پیر، 11 مارچ، 2019

منطقی انجام


گزشتہ ’’کالم نما‘‘ کے آخر میں بتایا تھا حکیم فقیر کی دعوتِ افطار میں ماسٹر مبین کے ہاتھوں ’’منہ کا ذائقہ‘‘ خراب ہونے کے بعد ہمارے دوست مسٹر کلین ہمیں نماز کی حالت میں چھوڑ کر وہاں سے رفو چکر ہوگئے تھے۔ جلدی میں اپنے نئے جوتے چھوڑ کر ہمارے پرانے پھٹے جوتے پہن کر چلے گئے تھے۔ ’’بھاگتے چور کی لنگوٹی سہی‘‘ کے مصداق ہم نے بہت سوچا کہ ’’ بھاگتے دانش ور کے جوتے سہی‘‘، مگر پھر ہمیں خیال آیا بچارے مسٹر کلین کو اس ’’ وقوعے‘‘ پر گھر میں بھی اچھی خاصی سرزنش کا سامنا کرنا پڑا ہوگا، کیونکہ یہ اپنی نوعیت کا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ مسٹر کلین بڑے دانشور ہیں اور جو جتنا بڑا دانشور ہوتا ہے، اتنا ہی بھلکڑ بھی ہوتا ہے۔ مسٹر کلین کی بیگم کی ان سے جوشکایات ہیں، ان میں ایک یہ بھی ہے وہ اکثر بے خیالی میں ان کی چپلیں پہن کر گلی میں نکل جاتے ہیں۔ کہیں دعوتوں میں جاتے ہیں تو دوسروں کے جوتے پہن کر آجاتے ہیں۔اپنی سہیلیوں کے سامنے شرمندگی انہیں اٹھانا پڑتی ہے (کیونکہ مسٹر کلین کبھی شرمندہ ہوتے ہی نہیں) اس ’’تاریخی پس منظر‘‘ کو سامنے رکھتے ہوئے ہم نے سوچا، ہمیں فوری طور پر موصوف کے جوتے ان کے گھر پہنچاکر ان کی مدد کرنی چاہیے۔ چنانچہ ہم نے مسٹر کلین کے جوتے پالش کرواکے ایک شفاف تھیلے میں ڈالے اور ان کی طرف روانہ ہوگئے۔

راستے میں کئی جاننے والوں نے حیرت اور انجان لوگوں نے شک کی نظر سے ہماری طرف دیکھا، کیونکہ آج کل جوتے چرانے کی ’’رسم‘‘ اتنی عام ہوچکی ہے ہر کفش بردار آدمی پر کوئی بھی گمان کیا جاسکتا ہے۔ خیر! تو ہم مسٹر کلین کے دولت خانے پہنچے۔موصوف اپنے کمرے میں کمپیوٹر کے آگے بیٹھے ’’تحقیق‘‘ میں مصروف تھے۔ ہمارے ہاتھ میں جوتے دیکھ کر پہلے تو تھوڑا سا گڑ بڑائے، پھر شاید انہیں جلد ہی اپنا ’’کارنامہ ‘‘یاد آگیا۔ اپنے جوتوں کو پہچان کر بہت خوش ہوگئے۔ کہنے لگے: ’’شکر ہے یہ آپ کو مل گئے، ورنہ یہ اب تک ’’چور بازار‘‘ میں بک گئے ہوتے۔ بیگم نے ویسے بھی کہہ دیا تھا اب آپ کو آیندہ سال تک نئے جوتے نہیں ملیں گے۔‘‘

ہم نے جوتوں کا قصہ یہیں روک کر مسٹر کلین سے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ وہ کس موضوع پر ’’ریسرچ‘‘ فرما رہے ہیں۔ مسٹر کلین نے ہمیں اپنے قریب والی کرسی پر بٹھایا اور کمپیوٹرمانیٹر کی اسکرین ہماری طرف کرتے ہوئے گویا ہوئے: 
’’میں اس وقت کوئی ریسرچ نہیں کر رہا۔ آپریشن ضرب عضب کے متاثرین سے متعلق ایک رپورٹ پڑھ رہا تھا۔ کیسی کیسی دردناک کہانیاں ہیں۔ یہ ایک کہانی آپ بھی پڑھیں اور خود فیصلہ کریں کہ طالبان کے خلاف آپریشن ہونا چاہیے تھا یا نہیں؟‘‘
 ہم نے سوچا، یقینا یہ کوئی ایسی لرزہ خیز کہانی ہوگی جس کی بنیاد پر ا ٓپریشن ناگزیر سمجھا گیا ہوگا۔ ہم نے پڑھنا شروع کیا۔ یہ بی بی سی اُردو ڈاٹ کام کی ایک رپورٹ تھی جس میں بتایا گیا ہے شمالی وزیرستان کی ایک عیسائی لڑکی کو کس طرح وہاں بر قع پہننا پڑتا تھا۔ اب آپریشن کے بعد اس کو اپنی تعلیم کے سلسلے میں کتنی پریشانی ہے۔ ہم نے پوری رپورٹ پڑھی۔ اس میں کہیں بھی یہ نہیں لکھا ہوا تھا کہ مذکورہ لڑکی کو کسی نے بر قع پہننے پر مجبور کیا تھا۔ اس نے خود کہا ہے کہ وہ برقع اس لیے پہنتی تھی، کیونکہ یہ وہاں کے کلچر کا حصہ ہے اور وہ اس کلچر اور ماحول میں خوش تھی۔ اسے تعلیم کے سلسلے میں کوئی پریشانی نہیں تھی۔ اس کے ساتھ مسلمان لڑکیوں اور اساتذہ کا سلوک انتہائی ہمدردانہ تھا، لیکن اس کے باوجود بی بی سی کی اس رپورٹ کی سر خیوں اور ذیلیوں میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے گویا یہ لڑکی کسی جہنم سے آزاد ہوکر آئی ہے۔

ہم نے یہ رپورٹ پڑھی اور مسٹر کلین کو مخاطب کرکے عرض کیا:
 ’’واقعی بی بی سی والوں نے کمال کردیا ہے۔ شمالی وزیرستان کے 10 لاکھ متاثرین میں ایک عیسائی لڑکی بھی تھی تو یہ اس تک پہنچے۔ اس کی کہانی معلوم کی اور اسے اپنی طرف سے ’’دردناک‘‘ بناکر دنیا کے سامنے پیش بھی کردیا۔ اس ایک عیسائی لڑکی کے علاوہ جو 10 لاکھ افراد بے گھر ہوئے ہیں۔ ان میں سے کسی کے پاس شایدکوئی ایسی ’’درناک کہانی‘‘ تھی ہی نہیں کہ اسے بی بی سی جیسے عالمی ادارے کے ذریعے نشر کیا جاتا۔‘‘

 مسٹر کلین نے تپ کر کہا:
’’ملاجی! ایک تو آپ لوگ چیز کو تعصب کی عینک سے دیکھنے سے باز نہیں آتے۔ آپ کو یہ اعتراض کیوں سوجھ رہا ہے کہ ایک عیسائی لڑکی کی کہانی کیوں بیان کی جارہی ہے؟‘‘

 ہم نے عرض کیا: 
’’دیکھیں! تعصب اسی کو تو کہتے ہیں کہ آپ 10 لاکھ انسانوں میں صرف ایک کو اس لیے فوکس کر رہے ہیں کہ وہ آپ کا ہم مذہب ہے۔ کیا یہ باقی 10 لاکھ انسان نہیں ہیں؟ بنوں اور ڈی آئی خان کے کیمپوں میں ہر خیمے کے اندر دُکھ ،پریشانی اور غم اور اندوہ کی ایک الگ دردناک کہانی موجود ہے۔ بی بی سی اور دیگر مغربی اداروں نے ان لاکھوں انسانوں کی مشکلات کے بارے میں کتنی رپورٹیں شائع کی ہیں،کتنی دردناک کہانیاں بیان کی ہیں؟ یہ ادارے وزیرستان میں آپریشن کے لیے تو حکومت اور فوج کو اُکساتے رہے، اب اس آپریشن کے نتیجے میں لاکھوں انسان دربدر ہوئے ہیں تو انہیں ان کی کو کوئی پروا کیوں نہیں ہے؟ ‘‘

مسٹر کلین نے ہمارے سوال کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا:
 ’’ملاجی! آج کل یہ ’’جذباتیت‘‘ کی فضاکچھ زیادہ نہیں ہوگئی ہے؟ اس دن ماسٹر مبین نے جس طرح مجھ پر ’’اٹیک‘‘ کیا، میں تو ڈرگیا تھا کہیں افطاری کی جگہ مجھے نہ کھا جائیں۔‘‘

 ہم نے عرض کیا:
 ’’مسٹر جی! فلسطین سے لے کر برما تک اور شام و عراق سے لے کر وزیرستان تک جو فصل آپ بو رہے ہیں، اس کی کٹائی کا وقت بھی آ نا ہی ہے۔ آپ اسے جذباتیت کہیں یا کچھ اور، عالمی منافقت کے خلاف عالمی بغاوت کے آثار نظر آرہے ہیں۔ تہذیبو ں کے تصادم کے جس فلسفے پر آپ کام کرتے آئے ہیں، اب اس کو عملی شکل میں دیکھنے کے لیے تیار رہیے۔‘‘

مسٹر کلین نے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا: 
’’میں نے تو کچھ نہیں کیا، آپ مجھے کیوں بلیم کر رہے ہیں؟‘‘

 ہم نے عرض کیا:
 ’’آپ سے مراد وہ ایک فرسودہ و کرم خوردہ سوچ ہے جو دنیا میں سیکو لرازم،لبر ل ازم،رو شن خیالی اور اعتدال پسندی کے خوش نما عنوانات کے تحت منافقت کا انتہائی گندا کھیل کھیل رہی ہے۔ اب یہ کھیل اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھے گا۔‘‘

مسٹر کلین نے اپنے آپ کو معصوم سا بناکر کہا: 
’’منطقی انجام‘‘ کیا ہوتا ہے؟‘‘

ہم نے کہا:
 ’’وہی جس سے ڈر کر پرسوں آپ اپنے جوتے چھوڑ کر آئے تھے!‘‘٭
٭٭٭

٭ بشکریہ ہفت روزہ ضربِ مومن ۲۵ تا ۳۱ جولائی ۲۰۱۴
     

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں