”من لم یدع قول الزور و العمل بہ فلیس للہ حاجۃ، ان یدع طعامہ و شرابہ“
 ’’جو شخص روزہ رکھتے ہوئے باطل کلام اور باطل کام نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کے بھوکے پیاسے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ‘‘(بخاری و مشکوٰۃ)
اور ایک دوسری حدیث میں ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: 
”رب صائم لیس لہ من صیامہ الا الجوع“ ” و رب قائم لیس لہ من قیامہ الا السھر“
مطلب یہ کہ ’’بہت سے روزہ رکھنے والے ایسے ہیں کہ ان کو روزہ (کے ثمرات )میں سے بجز بھوکا رہنے کے کچھ حاصل نہیں ہوتا اور بہت سے راتوں کو قیام کرنے والے ایسے ہیں کہ جن کو(تہجد کے اور راتوں کے )قیام کے ثمرات میں سے صرف جاگنے (کی مشقت )کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا‘‘(الترغیب والترہیب و مشکوٰۃ کتاب الصیام)
مگر افسوس یہ ہے کہ بعض بے رحم لوگ امت کو صرف قانونی اور رسمی چیزوں میں الجھائے رکھتے ہیں اور لوگوں کے سامنے اختلافی مسائل چھیڑتے ہیں اور انہی مسائل میں لوگوں کو ایسے الجھاتے ہیں کہ اصل مقاصد عوام کے ذہنوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں وہ غیر ضروری چیزوں کو مقصد بنا کر دین کے مقاصد سے دور ہٹ جاتے ہیں۔ نماز میں قنوت اور خشوع پرنہ زور دیا جاتا ہے، نہ ٹوکا جاتا ہے۔ بلکہ خود دین کے علمبردار ہو کر نماز میں وہ کام کرتے ہیں جو صرف قنوت، خشوع کے خلاف نہیں بلکہ صراحتاً سنت کے خلاف ہیں۔ مثلاً داڑھی سے اور کپڑوں سے اس طرح کھیلتے ہیں کہ گویا اللہ تعالیٰ کے سامنے نہیں بلکہ آئینہ کے سامنے کھڑے ہیں اور نماز میں وہ کرتوت کرتے ہیں کہ اس طرح وہ اپنے سے زیادہ منصب والے کے سامنے تو کیا اپنے برابر کے منصب والوں کے سامنے بھی نہیں کر سکیں گے۔ لیکن پھر بھی آمین بالجہر اور بالسِر، ہاتھ کو سینے پریا اس کے نیچے رکھنا وغیرہ جیسی چیزوں پر لڑتے ہیں اور ان چیزوں پر اپنے لوگوں کو اس طرح پکا کرتے ہیں کہ دوسروں کو کافر، مشرک، بدعتی یا تارک سنت وغیرہ قرار دیتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ بہت سے علماء ایسے بھی ہیں کہ وہ عوام کو یہی بتاتے ہیں کہ کیا تمہاری نماز نے تمہارے اندر رحم کی صفت پیدا کی ہے یا نہیں ؟تمہیں فحش، منکرات سے بچایا ہے یا نہیں ؟اور انھیں یہ بھی بتاتے ہیں کہ تم جب اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہوتے ہو تو عاجزی کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ اور عاجزی سے کھڑا ہونا تو ہر کوئی جانتا ہے کہ جس کی ہیبت اور عظمت تمہارے دل پر ہو تو پھر اس کے سامنے تم کیسے کھڑے ہوتے ہو۔ یہی عاجزی کے ساتھ کھڑا ہونا ہے۔ لیکن ایسے علماء امت کی اصلاح کے لئے ناکافی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو حقیقی نماز، روزہ کی توفیق عنایت فرمائے۔٭
٭٭٭

     

علم و فضل کے ساتھ تواضع و للہیت

”سربکف “مجلہ۶(مئی، جون ۲۰۱۶)
مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

اگر صرف وسعت مطالعہ، قوتِ استعداد اور کثرتِ معلومات کا نام علم ہو تو یہ صفت آج بھی ایسی کمیاب نہیں لیکن اکابر دیوبند کی خصوصیت یہ ہے کہ علم و فضل کے سمندر سینے میں جذب کر لینے کے باوجود اُن کی تواضع، فنائیت اور للہیت انتہا کو پہنچی ہوئی تھی۔ یہ محاورہ زبان زدِ عام ہے کہ ’’پھلوں سے لدی ہوئی شاخ ہمیشہ جھکتی ہے‘‘ لیکن ہمارے زمانے میں اس محاورے کا عملی مظاہرہ جتنا اکابر دیوبند کی زندگی میں نظر آتا ہے اور کہیں نہیں ملتا۔ چند واقعات ملاحظہ فرمائیے:
٭۱- بانیِ دارالعلوم دیوبند حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کے علوم بحر نا پیدا کنار تھے۔ اُن کی تصانیف آبِ حیات، تقریر دلپذیر، قاسم العلوم اور مباحثہ شاہجہاں پور وغیرہ سے اُن کے مقامِ بلند کا کچھ اندازہ ہوتا ہے اور ان میں سے بعض تصانیف تو ایسی ہیں کہ اچھے اچھے علماء کی سمجھ میں نہیں آتیں ۔ حد یہ ہے کہ ان کے ہم عصر بزرگ حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ جملہ دارالعلوم میں معروف تھا کہ ’’میں نے آبِ حیات کا چھ مرتبہ مطالعہ کیا ہے، اب وہ کچھ کچھ سمجھ میں آئی ہے۔‘‘
اور حکیم الامت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:
’’اب بھی مولانا (نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ) کی تحریریں میری سمجھ میں نہیں آتیں اور زیادہ غور و خوض کی مشقت مجھ سے برداشت ہوتی نہیں، اس لیے مستفید ہونے سے محروم رہتا ہوں اور اپنے دل کو یوں سمجھالیتاہوں کہ ضروریات کا علم حاصل کرنے کے لیے اور سہل سہل کتابیں موجود ہیں پھر کیوں مشقت اٹھائی جائے‘‘۔
ایسے وسیع و عمیق علم کے بعد، بالخصوص جب کہ اس پر عقلیات کا غلبہ ہو، عموماً علم و فضل کا زبردست پندار پیدا ہو جایا کرتا ہے لیکن حضرت نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کا حال یہ تھا کہ خود فرماتے ہیں :
’’جس طرح صوفیوں میں بدنام ہوں اسی طرح مولویت کا دھبہ بھی مجھ پر لگا ہوا ہے، اس لیے پھونک پھونک کر قدم رکھنا پڑتا ہے، اگر یہ مولویت کی قید نہ ہوتی تو قاسم کی خاک کا بھی پتہ نہ چلتا۔‘‘
چنانچہ اُن کی بے نفسی کا عالم یہ تھا کہ بقول مولانا احمد حسن صاحب امروہوی رحمۃ اللہ علیہ:
’’حضرت مولانا محمد قاسم صاحب رحمۃ اللہ علیہ جس طالب علم کے اندر تکبر دیکھتے تھے اُس سے کبھی کبھی جوتے اُٹھوایا کرتے تھے اور جس کے اندر تواضع دیکھتے تھے اُس کے جوتے خود اُٹھا لیا کرتے تھے‘‘۔
٭۲- یہی حال حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کا تھا۔ انھیں اُنکے تفقّہ کے مقامِ بلند کی بناء پر حضرت مولانا نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’ابوحنیفۂ عصر‘‘ کا لقب دیا تھا اور وہ اپنے عہد میں اسی لقب سے معروف تھے۔ حضرت علامہ انور شاہ صاحب کشمیری رحمۃ اللہ علیہ جیسے بلند پایہ محقق جو علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ کو ’’فقیہ النفس‘‘ کا مرتبہ دینے کے لیے تیار نہ تھے، حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کو ’’فقیہ النفس‘‘ فرمایا کرتے تھے۔ ان کے بارے میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ واقعہ سناتے ہیں کہ:
’’حضرت مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ ایک مرتبہ حدیث کا سبق پڑھا رہے تھے کہ بارش آ گئی۔ سب طلبہ کتابیں لے لے کر اندر کو بھاگے مگر مولانا رحمۃ اللہ علیہ سب طلباء کی جوتیاں جمع کر رہے تھے کہ اُٹھا کر لے چلیں ۔ لوگوں نے یہ حالت دیکھی تو کٹ گئے‘‘
٭۳- شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن صاحب قدس سرہ کے علم و فضل کا کیا ٹھکانا؟ لیکن حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ راوی ہیں کہ ’’ایک مرتبہ مراد آباد تشریف لے گئے تو وہا ں کے لوگوں نے وعظ کہنے کے لیے اصرار کیا۔ مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے عذر فرمایا کہ مجھے عادت نہیں ہے مگر لوگ نہ مانے تو اصرار پر وعظ کے لیے کھڑے ہو گئے اور حدیث ’’فقیہ واحد أشدّ علی الشیطٰن من ألف عابد‘‘ پڑھی اور اس کا ترجمہ یہ کیا کہ:
’’ایک عالم شیطان پر ہزار عابد سے زیادہ بھاری ہے۔‘‘
مجمع میں ایک مشہور عالم موجود تھے۔ انھوں نے کھڑے ہو کر کہا کہ: ’’یہ ترجمہ غلط ہے اور جس کو ترجمہ بھی صحیح کرنا نہ آوے اس کو وعظ کہنا جائز نہیں ۔‘‘
حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کا جوابی ردِّ عمل معلوم کرنے سے پہلے ہمیں چاہیے کہ ذرا دیر گریبان میں منہ ڈال کر سوچیں کہ اگر اُن کی جگہ ہم ہوتے تو کیا کرتے؟ ترجمہ صحیح تھا اور اُن صاحب کا اندازِ بیان توہین آمیز ہی نہیں، اشتعال انگیز بھی تھا۔ لیکن اس شیخ وقت کا طرزِ عمل سنیے، حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ سن کر:
’’مولانا فوراً بیٹھ گئے اور فرمایا کہ میں تو پہلے ہی کہتا تھا کہ مجھے وعظ کی لیاقت نہیں ہے مگر ان لوگوں نے نہیں مانا۔ خیر اب میرے پاس عذر کی دلیل بھی ہو گئی، یعنی آپ کی شہادت۔‘‘
چنانچہ وعظ تو پہلے ہی مرحلے پر ختم فرما دیا، اس کے بعد اُن عالم صاحب سے بطرزِ استفادہ پوچھا کہ ’’غلطی کیا ہے؟ تاکہ آئندہ بچوں ‘‘ انھوں نے فرمایا کہ أشدّ کا ترجمہ أثقل (زیادہ بھاری) نہیں بلکہ أضرّ (زیادہ نقصان دہ) کا آتا ہے۔‘‘ مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے برجستہ فرمایا کہ ’’حدیث وحی میں ہے ، یاتینی مثل صلصلۃ الجرس وہو أشدّ علیّ‘‘ (کبھی مجھ پر وحی گھنٹیوں کی آواز کی طرح آتی ہے اور وہ مجھ پر سب سے زیادہ بھاری ہوتی ہے) کیا یہاں بھی أضرّ (زیادہ نقصان دہ) کے معنی ہیں ؟ اس پر وہ صاحب دم بخود رہ گئے۔
٭۴- حکیم الامّت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ جب کانپور میں مدرس تھے، انھوں نے مدرسہ کے جلسہ کے موقع پر اپنے استاذ حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کو بھی مدعو کیا، کانپور میں بعض اہل علم معقولات کی مہارت میں معروف تھے اور کچھ بدعات کی طرف بھی مائل تھے۔ادھر علمائے دیوبند کی زیادہ توجہ چونکہ خالص دینی علوم کی طرف رہتی تھی٭ اس لیے یہ حضرات یوں سمجھتے تھے کہ علمائے دیوبند کو معقولات میں کوئی درک نہیں ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اُس وقت نوجوان تھے اور اُن کے دل میں حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کو مدعو کرنے کا ایک داعیہ یہ بھی تھا کہ یہاں حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی تقریر ہو گی تو کانپور کے ان علماء کو پتہ چلے گا کہ علمائے دیوبند کا علمی مقام کیا ہے؟ اور وہ منقولات و معقولات دونوں میں کیسی کامل دستگاہ رکھتے ہیں ۔ چنانچہ جلسہ منعقد ہوا اور حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کی تقریر شروع ہوئی، حسن اتفاق سے تقریر کے دوران کوئی معقولی مسئلہ زیر بحث آ گیا۔ اس وقت تک وہ علماء جن کو حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کی تقریر سنانا چاہتے تھے، جلسہ میں نہیں آ ئے تھے۔ جب حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی تقریر شباب پر پہنچی اور اُس معقولی مسئلہ کا انتہائی فاضلانہ بیان ہونے لگا تو وہ علماء تشریف لے آئے جن کا حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو انتظار تھا۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اس موقع پر بہت مسرور ہوئے کہ اب ان حضرات کو شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کے علمی مقام کا اندازہ ہو گا۔ لیکن ہوا یہ کہ جونہی حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ نے اُن علماء کو دیکھا۔ تقریر کو مختصر کر کے فوراً ختم کر دیا اور بیٹھ گئے۔ حضرت مولانا فخرالحسن صاحب گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ موجود تھے، انھوں نے یہ دیکھا تو تعجب سے پوچھا کہ:
’’حضرت! اب تو تقریر کا اصل وقت آیا تھا، آپ بیٹھ کیوں گئے؟‘‘
شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا: ’’ہاں ! دراصل یہی خیال مجھے بھی آ گیا تھا۔‘‘٭
(جاری ہے۔۔۔)
٭٭٭


     

کلیم آؤ کوئی غزل گنگناؤ

”سربکف “مجلہ۶(مئی، جون ۲۰۱۶)

 غزل 

پروفیسر کلیم عاجزؔ مرحوم
زمانے کو نیند آ رہی ہے جگاؤ
کلیم آؤ کوئی غزل گنگناؤ
ذرا دل کے زخموں سے پردہ اٹھاؤ
غضب کا اندھیرا ہے شمعیں جلاؤ
وہ بولے کہاں زخمِ دل ہے دکھاؤ
کہو کیا کہیں، کیا بتائیں بتاؤ؟
یہاں سب کرو، دل نہ ہرگز لگاؤ
ہم اس دھوکہ میں آ چکے تم نہ آؤ
وہ کہتے ہیں ہر چوٹ پر مسکراؤ
وفا یاد رکھو، ستم بھول جاؤ
کہاں ہو تم اے فصل گل کی ہواؤ
ادھر سے بھی گزرو، یہاں بھی تو آؤ
ترنم سے ہے گرم فریادِ عاجزؔ
بڑی تیز ہے آنچ دامن بچاؤ
     

صدیق

”سربکف “مجلہ۶(مئی، جون ۲۰۱۶)

علامہ اقبالؒ
اک دن رسول پاک نے اصحاب سے کہا دیں مال راہ حق میں جو ہوں تم میں مالدار
ارشاد سن کے فرطِ طرب سے عمر اٹھے اس روز ان کے پاس تھے درہم کئی ہزار
دل میں یہ کہہ رہے تھے کہ صدیق سے ضرور بڑھ کر رکھے گا آج قدم میرا راہوار
لائے غرض کہ مال رسولِ امیں کے پاس ایثار کی ہے دست نگر ابتدائے کار
پوچھا حضور سرورِ عالم نے، اے عمر! اے وہ کہ جوشِ حق سے ترے دل کو ہے قرار
رکھا ہے کچھ عیال کی خاطر بھی تو نے کیا؟ مسلم ہے اپنے خویش و اقارب کا حق گزار
کی عرض نصف مال ہے فرزند و زن کا حق
باقی جو ہے وہ ملّتِ بیضا پہ ہے نثار
اتنے میں وہ رفیقِ نبوت بھی آگیا جس سے بنائے عشق و محبت ہے استوار
لے آیا اپنے ساتھ وہ مرد وفا سرشت ہر چیز ، جس سے چشم جہاں میں ہو اعتبار
ملک یمین و درہم و دینار و رخت و جنس اسپِ قمر سم و شتر و قاطر و حمار
بولے حضور، چاہیے فکر عیال بھی کہنے لگا وہ عشق و محبت کا راز دار
اے تجھ سے دیدۂ مہ و انجم فروغ گیر! اے تیری ذات باعثِ تکوینِ روزگار!
پروانے کو چراغ ہے، بلبل کو پھول بس
صدیق کے لیے ہے خدا کا رسول بس


     

کیا سبب ہے کہ وہ پہلے کے سے الطاف نہیں

”سربکف “مجلہ۶(مئی، جون ۲۰۱۶)
غزل

فقیر شکیبؔ احمد

جب سے تو عاملِ فرمودۂ اسلاف نہیں
نام انصاف کا باقی ہے پہ انصاف نہیں

ضربِ شمشیر، بجا! نعرۂ تکبیر درست!
سب ہے! بس تجھ میں مجاہد سے وہ اوصاف نہیں

کیا بہانہ ہے مرے قلب کو ٹھکرانے کا
کرچیاں دیکھ کے کہتے ہیں کہ “شفاف نہیں!“

یا خدا! امتِ احمد بھی وہی تو بھی وہی
کیا سبب ہے کہ وہ پہلے کے سے الطاف نہیں

آہ! یہ عشق بھی کیسا ہے ترا جس میں شکیبؔ
عشق کا عین نہیں شین نہیں قاف نہیں

     

ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت کا جائزہ

 ”سربکف “مجلہ۶(مئی، جون ۲۰۱۶)
مولانامفتی نجیب اللہ عمر ﷾

ایک لفظ کو دوسرے لفظ سے بدلنے کی عادت
(ا) عَلَیْھِمْ کو ’’لَھُمْ‘‘ سے بدل دیا:
احمد رضا خان نے قرآن مجید کی آیت اسطرح نقل کی ہے 
’’کلاّ سیکفرون بعباد تھم ویکون ونلھم ضداً‘‘
(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ اول صفحہ ۳۶ نوری کتب خانہ لاہور)
حالانکہ آیت کریمہ کے اصل الفاظ یوں ہیں
’’کلا سیکفرون بعبادتھم ویکونون علیھم ضداً‘‘ (الآیۃ)
(سورۃمریم آیت نمبر ص۸، پ۱۶)
(غلطی) خان صاحب بریلوی نے آیت میں’’عَلَیْھِمْ‘‘ کی جگہ ’’لَھُمْ‘‘ لکھ دیا ہے جو واضح غلطی ہے اور احمد رضا کے سوءِ حافظہ کی گواہی ہے۔
(۲)آیت میں تبدیلی کا ایک اور انداز:
احمد رضا نے آیت کریمہ یوں ذکر کی
’’افنجعل المتقین کالفجار‘‘
(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ دوم صفہ ۱۸۵،نوری کتب خانہ لاہور)
حالانکہ آیت کریمہ کے اصل الفاظ یوں ہیں
’’ام نجعل المتقین کالفجار ‘‘(الآیۃ)
(سورۃص آیت نمبر۲۸)
(غلطی) اس آیت میں احمد رضا خان نے لفظ’’ اَمْ‘‘کو حرف استفہام ’’أَ‘‘ اور حرف عاطفہ’ف‘‘ سے بدل کر اپنی عادت تحریفی کا اظہار کیا ہے۔
(۳)ضمیر جمع کو واحد سے بدل دیا:
احمد رضا خان نے قرآنی آیت اس طرح پڑھی
’’ومن یتولہ منکم فانہ منھم‘‘
(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ دوم صفحہ۱۸۸نوری کتب خانہ لاہور)
حالانکہ آیت شریفہ اصل میں یوں ہے
’’ومن یتولھم منکم فانہ منھم ‘‘(الآیۃ)
(پ۶ المائدہ آیت ۵۱)
(غلطی)اس آیت میں احمد رضا نے ھُم جمع ضمیر کے بجائے ہ ضمیر واحد پڑھ دی جو احمد رضا کے ذوق تحریف کی واضح مثال ہے یا سوءِ حافظہ کی واضح مثال ہے۔
(۴)’’کُنتُمْ‘‘ کو ’’أَنْتُمْ ‘‘سے تبدیل کردیا:
احمد رضا خان بریلوی نے آیت یوں درج کی
’’قل أباﷲ واٰیٰتہ ورسولہ أنتم تستھزء ون‘‘
(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ دوم صفہ۲۰۱نوری کتب خانہ لاہور)
حالانکہ قرآن میں آیت کریمہ اسطرح ہے ۔
’’قل أباﷲ واٰیٰتہ ورسولہ کنتم تستھزء ون‘‘(الایۃ)
(پ۱۰سورۃ التوبہ آیت ۶۵)
ترجمہ احمد رضا :تم فرما دو کیا اﷲ اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ٹھٹھا کرتے ہو ۔بہانے نہ بنائو تم کافر ہو چکے اپنے ایمان کے بعد۔
(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ دوم صفحہ۲۰۱نوری کتب خانہ لاہور)
(غلطی)اس آیت کریمہ میں احمد رضا نے لفظ’’ کُنْتُم‘‘ْ کو’’ أنتم ‘‘سے بدل دیا۔یہ احمد رضا کے عمدہ حافظہ کی گواہی ہے۔

(۵)’’لَمّا‘‘ کو ’’لِماَ‘‘ کردیا:
فاضل بریلوی نے آیت شریفہ یوں لکھی ہے
’’وان کل ذالک لِمَامتاع الحیٰوۃ الدنیا‘‘
(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ چہارم صفحہ۳۳۱نوری کتب خانہ لاہور)
حالانکہ اصل میں آیت کریمہ یوں ہے۔
’’وَإنْ کُلُّ ذَالِکَ لَمّا مَتاع الحیٰوۃ الدُنْیاَ‘‘۔
(پ۲۵ الزخرف آیت ۳۵)
(غلطی)اس آیت مین احمد رضا نے’’ لَماَّ ‘‘(لام مفتوح ومیم مشدد)کو ’’لِمَا‘‘(لام مکسور و میم مخفف )سے بدل دیا جو احمد رضا کے سوء حافظہ اور تحریف کی آئینہ دار ہے۔
(۶) ’’بمخرجین ‘‘کو ’’بخارجین ‘‘سے بدل دیا:
ایک مقام پر احمد رضا خان بریلوی نے آیت اس طرح لکھی ہے
’’وما ھم منھا بِخَارجین‘‘
ترجمہ احمد رضا:اور وہ لوگ جنت سے کبھی نہ نکلیں گے۔
(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ چہارم صفحہ۳۴۹نوری کتب خانہ لاہور)
حالانکہ اصل میں آیت شریفہ یوں ہے۔
’’وما ھم منھا بمخرجین‘‘(الآیۃ)
(پ۱۴سورۃ الحجر آیت ۴۸)
(غلطی)اس آیت میں احمد رضا نے’’ مخرجین‘‘(ثلاثی مزید کے صیغہ اسم مفعول )کو ’’خارجین ‘‘ثلاثی مجرد  ( کے صیغہ اسم فاعل) سے تبدیل کر کے اپنے محّرف ہونے کا ثبوت دیا ہے یا حافظہ کی کمزوری کے وجہ سے ایسا کیا ہے۔
(۷)’’اِنَّا‘‘ کو ’’أَنَا ‘‘سے بدل دیا:
احمد رضا خان بریلوی نے قرآن مجید کی آیات یوں لکھی۔
’’انا بُراء منکم ومما تعبدون من دون اﷲ‘‘
ترجمہ احمد رضا :ہم بیزارہیں تم سے اور اﷲکے سوا تمھارے معبودوں سے ہم تم سے کفر وانکار رکھتے ہیں۔
(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ اول صفحہ ۳۶ نوری کتب خانہ لاہور)
حالانکہ قرآن پاک میں ہے۔
’’اِنَّا بُرئٰ ؤا منکم ومما تعبدون من دون اﷲ‘‘۔(الآیۃ)
(۲۸، الممتحنہ آیت ۴)
(غلطی)یہاں پر احمد رضا خان نے ’’اِنّ‘‘ حروف تحقیق کوچھوڑ ادیاور’’أَنَا‘‘ضمیر واحد متکلم کا اضافہ کردیا اور ترجمہ بھی متکلم کا کیا ہے ’’اِنّ ‘‘کا ترجمہ چھوڑ دیا۔
(۸)’’ ف‘‘ کو’’ اِلَّا‘‘سے بدل دیا:
خان صاحب بریلوی نے قرآن مجید کی آیت اس طرح درج فرمائی ہے۔
’’اِلاّمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْمَصَۃ‘‘
(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ اول صفحہ ۵۲ نوری کتب خانہ لاہور)
جبکہ قرآن مجید میں یہی آیت اسطرح ہے
’’فَمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْمَصَۃِ ‘‘(الآیۃ)
(پ۶،سورۃ المائدہ آیت ۳)
(غلطی)اس آیت میں احمد رضا خان نے ’’الاّ‘‘لکھ کر ’’ف‘‘کو حذف کردیا ۔
(۹)’’ لَعَلَّھُمْ بِلِقَائِ رَبّھِمْ‘‘ کو’’ لِقَوْم ‘‘ سے بدل دیا:
ایک سائل نے رضا خانی مذہب کے پیشوااحمدرضا سے سوال میں آیت اس طرح پڑھی۔
’’ثُمَّ اٰتَیْنَا مُوْسٰی الکتاب تَمَا ماً علٰی الذی احسن وتفصیلاً لکل شیء وّھدیً وّرَحْمَۃ لقوم یُومِنُوْن‘‘
(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ سوئم صفحہ۲۲۸نوری کتب خانہ لاہور اشاعت ۲۰۰۰؁)
دراصل یہ آیت کریمہ اس طرح ہے:
’’ثُمَّ اٰتَیْنَا مُوْسٰی الکتاب تَمَا ماً علٰی الذی احسن وتفصیلاً لکل شیء وّھدیً وّرَحْمَۃ لعلَّھم بلقاء ربھم یومِنُوْن‘‘
(پ ۸ الانعام آیت ۱۵۴) 
لیکن خان صاحب نے سائل کے اس آیت کریمہ کو غلط پڑھنے پر نہ ہی اس کی اصلاح کی ہے اور نہ ہی کوئی نوٹس لیا ہے اور ظاہر ہے اس طرح اسی وقت ہوسکتا ہے جب حافظہ کمزور ہو۔
’’لفظ چھوڑ دینے کا مرض‘‘
(۱۰) لفظ ’’قَد ْ‘‘ چھوڑ دیا:
احمد رضا خان نے قرآن کی آیت اس طرح درج کی ہے۔
’’اٰ لئن وعَصَیْتَ قَبَلْ‘‘
(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ اول صفحہ۳۷ نوری کتب خانہ لاہور)
حالانکہ اصل میں یہ آیت کریمہ یوں ہے۔
”اٰلْئٰن وَقَدْعَصَیْتَ قَبَل‘‘۔(الآیۃ)
(پ ۱۱،سورۃ یونس آیت۱۹)
(غلطی)اس آیت کے نقل میں احمد رضا نے لفظ ’’قَد‘‘ْدیدہ دانستہ یا نادانستہ طور پر چھوڑ دیا جو انکی تحریفی عادت یا سوء حافظہ کی نشانی ہے۔
(۱۱)’’واؤ‘‘ عاطفہ کو ترک کر دیا:
فاضل بریلوی نے قرآن کی آیت یوں لکھی:
’’اَضَلَّہُ اﷲُ عَلٰی عِلْم‘‘
 (ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ اول صفحہ۴۷ نوری کتب خانہ لاہور)
دراصل قرآن کی آیت اس طرح ہے۔
’’وَاَضَلَّہُ اﷲ عَلٰی عِلْم‘‘
(پ ۲۵سورۃالجاثیہ آیت ۲۳)
(غلطی)اس آیت میں احمد رضا بریلوی نے دانستہ یا نادانستہ طور پر قرآن کی آیت میں سے حرف ’’واؤ ‘‘ نکال دیا جو انکی پرانی عادت کی مظہر ہے۔٭
(۱۲)’’ ھٰذٰ‘‘ اور لفظ ’’رَبکُمْ‘‘ غائب کردیا:
  خان صاحب بریلوی نے قرآن کی آیت شریفہ اسطرح لکھی ہے ۔
’’بلٰی اِنْ تصبروا وتتقوا ویاتوکم من فورھم یمددکم بخمسۃ ۔۔۔۔۔‘‘
(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ اول صفحہ۹۵ نوری کتب خانہ لاہور)
جبکہ قرآن پاک میں یہی آیت ان الفاظ کے ساتھ ہے ۔
’’بلٰی اِنْ تصبروا وتتقوا ویاتوکم من فورھم ھذا یمددکم ربکم بخمسۃ اٰلاف من الملائکۃ مُسَوِّمِین‘‘(الآیۃ)
(پ۴،سورۃ اٰل عمران ۱۲۵)
(غلطی)آیت میں احمد رضا نے لفظ ’’ھٰذٰا‘‘اور لفظ ’’رَبکُم‘‘چھوڑ دیا ہے جس سے انکی تحریفی عادت یا کُند ذہنی ظاہر ہورہی ہے۔
(۱۳) ’’لِیَبْلُغُ فَاہ ‘‘ کو حذف کردیا:
بریلوی رضا خانی مذہب کے پیشواء نے آیت اسطرح ذکر کی ہے۔
’’کباسط کفیہ الٰی الماء وماھوببالغہ‘‘
(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ سوئم صفحہ۲۴۲ نوری کتب خانہ لاہور)
قرآن مجید میں آیت شریفہ کے الفاظ یہ ہیں ۔
’’کباسط کفیہ الٰی الماء لیبلغ فاہ وماھوببالغہ‘
(پ ۱۳سورۃ الرعد آیت ۱۴)
(غلطی)اس آیت میں احمد رضا بانی مذہب رضا خانیت نے آیت کریمہ کے پورے جملے کو بالکل اڑا دیا جو انکے قوت حافظہ یا ذوق تحریف کی مانند آفتاب گواہی ہے۔
’’لفظ زیادہ کرنے کی خصلت‘‘
(۱۴) ’’واؤ‘‘زیادہ کر دیا:
بریلوی حضرات کے بڑے حضرت نے آیت کریمہ بایں الفاظ نقل کی ہے۔
’’وما کان اﷲ لیذر المومنین‘‘
(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ اول صفحہ۴۵ نوری کتب خانہ لاہور)
حالانکہ اصل میں آیت کے الفاظ اسطرح ہیں۔
’’ما کان اﷲ لیذر المؤمنین‘‘(الآیۃ)
(پ۴ سورۃال عمران آیت ۱۷۹)
(غلطی)اس آیت میں خان صاحب بریلوی نے اپنی پرانی عادت کی وجہ سے قرآن میں لفظ ’’واؤ‘‘زیادہ کردیا۔
’’ترتیب بدلنے کی عادت‘‘
(۱۵)آیت کریمہ کی ترتیب بدل دی:
رضا خانی جماعت کے اعلٰی حضرت نے آیت مبارکہ اس طرح بیان کی ہے ۔
’’وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُواْ وَالّذِیْنَ اُوْتُوْ الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِکُم أذَیً کَثِیراً‘‘
(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ دوم صفحہ۱۶۰ نوری کتب خانہ لاہور اشاعت ۲۰۰۰؁)
اور ترجمہ بھی اسی محرف ترتیب کے مطابق نقل کیا ہے۔
ترجمہ احمد رضا: البتہ تم مشرکوں اور اگلے کتابیوں سے بہت کچھ برا سنو گے۔
(ملفوظات ص ۱۶۰ حصہ دوئم)
 جبکہ اصل آیت کریمہ کی ترتیب اس طرح ہے۔
’’وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوْ الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُم وََ مِنَ الَّذِیْنَ أَشْرَکُوْاأَذیً کَثِیراً‘‘
 (پ۴سورۃاٰل عمران آیت ۱۸۶)
(غلطیاں)اس آیت میں احمد رضا خان نے ’’الذین اوتو الکتاب من قبلکم ‘‘کو ’’وَمِنَ الذین اشرکوا‘‘ سے پہلے بیان کردیا اور’’واؤ‘‘ جو کہ ’’مِنَ الذین ‘‘سے پہلے تھا اسے ’’الذین اوتوالکتاب‘‘سے پہلے ذکر کر دیا۔
اور یہ سب تبدیلی کے ساتھ آیت کے ترجمہ میں بھی غلط ترتیب والا ترجمہ کیا(جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا ہے)
اور آیت کے شروع والے ’’واؤ ‘‘کا ترجمہ چھوڑدیا یہ سب احمد رضا کے قوت حافظہ کا کرشمہ ہے یا پھر ذوق تحریف کی کارستانی ہے۔
ا س آیت کا ترجمہ احمد رضا نے اپنے ترجمہ قرآن میں اس طرح کیا ہے ۔
ترجمہ احمد رضا :اور بے شک ضرور تم اگلے کتاب والوں اور مشرکوں سے بہت کچھ بُرا سنو گے۔
(کنزالایمان مع نورالعرفان(تحت ہذہ الآیۃ) پیر بھائی کمپنی لاہور)
’’احادیث کے نقل کرنے میں غلطیاں‘‘
(۱)حدیث میں کمی بیشی کی پہلی مثال :
احمد رضا خان حدیث نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں 
حدیث میں ہے۔
’’انانخاف لو متَّ علیٰ ذالک علیٰ غیر الفطرۃ ای غیر دین محمدﷺ‘‘
{ترجمہ احمد رضا} :ہم اندیشہ کرتے ہیں کہ تو اسی مال پر مرا تو دین محمد ﷺ پر نہ مرے گا۔
(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ اول صفحہ۱۶نوری کتب خانہ لاہور۔اشاعت۲۰۰۰؁)
(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ اول صفحہ۱۵ ۔حامد اینڈ کمپنی لاہور)
اصلی الفاظ یوں ہیں۔
’’عن سلیمان قال سمعتُ زید بن وھب قال راٰی حذیفۃُ رجلاً لَمْ یتمِّ الرکوع والسجود وقال ماصلیت ولو مُتَّ، مُتَّ علیٰ غیر الفطرۃ التی فَطَرَ اﷲمحمداًﷺ‘‘
(صحیح البخاری ص ۱۰۹ جلد اول الجز ۳ کتاب الاذان ۔باب اذالم یتم الرکوع ۔قدیمی کتب خانہ)
(صحیح البخاری۔کتاب الاذان باب اذالم یتم الرکوع ۔الحدیث ۷۹۱ج۱ ص۲۷۸)
(دار الکتب العلمیہ بیروت)
حدیث کے نقل میں غلطیاں:
(۱) اس حدیث کے الفاظ میں احمد رضا خان نے ’’اناّ نخاف‘‘کے الفاظ کا اضافہ کردیا اور اس اضافے کو کاتب یا ناشر کی غلطی بھی نہیں کہا جاسکتا ۔اسلئے کہ اس لفظ کا ترجمہ بھی احمد رضا نے کردیا کہ ’’ھم اندیشہ کرتے ہیں‘‘
(۲)اور اس حدیث میں’’ متُ‘‘کا لفظ دو دفعہ مذکور تھا لیکن احمد رضا نے ایک دفعہ ذکر کیا۔
(۳) اور اصل حدیث میں ’’ذالک‘‘کے الفاظ نہیں ہیں لیکن خان صاحب نے اس کا بھی اضافہ کردیا۔
ّ(۴) اور ’’التی فطراﷲمحمدﷺ‘‘کو احمد رضا نے ’’ای غیر دین محمدﷺ‘‘سے تبدیل کردیا۔
۲)تا خیر فجر والی حدیث کے نقل میں درجن بھر غلطیاں:
احمد رضا خان لکھتے ہیں 
اور حدیث میں ہے جیسے امام ترمذی ؒوغیرہ نے دس صحابہ ؓ سے روایت کیا کہ صحابہ کرامؓ فرماتے ہیں کہ ایک روز ہم صبح کو نماز فجر کیلئے مسجد نبوی میں حاضر ہوئے۔اور حضور ﷺ کی تشریف آوری میں دیر ہوئی’’ حتیٰ کدناان نترای الشمس ‘‘ یعنی قریب تھا کہ آفتاب طلوع کرآئے کہ اتنے میں حضورﷺتشریف فرماہوئے اور نماز پڑھائی پھر صحابہؓ سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ تم جانتے ہو۔کیوں دیر ہوئی سب نے عرض کی ’’اﷲورسولہ اعلم ‘‘اﷲورسول خوب جانتے ہیں ۔
ارشاد فرمایا:’’اتانی ربی فی احسن صورۃ ‘‘۔میرا رب (عزوجل)سب سے اچھی تجلّی میں میرے پاس تشریف لایا یعنی میں ایک دوسری نماز میں مشغول تھا ،اس نماز میں عبد درگاہ معبود میں حاضر ہوتا ہے اور وہاں خود ہی معبود کی عبد پر تجلّی ہوئی ’’قال یامحمد فیما یختصم الملاء الاعلیٰ ‘‘اس نے فرمایا اے محمدﷺ یہ فرشتے کس بات میں مخاصمہ اور مباھات کر تے ہیں، ’’ففلتُ لاادری ‘‘میں نے عرض کی کہ میں بے تیرے بتائے کیا جانوں ’’فوضع کفہ بین کتفی فوجدت برداناملہ بین ثدیی فتجلَّی لی کل شئی وعرفت‘‘ تو رب العزت نے اپنا دست قدرت میرے دونوں شانوں کے درمیان رکھا اور اسکی ٹھنڈک میں نے اپنے سینے میں پائی اور میرے سامنے ہر چیز روشن ہوگئی اور میں نے پہچان لی۔
صرف اسی پر اکتفانہ فرمایا کہ کسی وہابی کویہ کہنے کی گنجائش نہ رہے کہ کل شئے سے مراد ہر شئی متعلق بشرائع ہے بلکہ ایک روایت میں فرمایا ’’مافی السمٰوات والارض ‘‘میں نے جان لیا جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے۔الخ
(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ اول صفحہ۲۹۔۳۰نوری کتب خانہ لاہور۔اشاعت۲۰۰۰؁)
اصل الفاظ اس طرح ہیں :
یہ حدیث ترمذی صفحہ۲۶۹اورصفحہ ۶۳۰ جلد ثانی ،ابواب التفسیرمیں ہے۔ 
(۱) احمد رضا خان نے صحابہؓ کی طرف یہ بات بھی منسوب کی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ’’ایک روز ہم صبح کونماز فجر کیلئے مسجد نبوی میں حاضر ہوئے۔‘‘
ترمذی کی اس روایت میں یہ الفاظ کسی ایک صحابیؓ سے بھی مروی نہیں ہیں ۔یہ خان صاحب کا اضافہ ہیں۔
(۲) اور بانئ رضا خانیت نے صحابی ؓ کے اگلے الفاظ یوں نقل کئے ہیں ۔
’’حتٰی کدنا ان نترای الشمس‘‘ 
جبکہ اصل الفاظ یوں ہیں۔
’’حتٰی کدنا نترای عین الشمس‘‘
(ترمذی ۶۳۰ جلد ثانی ،ابواب التفسیر ،تفسیر سورۃص)
(۳) احمد رضا خان نے اِن الفاظ میں ’’اَنْ ‘‘کو اپنی طرف سے حدیث میں داخل کردیا ۔اور لفظ ’’عین ‘‘کو حدیث میں سے نکال دیا۔
(۴) اور بابائے بریلویت نے اس جگہ نبیﷺ کی طرف اس بات کو بھی منسوب کیا ہے کہ:
’’تم جانتے ہو کیوں دیر ہوئی‘‘
یہ الفاظ ترمذی کی روایت میں بالکل بھی نہیں ہیں بلکہ اس جگہ میں یہ ارشاد ہے:
’’فقال لنا علیٰ مصافکم کما انتم ثم انفتل الینا فقال اما انی سا حد ثکم ما حبسنی عنکم الغداۃ‘‘
(ترمذی صفحہ۶۳۰ جلد ثانی)
(۵) اور خان صاحب کا صحابہؓ کرام کی طرف اس قول کا منسوب کرنا بھی حدیث میں زیادتی ہے کہ ’’سب نے عرض کی اﷲ و رسولہ اعلم ‘‘ اﷲ و رسول خوب جانتے ہیں ۔
اس لیے کہ یہ الفاظ بھی ترمذی کی اس روایت میں بالکل ناپید ہیں اور یہ الفاظ بھی احمد رضا خان کی ضعف حافظہ اور ذوق تحریف کے آئینہ دار ہیں۔
(۶)اور امام ترمذیؒ کی اس تفصیلی روایت میں احمد رضا نے یہ الفاظ نقل کیے ہیں۔
’’اتانی ربی فی احسن صورۃٍ‘‘
جبکہ اس روایت میں یہ الفاظ اس طرح ہیں :
’’فاذا انا بربّی تبارک وتعالیٰ فی احسن صورۃٍ‘‘ (ترمذی ۶۳۰ جلد دوم مکتبہ رحمانیہ لاہور)
(۷) اسکے علاوہ رضا خانی پیشوا کا نبی ﷺ کی طرف اس بات کا منسوب کرنا بھی ٹھیک نہیں ہے کہ:
’’میں ایک دوسری نماز میں مشغول تھا اِس نماز میں عبد درگاہ معبود میں حاضر ہوتا ہے اور وھاں خود ہی معبود کی عبد پر تجلی ہوئی‘‘
(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ اول صفحہ29نوری کتب خانہ لاہور۔اشاعت۲۰۰۰؁)
اس لئے کہ حدیث میں یہ الفاظ سرے سے موجود ہی نہیں ہیں ۔
(۸) اور احمد رضا نے حدیث کے اگلے الفاظ کچھ یوں نقل کئے ہیں: 
’’فقال یا محمد فیما یختصم الملاء الاعلیٰ ‘‘
جبکہ اصل الفاظ اس طرح ہیں۔ 
’’فقال یا محمد قلت رب لبیک قال فیم یختصم الملاء الاعلیٰ ‘‘
اس مقام پر احمد رضا نے ’’قلت رب لبیک ‘‘کے الفاظ بالکل غائب کردیئے۔
(۹ ) احمد رضا کے نقل کردہ حدیث کے جملہ ’’فقلت لا ادری‘‘ میں ’’ف‘‘کااضافہ ہے۔یہ اصل حدیث میں موجود نہیں ہے۔
(۱۰) اور’’ فرأیتہ وضع کفہ بین کتفی ‘‘ کو احمد رضا نے ’’فوضع کفہ بین کتفی ‘‘سے بدل دیا۔
(۱۱ ) اصل حدیث میں ’’قدوجدتُ برداناملہ‘‘ہے جیسے احمد رضا نے ’’فوجدت ‘‘بنا دیا اور’’قَدُ‘‘کو بالکل غائب کر کے اسکی جگہ ’’فا‘‘کا اضافہ کردیا۔
(۱۲) اور احمد رضا نے دوسری روایت کے جملے ’’فعلمتُ ما فی السمٰوت ومافی الارض‘‘کو ’’ما فی السمٰوات والارض ‘‘سے بدل دیا۔
۳)نقل ِحدیث میں غلطی کی ایک اور مثال :
عرض:-اگر کوئی تنہا خشوع کیلئے نماز پڑھے اور عادت ڈالے تاکہ سب کے سامنے بھی خشوع ہو تو یہ ریا ہے یا کیا ۔۔؟
ارشاد:-یہ بھی ریا ہے کہ دل میں نیت غیر خدا ہے ۔یہاں ایک حدیث وہابی کُش بیان کرتا ہوں کہ اس مسئلہ سے متعلق ہے ،عادتِ کریمہ تھی کہ کبھی شب میں اپنے اصحاب کا تفقّد اِحوال فرماتے ۔مثلاً ایک شب نماز تہجد میں صدیق اکبر پر گزر فرمایا ۔صدیق اکبر ؓ کو دیکھا کہ بہت آہستہ پڑھ رہے ہیں ،فاروق اعظم ؓ کی طرف تشریف لے گئے ملا حظہ فرمایا کہ بہت بلند آواز سے پڑھتے ہیں۔
بلال ؓ کی طرف تشریف لے گئے ۔انھیں دیکھا کہ جابجا متفرق آیتیں پڑھ رہے ہیں صبح ہر ایک سے اسکے طریقے کا سبب دریافت فرمایا ۔صدیقؓ ؓنے عرض کی’’ یا رسول اﷲ اسمعت من اناجیہ‘‘۔میں جس سے مناجات کرتا ہوں ،اسے سنا لیتا ہوں یعنی اوروں سے کیا کام کہ آواز بلند کروں ۔فاروق نے عرض کی:
’’ یارسول اﷲاطردالشیطان واوقظ الوسنان‘‘میں شیطان کو بھگاتاہوںاورسوتوں کوجگاتاہوں یعنی جہاں تک آوازپہنچے گی بھاگے گا۔اور تہجد والوں میں جس کی آنکھ نہ کھلی ہو وہ جاگ کر پڑھے گا ۔اس لئے اس قدر زور سے پڑھتا ہوں حضرت بلال نے عرض کی:’’ یارسول اﷲ کلام طیب یجمع اﷲ بعضہ مع بعض ‘‘ پاکیزہ کلام ہے کہ اﷲ اس کے بعض کو بعض سے ملاتا ہے۔(کچھ آگے لکھا ہے)
حضور اقدس ﷺ نے فرمایا ’’کلکم قداَصَاب‘‘تم سب ٹھیک پر ہو مگر اے صدیق تم آواز قدرے بلند کرو ۔ اور اے فاروق تم قدرے پست اور اے بلال تم سورت ختم کرکے دوسری سورت کی طرف چلو۔
(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ دوم صفحہ۱۵۴نوری کتب خانہ لاہور)
یہ روایت ابوداؤد ۱۹۶،۱۹۷کتاب الصلوٰۃ باب فی رفع الصوت بالقراۃ حدیث نمبر ۱۳۲۹،۱۳۳۰ مکتبہ رحمانیہ لاہور میں ہے۔
(۱)احمد رضا نے حضرت ابوبکر ؓ کا قول ان لفظوں میں نقل کیا ہے: 
’’یارسول اﷲ ﷺ اسمعت من اناجیہ‘‘
جبکہ اصل حدیث میں الفاظ یوں ہیں :
’’قداسمعتُ من ناجیتُ یارسول اﷲ‘‘
(ابوداؤد ۱۹۶،۱۹۷ کتاب الصلوٰۃ باب فی رفع الصوت بالقراۃ حدیث نمبر۱۳۲۹،۱۳۳۰ مکتبہ رحمانیہ لاہور)
(۲) اور احمد رضا نے حضرت فاروق اعظم ؓ کے الفاظ اس طرح ذکر کئے ہیں :
’’یارسول اﷲ اطرد الشیطان واوقظ الوسنان‘‘
حالانکہ اصل میں حدیث کے الفاظ ا س طرح ہیں :
’’یارسول اﷲ ﷺ اوقظ الوسنان واطرُدُالشیطان‘‘
(۳) اور احمد رضا نے حضرت بلال ؓ کا فرمان یوں ذکر کیا ہے:
’’یا رسول اﷲکلام طیب یجمع اﷲ بعضہ مع بعض ‘‘
اور حقیقت میں حضرت بلال ؓ کے الفاظ کچھ یوں ہیں۔
’’کلام طیب یجمعہ اﷲ بعضہ الیٰ بعضِ‘‘
(ابوداؤدصفحہ ۱۹۶،۱۹۷ کتاب الصلوٰۃ باب فی رفع الصوت بالقراۃ حدیث نمبر۱۳۲۹،۱۳۳۰ مکتبہ رحمانیہ لاہور)
(۴) اور اس حدیث ابوداؤ میں احمد رضا کا رسول اﷲ ﷺ کی طرف منسوب کردہ یہ جملہ: ’’اے بلال تم سورت ختم کر کے دوسری سورت کی طرف چلو‘‘بالکل مذکور نہیں ہے۔یہ احمد رضا کی طرف سے حدیث میں زیادتی ہے۔
(۴) حدیث میں اپنی طرف سے ’’تمامی‘‘کے لفظ کا اضافہ :
احمد رضا خان نے لکھا ہے کہ:کعب بن مالکؓ عرض کرتے ہیں ۔
’’یا رسول اﷲ اِنَّ مِن تَماَ مِیْ تَوْ بَتِی اَنْ انخلع من مالی صدقۃ الیٰ اﷲ ورسولہ ‘‘
{ترجمہ}:’’یارسول اﷲ میری توبہ کی تمامی یہ ہے کہ اپنے مال سے باھر آؤں سب اﷲ ورسول کے نام پر تصدق کردوں۔‘‘
(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ دوم صفحہ۱۵۵نوری کتب خانہ لاہور)
اس حدیث کے الفاظ اصل میں اسطرح ہیں :
’’وقال کعب بن مالک قلت یارسول اﷲﷺ ان من توبتی ان اَنْخلع من مالی صدقۃ الیٰ اﷲ والیٰ رسولہ۔۔۔‘‘ الخ
(صحیح البخاری جلد اول ۱۹۲کتاب الزکاۃ ۔باب لاصدقۃ الاعن ظھر غنی )
(غلطیاں )
(۱) اصل حدیث میں ’’تمامی‘‘کا لفظ نہیں ہے جبکہ احمد رضا نے ذکر کیا ہے اور اسکا ترجمہ بھی کیا ہے۔
(۲) اور اصل حدیث میں ’’الیٰ رسولہ ‘‘کا لفظ ہے حالانکہ احمد رضا نے ’’الیٰ ‘‘کو اُڑا دیا ہے۔
اس غلطی کو کاتب کی جانب بھی منسوب نہیں کیا جاسکتا اسلئے کہ ترجمہ میں بھی اس غلطی کو دھرایا گیا ہے۔
(۵)الفاظ حدیث بدلنے اور غائب کرنے کی عادت:
احمد رضا خان ایک روایت یوں نقل کرتے ہیں: 
ام المؤمنین صدیقہ ؓ عرض کرتی ہیں: ’’یارسول اﷲ تُبْتُ الیٰ اﷲ و رسولہ‘‘
{ترجمہ احمد رضا}:’’یارسول اﷲ میں اﷲ و رسول کی طرف توبہ کرتی ہوں‘‘
(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ دوم صفحہ۱۵۵نوری کتب خانہ لاہور)
اصل الفاظ:
حضرت ام المؤمنین ؓ کے اصل الفاظ اس طرح ہیں:
’’عن عائشہ زوج النبیﷺ ۔۔۔۔۔۔۔فقلتُ اتوبُ الیٰ اﷲ والیٰ رسولہ‘‘
(صحیح البخاری کتاب النکاح باب ھل یرجع صفحہ ۷۷۸ ج ۲ قدیمی کتب خانہ
بخاری صفحہ۴۰۶ ج ۳ حدیث نمبر۵۱۸۱ دار الکتب العلمیہ بیروت)
نقلِ حدیث میں غلطیاں:
اس حدیث کے نقل کرنے میں احمد رضا خان نے دو غلطیاں کی ہیں: 
(۱) ایک یہ کہ ’’اْتُوْبُ‘‘فعل مضارع کے صیغہ واحد متکلم کو ’’تُبْتُ‘‘فعل ماضی کے صیغہ واحد متکلم سے تبدیل کردیا۔
(۲) دوسرا یہ کہ اس میں لفظ’’ الیٰ ‘‘ دو دفعہ مذکور تھا اور رضا خان نے اسے ایک دفعہ نقل کیا اور دوسری جگہ سے غائب کردیا۔
(۶)المدینۃ خیر کو المدینہ افضل سے بدل دیا :
خان صاحب بریلوی ایک حدیث کے الفاظ اس طرح لکھتے ہیں:
دوسری حدیث نصّ صریح ہے کہ فرمایا:
’’المدینہ افضل من مکّۃ‘‘ 
{ترجمہ احمد رضا} :مدینہ مکہ سے افضل ہے۔
(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ دوم صفحہ۱۵۸نوری کتب خانہ لاہور)
حدیث کے اصل الفاظ:
جبکہ اس حدیث کے اصل الفاظ یوں ہیں
’’المدینۃ خیر من مکّہ‘‘ ترجمہ:مدینہ مکہ سے بہتر ہے۔
(المعجم الکبیر حرف المیم حدیث نمبر۴۴۵ ج ۴ ، ص۲۸۸ داراحیاء التراث العربی )
نقل حدیث میں غلطیاں:
(۱) نقل حدیث میں احمد رضا نے حدیث میں لفظ ’’خیر ‘‘کو ’’افضل‘‘سے بدل دیا۔
(۲) اور ترجمہ بھی ’’افضل ‘‘کا کیا ہے اسلئے اس غلطی کو کاتب کی طرف منسوب نہیں کیا جاسکتا۔
(۷) تیر اندازی اور تیرنا سیکھنے والی حدیث کی ترتیب بدل دیتے تھے:
احمد رضا نے ایک حدیث کچھ اس طرح لکھتے ہیں:
حدیث میں ارشاد ہوا :
’’علّمُوا بنینکم الرَّمٰی والسباحۃ‘‘
{ترجمہ احمد رضا}:اپنے بیٹوں کو تیر اندازی اور تیرنا سکھاؤ۔
(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ دوم صفحہ۱۶۱نوری کتب خانہ لاہور)
حدیث کے اصل الفاظ:
جبکہ یہ روایت کشف الخفاء (للعلامۃ اسماعیل بن محمد العجلونی الشافعی المتوفی ۱۱۶۳؁ہجری )میں اس طرح ہے:
’’علّموا بنینکم السباحۃ والرَّمٰی ‘‘
ترجمہ:اپنے بیٹوں کو تیرنا اور تیراندازی سکھاؤ۔
(کشف الخفاء صفحہ۶۳ج ۲ حدیث نمبر۱۸۶۰ مکتبہ دارالکتب العلمیہ بیروت)
غلطیوں کی نشاندہی:
(۱) اس حدیث میں خان صاحب نے ’’الَّرمٰی ‘‘کو ’’السباحۃ‘‘پر مقدم کردیا جبکہ اصل الفا ظ اسطرح ہیں جیسے ہم نے نقل کئے ہیں ۔
(۲) اور خان صاحب نے ترجمہ بھی پہلے ’’الرَّمٰی ‘‘کا کیا ہے جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ یہ کاتب یا ناشر کی غلطی نہیں بلکہ خود احمد رضا کا قصور ہے۔
(۸)’’غیرہ ‘‘کے بجائے ’’معہ ‘‘نقل کردیا:
بانئی مسلک بریلویت حدیث کے الفاظ یوں لکھتے ہیں:
  اور حدیث میں ہے:’’کان اﷲ ولم یکن معہ شئی‘‘
{ترجمہ احمد رضا} :ازل میں اﷲ تھا اور اس کے ساتھ کچھ نہ تھا۔
(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ دوم صفحہ۱۶۳نوری کتب خانہ لاہور)
حدیث کے اصل الفاظ:
  دراصل اس روایت کے اصل الفاظ اس طرح ہیں:
’’کان اﷲ ولم یکن شئی غیرہ‘‘
ترجمہ:اﷲ تعالیٰ ازل سے تھا اور اسکے علاوہ کچھ نہ تھا۔
(صحیح البخاری ۴۵۳ ج اول کتاب بدء الخلق ۔باب فی قول اﷲ الخ قدیمی کتب خانہ)
نقل روایت کی غلطیاں:
اس روایت کے نقل کرنے میں بھی احمد رضا نے غلطی کی ہے ۔
(۱)اصل حدیث کے لفظ ’’غیرہ ‘‘کو’’ معہ ‘‘سے بدل کر ترجمہ بھی ’’معہ ‘‘کا کردیا ۔
(۲)اور ’’شئی ‘‘کو بالکل آخر میں نقل کیا جبکہ یہ آخر میں نہیں بلکہ آخر سے پہلے مذکور تھا۔
(۳)اور احمد رضا کی طرف سے کئے گئے ترجمہ سے بھی یہ غلطی اور واضح ہوتی ہے کہ یہ کاتب اور ناشر کی نہیں بلکہ خود احمد رضا کی اپنی ہے ۔اور یہ احمد رضا کے حافظے کا کمال ہے۔
(جاری ہے)
٭٭٭


     

ایک چیلنج

”سربکف “مجلہ۶(مئی، جون ۲۰۱۶)
عبد الرشید قاسمی سدھارتھ نگری ﷾

مشہور اہل حدیث عالم اور مصنف مولانا محمد ابو الحسن سیالکوٹی مرحوم اپنی کتاب "الظفر المبین فی رد مغالطات المقلدین" کے صفحہ 40 پر مغالطہ نمبر 3 کے تحت قیاس کی حرمت اور عدم مشروعیت کا فتوی دینے کے بعد صفحہ 43 پر مغالطہ نمبر 4 کے جواب میں لکھتے ہیں کہ:
”اگر کوئی شخص غور سے از راہ تحقیق قرآن اور حدیث کی طرف نظر کرے اور دیکھے تو ہر ایک مسئلہ قرآن اور حدیث سے معلوم ہوسکتا ہے ـ کسی مسئلہ کے لئے بھی کسی کو مسائل فقہیہ کی حاجت (ضرورت) نہیں رہے گی۔ “
(الظفرالمبین حصہ اول)
یہاں ہمیں اس سے بحث نہیں ہے کہ قیاس حجت اور دلیل ہے یا نہیں؟
اگر حجت ہے تو اس کے دلائل کیا ہیں؟
اور اگر حجت نہیں ہے تو اکثر علماء غیر مقلدین کیوں اپنی کتابوں میں قیاس کو چوتھی دلیل اور حجت تسلیم کرتے ہیں؟
نہ اس سے بحث ہے کہ جو علماء غیر مقلدین قیاس کو اپنی کتب میں حجت مانتے ہیں، ان کی بات صحیح ہے یا آپ کی؟
نہ یہ وضاحت کرنی ہے کہ اکثر علماء غیر مقلدین قیاس کو بوجہ مجبوری حجت مانتے ہیں، یا لوگوں کو فریب میں مبتلاء کرنے کے لئے؟
اور...
 نہ آپ سے یہ پوچھنا ہے کہ جب قرآن و حدیث کی طرف از راہ تحقیق دیکھ لینے سے مسائل فقہیہ کی حاجت نہیں رہتی تو بقول آپ کے محدث گوندلوی (رحمہ اللہ)، شیخ الکل فی الکل میاں نذیر حسین محدث دہلوی کے فتاوی کا اکثر حصہ کیوں فقہ حنفی سے ماخوذ ہے؟
کیا شیخ الکل فی الکل کی نظر از راہ تحقیق قرآن و حدیث کی طرف نہیں تھی؟
اگر تھی تو فقہ حنفی کا سہارا لینے کی کیا ضرورت تھی؟ اور اگر نہیں تھی تو
پھر..... 
صرف یہ عرض کرنا ہے کہ جب بقول شما فقہی مسائل میں قیاس حجت اور دلیل نہیں، بلکہ حرام ہے، اور سارے پیش آمدہ مسائل قرآن و حدیث میں از راہ تحقیق نظر کرنے سے مل جائیں گے، تو زیادہ نہیں، ایک بھینس اور اس کے دودھ کی حلت ہی قرآن کریم کی کسی آیت یا کسی ایسی حدیث سے ثابت کر دیں جس میں قیاس کا قطعاً دخل نہ ہو ـ 
ہے کوئی مردِ مجاہد!!!
٭٭٭

     

کیا فقہ حنفی میں متعہ جائز ہے؟ ـــ غیر مقلدین کا دھوکہـــ

”سربکف “مجلہ۶(مئی، جون ۲۰۱۶)
محسن اقبال ﷾

غیر مقلدین کا فقہ حنفی پہ ایک اعتراض یہ ہے کہ فقہ حنفی میں معین مدت تک نکاح یعنی کہ متعہ جائز ہے لیکن غیر مقلدین ہمیشہ کی طرح یہاں بھی دھوکہ دیتے ہیں۔ اصل مسئلہ طلاق کی نیت سے نکاح کرنے کا ہے جس میں فقہا کا اختلاف ہے اور اسی بات کو فتاوی عالمگیری میں ذکر کیا گیا ہے جس کو غیر مقلد دھوکہ سے متعہ بنا کر پیش کر رہے ہیں۔
سب سے پہلی بات کہ یہ فتوی ان غیر مقلدین نے شیعہ سے چوری کیا ہے۔
شیعہ یہ الزام اہلسنت پہ لگاتے ہیں کہ اہلسنت کے نزدیک متعہ جائز ہے جس کو غیر مقلدین احناف اور فقہ حنفی کے بغض اور حسد میں آگے پھیلا رہے ہیں۔
غیر مقلدین کی اطلاع کے لئے سعودیہ کے مشہور محدث علامہ ابن بازؒ کے نزدیک بھی طلاق کی نیت سے نکاح کرنا جائز ہے اور یہ متعہ نہیں کہلاتا۔
علامہ ابن بازؒ کا یہ فتوی ان کی کتاب مقالات و فتاوی ابن باز،ج4 صفحہ 30 اور مسائل امام ابن باز، ج1 صفحہ 185 پر واضح طور پہ دیکھا جا سکتا ہے۔
علامہ ابن بازؒ کے علاوہ کئی اکابرین کے نزدیک طلاق کی نیت سے نکاح جائز ہے۔
امام نووی الشافعی کہتے ہیں:
وبه قال القاضي أبو بكر الباقلاني قال القاضي وأجمعوا على أن من نكح نكاحا مطلقا ونيته أن لا يمكث معها الا مدة نواها فنكاحه صحيح حلال وليس نكاح متعة وإنما نكاح المتعة ما وقع بالشرط المذكور
اور یہ وہ ہے جو قاضی ابو بکر الباقلانی نے کہا ہے۔ قاضی کہتے ہیں:'اس بات پر اجماع" ہے کہ جو بھی مطلق نکاح(نکاح دائمی) کرتا ہے لیکن نیت یہ ہوتی ہے کہ عورت کے ساتھ صرف کچھ مدت کے لیے ہی رہے گا، تو بلاشبہ ایسا نکاح صحیح اور حلال ہے اور یہ نکاح المتعہ (کی طرح حرام) نہیں ہے کیونکہ نکاح المتعہ میں پہلے سے ہی یہ شرط مذکور ہوتی ہے (کہ ایک مدت کے بعد خود بخود طلاق ہو جائے گی)۔اور امام مالک ؒکے نزدیک یہ اخلاق میں سے نہیں ہے اور امام اوزاعیؒ کے نزدیک یہ متعہ ہی ہے۔
( کتاب المنہاج شرح مسلم، جلد 9 صفحہ 182)
امام اہلسنت ابن قدامہ الحنبلی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:
إن تزوجها بغير شرط، إلا أن في نيته طلاقها بعد شهر، أو إذا انقضت حاجته في هذا البلد، فالنكاح صحيح في قول عامة أهل العلم إلا الأوزاعي، قال: هو نكاح متعة. والصحيح أنه لا بأس به
اگر وہ عورت سے (مدت) کی کوئی شرط کیے بغیر نکاح کرتا ہے لیکن دل میں نیت ہے کہ اُسے ایک ماہ کے بعد طلاق دے دے گا یا پھر اُس علاقے یا ملک میں اپنی ضرورت پوری ہونے کے بعد طلاق دے دے گا (اور پھر آگے روانہ ہو جائے گا) تو پھر اہل علم کے مطابق بلاشبہ ایسا نکاح بالکل صحیح ہے ، سوائے الاوزاعی کے جنہوں نے اسے عقد المتعہ ہی جانا ہے لیکن صحیح یہی رائے ہے(جو اہل علم کی ہے) کہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔
( المغنی، جلد 7، صفحہ 573)
سعودی ِعرب کے سابق مفتی ِاعظم شیخ ابن باز فرماتے ہیں:
] شیخ ابن باز صاحب سے سوال]: آپ نے ایک فتوی جاری کیا ہے کہ اس بات کی اجازت ہے کہ ویسٹرن [مغربی] ممالک میں اس نیت سے شادی کر لی جائے کہ کچھ عرصے کے بعد عورت کو طلاق دے دی جائے۔۔۔۔۔ تو پھر آپکے اس فتوے اور عقد متعہ میں کیا فرق ہوا؟
]شیخ ابن باز کا جواب]: جی ہاں، یہ فتوی سعودیہ کی مفتی حضرات کی مستقل کونسل کی جانب سے جاری ہوا ہے اور میں اس کونسل کا سربراہ ہوں اور یہ ہمارا مشترکہ فتوی ہے کہ اس بات کی اجازت ہے کہ شادی کی جائے اور دل میں نیت ہو کہ کچھ عرصے کے بعد طلاق دینی ہے [ہمارا تبصرہ: یعنی لڑکی کو دھوکے میں رکھنا جائز ہے اور اسے بتانے کی ضرورت نہیں کہ دل میں نیت تو کچھ عرصے بعد طلاق کی کر رکھی ہے]۔ اور یہ (طلاق کی نیت) معاملہ ہے اللہ اور اسکے بندے کے درمیان۔
اگر کوئی شخص (سٹوڈنٹ) مغربی ملک میں اس نیت سے شادی کرتا ہے کہ اپنی تعلیم مکمل ہونے کے بعد یا نوکری ملنے کے بعد لڑکی کو طلاق دے دے گا تو اس میں تمام علماء کی رائے کے مطابق ہرگز کوئی حرج نہیں ہے۔ نیت کا یہ معاملہ اللہ اور اسکے بندے کے درمیان ہے اور یہ نیت نکاح کی شرائط میں سے نہیں ہے۔
عقد متعہ اور مسیار میں فرق یہ ہے کہ عقد متعہ میں باقاعدہ ایک مقررہ وقت کے بعد طلاق کی شرط موجود ہے جیسے مہینے ، دو مہینے یا سال یا دو سال وغیرہ۔ عقد متعہ میں جب یہ مدت ختم ہو جاتی ہے تو خود بخود طلاق ہو جاتی ہے اور نکاح منسوخ ہو جاتا ہے، چنانچہ یہ شرط عقد متعہ کو حرام بناتی ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص اللہ اور اسکے رسول ﷺ کی سنت کے مطابق نکاح کرتا ہے، چاہے وہ دل میں طلاق کی نیت ہی کیوں نہ رکھتا ہو کہ جب وہ مغربی ملک کو تعلیم کے بعد چھوڑے گا تو لڑکی کو طلاق دے دے گا، تو اس چیز میں کوئی مضائقہ نہیں، اور یہ ایک طریقہ ہے جس سے انسان اپنے آپ کو برائیوں سے محفوظ رکھ سکتا ہے اور زناکاری سے بچ سکتا ہے، اور یہ اہل علم کی رائے ہے۔ 
(مقالات و فتاوی ابن باز،ج4 صفحہ 30 اور مسائل امام ابن باز، ج1 صفحہ 185، فتاوی اسلامیہ، جلد 3 صفحہ 264)
غیر مقلدین کے مکتبہ دار السلام سے غیر مقلدین کی تصدیق شدہ کتاب ''کتاب النکاح'' میں بھی سید سابقؒ کے حوالے سے طلاق کی نیت سے نکاح کو صحیح مانا گیا ہے۔
اس کتاب کو عمران ایوب لاہوری نے لکھا ہے اور اس میں علامہ البانیؒ کی تحقیق سے استفادہ کیا گیا ہے اور غیر مقلدین کے مکتبہ دارالسلام نے اس کتاب کو چھاپا ہے۔
کیا غیر مقلدین علامہ ابن بازؒ، علامہ البانیؒ اور عمران ایوب لاہوری پہ یہ فتوی لگائیں گے کہ ان علماء کے نزدیک بھی احناف کی طرح متعہ جائز ہے؟
یہ تھی غیرمقلدین کے جاہلانہ الزام کی حقیقت اور اب غیر مقلدین سے گزارش ہے کہ اگر وہ قرآن و حدیث کے ماننے والے ہیں تو احناف کے ساتھ ساتھ ان اکابرین پہ بھی متعہ کے جائز کہنے کا فتوی لگائیں ۔
شکریہ
غلامِ خاتم النبیینﷺ
محسن اقبال
٭٭٭
ایک چیلنج
عبد الرشید قاسمی سدھارتھ نگری ﷾
مشہور اہل حدیث عالم اور مصنف مولانا محمد ابو الحسن سیالکوٹی مرحوم اپنی کتاب "الظفر المبین فی رد مغالطات المقلدین" کے صفحہ 40 پر مغالطہ نمبر 3 کے تحت قیاس کی حرمت اور عدم مشروعیت کا فتوی دینے کے بعد صفحہ 43 پر مغالطہ نمبر 4 کے جواب میں لکھتے ہیں کہ:
”اگر کوئی شخص غور سے از راہ تحقیق قرآن اور حدیث کی طرف نظر کرے اور دیکھے تو ہر ایک مسئلہ قرآن اور حدیث سے معلوم ہوسکتا ہے ـ کسی مسئلہ کے لئے بھی کسی کو مسائل فقہیہ کی حاجت (ضرورت) نہیں رہے گی۔ “
(الظفرالمبین حصہ اول)
یہاں ہمیں اس سے بحث نہیں ہے کہ قیاس حجت اور دلیل ہے یا نہیں؟
اگر حجت ہے تو اس کے دلائل کیا ہیں؟
اور اگر حجت نہیں ہے تو اکثر علماء غیر مقلدین کیوں اپنی کتابوں میں قیاس کو چوتھی دلیل اور حجت تسلیم کرتے ہیں؟
نہ اس سے بحث ہے کہ جو علماء غیر مقلدین قیاس کو اپنی کتب میں حجت مانتے ہیں، ان کی بات صحیح ہے یا آپ کی؟
نہ یہ وضاحت کرنی ہے کہ اکثر علماء غیر مقلدین قیاس کو بوجہ مجبوری حجت مانتے ہیں، یا لوگوں کو فریب میں مبتلاء کرنے کے لئے؟
اور...
 نہ آپ سے یہ پوچھنا ہے کہ جب قرآن و حدیث کی طرف از راہ تحقیق دیکھ لینے سے مسائل فقہیہ کی حاجت نہیں رہتی تو بقول آپ کے محدث گوندلوی (رحمہ اللہ)، شیخ الکل فی الکل میاں نذیر حسین محدث دہلوی کے فتاوی کا اکثر حصہ کیوں فقہ حنفی سے ماخوذ ہے؟
کیا شیخ الکل فی الکل کی نظر از راہ تحقیق قرآن و حدیث کی طرف نہیں تھی؟
اگر تھی تو فقہ حنفی کا سہارا لینے کی کیا ضرورت تھی؟ اور اگر نہیں تھی تو
پھر..... 
صرف یہ عرض کرنا ہے کہ جب بقول شما فقہی مسائل میں قیاس حجت اور دلیل نہیں، بلکہ حرام ہے، اور سارے پیش آمدہ مسائل قرآن و حدیث میں از راہ تحقیق نظر کرنے سے مل جائیں گے، تو زیادہ نہیں، ایک بھینس اور اس کے دودھ کی حلت ہی قرآن کریم کی کسی آیت یا کسی ایسی حدیث سے ثابت کر دیں جس میں قیاس کا قطعاً دخل نہ ہو ـ 
ہے کوئی مردِ مجاہد!!!
٭٭٭