پیر، 11 مارچ، 2019

غیر مقلدین کے شیخ العرب والعجم ابو محمد بدیع الدین شاہ راشدی کے معتقدین جواب دیں

حافظ محمود احمد﷾
قارئین کرام! غیر مقلدین کے شیخ العرب والعجم ابو محمد بدیع الدین شاہ راشدی صاحب اپنی کتاب "نماز میں خشوع اور عاجزی یعنی سینے پر ہاتھ باندھنا" کے صفحہ 6/ پر لکھتے ہیں :
"جو لوگ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کے عامل اور قائل ہیں ان کے لئے حدیث میں کوئ بھی دلیل یا ثبوت نہیں ملتا۔ بلکہ اس طرح بے ادبی کا اظہار ہوتا ہے۔ "
تبصرہ:
قارئین! بدیع الدین شاہ راشدی صاحب کا یہ دعویٰ کہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کی دلیل حدیث میں نہیں ملتی سو فی صد جھوٹ، مسلک احناف سے عداوت، بد ظنی بلکہ ترک تقلید کا ثمرہ یعنی "انکار حدیث" کا نتیجہ ہے ؛ اسلئےکہ
(1) "مصنف ابن ابی شیبہ" کی روایت ہے : حدثنا وکیع عن موسى بن عمیر عن علقمة بن وائل بن حجر عن ابیہ قال رأیت النبی صلى اللہ علیہ و سلم وضع یمینہ على شمالہ فى الصلوة تحت السرة۔
یعنی حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: میں نے نبی کریم صلی اللہ علی و سلم کو نماز میں اپنے دائیں ہا تھ کو بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھے ہوئے دیکھا۔ 
(2) صحابئ رسول حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے : من السنة فى الصلاة وضع الاکف على الاکف تحت السرة۔ 
یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نماز میں ہتھیلیوں پر ہتھیلیوں کو ناف کے نیچے رکھنا سنت ہے۔ (بدائع الفوائد)
اس حدیث کو علامہ ابن تیمیہؒ کے شاگرد علامہ ابن القیمؒ نے صحیح بتلایا ہے، چنانچہ فرماتے ہیں :
على رضى اللہ عنہ۔ : من السنة فى الصلاة وضع الاکف على الاکف تحت السرة۔ عمروبن مالک، عن ابى الجوزاء، عن ابن عباس مثل تفسیر على، الا انہ غیرصحیح، والصحیح حدیث علی۔ "
یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نماز میں ہتھیلیوں پر ہتھیلیوں کو ناف کے نیچے رکھنا سنت ہے۔ عمرو بن مالک نے ابوالجوزاءؒ کے واسطہ سے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے حضرت علیؓ کی تفسیر کے مانند روایت کیا ہے ؛ مگر یہ صحیح نہیں ہے۔ صحیح حضرت علیؓ کی حدیث ہے ۔(بدائع الفوائد)
(3) امام ترمذیؒ فرماتے ہیں :
حدیث ھُلْب حدیث حَسَن والعمل علی ھٰذا عند اھل العلم من اصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ و سلم والتابعین ومن بعدھم یرون ان یضع الرجل یمینہ علی شمالہ فی الصلوۃ ورأی بعضھم ان یضعھما فوق السرۃ ورأی بعضھم ان یضعھما تحت السرۃ وکل ذٰلک واسع عندھم
(ترمذی، باب وضع الیمین علی الشمال)
یعنی ہلب کی مروی حدیث حسن ہے۔ اوراس پر عمل ہے صحابہؓ و تابعینؒ اور ان کے بعد کے اہل علم کا کہ نماز میں مصلی داہنے ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر باندھے گا اور ان میں سے بعض(صحابہؓ و تابعینؒ اور بعد کے لوگ) قائل ہیں کہ ناف کے اوپر باندھے گا اور بعض قائل ہیں کہ ناف کے نیچے باندھے گا اور یہ سب ان کے نزدیک گنجائش والے ہیں۔
 (ترمذی: جلد1، صفحہ59)
فائدہ:
قارئین! کیا اس سے ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کا ثبوت نہیں ہوتا ہے ؟
کیا صحابئ رسول حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا عمل ناف کے نیچے باندھنے کا نہیں بیان کر رہے ہیں ؟ اگر ہاں تو کیوں ؟
کیا خلیفۂ راشد حضرت علیؓ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کو سنت نہیں بتا رہے ہیں ؟ اگر ہاں تو کیوں ؟
اور اگر بالفرض راشدی صاحب کے موقف کو تسلیم کیا جائے تو درج ذیل سوالات پیدا ہوتے ہیں جنکا اطمینان بخش جواب درکار ہے۔ 
(1) جب بقول بدیع الدین شاہ راشدی نماز میں زیر ناف ہاتھ باندھنے پر کوئی دلیل ہی نہیں، تو امام ترمذیؒ نے صحابہؓ اور تابعینؒ کا صرف دو ہی طرح (یعنی ناف سے اوپر اور ناف سے نیچے ) کا عمل کیوں نقل کیا؟ سینہ پر ہاتھ باندھنے کا عمل کیوں نہیں نقل کیا؟
(2) بقول امام ترمذیؒ بعض صحابہؓ اور تابعینؒ زیرِناف ہاتھ باندھتے تھے، تو زیر ناف ہاتھ باندھنے والے ان صحابہؓ و تابعینؒ نے اس جرم کا ارتکاب کیوں کیا؟
(3) زیر ناف ہاتھ باندھنے والے صحابہؓ و تابعینؒ کیا بے ادب تھے ؟
اگر نہیں تو پھر زیر ناف ہاتھ باندھنے کو بے ادبی قرار دینا چہ معنی دارد؟
(4) جب زیر ناف ہاتھ باندھنا صحیح حدیث و اثر سے ثابت ہے (جیسا کہ ماقبل میں گزرا) تو کیا بدیع الدین شاہ راشدی صاحب نے "بے ادبی" کا لفظ استعمال کر کے ان کی (نبی کریم ﷺ، صحابہؓ و تابعینؒ اور دیگر کی) بے ادبی نہیں کی ہے ؟
سارے سوالوں کا جواب سوچ سمجھ کر دیجئے گا اور ضرور دیجیئے گا۔ 
 از قلم: خاکپائے اکابر اہلسنت و جماعت علمائے دیوبند
حافظ محموداحمد عرف عبد الباری محمود

٭٭٭

     

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں