منگل، 12 فروری، 2019

حُسنِ ادب اور اُس کی اہمیت (قسط 1) - مولانا حبیب الرحمن اعظمی

 حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی رحمۃ اللہ علیہ

علماء، مشائخ اور بزرگوں کی عزت و تکریم معمولی عمل نہیں ہے۔ آج کل عموماً یہ دیکھا جاتا ہے کہ جس نے دو لفظ پڑھ لیےوہ گویا 'میں ' ہوکر رہ گیا۔ ہر ایک یہ سمجھتا ہے کہ قرآن کی جو تشریح میں کرسکتا ہوں، وہ اور کوئی نہیں کر سکتا۔ (اور درست بھی ہے، جو تشریح ١٤٠٠ سال میں کسی صحابی اورتابعی، کسی ولی اور بزرگ نے نہیں کی…وہ تشریح صرف یہی لوگ کرسکتے ہیں، اور کوئی نہیں کرسکتا)

دلوں کو شفقت بھرے انداز میں جھنجھوڑتی تحریر ، جو ہمیں یاد دلاتی ہے کہ

ع
ادب پہلا قرینہ ہے عبادت کے قرینوں میں  
(مدیر)


بڑوں کا ادب واحترام ، اساتذہ وشیوخ کا اکرام وخدمت گزاری اوراُن کا پاس ولحاظ ہمیشہ سے اکابر دین علماء سلف کا امتیازی وصف رہا ہے مگر آج آزادی کے غلط تصور اور مغرب زدگی کے اثر سے یہ چیزیں رفتہ رفتہ ختم ہورہی ہیں ۔ آج سے پچیس تیس سال پہلے ہمارے دینی مدارس کے طلبہ میں جو شائستگی وتہذیب جو متانت وسنجیدگی اور جو ادب واحترام پایا جاتا تھا آج اُس کی جھلک بھی کہیں مشکل ہی سے نظر آتی ہے ،یہ کمی بڑی افسوسناک کمی ہے۔ علومِ دینیہ کے حاملین کو اسلامی تہذیب ،اسلامی آداب ، اور اسلامی اخلاق کا حامل ہونا چاہیے۔ ہمارے لیے ہمارے اکابر واسلاف کی روش قابل تقلید ہے اسی میں ہماری عزت وسربلندی ہے اور اسلاف کی مستحسن روش ہی پر چل کر ہم اسلام کے تقاضے کو پورا کرسکتے ہیں۔ ہمارے مذہب نے جس طرح عقائد وعبادات اورمعاملات واخلاق کے سبق ہم کو بتائے ہیں اسی طرح اُس نے ہم کو آداب بھی سکھائے ہیں ،نیک روش ،اچھے چال چلن اور عمدہ طور طریق کی تعلیم بھی دی ہے اوردوسرے امور دین کے ساتھ ساتھ ادب ووقار سیکھنے اورسکھانے کی تاکید بھی کی ہے۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا:

 ان الھدی الصالح والسمت الصالح والاقتصاد جزء من خمسة وعشرین جزء من النبوة ۔رواہ احمد ۔

(عمدہ روش ،اچھے انداز اورمیانہ روی نبوت کے پچیس اجزاء میں سے ایک جزء ہے یعنی یہ چیزیں انبیاء علیھم السلام کے عادات وفضائل میں سے ہیں ) اسی لیے علماء نے فرمایا :یسن ان یتعلم الادب والسمت والفضل والحیاء وحسن السیرة شرعا و عرفا (الآداب الشرعیہ ١/٤٧٢)یعنی ادب ووقار، فضل وحیا اورحسن سیرت سیکھنا شرعاً وعرفاً مسنون ہے ۔

نیز حدیث نبوی میں وارد ہے: لان یؤدب الرجل ولدہ خیرلہ من ان یتصدق بصاع ۔ (ترمذی ) آدمی اپنی اولادکو ادب سکھائے تو یہ ایک صاع خیرات کرنے سے بہتر ہے اور فرمایا :مانحل والد ولدا من نحلة افضل من ادب حسن ۔ کسی باپ نے اپنی اولاد کو عمدہ ادب سے بہتر کوئی عطیہ نہیں دیا، اور ا رشاد ہے کہ بیٹے کا ایک حق باپ پر یہ بھی ہے کہ اس کو اچھا ادب سکھائے (عوارف)۔ ایک اورحدیث میں ہے: تعلموا العلم ، وتعلموا للعلم السکینة والو قار وتواضعوا لمن تعلمون منہ ۔ (طبرانی ) علم سیکھو اور علم کے لیے سکون وقار سیکھو، اورجس سے استفادہ کرواس کے لیے تواضع کرو۔ اس مضمون کا ایک اثر بھی حضرت عمر سے مروی ہے۔(الآداب الشرعیة ٢/٥١ و ١/٢٥٤)۔حضرت عمر سے یہ بھی مروی ہے تأدبوا ثم تعلموا (الآداب الشرعیہ ٥٥٧٣) ادب سیکھو پھر علم سیکھو۔ ابو عبداللہ بلخی نے فرمایا ادب العلم اکثر من العلم علم کاادب علم سے زیادہ ہے۔ امام ابن المبارک نے فرمایا کہ آدمی کسی قسم کے علم سے باعظمت نہیں ہو سکتا جب تک اپنے علم کو ادب سے مزین نہ کرے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ آیت کریمہ : قوا انفسکم واھلیکم ناراً کی تفسیر ادبوھم وعلموھم سے فرماتے تھے یعنی اپنے اہل واولاد کو آگ سے بچانے کا مطلب یہ بیان فرماتے تھے کہ ان کو ادب سکھاؤ اورتعلیم دو۔ عبداللہ ابن المبارک فرماتے ہیں کہ مجھ سے مخلدبن الحسین نے فرمایا کہ ہم بہت ساری حدیثوں کے سننے اور پڑھنے سے زیادہ محتاج ادب سیکھنے کے ہیں۔  (الآداب شرعیة ٣/٥٥٨)

حضرت حبیب ابن الشہید (جوامام ابن سیرین کے شاگردہیں ) اپنے لڑکے سے کہا کرتے تھے کہ بیٹے ! فقہاء وعلماء کی مجلسوں میں بیٹھ کر ان سے ادب سیکھو یہ چیزمیرے نزدیک بہت ساری حدیثوں کے جاننے سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ حضرت فضیل بن عیاض نے بعض طلبہ حدیث کی کچھ خفیف حرکتیں دیکھیں تو فرمایا کہ اے وارثان ِانبیاء ! تم ایسے رہوگے ؟ حضرت وکیع نے بعض طلّاب کی کچھ نازیبا باتیں اور حرکتیں سنیں اور دیکھیں تو فرمایا کہ کیا حرکت ہے ، تم پروقار لازم ہے۔ (آداب شرعیة ١/٢٤٣) ایک بار عبداللہ بن المبارک سفر کررہے تھے لوگوں نے پوچھا کہاںکا ارادہ ہے ؟ فرمایا بصرہ جا رہا ہوں ، لوگوں نے کہا ، اب وہاں کون رہ گیاہے جس سے آپ حدیث نہ سن چکے ہوں ،فرمایا ابن عون کی خدمت میں حاضری کا ارادہ ہے،ان کے اخلاق اوران کے آداب سیکھوں گا۔ عبدالرحمن بن مہدی فرماتے ہیں کہ ہم بعض علماء کی خدمت میں علم حاصل کرنے نہیں جاتے تھے بلکہ صرف اس مقصد سے حاضری دیتے تھے کہ ان کی نیک روش ان کا طرز وانداز سیکھیں گے ۔ علی ابن المدینی وغیرہ متعددائمہ حدیث یحیٰ ابن سعید قطان کے پاس بعض اوقات صرف اس لیے حاضر ہوتے تھے کہ ان کی روش وانداز دیکھیں ۔ اعمش کہتے ہیں کہ طالبین علم فقیہ ( استاذ) سے ہرچیز سیکھتے تھے حتی کہ اُسی کی سی پوشاک اورجوتے پہننا سیکھتے تھے (آداب)۔حضرت امام احمد کی مجلس میں پانچ ہزار سے زائد آدمی شریک ہوتے تھے جن میں سے صرف پانچ سو کے قریب آدمی تواُن سے حدیثیں سن کر لکھتے تھے اورباقی سب لوگ ان سے حسن ادب اور وقار ومتانت سیکھتے تھے۔ (آداب ٢/١٣)

ادب سیکھنے اور سکھانے کی اس اہمیت کو واضح کرنے کے بعد مناسب معلوم ہوتا ہے کہ عالم کا حق ،اور ان کے اجلال واحترام کے احکام بھی ذکر کردئیے جائیں۔

اُستاذ کامرتبہ :

حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ جس نے مجھے ایک حرف بھی بتادیا میں اُس کا غلام ہوں، وہ چاہے مجھے بیچے یا آزاد کردے یا غلام بنائے رکھے ۔امام زرنوجی نے اس کو ذکرکرنے کے بعد خود فرمایا ہے :

رأیت احق الحق حق المعلم
و اوجبہ حفظا علی کل مسلم

سب سے زیادہ واجب الرعایة اورضروری حق ہر مسلمان کے ذمہ معلم (اُستاذ) کا حق میں نے پایا

لقد حق ان یھدی الیہ کرامة
لتعلیم حرف واحد الف درھم

وہ اس لائق ہے کہ ایک حرف بتانے کی قدر دانی میں اس کوا یک ہزار درہم ہدیہ پیش کیاجائے

''شرح الطریقة المحمدیة '' میں ایک حدیث بھی بایں الفاظ مذکور ہے: من علم عبد اآیة من کتاب اللّٰہ فھو مولاہ ، لاینبغی ان یخذ لہ ولا یستأثر علیہ احدا یعنی کسی قرآن پاک کی ایک آیت سکھا دے وہ اس کا آقا ہے اس کو کبھی اس کی مدد نہ چھوڑنی چاہیے ،نہ اس پر کسی کو ترجیح دینی چاہیے ۔ ناچیز کہتا ہے کہ اس حدیث کی اسنادعوارف المعارف میں یوں مذکور ہے :

اخبرنا الشیخ الثقة ابوالفتح محمد بن سلیمان قال اما ابو الفضل حمید قال انا الحافظ ابو نعیم قال ثناسلیمان بن احمد قال ثنا انس بن اسلم قال ثنا عتبة بن رزین عن ابی امامة الباھلی عن رسول اللّٰہﷺ۔ (عوارف علی ھامش الاحیاء ٧٤/١)

اورمجمع الزوائد میں ہے کہ اس حدیث کو طبرانی نے معجم کبیر میں روایت کیا ہے ۔ (١/١٢٨)

شرح الطریقة المحمدیة میں یہ بھی مذکور ہے کہ استاذ کا حق ادا کرنے کو ماں باپ کا حق ادا کرنے پر مقدم جانے ، اس کے بعد یہ واقعہ لکھا ہے کہ جس وقت امام حلوانی بخارا چھوڑ کر دوسری جگہ چلے گئے تو امام زرنجری کے علاوہ ان کے سب شاگرد سفر کرکے ان کی زیارت کو گئے،امام زرنجری ماں کی خدمت میں مشغول رہنے کی وجہ سے نہ جاسکے ،مدت کے بعد جب ملاقات ہوئی توانھوں نے غیر حاضری پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے یہی معذرت پیش کی ، امام حلوانی نے فرمایا کہ خیر تم کو عمر تو ضرور نصیب ہو گی مگر درس نصیب نہ ہوگا یعنی درس میں برکت اور بکثرت لوگوں کا ان کے درس سے فائد ہ اُٹھانا نصیب نہ ہو گاچنانچہ ایساہی ہوا اوران کا حلقۂ درس کبھی نہ جما ۔ الآداب الشرعیہ میں ہے :وذ کر بعض الشافعیة فی کتابہ فاتحة العلم ان حقہ آکد من حق الوالد (ا/٤٩٦) یعنی بعض شوافع نے اپنی کتاب فاتحة العلم  میں لکھا ہے کہ معلم کا حق باپ کے حق سے زیادہ مؤکد ہے ۔

اُستاذ اور ہر عالم کے حقوق : 

امام خیر اخری نے فرمایا کہ عالم کا حق جاہل پر اور اُستاذ کا حق شاگرد کے ذمہ یکساں ہی ہے اور وہ یہ ہے (١) بے علم یا شاگرد عالم یااستاذ سے پہلے بات شروع نہ کرے (٢) اس کی جگہ پر نہ بیٹھے (٣) اس کی بات غلط بھی ہوتو رد نہ کرے٭ (٤)اس کے آگے نہ چلے۔

تعلیم المتعلم میں ہے کہ اُستاذ کی تعلیم وتوقیر میں یہ بھی داخل ہے کہ (١) اُس کے پاس مباح گفتگو بھی زیادہ نہ کرے (٢) جس وقت وہ تھکا ماندہ ہواُس وقت اُس سے کوئی سوال نہ کرے(٣) لوگوں کو مسائل بتانے یا تعلیم دینے کا کوئی وقت اُس کے یہاں مقرر ہے تو اُس وقت کا انتظار کرے (٤) اس کے دروازے پر جا کر دردازے نہ کھٹکھٹائے بلکہ صبروسکون کے ساتھ اُس کے ازخود برآمد ہونے کا انتظارکرے۔

شرح الطریقة المحمدیہ میں بھی منقول ہے کہ استاد کا ہاتھ چومنا بھی داخل تعظیم ہے اور ابن الجوزی نے مناقب اصحاب الحدیث میں لکھاہے :   ینبغی للطالب ان یبالغ فی التواضع للعالم ویذل نفسہ لہ ومن التواضع للعالم تقبیل یدہ ۔یعنی طالب علم کے لیے زیبا ہے کہ عالم کے لیے تواضع میں مبالغہ کرے اوراپنے نفس کو اس کے لیے ذلیل کردے اور عالم کے لیے تواضع کی ایک صورت اس کا ہاتھ چومنا بھی ہے ۔(آداب شرعیہ ٢/٢٧٢)

استاذ کی تعظیم میں یہ بھی داخل ہے کہ اس کے آنے جانے کے وقت شاگرد کھڑا ہوجائے1٭ ۔استاد عالم کے لیے قیام کا جواز بلکہ استحباب آداب شرعیہ میں بھی مذکور ہے اور اس باب میں امام نووی کا ایک مستقل رسالہ ہے۔ شرح الطریقة میں یہ بھی ہے کہ استاد کی کوئی رائے یا تحقیق شاگرد کو غلط معلوم ہوتی ہو2٭ تو بھی اس کی پیروی کرے جیسا کہ حضرت موسیٰ وخضر علیہما السلام کے قصہ سے ثابت ہے۔ استاذ کی تعظیم میں یہ بھی داخل ہے کہ اس کے سامنے تواضع سے پیش آئے ، چاپلوسی کرے، اس کی خدمت کرے، اس کی مددکرے اور علانیہ وخفیہ اس کے لیے دعاء کرتا رہے۔(شرح الطریقہ)

امام غزالی نے احیاء العلوم میں یہ فرمایا ہے :ینبغی ان یتواضع للمعلم ویطلب الثواب والشرف بخدمتہ (١/٣٨) چاہیے کہ معلم کے لیے تواضع کرے اور اس کی خدمت کرکے شرف وثواب کمائے،اس کے بعد ایک حدیث نقل کی ہے ۔لیس من اخلاق المومن التملق الا فی طلب العلم یعنی مؤمن کے اخلاق میں تملق (چاپلوسی ) کی کوئی جگہ نہیں ہے مگر طلب علم کی راہ میں(رواہ ابن عدی من حدیث معاذ وابی امامة باسنادین ضعفین)۔

تعلیم المتعلم (ص٧) میں ہے کہ استاذ کی تعظیم میں یہ بھی داخل ہے کہ اس کی اولاد اور متعلقین کی توقیر کرے ترغیب وترہیب منذری میں حدیث مرفوع ہے تواضعوا لمن تعلمون منہ یعنی جس سے علم حاصل کرو اس کے لیے تواضع کرو ۔ فردوس دیلمی کے حوالہ سے ایک حدیث نبوی منقول ہے کہ آنحضرت ﷺنے فرمایا: بڑوں کے آگے چلنا کبائر میں سے ہے ، بڑوں کے آگے کوئی ملعون ہی چل سکتا ہے ، پوچھا گیا یارسول اللہ! بڑوں سے کون مراد ہیں ، فرمایا علماء اورصلحاء۔ مراد یہ ہے کہ ان کی عظمت ومنزلت کا لحاظ نہ کرکے استخفافاًآگے چلنامذموم وقابلِ نکیر ہے۔ شرح الطریقة المحمدیہ میں ہے کہ علم زوال کا ایک سبب معلم کے حقوق کی رعایت نہ کرنا بھی ہے اور فرمایا کہ استادکو جس شاگرد سے تکلیف پہنچے گی وہ علم کی برکت سے محروم رہ جائے گا۔

کسی اور عالم کا قول ہے کہ جو شاگرد اپنے استاذ کو نا مشروع امر کا ارتکاب کرتے دیکھ کر اگر اعتراض وبے ادبی سے کیوں کہدے گا وہ فلاح نہ پائے گا ، یعنی نامشروع پر ٹوکنے کے لیے بے ادبی مباح نہیں ہے ۔دوسرے سے تنبیہ کرائے یا خود ادب واحترام کے ساتھ استفسار کی صورت میں کہے یا اس طرح کہے کہ نصیحة مسلم معلوم ہو۔

اجلال علم وعلماء :

ابوداؤد میں مروی ہے آنحضرت ﷺنے فرمایا کہ بوڑھے مسلمان اورعالم وحافظ قرآن اور بادشاہ عادل کی عزت کرنا خدا کی تعظیم میں داخل ہے۔ الآداب الشرعیہ میں بروایت ابی امامہ یہ حدیث مرفوع منقول ہے کہ تین باتیں خدا کی تعظیم کی فرع ہیں اسلام میں بڑھاپے کی عمر کو پہنچنے والے کی توقیر اور کتاب اللہ کے حامل کا احترام اور صاحب علم کا اکرام خواہ چھوٹاہویابڑا(١/٢٥٦)۔اسی کتاب میں حضرت طاؤس سے مروی ہے من السنة ان یوقر اربعة العالم وذوالشیبة والسلطان والوالد یعنی عالم اوربوڑھے اوربادشاہ اورباپ کی توقیر سنت ہے ۔ایک اورحدیث مرفوع میں اہل علم کے استخفاف کومنافق کا کام بتایا گیا ہے ۔ (مجمع الزوائد ١/١٤٧)

ایک اور حدیث میں ہے کہ جوہم میں کے بڑے کی عزت نہ کرے اورچھوٹے پر رحم نہ کھائے اورعالم کا حق نہ پہچانے وہ میری اُمت سے نہیں ہے۔ ابن حزم نے لکھا ہے (اتفقوا علی ایجاب توقیر اھل القرآن والاسلام والنبیﷺ وکذلک الخلیفة والفاضل والعالم ) یعنی حاملین قرآن واسلام اور نبی ﷺاسی طرح خلیفۂ وقت اور فاضل ،عالم کی توقیر کو واجب قرار دینے پر اجماع ہے۔ (الآداب الشرعیہ ١/٤٩٥)

امام مالک فرماتے ہیں کہ ہارون رشید نے میرے پاس آدمی بھیج کر سماعِ حدیث کی خواہش ظاہر کی میں نے کہلا بھیجا کہ علم لوگوں کے پاس نہیں جایا کرتا ۔رشید یہ جواب پاکر خود آئے اور آکر میرے پاس دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے میں نے کہا : یا امیر المومنین ! ان من اجلال اللّٰہ اجلال ذی الشیبة المسلم یعنی خدا کی تعظیم میں یہ بھی داخل ہے کہ بوڑھے مسلمان کا احترام کیاجائے ۔ ہارون کھڑے ہوگئے پھر میرے سامنے شاگردانہ انداز سے بیٹھے ایک مدت کے بعدپھر ملاقات ہوئی تو کہا یا اباعبداللّٰہ تواضعنا لعلمک فانتفعنا بہ ہم نے آپ کے علم کے لیے تواضع کیا تو ہم نے اس سے نفع اُٹھایا۔ (آداب شرعیہ ٢/٥٥)
امام بیہقی نے روایت کی ہے کہ خلیفہ مہدی جب مدینہ منورہ حاضر ہوئے اور امام مالک ان کے سلام کو گئے تومہدی نے اپنے دونوں لڑکوں ہادی اوررشید کو امام مالک سے حدیث سننے کا حکم دیا ،جب شہزادوں نے امام مالک کو طلب کیا توانھوں نے آنے سے انکار کردیا۔ مہدی کواس کی خبر ہوئی اور اس نے ناراضی ظاہر کی تو ا مام نے فرمایا کہ العلم اھل ان یوقرویؤتی اھلہ یعنی علم اس بات کا حقدار ہے کہ اس کی توقیر کی جائے اور اس کے اہل کے پاس آیاجائے۔ اب مہدی نے خود لڑکوں کو امام صاحب کے پاس بھیجا ،جب وہ وہاں پہنچے تو شہزادوں کے اتالیق نے امام سے خواہش ظاہر کی کہ آپ خود پڑھ کرسنادیں ، امام نے فرمایا کہ جس طرح بچے پڑھتے ہیں اور معلم سنتا ہے اسی طرح اس شہر کے لوگ محدث کے پاس حدیثیں پڑھتے ہیں جہاں خطا ہوتی ہے محدث ٹوک دیتا ہے ۔ مہدی کو اس کی خبر پہنچائی گئی اوراس نے اس پربھی اظہار عتاب کیا، توامام مالک نے مدینہ کے ائمہ سبعہ کانام لے کر فرمایا کہ ان تمام حضرات کے یہاں یہی معمول تھا کہ شاگرد پڑھتے تھے اور وہ حضرات سنتے تھے ۔یہ سن کر مہدی نے کہا کہ تو انہیں کی اقتداء ہونی چاہیے اور لڑکوں کو حکم دیا کہ جاؤ تم خود پڑھو،لڑکوں نے ایسا ہی کیا۔ (آداب شرعیہ ٢/٥٥) ایک مرتبہ امام احمد کسی مرض کی وجہ سے ٹیک لگا کر بیٹھے تھے اثنائے گفتگو میں ابراہیم بن طہمان کا ذکر نکل آیا انکا نام سنتے ہی امام احمد سیدھے بیٹھ گئے اورفرمایا کہ یہ ناز یبا بات ہوگی کہ نیک لوگوں کا ذکر ہو اور ہم ٹیک لگائے رہیں۔ (آداب شرعیہ ٢/٢٦)

اُستاذ کا لحاظ پہلے لوگوں میں : 

امام شعبی کا بیان ہے کہ حضرت زید بن ثابت سوار ہونے لگتے تو حضرت ابن عباس رکاب تھام لیتے تھے اور کہتے تھے کہ علماء کے ساتھ ایسا ہی کرنا چاہیے اسی طرح حضرت ابن عمر (صحابی ) نے مجاہد( تابعی) کی رکاب تھامی ۔امام لیث بن سعد امام زہری کی رکاب تھامتے تھے ۔مغیرہ کہتے ہیں کہ ابراہیم نخعی کی ہیبت ہم پر ایسی تھی جیسی بادشاہ کی ہوتی ہے اور یہی حال امام مالک کے شاگردوں کا امام مالک کے ساتھ تھا۔ ربیع کہتے ہیں کہ امام شافعی کی نظر کے سامنے ان کی ہیبت کی وجہ سے مجھے کبھی پانی پینے کی جرأت نہیں ہوئی ۔ (الآدب الشرعیہ ١/٢٥٦)

(٢) ثابت بنانی حضرت انس کے شاگرد اورتابعی ہیں یہ جب حضرت انس کی خدمت میں جاتے تو ان کے ہاتھوں کو بوسہ دیتے اس لیے حضرت انس اپنی لونڈی سے کہا کرتے تھے کہ ذرا میرے ہاتھوں میں خوشبو لگا دے وہ آئے گا توبے ہاتھ چومے نہ مانے گا ۔ (مجمع الزوائد ١/١٣٠)٭
 (جاری ہے ) 


تبصرے و حاشیے (مدیر کے قلم سے)
٭ رد کرنا ادب کے خلاف ہے، جبکہ غلط بات پر غلطی سے آگاہ کرنا بھی ضروری ہے، اس خیال کے ساتھ کہ آگاہ کرنا ادب کے دائرہ میں آتا ہو۔ چونکہ پیارے نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ والدین سے امر بالمعروف و نہی عن المنکر میں نرمی کرو، چنانچہ اساتذہ کا درجہ بھی ماں باپ کی طرح بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ہوتا ہے۔ خط کشیدہ الفاظ ملاحظہ ہوں۔(مدیر)

1٭البتہ استاد اگر منع کردے تو اور بات ہے۔ نیز استاد کے لیے یہ درست نہیں کہ وہ طلباء و تلامذہ کا اپنے لیے کھڑا ہونا پسند کرے(مدیر)

2٭ صراحتاً قرآن و سنت سے متصادم ہو تو اور بات ہے (مدیر)

٭ بشکریہ ماہنامہ انوارِ مدینہ لاہور ۔ دسمبر 2004 ص  43
     

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں