”سربکف “مجلہ۶(مئی، جون ۲۰۱۶)
مولانامفتی نجیب اللہ عمر ﷾
ایک لفظ کو دوسرے لفظ سے بدلنے کی عادت
(ا) عَلَیْھِمْ کو ’’لَھُمْ‘‘ سے بدل دیا:
احمد رضا خان نے قرآن مجید کی آیت اسطرح نقل کی ہے
’’کلاّ سیکفرون بعباد تھم ویکون ونلھم ضداً‘‘
(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ اول صفحہ ۳۶ نوری کتب خانہ لاہور)
حالانکہ آیت کریمہ کے اصل الفاظ یوں ہیں
’’کلا سیکفرون بعبادتھم ویکونون علیھم ضداً‘‘ (الآیۃ)
(سورۃمریم آیت نمبر ص۸، پ۱۶)
(غلطی) خان صاحب بریلوی نے آیت میں’’عَلَیْھِمْ‘‘ کی جگہ ’’لَھُمْ‘‘ لکھ دیا ہے جو واضح غلطی ہے اور احمد رضا کے سوءِ حافظہ کی گواہی ہے۔
(۲)آیت میں تبدیلی کا ایک اور انداز:
احمد رضا نے آیت کریمہ یوں ذکر کی
’’افنجعل المتقین کالفجار‘‘
(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ دوم صفہ ۱۸۵،نوری کتب خانہ لاہور)
حالانکہ آیت کریمہ کے اصل الفاظ یوں ہیں
’’ام نجعل المتقین کالفجار ‘‘(الآیۃ)
(سورۃص آیت نمبر۲۸)
(غلطی) اس آیت میں احمد رضا خان نے لفظ’’ اَمْ‘‘کو حرف استفہام ’’أَ‘‘ اور حرف عاطفہ’ف‘‘ سے بدل کر اپنی عادت تحریفی کا اظہار کیا ہے۔
(۳)ضمیر جمع کو واحد سے بدل دیا:
احمد رضا خان نے قرآنی آیت اس طرح پڑھی
’’ومن یتولہ منکم فانہ منھم‘‘
(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ دوم صفحہ۱۸۸نوری کتب خانہ لاہور)
حالانکہ آیت شریفہ اصل میں یوں ہے
’’ومن یتولھم منکم فانہ منھم ‘‘(الآیۃ)
(پ۶ المائدہ آیت ۵۱)
(غلطی)اس آیت میں احمد رضا نے ھُم جمع ضمیر کے بجائے ہ ضمیر واحد پڑھ دی جو احمد رضا کے ذوق تحریف کی واضح مثال ہے یا سوءِ حافظہ کی واضح مثال ہے۔
(۴)’’کُنتُمْ‘‘ کو ’’أَنْتُمْ ‘‘سے تبدیل کردیا:
احمد رضا خان بریلوی نے آیت یوں درج کی
’’قل أباﷲ واٰیٰتہ ورسولہ أنتم تستھزء ون‘‘
(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ دوم صفہ۲۰۱نوری کتب خانہ لاہور)
حالانکہ قرآن میں آیت کریمہ اسطرح ہے ۔
’’قل أباﷲ واٰیٰتہ ورسولہ کنتم تستھزء ون‘‘(الایۃ)
(پ۱۰سورۃ التوبہ آیت ۶۵)
ترجمہ احمد رضا :تم فرما دو کیا اﷲ اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ٹھٹھا کرتے ہو ۔بہانے نہ بنائو تم کافر ہو چکے اپنے ایمان کے بعد۔
(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ دوم صفحہ۲۰۱نوری کتب خانہ لاہور)
(غلطی)اس آیت کریمہ میں احمد رضا نے لفظ’’ کُنْتُم‘‘ْ کو’’ أنتم ‘‘سے بدل دیا۔یہ احمد رضا کے عمدہ حافظہ کی گواہی ہے۔
(۵)’’لَمّا‘‘ کو ’’لِماَ‘‘ کردیا:
فاضل بریلوی نے آیت شریفہ یوں لکھی ہے
’’وان کل ذالک لِمَامتاع الحیٰوۃ الدنیا‘‘
(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ چہارم صفحہ۳۳۱نوری کتب خانہ لاہور)
حالانکہ اصل میں آیت کریمہ یوں ہے۔
’’وَإنْ کُلُّ ذَالِکَ لَمّا مَتاع الحیٰوۃ الدُنْیاَ‘‘۔
(پ۲۵ الزخرف آیت ۳۵)
(غلطی)اس آیت مین احمد رضا نے’’ لَماَّ ‘‘(لام مفتوح ومیم مشدد)کو ’’لِمَا‘‘(لام مکسور و میم مخفف )سے بدل دیا جو احمد رضا کے سوء حافظہ اور تحریف کی آئینہ دار ہے۔
(۶) ’’بمخرجین ‘‘کو ’’بخارجین ‘‘سے بدل دیا:
ایک مقام پر احمد رضا خان بریلوی نے آیت اس طرح لکھی ہے
’’وما ھم منھا بِخَارجین‘‘
ترجمہ احمد رضا:اور وہ لوگ جنت سے کبھی نہ نکلیں گے۔
(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ چہارم صفحہ۳۴۹نوری کتب خانہ لاہور)
حالانکہ اصل میں آیت شریفہ یوں ہے۔
’’وما ھم منھا بمخرجین‘‘(الآیۃ)
(پ۱۴سورۃ الحجر آیت ۴۸)
(غلطی)اس آیت میں احمد رضا نے’’ مخرجین‘‘(ثلاثی مزید کے صیغہ اسم مفعول )کو ’’خارجین ‘‘ثلاثی مجرد ( کے صیغہ اسم فاعل) سے تبدیل کر کے اپنے محّرف ہونے کا ثبوت دیا ہے یا حافظہ کی کمزوری کے وجہ سے ایسا کیا ہے۔
(۷)’’اِنَّا‘‘ کو ’’أَنَا ‘‘سے بدل دیا:
احمد رضا خان بریلوی نے قرآن مجید کی آیات یوں لکھی۔
’’انا بُراء منکم ومما تعبدون من دون اﷲ‘‘
ترجمہ احمد رضا :ہم بیزارہیں تم سے اور اﷲکے سوا تمھارے معبودوں سے ہم تم سے کفر وانکار رکھتے ہیں۔
(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ اول صفحہ ۳۶ نوری کتب خانہ لاہور)
حالانکہ قرآن پاک میں ہے۔
’’اِنَّا بُرئٰ ؤا منکم ومما تعبدون من دون اﷲ‘‘۔(الآیۃ)
(۲۸، الممتحنہ آیت ۴)
(غلطی)یہاں پر احمد رضا خان نے ’’اِنّ‘‘ حروف تحقیق کوچھوڑ ادیاور’’أَنَا‘‘ضمیر واحد متکلم کا اضافہ کردیا اور ترجمہ بھی متکلم کا کیا ہے ’’اِنّ ‘‘کا ترجمہ چھوڑ دیا۔
(۸)’’ ف‘‘ کو’’ اِلَّا‘‘سے بدل دیا:
خان صاحب بریلوی نے قرآن مجید کی آیت اس طرح درج فرمائی ہے۔
’’اِلاّمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْمَصَۃ‘‘
(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ اول صفحہ ۵۲ نوری کتب خانہ لاہور)
جبکہ قرآن مجید میں یہی آیت اسطرح ہے
’’فَمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْمَصَۃِ ‘‘(الآیۃ)
(پ۶،سورۃ المائدہ آیت ۳)
(غلطی)اس آیت میں احمد رضا خان نے ’’الاّ‘‘لکھ کر ’’ف‘‘کو حذف کردیا ۔
(۹)’’ لَعَلَّھُمْ بِلِقَائِ رَبّھِمْ‘‘ کو’’ لِقَوْم ‘‘ سے بدل دیا:
ایک سائل نے رضا خانی مذہب کے پیشوااحمدرضا سے سوال میں آیت اس طرح پڑھی۔
’’ثُمَّ اٰتَیْنَا مُوْسٰی الکتاب تَمَا ماً علٰی الذی احسن وتفصیلاً لکل شیء وّھدیً وّرَحْمَۃ لقوم یُومِنُوْن‘‘
(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ سوئم صفحہ۲۲۸نوری کتب خانہ لاہور اشاعت ۲۰۰۰)
دراصل یہ آیت کریمہ اس طرح ہے:
’’ثُمَّ اٰتَیْنَا مُوْسٰی الکتاب تَمَا ماً علٰی الذی احسن وتفصیلاً لکل شیء وّھدیً وّرَحْمَۃ لعلَّھم بلقاء ربھم یومِنُوْن‘‘
(پ ۸ الانعام آیت ۱۵۴)
لیکن خان صاحب نے سائل کے اس آیت کریمہ کو غلط پڑھنے پر نہ ہی اس کی اصلاح کی ہے اور نہ ہی کوئی نوٹس لیا ہے اور ظاہر ہے اس طرح اسی وقت ہوسکتا ہے جب حافظہ کمزور ہو۔
’’لفظ چھوڑ دینے کا مرض‘‘
(۱۰) لفظ ’’قَد ْ‘‘ چھوڑ دیا:
احمد رضا خان نے قرآن کی آیت اس طرح درج کی ہے۔
’’اٰ لئن وعَصَیْتَ قَبَلْ‘‘
(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ اول صفحہ۳۷ نوری کتب خانہ لاہور)
حالانکہ اصل میں یہ آیت کریمہ یوں ہے۔
”اٰلْئٰن وَقَدْعَصَیْتَ قَبَل‘‘۔(الآیۃ)
(پ ۱۱،سورۃ یونس آیت۱۹)
(غلطی)اس آیت کے نقل میں احمد رضا نے لفظ ’’قَد‘‘ْدیدہ دانستہ یا نادانستہ طور پر چھوڑ دیا جو انکی تحریفی عادت یا سوء حافظہ کی نشانی ہے۔
(۱۱)’’واؤ‘‘ عاطفہ کو ترک کر دیا:
فاضل بریلوی نے قرآن کی آیت یوں لکھی:
’’اَضَلَّہُ اﷲُ عَلٰی عِلْم‘‘
(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ اول صفحہ۴۷ نوری کتب خانہ لاہور)
دراصل قرآن کی آیت اس طرح ہے۔
’’وَاَضَلَّہُ اﷲ عَلٰی عِلْم‘‘
(پ ۲۵سورۃالجاثیہ آیت ۲۳)
(غلطی)اس آیت میں احمد رضا بریلوی نے دانستہ یا نادانستہ طور پر قرآن کی آیت میں سے حرف ’’واؤ ‘‘ نکال دیا جو انکی پرانی عادت کی مظہر ہے۔٭
(۱۲)’’ ھٰذٰ‘‘ اور لفظ ’’رَبکُمْ‘‘ غائب کردیا:
خان صاحب بریلوی نے قرآن کی آیت شریفہ اسطرح لکھی ہے ۔
’’بلٰی اِنْ تصبروا وتتقوا ویاتوکم من فورھم یمددکم بخمسۃ ۔۔۔۔۔‘‘
(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ اول صفحہ۹۵ نوری کتب خانہ لاہور)
جبکہ قرآن پاک میں یہی آیت ان الفاظ کے ساتھ ہے ۔
’’بلٰی اِنْ تصبروا وتتقوا ویاتوکم من فورھم ھذا یمددکم ربکم بخمسۃ اٰلاف من الملائکۃ مُسَوِّمِین‘‘(الآیۃ)
(پ۴،سورۃ اٰل عمران ۱۲۵)
(غلطی)آیت میں احمد رضا نے لفظ ’’ھٰذٰا‘‘اور لفظ ’’رَبکُم‘‘چھوڑ دیا ہے جس سے انکی تحریفی عادت یا کُند ذہنی ظاہر ہورہی ہے۔
(۱۳) ’’لِیَبْلُغُ فَاہ ‘‘ کو حذف کردیا:
بریلوی رضا خانی مذہب کے پیشواء نے آیت اسطرح ذکر کی ہے۔
’’کباسط کفیہ الٰی الماء وماھوببالغہ‘‘
(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ سوئم صفحہ۲۴۲ نوری کتب خانہ لاہور)
قرآن مجید میں آیت شریفہ کے الفاظ یہ ہیں ۔
’’کباسط کفیہ الٰی الماء لیبلغ فاہ وماھوببالغہ‘ ‘
(پ ۱۳سورۃ الرعد آیت ۱۴)
(غلطی)اس آیت میں احمد رضا بانی مذہب رضا خانیت نے آیت کریمہ کے پورے جملے کو بالکل اڑا دیا جو انکے قوت حافظہ یا ذوق تحریف کی مانند آفتاب گواہی ہے۔
’’لفظ زیادہ کرنے کی خصلت‘‘
(۱۴) ’’واؤ‘‘زیادہ کر دیا:
بریلوی حضرات کے بڑے حضرت نے آیت کریمہ بایں الفاظ نقل کی ہے۔
’’وما کان اﷲ لیذر المومنین‘‘
(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ اول صفحہ۴۵ نوری کتب خانہ لاہور)
حالانکہ اصل میں آیت کے الفاظ اسطرح ہیں۔
’’ما کان اﷲ لیذر المؤمنین‘‘(الآیۃ)
(پ۴ سورۃال عمران آیت ۱۷۹)
(غلطی)اس آیت میں خان صاحب بریلوی نے اپنی پرانی عادت کی وجہ سے قرآن میں لفظ ’’واؤ‘‘زیادہ کردیا۔
’’ترتیب بدلنے کی عادت‘‘
(۱۵)آیت کریمہ کی ترتیب بدل دی:
رضا خانی جماعت کے اعلٰی حضرت نے آیت مبارکہ اس طرح بیان کی ہے ۔
’’وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُواْ وَالّذِیْنَ اُوْتُوْ الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِکُم أذَیً کَثِیراً‘‘
(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ دوم صفحہ۱۶۰ نوری کتب خانہ لاہور اشاعت ۲۰۰۰)
اور ترجمہ بھی اسی محرف ترتیب کے مطابق نقل کیا ہے۔
ترجمہ احمد رضا: البتہ تم مشرکوں اور اگلے کتابیوں سے بہت کچھ برا سنو گے۔
(ملفوظات ص ۱۶۰ حصہ دوئم)
جبکہ اصل آیت کریمہ کی ترتیب اس طرح ہے۔
’’وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوْ الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُم وََ مِنَ الَّذِیْنَ أَشْرَکُوْاأَذیً کَثِیراً‘‘
(پ۴سورۃاٰل عمران آیت ۱۸۶)
(غلطیاں)اس آیت میں احمد رضا خان نے ’’الذین اوتو الکتاب من قبلکم ‘‘کو ’’وَمِنَ الذین اشرکوا‘‘ سے پہلے بیان کردیا اور’’واؤ‘‘ جو کہ ’’مِنَ الذین ‘‘سے پہلے تھا اسے ’’الذین اوتوالکتاب‘‘سے پہلے ذکر کر دیا۔
اور یہ سب تبدیلی کے ساتھ آیت کے ترجمہ میں بھی غلط ترتیب والا ترجمہ کیا(جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا ہے)
اور آیت کے شروع والے ’’واؤ ‘‘کا ترجمہ چھوڑدیا یہ سب احمد رضا کے قوت حافظہ کا کرشمہ ہے یا پھر ذوق تحریف کی کارستانی ہے۔
ا س آیت کا ترجمہ احمد رضا نے اپنے ترجمہ قرآن میں اس طرح کیا ہے ۔
ترجمہ احمد رضا :اور بے شک ضرور تم اگلے کتاب والوں اور مشرکوں سے بہت کچھ بُرا سنو گے۔
(کنزالایمان مع نورالعرفان(تحت ہذہ الآیۃ) پیر بھائی کمپنی لاہور)
’’احادیث کے نقل کرنے میں غلطیاں‘‘
(۱)حدیث میں کمی بیشی کی پہلی مثال :
احمد رضا خان حدیث نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں
حدیث میں ہے۔
’’انانخاف لو متَّ علیٰ ذالک علیٰ غیر الفطرۃ ای غیر دین محمدﷺ‘‘
{ترجمہ احمد رضا} :ہم اندیشہ کرتے ہیں کہ تو اسی مال پر مرا تو دین محمد ﷺ پر نہ مرے گا۔
(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ اول صفحہ۱۶نوری کتب خانہ لاہور۔اشاعت۲۰۰۰)
(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ اول صفحہ۱۵ ۔حامد اینڈ کمپنی لاہور)
اصلی الفاظ یوں ہیں۔
’’عن سلیمان قال سمعتُ زید بن وھب قال راٰی حذیفۃُ رجلاً لَمْ یتمِّ الرکوع والسجود وقال ماصلیت ولو مُتَّ، مُتَّ علیٰ غیر الفطرۃ التی فَطَرَ اﷲمحمداًﷺ‘‘
(صحیح البخاری ص ۱۰۹ جلد اول الجز ۳ کتاب الاذان ۔باب اذالم یتم الرکوع ۔قدیمی کتب خانہ)
(صحیح البخاری۔کتاب الاذان باب اذالم یتم الرکوع ۔الحدیث ۷۹۱ج۱ ص۲۷۸)
(دار الکتب العلمیہ بیروت)
حدیث کے نقل میں غلطیاں:
(۱) اس حدیث کے الفاظ میں احمد رضا خان نے ’’اناّ نخاف‘‘کے الفاظ کا اضافہ کردیا اور اس اضافے کو کاتب یا ناشر کی غلطی بھی نہیں کہا جاسکتا ۔اسلئے کہ اس لفظ کا ترجمہ بھی احمد رضا نے کردیا کہ ’’ھم اندیشہ کرتے ہیں‘‘
(۲)اور اس حدیث میں’’ متُ‘‘کا لفظ دو دفعہ مذکور تھا لیکن احمد رضا نے ایک دفعہ ذکر کیا۔
(۳) اور اصل حدیث میں ’’ذالک‘‘کے الفاظ نہیں ہیں لیکن خان صاحب نے اس کا بھی اضافہ کردیا۔
ّ(۴) اور ’’التی فطراﷲمحمدﷺ‘‘کو احمد رضا نے ’’ای غیر دین محمدﷺ‘‘سے تبدیل کردیا۔
۲)تا خیر فجر والی حدیث کے نقل میں درجن بھر غلطیاں:
احمد رضا خان لکھتے ہیں
اور حدیث میں ہے جیسے امام ترمذی ؒوغیرہ نے دس صحابہ ؓ سے روایت کیا کہ صحابہ کرامؓ فرماتے ہیں کہ ایک روز ہم صبح کو نماز فجر کیلئے مسجد نبوی میں حاضر ہوئے۔اور حضور ﷺ کی تشریف آوری میں دیر ہوئی’’ حتیٰ کدناان نترای الشمس ‘‘ یعنی قریب تھا کہ آفتاب طلوع کرآئے کہ اتنے میں حضورﷺتشریف فرماہوئے اور نماز پڑھائی پھر صحابہؓ سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ تم جانتے ہو۔کیوں دیر ہوئی سب نے عرض کی ’’اﷲورسولہ اعلم ‘‘اﷲورسول خوب جانتے ہیں ۔
ارشاد فرمایا:’’اتانی ربی فی احسن صورۃ ‘‘۔میرا رب (عزوجل)سب سے اچھی تجلّی میں میرے پاس تشریف لایا یعنی میں ایک دوسری نماز میں مشغول تھا ،اس نماز میں عبد درگاہ معبود میں حاضر ہوتا ہے اور وہاں خود ہی معبود کی عبد پر تجلّی ہوئی ’’قال یامحمد فیما یختصم الملاء الاعلیٰ ‘‘اس نے فرمایا اے محمدﷺ یہ فرشتے کس بات میں مخاصمہ اور مباھات کر تے ہیں، ’’ففلتُ لاادری ‘‘میں نے عرض کی کہ میں بے تیرے بتائے کیا جانوں ’’فوضع کفہ بین کتفی فوجدت برداناملہ بین ثدیی فتجلَّی لی کل شئی وعرفت‘‘ تو رب العزت نے اپنا دست قدرت میرے دونوں شانوں کے درمیان رکھا اور اسکی ٹھنڈک میں نے اپنے سینے میں پائی اور میرے سامنے ہر چیز روشن ہوگئی اور میں نے پہچان لی۔
صرف اسی پر اکتفانہ فرمایا کہ کسی وہابی کویہ کہنے کی گنجائش نہ رہے کہ کل شئے سے مراد ہر شئی متعلق بشرائع ہے بلکہ ایک روایت میں فرمایا ’’مافی السمٰوات والارض ‘‘میں نے جان لیا جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے۔الخ
(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ اول صفحہ۲۹۔۳۰نوری کتب خانہ لاہور۔اشاعت۲۰۰۰)
اصل الفاظ اس طرح ہیں :
یہ حدیث ترمذی صفحہ۲۶۹اورصفحہ ۶۳۰ جلد ثانی ،ابواب التفسیرمیں ہے۔
(۱) احمد رضا خان نے صحابہؓ کی طرف یہ بات بھی منسوب کی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ’’ایک روز ہم صبح کونماز فجر کیلئے مسجد نبوی میں حاضر ہوئے۔‘‘
ترمذی کی اس روایت میں یہ الفاظ کسی ایک صحابیؓ سے بھی مروی نہیں ہیں ۔یہ خان صاحب کا اضافہ ہیں۔
(۲) اور بانئ رضا خانیت نے صحابی ؓ کے اگلے الفاظ یوں نقل کئے ہیں ۔
’’حتٰی کدنا ان نترای الشمس‘‘
جبکہ اصل الفاظ یوں ہیں۔
’’حتٰی کدنا نترای عین الشمس‘‘
(ترمذی ۶۳۰ جلد ثانی ،ابواب التفسیر ،تفسیر سورۃص)
(۳) احمد رضا خان نے اِن الفاظ میں ’’اَنْ ‘‘کو اپنی طرف سے حدیث میں داخل کردیا ۔اور لفظ ’’عین ‘‘کو حدیث میں سے نکال دیا۔
(۴) اور بابائے بریلویت نے اس جگہ نبیﷺ کی طرف اس بات کو بھی منسوب کیا ہے کہ:
’’تم جانتے ہو کیوں دیر ہوئی‘‘
یہ الفاظ ترمذی کی روایت میں بالکل بھی نہیں ہیں بلکہ اس جگہ میں یہ ارشاد ہے:
’’فقال لنا علیٰ مصافکم کما انتم ثم انفتل الینا فقال اما انی سا حد ثکم ما حبسنی عنکم الغداۃ‘‘
(ترمذی صفحہ۶۳۰ جلد ثانی)
(۵) اور خان صاحب کا صحابہؓ کرام کی طرف اس قول کا منسوب کرنا بھی حدیث میں زیادتی ہے کہ ’’سب نے عرض کی اﷲ و رسولہ اعلم ‘‘ اﷲ و رسول خوب جانتے ہیں ۔
اس لیے کہ یہ الفاظ بھی ترمذی کی اس روایت میں بالکل ناپید ہیں اور یہ الفاظ بھی احمد رضا خان کی ضعف حافظہ اور ذوق تحریف کے آئینہ دار ہیں۔
(۶)اور امام ترمذیؒ کی اس تفصیلی روایت میں احمد رضا نے یہ الفاظ نقل کیے ہیں۔
’’اتانی ربی فی احسن صورۃٍ‘‘
جبکہ اس روایت میں یہ الفاظ اس طرح ہیں :
’’فاذا انا بربّی تبارک وتعالیٰ فی احسن صورۃٍ‘‘ (ترمذی ۶۳۰ جلد دوم مکتبہ رحمانیہ لاہور)
(۷) اسکے علاوہ رضا خانی پیشوا کا نبی ﷺ کی طرف اس بات کا منسوب کرنا بھی ٹھیک نہیں ہے کہ:
’’میں ایک دوسری نماز میں مشغول تھا اِس نماز میں عبد درگاہ معبود میں حاضر ہوتا ہے اور وھاں خود ہی معبود کی عبد پر تجلی ہوئی‘‘
(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ اول صفحہ29نوری کتب خانہ لاہور۔اشاعت۲۰۰۰)
اس لئے کہ حدیث میں یہ الفاظ سرے سے موجود ہی نہیں ہیں ۔
(۸) اور احمد رضا نے حدیث کے اگلے الفاظ کچھ یوں نقل کئے ہیں:
’’فقال یا محمد فیما یختصم الملاء الاعلیٰ ‘‘
جبکہ اصل الفاظ اس طرح ہیں۔
’’فقال یا محمد قلت رب لبیک قال فیم یختصم الملاء الاعلیٰ ‘‘
اس مقام پر احمد رضا نے ’’قلت رب لبیک ‘‘کے الفاظ بالکل غائب کردیئے۔
(۹ ) احمد رضا کے نقل کردہ حدیث کے جملہ ’’فقلت لا ادری‘‘ میں ’’ف‘‘کااضافہ ہے۔یہ اصل حدیث میں موجود نہیں ہے۔
(۱۰) اور’’ فرأیتہ وضع کفہ بین کتفی ‘‘ کو احمد رضا نے ’’فوضع کفہ بین کتفی ‘‘سے بدل دیا۔
(۱۱ ) اصل حدیث میں ’’قدوجدتُ برداناملہ‘‘ہے جیسے احمد رضا نے ’’فوجدت ‘‘بنا دیا اور’’قَدُ‘‘کو بالکل غائب کر کے اسکی جگہ ’’فا‘‘کا اضافہ کردیا۔
(۱۲) اور احمد رضا نے دوسری روایت کے جملے ’’فعلمتُ ما فی السمٰوت ومافی الارض‘‘کو ’’ما فی السمٰوات والارض ‘‘سے بدل دیا۔
۳)نقل ِحدیث میں غلطی کی ایک اور مثال :
عرض:-اگر کوئی تنہا خشوع کیلئے نماز پڑھے اور عادت ڈالے تاکہ سب کے سامنے بھی خشوع ہو تو یہ ریا ہے یا کیا ۔۔؟
ارشاد:-یہ بھی ریا ہے کہ دل میں نیت غیر خدا ہے ۔یہاں ایک حدیث وہابی کُش بیان کرتا ہوں کہ اس مسئلہ سے متعلق ہے ،عادتِ کریمہ تھی کہ کبھی شب میں اپنے اصحاب کا تفقّد اِحوال فرماتے ۔مثلاً ایک شب نماز تہجد میں صدیق اکبر پر گزر فرمایا ۔صدیق اکبر ؓ کو دیکھا کہ بہت آہستہ پڑھ رہے ہیں ،فاروق اعظم ؓ کی طرف تشریف لے گئے ملا حظہ فرمایا کہ بہت بلند آواز سے پڑھتے ہیں۔
بلال ؓ کی طرف تشریف لے گئے ۔انھیں دیکھا کہ جابجا متفرق آیتیں پڑھ رہے ہیں صبح ہر ایک سے اسکے طریقے کا سبب دریافت فرمایا ۔صدیقؓ ؓنے عرض کی’’ یا رسول اﷲ اسمعت من اناجیہ‘‘۔میں جس سے مناجات کرتا ہوں ،اسے سنا لیتا ہوں یعنی اوروں سے کیا کام کہ آواز بلند کروں ۔فاروق نے عرض کی:
’’ یارسول اﷲاطردالشیطان واوقظ الوسنان‘‘میں شیطان کو بھگاتاہوںاورسوتوں کوجگاتاہوں یعنی جہاں تک آوازپہنچے گی بھاگے گا۔اور تہجد والوں میں جس کی آنکھ نہ کھلی ہو وہ جاگ کر پڑھے گا ۔اس لئے اس قدر زور سے پڑھتا ہوں حضرت بلال نے عرض کی:’’ یارسول اﷲ کلام طیب یجمع اﷲ بعضہ مع بعض ‘‘ پاکیزہ کلام ہے کہ اﷲ اس کے بعض کو بعض سے ملاتا ہے۔(کچھ آگے لکھا ہے)
حضور اقدس ﷺ نے فرمایا ’’کلکم قداَصَاب‘‘تم سب ٹھیک پر ہو مگر اے صدیق تم آواز قدرے بلند کرو ۔ اور اے فاروق تم قدرے پست اور اے بلال تم سورت ختم کرکے دوسری سورت کی طرف چلو۔
(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ دوم صفحہ۱۵۴نوری کتب خانہ لاہور)
یہ روایت ابوداؤد ۱۹۶،۱۹۷کتاب الصلوٰۃ باب فی رفع الصوت بالقراۃ حدیث نمبر ۱۳۲۹،۱۳۳۰ مکتبہ رحمانیہ لاہور میں ہے۔
(۱)احمد رضا نے حضرت ابوبکر ؓ کا قول ان لفظوں میں نقل کیا ہے:
’’یارسول اﷲ ﷺ اسمعت من اناجیہ‘‘
جبکہ اصل حدیث میں الفاظ یوں ہیں :
’’قداسمعتُ من ناجیتُ یارسول اﷲ‘‘
(ابوداؤد ۱۹۶،۱۹۷ کتاب الصلوٰۃ باب فی رفع الصوت بالقراۃ حدیث نمبر۱۳۲۹،۱۳۳۰ مکتبہ رحمانیہ لاہور)
(۲) اور احمد رضا نے حضرت فاروق اعظم ؓ کے الفاظ اس طرح ذکر کئے ہیں :
’’یارسول اﷲ اطرد الشیطان واوقظ الوسنان‘‘
حالانکہ اصل میں حدیث کے الفاظ ا س طرح ہیں :
’’یارسول اﷲ ﷺ اوقظ الوسنان واطرُدُالشیطان‘‘
(۳) اور احمد رضا نے حضرت بلال ؓ کا فرمان یوں ذکر کیا ہے:
’’یا رسول اﷲکلام طیب یجمع اﷲ بعضہ مع بعض ‘‘
اور حقیقت میں حضرت بلال ؓ کے الفاظ کچھ یوں ہیں۔
’’کلام طیب یجمعہ اﷲ بعضہ الیٰ بعضِ‘‘
(ابوداؤدصفحہ ۱۹۶،۱۹۷ کتاب الصلوٰۃ باب فی رفع الصوت بالقراۃ حدیث نمبر۱۳۲۹،۱۳۳۰ مکتبہ رحمانیہ لاہور)
(۴) اور اس حدیث ابوداؤ میں احمد رضا کا رسول اﷲ ﷺ کی طرف منسوب کردہ یہ جملہ: ’’اے بلال تم سورت ختم کر کے دوسری سورت کی طرف چلو‘‘بالکل مذکور نہیں ہے۔یہ احمد رضا کی طرف سے حدیث میں زیادتی ہے۔
(۴) حدیث میں اپنی طرف سے ’’تمامی‘‘کے لفظ کا اضافہ :
احمد رضا خان نے لکھا ہے کہ:کعب بن مالکؓ عرض کرتے ہیں ۔
’’یا رسول اﷲ اِنَّ مِن تَماَ مِیْ تَوْ بَتِی اَنْ انخلع من مالی صدقۃ الیٰ اﷲ ورسولہ ‘‘
{ترجمہ}:’’یارسول اﷲ میری توبہ کی تمامی یہ ہے کہ اپنے مال سے باھر آؤں سب اﷲ ورسول کے نام پر تصدق کردوں۔‘‘
(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ دوم صفحہ۱۵۵نوری کتب خانہ لاہور)
اس حدیث کے الفاظ اصل میں اسطرح ہیں :
’’وقال کعب بن مالک قلت یارسول اﷲﷺ ان من توبتی ان اَنْخلع من مالی صدقۃ الیٰ اﷲ والیٰ رسولہ۔۔۔‘‘ الخ
(صحیح البخاری جلد اول ۱۹۲کتاب الزکاۃ ۔باب لاصدقۃ الاعن ظھر غنی )
(غلطیاں )
(۱) اصل حدیث میں ’’تمامی‘‘کا لفظ نہیں ہے جبکہ احمد رضا نے ذکر کیا ہے اور اسکا ترجمہ بھی کیا ہے۔
(۲) اور اصل حدیث میں ’’الیٰ رسولہ ‘‘کا لفظ ہے حالانکہ احمد رضا نے ’’الیٰ ‘‘کو اُڑا دیا ہے۔
اس غلطی کو کاتب کی جانب بھی منسوب نہیں کیا جاسکتا اسلئے کہ ترجمہ میں بھی اس غلطی کو دھرایا گیا ہے۔
(۵)الفاظ حدیث بدلنے اور غائب کرنے کی عادت:
احمد رضا خان ایک روایت یوں نقل کرتے ہیں:
ام المؤمنین صدیقہ ؓ عرض کرتی ہیں: ’’یارسول اﷲ تُبْتُ الیٰ اﷲ و رسولہ‘‘
{ترجمہ احمد رضا}:’’یارسول اﷲ میں اﷲ و رسول کی طرف توبہ کرتی ہوں‘‘
(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ دوم صفحہ۱۵۵نوری کتب خانہ لاہور)
اصل الفاظ:
حضرت ام المؤمنین ؓ کے اصل الفاظ اس طرح ہیں:
’’عن عائشہ زوج النبیﷺ ۔۔۔۔۔۔۔فقلتُ اتوبُ الیٰ اﷲ والیٰ رسولہ‘‘
(صحیح البخاری کتاب النکاح باب ھل یرجع صفحہ ۷۷۸ ج ۲ قدیمی کتب خانہ
بخاری صفحہ۴۰۶ ج ۳ حدیث نمبر۵۱۸۱ دار الکتب العلمیہ بیروت)
نقلِ حدیث میں غلطیاں:
اس حدیث کے نقل کرنے میں احمد رضا خان نے دو غلطیاں کی ہیں:
(۱) ایک یہ کہ ’’اْتُوْبُ‘‘فعل مضارع کے صیغہ واحد متکلم کو ’’تُبْتُ‘‘فعل ماضی کے صیغہ واحد متکلم سے تبدیل کردیا۔
(۲) دوسرا یہ کہ اس میں لفظ’’ الیٰ ‘‘ دو دفعہ مذکور تھا اور رضا خان نے اسے ایک دفعہ نقل کیا اور دوسری جگہ سے غائب کردیا۔
(۶)المدینۃ خیر کو المدینہ افضل سے بدل دیا :
خان صاحب بریلوی ایک حدیث کے الفاظ اس طرح لکھتے ہیں:
دوسری حدیث نصّ صریح ہے کہ فرمایا:
’’المدینہ افضل من مکّۃ‘‘
{ترجمہ احمد رضا} :مدینہ مکہ سے افضل ہے۔
(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ دوم صفحہ۱۵۸نوری کتب خانہ لاہور)
حدیث کے اصل الفاظ:
جبکہ اس حدیث کے اصل الفاظ یوں ہیں
’’المدینۃ خیر من مکّہ‘‘ ترجمہ:مدینہ مکہ سے بہتر ہے۔
(المعجم الکبیر حرف المیم حدیث نمبر۴۴۵ ج ۴ ، ص۲۸۸ داراحیاء التراث العربی )
نقل حدیث میں غلطیاں:
(۱) نقل حدیث میں احمد رضا نے حدیث میں لفظ ’’خیر ‘‘کو ’’افضل‘‘سے بدل دیا۔
(۲) اور ترجمہ بھی ’’افضل ‘‘کا کیا ہے اسلئے اس غلطی کو کاتب کی طرف منسوب نہیں کیا جاسکتا۔
(۷) تیر اندازی اور تیرنا سیکھنے والی حدیث کی ترتیب بدل دیتے تھے:
احمد رضا نے ایک حدیث کچھ اس طرح لکھتے ہیں:
حدیث میں ارشاد ہوا :
’’علّمُوا بنینکم الرَّمٰی والسباحۃ‘‘
{ترجمہ احمد رضا}:اپنے بیٹوں کو تیر اندازی اور تیرنا سکھاؤ۔
(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ دوم صفحہ۱۶۱نوری کتب خانہ لاہور)
حدیث کے اصل الفاظ:
جبکہ یہ روایت کشف الخفاء (للعلامۃ اسماعیل بن محمد العجلونی الشافعی المتوفی ۱۱۶۳ہجری )میں اس طرح ہے:
’’علّموا بنینکم السباحۃ والرَّمٰی ‘‘
ترجمہ:اپنے بیٹوں کو تیرنا اور تیراندازی سکھاؤ۔
(کشف الخفاء صفحہ۶۳ج ۲ حدیث نمبر۱۸۶۰ مکتبہ دارالکتب العلمیہ بیروت)
غلطیوں کی نشاندہی:
(۱) اس حدیث میں خان صاحب نے ’’الَّرمٰی ‘‘کو ’’السباحۃ‘‘پر مقدم کردیا جبکہ اصل الفا ظ اسطرح ہیں جیسے ہم نے نقل کئے ہیں ۔
(۲) اور خان صاحب نے ترجمہ بھی پہلے ’’الرَّمٰی ‘‘کا کیا ہے جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ یہ کاتب یا ناشر کی غلطی نہیں بلکہ خود احمد رضا کا قصور ہے۔
(۸)’’غیرہ ‘‘کے بجائے ’’معہ ‘‘نقل کردیا:
بانئی مسلک بریلویت حدیث کے الفاظ یوں لکھتے ہیں:
اور حدیث میں ہے:’’کان اﷲ ولم یکن معہ شئی‘‘
{ترجمہ احمد رضا} :ازل میں اﷲ تھا اور اس کے ساتھ کچھ نہ تھا۔
(ملفوظات اعلٰی حضرت حصہ دوم صفحہ۱۶۳نوری کتب خانہ لاہور)
حدیث کے اصل الفاظ:
دراصل اس روایت کے اصل الفاظ اس طرح ہیں:
’’کان اﷲ ولم یکن شئی غیرہ‘‘
ترجمہ:اﷲ تعالیٰ ازل سے تھا اور اسکے علاوہ کچھ نہ تھا۔
(صحیح البخاری ۴۵۳ ج اول کتاب بدء الخلق ۔باب فی قول اﷲ الخ قدیمی کتب خانہ)
نقل روایت کی غلطیاں:
اس روایت کے نقل کرنے میں بھی احمد رضا نے غلطی کی ہے ۔
(۱)اصل حدیث کے لفظ ’’غیرہ ‘‘کو’’ معہ ‘‘سے بدل کر ترجمہ بھی ’’معہ ‘‘کا کردیا ۔
(۲)اور ’’شئی ‘‘کو بالکل آخر میں نقل کیا جبکہ یہ آخر میں نہیں بلکہ آخر سے پہلے مذکور تھا۔
(۳)اور احمد رضا کی طرف سے کئے گئے ترجمہ سے بھی یہ غلطی اور واضح ہوتی ہے کہ یہ کاتب اور ناشر کی نہیں بلکہ خود احمد رضا کی اپنی ہے ۔اور یہ احمد رضا کے حافظے کا کمال ہے۔
(جاری ہے)
٭٭٭