جمعرات، 14 فروری، 2019

بھائی وسیم احمد سےایک ملاقات

”سربکف “مجلہ۶(مئی، جون ۲۰۱۶)
وسیم احمد/انل ٹھکّر

احمد اوّاہ :السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ 
وسیم احمد :وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ 
سوال :وسیم صاحب !آپ کہاں رہ رہے ہیں ؟اور اس وقت کہاں سے آئے ہیں ؟
جواب :اس وقت میں دہلی تبلیغی اجتماع سے آ رہا ہوں، میں پرسوں آیا تھا، حضرت سے فون پر کنٹیکٹ ہوا تھا، تو حضرت نے بتایا کہ میں احمد آباد آ گیا ہوں، اب اچھا موقع ہے دہلی کا اجتماع ہو رہا ہے، آپ دو روز کے لئے وہاں چلے جائیں، آج دوپہر دعا ہوئی، تو واپس آیا، اس سے پہلے ایک بار بھوپال کے اجتماع میں گیا تھا، اس کے بعد کسی اجتماع میں جانے کا موقع نہیں ملا تھا، بہت ہی اچھا لگا۔ 
س:آپ آج کل کہاں رہ رہے ہیں ؟
ج:میں آج کل رائے پور چھتیس گڑھ میں رہ رہا ہوں۔ ویسے میرا گھر بلاس پور میں ہے، اور ہمارا پورا پریوار(خاندان) بلاس پور میں ہی رہتا ہے میں اپنے بچوں کے ساتھ رائے پور رہ رہا ہوں، وہیں میرا کاروبار ہے۔ 
س:وہاں کیا کاروبار ہے ؟
ج:اصل میں میں آئی ٹی انجینئر ہوں، اور میں نے ایک آئی ٹی کمپنی بنائی ہے، اس کا ایک آفس میں نے پونہ میں، ایک بنگلور میں، اور تین مہینہ پہلے ایک آفس دبئی میں بھی کھولا ہے، اور انشاءاللہ اس سال ہم کولالمپور ملیشیا میں بھی اس کی ایک برانچ کھولنے کا پروگرام بنا رہے ہیں۔ 
س:یہ کمپنی آپ نے کب بنائی ؟ماشاءاللہ اس کی بہت سی برانچیں ہو گئی ہیں ؟
ج:ابھی آٹھ سال ہوئے ہیں، میرے اللہ کا کرم ہے بہت جلدی ہمارا کام سیٹ ہو گیا، اور بہت سے لوگوں کو میرے ساتھ روزگار ملا ہوا ہے، ایک سو چھپن لوگ ہماری کمپنی میں ملازم ہیں، زیادہ تر آئی ٹی کے لوگ ہیں، ایک آدمی کے ذریعہ اگر اتنے خاندانوں کا روزگار مل جائے تو یہ انسانیت اور ملک کی بڑی خدمت ہے۔ 
س:آپ کے ساتھ آپ کی اہلیہ ہیں ؟وہ کہاں کی ہیں ؟وہ بھی ابھی مسلمان ہوئی ہیں کیا؟
ج:میری اہلیہ خاندانی مسلمان ہیں، اور وہ ناگپور کی رہنے وا الی ہیں، ان کے والد صاحب بلاس پور میں سروس کرتے تھے، ریلوے میں ملازم تھے، ریٹائرڈ ہو گئے ہیں، وہ اصل میں بریلوی طبقہ سے جڑے ہوئے ہیں، اور ہماری سسرال والے لوگوں میں درگاہوں وغیرہ پر جانے اور تعزیہ نکالنے کوہی زیادہ دین سمجھا جاتا ہے، اب اللہ کا شکر ہے میرے ذریعہ ان کے یہاں اصل دین کو سمجھنے اور ماننے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ 
س:حیرت کی بات ہے، ظاہر ہے آپ اپنی اہلیہ کی وجہ سے ہی مسلمان ہوئے ہوں گے، تو پھر آپ کو ان ہی کے طریقہ کا مسلمان بننا چاہئے تھا، آپ کہہ رہے ہیں، آپ کے ذریعہ ان کے یہاں سے خرافات کم ہو رہی ہیں، ذرا بتائیے کیسے ؟ اور اپنے اسلام قبول کرنے کے بارے میں بھی بتائیے ؟
ج:اصل میں ہمارا پریوار بلاس پور کا راجپوت، زمین دار خاندان ہے، اور ہمارے دادا اس علاقہ کے راجہ کہلاتے تھے، میں نے بارہویں کلاس کے بعد آئی۔ اے۔ ایس کے مقابلہ میں شریک ہونے کا پروگرام بنایا، مگر اچانک میری صحت بگڑ گئی، میرا ٹائیفائڈ بگڑ گیا، اس کی وجہ سے میرا یہ خواب پورا نہ ہو سکا، اور میں نے ایک انجینئرنگ کالج ہی میں بی ٹیک میں داخلہ لیا، بی ٹیک اور ایم ٹیک کرنے کے بعد، ہماری بوا کے لڑکے جو امریکہ میں رہتے ہیں وہ ہندوستان آئے، انہوں نے مجھے اپنی آئی ٹی کمپنی کھول کر بزنس کا مشورہ دیا، میرے پتاجی جو خود ایک اسکول بھی چلاتے تھے ان کو یہ بات پسند آ گئی تومیں نے ناگ پور میں ایک جگہ کرایہ پرلے کر آئی ٹی کمپنی شروع کی، ایک لڑکی جو اَب میری بیوی ہے، رضوانہ نام کی، میرے کالج میں میرے ساتھ ملاسپور میں میری جونیئر تھی، جس نے بلاس پور سے ہی بی ٹیک کیا تھا، میں نے اس کو اور دو لڑکوں کو اپنی کمپنی میں ملازم رکھا، صفائی اور چائے وغیرہ کے لئے ایک مسلمان لڑکے کو جس کا نام بدر الدین تھا، لوگ اسے ندو کہتے تھے، آفس بوائے رکھا، رضوانہ بہت خوبصورت ایک بے حد ایکٹیو (Active) لڑکی تھی، ہر وقت ساتھ رہتے رہتے ہم ایک دوسرے کے قریب ہو گئے، ہمارے رشتوں کی لمبی داستان ہے، وہ آپ کے مطلب اور کام کی نہیں، اس لئے اسے چھوڑتا ہوں، وہ اب میرے لئے بھی ذرا ناپسند ہے، میں نے رضوانہ سے کہا تم اپنے گھر والوں کو شادی کے لئے تیار کر لو اس نے کوشش کی، مگر وہ کامیاب نہ ہو سکی، بات بہت آگے بڑھ گئی تھی، ہم لوگوں کے لئے ایک دوسرے کے بنا رہنا مشکل تھا، اس لئے اب میں نے اپنے گھر والوں پر کوشش شروع کی، بہت زیادہ گھر میں اس پر دھمال مچا اور جب میں نے آخری بات کے طور پر گھر والوں سے کہہ دیا، کہ اگر اس لڑکی سے میری شادی نہ ہوئی تومیں ریل سے کٹ کر خودکشی کر لوں گا، تو میرے گھر والے کیوں کہ میں ان کا اکلوتا تھا، اس شرط پر تیار ہو گئے، کہ پہلے کورٹ میریج ہو، اور پھر وہ ہندو بن کر ہندوانی رواج کے مطابق شادی کر لے، رضوانہ کچھ زیادہ دین دار نہ تھی، بلکہ دین کیا ہے، اسے کچھ زیادہ نہیں پتہ تھا، وہ تو بس کیا بتلاؤں، مزاروں پر جانا اور تعزیہ، بس اس کو دین سمجھتی تھی، وہ اس کے لئے تیار ہو گئی۔ ہم لوگوں نے پہلے کورٹ میریج کی اور پھر میں نے ناگپور سے کمپنی بلاسپور شفٹ کرنے کا پروگرام بنایا، کمپنی ناگپور سے بند کی، اور ایک روز رضوانہ کولے کر بلاس پور آ گیا۔ ان کے گھر والوں نے میرے خلاف پولیس میں ایف آئی آر، مقدمہ وغیرہ کیا، مگر ہم نے ہائی کورٹ سے قانونی کارروائی پوری کرالی تھی، کچھ نہ ہو سکا، بلاس پور میں میری شادی باقاعدہ ہمارے ہندو راجپوت رواج کے مطابق ہو گئی۔ 
س:آپ پھر کیسے مسلمان ہوئے ؟
:ہاں میں بتا رہا ہوں، ناگپور میں جو آفس بوائے ندو تھا، اس کے والد کا انتقال ہو گیا تھا، اس کی پانچ بہنیں تھیں اور ماں کا وہ اکیلا بیٹا تھا، اور مجبوراً وہ پڑھائی بند کر کے میرے یہاں نوکری کرنے لگا تھا اور پرائیویٹ امتحان دے رہا تھا، ان کی ماں ایک ولی صفت عورت ہیں، انہوں نے اس لڑکے کو شروع سے دین پر چلایا۔ وہ بہت پکا نمازی اور بارہ سال سے تہجد گذار تھا، ، ہماری کمپنی کا آفس ناگپور میں جہاں پرتھا، پاس میں کوئی مسجد نہ تھی، اس نے ملازمت طے کرتے وقت یہ بات مجھ سے کھل کر طے کی تھی کہ ڈیوٹی کے درمیان میں دوپہر اور شام کو دو وقت کی نماز پڑھوں گا، اس میں پندرہ منٹ اور دس منٹ مجھے لگا کریں گے، اور آفس میں ایک کونے میں نماز پڑھنے کی اجازت آپ کو چاہے کچن میں ہی ہو، دینی پڑے گی۔ وہ بہت ہی ایمان دار اور محنتی لڑکا تھا، اس نے میری کمپنی میں دو اور انجینئر لڑکوں فیروز اور شاہنواز دونوں کو نماز پڑھانا شروع کر دی، اور وہ تینوں بہت پابندی سے جماعت سے نماز پڑھتے تھے، کئی بار میں نے آخری درجہ میں غربت اور پریشان حالی کے باوجود اس کی ایمان داری دیکھی تھی، اور اس میں خدمت کا بھی بڑا جذبہ تھا، اس لئے مجھے اس لڑکے سے بہت ہی محبت ہو گئی تھی، اور رضوانہ سے تعلق کی وجہ سے بھی اب مجھے مسلمانوں سے دوری ختم ہو کر کچھ تعلق سا لگنے لگا تھا، ندو کو جب معلوم ہوا کہ میں کمپنی بند کرنے جا رہا ہوں تو وہ بہت اداس ہو گیا، اور ایک بار آفس میں آ کراس نے مجھ سے بہت ضد کی کہ آپ کمپنی بند مت کرو، آپ کے بعد ہمیں ایسی نوکری نہیں ملے گی، میری ماں اور بہنوں کی پرورش کا سوال ہے، میں نے اس سے کہا کہ میں رائے پور تمہیں لے جاؤں گا، اس نے اپنی ماں سے مشورہ کیا، انہوں نے اجازت دے دی، میں نے رائے پور آفس میں اس کو رکھ لیا، اور وہ ہمارے گھر پرہی ایک سرونٹ روم میں رہنے لگا، وہ جب نماز پڑھتا تو بڑا ڈوب کر پڑھتا تھا، میں اس کی نماز سے بہت امپریس (متأثر)تھا، نماز میں کھڑے ہو کراس کے چہرہ سے لگتا تھا کہ ایک غلام اپنے بڑے آقا کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا ہے، اور رکوع میں جاتا تو ایسے لگتا جیسے اس نے واقعی اپنے وجود کو جھکا دیا ہے، اور جب وہ سجدہ میں جاتا تو جیسے اس نے اپنی پوری ہستی کو اللہ کے سامنے رکھ دیا ہو، اور رکوع اور سجدہ میں جاتے وقت میرے اندر یہ لگتا تھا جیسے جیسے وہ نیچے کوہو رہا ہے، تو اس کا سر اور جسم نیچے کو جا رہا ہے، مگر مجھے لگتا کہ اس کی ہستی، اس کی آتما(روح )اوپر اٹھتی جا رہی ہے۔ مجھے اس کی نماز کا انتظار رہتا، کبھی کبھی مجھے اس کی نماز کو دیکھنے کی ایسی بے چینی ہوتی، کہ میں اس سے پوچھتا ’’ندو! نماز کتنی دیر میں پڑھو گے ‘‘نماز کے طریقے اور اس کے صرف ظاہری ڈھنگ نے مجھے اسلام کی طرف کھینچ لیا، رضوانہ کے ساتھ جس کا نام ہمارے خاندان والوں نے رجنی ٹھکّر رکھ دیا تھا۔ 
س:یہ ٹھکّر کیا ہے ؟
ج: یہ اصل میں خاندان کاسرنیم (Sir Name) ہے۔ میرا نام انل ٹھکّر تھا، تو اس کا نام پتاجی نے رجنی رکھ دیا تھا، اور کورٹ میریج میں بھی یہی نام لکھوایا گیا تھا۔ 
س:جی !تو آگے بتائیے ؟
ج:میری ماں کی خواہش تھی کہ میں رجنی کولے کر ویشنو دیوی جاؤں یا تروپتی مندر جاؤں، شادی کے بعد کسی تیرتھ یاترا کو جانا ہمارے خاندان میں بہت ضروری سمجھا جاتا تھا، ہم لوگوں نے اس خیال سے کہ ویشنو دیوی ہل اسٹیشن بھی ہے، ، پکنک بھی ہو جائے گی، اور ماتا پتا(ماں باپ )کی خواہش بھی پوری ہو جائے گی، ویشنو دیوی جانا طے کیا، وہاں کے پورے سسٹم کو دیکھ کر میرا من ہندو مذہب سے چڑھ سا گیا، لیپ ٹاپ ساتھ تھامیں نے اپنی تسلی کے لئے ’’او مائی گاڈ‘‘مووی دیکھی، ماں سے بات ہوئی تو وہ پورنیما پر برت رکھنے کی ضد کرتی رہی، اور بار بار تقاضا کرتی رہی کہ میری طرف سے دیوی جی کو پرشاد چڑھانا۔ وہاں جانا اور پرشاد چڑھانے کی کٹھن پوجا میرے من اور بدھی کوکسی طرح نہ بھائی۔ ماں کا آرڈر سمجھ کر ہم دونوں نے برت رکھا، اور ہم کسی طرح کچھ پیدل اور جب تھک گئے تو گھوڑے پر سوار ہو کر پرشاد لے کر پوجا اور ماں کی طرف سے چڑھاوا چڑھانے کے لئے وہاں پہنچے، میں نے دیکھا ایک بالکل مریل بیمار کتا جس کے پورے شریر(جسم )پر کھجلی ہو رہی تھی بھیڑ میں اندر آیا اور لوگوں کے سامنے اس نے سارے پرشاد پر موت دیا(پیشاب کر دیا)، میں پرشاد پھینک کر واپس آیا اور برت توڑ دیا، رجنی نے مجھے سمجھایا کہ ایسے اَنادر سے ماں کی آستھا کو چوٹ لگے گی۔ مگر میرا من نہیں مانا اور میں نے ہوٹل جا کر لیپ ٹاپ نکالا اور رجنی سے کہا یار ایک بار اور ’’او مائی گاڈ‘‘مووی دیکھیں، اس مووی نے مجھے ہندو دھرم سے بالکل الرجک کر دیا، میں نے رجنی سے کہا جب ہم دونوں شادی کی بات کر رہے تھے توتو نے ایک بار بھی مجھے مسلمان ہونے کے لئے نہیں کہا، حالانکہ ہر آدمی دوسرے کو اپنی طرف جھکانے کی کوشش کرتا ہے، تمھارے دھرم میں تو یہ کچھ بھی نہیں ہے، ندو مسجد نہ ملے تو آفس میں بالکل آسانی سے نماز پڑھتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اوپر والا اس کی نماز قبول کرنے کے لئے اس کے سامنے اتر آیا ہو، اس نے کہا اصل میں مجھے تم سے اتنا پیار تھا کہ میں تمھیں کھونا نہیں چاہتی تھی، تمھارے بغیر میرا رہنا ممکن نہیں تھا، مجھے ڈر لگا کہ اگر میں نے تم سے مسلمان ہونے کا مطالبہ رکھا تو تمھارے گھر والے قبول نہیں کریں گے اور پھر تم بھی گھر والوں کی مرضی کے خلاف نہیں کر سکتے میں نے کہا اگر تمھیں مجھ سے سچ مچ میں پیار تھا، تو اور بھی مجھے مجبور کرنا چاہئے تھا، اس لئے کہ ہر آدمی اپنے دھرم کو سپیریر (Superior)سمجھتا ہے، تو جس سے محبت ہو اس کو سپیریر بنانے کی کوشش کرنی چاہئے، میں نے معلوم کیا کہ کیا تم اپنے دھرم اسلام کو ہندو دھرم سے اچھا نہیں سمجھتیں، اس نے کہا کہ سپیریر اور اچھا ہی نہیں بلکہ دھرم سے زیادہ تعلق نہ ہونے کے باوجود ہمارے گھر کا بچہ بھی صرف اسلام کو دھرم اور دین سمجھتا ہے، باقی دھرموں کو ہم لوگ دھرم ہی نہیں سمجھتے، آپ کے ساتھ ہندو بن گئی ہوں مگر میں ہندو دھرم یا اسلام کے علاوہ عیسائی، بدھ، سکھ ازم کو دھرم ہی نہیں سمجھتی بلکہ وہ تو دھرم سے وچلت بگڑے طریقے ہیں، میں نے کہا اصل میں رجنی مجھے مسلمانوں میں جو۲۴ نمبر وہابی لوگ ہوتے ہیں، ان کا دھرم جنیون(Genuine، اصلی)  اور پرچلت سا لگتا ہے، شیعوں اور بریلی والوں نے تو اصل میں ہندو دھرم سے دھرم کو پروفیشن بنایا اور اس کا کمرشیلائیزیشن کر کے چوں چوں کا مربہ بنا دیا ہے، رجنی اس پر ذرا چڑ گئی۔
 ہم لوگ واپس بلاس پور پہنچے، میں نے جا کر گھر والوں سے بحث کرنا شروع کر دی میرے تاؤ بہت دھارمک تھے، ان سے بھی مورتی پوجا اور دھرم کے نام پر دھندا کرنے کے لئے خوب بحث کی انھوں نے کہا نہیں، ہندو دھرم ایک سمندر ہے جس میں ہزاروں ندیاں ملتی ہیں، جس کامن جس ندی سے ملے وہ وہاں کا پانی پئے، تمھارا من مورتی پوجا سے نہیں ملتا تو آریہ سماج میں جاملو، اور انھوں نے اپنے ایک دوست سے میری بات کرائی، جو آریہ سماج مندر کے سنچالک تھے، میں ان کے یہاں گیا، چار پانچ مہینے انھوں نے مجھے آریہ سماج کا لٹریچر پڑھوایا، مگر مجھے ایسا لگا کہ ہندو دھرم سے بھاگنے والوں کے لئے بس ایک جال بنایا گیا ہے، اور میرے من کو ایسا لگا کہ یہ لوگ خود سیٹسفائی (Satisfy، مطمئن )نہیں ہیں۔
ان سے بھی مورتی پوجا اور دھرم کے نام پر دھندا کرنے کے لئے خوب بحث کی انھوں نے کہا نہیں، ہندو دھرم ایک سمندر ہے جس میں ہزاروں ندیاں ملتی ہیں، جس کامن جس ندی سے ملے وہ وہاں کا پانی پئے، تمھارا من مورتی پوجا سے نہیں ملتا تو آریہ سماج میں جاملو، اور انھوں نے اپنے ایک دوست سے میری بات کرائی، جو آریہ سماج مندر کے سنچالک تھے، میں ان کے یہاں گیا، چار پانچ مہینے انھوں نے مجھے آریہ سماج کا لٹریچر پڑھوایا، مگر مجھے ایسا لگا کہ ہندو دھرم سے بھاگنے والوں کے لئے بس ایک جال بنایا گیا ہے۔
 اس بیچ میں نے بدو سے اسلام پر لٹریچر لانے کو کہا، وہ ناگ پور سے مولانا عبدالکریم پاریکھ صاحب کی کچھ پستکیں(کتابیں) لے کر آیا اور اس نے مجھے نیٹ پر سرچ کرنے کو کہا، یہ بات میری بھی سمجھ میں آئی، میں نے مولانا طارق جمیل صاحب کی تقریریں سنیں، اس کے بعد پیس ٹی وی دیکھنا شروع کیا، اس بیچ میں نے بنگلور میں اپنی کمپنی کی ایک برانچ کھولی، ہمارے ایک کسٹمر حاجی رفیق صاحب نے اپنے داماد سے ملوایا، جو آئی ٹی انجینئر ہیں، اور ایک اور کمپنی کے بڑے افسر ہیں، وہ تبلیغی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں، انھوں نے پہلی میٹنگ میں مجھ سے کہا ”ریلیجن (Religion، مذہب )کے بارے میں آپ کا یہ حال کہہ رہا ہے کہ اوپر والا آپ کو حق کی طرف بلا رہا ہے، اور جب وہ خود بلا رہا ہے تو پھر اِدھر اُدھر بھاگنے سے کیا فائدہ ؟“
انھوں نے اپنے محلّہ سے فون کر کے ایک آٹو رکشہ والے سلیم میاں کو بلایا، سلیم نے مجھے سیدھے اسلام کی دعوت دی، اور آپ کے ابی کی کتاب ’’آپ کی امانت آپ کی سیوا میں ‘‘، نراشنس اور انتم رشی، اور کے ایس راما راؤ کی کتاب اسلام کے پیغمبر محمد صاحب ﷺ تین پمفلٹ دئیے، میں نے کہا یہ لٹریچر پڑھ لوں، پھر کل بات کرتے ہیں، سلیم میاں مجھے فورس کرتے رہے، کہ کل سے پہلے ہم دونوں مر گئے تو کیا ہو گا، میں نے کہا اگر مر گئے تو اوپر والا جانتا ہے کہ ہم کھوج تو کر رہے ہیں، ان پمفلٹ کو پڑھ کر میرا ذہن بالکل صاف ہو گیا، کہ اصل دین اسلام ہے، اور یہ سب دھرم کے نام پر دکانیں چلانے والوں کی بگڑی شکلیں ہیں، اگلے روز دس بجے سلیم میاں آٹو لے کر آ گئے، اور بولے میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں نے آپ کو کلمہ پڑھا دیا ہے، اور آپ کا نام میں نے وسیم رکھا ہے، اور اپنے حضرت مولانا محمد کلیم صاحب سے ملوایا ہے وہ جو آپ کی امانت کے رائٹر ہیں۔ خواب دیکھ کر مجھے یقین ہو گیا کہ آپ کے کلمہ پڑھنے کا وقت آ گیا ہے، اس کے بعد سلیم میاں نے مجھے کلمہ پڑھوایا اور رات کو مرکز ہفتہ واری اجتماع میں جانے کا مشورہ دیا، مرکز میں انھوں نے مجھے اپنے بڑے ابا ڈاکٹر شکیل صاحب سے ملوایا جو پرانے جماعت کے لوگوں میں ہیں، انھوں نے بڑی محبت سے مجھے گلے لگایا، الگ کمرہ میں بٹھا کر چائے پلائی اور مجھے چار مہینے جماعت میں جانے کا مشورہ دیا، اور میری فوراً چالیس دن کی تشکیل کر لی، اگلے اتوار سے جماعت نکل رہی تھی، میں جماعت میں چلا گیا، جماعت علی گڑھ شہر میں گئی۔ علی گڑھ جماعت میں میرا وقت بہت اچھا لگا اور وہاں کے جماعت کے ذمہ داروں سے میری ملاقات ہوئی، جس سے اسلام میرے لئے بالکل پیدائشی مذہب بن گیا، جماعت سے واپس آ کر میں ایک مولانا عقیل صاحب کو جو آئی ٹی میں بی ٹیک بھی تھے، اسلام پڑھنے کے لئے بنگلور آفس سے رائے پور لے آیا، ان سے اردو عربی پڑھنا شروع کی، پہلے انھوں نے مجھے قرآن شریف پڑھایا۔ 
س:آپ کی بیوی کا کیا ہوا؟
ج:کلمہ پڑھ کر میں نے رضوانہ سے مسلمان ہونے کو کہا۔ ان کے لئے اس سے بہتر کیا تھا، میں نے مسجد سے امام صاحب کو بلا کران کو کلمہ پڑھوایا، اور انھوں نے ہمارا نکاح بھی کرایا، اب ہم رضوانہ کی اپنی ماں سے فون پر کبھی کبھی بات کرنے لگے، اور وہ اپنے بیٹے کولے کر رائے پور ہمارے گھر آئیں، ہم لوگوں نے ان کو بہت اچھی طرح رکھا، اور ان کی بہت خاطر کی، وہ میرے اخلاق سے بہت متأثر ہوئیں، سسرال والوں سے تعلق شروع ہو گئے، اور الحمدللہ میں نے پہلے اپنے چھوٹے سالے، شفیق میاں کی اور پھر بڑے سالے انیس بھائی کی چلہ کے لئے تشکیل کر لی، بعد میں ان کے والد نے پہلے تین دن لگائے، پھر چار مہینے لگائے، اور اللہ کا شکر ہے کہ ساری خرافات سے انھوں نے توبہ کی۔ 
س:آپ کے گھر والوں کی طرف سے مخالفت نہیں ہوئی ؟
ج: اللہ کا عجیب کرم ہوا، رائے پور کا ایک خاندان اپنی گاڑی سے دہلی مولانا سے ملنے ان کے گلوبل پیس سنٹر دہلی آیا، کسی مہاراشٹر کے مولانا نے ان کو ”یا ہادی یا رحیم“ ٹرین میں پڑھنے کے لئے بتایا تھا، یہ لوگ کافی دنوں سے وہ پڑھ رہے تھے، ان کی کتنی ہی مشکلیں اللہ نے حل کر دی تھیں، ان میں سے ایک صاحب ہمارے پتاجی کے کارخانہ میں منیم تھے، یہ سب لوگ یہاں سے کلمہ پڑھ کر گئے، اور ہمارے پتاجی سے وہاں کی بڑی تعریف کی، ہمارے پتاجی نے ایک کے بعد ایک، چھ کارخانے لگائے، مگر ذرا کام چلتا اچانک کوئی ایکسیڈنٹ ہو جاتا، اور ایسا بڑا کوئی حادثہ ہوتا کہ کارخانہ بند کرنا پڑتا، ہمارے تاؤ جی نے ایک سیانے کو بلایا تو اس نے بتایا کہ کسی نے کاروبار پر کرنی کرا رکھی ہے، اس کے لئے ہمارے منیم جی جے پرکاش مشرا جن کا پہلا نام تھا، اب ان کا نام حضرت نے عبداللہ رکھا تھا، انھیں دہلی گلوبل پیس سنٹر جا کر مولانا صاحب سے ملنے کا مشورہ دیا، پتاجی نے پروگرام بنایا، وہاں پر مولانا دلشاد اور پادری بلال سے ان کی ملاقات ہوئی، ایک رات وہ وہاں رہے، اور صبح کو میرے اللہ کا کرم ہے انھوں نے کلمہ پڑھ لیا، حضرت سے ان کی ملاقات دوسرے روز تھوڑی دیر ہو سکی، کہ حضرت کو ایک سفر سے آ کر دوسرے سفر پر جانا تھا، حضرت نے میرے والد کو جماعت میں جانے کا مشورہ دیا، وہ بلاس پور پہنچے، میں ان سے ملنے گیا، تو یہ معلوم ہو کر میرے سرپرائز کا کچھ ٹھکانہ نہ رہا کہ میرا سب سے اہم کام ہو گیا تھا، اگلے مہینہ بھوپال کا اجتماع تھا، رائے پور سے ایک جماعت اجتماع میں شرکت کے لئے جا رہی تھی، میں نے پتاجی کو بلایا، اور ان کو اجتماع میں لے گیا، وہاں سے چالیس دن کی جماعت میں وہ چلے گئے، مگر جماعت یوپی میں آگرہ گئی، جہاں کی سردی میں ان کا حال خراب ہو گیا اور وہ سخت بیمار ہو گئے، اور دس دن میں واپس آ گئے، بعد میں ان کوکسی نے مشورہ دیا کہ جماعت سے درمیان سے آنے والوں کو زندگی بھر مشکل سہنی پڑتی ہے٭ اس لئے وہ دوبارہ مارچ میں جماعت میں گئے، الحمدللہ۔ اس کے بعد میری چھوٹی بہن اور ماں بھی مسلمان ہو گئیں ۔ 
س:ان لوگوں نے اپنا اسلام ظاہر کر دیا؟
ج:میرے والد بہت بہادر اور نڈر آدمی ہیں۔ انھوں نے دہلی سے آتے ہی اعلان کر دیا، ہمارے علاقہ میں دور دور تک کوئی مسلمان نہیں ہے، مگر وہ ذرا نہیں ڈرے، بلکہ انھوں نے اپنے گھرکے ایک ہال کمرہ کو خاص کر کے اس میں اذان اور نماز شروع کر دی، اور گوالیر سے ایک حافظ صاحب کو بلاکر امام بھی رکھ لیا، بعد میں، میں نے نسیم ہدایت کے جھونکے کتاب سنی، تو ان کو ہندی میں لا کر دی، اس کے بعد ان کو دعوت کی دھن لگ گئی، ڈیڑھ سال میں ان کی کوشش سے ۳۶ ؍لوگ مسلمان ہوئے، ان کو شوگر اور بلڈ پریشر۱۵ ؍سال سے تھا، اچانک ایک دن ان کے سر میں درد ہوا، اور وہ بے ہوش ہو کر کوما میں چلے گئے، بلاس پور کے بڑے اسپتال میں ان کو دکھایا گیا، بعد میں رائے پور ریفر کیا گیا، مگر سرکی جانچ وغیرہ ہوئی تو معلوم ہوا کہ ان کی دماغ کی نس پھٹ گئی ہے، اور فوراً علاج نہ ہونے کی وجہ سے دماغ کا ایک حصہ خراب ہو گیا ہے، ایک ہفتہ اسپتال رہ کران کا انتقال ہو گیا۔ 
س:ان کی تدفین اسلامی طریقہ پر ہوئی ؟
ج:خاندان کے کچھ لوگوں نے چاہا کہ ان کو جلایا جائے، مگر میری ممی نے ایس پی کو فون کر دیا اور کہا کہ میرے پتی مسلمان ہو کر مرے ہیں، اگر ان کو جلایا گیا تومیں جل کر مر جاؤں گی ایس پی صاحب نے فورا ایکشن لیا اور ان کی گاؤں میں ہی نماز اور تدفین ہوئی، الحمدللہ ۔
س:آپ کے بچے نہیں ہوئے ؟
ج:ہاں ہیں، دو بچے مریم اور عیسیٰ دونوں رضوانہ کے ساتھ اندر آپ کے گھر میں ہیں۔ 
س:ارمغان کے قارئین کو آپ کوئی پیغام دیں گے ؟
ج:آج کی دنیا میں عقل اور علم کا زمانہ ہے، سائنس کا دور ہے، سائنٹفک ذہن رکھنے والی انسانیت کو اسلام ہی بھا سکتا ہے، بس ہمیں دھرم کے نام پر ادھرم کے ظلم میں دبے، اور مذہبی کاروبار میں قید انسانوں کو اسلام کا آئینہ دکھانا ہے، شرط یہ ہے کہ وہ قرآن مجید کا اسلام ہو، اور توحید و سنت اس کی بنیاد ہو، ایسا ہو نہیں سکتا کہ آدمی اسلام کے سایہ میں نہ آئے، مگر ہم اپنی ذمہ داری ادا نہیں کر رہے ہیں ا ور دور دور سے ڈر رہے ہیں۔ 
س:بلاشبہ !آپ بالکل سچ کہتے ہیں، جرم ہمارا ہی ہے، بہت بہت شکریہ، جزاک اللہ، السلام علیکم!
ج: وعلیکم السلام، شکریہ تو آپ کا آپ نے مجھے اپنی مبارک کڑی میں جوڑ لیا۔ ٭
٭٭٭

     

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں