منظور احمد چنیوٹی
٭جھوٹ نمبر ۵:
’’ احادیث صحیحہ میں آیا تھا کہ مسیح موعود صدی کے سر پر آئے گا اور چودہویں صدی کا مجدد ہوگا۔‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ص ۱۸۸،روحانی خزائن ج۲۱ ص ۳۵۹)
جبکہ کتاب البریہ ص ۱۸۷۔۱۸۸ بر حاشیہ روحانی خزائن ج۱۳ ص۲۰۵۔۲۰۶ کی عبارت یہ ہے:
’’ بہت سے اہل کشف نے خدا تعالیٰ سے الہام پا کر خبر دی تھی کہ وہ مسیح موعود چودہویں صدی کے سر پر ظہور کرے گا اور یہ پیش گوئی اگرچہ قرآن شریف میں صرف اجمالی طور پر پائی جاتی ہے مگر احادیث کی رو سے اس قدر تواتر تک پہنچی ہے کہ جس کا کذب عندالعقل ممتنع ہے ۔‘‘
احادیث جمع کثرت ہے اس لئے کم از کم دس احادیث صحیحہ متواترہ دکھاؤ جن میں مسیح موعود کے چودھویں صدی کے سر پر آنے کے الفاظ وغیرہ موجود ہوں مگر ہمارا دعویٰ ہے کہ مرزائی امت تا قیامت کوئی ایک بھی صحیح حدیث نہیں دکھا سکتی ۔
٭جھوٹ نمبر ۶:
’’ اگر احادیث کے بیان پر اعتبار ہے تو پہلے ان حدیثوں پر عمل کرنا چاہیے جو صحت اور وثوق میں اس حدیث پر کئی درجہ بڑھی ہوئی ہیں مثلاً صحیح بخاری کی وہ حدیثیں جن میں آخری زمانہ میں بعض خلیفوں کی نسبت خبر دی گئی ہے خاص کر وہ خلیفہ جس کی نسبت بخاری میں لکھا ہے کہ آسمان سے اس کیلئے آواز آئے گی کہ:
’’ ھذا خلیفۃ اﷲ المہدی‘‘
اب سوچو کہ یہ حدیث کس پایہ اور مرتبہ کی ہے جو ایسی کتاب میں درج ہے جو اصح الکتب بعد کتاب اﷲ ہے ۔‘‘
(شہادۃ القرآ ن ص ۴۱،روحانی خزائن ص۳۳۷ج۶)
جھوٹ بالکل جھوٹ ! بخاری شریف میں اس قسم کی کوئی حدیث نہیں ۔ ھاتوا برہانکم ان کنتم صادقین ۔
قادیانی عذر:
۱) ا سکے متعلق قادیانی جواب دیتے ہیں کہ یہ حدیث کنزالعمال میں موجود ہے مگر ہمارا سوال یہ ہے کہ بخاری شریف سے دکھاؤ۔ کیونکہ مرزا نے بخاری شریف کا حوالہ دیا ہے۔
۲) بعض دفعہ وہ ہمارے بعض علماء کے اس قسم کے حوالہ جات پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے بھی غلط حوالہ دیا ۔ جواب یہ ہے کہ کیا ان کے غلط حوالہ دینے سے مرزا کی بات سچی بن جائیگی ؟ہر گز نہیں ۔
۳)ہمارے کسی عالم نے بطور استدلال اتنے زور سے غلط حوالہ نہیں دیا، عام حوالہ کا غلط ہو جانا اور بات ہے مگر اتنی تحدی اور زور شور سے حوالہ دینا اور پھر غلط دینا یہ دھوکہ اور فریب ہے ۔
۴) اگر وہ کہیں کہ نسیاناً لکھا گیا تو پھر اس کی معذرت ہونی چاہیے ۔ مرزا صاحب سے اس کی معذرت دکھاؤ اور کوئی سچا نبی نسیان پر قائم رہ نہیں سکتا۔ نسیان کا وقوع اور چیز ہے اس پر استقلال اور چیز ہے ۔
۵) اگر وہ چالاکی سے کہیں کہ مرزا صاحب کی غلطی نہیں بلکہ کاتب کی غلطی ہے تو جواب یہ کہ آگے آئے الفاظ ’’ اصح الکتب بعد کتاب اﷲ ‘‘ وغیرہ اس کی تردید کرتے ہیں ۔
٭جھوٹ نمبر ۷:
’’ تین شہروں کا نام اعزاز کے ساتھ قرآن شریف میں درج کیا گیا ہے ۔ مکہ ، مدینہ اور قادیان ۔‘‘
(ازالہ اوہام بر حاشیہ ص۳۴، روحانی خزائن ص ۱۴۰ ج۳)
٭جھوٹ نمبر ۸:
’’ وقد سبونی بکل سب فمارددت علیہم جوابہم ‘‘
ترجمہ: مجھ کو گالی دی گئی میں نے جواب نہیں دیا۔
(مواہب الرحمن ص۱۸ طبع اول ص۲۰ طبع دوم۔ روحانی خزائن ص۲۳۶ ج۱۹)
یہ بالکل جھوٹ ہے کہ میں نے لوگوں کی گالیوں کا جواب نہیں دیا بلکہ خود مرزا صاحب نے تسلیم کیا ہے کہ میرے سخت الفاظ جوابی طور پر ہیں ابتدا سختی کی مخالفوں کی طرف سے ہے ۔
(کتاب البریۃ دیباچہ ص۱۰، روحانی خزائن ص ۱۱ ج۱۳)
مرزا صاحب کی گالیوں کے چند نمونے
یعنی مرزا کی تہذیب و شرافت
مرزا کی گالیوں کے مطالعہ سے پہلے گالیوں سے متعلق اس کے اپنے چند فتاویٰ لکھے جاتے ہیں جن میں اس نے گالی دینے کی سخت مذمت کی ہے :
۱) ’’ اور کسی کو گالی مت دو گو وہ گالی دیتا ہو۔ ‘‘ (کشتی نوح ج۱۹ ص ۱۱)
۲) ’’ خدا وہ خدا ہے جس نے اپنے رسو ل کو یعنی اس عاجز کو ہدایت اور دین حق اور تہذیب اخلاق کے ساتھ بھیجا۔‘‘
(اربعین ۳ص۳۶ ،روحانی خزائن ج۱۷ص۴۲۶)
۳) ’’ گالیاں اور بد زبانی کرنا طریق شرافت نہیں ہے ۔‘‘
(اربعین ۴ص۵،روحانی خزائن ج۱۷ص۴۷۱)
۴) ؎
’’ گالیاں سن کر دعا دو ، پا کے دکھ آرام دو
کبر کی عادت جو دیکھو ،تم دکھاؤ انکسار ‘‘
(براہین احمدیہ ج۵ص۱۱۴، روحانی خزائن ج۲۱ص۱۴۴)
اب مرزا صاحب کی گالیوں کے چند نمونے ملاحظہ فرما لیں ۔
۱) ’’ تلک کتب ینظر الیہا کل مسلم بعین المحبۃ والمودۃ ویتنفع من معارفہا ویقبلنی ویصدق دعوتی الا ذریۃ البغایا الذین ختم اﷲعلی قلوبہم فہم لا یقبلون ۔ ‘‘
ترجمہ: میری ان کتابوں کو ہر مسلمان محبت کی نظر سے دیکھتا ہے اور ان کے علوم سے فائدہ اٹھاتا ہے اور مجھے قبول کرتا ہے اور میرے دعویٰ کی تصدیق کرتا ہے مگر کنجریوں کی اولاد ،جن کے دلوں پر اﷲ نے مہر لگا دی ہے پس وہ قبول نہیں کرتے ۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام ص ۵۴۷، ۵۴۸،روحانی خزائن ج۵ص۵۴۷،۵۴۸)
۲) مولوی سعد اﷲ لدھیانوی کے متعلق چند اشعار ملاحظہ فرمائیں
ومن اللئام اری رجیلا فاسقا
غولا لعینا نطفۃ السفھاء
ترجمہ: اور لئیموں میں سے ایک فاسق معمولی آدمی کو دیکھتا ہوں کہ ایک شیطان ملعون ہے ، سفیہوں کا نطفہ ہے ۔
شکس خبیث مفسد و مزور
نحس یسمی السعد فی الجہلاء
ترجمہ : یہ بد گو اور خبیث اور مفسد اور جھوٹ کو ملمع کر کے دکھانے والا منحوس ہے جس کا نام جاہلوں نے سعد اﷲ رکھا ہے ۔
آذیتنی خبثا فلست بصادق
ان لم تمت بالخزی یا ابن بغاء
ترجمہ : تو نے اپنی خباثت سے مجھے د کھ دیا ہے پس میں سچا نہیں ہوں گا اگر ذلت کے ساتھ تیری موت نہ ہو اے نسل بد کاراں ۔
(تتمہ حقیقت الوحی ص ۱۴،۱۵، روحانی خزائن ص۴۴۵،۴۴۶ج۲۲۔
انجام آتھم ص۲۸۱،۲۸۲ روحانی خزائن ص۲۸۱،۲۸۲ ج ۱۱)
نوٹ: بغایا ،بغیہ کی جمع ہے جس کا معنی ہے بدکار عورت جیسا کہ قرآن کریم میں ہے :
’ ’وماکانت امک بغیا‘‘ او رباغی جس کا معنی سرکش ہے اس کی جمع بغاۃ ہے ۔
فائدہ: ذریۃ البغایا کا ترجمہ خود مرزا نے خراب عورتوں کی نسل ، بازاری عورتیں اور کنجریوں کا بیٹا کیا ہے ۔
( نور الحق حصہ اول ص۱۲۲، روحانی خزائن ص ۱۶۳ ج ۸، انجام آتھم ج۱۱ ۲۸۲روحانی خزائن ص۲۸۲ ج۱۱ ، خطبہ الہامیہ ص ۱۶ روحانی خزائن ص۴۹ ج۱۶)
۳) ’’ اے بد ذات فرقۂ مولویان تم کب تک حق چھپاؤ گے ، کب وہ وقت آئے گا کہ تم یہودیانہ خصلت چھوڑ و گے اے ظالم مولویو تم پر افسوس کہ تم نے جس بے ایمانی کا پیالہ پیا وہی عوام کالانعام کو بھی پلایا۔‘‘
(انجام آتھم ص۱۹ برحاشیہ روحانی خزائن حاشیہ ص۲۱ ج۱۱)
۴) ’’ مگر کیا یہ لوگ قسم کھا لیں گے ہر گز نہیں کیونکہ یہ جھوٹے ہیں اور کتوں کی طرح جھوٹ کا مردار کھا رہے ہیں ۔‘‘ (ضمیمہ انجام آتھم ص ۰ ۲۵ ، روحانی خزائن ص۳۰۹ج۱۱)
۵) ’’ بعض جاہل اور فقیری سجادہ نشین اور مولویت کے شتر مرغ‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص ۱۸۰، روحانی خزائن ص۳۰۲ج۱۱)
۶) ؎
ان العدا صاروا خنازیر الفلا
ونسائھم من دونھن الا کلب
ترجمہ : دشمن ہمارے بیابانوں کے خنزیر ہو گئے اور ان کی عورتیں کتیوں سے بڑھ گئی ہیں۔
(نجم الہدیٰ ص ۵۳، روحانی خزائن ج ۱۴ ص۵۳)
یعنی میرے مخالف جنگلوں کے سؤر ہیں اور ان کی عورتیں کتیوں سے بڑھ کر ہیں ۔
٭ تنبیہ ٭
مرزائی اگر مرزا قادیانی کے جھوٹوں کے جواب میں یہ کہیں کہ العیاذباﷲ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی تین جھوٹ بولے تھے جیسا کہ بخاری شریف میں ہے تو مرزا صاحب کے جھوٹ بھی اسی طرح کے ہیں تو اس کے دو جواب ہیں :
۱)جو جھوٹ ہم نے مرزا قادیانی کے پیش کئے ہیں وہ واقعتاً جھوٹ ہیں جبکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا کلام تو توریہ اور تعریض کے طور پر ہے وہ حقیقت میں جھوٹ ہےہی نہیں، سمجھنے والوں کی غلطی ہے۔ ورنہ تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو کلام کیا ہے وہ مبنی بر حقیقت ہے جیسا کہ شراح حدیث نے اسکی وضاحت کر دی ۔
۲)مرزا قادیانی نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی نسبت اس روایت کی رو سے جھوٹ کا الزام لگانے والوں کو خبیث شیطان پلید مادہ والا کہا ہے اس نے لکھا :
’’ حضرت ابراہیم کی نسبت یہ تحریر شائع کرے کہ مجھے جس قدر ان پر بد گمانی ہے اس کی وجہ ان کی دروغ گوئی ہے تو ایسے خبیث کی نسبت اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ اس کی فطرت ان پاک لوگوں کی فطرت سے مغائر پڑی ہوئی ہے اور شیطان کی فطرت کے موافق اس کا پلید مادہ اور خمیر ہے ۔‘‘
( مرزا کی کتاب آئینہ کمالات اسلام ص۵۹۸روحانی خزائن ج۵ص۵۹۸)
(دوسری دلیل )
جھوٹی پیش گوئیاں
اس بحث سے قبل خود مرزا صاحب ہی کے قلم سے لکھے ہوئی چند ایک اصول ملاحظہ فرمائیں :
اصول نمبر ۱:
’’ بد خیال لوگوں کو واضح ہو کہ ہمارا صدق و کذب جانچنے کیلئے ہماری پیش گوئی سے بڑھ کر اور کوئی محکم امتحان نہیں ۔ ‘‘
(آئینہ کمالات اسلام ص ۲۸۸ ،روحانی خزائن ص ۲۸۸ ج۵)
اصول نمبر ۲:
علاوہ اس کے جن پیش گوئیوں کو مخالف کے سامنے دعویٰ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے وہ ایک خاص طور کی روشنی اور ہدایت اپنے اندر رکھتی ہیں اور ملہم لوگ حضرت احدیت میں خاص طور پر توجہ کر کے ان کا زیادہ تر انکشاف کرا لیتے ہیں ۔
(ازالہ اوہام ص۴۰۴،روحانی خزائن ص۳۰۹ ج۳)
ان دو اصولو ں کے بعد ہم کہتے ہیں کہ کوئی ایک پیش گوئی مرزا صاحب کی پیش کرو جس کو دشمن کے سامنے بطور دعویٰ پیش کیا ہو اور پھر وہ پوری ہوئی ہو۔
ہمارا دعویٰ ہے کہ وہ ایک دعویٰ میں بھی سچا نہ ہوا اور بقول اپنے رسوا اور ذلیل ہوا چنانچہ تریاق القلوب ص۲۵۴ روحانی خزائن ص۳۸۲ ج۱۵ پر لکھا ہے :
’’ اور باوجود میرے اس اقرار کے یہ بات بھی ظاہر ہے کہ کسی انسان کا اپنی پیش گوئی میں جھوٹا نکلنا خود تمام رسوائیوں سے بڑھ کر رسوائی ہے ۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ اس کی رسوائی کیلئے یہی کافی ہے کہ وہ کسی ایک پیش گوئی میں جھوٹا ثابت ہو جائے بفرض محال اس کی کچھ پیش گوئیاں سچی بھی نکلیں تو وہ اس کے دعویٰ کی صداقت کی دلیل نہیں بن سکتیں ایسے تو بہت سے مُنَجِّموں کی پیش گوئیاں بھی سچی نکلتی رہتی ہیں ہاں کسی ایک پیش گوئی کا جھوٹا نکلنا اس کے کاذب ہونے کی صریح دلیل ہے ۔
(نوٹ) مرزا صاحب کی جھوٹی پیش گوئیاں بیان کرنے سے قبل قرآن مجید کی یہ آیت بار بار پڑھنی چاہیے :
’’ فلا تحسبن اﷲ مخلف وعدہ رسلہ ان اﷲ عزیز ذوانتقام‘‘
یعنی خدا تعالیٰ کو اپنے رسولوں کے ساتھ وعدہ خلافی کرنے والا گمان نہ کر ، اﷲ غالب اور انتقام لینے والا ہے ۔
پہلی جھوٹی پیش گوئی عبداﷲ آتھم کے متعلق:
’’ اور آج رات مجھ پر کھلا ہے وہ یہ کہ جب میں نے بہت تضرع سے جناب الٰہی میں دعا کی تو اس امر میں فیصلہ کر اور ہم عاجز بندے ہیں تیرے فیصلے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے اس نے مجھے یہ نشان بشارت کے طور پر دیا ہے کہ اس بحث میں دونوں فریقوں میں سے جو فریق عمداً جھوٹ کو اختیار کر رہا ہے اور سچے خدا کو چھوڑ رہا ہے اور عاجز انسان کو خدا بنا رہا ہے وہ انہی دنوں مباحثہ کے لحاظ سے یعنی فی دن ایک ماہ سے لیکر پندرہ ماہ تک ہاویہ میں گرایا جائے گا اور اس کو سخت ذلت پہنچے گی بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے اور جو شخص سچ پر ہے اور سچے خدا کو مانتا ہے اس کی اس سے عزت ظاہر ہوگی اور اس وقت جو پیش گوئی ظہور میں آئے گی بعض اندھے سجا کھے کیے جائیں گے اور بعض لنگڑے چلنے لگیں گے اور بعض بہرے سننے لگیں گے اس طرح اﷲ تعالیٰ نے جو ارادہ فرمایا ہے سو الحمد ﷲ والمنہ کہ اگر یہ پیش گوئی اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ظہور نہ فرمائی تو ہمارے یہ پندرہ دن ضائع گئے تھے۔
میں اس وقت اقرار کرتا ہوں اگر یہ پیش گوئی جھوٹی نکلی یعنی وہ فریق جو خدا تعالیٰ کے نزدیک جھوٹ پر ہے وہ پندرہ ماہ کے عرصہ میں آج کی تاریخ سے سزائے موت ہاویہ میں نہ پڑے تو میں ہر ایک سزا اٹھانے کیلئے تیار ہوں مجھ کو ذلیل کیا جائے ، روسیاہ کیا جائے ، میرے گلے میں رسہ ڈال دیا جائے مجھ کو پھانسی دی جائے ہر ایک بات کیلئے تیار ہوں اور میں اﷲ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ وہ ضرور ایسا ہی کرے گا ضرور کرے گا ضرور کرے گا زمین و آسمان ٹل جائیں ، پر اس کی باتیں نہ ٹلیں اگر میں جھوٹا ہوں تو میرے لئے سولی تیار رکھو اور تمام شیطانوں ، بدکاروں او ر لعینوں سے مجھے زیادہ لعنتی قرار دو۔‘‘
(جنگ مقدس ص۲۰۹تا ۲۱۱ ، روحانی خزائن ص۲۹۱ تا ۲۹۳ ج۶)
مرزا صاحب کی یہ پیش گوئی عبد اﷲ آتھم پادری کے متعلق ہے ۔ مرزا نے اس سے ۱۸۹۳ء میں مناظرہ کیا ۔پندرہ دن برابر مناظرہ ہوتا رہا نتیجہ یہ ہوا کہ مرزا شکست کھا گیا پھر گھر آ کر بتاریخ ۵ جون ۱۸۹۳ء اس کے متعلق یہ پیش گوئی گھڑ دی کہ وہ جتنے دن مناظرہ ہوتا رہا اتنے ماہ کے اندر اندر ہلاک ہوگا اگر ہلاک نہ ہوا تو میں جھوٹا ہوں گا ۔اس نے پندرہ ماہ خوب احتیاط سے گذارے اپنا کھانا وغیرہ خود پکاتا تھا ،آخر کار پندرہ ماہ ۵ ستمبر ۱۸۹۴ء کو مکمل ہوئے مگر آتھم پادری نہ مرا۔
اس کے بعد عیسائیوں نے بٹالہ کے مقام پر عبد اﷲ آتھم کو ہاتھی پر سوار کر کے ایک عظیم الشان جلوس نکالا ۔مرزا غلام احمد قادیانی کا پتلا بنا کر اس کا منہ کالا کر کے اس کے گلے میں رسہ ڈال کر اس کو پھانسی دی پھر جلا کر دفن کیا۔
اب ہم مرزا ئیوں سے سوال کرتے ہیں کہ کیا یہ پیش گوئی پوری ہوئی اور پندرہ ماہ کے اندر عبد اﷲ آتھم ہلاک ہوا ؟؟؟ ہر گز ایسا نہیں ہوا، اور مرزا اپنی اس پیش گوئی میں دوسری پیش گوئیوں کی طرح ذلیل و رسوا ہوئے ۔ واضح رہے کہ عبد اﷲ آتھم کا انتقال ۲۷ مئی۱۸۹۶ء کو ہوا جبکہ مرزا کی پیش گوئی کی مدت گذر چکی تھی ۔
(نزول المسیح ص۱۶۸،روحانی خزائن ج۱۸ص۵۴۶)
مرزائی عذر:
’’عبد اﷲ آتھم نے اس مجلس میں ساٹھ ستر آدمیوں کے سامنے جناب نبی اکرم ﷺ کو دجال کہنے سے رجوع کر لیا تھا۔‘‘
(خلاصہ عبارت حاشیہ حقیقت الوحی ص۲۰۷،روحانی خزائن ص ۲۱۶ج۲۲)
جواب نمبر۱:
اگر اسی وقت اس نے رجوع کر لیا تھا تو مرزا کو اسی وقت اسی مجلس میں اعلان کرنا چاہیے تھا کہ چونکہ اس نے رجوع کر لیا ہے لہذا میری پیش گوئی میں کوئی حرج نہیں آئے گا بلکہ میری پیش گوئی پوری ہو گئی حالانکہ مرزا صاحب کو بعد میں بھی یقین نہیں تھا کہ یہ پیش گوئی پوری ہو گئی یا نہیں ۔ اسی لئے تو مرزا صاحب نے اسکی ہلاکت کیلئے وظائف و دعائیں کیں اور واویلا کیا وغیرذلک ۔چنانچہ دیکھئے سیرۃ المہدی حصہ اول ص۱۷۸ و حصہ دوم ص ۱۲۱ حدیث نمبر ۱۶۰:
’’ بسم اﷲ الرحمن الرحیم بیان کیا مجھ سے میاں عبد اﷲ صاحب سنوری نے کہ جب آتھم کی میعاد میں صرف ایک دن باقی رہ گیا تو حضرت مسیح علیہ السلام نے مجھے اور میاں حامد علی مرحوم سے فرمایا کہ اتنے چنے (تعداد یا د نہیں رہی کہ کتنے چنے آپ نے بتائے) لے لو اور ان پر فلاں سورت کا وظیفہ اتنی تعداد میں پڑھو (مجھے وظیفہ کی تعداد بھی یاد نہیں رہی )میاں عبد اﷲ بیان کرتے ہیں کہ مجھے وہ سورت یاد نہیں مگر مجھے اتنا یاد ہے کہ کوئی چھوٹی سی سورت تھی جیسے الم تر کیف ……الخ ۔ اور ہم نے یہ وظیفہ تقریباً ساری رات صرف کر کے ختم کیا۔‘‘
جواب نمبر۲:
مرزا بشیر الدین محمود اس اعتراض کے جواب میں کہ تیری دعائیں قبول نہیں ہوئیں لکھتا ہے کہ حضرت صاحب کی بھی قبول نہیں ہوئی تھیں۔ چنانچہ دیکھئے الفضل ۲۰ جولائی ۱۹۰۴ء :
’’ آتھم کے متعلق پیش گوئی کے وقت جماعت کی جو حالت تھی وہ ہم سے مخفی نہیں ۔ میں اس وقت چھوٹا سا بچہ تھا اور میری عمر کوئی ساڑھے پانچ برس کی تھی مگر وہ نظارہ مجھے خوب یاد ہے کہ جب آتھم کی پیش گوئی کا آخری دن آیا تو کتنے کرب و اضطرار سے دعائیں کی گئیں میں نے محرم کا ماتم بھی اتنا سخت نہیں دیکھا ، حضرت مسیح موعود ایک طرف دعا میں مشغول تھے……الخ۔‘‘
مرزائی عذر نمبر۲:
فریق سے مراد صرف عبدا ﷲ آتھم نہیں بلکہ تمام عیسائی ہیں جیسا کہ مرزا نے انوار الاسلام ص ۲ روحانی خزائن ص۲ ج۹ میں لکھا ہے ۔
جواب:
مرزا صاحب نے خود مقدمہ میں تسلیم کیا ہے کہ فریق سے مراد صرف عبد اﷲ آتھم ہے ، دیکھئے کتاب البریہ ص۱۷۳ روحانی خزائن ص۲۰۶ ج۱۳ :
’’ عبد اﷲ آتھم کے متعلق ہم نے شرطیہ پیش گوئی کی تھی کہ اگر رجوع بحق نہ کرے گا تو مر جائے گا۔‘‘ (عبد اﷲ آتھم کی درخواست پر پیش گوئی صرف اس کے واسطے کی تھی کل متعلقین مباحثہ کی بابت بحث نہ تھی)
مرزائی عذر نمبر ۳:
’’عبد اﷲ آتھم اس لئے نہیں مرا کہ وہ اندر سے مسلمان ہو گیا ……اگر وہ خوف زدہ نہیں ہوا اور رجوع بحق نہیں ہوا تھا تو مباہلہ کرے اور قسم اٹھائے ‘‘ (روحانی خزائن ج۱۳ ص ۱۹۶)
الجواب:
اگر عبد اﷲ آتھم نے رجوع کر لیا تھا تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ رجوع پندرہ ماہ کے اندر کیا تھا یا بعد میں ؟؟ اگر مدت کے اندر کیا تھا تو مرزا صاحب نے اعلان کیوں نہیں کیا تھا اگر پندرہ ماہ کے بعد رجوع کیا تھا تو اس کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اسے تو پندرہ ماہ کے اندر مرنا تھا ۔ نیز اگر رجوع کر لیا تھا تو چنے کے دانے کیوں پڑھائے ، دعائیں کیوں کیں ، اور عیسائیوں نے فتح کا اتنا بھرپو ر جشن کیوں منایا تھا۔ رہی بات قسم کا نہ اٹھانا تو وہ اس لئے قسم نہیں اٹھا سکتا تھا کیونکہ عیسائی مذہب میں ہر قسم کی قَسم ناجائز ہے دیکھئے انجیل متی باب ۵ص۸،آیت نمبر ۳۴،۳۵ :
’’ پھر تم سن چکے ہو کہ اگلوں سے کہا گیا تھا کہ تم جھوٹی قسمیں نہ کھانا بلکہ اپنی قسمیں خداوند کیلئے پور ی کرنا لیکن میں تم سے کہتا ہوں کہ بالکل قسم نہ کھانا نہ تو آسمان کی کیونکہ وہ خدا کا تخت ہے ، نہ زمین کی کیونکہ وہ اس کے پاؤں کی چوکی ہے نہ یروشلم کی کیونکہ وہ بزرگ بادشاہ کا شہر ہے نہ اپنے سر کی قسم کھانا کیونکہ تو ایک بال کو بھی سفید یا کالا نہیں کر سکتا بلکہ تمہارا بھرم ہاں ہاں یا نہیں نہیں ہو کیونکہ جو اس سے زیادہ ہے وہ بدی ہے ۔‘‘
علاوہ ازیں خود مرزا صاحب کو بھی اس حقیقت سے مفر نہیں کہ مذہب عیسائیت میں ہر قِسم کی قسم کی ممانعت ہے چنانچہ خود مرزا صاحب ا س حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’ قرآن تمہیں انجیل کی طرح نہیں کہتا کہ ہر گز قسم نہ کھاؤ بلکہ بے ہودہ قسموں سے تمہیں روکتا ہے ۔‘‘ (کشتی نوح ص۲۷ روحانی خزائن ص۲۹ ج ۱۹) معلوم ہوا عبد اﷲ آتھم کا قسم سے انکار اپنے مذہب کی بنا پر تھا ۔جیسا کہ مرزا کا سؤر خوری سے انکار اپنے مذہب کی بنا پر تھا۔ (کتاب البریہ ص۱۶۳ ، روحانی خزائن ج۱۳ ص۱۹۶)
مرزا نے اشتہار جاری کئے کہ اگر وہ خوف زدہ نہیں ہوا اور رجوع بحق نہیں ہوا تو مباہلہ کرے اور قسم اٹھائے عبد اﷲ آتھم نے قسم اٹھانے سے انکار کیا کہ مسیحی مذہب میں قسم کھانا منع ہے تب ہم نے اس اشتہار حرف ’ Q‘جاری کیا تھا کہ مرز اخو ک (خنزیر)کا گوشت کھا کر ثابت کرے کہ وہ مسلمان ہے کیونکہ اور مسلمان اس کو مسلمان نہیں مانتے تب عبد اﷲ آتھم کو یہ کہنا اس کے برابر ہوگا۔
(جاری ہے...)
0 تبصرے:
ایک تبصرہ شائع کریں