پیر، 11 مارچ، 2019

رزق کے لیے اسباب کا اختیار کرنا ضروری ہے (قرآن و حدیث کی روشنی میں)

حافظ محمود احمد﷾(ممبئی، الہند)

قارئین کرام!
 اللہ پاک نے دنیا کو دارالاسباب بنایا ہے اور حصول رزق کو اسباب کے دائرے میں رکھا ہے جیساکہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: 
وَّجَعَلْنَا النَّهَارَ مَعَاشًا 
”یعنی ہم نے دن کو معاش کے لیے بنایا۔“
(پارہ 30، سورہ نباء، آیت: 11) 
"زمین" کے بارے میں ارشاد فرمایا:
وَلَقَدْ مَكَّـنّٰكُمْ فِى الْاَرْضِ ؕوَجَعَلْنَا لَـكُمْ فِيْهَا مَعَايِشَ قَلِيْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ
”اور ہم نے تمہیں زمین میں جگہ دی اور اس میں تمہاری زندگی کا سامان بنا دیا تم بہت کم شکر کرتے ہو۔“ 
(پارہ 8، سورہ اعراف، آیت:10)
اور فرمایا:
 فَاِذَا قُضِيَتِ الصَّلٰوةُ فَانْتَشِرُوْا فِى الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ…الآیۃ
''جب تم نماز ادا کر چکو تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کے دیئے ہوئے فضل (روزی) کو تلاش کرو۔"
 (پارہ 28، سورہ جمعہ، آیت:10)
دوسری جگہ فرمایا:
 وَلَا تَنْسَ نَصِيْبَكَ مِنَ الدُّنْيَا…الآیۃ
"اور دنیا میں تمہارا  جوحصہ ہے اسے نہ بھولو۔"
 (پارہ20، سورہ قصص، آیت:77)
ایک جگہ اور ارشاد فرمایا:
هُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمْ الأَرْضَ ذَلُولاً فَامْشُوا فِي مَنَاكِبِهَا وَكُلُوا مِنْ رِزْقِهِ وَإِلَيْهِ النُّشُورُ 
وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو نرم کر دیا سو تم اس کے راستوں میں چلو پھر اور الله کے رزق میں سے کھاؤ اور اسی کے پاس پھر کر جانا ہے۔"
 (پارہ29، سورہ ملک، آیت:15)
ایک جگہ حضرت داؤد علیہ السلام کے بارے میں تذکرہ کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا:
وَلَقَدْ اٰتَيْنَا دَاوٗدَ مِنَّا فَضْلًا  ؕ  يٰجِبَالُ اَوِّبِيْ مَعَهٗ وَالطَّيْرَ  ۚ  وَاَلَــنَّا لَـهُ الْحَدِيْدَ   اَنِ اعْمَلْ سٰبِغٰتٍ وَّقَدِّرْ فِى السَّرْدِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًـا  ؕ  اِنِّيْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ
اور بے شک ہم نے داؤد کو اپنی طرف سے بزرگی دی تھی اے پہاڑو ان کی تسبیح کی آواز کا جواب دیا کرو اور پرندوں کو تابع کر دیا تھا، اور ہم نے ان کے لیے لوہا نرم کر دیا تھا کہ کشادہ زرہیں بناؤ اور اندازے سے کڑیاں جوڑو اور تم سب نیک کام کرو بے شک میں جو تم کرتے ہو خوب دیکھ رہا ہوں۔" 
(سورہ سباء، آیت: 10، 11)
اور حدیث پاک میں
حضرت ابوہریرہ ضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
 "إن الله عز وجل ينزل الرزق على قدر المؤنة، وينزل الصبر على قدر البلاء". 
"بے شک اللہ بزرگ وبرتر محنت و  مشقت کے بقدر بندہ پر روزی کو نازل کرتے ہیں، اورصبر کو آزمائش کے اعتبار سے اتارتے ہیں۔" 
(اتحاف الخیرہ: ج4، ص181)
حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
 "‏ فيعمل بيديه فينفع نفسه ويتصدق ‏"‏‏
‏ یعنی اپنے ہاتھ سے کام کرے اور اس سے خود کو بھی فائدہ پہنچائے اورصدقہ بھی کرے۔
حضرت زبیر بن عوامؓ سے مروی روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
‏لأن يأخذ أحدكم حبله فيأتي بحزمة الحطب على ظهره فيبيعها فيكف الله بها وجهه ،‏‏‏‏ خير له من أن يسأل الناس أعطوه أو منعوه.
"تم میں سے کوئی بھی اگر (ضرورت مند ہو تو) اپنی رسی لے کر آئے اور لکڑیوں کا گٹھا باندھ کر اپنی پیٹھ پر رکھ کر لائے ۔ اور اسے بیچے ۔ اس طرح اللہ تعالیٰ اس کی عزت کو محفوظ رکھ لے تو یہ اس سے اچھا ہے کہ وہ لوگوں سے سوال کرتا پھرے ‘ اسے وہ دیں یا نہ دیں۔" 
(بخاری)
سنن ابن ماجہ میں ہے:
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ جَائَ إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْأَلُهُ فَقَالَ لَکَ فِي بَيْتِکَ شَيْئٌ قَالَ بَلَی حِلْسٌ نَلْبَسُ بَعْضَهُ وَنَبْسُطُ بَعْضَهُ وَقَدَحٌ نَشْرَبُ فِيهِ الْمَائَ قَالَ ائْتِنِي بِهِمَا قَالَ فَأَتَاهُ بِهِمَا فَأَخَذَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ ثُمَّ قَالَ مَنْ يَشْتَرِي هَذَيْنِ فَقَالَ رَجُلٌ أَنَا آخُذُهُمَا بِدِرْهَمٍ قَالَ مَنْ يَزِيدُ عَلَی دِرْهَمٍ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا قَالَ رَجُلٌ أَنَا آخُذُهُمَا بِدِرْهَمَيْنِ فَأَعْطَاهُمَا إِيَّاهُ وَأَخَذَ الدِّرْهَمَيْنِ فَأَعْطَاهُمَا الْأَنْصَارِيَّ وَقَالَ اشْتَرِ بِأَحَدِهِمَا طَعَامًا فَانْبِذْهُ إِلَی أَهْلِکَ وَاشْتَرِ بِالْآخَرِ قَدُومًا فَأْتِنِي بِهِ فَفَعَلَ فَأَخَذَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَشَدَّ فِيهِ عُودًا بِيَدِهِ وَقَالَ اذْهَبْ فَاحْتَطِبْ وَلَا أَرَاکَ خَمْسَةَ عَشَرَ يَوْمًا فَجَعَلَ يَحْتَطِبُ وَيَبِيعُ فَجَائَ وَقَدْ أَصَابَ عَشْرَةَ دَرَاهِمَ فَقَالَ اشْتَرِ بِبَعْضِهَا طَعَامًا وَبِبَعْضِهَا ثَوْبًا ثُمَّ قَالَ هَذَا خَيْرٌ لَکَ مِنْ أَنْ تَجِيئَ وَالْمَسْأَلَةُ نُکْتَةٌ فِي وَجْهِکَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّ الْمَسْأَلَةَ لَا تَصْلُحُ إِلَّا لِذِي فَقْرٍ مُدْقِعٍ أَوْ لِذِي غُرْمٍ مُفْظِعٍ أَوْ دَمٍ مُوجِعٍ
"حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ ایک انصاری مرد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور سوال کیا۔ آپ نے فرمایا تمہارے گھر میں کچھ ہے؟ عرض کیا ایک ٹاٹ ہے۔ کچھ بچھالیتے ہیں اور کچھ اوڑھ لیتے ہیں اور پانی پینے کا پیالہ ہے۔ فرمایا دونوں لے آؤ۔ وہ دونوں چیزیں لے کر آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں چیزیں اپنے ہاتھوں میں لیں اور فرمایا یہ دو چیزیں کون خریدے گا؟ ایک مرد نے عرض کیا کہ میں دونوں چیزیں ایک درہم میں لیتا ہوں آپ نے دو تین مرتبہ فرمایا کہ ایک درہم سے زائد کون لے گا؟ ایک مرد نے عرض کیا میں دو درہم میں لیتا ہوں تو آپ نے دونوں درہم انصاری کو دئیے اور فرمایا ایک درہم سے کھاناخرید کر گھر دو اور دوسرے سے کلہاڑا خرید کر میرے پاس لے آؤ اس نے ایسا ہی کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کلہاڑا لیا اور اپنے دست مبارک سے اس میں دستہ ٹھونکا اور فرمایا جاؤ لکڑیاں اکٹھی کرو اور پندرہ یوم تک میں تمہیں نہ دیکھوں وہ لکڑیاں چیرتا رہا اور بیچتا رہا پھر وہ حاضر ہوا تو اس کے پاس دس درہم تھے۔ فرمایا کچھ کا کھانا خرید لو اور کچھ سے کپڑا۔ پھر فرمایا کہ خود کمانا تمہارے لئے بہتر ہے بنسبت اس کے کہ تم قیامت کے روز ایسی حالت میں حاضر ہو کہ مانگنے کا داغ تمہارے چہرہ پر ہو مانگنا درست نہیں سوائے اس کے جو انتہائی محتاج ہو یا سخت مقروض ہو یا خون میں گرفتار ہو جو ستائے۔"
ایک دوسری حدیث میں حضرت مقدام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
 ما أكل أحد طعاما قط خيرا من أن يأكل من عمل يده
" کسی انسان نے اس شخص سے بہتر روزی نہیں کھائی ، جو خود اپنے ہاتھوں سے کما کر کھاتا ہے۔"
حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے:
قيل: يا رسول الله، أي الكسب أطيب؟ قال: عمل الرجل بيده وكل بيع مبرور
"یعنی پوچھا گیا کہ اےاللہ  کے رسول (ﷺ)! کونسی کمائی  زیادہ  پاکیزہ ہے؟ فرمایا:
"آدمی اپنے ہاتھ سے کمائے اور ہر نیکی والی تجارت کرے۔"
 (مسند احمد)
ایک حدیث میں حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ:
 فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِذَا سَبَّبَ اللَّهُ لِأَحَدِکُمْ رِزْقًا مِنْ وَجْهٍ فَلَا يَدَعْهُ حَتَّی يَتَغَيَّرَ لَهُ أَوْ يَتَنَکَّرَ لَهُ
بلاشبہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا جب اللہ تعالیٰ تم میں سے کسی کی روزی کا کوئی ذریعہ بنادیں تو اسے نہ چھوڑے یہاں تک کہ وہ بدل جائے یا بگڑ جائے۔" 
(ابن ماجہ)
ایک دوسری حدیث میں حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
 إِنَّ أَطْيَبَ مَا أَکَلْتُمْ مِنْ کَسْبِکُمْ وَإِنَّ أَوْلَادَکُمْ مِنْ کَسْبِکُمْ
"یعنی پاکیزہ ترین چیز جو تم کھاؤ وہ تمہاری اپنی کمائی ہے اور تمہاری اولاد (کی کمائی) بھی تمہاری کمائی ہے۔"
 (ابن ماجہ)
اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
 لا یقعد احدکم عن طلب الرزق و یقول اللھم الرزقنی.
"تم میں سے کوئی رزق کی طلب سے نہ بیٹھے اور کہتا رہے اے اللہ مجھے روزی دے۔" 
(اتحاف السادۃ المتقین بشرح احیاء علوم الدین: ج5، ص417)
معلوم ہوا کہ اسباب  اختیار کرنے کا  حکم خود اللہ اور اسکے رسول  ﷺ نےدیا ہے،لہذا اسباب اختیار کرنا چاہیے۔
اسباب کو حضرات  انبیاء علیہم السلام نے بھی اختیار کیا ہے۔ چنانچہ مسلم شریف میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:
 كَانَ زَكَرِيَّاءُ نَجَّارًا 
"حضرت زکریاعلیہ السلام بڑھئی (کارپینٹرCarpenter) کا کام کرتے تھے۔"
اور بخاری شریف میں ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
 ‏أن داود ـ عليه السلام ـ كان لا يأكل إلا من عمل يده.‏
"حضرت داؤد علیہ السلام نہیں کھاتے تھے  مگر اپنے ہاتھ کی کمائی سے"
بخاری شریف کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
 وإن نبي الله داود ـ عليه السلام ـ كان يأكل من عمل يده.
"حضرت داؤد علیہ السلام  اپنے ہاتھ سے کام کرکے کھایا کرتے تھے۔"
عَنْ عُلَيِّ بْنِ رَبَاحٍ قَالَ سَمِعْتُ عُتْبَةَ بْنَ النُّدَّرِ يَقُولُ کُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَرَأَ طس حَتَّی إِذَا بَلَغَ قِصَّةَ مُوسَی قَالَ إِنَّ مُوسَی صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آجَرَ نَفْسَهُ ثَمَانِيَ سِنِينَ أَوْ عَشْرًا عَلَی عِفَّةِ فَرْجِهِ وَطَعَامِ بَطْنِهِ
"حضرت عتبہ بن ندر فرماتے ہیں کہ ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے آپ نے (سورت ق) کی تلاوت شروع فرمائی جب حضرت موسیٰؑ کے قصہ پر پہنچے تو فرمایا: حضرت موسیٰؑ نے آٹھ یا دس سال اپنے آپ کو مزدوری میں رکھا  اپنی شرم گاہ کی حفاظت پر اور اپنے پیٹ کے کھانے پر"
 (سنن ابن ماجہ)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے رویت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
 ما بعث الله نبيا إلا رعى الغنم ‏"‏‏.‏ فقال أصحابه وأنت فقال ‏"‏ نعم كنت أرعاها على قراريط لأهل مكة‏"‏‏.
"اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسا نبی نہیں بھیجا جس نے بکریاں نہ چَرائی ہوں۔ صحابہؓ نے پوچھا کیا آپ نے بھی بکریاں چرائی ہیں؟ فرمایا کہ ہاں ! کبھی میں بھی مکہ والوں کی بکریاں چند قیراط کی تنخواہ پر چَرایا کرتا تھا۔"
 (بخاری)
حضرات صحابہ کرامؓ، تابعینؒ، تبع تابعینؒ، اکابرین فقہاءؒ ومحدثینؒ اور اولیاء کرامؒ سے بھی مختلف قسم کے پیشے سے زندگی گزارنا ثابت ہے، لہذا اسباب رزق کو اختیار کرنا ضروری ہے، اس کو ترک کرکے وسعت رزق کی خاطر  محض تقدیر پر بھروسہ کرلینا (کہ قسمت میں ہوگا تو ملےگا ورنہ نہیں) یا صرف دعا  اور وضیفوں میں لگ جانا اور اسی پر اکتفاء کرلینا نہ صرف قانون اور ضابطہ کے خلاف ہے بلکہ یہ جہالت ہے۔
  لیکن  یہاں    یہ  بات بھی ذہن نشیں کر لینا ضروری ہےکہ اسباب ہی کو سب کچھ سمجھ لینا بھی درست نہیں ہے اور نہ ہی اس پر اعتماد کرنا صحیح ہے اس لئے کہ اعتماد و بھروسہ ذات خداوندی پر ہونا چاہیے، کیونکہ وہی مسبب الاسباب ہے، اور اسباب کے اندر تاثیر پیدا کرنا اور اسباب کے استعمال سے صحیح نتائج برآمد کرنا اللہ رب العامین ہی کا کام ہے؛ جیساکہ  ذیل کی آیتوں سے معلوم ہوتا ہے:
أَفَرَأَيْتُمْ مَا تُمْنُونَ 
أَأَنْتُمْ تَخْلُقُونَهُ أَمْ نَحْنُ الْخَالِقُونَ 
"بھلا دیکھو (تو) (منی) جو تم ٹپکاتے ہو۔"
"کیا تم اسے پیدا کرتے ہو یا ہم ہی پیدا کرنے والے ہیں۔"
 (پارہ 27، سورہ واقعہ، آیت:58، 59)
نیز فرمایا:
أَفَرَأَيْتُمْ مَا تَحْرُثُونَ 
أَأَنْتُمْ تَزْرَعُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ 
"بھلا دیکھو جو کچھ تم بوتے ہو"
"کیا تم اسے اگاتے ہو یا ہم اگانے والے ہیں۔"
(الواقعہ، آیت:63، 64)
معلوم ہوا کہ اسباب ہی پر توکل و بھروسہ کر لینا صحیح نہیں، بلکہ صحیح راہ یہ  ہے کہ انسان اسباب کو اختیار کرتے ہوئے مسبب الاسباب رب العٰلمین پر توکل و بھروسہ رکھے۔
اللہ پاک صحیح سمجھ کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
از قلم: خاکپائے اکابر اہلسنت و جماعت علمائے دیوبند
حافظ محمود احمد عرف عبدالباری محمود

٭٭٭

     

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں