پیر، 11 مارچ، 2019

سر بکف کے ایک سال (روداد)

مدیر

یہ ۲۱ ؍رمضان،  ۲۰۱۵ء کی بات ہے۔ سحری کے بعد کا وقت تھا۔  ہم تلاوتِ قرآن کے بعد لیپ ٹاپ پر کوئی تحریر کمپوز کر رہے تھے کہ یکایک ایک خیال آیا۔ خیال اتنا اچھا تھا کہ جیسے جیسے اس پر سوچتے گئے، ہماری دلچسپی بڑھتی گئی۔ اور خیال تو پھر خیال ہے، اس خدشے سے کہ مبادا بھول نہ جائیں، ہم نے اس آئیڈیے کو حسبِ عادت نوٹ کر لیا ۔

فورا ً ہی فیس بک پر عباس خان صاحب سے مکالمے میں گفتگو شروع ہوئی۔ ہم نے کہا کہ فیس بک پر مختلف حلقوں میں احباب کی تحقیقات سامنے آتی رہتی ہیں، کیوں نہ ان تحاریر کو شامل کر کے ایک مجلہ کا آغاز کیا جائے! دورانِ گفتگو پتہ چلا کہ ”اہلِ حق“ پلیٹ فارم سے بھی پہلے ایسی تجاویز سامنے آئی تھیں لیکن اس پر عمل درآمد نہ ہو سکا تھا۔

اور دیکھیں صاحب! کسی بھی تجویز پر عمل درآمد نہ ہو سکنے کا بنیادی سبب یہی ہوتا ہی کہ اسے ٹال دیا جاتا ہے۔ بس، پھر کیا تھا۔ فقیر نے اسی وقت مضمون لکھنا شروع کر دیا، کہ نہ ٹال مٹول ہو گی اور نہ تجویز پر عمل نہ  ہونے کا امکان پیدا ہوگا۔

مجلہ کے نام کا انتخاب بھی بڑا دلچسپ رہا۔ اقبالؔ کی ”بالِ جبریل“ کھولی اور اشعار میں سے الفاظ چن چن کر ڈھیر لگاتے رہے۔ پھر ان ناموں میں سے خود ہی بقیہ کو چھانٹا تو فقط تین یا چار باقی رہ گئے۔ ایک بار پھر ”عوام“ سے مشورہ کرتے ہوئے یہ کچھ نام پیش کر دیے کہ اور مزید کسی نام کی تجویز دینے کے لیے کہا۔ یاد پڑتا ہے کہ ”شمشیر“ اور ”قلم تلوار“ وغیرہ کی طرز کے نام تھے۔ ان ناموں میں سے فقیر پر تقصیر  اور  عباس خان صاحب دونوں کو مشترکہ طور پر وہی نام پسند آیا جسے ہم عموماً سر دھنتے ہوئے ادا کرتے ہیں، یعنی ”سر بکف“۔

ابتدائی خاکے کے طور پر ہم نے ماہنامہ اللہ کی پکار کو سامنے رکھا اور اس کی خاص باتیں نوٹ کیں۔ اسی کی طرز پر زمرہ جات کے ساتھ آیات یا احادیث مع حوالہ درج کیں۔ پہلے شمارے کے لیے مضامین کے حصول کی خاطر باقاعدہ پوسٹ بنائی گئی، جس میں زیادہ تر تبصرے اس متعلق وضاحت کرتے لکھنے پڑے کہ یہ مجلہ کیا ہوگا۔(یقین کریں کئی نے تو ”مجلہ“ اور ”برقی“  کا بھی معنی دریافت کیے اور کئی کئی بار دریافت کیے۔ ہم بھی بتایا کیے کہ صاحب مجلہ ”میگزین“ کو کہتے ہیں اور برقی سے مراد ”آن لائن“ ہے۔)  اور کوئی تعجب کی بات نہیں کہ بہت کم لوگوں نے تحاریر بھیجیں۔ ہم بھی دھن کے پکے تھے، اللہ کا نام لے کر کام شروع کر دیا۔ یوں سر بکف کا آغاز ہوا۔ ہم نے  یہ بھی سوچ رکھا تھا کہ ان شاء اللہ ہر شمارے کے سر ورق پر ایک شعر ایسا شامل کریں گے جس میں ”سر بکف“ آتا ہو۔ اور الحمد للہ اب تک یہ سلسلہ جاری ہے، بلکہ چند اعلانات کے بعد  اب تو شعراء کرام نے سر ورق کے لیے اپنے اشعار بھی پیش کرنا شروع کر دیے ہیں۔

یہاں ایک بات اور بتاتا چلوں۔ پہلا شمارہ شائع ہونے کے کافی بعد ہمیں یہ خیال آیا کہ دو ماہی مجلہ کے مطابق سر بکف ”دسمبر“ کے مہینے ہی میں ختم ہو گا یا نہیں؟ یعنی یہ تو نہیں کہ شمارے ”نومبر، دسمبر کا شمارہ“ کی بجائے  ”دسمبر، جنوری کا شمارہ“ کے نام سے نکلیں۔ یہاں اللہ نے لاج رکھی کہ پہلا شمارہ ”جولائی، اگست“ رہا جو صد فیصد غیر شعوری طور پر ہوا تھا اور یوں یہ مسئلہ نہ ہوا۔

پہلا شمارہ شائع ہوتے ہی سب سے پہلے ہم نے ”سر بکف ۱ “کی فائل بزمِ اردو لائبریری میں شامل کرنے کے لیے مشفق چچا جان اور شاعری میں عاجز کے استاد محترم اعجاز عبید صاحب(حیدر آباد)  طول اللہ عمرہٗ کو ارسال کر دی۔  بزمِ اردو لائبریری اردو یونیکوڈ کتابوں کا وہ ذریعہ ہے جس پر اپنے شماروں کو شامل ہوتا دیکھ کر عاجز کو  بجا طور پر فخر ہے۔ اور صحیح بات تو یہ ہے کہ چچا جان کی جانب سے ملنے والا حوصلہ ہی عاجز کا قیمتی ترین اثاثہ تھا۔ چچا جان وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے مجلہ کو پذیرائی بخشی تھی۔

ایک دن پروجیکٹ یورز ویپ کے فاؤنڈر جناب عاقب انجم عثمانی صاحب نے فون کیا اور ان سے سر بکف کے متعلق گفتگو ہوئی، انہوں نے بخوشی اپنی سائٹ پر سر بکف کے لیے ایک سیکشن مخصوص کر دیا۔ کچھ ہی عرصہ میں دعوت الی اللہ (DawatIlallah.com) کے فاؤنڈر جناب حافظ اویس شیخ صاحب کا گجرات سے فون آیا جس میں انہوں نے اپنی سائٹ کے مختلف مسائل ڈسکس کرنے کے ساتھ ساتھ   از خود سر بکف  کو بہت اشتیاق سے اپنی سائٹ پر شامل کرنے کے بارے میں کہا۔ اندھا کیا چاہے،  دو آنکھیں!

سر بکف کے تیسرے شمارے سے کثیر تعداد میں تحاریر موصول ہونے لگیں۔ یہ اور بات ہے کہ ساری تحاریر شامل نہیں کرتے تھے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ہم ”معیار“ پر سمجھوتا نہیں کر سکتے۔ آپ مجلہ میں کیا شامل کرتے ہیں، وہی اس مجلہ کی پہچان بنتا ہے۔  وہ ”سر بکف ۳ “ہی کی اشاعت تھی جب بفضل تعالیٰ سر بکف مقبولیت کو گویا پر لگ گئے۔ شمارہ ۳ کی اشاعت کے کچھ دنوں بعد ہم نے ”امام گوگل“ سے SarBakafکے بارے میں استفسار کیا۔ واضح رہے کہ  بالکل شروع کے دنوں میں ہم پہلے بھی یہ سوال پوچھ چکے تھے اور اس وقت جواب میں صرف سر بکف  کا فیس بک صفحہ نظر آتا تھا، وہ بھی کوئی چوتھے پانچویں نمبر پر۔ لیکن اس مرتبہ جب گوگل نے جواب دیا تو ہم مارے حیرت کے کرسی پر پہلو بدلنے لگے۔ صفحات پلٹتے گئے اور تقریباً تمام نتائج پر سر بکف کا ”سایہ“ دیکھ کر بے ساختہ زبان سے الحمد للہ نکلا۔ کسی نے اپنی ویب سائٹ پر، کسی نے بلاگ پر، کسی نے ٹوئٹر کے ذریعے، کسی نے فیس بک کے توسط سے، غرض یوں لگ رہا تھا کہ سب ہاتھ بٹا رہے ہوں۔ پتہ نہیں کون اللہ کے بندے تھے جو مجلہ کو دھڑادھڑ پھیلائے جا رہے تھے۔ بلاگ وزٹر  کاؤنٹر کا گراف دیکھا تو اوپر ہی اوپر اٹھتا جا رہا تھا، بلاگ پر ٹریفک ایک ہی دن میں قابلِ دید تھی۔ ہمیں بے ساختہ اپنے اللہ پر پیار آیا کہ جس نے ہماری ٹوٹی پھوٹی محنت کی تشہیر کے لیے یہ غیبی مدد فرمائی تھی۔

اس کے علاوہ بھی کئی پی ڈی ایف ہوسٹنگ  ویب سائٹس پر شمارے ڈالنے کی کوشش کرتے رہے، کہ اصل کام بلاگ ٹریفک بڑھانا نہیں بلکہ مجلہ کا لوگوں تک پہنچانا تھا۔ ویب سائٹ  کے اونر کو بذریعۂ فون  ورنہ بذریعۂ ای میل ان سے مجلہ کو شامل کرنے کی درخواست کرتے رہے جسے تقریباً تمام جگہوں سے شکریہ کے ساتھ قبول کر لیا گیا۔ 
    کئی سائٹس  اور دیگر اداروں سے یہ دوستانہ ”ڈیل“ طے ہو گئی کہ آپ مجلہ میں ہماری سائٹ کا اشتہار دیں اور ہم سر بکف کو اپنی سائٹ پر شامل کریں گے۔ اور ہم اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ اللہ کے یہ مخلص بندے اشتہار کے لیے ہر گز یہ کام نہیں کر رہے۔ ان کے کام کا اجر نہ ہمارے مجلہ میں شامل اشتہارات ہیں اور نہ ہی ہماری تعریف و ستائش! اجر اس ہستی کے ہاتھ میں ہے جس نے بہت کم مقدار پر بھی بہت زیادہ اجر و ثواب کا وعدہ کر رکھا ہے، اور وہی بہترین بدلہ عطا فرمائے گا۔

ایک اور دلچسپ واقعہ بتاتا چلوں۔ آپ کو علم ہوگا کہ کوئی بھی پروڈکٹ اپنی فزیکل شکل پاتے ہی کاپی رائٹڈ ہو جاتا ہے۔ آج کل کاپی رائٹ کی خلاف ورزی بڑی عام سی بات ہو گئی ہے اور حد تو یہ ہے کہ بڑے دھڑلے سے ہو رہی ہے۔  اللہ جانے کہ اس ”گروہ“ کو دوسروں کے کام اپنے نام کرنے کا چسکا کیوں لگا ہوا ہے۔ ادبی تحاریر میں خیانت تو ایک طرف، یہ لوگ دینی مواد کو بھی نہیں چھوڑتے۔ بقیہ کا تو علم نہیں، لیکن دینی تحاریر میں خیانت تو یہ ”مقدس“ گروہ شاید ثواب سمجھ کر کرتا ہوگا۔

خیر! سر بکف کے بلاگ پر ہم نے مجلہ کا متن بھی زمروں کے مطابق ڈال دیا تھا۔ ایک دن یوں ہی بیٹھے بیٹھے محض یہ جانچنے کے لیے کہ کہیں کوئی اور تو بغیر اجازت متن کا استعمال نہیں کر رہا...ہم نے گوگل میں کسی تحریر کا ایک فقرہ(اردو) تلاش کیا۔ سرچ رزلٹ میں فقط ۲ نتائج متوقع تھے۔ ایک تو سر بکف کا آفیشیل بلاگ، اور دوسرا بزمِ اردو لائبریری۔ لیکن تلاش کے نتائج میں موجود تیسرا رزلٹ ہمیں چونکا گیا۔ وزٹ کرنے پر پتہ چلا کہ بالکل ہمارا ہی مجلہ ہے اور اللہ کا شکر کہ تمام تحاریر اصل مصنفین کے نام کے ساتھ ہی درج تھیں۔ اوپر میں ”مدیر“ کے ساتھ ما بدولت کا نام  جگمگا رہا تھا۔ 

ہمیں غصہ بھی آیا کہ اللہ کے بندے اگر شامل کرنے سے قبل ہمیں بھی بتا دیتے تو ہم کون سا انکار کرنے والے تھے، بلکہ خوشی ہی ہوتی۔ چونکہ ہم نے فائل سوائے استاد محترم اعجاز عبید کے کسی کو نہ دی تھی، اس لیے ان سے پوچھا تو انہوں نے سائٹ اونر کا ای میل دے دیا۔   ای میل پر غالباً رابطہ نہ ہو سکا تو بذریعہ ٹوئٹر رابطہ کر کے انہیں ”تنگ“ کیا۔ کچھ دنوں میں مذکورہ سائٹ(Punjund.com) کے  فاؤنڈر جناب وقاص   صاحب کی  ای میل موصول ہوئی اور انہوں نے بتایا کہ اعجاز صاحب نے انہیں اپنی لائبریری سے کتب لینے کی اجازت دی ہوئی ہے، جس میں کوئی تبدیلی نہیں کرتے اور نہ ہی مجلہ کی اصل فائل کسی کو دیتے ہیں۔  اس کے ساتھ ہی انہوں نے ”آفر“ پیش کر دی کہ آپ پسند فرمائیں  تو براہِ راست یہ فائل ہماری ویب سائٹ ”پنجند“ کے لیے دے سکتے ہیں۔ واہ صاحب!   ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا تھا،  بخوشی منظور کر لیا۔
یہ تو ہوئیں اچھی اچھی باتیں!  کچھ دل جلوں کا بھی احوال سن لیجیے۔ مختلف  فورمز وغیرہ پر جب ”سر بکف“ کو پیش کیا تو  جہاں پذیرائی ملی، وہیں کچھ رقیبانِ روسیاہ نے جل کر جوابی نعرہ لگایا، ”سر بریدہ“…بے ساختہ لبوں پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔ کیا کریں صاحب! امت کا مسئلہ ہی یہی ہے کہ جو کچھ اچھا  کرے اسے کرتے نہیں دیکھ سکتی۔ ہم نے بھی جواباً بڑے ادب سے عرض کیا۔ ”بہت شکریہ۔ کیا یہ آپ کی جانب سے مجلہ کے نام کی تجویز تھی؟ اگر ہاں تو معذرت خواہ ہوں۔ مجلہ کا نام پہلے ہی طے کیا جا چکا ہے۔“ 

پھر کیا ہونا تھا، موصوف نے کوئی جواب نہیں دیا۔

دو مرتبہ اکاؤنٹ ہیک کرنے کی کوشش کی بھی  گئی۔  یاد پڑتا ہے کہ ”ممبئی“ سے اکاؤنٹ کھولنے کی کوشش کی گئی تھی اور چونکہ ہم ناگپور(کامٹی) میں ہوتے ہیں تو گوگل نے  بر وقت ہوشیار کر تے ہوئے سرخ رنگ کی روشنائی میں پوچھا کہ صاحب کیا آپ ممبئی میں پہنچ گئے ہیں؟  ہم نے انکار کیا تو کہنے لگے کہ ممبئی سے آپ کے اکاؤنٹ پر ”حملہ شریف“ ہوا ہے اس لیے بہتر ہو گا کہ پاس ورڈ بدل دیں، چنانچہ  ہم نے  پاس ورڈ بدل دیا۔

سر بکف کے اس ایک سالہ سفر میں اگلا اہم سنگِ میل ”سر بکف پبلیکیشنز“ کے زیرِ اہتمام مفت کتابیں ای  پبلش کرانے کا رہا،  جس کے اعلان کے  بعد کئی احباب نے اپنی تصانیف بھیجیں۔ بد قسمتی سے ابھی ان کتابوں پر کام کرنے کے لیے رضا کار آگے نہیں بڑھے ہیں، لیکن جلد یا بدیر اللہ کی ذات سے امید ہے کہ صدقۂ جاریہ سمجھتے ہوئے اس میں بھی احباب اسی طرح تعاون فرمائیں گے جس طرح اب تک فرماتے رہے ہیں۔ رضا کار نہ ہونے کے سبب ”غیر مقلدین کا فرار“ نامی ۵۰ صفحات پر مشتمل  مولانا عبد الرشید صاحب قاسمی سدھارتھ نگری کا رسالہ، سر بکف ۶ کے ساتھ فقیر نے خود ہی تھوڑی کوشش کے ساتھ مکمل کر کے شائع کر دیا۔ یہاں میں مولانا  عبد الرشید صاحب کا (جو مجلسِ مشاورت کے رکن بھی ہیں) بہت شکر گزار ہوں جنہوں نے تشہیر کا سارا بار خود اٹھایا اور ما شاء اللہ رسالے کو خوب پھیلایا۔   ردِّ غیر مقلدیت  ہی کے زمرے میں آپ کی ایک اور کتاب” انوار الحجۃ“ پر فی الوقت کام شروع ہے۔

آخر میں یہ عاجز بے انتہا ممنون ہے مفتی آرزومند سعد صاحب اور مولانا ساجد خان صاحب نقشبندی حفظہما اللہ کا کہ جنہوں نے ہر قدم پر حوصلہ افزائی کی۔ پہلے ہی شمارے سے  مفتی صاحب کی  ایک تحریر” جھوٹے اہلِ حدیث“  قسط وار شائع ہوئی تھی جسے بعد میں مفتی صاحب نے مزید اضافہ کر کے ”سر بکف پبلیکیشنز“ کے تحت شائع کرنے کے لیے ارسال فرمایا ہے۔ مشفقی مولانا ساجد خان صاحب چونکہ رسالہ ”نورِ سنت“ (جو  ردِّ بریلویت پر کراچی سے شائع ہوتا ہے) سے بھی متصل ہیں، اس لیے بہت مفید ٹپس بتائیں کہ کس طرح مجلہ کو مزید مزین کیا جا سکتا ہے۔ وقتاً فوقتاً ان سے عاجز مشورہ لیتا رہتا ہے اور شفقت اور حوصلہ افزائی پر بے اختیار ان دونوں محترم شخصیات کے لیے دعا گو رہتا ہے۔

ایک اور مخلص ساتھی ہیں  جناب عطاء رفیع صاحب(Founder: typo.pk)  ان کا کام بھی  پبلشنگ وغیرہ کا ہی ہے۔ چنانچہ جب بھی ہم نے کسی  ٹیکنیکل مسئلہ کا ذکر کیا ، آپ بہت ہی محبت بھرے انداز میں ہمیشہ تعاون کرتے رہتے ہیں اور  مجلہ کی آرائش کے متعلق مختلف کار آمد مشوروں سے نوازتے رہتے ہیں۔

؏
  کس کس کا نام لوں کہ سبھی بے مثال ہیں

فقط تحدیثِ نعمت کے طور پر یہ چند باتیں اور حالات ذکر کیے ہیں۔ ورنہ ہم کیا ہیں اور ہمارا کام کیا ہے،  یہ ہم بھی جانتے ہیں اور ہمارا رب بھی جانتا ہے۔ کیا خبر ہمارے قلم بہک بھی جائیں  اور ہمیں خبر تک نہ ہو... ہم خود کو علامۂ زمان ہی سمجھتے رہ جائیں!  کیا خبر ہمارا کون سا قدم ربِّ ذوالجلال کو ناراض کر دے جسے ہم قربِ الٰہی کا ذریعہ سمجھتے رہ جائیں۔

اَللّٰہُمَّ احْفَظْنَا مِنْ کُلِّ فِتَنْ۔ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَ مَا بَطَنْ۔

پیارے اللہ! تمام شرور و فتن سے ہماری حفاظت فرما۔  جونہی ہمارا قلم بہکے تو ہمارا قلم خشک کر دے، قدم راہِ اصلی سے منحرف ہوں تو قدم یوں منجمد کر دے کہ وہ اٹھنے سے انکاری ہو جائیں، زبان سے حق کے سوا کوئی بات نکلنے سے پہلے تو  اسے مقفل کر دے۔

ربا! یہ سر بکف یونہی  دمکتا رہے، چمکتا رہے۔

گناہوں کی نحوست سے دل سیاہ ہو چلے ہیں... ایسی رحمت برسا کہ  ہمارے قلوب بھی چمک جائیں... 

تو ہمیں پیارا ہو جائے، ہم تیرے پیارے بن جائیں...

ایسا کر دے مرے مالک کہ وفادار رہوں
میں سدا تیری محبت میں گرفتار رہوں

فقیر شکیبؔ احمد عفی عنہٗ
بروز اتوار، ۱۰:۴۵ بجے صبح


     

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں