منگل، 12 فروری، 2019

رفض و شیعت کا موجد ابن سبا ایک یہودی

سربکف  مجلہ۴  (جنوری ، فروری ۲۰۱۶)۔
محسن اقبال  
شیعہ مذہب شروع سے لیکر حاضر تک اسلام اور مسلمانوں کے لئے مشکلات پیدا کرتا آرہا ہے کبھی شیعان علی کے نام پر کبھی قصاص حسین رضی اللہ عنہ کے نام پر ، کبھی منگول حکمرانوں سے ملکر تو کبھی صلیبیوں سے مل کر۔ اس تحریر کا مقصد  شیعہ  مذہب کے موجد انکے محسن اعظم ابن سبا کے بارے میں آپ تک معلومات پھنچانا ہے اور یہ تحریر اسلامک فورم پر پمارے بھائی ابن حسین کی تحریر کا ترجمہ ہے جو انہون نے گفٹ ٹو شیعہ بلاگ  پر اپلوڈ کی تھی اس میں کچھ ہماری محنت بھی شامل حال رہے گی۔اگر کسی بھی قسم کی خلاف توقع بات ملے تو براء کرم اصل آرٹیکل کی طرف رجوع کریں ہوسکتا ہے ترجمہ میں غلطی ہوئی ہو۔
شیعوں کے ویسے تو بہت ہی فرقے ہیں لیکن تاریخ میں ان کی تقسیم صرف تین ۳ گروہوں میں کی گئی ہے جو کہ ان کے عقائد کی بنیاد پر ہے ۔ جس میں تفضیلی شیعہ ، امامیہ شیعہ اور غالی رافضی (جو کہ علی رضی اللہ عنہ  کے بارے میں الوہیت کا دعوی رکہتے ہیں شامی دکٹیٹر بشار الاسد اسی گروپ سے تعلق رکہتا ہے  )
عبداللہ بن سبا کے بارے مین شیعہ و سنی تواریخ میں بہت کچھ پایا جاتا ہے جو کہ ایک تواتر کی حد سےبھی زیادہ ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ شخص واقعی میں حقیقت ہے نہ افسانہ جیسے آج کل کے شیعہ اس افسانہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں پر اس سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس شخص کو ہی آخر شیعہ عقائد کا موجد کیوں کہا جاتا ہے۔
ملا مجلسی بحار الانوار میں لکھتا ہے:
علامہ مجلسی لکھتے ہیں
وذكر بعض أهل العلم أن عبد الله بن سبا كان يهوديا فأسلم ووالى عليا عليه السلام وكان يقول وهو على يهوديته في يوشع بن نون وصي موسى بالغلو فقال في إسلامه بعد وفاة رسول الله صلى الله عليه وآله في علي عليه السلام مثل ذلك. وكان أول من أشهر بالقول بفرض إمامة علي عليه السلام وأظهر البراءة من أعدائه وكاشف مخالفيه وأكفرهم
بعض اہل علم نے ذکر کیا ہے کہ عبداللہ  ابن سبا یہودی تھا اسلام لے آیا اور پھر حضرت علی کی ولایت کا قائل ہوا۔ اس پہلے جب یہ یہودی تھا تو حضرت یوشع کے بارے میں غلو کرتا تھا کہ وہ موسی کے وصی ہیں۔ اسلام لانے کے بعد اس قسم کی بات حضرت علی کے بارے میں کی۔ یہ سب سے پہلا شخص ہے جس نے حضرت علی کی امامت کا قائل ہونا فرض ہے اور ان کی دشمنوں پر اعلانیہ تبرا کیا۔اور مخالفوں کو کافر کہا (بحارالنوار صفحہ 287 جلد 25)۔
عبداللہ بن سبا سے پہلے کے لوگ تقیہ سے کام لیتے تھے اور ان امور کو (وصایت ، امامت ، افضلیت علی رضی اللہ عنہ ) کو اعلانیہ نہیں کہتے تھے لیکن اس نے تقیہ چھوڑ دیا اور ان باتوں کو اعلانیہ ذکر کرنا شروع کر دیا۔ مخالفین امامت کو کافر کہنا بھی پہلے اس نے شروع کیا۔ ( بحار النوار ص 287  جلد 25  حاشیہ)۔
حضرت صادقؒ  اس کے بارے میں فرماتے ہیں:
رجال الكشي: محمد بن قولويه عن سعد عن ابن يزيد ومحمد بن عيسى عن علي بن مهزيار عن فضالة بن أيوب الأزدي عن أبان بن عثمان قال: سمعت أبا عبد الله عليه السلام يقول: لعن الله عبد الله بن سبا إنه ادعى الربوبية في أمير المؤمنين۔
عبداللہ بن سبا پر اللہ کی لعنت ہو اس نے امیر المومنین کے بارے میں ربوبیت کا دعوی کیا۔ (بحارالانوار جلد 25 ص 287)
ان روایات سے جو بات ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ شیعوں کے تینوں ہی فرقوں کی بنیاد اسی ایک شخص کے عقائد پر ہے۔  تفضلیوں نے اس کی افضلیت علی رضی اللہ عنہ  کا عقیدہ اپنایا ، امامی شیعوں نے افضلیت علی رضی اللہ عنہ، امامت،تبرہ بازی کے عقائد کو مل کر اپنایا ، پھر غالیوں نے اس کے الہویت علی کے عقیدہ کو اپنایا چناچہ مجموعی طرح سب شیعہ عقائد کا موجد یہی ہے۔
عبداللہ بن سبا ایک یہودی جو کہ شیعوں روحانی باپ ہے
یہ مضمون تین حصوں میں تقسیم شدہ ہے جو کہ یہ ہیں:
1۔ایک نئی بات ابن سبا کے ہونے کا مکمل انکار جو کہ آج کل کے شیعہ علماء زور و شور سے پروپیگینڈہ کرتے ہیں
2۔ ابن سبا یہودی شیعہ کتب میں ایسی حقیقت جس کا بہت سے شیعوں کو علم نہیں
3۔ شیعوں کا اعتراض کہ ابن سبا تو ہے لیکن مذہب امامیہ کا موجد،  یہ نہیں ہے

تمام شیعہ و سنی اہل حق  عبداللہ بن سبا کے ہونے پر متفق ہیں (البتہ شیعہ اس بات کا انکار کرنے کی کوشش کرتے آرہے ہیں کہ رافضی مذہب کی بنیاد ایک یہودی کے عقائد پر ہے) یہاں تک کہ مستشرقین جن میں برنارڈ لیوس ، جولیس ویلحاسن ، فرائیڈلینڈر ، اور کیٹانی لیون شامل ہیں جنہوں نے ابن سبا کے ہو نے پر اعتراضات کرنے شروع کر دئے جن کی بنیاد طحہ حسین ، کامل حسین ، عدنان ابراہیم جیسے جاہلوں کے کام پر ہیں چناچہ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ شیعوں نے اپنے اباء اجداد سے اختلاف کرتے ہوئے اس کو اپنا لیا کہ ابن سبا ایک افسانہ ہے جس کی بنیاد بنی امیہ کے حکمرانوں کی کارستانی ہے جس کا مقصد شیعت کو نقصان پھنچانا تھا اس کی تائید کرنے والوں میں مرتضی عسکری اور کشف الغیتا وغیرہ شامل ہیں حالانکہ 1300 ہجری 1900 ع  سے پہلے اس پر کوئی جھگڑہ نہیں تھا کہ ابن سبا نہیں ہے۔ اس کے بعد کے شیعوں نے جب مستشرقین کو دیکہا کہ وہ ابن سبا پر اعتراض کر رہے ہیں تو انہوں نے یہ کہنا شرو ع کردیا کہ ابن سبا ایک افسانہ ہے یہ ایک ہی حل تھا (جو انہوں نے عیسائیوں اور یہودیوں سے لیا اور ثابت کیا کہ وہ یہودیون کے مرید ہین) جو کہ ان کے جہوٹے مذہب کو تنقید سے بچا سکتا تھا۔

جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ آج کل کے رافضی یہ بات مکمل رد کرتے ہیں کہ عبدا للہ بن سبا یمنی یہودی کے نام سے کوئی آدمی ہے وہ دعوی کرتے ہیں کہ یہ افسانہ بنی امیہ کا گھڑا ہوا ہے جس کا مطلب شیعت کو نقصان پہنچانا اور صحابہ کے جرائم کی پردہ پوشی کرنا تھا انہوں نے اس پر کتب بھی لکہیں ہیں ان سب میں مشہور مرتضی عسکری کی کتاب ہے جس کا نام ہے عبداللہ بن سبا  ہے اس کی کتاب کے بہت زبانوں میں ترجمہ ہوا ہے اور اس کا مکمل رد کیا گیا ہے اب ہم اپنے ٹاپک کے پہلے حصہ کی طرف چلتے ہیں۔

حصہ اول 
ایک نئی بات ابن سبا کے ہونے کا مکمل انکار جو کہ آج کل کے شیعہ علماء زور و شور سے پروپیگینڈہ کرتے ہیں۔
شیعوں کا اعتراض : ابن سبا ایک افسانہ ہے جو کہ بنی امیہ کا گہڑا ہوا ہے جس راوی صرف ایک ہے سیف بن عمر التمیمی جو کہ خود اہلسنت کے ہاں بھی جھوٹاہے۔
جواب:
ہم اللہ تعالی کی مدد سے یہ بات ثابت کریں گے کہ سنی روایات میں صرف سیف بن عمر سے اس کے بارے میں روایات نہیں دوسری سندو ں سے بھی ہیں۔حقیقت میں یہ ایک افسانہ ہے جو کہ آج کل کے شیعوں نے گہڑا ہے مثال کے طور پر انٹرنیٹ پر شیعوں کی مشہور ویب اسلام ڈاٹ او آر جی  میں لکھا ہے۔

“عبداللہ بن سبا کی کہانی ایک شیطان کے پیروکار سیف بن عمر تمیمی کی گہڑی ہوئی ہے ابن سبا وقت نہ تو تھا اور نہ ہی سیف بن عمر کے وہم و گمان میں تھا۔“
جہاں تک کچھ روایات میں اس کے ہونے کی بات ہے تو اس میں بلکل ہی مختلف کہانی بتائی گئی ہے جو کہ سیف بن عمر کے ہر الزام سے مختلف ہے جس میں ایک ایسی آدمی کی تصویر دکہائی دیتی ہے جس سے اہل بیت نے برات کا اظہار کیا اور اس سے بھی جو وہ امام علی کے نام پر کرتا تھا  ہمارے امام ، ہمارے علماء اور شیعہ اس پر لعنت بھیجتے ہیں اگر وہ ہے تو وہ بدمذہب تھا اس کے او ر ہمارے بیچ میں کوئی بات ایک جسی نہیں ہے سواء اس کے کہ ہم اس کو لعنت کرتے ہیں اور ہر اس کو بھی جو اہل بیت کو دیوتا مانتا ہے۔”
اب ہم  ان شیعوں کے مخلتف دعوی کو دیکھتے ہیں جس کے بنیاد پر وہ ابن سبا کے ہونے کا انکار کرتے ہیں۔

اول: ایسی روایات جو کہ سیف بن عمر کے علاوہ مروی ہیں ان میں ابن سبا کی مختلف تصویر ہے جو کہ سیف بن عمر سے مختلف ہے اور اس میں اور شیعون میں کو ئی چیز یکساں نہین
دوم : سیف بن عمر نے ہی اس کو ایجاد کیا جس کو سنی محدیثین نے بھی ضعیف کہاہے

اول : ایسی روایات جو کہ سیف بن عمر کے علاوہ مروی ہیں
پہلی روایت:
جاء في ( طوق الحمامة ) ليحيى بن حمزة الزبيدي عن سويد بن غفلة الجعفي الكوفي المتوفى عام (80هـ/699م) أنه دخل على علي-رضي الله عنه- في إمارته، فقال: إني مررت بنفر يذكرون أبا بكر و عمر بسوء، ويروون أنك تضمر لهما مثل ذلك، منهم عبد الله بن سبأ، فقال علي: مالي ولهذا الخبيث الأسود، ثم قال : معاذ الله أن أضمر لهما إلا الحسن الجميل، ثم أرسل إلى ابن سبأ فسيره إلى المدائن، ونهض إلى المنبر، حتى اجتمع الناس أثنى عليهما خيرا، ثم قال : إذا بلغني عن أحد أنه يفضلني عليهما جلدته حد المفتري –
الهي ظهير، إحسان، السنة والشيعة، نشر إدارة ترجمة السنة- الهور.
ترجمہ: یحی بن حمزہ زبیدی سوید بن غفلہ ال جعفی سے روایت کرتا ہے کہ وہ علی رضی اللہ عنہ  کے پاس  داخل ہوا اورا نہین کہا کہ میں کچھ لوگوں کے پاس سے گذرا جس میں عبداللہ بن سبا بھی تھا وہ ابی بکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں منفی باتیں کر رہے تھے اور کہ رہے تھے کہ آپ رضی اللہ عنہ کے دل میں ان کے خلاف احساس پایا جاتا ہے تو آپ نے کہا کہ یہ خبیث کالا آدمی مجھ سے کیا چاہتا ہے اللہ کی پناہ  مانگتا ہوں ان کے خلاف دل میں بات رکہنے سے  اور دونوں کے لئے ادب رکہتا ہوں اور آپ نے اس کو مدین کی طرف جلا وطن کردیا اور منبر پر تشریف لائے یہاں تک کہ لوگ جمع ہوگئے آپ نے ابی بکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ کی تعریف کی اور کہا کہ اگر یہ بات  مجھے پہنچی کہ مجھے ان دونوں پر فضلیت دی جاتی ہے تو میں اس کو کوڑے لگائوں گا جیسے وہ جھوٹوں کو لگاتے تھے۔

حقیقت میں یہ روایت مختلف سندوں سے بیان کی گئی ہے جو کہ صحیح ہیں جیسے:
ابو اسحاق الفرازی سیرہ میں یہ روایت نقل کرتے ہیں شعبہ سے وہ سلمہ بن کھیل سے وہ ابو الزراہ سے وہ زید بن ھباب سے ۔ خطیب نے اس روایت کی تخریج الکفایہ ص 376 پر کی ہے اور کہا ہے کہ ابو عبداللہ البوشانجی نے اسے صحیح کہاہے ، ابو نصر محمد بن عبداللہ الامام نے اپنی شرح میں کہا ہے یہ روایت دوسری سندوں سے بھی ثبت ہے اور اس کا اخری حصہ ابو بکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ امت کے میں سب سے بہترین ہیں جو کہ خود علی رضی اللہ عنہ نے کہا ہے یہ متواتر ہے۔
اور اہل بیت کی مشہور افراد سے بھی ایسا ہی روایت کیا گیا ہے  علی رضی اللہ عنہ سے ۔ زید بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب  جو کہ علویوں کے رہنما تھے ہشام کے دور میں ، کوفیوں نے ان سے ان کے دادا حسین کی طرح دہوکا کیا جب انہوں نے ابو بکر و عمر رضوان اللہ  کے خلاف شھادت دینے سے انکار کردیا  اس کے بعد وہ بنی امیہ کے لشکر کے ہاتھوں شہید ہوئے۔

طلبة الرافضة من زيد ابن علي التبرؤ من أبو بكر و عمر فقال: إنهما وزيرا جدي, فقالوا له: إذا نرفضك, فقال لهم: إذهبوا فأنتم الرافضة
رافضیوں نے زید بن علی جب وہ خروج کئے ہوئے تھے سے کہا کہ ان کو ابوبکر و عمر رضوان اللہ سے جو محبت ہے وہ ترک کرنی پڑی گی تو انہون  نے کہا وہ میری نانا جان کے ساتھی تھے تو ان شیعوں نے کہا پھر ہم آپ کا انکار کرتے ہیں انہوں کہا جاؤ تم سب آزاد اے رافضیو۔
(طعان رافضۃ فی اصحابۃ الرسول ص 17 ابو نصر محمد بن عبداللہ الامام اور انہون نے اسے صحیح کہا ہے)
یہی روایت شیعہ کتاب میں بھی ملتی ہے
زید بن علی بن حسین جو کہ شیعوں میں معزز سمجھے جاتے تھے ان سے ابو بکر و عمر رضوان اللہ کے بارے مین پوچھا گیا تو انہون نے کہا میں ہمیشہ ان کو اچھے الفاظ سے یاد کرتا ہوں اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت میں سے کسی کو بھی ان کی برائی کرتے نہین سنا  نہ تو انہون نے ہمارا حق چھہنا اور نہ ہی کسی شہری پر ظلم کیا وہ دنوں (ابوبکر و عمر رضوان اللہ) قرآن و سنت کے سختی سے پیروکار تھے یہ سن کر ان لوگون (شیعوں) نے کہا آپ پھر ہمارے ساتھی نہیں ہوسکتے  تو آپ نے کہا کہ تم لوگوں نے اس دن سے ہمیں چھوڑ دیا ہے اور آج کے بعد  تم  رافضی کہلاؤ گے۔
(ناسخ التواریخ جلد ۲ ص 590 یہ بک شیعوں کے ہاں مشہور ہے اور مستند مانی جاتی ہے جیسے کہ اعیان الشیعہ جلد 2 ص 132 پر اس کی توثیق ہے)
جعفر بن محمد الصادق اپنے والد سے وہ عبداللہ بن جعفر سے روایت کرتے ہیں کہ ابی بکر اصدیق اللہ کی ان پر رحمت ہو ہمارے خلیفہ بنے اور وہ اللہ کے بہترین خلیفہ تھے وہ ہم پر بہت مھربان اور ہمارہ خیال رکہنے والے تھے
(فضائل اصحابہ الدارقطنی ، الاصابہ ابن حجر ، المستدرک الحاکم )
الحاکم اور ذہبی اور ان کے ساتھ بن حجر اتفاق کرتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے
ابو عبداللہ جعفر بن محمد الصادق فرماتے ہیں کہ اللہ ان سے خود کو الگ کر لیتا ہے جو خود کو ابی بکر و عمر سے الگ کرتے ہیں
قال الذهبي : قلت: هذا القول متواتر عن جعفر الصادق، أشهد بالله إنه لبار في قوله غير منافق لأحد، فقبح الله الرافضة
امام ذہبی کہتے ہیں کہ یہ قول امام جعفر سے متواتر ہے اور میں اللہ تعالی کی قسم کہا کر کہتا ہوں کہ وہ اس میں سچے ہین تقیہ نہیں کر رہے خدا رافضیوں کی بد شکلی اور بڑہائی۔(سیار الاعلام النبلا جلد 6ص 260)

دوسری روایت:
أخرج ابن عساكر عن زيد بن وهب الجهني الكوفي المتوفى عام (90هـ/709م) قال: (قال علي بن أبي طالب: مالي ولهذا الخبيث الأسود-يعني عبد الله بن سبأ- و كان يقع في أبي بكر و عمر
ابن عساكر، مختصر تاريخ دمشق، مرجع سابق، م 12، ص 222
 زید بن وہب کہتے ہیں کہ علی ابن ابیطالب نے کہا کہ مجھے اس کالے خبیث کے ساتھ کیا کرنا چاہئے ان کا مطلب عبداللہ بن سبا تھا جو کہ ابی بکر و عمر کی برائی کرتا تھا۔
یہ روایت تاریخ ابن ابی خثیمہ میں بھی پائی جاتی ہے صحیح سند کے ساتھ
تیسری روایت:
 أخبرنا أبو محمد بن طاوس وأبو يعلى حمزة بن الحسن بن المفرج ، قالا: أنا أبو القاسم بن أبي العلاء ، نا أبو محمد بن أبي نصر ، أنا خيثمة بن سليمان ، نا أحمد بن زهير بن حرب ، نا عمر بن مرزوق أنا شعبة ، عن سلمة بن كهيل عن زيد قال : قال علي بن أبي طالب : مالي ولهذا الحميت الأسود ؟ يعني عبد الله ابن سبأ وكان يقع في أبي بكر وعمر.
زید کہتے ہیں کہ علی ابن ابیطالب نے کہا کہ مجھے اس کالے خبیث کے ساتھ کیا کرنا چاہئے ان کا مطلب عبداللہ بن سبا تھا جو کہ ابی بکر و عمر کی برائی کرتا تھا۔
اس حدیث کی سند اچھی ہے جو کہ ثقہ راویون سے آئی ہے۔

چوتھی روایت:
 أخبرنا أبو المظفر بن القشيرى ، أنا أبو سعد الجنزروذى ، أنا أبوعمر ابن حمدان ، وأخبرنا أبو سهل محمد بن إبراهيم بن سعدويه ، أنا أبو يعلى الموصلي ، نا أبو كريب محمد بن العلاء الهمداني , نا محمد أبن الحسن الأسدى ، نا هارون بن صالح الهمداني ، عن الحارث أبن عبد الرحمن عن أبي الجلاس ، قال : سمعت عليا يقول لعبد الله السبئي : ويلك والله ما أفضي إلي بشيء كتمه أحداً من الناس ، ولقد سمعته يقول : أن بين يدي الساعة ثلاثين كذابا وإنك لا حدهم . قالا : وانا أبو يعلى ، نا أبو بكر بن أبي شيبة ، نا محمد أبن الحسن ، زاد أبن المقرىء الأسدي بإسناده مثله .
علی رضی اللہ عنہ نے ابن سبا سے کہا کہ تم پر افسوس ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایسا کچھ نہیں بتایا جو کہ انہون نے دوسروں سے مخفے رکہا ہو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ آج سے قیامت تک 30 جھوٹی ہونگے اور ان مین سے ایک تو ہے۔
 اس روایت کے کچھ راویوں پر تنقید ہائی جاتی ہے پر یہ روایت اور بھی بہت سندوں سے آئی ہے جو کہ مضبوط ہیں۔

پانچویں روایت:
أخبرنا أبو بكر أحمد بن المظفر بن الحسين بن سوسن التمار في كتابة ، وأخبرني أبو طاهر محمد بن محمد بن عبد الله السبخي بمرو ، عنه ، أنا أبو علي بن شاذان ، نا أبو بكر محمد بن عبد الله بن يونس أبو الأحوص عن مغيرة عن سماك قال : بلغ عليا أن ابن السواد ينتقض أبا بكر وعمر ، فدعا به ودعا بالسيف أو قال فهم بقتله فكلم فيه فقال : لايساكني ببلد أنا فيه ، قال : فسير إلى المدائن .

ابن سماک کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ تک یہ بات پہنچی کہ ابن اسود (ابن سبا کا نک نیم اسود معنی کالا کی ہیں وہ رنگ کا کالا تھا)  ابو بکر و عمر کے خلاف باتیں کرتا ہے تو انہون نے اس کو بلایا اور پھر تلوار بھی منگوائی پھر لوگون نے ان سی بات کی اس کے قتل کے بارے میں تو انہون نے یہ اور میں ایک جگہ پر نہیں رہ سکتے  پھر اس کو مدین جلاوطن کردیا۔
اس روایت کے سارے راوی ثقہ ہیں لیکن ابن سماک نے یہ روایت سیدہی علی رضی اللہ عنہ سے نہیں سنی۔

چھٹی روایت:
 أنبأنا أبو بكر محمد بن طرخان بن بلتكين بن يحكم ، أنا أبو الفضائل محمد أبن أحمد بن عبد الباقي بن طوق ، قال : قرىء على أبي القاسم عبيدالله ابن علي أبن عبيد الله الرقي ، نا أبو أحمد عبيد الله بن محمد أبن أبى مسلم ، أنا أبو عمر محمد بن عبد الواحد ، أخبرني الغطافي ، عن رجاله ، عن الصادق عن آبائه الطاهرين عن جابر قال : لما بويع علي خطب الناس فقام إليه عبد الله بن سبأ فقال له : أنت دابة الأرض ، قال فقال له : اتق الله ، فقال له : أنت الملك ، فقال له : اتق الله ، فقال له : أنت خلقت الخلق ، وبسطت الرزق ، فأمر بقتله ، فاجتمعت الرافضة فقالت : دعه وانفه إلى ساباط المدائن فإنك إن قتلته بالمدينة خرجت أصحابه علينا وشيعته ، فنفاه إلي ساباط المدائن فثم القرامطة والرافضة ، قال : ثم قامت إليه طائفة وهم السبئية وكانوا أحد عشر رجلا فقال أرجعوا فإني علي بن أبي طالب أبي مشهور وأمي مشهورة ، وانا أبن عم محمد صلي الله عليه وسلم فقالوا لا نرجع ، دع داعيك فأحرقهم بالنار ، وقبورهم في صحراء أحد عشر مشهورة فقال من بقي ممن لم يكشف رأسه منهم علينا : أنه إله ، واحتجوا بقول ابن عباس : ” لا يعذب بالنار إلا خالقها ” . قال ثعلب : وقد عذب بالنار قبل علي أبو بكر الصديق شيخ الإسلام رضي الله عنه وذاك أنه رفع إليه رجل يقال له : الفجأة وقالوا إنه شتم النبي صلي الله عليه وسلم بعد وفاته ، فأخرجه إلى الصحراء فأحرقه بالنار . قال فقال ابن عباس : قد عذب أبو بكر بالنار فاعبدوه أيضا.
علی رضی اللہ عنہ خطبہ دینے کے واسطے کہڑے ہوئے بیعت کے بعد عبداللہ بن سبا ان کے پاس آیا اور کہا کہ آپ دابہ الارض ہین آپ رضی اللہ عنہ نے کہا اللہ سے ڈرو پھر ابن سبا نے کہا کہ تم مالک ہو آپ نے کہا اللہ سے ڈرو اس کے بعد ابن سبا نے کہا کہ  آپ نے ہی مخلوق خلقی ہے اور اس کا رزق دیا ہے آپ رضی اللہ عنہ حکم دیا کہ اس کو قتل کیا جائے  تو رافضیو ں نے کہا کہ بہتر ہے آپ اسے مدین کی طرف جلاوطن کردیں نہین تو اس کے لوگ ہمارے خلاف بغاوت کریں گے۔

سنیون کی کتب میں چھ روایات ہیں کو کہ ایسی ہیں جو کہ سیف بن عمر کے علاوہ ہین شیخ سلیمان بن الحماد  نے ان روایات کی تخریج کی ہے اپنی کتاب عبد الله بن سبأ و أثره في أحداث الفتنة في صدر الإسلام  انہوں نے کل 8 روایات نقل کین ہیں جو کہ سیف بن عمر کی روایات کو مضبوط کرتی ہین اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سبائیوں کے عقائد اہل بیت سے منسوب کئے گئے ہیں۔

خلاصہ
ہم یہان اب آپ کو سمری پیش کرتے ہیں۔

سبائیت: علی رضی اللہ عنہ ابی بکر و عمر کے خلاف دلی دشمنی رکہتے تھے اس نے (ابن سبا) نے یہ عقائد علی کے بارے میں گھڑے اور کہا کہ وہ یہ اہل بیت کی محبت میں کر رہا ہے اور ان کے دشمنون کے خلاف نفرت کرنے کے لئے

شیعت و رافضیت: رافضیوں کے اکثر فروقے خاص طور پر امامیہ اثنا عشری وہی سبائیوں والا عقیدہ رکہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ کے دل میں ابو بکر و عمر اور دوسرے صحابہ سے دشمنی تھی علی ان سے نفرت کرتے تھے اور وہ اہل بیت کے دشمن ہیں  اور ان سے نفرت کرنا محبت کی نشانی ہے کیون کہ علی نے ان سے نفرت کی تھی

حقیقت (اسلام) : علی رضی اللہ عنہ نہ صرف ایسے عقائد سے برے تھے بلکہ آپ ایسے عقائد اللہ تعالی سے پناہ مانگتے تھے آپ ابن سبا کو قتل کرنے والے تھے اس کے ان عقائد کی وجہ سے جو وپ محبت اہل بیت کے نام پر کرتا تھا انہون ابن سبا کا منھن بند کیا اور ہر اس شخص کو کوڑوں  وارننگ دی جو ان کو ابو بکر و عمر سے افضل جانے۔

آپ نے دیکہ لیا کہ اس میں کوئی سچ نہیں کہ ابن سبا اور شیعہ کے عقائد مختلف ہیں رافضی ہر دور میں ابن سبا کے ان عقائد کو اپناتے رہے ہیں اور اس کی تشریع کرتے رہے ہین سو ابن سبا اور رافضیون ایک مضبوط رشتہ ہے ایک سنی عالم نے بجا فرمایا تھا
” رفض کی بنیاد یہود کے عقائد پر ہے “
ہمیں اپنے  الفاظ ٹھیک ٹھیک  ادا کرنے کی ضرورت ہے جب ہم کہتے ہیں کہ شیعت کا نعرہ ایک یہودی کا کا ایجاد کندہ ہے پر اصل میں ایسا نہیں شیعت ہر کسی ایک کی دعویداری نہین ہے اصل میں لفظ شیعت  تاریخ اسلام میں مخلتف معنی کے ساتھ استعمال ہوتا رہا ہے
امام ذہبی فرماتے ہیں کہ غالی شیعہ  سلاف (مسلمانوں کی پہلے تین نسلیں) کے دور میں انہیں کہا جاتا تھا جو کہ سیدنا عثمان ، سیدنا زبیر ، سیدنا طلحہ ، سیدنا معاویہ کے خلاف زبان درازی کرتے تھے اور ان کے خلاف بھی جو کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے لڑے تھے یا ان پر حملہ کیا تھا (المیزان 1أ118)
حافظ ابن حجر اپنے کتاب الھدی الساری کے مقدمے میں فرماتے ہیں
والتشيع محبة علي وتقديمه على الصحابة فمن قدمه على أبي بكر وعمر فهو غال في تشيعه
شیعت میں علی رضی اللہ عنہ محبت اور ان کی صحابہ پر افضلیت ہے  پر جو ان کو ابی بکر و عمر رضون اللہ سے افضل جانے وہ غالی شیعت ہے
مزید ہمارا یہ آرٹیکل پڑھیں
 اس سے بہت سے شکوک دور ہوتےہیں جسیے شیعہ کہتے ہیں سنیوں کی کتب میں شیعوں کی روایات پائی جاتی ہیں تو جو شیعہ اس دور میں تھے وہ آج کے اثنا عشری شیعوں جیسے نہین تھے اور نہ ہی وہ شیعت میں انتہا پسند تھے اس وقت کے شیعہ علی رضی اللہ عنہ کو ابو بکر و عمر رضون اللہ سے افضل مانتے تھے حالانکہ یہ خود سیدنا علی رضی اللہ عنہ ان دونوں کو خود سے افضل کہتے تھے ۔ شیعت ارتقا سے گذرتی ریی ہے اور آج کل جا کہ یہ اپنی اونچائی پر جا کہڑی ہے (جہاں سے سواء جہالت اور کچھ حاصل نہین ہونے والا) جس کو آج کل شیعہ مشہور کرتے رہتے ہین کہ ابو بکر و عمر رضوان اللہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے دشمان تھے اور صحابہ بھی ان کے دشمن تھے وہ بھی ان کے دشمن ہیں جو ان کو شیعوں کے عقیدہ کے مطابق نہیں مانتے ۔ شیعت آج کل وہی مشہور کر رہی ہے جو کہ ابن سبا نے کبھی دعوی کیا تھا اور جس کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ سختی سے رد کیا تھا اس لئے ابن سبا کو رافضیت کا روحانی باپ ہی کہا جائے۔
ہمارے الفاظ میں وہ نرمی یا مدافعانہ انداز شاید نہ ہو جس سے اہل سنت کے دشمن ہو سکتا ہے کہ فائدہ لیں لیکن ایک سمجھ رکھنے والا انسان یہ سمجھ سکتا ہے کہ میری اوپر والی بات یا اس آرٹیکل کا پیغام کہ شیعت کی بنیاد ابو بکر و عمر رضوان اللہ کی تکفیر اہل بیت کا عقیدہ نہیں ہے یہ ایک یہودی عقیدہ ہے جو کہ اہل بیت کے نام پر گہڑا گیا ہے جس کا گہڑنے والا ایک یمنی یہودی ہے۔
اب جبکہ شیعون کی داستان کا پول کہل گیا ہے تو کہتے ہین ایک شخصیت ابن سبا  جو کہ امویوں اور سیف بن عمر کی ایجاد ہے ۔ ہم آپ کو اس پر کچھ مزید آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔
شیعہ ویب السلام ڈاٹ او آر جی العسکری کے کتاب سے نقل کرتی ہے :
 It appears that al-Tabari was the first who reported the story of Ibn Saba from Sayf, and then other historians quoted al-Tabari in this regard.
”اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ الطبری (ابو جعفر ابن جریر طبری) پہلا شخض ہے جس نے ابن سبا کی کہانی سیف سے بیان کی ہے اور دوسرے تاریخ نویسوں نے اس کو پھر طبری سے نقل کیا ہے “

العسکری اور اس کے شیعہ حواری یہاں غلط بیانی کر رہے ہیں طبری سے 50 سال پہلے الثقفی نے الغارات لکہی جس میں اس نے ابن سبا کیا زکر کیا ہے۔
دخل عمرو بن الحمد وحجر بن عدي وحبة العوفي والحارث الاعور وعبد الله بن سبأ على أمير المؤمنين 
الغارات ص302
عمرو بن العمد و حجر بن عدی ، حبہ العوفی و عبداللہ بن سبا امیر المومنین کے پاس تھے۔
اس کے علاوہ ایک اور قدیمی حوالہ لفظ سبائی کا دیوان اشی حمدان ص 147    میں ملتا ہے اشی حمدان کی وفات 83 ھجری ابن جریر طبری تو 310 ہجری میں وفات پائی ان کے بیچ میں 230 سال ہوتی ہیں۔ وہ دیوان مختار الثقفی (شیعوں کا کافر بزرگ)  اور اس  کے ساتھیوں کے بارے میں لکھتا ہے:
شهدت عليكم أنكم سبئية وأني بكم يا شرطة الكفر عارف
”میں شہادت دیتا ہوں کہ  تم سبائی ہو ای کفر کے سپاہیو میں تمہیں اچھے طرح جانتا ہوں“
الاسلام ڈاٹ او آر جی لکھتی ہے:
 As for Sayf Ibn Omar having been declared a liar and a weak narrator by Sunni Hadithists themselves, al-islam org says:
Here, later on, I give the sayings of several leading Sunni scholars, who all confirmed that Sayf Ibn Umar was an untrustworthy person and his stories are void….
It is interesting to see that although al-Dhahabi (d. 748 AH) has quoted from the book of Sayf in his History, he has mentioned in his other book that Sayf as a weak narrator. In “al-Mughni fi al-Dhu’afa’” al-Dhahabi wrote:
“Sayf has two books which have been unanimously abandoned by the scholars.” 
al-Mughni fi al-Dhu’afa’, by al-Dhahabi, p292)
It’s not that he is a liar some of his narrations in History (hence Al-Dhahabi narrated from him history reports ONLY) are true but he is more of a story-teller as in he narrates the event without regard to accuracy of words.
Here are some examples:
Al-Nasa’i (d. 303 AH) wrote: “Sayf’s narrations are weak and they should be disregarded because he was unreliable and untrustworthy.”
– Yahya Ibn Mueen (d. 233 AH) wrote: “Sayf’s narrations are weak and useless.”
– Abu Hatam (d. 277 AH) wrote: “Sayf’s Hadith is rejected.” 

”جہاں تک سیف بن عمر کے کذاب و ضعیف ہونے کی بات جو کہ سنی محدیثین نے کہا ہے تو میں آپ کو بہت سے مایہ ناز سنی علماء کے اقوال حوالے دیتا ہوں جنہوں نے سیف بن عمر کو ضعیف کہا ہے اور اس کی روایات کو لینے سے منع کیا ہے۔
یہ بات انتہائی غور طلب ہے کہ امام ذہبی نے اسکی تاریخ کو اپنی کتب میں نقل کیا ہے پر انہوں نے اپنے دوسرے کتب میں کہا ہے کہ سیف ضعیف ہے مغنی الضعفاء میں امام ذہبی لکہتے ہیں
سیف کے پاس دو  کتابیں تھیں جس کو علماء نے چھورڑدیا ہے (المغنی ص 292)
یہ نہیں کہ وہ صرف کذاب ہے بلکہ کچھ روایات میں (جیسا امام ذہبی نے اس کی روایات نقل کی ہیں) وہ صحیح بھی ہے پر وہ صحیح وقعات بیان کرنے سے زیادہ کہانی نویس ہے یہاں کچھ مزید مثال بیان کیئے جاتے ہیں
امام نسائی کہتے ہیں کہ سیف کی روایات ضعیف ہیں اور وہ چھوڑ دینی چاہئے کیوںکہ وہ قابل اعتماد و ثقہ نہیں ہے
یحی بن معین کہتے ہیں سیف کی روایات ضعیف ہیں اور کسی کام کی نہیں ہیں
ابو حاتم کہتے ہیں کہ سیف کی حدیث کو رد کیا جائے“
یہ تھے چند امثال جو کہ العسکری  بہت زیادہ نقل کرنے کی کوشش کرتا ہے پر وہ کیوں  نہیں کرتا جو کہ سنی محدیثین کہا ہے جیسا کہ

ابن ابی حاتم لکھتے ہیں علماء نے سیف کی روایات کو ترک کیا ہے امام سیوطی کہتے ہیں کہ سیف کی صرف حدیث ضعیف ہے باقی تاریخ میں اس کی روایات قابل اعتماد ہیں جو وہ کہتا ہے اسے نقل کیا جا سکتا ہے ایسا بلکل بھی نہیں ہے جیسے شیعہ دعوی کرتے ہیں۔
ابن حجر عسقلانی تقریب تہذیب  1-344 میں کہتے ہیں تاریخ میں سیف عمدہ ہے۔
امام ذھبی میزان اعتدال 2-255 میں کہتے ہیں کہ وہ تاریخ میں عالم ہے۔
اسی سبب کے بنیاد پر علماء جن میں محمد صوبی حسن حلاق ، محمد بن طاہر البرزنجی ،شیخ یحی ابراہیم الیحی ، ڈاکٹر خالد الغایب شامل ہیں کچھ شرائط رکہی ہے جس کی بنیاد پر سیف بن عمر کی روایات کو لیا جائے (دیکہئے تاریخ طبری صحیح وضعیف)
1۔سیف جو کہے اس کی بنیاد کسی حدیث کی مستند کتاب میں پائی جاتی ہو اور وہ روایات کسی مستند تاریخ کی کتاب سے لی گئی ہو
2۔اس کی روایات عقیدہ کے بارے میں یا حلال و حرام کے بارے میں نہ ہوں
3۔اس کی روایات صحابہ کے خلاف نہ ہوں
4۔اس کی روایات خلفاء راشدین کے خلاف نہ ہوں
 آپ نے دیکھا کہ العسکری اور اس کے حواری  بری جہالت کا مظاہری کرتے ہیں جب وہ سیف بن عمر کو ایک محدث کے طور پر پیش کرتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ حدیث میں ضعیف ہے پر تاریخ میں اس کی روایات قابل قبول ہیں خاص طور ایسی روایات جس کے دوسری سندوں کے ساتھ آئے ہیں اور ہم نے 8 ایسی روایات پیش کی جو کہ سیف بن عمر کے علاوہ کسی دوسری صحیح سندوں سے آئیں ہیں ۔تو ثابت ہوا کہ شیعوں کا دعوی کہ ابن سبا کے بارے میں صرف سیف بن عمر سے روایات آئی ہیں یہ ایک کھلا جھوٹ ہے۔ ٭
(جاری۔۔۔)

     

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں