منگل، 19 مارچ، 2019

ڈیڑھ لاکھ افراد کو مسلمان کرنے والے نو مسلم کولن چیک سے ایک گفتگو

A conversation with the man behind 150000+ converts, Colin Check

انٹرنیشنل چرچ کے  جنرل سکریٹری کا عالم اسلام کے  خلاف امریکہ و یورپ کی خوف ناک سازشوں کا انکشاف
  سوال   :افریقی ممالک میں خصوصاً اور اسلامی ممالک میں عموماً یوروپی این جی اوزکا کیا کر دار ہے ؟
  جواب  :وہ سب این جی اوز حقیقت میں چرچ کے  زیر انتظام چلتی ہیں اور چرچ کے  مفاد میں انسانی خدمت کے  موٹو سے  کام کرتی ہیں اور ان کا اصل مقصد مسلمانوں کو عیسائی بنانا یا کم از کم ان کو دین سے  دور کرنا ہوتا ہے  اور ان مذموم مقاصد کے  حصول کے  لئے  ان کے  پاس لا محدود وسائل اور متعدد ذرائع ہوتے  ہیں۔
انٹرنیشنل چرچ کی این جی اوز کا شمار کسی فرد واحد کے  بس کی بات نہیں لیکن میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ عالمی سطح پر عیسائیت کے  مفاد کے  لئے  کام کرنے  والی ہزاروں این جی اوز ہیں، صرف سوڈان میں پانچ سو سے  زائد ایسی این جی اوز فعال ہیں جو مسلمانوں کو مرتد بنانے  میں سرگرم رہتی ہیں۔
  سوال  :مذکورہ عیسائی این جی اوز اپنے  مقاصد کیسے  حاصل کرتی ہیں ؟
  جواب  :چرچ کے  لئے  کام کرنے  والی یا عیسائیت کے  نام پر مسلمانوں کو مرتد بنانے  اور ان کے  ایمان پر ڈاکہ ڈالنے  والی یورپی این جی اوز بلا سوچے  سمجھے  اور بغیر منصوبہ بندی کے  کوئی کام نہیں کر تیں، بلکہ وہ انتہائی باریک بینی سے  پایۂ تکمیل تک پہونچی ہوئی سروے  اور تحقیقی رپورٹوں کی روشنی میں پوری پلاننگ سے  کام کرتی ہیں وہ جس ملک میں کام کرنا چاہتی ہیں اس کے  متعلق ساری معلومات حاصل کرتی ہیں اس ملک کے  اندرونی اور بیرونی نقشہ جات اور سیاسی، اقتصادی، مذہبی اور دیگر اہم جماعتوں کے  بارے  میں مکمل معلومات اور ان کی کمزوریوں اور دکھتی رگوں پر ماہرنبض شناس کی طرح ان کے  ہاتھ ہوتے  ہیں، وہ جب جہاں اور جیسے  چاہیں، اپنے  مقاصد حاصل کرتے  ہیں انہیں یہ معلومات بھی دی جاتی ہیں کہ ہدف ملک کو، اموال، اغذیہ، تعلیم اور صحت و کھیل وغیرہ میں کن اشیاء اور کتنی مقدار کی ضرورت ہے۔
ہر شخص کو مرتد بنانے  کا طریقہ مختلف ہو سکتا ہے  مثلاً ایک لادینی شخص کو عیسائیت کے  نام پر حلقہ ارتداد میں انتہائی آسانی کے  ساتھ داخل کیا جاتا ہے  اس کی ترغیبات کے  مطابق اسے  شراب، شباب اور اموال مہیا کر دیئے  جاتے  ہیں جس سے  وہ ان کے  شکنجہ میں آتا جاتا ہے، بالآخر وہ اپنا شکنجۂ اسیری خوب کس دیتے  ہیں، البتہ ایک دیندار شخص کے  لئے  عیسائی مبلغین کے  سامنے  دوآپشن ہوتے  ہیں، وہ مرتد ہو جائے  یا اس کا ایمان کمزور ہو جائے  اور وہ زیادہ گناہوں میں مبتلا ہو جائے، نیز مسلمانوں کو گمراہ یا مرتد کرنے  کے  لئے  عیسائی مبلغین بتدریج ترغیب و تحریص سے  کام لیتے  ہیں۔
  سوال  :ایک مسلمان شخص کو آپ اس کے  دین سے  کیسے  دور کرتے  تھے ؟
  جواب  :اگر ہمارا ٹارگیٹ ایک دیندار شخص ہوتا تو ہم اس کی خواہشات کی طرف دیکھتے، مثلاً شہرت، تعلیمی منصب، صنف نازک وغیرہ تو ہم میں سے  کوئی ایک مبلغ اس سے  اچانک ملاقات کرتا ہے  اور دوران گفتگو اس کے  میلان کی طرف توجہ کرتا ہے، پھر اس کی حسب خواہش مطلوبہ اشیاء و افر مقدار میں فراہم کرتا ہے  بلکہ ہمارا مبلغ اس پر حاوی ہو جاتا ہے  اور وہ اس پر بھروسہ کرنے  لگتا ہے  پھر بتدریج اسے  عیسائیت کی طرف مائل کر لیتا ہے  یا اسلام سے  اسے  دور کر دیتا ہے۔
  سوال  :اگر آپ اپنے  مقاصد میں کامیاب نہیں ہوتے  تھے  تو پھر کیا کرتے  تھے  ؟
  جواب  :جب ہمیں کسی ملک میں اپنے  مقاصد کے  حصول میں ناکامی ہوتی ہے  تو ہم اپنے  طریقے  تبدیل کر لیتے  ہیں مثلاً ہم وہاں کی حکومتوں پر اپنی حکومتوں کے  ذریعہ دباؤڈلواتے  ہیں کیونکہ ممالک یورپ اور چرچ کی تعلیمات کو رواج نہ دیتے  تھے، یا ہم وہاں کی عوام کے  لئے  پیش کردہ خدمات سے  ہاتھ کھینچ لیتے، چونکہ بیشتر مسلمان حکمراں ہماری امداد اور خدمات کے  بغیر جینا محال سمجھتے  ہیں، اس لئے  یہ آخری طریقہ آزمایا جاتا ہے  کہ مذکورہ ممالک پر سیاسی واقتصادی پابندی عائد کرواتے  ہیں، اور وہاں داخلی طور پر فتنہ و فساد اور تخریبی کا روائیاں شروع کر دیتے  ہیں۔
  سوال  :کیا آپ چرچ کے  ذرائع آمدنی کے  متعلق کچھ تفاصیل نذرقارئین کریں گے ؟
  جواب  :یورپی ممالک میں ایک عام قانون ہے  کہ ہر ملازم کی تنخواہ سے  5%فیصد چرچ فنڈ کے  نام پر لازمی طور پر کاٹ لیا جائے  گا۔نیز اکثر اسلامی اور افریقی ممالک میں یورپی سرمایہ کاری در اصل چرچ کی طرف سے  ہوتی ہے  اور ان سب کا منافع چرچ کے  مقاصد پر ہی خرچ ہوتا ہے۔اسی کے  بل بوتے  پر چرچ عیسائیت کی تبلیغ سرانجام دیتا ہے، مثلاً مصری چرچ دس ہزار سے  زائد جنوبی سوڈانی طلبہ کو اسکا لرشپ دیتا ہے  اور ان کی تعلیم و تربیت کی بھر پور نگہداشت کی جاتی ہے  تا کہ وہ تعلیم سے  فارغ ہو کر عیسائیت کے  مبلغ اور بائبل کے  علماء و فقہاء بن سکیں۔
  سوال  :آپ چرچ کی طرف سے  متعدد اہم عہدوں پر فائز رہے  تو آپ ان عہدوں کے  ساتھ کیا سلوک کرتے  تھے ؟
  جواب  :یورپی چرچ کی تنظیمیں ان پر اموال کی بارش کرتیں اور بے  حد و حساب اموال مہیا کرتیں بلکہ ہمارے  عیش و آرام کا یہاں تک خیال رکھا جاتا کہ قیمتی گاڑیاں، خوبصورت عورتیں اور شراب وغیرہ بھی فراہم کی جاتی تا کہ ہم خود بھی مستفید ہوں اور ان لوگوں کو ان کے  ذریعہ ان کے  دین سے  برگشتہ بھی کریں ہمیں عمدہ اور مہنگی رہائشیں ملتیں اور تمام ممالک میں سفر کی سہولت مہیا کی جاتی تا ہم ان سب اشیاء نے  مجھے  کبھی بھی ذہنی سکون نہ پہونچایا، میں محسوس کرتا کہ ہمارے  کرتوت، میری فطرت اور مزاج کے  بالکل خلاف ہیں جس کے  نتیجہ میں میں نہایت رنج والم محسوس کرتا۔
  سوال  :آپ نے  عیش و عشرت کے  سائبان کیسے  ترک کرنا گوارا کئے  اور اسلام کیوں کر قبول کیا اور کیا آپ اس سے  مطمئن ہیں ؟
  جواب  :الحمد للہ میں چرچ سے  ملنے  والی تمام مراعات چھوڑ چکا ہوں، میں ایسا محسوس کرتا ہوں گویا میں نئے  سرے  سے  پیدا ہوا ہوں نفسیاتی طور پر میں نہایت پر سکون ہوں  ۲۰۰۲ء میں میں نے  اسلام قبول کیا، اگر چہ میں اب تنگ دستی کا شکار ہوں، میں نے  ایم اے  کے  مرحلہ تعلیم میں تقابل ادیان کی تحقیق کر کے  اسلام قبول کیا اور درج ذیل نتائج حاصل کئے :
۱)قرآن کے  شروع میں مولف کا نام نہیں ہے، جیسا کہ انا جیل اربعہ کا حال ہے  دلیل یہ ہے  کہ قرآن انسانی کا وش نہیں بلکہ الہامی کتاب ہے۔
۲) قرآن اللہ کا کلام اس لئے  بھی ہے  کہ آدم علیہ السلام سے  لے  کر محمد  ﷺ تک متعدد انبیائے  کرام کی سیرت و کر دار کو اس میں بیان کر دیا گیا ہے۔
۳)سیرت محمد ﷺ سے  تاکید اً یہ ثابت ہوتا ہے  اسلام ہی دین واحد اور عند اللہ مقبول ہے۔
۴)اسلامی تعلیمات کے  عین مطابق تمام انبیاء کرام کی دعوت فقط اسلام تھی، ہر نبی اور رسول کی نبوت و رسالت محدود مدت اور محدود اقوام کے  لئے  ہوتی تھی جب کہ محمد ﷺ کی دعوت و رسالت قیامت تک آنے  والے  سب انسانوں اور جنوں کے  لئے  ہے۔
۵)سابقہ الہامی کتب میں کلام اللہ اور کلام الناس کے  درمیان کوئی حد فاصل نہیں، مثلاً اناجیل میں ہم سب یہی پڑھ سکتے  ہیں کہ یوحنانے  یوں کہا اور بترس نے  یوں کہا، یا فلاں نے  یوں کہا وغیرہ وغیرہ۔
۶)اسلام میں کلام اللہ نہایت واضح ہے  اور رسول اللہ ﷺ کے  اقوال و افعال سنن بھی واضح ہیں، بلکہ (قرآن میں )سیرت محمد  ﷺ محدود مقدار میں ہے  یہ اس بات کی دلیل ہے  کہ اللہ نے  اس کی حفاظت کا ذمہ خود لیا ہے۔
۷) اسلام عدل و انصاف اور سب لوگوں کے  لئے  مساوات کا دین ہے  اور اس میں اپنے  پیرو کا روں کے  لئے  تمام عقائد و نظریات نہایت واضح طور پر پیش کئے  گئے  ہیں۔
۸)اسلام کے  بر عکس عیسائیت میں ایسی متعدد اشیاء ہیں میں جن کی وجہ سے  وقتاً فو قتاً خجالت محسوس کرتا تھا کیوں کہ ان میں تعصب اور نسل پرستی نمایاں ہے  چوں کہ میں سیاہ فام ہوں اس لئے  مجھے  اکثر شرمندہ ہونا پڑتا تھا، کالے  عیسائیوں کی علیحدہ عبادت ہوتی ہے  اور گورے  عیسائی الگ عبادت کرتے  ہیں، امریکی چر چوں میں کسی کا لے  عیسائی کو جرات نہیں ہو سکتی کہ وہ گوروں کے  چرچ میں پاؤں بھی دھر سکے  مثلاً امریکی وزیر خارجہ کولن پاول بھی ہر گز ہرگز یہ جرات نہیں کر سکتا کہ وہ گوروں کے  چرچ میں داخل ہو اور ان سے  ہم کلام ہو۔
لیکن اسلام میں اس طرح کا کوئی امتیاز نہیں جب کوئی بھی مسلمان نماز کے  لئے  پہلی صف میں پہونچ جائے  وہ وہیں نماز پڑھ سکتا ہے  اور شاہ وگدا سب کے  سب اللہ کے  روبرو ہوتے  ہیں اسلام میں یہ بھی عین ممکن ہے  کہ سیاہ فام امام ہو اور گورے  اس کے  مقتدی ہوں یا گورا امام ہو اور دیگر سب لوگ اس کے  مقتدی ہوں اس میں قطعا ًکوئی فرق نہیں۔
  سوال  :آپ کے  قبول اسلام کی خبر چرچ نے  کیسے  ہضم کی ؟
  جواب  :چرچ میں بھونچال آ گیا انہوں نے  مجھے  مرتد کرنے  کے  لئے  تمام ہتھکنڈے  استعمال کئے  میرے  پاس کئی قسم کے  وفود آئے  اور سوڈان کے  اندر اور باہر سے  کبار مسیحی پادری میرے  پاس آتے  رہے  اور ترغیب و تحریص سے  لے  کر مکمل بائیکاٹ کی دھمکیاں بھی مجھے  دی جاتی رہیں اور بیحد و حساب لالچ، مکر و فریب دے  کر آزمایا جاتا رہا، تا ہم اسلام کو میں نے  پوری تحقیق کے  بعد گلے  لگایا تھا اور اللہ تعالیٰ نے  جس کے  لئے  میرا سینہ منور کیا تھا میں اس اسلام پر مزید طاقت ور اور مضبوط ہوتا گیا اور مسیحی زعماء کی کوشش مجھے  راہ حق سے  ہٹا نے  میں ناکام ہو گئی۔جب چرچ مجھ سے  بالکل مایوس ہو گیا تو مجھے  جسمانی طور پر نقصان پہونچا نے  سے  ڈرایا گیا اور اپنے  بعض ایجنٹوں کے  ذریعہ مجھے  اغواکے  بعد قتل کرنے  کی کوشش کی گئی اگر چہ وہ کامیاب نہیں ہوئی تاہم میں اپنے  ساتھیوں کے  بغیر یورپی ممالک کا سفر نہیں کرتا علاوہ ازیں میرا چوں کہ ایک مقام ہے  اس وجہ سے  بھی میرے  مخالفین اپنے  ناپاک ارادوں میں ناکام رہتے  ہیں ایک بار مجھ پر قاتلانہ حملہ ہو ا لیکن میں اللہ کے  فضل سے  محفوظ رہا تب بھی قبیلہ والوں نے  میرا دفاع کیا۔
جب سے  میں نے  اسلام قبول کیا میرا یقین ہے  کہ میں اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں ہوں، نیز مجھے  اسلام لانے  کے  بعد یقین ہو گیا کہ موت عین حق ہے  لہٰذا اس سے  ڈرنے  کی قطعاً ضرورت نہیں، نیز مجھے  یہ بھی معلوم ہو گیا کہ جو اسلام کا دفاع کرتے  ہوئے  مرجاتے  ہیں وہ شہید کہلاتے  ہیں اور اللہ کے  یہاں ان کے  لئے  اجر عظیم ہے، اس کے  برعکس یہودی اور عیسائی جینے  کے  شدید آرزومند ہیں۔
  سوال  :اسلام لانے  کے  بعد آپ نے  اپنے  مستقبل کے  بارے  میں کیا لائحہ عمل تیار کیا ہے  ؟
  جواب  :میں نے  کچھ کتابیں لکھی ہیں، مثلاً میں کیوں مسلمان ہوا؟(۲)اسلام کی وسعت (۳)موجودہ عیسائی خرافات، میں نے  اپنے  آپ کو غیر مسلموں تک اسلام کی دعوت پہونچانے  کے  لئے  وقف کر دیا اور سوڈان میں جس تنظیم کا سربراہ ہوں یعنی سوڈان کی تعمیر و ترقی کے  لئے  اسلامی سرمایہ کاری کی تنظیم، اس میں پوری تند ہی و فعال کا رکن کی حیثیت سے  مگن ہوں۔
  سوال  :آپ کی تصنیف ’میں کیوں مسلمان ہو ا ‘کا مرکزی تصور کیا ہے  ؟
  جواب  :میں نے  اس میں اسلام اور دیگر مذاہب کا موازنہ پیش کیا ہے  اور اسلام کے  علاوہ دیگر ادیان میں موجود نقائص و عیوب واضح کئے  ہیں اور اسلام کے  مضبوط ثبوت جمع کر دئیے  ہیں در حقیقت اسلام میں تقسیم میراث کے  سسٹم نے  مجھے  مبہوت کر دیا ہے  چونکہ یہودیت میں بھی میراث کا تذکرہ ہے  لیکن لوگ اس پر راضی نہیں کیونکہ یہ طریقہ عادلانہ نہیں بلکہ ظالمانہ ہے  جبکہ عیسائیت میں نظام میراث کا وجود سرے  سے  ہی نہیں۔
اسلام نے  نظام میراث کو باریک بینی اور عدالت پر مبنی بنایا ہے  جس کی کوئی پہلے  نظیر نہیں ملتی، حتی کہ میں نے  اپنے  قبیلہ ’’دنکا‘‘میں اسلام کا نظام میراث نافذ کیا تو بیشتر جھگڑے  خود بخود ختم ہو گئے، حالانکہ بنیادی طور پر یہ قبیلہ مسیحی ہے۔
نیز میں نے  اپنی اس کتاب میں زندگی کے  تمام پہلووں پر اسلام کی مکمل رہنمائی کو بھی شامل کیا ہے۔میں نے  یہ واضح کیا ہے  کہ جو شخص اسلام قبول کر لیتا ہے  اور قولاً و فعلاً وہ اسلام پر کاربند ہو جاتا ہے  تو اسلام اسے  کس قدر نفسیاتی اور روحانی بلندی عطا فرماتا ہے  وہ اپنے  اسلام پر فخر محسوس کرتا ہے۔لیکن دیگر ادیان کی تعلیمات رسوم و رواج میں تضادات بے  شمار ہیں، یہ ادیان اس شخص کی ثقافت کو تبدیل نہیں کرتے  جو انہیں قبول کر لیتا ہے  پھر وہ یہ ادیان قبول کر کے  بھی اپنی ہوس گیری کو اسی طرح پوراکرتا ہے۔جس طرح وہ چاہتا ہے  ان لو گوں کے  کسی شخص کے  کر دار میں ناموں کے  علاوہ ادیان کا کوئی کر دار نہیں۔
  سوال  :آپ کے  اسلام لانے  کے  بعد آپ کے  ہاتھ پر کتنے  لوگ مسلمان ہو چکے  ہیں ؟
  جواب  :اللہ کے  فضل سے  اب تک میرے  ہاتھ ڈیڑھ لاکھ افراد مسلمان ہو چکے  ہیں اور الحمد للہ جنوبی سوڈان کے  چرچوں کے  ڈھائی ہزار اہم عہدہ دار بھی نو مسلموں میں شامل ہیں یہ لوگ کو ہ نوبہ اور صوبہ انجمنا سے  تعلق رکھتے  ہیں۔
  سوال  :اتنی بڑی تعداد کو آ پ نے  اسلام کی طرف کیسے  مائل کیا ؟
 جواب  :کسی غیر مسلم کو اسلام کا قائل کرنا نہایت آسان ہے  کیونکہ یہ لوگ خالی الذہن ہوتے  ہیں اسی حقیقت کو سامنے  رکھ کر میں نے  سب کے  لئے  واضح کر دیا کہ اسلام ہی ایک ایسا دین ہے  جس میں کسی قسم کا کوئی شرک نہیں اور اللہ کا پسندیدہ دین یہی ہے۔اللہ تعالیٰ نے  فرمایا:’’بیشک اللہ کے  یہاں دین صرف اسلام ہے ‘‘(سورہ  آل عمران :۱۹)
اسلام سب انسانیت سے  مخاطب ہوتا ہے  یہی ایک ایسا دین ہے  جو زندگی کے  تمام شعبہ جات کی ہر مشکل دور کرتا ہے  میں نے  ہر بڑے  نو مسلم مسیحی کی طرف خط بھی لکھا ہے  ا س میں خاص طور پر یہ واضح کیا ہے  کہ :  (۱)بے  شک اللہ تعالیٰ ایک ہے  اس کا کوئی شریک نہیں اور یہ کہ اللہ تعالیٰ تین کا ایک یا ایک میں تین نہیں۔  (۲) عیسیٰ ابن مریم دیگر انسانوں کی طرح انسان ہیں اور اللہ کے  رسول ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے  ان کی قوم کی طرف مبعوث فرمایا وہ نہ تو الہ ہیں اور نہ ہی اللہ کے  بیٹے  ہیں اور بے  شک عیسیٰ بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہوئے  اور آپ کی رسالت عام نہیں، اور عیسیٰ کو اللہ نے  لوگوں کے  کفارہ کے  لئے  نہیں بھیجا اور پھر عیسیٰ کو اس لئے  اللہ نے  نہیں بلایا کہ وہ اپنے  باپ کے  دائیں طرف بٹھائے۔
  سوال  :کیا آپ کو مسلمانوں کی موجودہ حالت زار نے  اسلام لانے  سے  روکا نہیں ؟  
  جواب  :جب میں نے  اسلام قبول کر لیا تو مسلمانوں کی حالتِ زار دیکھ کر انتہائی رنج و الم میں مبتلا ہو گیا کہ مسلمانوں کے  قبول و فعل میں تضاد ہے  اور مسلمان اسلام کو اپنے  اوپر لاگو نہیں کرتے۔اللہ تعالیٰ نے  قرآن مجید میں ذاتی و اجتماعی زندگی کے  لئے  دو رہنما اصول قرآن کریم اور حدیث نبوی مقرر کر دئے  ہیں لیکن کتنے  افسوس کی بات ہے  کہ مسلمان عملی طور پر دونوں رہنما ذرائع سے  فیصلے  نہیں کرپاتے  جب کہ اسلامی ممالک کے  حکمراں اسلامی نہج کو اہمیت نہیں دیتے، گویا مسلمانوں کی کمزوری کے  دو بنیادی سبب ہیں، ذاتی طور پر اپنے  دین سے  دوری اور حکومتی سطح پر دین کے  ساتھ بے  رغبتی۔اگر اسلامی ممالک کے  عوام اپنے  دین کی تعلیمات پر عمل کریں اور عملی طور پر اسے  اہمیت دیں اور حکمراں اپنی سیاست اور تمام شعبوں میں اسلام کو رہنمابنا لیں تو مسلمانوں کو ماضی کی کھو ئی عظمت اور شان و شوکت واپس مل سکتی ہے۔
٭٭٭


     

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں