مولانا ساجد خان صاحب نقشبندی﷾(کراچی، پاکستان)
اہل بدعت حضرات سادہ لوح عوام کو مغالطہ دینے کیلئے علماء دیوبند کی چند عبارات پیش کرتے ہیں مثلاً حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کی عبارت:
”آنحضرت ﷺ کی صورت مثالیہ کا تصور کر کے درود شریف پڑھے اور داہنی طرف یا احمد اور بائیں طرف یا محمد اور یا رسول اللہ ایک ہزار بار پڑھے انشاء اللہ بیداری یا خواب میں زیارت ہوگی ۔“ (کلیات امدایہ ،ص45)
اس کے علاوہ کلیات امدادیہ میں حاجی صاحب ؒ اور نشر الطیب میں مولانا اشرف علی تھانوی ؒ نے ’’یا رسول اللہ ‘‘ کے الفاظ اشعار میں استعمال کئے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ دیکھو جب ہم یا رسول اللہ کہتے ہیں تو شرک کا فتوی لگاتے ہو اور تمہارے اپنے اکابر یہ کہتے ہیں تو کچھ نہیں بولتے۔
جواب:
سب سے پہلے تو ایک اصول مسئلہ سمجھ لیں کہ شرک و کفر اور ایمان کا دارومدار ’’عقیدہ‘‘ پر ہے ۔یہ ممکن ہے کہ ایک ہی لفظ یا جملہ درست ہوگا لیکن اگر کسی اعتقاد فاسد کی بنیاد پر اسے استعمال کیا جائے تو وہ کفر و شرک ہوگا۔ اس کی بہت ہی عام فہم مثال ہمارے ہاں بلاغت کی کتابوں میں اس طرح ذکر کی گئی ہے کہ دیکھو ’’ انبت الربیع البقلی‘‘اگر اس جملہ کو ایک دہریہ پڑھے گا تو اس کا معنی یہ ہوگا کہ’’ موسم بہار نے فصل اگائی‘‘، لیکن اگر ایک مسلمان اس جملے کو پڑھے تو اس کا مطلب ہوگا کہ نہیں یہ سب کچھ کرنے والی ذات صرف اللہ کی ہے (مختصر المعانی)پہلی صورت میں یہ جملہ کفریہ ہے جبکہ صورت ثانی میں یہ جملہ بالکل درست ہے۔
یہ اصول بریلوی حضرات کو بھی مسلم ہے چنانچہ پیر مہر علی شاہ صاحب کے خلیفہ مجاز جناب مولانا غلام محمد گھوٹوی مرحوم کے حالات زندگی میں لکھا گیا ہے :
’’ایک مرتبہ ایک مولوی صاحب نے حضرت شیخ الجامع علامہ گھوٹوی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک فارسی شعر کی بابت استفسار کیا تو حضرت نے فرمایا غلط ہے ان مولوی صاحب نے عرض کیا کہ یہ شعر فلاں شخصیت کا ہے تو حضرت نے فرمایا کہ مووّل ہے یعنی اس کی تاویل لازم ہے ‘‘۔
(شیخ الاسلام محدث گھوٹوی ۔ص:281)
تو معلوم ہوا کہ شاعر کو دیکھ کر فیصلہ کیا جائے گا یعنی اگر شاعر بد عقیدہ ہو جیسا کہ بدعتی حضرات ہیں تو پھر فتاوی جات یونہی سخت ہونے چاہئیں اور اگر حضرت مولانا تھانوی ؒ جیسا متبحر عالم ہو اور حاجی امداد اللہ صاحب جیسا موحد صوفی ہو تو پھر معنی و مطلب حسنِ شعر پر معمول کیا جائے گا اور شعر کی تاویل کی جائے گی۔ ایک اور حوالہ بھی ملاحظہ ہو، بریلوی شیخ الحدیث مولانا اشرف سیالوی صاحب لکھتے ہیں :
’’علامہ طیبی نے حدیث رسول ﷺ تمسک بسنۃ خیر من احداث بدعۃ یعنی سنت نبوی کا لازم پکڑنا بدعت جاری کرنے سے بہتر ہے کے تحت یوں کہہ دیا سنۃ قذرۃ یعنی گھٹیا سنت۔ علامہ ابن حجر مکی نے اس عبارت پر رد و قدح کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر اس شخص کا علم اور صاحب تحقیق ہونا اور نبی اکرم ﷺ سے عقیدت و محبت سے سرشار ہونا ہمیں معلوم نہ ہوتا۔۔۔۔ تو اس کلمہ کی وجہ سے اس پر بہت بڑا سنگین فتوی اور کلمہ شرعی عائد کیا جاتا ‘‘۔
(مناظرہ جھنگ ۔ص:۲۸۲)
قارئین کرام ! اس سے معلوم ہوا کہ رضا خانی حضرات کا اصول یہ ہے کہ صاحب تحقیق اور صاحب علم اور عشق و محبت سے سر شار آدمی بات کرے تو تاویل کی جائے گی ورنہ فتوی لگایا جائے گا ۔تو پھر ہمیں کہنے دیجئے کہ علماء دیوبند ؒ کا صاحب تحقیق ہونا اور علم سے سرشار و عشق و محبت میں مستغرق ہونا مسلم ہے لہٰذا اگر ایسا شخص کوئی بات کرے تو چونکہ و مشرک نہیں اور شرک کے جراثیم میں ڈوبا ہوا نہیں تو اس کے کلام کی توجیہ اس کے مقام کو دیکھ کر کی جائے گی اور اس سے معلوم ہوا کہ اگر بالفرض کوئی بزرگ اور صاحب تحقیق کوئی غیر شرعی بات کر بھی دے تو حتی الامکان اسے اچھے معنی پر محمول کیا جائے گا۔
ا ب غور فرمائیں اہل السنۃ و الجماعۃ کا عقیدہ ہے کہ کسی مخلوق کو اس عقیدے کے ساتھ غائبانہ طور پر پکارنا کہ وہ اس کی پکار کو عادۃً سنتی ہے اور مافوق الاسباب امور غیر عادیۃ میں اس پکار کو سن کر پکارنے والی کی مشکل کشائی اور حاجت روائی کرتی ہے یا بالفاظ دیگر جس کو پکارا جا رہا ہے وہ عالم الغیب اور ہر جگہ حاضر و ناظر ہے لہذا ہماری پکار سن کر فوراً ہماری مدد کو آ پہنچیں گے شرک و کفر ہے ۔البتہ اگر کوئی اس نیت سے یا رسول اللہ یا الصلوۃ والسلام علیک یا رسول اللہ پکارتا ہے کہ نہ تو رسول اللہ ﷺ عالم الغیب ہیں نہ حاضر و ناظر نہ ہی مافوق الاسباب میں مشکل کشا حاجت روا بلکہ چونکہ اللہ نے فرشتے مقرر کر رکھے ہیں جو امت کا درود شریف نبی اکرم ﷺ تک پہنچاتے ہیں لہذا اس ضمن میں میرا یہ درود یا یہ الفاظ بھی حضور ﷺ تک پہنچ جائیں گے یعنی ان الفاظ کو بطور اخبار کے پڑھتا ہے یا کوئی محض شوقیہ طور پر عشق و محبت میں یا بطور تو سل ان الفاظ کو پڑھتا ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں البتہ جہاں عوام کے غلط فہمی میں پڑنے کا اندیشہ ہو تو وہاں ان الفاظ کا استعمال مناسب نہیں۔ نیز اگر معجزۃ ًیا کرامۃ ً کسی کی ندا اللہ کسی نبی یا ولی کو سنا دے تو ہم اس کے بھی منکر نہیں بشرطیکہ اس پر دلیل شرعی موجود ہو۔
چنانچہ فقیہ العصر مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃاللہ کا ایک فتوی اس ضمن میں ملاحظہ ہو:
سوال: پڑھنا ان اشعار و قصائد کا خواہ عربی میں ہو ں یا غیر عربی میں جن میں مضمون استعانت و استغاثہ بغیر اللہ تعالی ہوں کیسا ہے اور وہ پڑھنا کبھی بطور درود و وظیفہ بنیت انجاح ِ حاجت ہوتا ہے اور کبھی بطور نعت اشعار پڑھے جاتے ہیں ان کے ضمن میں اشعار استمدادیہ و التجائیہ بھی پڑھے جاتے ہیں ۔مثلا یہ شعر،
یارسول اللہ انظر حالنا یا نبی اللہ اسمع قالنا |
اننی فی بحر ھم مغرق خذ یدی سھل لنا اشکالنا |
یایہ شعر قصیدہ بردہ کا پڑھنا،
یا اکرم الخلق ما لی من الو ذبہ سواک عند حلول الحادث العمم
تو کبھی فقط یہی شعر بطور درود عمل سو دو سو بار پڑھتے ہیں کبھی سارا قصیدہ بطور ورد پڑھتے ہیں اور اس کے ضمن میں وہ اشعار استعانت کے بھی آ جاتے ہیں اور مداومت ورد و ادائے زکوٰۃ ان اشعار و قصائد کی کرتے ہیں اور اسی قسم کے اشعار نعتیہ و استمدادیہ منسوب بہ مولانا جامی و دیگر علماء ہیں اور شاید اشعار مولانا شاہ ولی اللہ محدث دہلوی و مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہما کے بھی بطور قصیدہ نعتیہ متضمن اشعار استمدایہ ہیں۔ پس یہ اشعار استعانت و استغاثہ بغیر اللہ تعالی خواہ ضمن نعت میں تبعا خواہ تنہا مستقلا بطور ورد و وظیفہ بمداومت یا گاہے گاہے خواہ بطور محبت و ذوق و شوق یا کسی اور نیت سے جائز ہیں یا مستحب ہیں یا ممنوع اور شرک ہیں اور اگر ناجائز ہیں اور شرک ہیں تو ان کے مصنفوں کے حق میں کیا کہا جاوے کہ وہ اکابر دین تھے اور پیشوائے اہل یقین۔ امید ہے کہ جواب مسئلہ ہذا بہ تفصیل و تحقیق تمام بطور کلیات و تفصیل جزئیات تحریر فرمائیں گے کہ دوبارہ سوال کرنے کی ضرورت نہ رہے اور ان اشعار کا پڑھنا اس ملک میں بہت رائج ہے اور ان مسائل کو نہ کوئی دریافت کرتا ہے نہ کوئی عالم بخوف ملامت و طعن خلق صاف صاف بتاتا ہے الا شاذ و نادر ان مسائل کے سائل کو یا بحث کرنے والے کو منکر حضرت ﷺ بتاتے ہیں اور مساجد اور خانقاہوں میں روبرو علماء و مشائخ کے یہ اشعار پڑھے جاتے ہیں اور کوئی عالم یا شیخ کہ بعض حضرات ان میں خوش عقیدہ اور دیندار بھی ہوتے ہیں کچھ تعرض نہیں کرتا اور تقریبات شادی میں بھی اور مجالس اعراس اور میلاد میں بھی اس کا رواج ہے اور پڑھنے والے از خود بدوں طلب کے پڑھنا شروع کر دیتے ہیں اور ہم لوگ جو بعض تقریبات شادی وغیرہ میں شریک محفل بضرورت ہوتے ہیں جو کچھ وہ پڑھنے والا جاہل پڑھتا ہے اگر چہ صاف کلمات شرکیہ و کفریہ سے پڑھے مجبوری سے سننا پڑتا ہے کیونکہ کوئی عالم و رئیس محلہ وغیرہ جو حاضر محفل ہوتے ہیں اس بارہ میں کچھ نہیں کہہ سکتا پھر اور لوگ کیا کہہ سکتے ہیں۔
جواب:
یہ خود آپ کو معلوم ہے کہ ندا غیر اللہ تعالی کو کرنا دور سے شرک حقیقی جب ہوتا ہے کہ ان کو عالم سامع مستقل عقیدہ کرے ورنہ شرک نہیں ۔مثلاً یہ جانے کہ حق تعالی ان کو مطلع فرمائے گا یا باذنہٖ تعالی انکشاف ان کو ہوجائے گا یا باذنہ ٖ تعالی ملائکہ پہنچا دیں گے جیسا درود کی نسبت وارد ہے یا محض شوقیہ کہتا ہے محبت میں یا عرض حال تحسر و حرمان میں کہ ایسے مواقع میں اگرچہ کلمات خطابیہ بولتے ہیں لیکن ہر گز نہ مقصود اسماع ہوتا ہے نہ عقیدہ ۔پس ان ہی اقسام سے کلمات مناجات و اشعار بزرگان کے ہوتے ہیں کہ فی حد ذاتہٖ نہ شرک نہ معصیت مگر ہاں بوجہ موہم ہونے کے ان کلمات کو مجامع میں کہنا مکروہ ہے کہ عوام کو ضرر ہے اور فی حد ذاتہٖ ایہام بھی ہے لہذا ایسے اشعار کا پڑھنا منع ہے اور نہ اس کے مولف پر طعن ہو سکتا ہے اور کراہت موہوم ہونے کی وجہ غلبہ حجت کے منجر ہو جاتی ہے ۔مگر ایسی طرح پڑھنا اور پڑھانا کہ اندیشہ عوام کے ضرر ہو بندہ پسند نہیں کرتا گو اس کو معصیت بھی نہیں کہہ سکتے مگر خلاف مصلحت وقت کے جانتا ہے مگر ہاں جس کلام میں صاف کلمات کفر ہوں اس کو نہ سننا حلال ہے اور نہ سکوت روا ہے اگر قادر نہ ہو تو الگ ہو جاوے اور جو عالم باوجود قدرت کے اس کو رد نہ کرے یہ مداہنت ہووے گی ۔
(تالیفات رشیدیہ ،ص54,55)
ایک جگہ لکھتے ہیں:
سوال:یا رسول اللہ دور سے یا نزدیک قبر شریف سے پکارنا جائز ہے یا نہیں ؟
جواب:
جب انبیاء علیہم السلام کو علم غیب نہیں تو یا رسول اللہ کہنا بھی ناجائز ہوگا اگر یہ عقیدہ کر کے کہے کہ وہ دور سے سنتے ہیں بسبب علم ِغیب کے تو خود کفر ہے اور جو یہ عقیدہ نہیں تو کفر نہیں مگر کلمہ مشابہ کفر ہے البتہ اگر اس کلمہ کو درود شریف کے ضمن میں کہے اور یہ عقیدہ کرے کہ ملائکہ اس درود شریف کو آپ کے پیش عرض کرتے ہیں تو درست ہے کیونکہ حدیث شریف میں ہے کہ ملائکہ درود بندہ مومن کا آپ کی خدمت میں عرض کرتے ہیں اور ایک صنف ملائکہ اسی خدمت پر ہیں۔
( تالیفات رشیدیہ ،ص72)
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:
سوال: ؎
یا رسول کبریا فریاد ہے |
یا محمد مصطفی فریاد ہے |
مدد کر بہرِ خدا حضرت محمد مصطفی |
میری تم سے ہر گھڑی فریاد ہے٭ |
اشعار اس مضمون کے پڑھنے کیسے ہیں؟
جواب(مولانا رشید احمد گنگو ہیؒ):
ایسے الفاظ پڑھنے محبت میں اور خلوت میں بایں خیال کہ حق تعالی آپ کی ذات کو مطلع فرما دے یا محض محبت سے بلا کسی خیال کے جائز ہیں اور بعقیدہ عالم الغیب اور فریاد رس ہونے کے شرک ہیں اور مجامع میں منع ہیں کہ عوام کے عقیدہ کو فاسد کرتے ہیں لہذا مکروہ ہوویں گے ۔(تالیفات رشیدیہ ،ص104)
حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ لکھتے ہیں:
سوال : کتاب نشر الطیب و رسالہ حفظ الایمان کے دیکھنے سے دو شبہ پیدا ہوئے جن کا استفسار ہے جناب کے نزدیک یا رسول اللہ جائز نہیں جیسا کہ اسی کتاب کی فصل 38بیان توسل سے ظاہر ہے فصل 21شیم الحبیب مصنفہ مفتی الٰہی بخش صاحب کے آخر میں جو قصیدہ نقل کیا گیا ہے اس میں چند جگہ الفاظ یا موجود ہے ، اور جناب نے ہر طریقہ سے منع فرمایا ہے واقعی عوام میں غلو ہے اور علماء کو ان کی حفاظت کے واسطے منع فرمایا یہ بھی درست ہے ،پھر اس قسم کی نظمیں اس کتاب میں لکھ دی گئیں اس کو عوام پڑھیں گے اور علماء بیان کریں گے ،گویا منع و جواز ایک کتاب میں جمع ہو گئے ۔
الجواب :
باِرادہ استعانت و استغاثہ یا باعتقاد حاضر و ناظر ہونے کے منہی عنہ ہے (یعنی منع ہے )اور بدون اس اعتقاد کے محض شوقا ً و استلذاذاً ، ماذون فیہ ہے۔ ( اجازت ہے )چونکہ اشعار پڑھنے کی غرض محض اظہار شوق و استلذاذ ہوتا ہے اس لئے نقل میں توسع کیا گیا ہے لیکن اگر کسی جگہ اس کے خلاف دیکھا جائے گا منع کر دیا جائے گا ۔
(امداد الفتاوی ،ج5،ص390)
مفتی فرید صاحب ؒ آف اکوڑہ خٹک لکھتے ہیں:
سوال : یا مصطفی مشکل کشا کہنا شرک ہے یا نہیں ؟بینوا و توجرو!
الجواب:
ایں الفاظ باعتقاد حاضر و ناظر عالم الغیب گفتن شرک جلی است و بطور عشق و محبت گفتن جائز است و پیغمبر ﷺ را مشکل کشا گفتن بایں معنی کہ از جانب خدا برائے حل مشکلات مقرر ست کذب و کفر است و بایں معنی کہ توسل و دعا او مشکلات حل مے شوند صدق و جائز است۔
(فتاوی فریدیہ ،ج1،ص72)
فقیہ الہند مفتی محمود الحسن گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
یا رسول اللہ اس عقیدے سے کہنا کہ ہر جگہ سے حضور ﷺ اس آواز کو خود سنتے ہیں ناجائز ہے اور اس عقیدہ سے کہنا کہ ملائکہ آپ کو اس کی اطلاع کرتے ہیں درست ہے۔
(فتاوی محمودیہ ،ج1،ص347)
اہل بدعت حضرات عوام کو مغالطہ دینے کیلئے علماء دیوبند کی وہ عبارات جو انہوں نے شوق محبت یا درود شریف کے ضمن میں پڑھیں جس میں یا رسول اللہ کے الفاظ ہیں وہ پیش کرتے ہیں کہ دیکھو تم تو اسے شرک کہتے ہو مگر تمہارے یہ اکابر بھی یہ نعرہ لگاتے ہیں ۔حالانکہ ہم اوپر اس بات کی وضاحت کر چکے ہیں کہ ہمارے اور ہمارے اکابر کے نزدیک علی الاطلاق ’’یا رسول اللہ ‘‘ کہنا شرک نہیں بلکہ اگر اس نیت سے یہ نعرہ لگایا جائے کہ :
(۱) رسول اللہ ﷺ عادۃً اس پکار کو سنتے ہیں
(۲) نبی اکرم ﷺ عالم الغیب و حاضر و ناظر ہیں ہر وقت ہماری پکار کی ان کو خبر ہے
(۳) پکار سن کر ہمیں جواب دیتے ہیں اور مافوق الاسباب میں ہماری مشکل کشائی کیلئے بھی پہنچ جاتے ہیں
اس نظریہ سے کہنا بلاشبہ شرک ہے ۔اور ہمارے اکابر اس شرکیہ عقیدہ سے قطعاً بیزار ہیں ۔ ہم ببانگ دہل چیلنج کرتے ہیں کہ اکابر دیوبند تو کیا چودہ سو سال میں کسی ایک صحابی ،تابعی ،محدث ،فقیہ ،مفسر ،ولی کا کوئی قول مستند سند کے ساتھ پیش کر دو جس نے نبی کریم ﷺ کو اس نظریہ سے پکارا ہو۔ چنانچہ کلیات امدادیہ کی پہلی عبارت میں صاف تصریح ہے کہ: ’’آنحضرت ﷺ کی صورت مثالیہ کا تصور کرے اور درود شریف پڑھے ‘‘ اگر حاجی صاحب نبی اکرم ﷺ کو حاضر و ناظر سمجھتے یا غائبانہ ندا عادۃً سننے کا عقیدہ رکھتے تو مثالی صورت کے تصور کا کیوں کہتے ۔اور ساتھ ہی درود شریف کے ضمن میں اس کو پڑھنے کا کہا کیونکہ حدیث پاک میں ہے کہ اللہ کے مخصوص فرشتے زمین میں پھرتے رہتے ہیں جو میری امت کا صلوۃ و سلام مجھ تک پہنچاتے ہیں۔
ان للہ عز و جل ملائکۃ سیاحین فی الارض یبلغونی عن امتی السلام
(المعجم الکبیر ،ج10،ص271،رقم الحدیث10529)
لہذا کوئی اگر اس ضمن میں الصلوۃ والسلام علیک یا رسول اللہ پڑھتا ہے کہ فرشتے آپ ﷺ تک اس کو پہنچا دیں گے تو ہمارے نزدیک یہ جائز ہے ۔ہمارے بزرگوں نے روضہ رسول ﷺ کی زیارت کے وقت اس درود کو پڑھنے کی تلقین بھی کی ہے ۔امام اہلسنت مولانا سرفراز خان صفدر صاحب ؒ فرماتے ہیں :
’’ہم اور ہمارے تمام اکابر الصلوۃ والسلام علیک یا رسول اللہ کو بطور درود شریف پڑھنے کے جواز کے قائل ہیں کیونکہ یہ بھی فی الجملہ اور مختصر طریقہ سے درود شریف کے الفاظ ہیں ،ہاں البتہ حرف خطاب اور حرف یا سے حاضر و ناظر مراد لینا کفر ہے چنانچہ مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ نے تصریح کی ہے کہ الصلوۃ والسلام علیک یا رسول اللہ پڑھا جاسکتا ہے مگر آپ کو حاضرو ناظر نہ سمجھو ورنہ اسلام کیا کفر ہوگا “،اصل الفاظ یوں ہیں :
’’اور الصلوۃ والسلام علیک یا رسول اللہ بہت مختصر ہے مگر رسول اللہ کو حاضر و ناظر نہ سمجھنا چاہئے ورنہ اسلام کیا ہوگا کفر ہوگا بلکہ یوں سمجھئے کہ یہ پیغام فرشتے پہنچاتے ہیں ‘‘
بلفظہٖ (فیوض قاسمیہ ،ص48)(درود شریف پڑھنے کا شرعی طریقہ ،ص75،76)
اگر اب بھی کسی کی تسلی نہیں ہوئی تو ہم حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کی ان اشعار کی وضاحت خود بریلوی اکابر میں سے مولانا عبد السمیع رامپور ی سے پیش کر دیتے ہیں یاد رہے کہ اس کتا ب پر مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی کی تقریظ بھی ہے ،مولانا لکھتے ہیں:
”اس کا اصل مطلب یہ ہے کہ میری جان حضرت پر قربان ہے مراد اس سے جملہ خبریہ ہے گو اس نے لفظ ندائیہ بولا ہے کیا ضرور کہ یوں کہو یہ شخص تو خدا کی طرح حاضر ناظر جان کر پکارتا ہے ہاں البتہ تم خود معنی شرک اور کفر کے لوگوں کے ذہن میں جماتے ہو ۔“
(انوار ساطعہ ،ص458)
”یا رسول اللہ“ اس کے معنی قاعدہ عربی سے یہ ہوئے کہ پکارتا ہوں رسول اللہ کو یعنی ان کو یاد کرتا ہوں ان کا نام لیتا ہوں۔
(انوار ساطعہ ،ص460)
مولانا نے خود اکابر علماء دیوبند کے ان اشعار کا مطلب واضح کر دیا کہ وہ ہر گز ان اشعار کے پڑھتے وقت نبی ﷺ کو حاضر ناظر نہیں سمجھتے بلکہ ان کا مقصود محض خبر دینا ہے کہ فرشتے حضورﷺ تک اس خواہش کو پہنچا دیں اور آگے کی عبارت میں تو کمال کر دیا کہ یا رسول اللہ کا معنی حاضر ناظر مشکل کشا سمجھ کر نہیں بلکہ اس کے معنی تو صرف حضور ﷺ کو یاد کرنے کے ہیں۔٭
اس موقع پر اہل بدعت کا ایک شبہ یہ بھی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کا پاؤں سُن ہو گیا تھا تو ان کو کسی نے کہا کہ ایسے شخص کو یاد کیجئے جو آپ کو سب سے زیادہ محبوب ہو تو اس نے پکارا یا محمد ﷺ اور ان کی تکلیف دور ہو گئی۔ (الادب المفرد)روایت کی سند سے قطع نظر بحث محض پکارنے میں نہیں بحث تو اس میں ہے کہ کسی کو اس نظریہ سے پکارا جائے کہ وہ عادۃً سنتی ہے اور اس کی مشکل کشائی اور حاجت روائی کرتی ہے جبکہ مذکورہ واقعہ میں جسمانی بیماری کا ایک نفسیاتی علاج بتایا گیا ہے کہ جب پیر سُن ہو گیا تو سب سے زیادہ محبوب شخصیت کو یاد کیجئے کیونکہ محبوب کے ذکر سے انسان کے دل میں حرارت اور نشاط کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے جس سے منجمد خون رواں ہو جاتا ہے اور رگوں میں دوڑنا شروع کر دیتا ہے اور یوں سُن والی کیفیت دور ہو جاتی ہے ۔
بریلوی مفتی اعظم کا فتوی
آخری اتمام حجت کیلئے ہم یہاں اہل بدعت کے مفتی اعظم مفتی شاہ مسعود جو بریلوی مسعود ملت پروفیسر مسعود کے والد ہیں لکھتے ہیں:
’’واضح ہو کہ یا رسول اللہ کہنا سونے اور نشست اور ہر کار وغیرہ کے وقت ممنوع ہے اور بنیت ِحاضر و ناظر کہنا موجب شرک ہے۔
(فتاوی مسعودی ،ص529، مطبوعہ سر ہند پبلی کیشنز کراچی ،طبع اول)
قاضی ثناء اللہ پانی پتی حنفی رحمۃ اللہ علیہ کا فتوی اور سیفیوں کی بد ترین تحریف کا انکشاف
قاضی صاحب رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
آنچہ جہا ل می گویند یا شیخ عبد القادر جیلانی شیاء للہ یا خواجہ شمس الدین پانی پتی شیاء للہ جائز نیست شرک و کفر است۔
(ارشاد الطالبین فارسی ،ص29)
یہ جو جاہل کہتے ہیں کہ یا شیخ عبد القادر جیلانی شیاء للہ یا یا خواجہ شمس الدین پانی پتی شیاء للہ ( یا یا رسول اللہ وغیرہ کلمات شرکیہ)جائز نہیں ہے بلکہ شرک و کفر ہے۔
ارشاد الطالبین کا یہ نسخہ حکیم عبد المجید احمد سیفی نے لاہور سے شائع کیا ہے ۔مگر موجودہ سیفیوں کی دیانت و امانت کا حال ملاحظہ ہو کہ سیفی استاذ العلماء پیر عابد حسین سیفی نے جب اس کا ترجمہ بمع فارسی متن شائع کیا جس پر کئی سیفی بزرگوں کی تقریظات ہیں ارشاد الطالبین کی اس عبارت سمیت پورے دو (۲) صفحات جس پر شرکیہ عقائد کا زبردست رد تھا غائب کر دئے نہ اصل متن دیا نہ اس کا ترجمہ ۔
شرم ،شرم ،شرم !کیا اسی دھوکا بازی ،دجل و تلبیس ،بددیانتی و تحریف کا نام تصوف ہے ؟
خود بدلتے نہیں قرآن کو بدلتے ہیں |
ہوئے کس درجہ فقیہانِ سیفیہ بے توفیق٭ |
٭٭٭
٭ علامہ اقبالؔ کا مذکورہ شعر کچھ یوں ہے(بحوالہ کلیاتِ اقبال ص ۵۳۴)
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں |
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق |
محبی و مشفقی حضرت مولانا ساجد خان صاحب نقشبندی نے مصرع ثانی میں ”حرم“ کو ”سیفیہ“ سے بدل کر یقیناً مضمون سے مطابقت پیدا کرنی چاہی تھی لیکن اس رد و بدل میں مصرعِ مذکورہ بحر سے خارج ہو گیا ہے۔ اس طرح کی تبدیلیاں کرتے وقت یہ غلطی بہت عام ہے اور کثرت سے نظر سے گزرتی ہے، چنانچہ اس کا سد باب بھی اتنا ہی ضروری ہے۔
(مدیر)
خود بدلتے نہیں دین کو بدل دیتے ہیں
جواب دیںحذف کریںہوئے کس درجہ فقیہانِ دیو بند بے توفیق