جمعرات، 14 فروری، 2019

ایک چیلنج

”سربکف “مجلہ۶(مئی، جون ۲۰۱۶)
عبد الرشید قاسمی سدھارتھ نگری ﷾

مشہور اہل حدیث عالم اور مصنف مولانا محمد ابو الحسن سیالکوٹی مرحوم اپنی کتاب "الظفر المبین فی رد مغالطات المقلدین" کے صفحہ 40 پر مغالطہ نمبر 3 کے تحت قیاس کی حرمت اور عدم مشروعیت کا فتوی دینے کے بعد صفحہ 43 پر مغالطہ نمبر 4 کے جواب میں لکھتے ہیں کہ:
”اگر کوئی شخص غور سے از راہ تحقیق قرآن اور حدیث کی طرف نظر کرے اور دیکھے تو ہر ایک مسئلہ قرآن اور حدیث سے معلوم ہوسکتا ہے ـ کسی مسئلہ کے لئے بھی کسی کو مسائل فقہیہ کی حاجت (ضرورت) نہیں رہے گی۔ “
(الظفرالمبین حصہ اول)
یہاں ہمیں اس سے بحث نہیں ہے کہ قیاس حجت اور دلیل ہے یا نہیں؟
اگر حجت ہے تو اس کے دلائل کیا ہیں؟
اور اگر حجت نہیں ہے تو اکثر علماء غیر مقلدین کیوں اپنی کتابوں میں قیاس کو چوتھی دلیل اور حجت تسلیم کرتے ہیں؟
نہ اس سے بحث ہے کہ جو علماء غیر مقلدین قیاس کو اپنی کتب میں حجت مانتے ہیں، ان کی بات صحیح ہے یا آپ کی؟
نہ یہ وضاحت کرنی ہے کہ اکثر علماء غیر مقلدین قیاس کو بوجہ مجبوری حجت مانتے ہیں، یا لوگوں کو فریب میں مبتلاء کرنے کے لئے؟
اور...
 نہ آپ سے یہ پوچھنا ہے کہ جب قرآن و حدیث کی طرف از راہ تحقیق دیکھ لینے سے مسائل فقہیہ کی حاجت نہیں رہتی تو بقول آپ کے محدث گوندلوی (رحمہ اللہ)، شیخ الکل فی الکل میاں نذیر حسین محدث دہلوی کے فتاوی کا اکثر حصہ کیوں فقہ حنفی سے ماخوذ ہے؟
کیا شیخ الکل فی الکل کی نظر از راہ تحقیق قرآن و حدیث کی طرف نہیں تھی؟
اگر تھی تو فقہ حنفی کا سہارا لینے کی کیا ضرورت تھی؟ اور اگر نہیں تھی تو
پھر..... 
صرف یہ عرض کرنا ہے کہ جب بقول شما فقہی مسائل میں قیاس حجت اور دلیل نہیں، بلکہ حرام ہے، اور سارے پیش آمدہ مسائل قرآن و حدیث میں از راہ تحقیق نظر کرنے سے مل جائیں گے، تو زیادہ نہیں، ایک بھینس اور اس کے دودھ کی حلت ہی قرآن کریم کی کسی آیت یا کسی ایسی حدیث سے ثابت کر دیں جس میں قیاس کا قطعاً دخل نہ ہو ـ 
ہے کوئی مردِ مجاہد!!!
٭٭٭

     

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں